سزائے موت کے خلاف پرویز مشرف کی نظر ثانی کی
درخواست اعتراضات لگاکر واپس
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے خصوصی عدالت سے سزائے موت کے خلاف جنرل
پرویز مشرف کی درخواست اعتراض لگاکر واپس کردی۔ رجسٹر ار کا کہنا ہے کہ پاک فوج
کے سابق سربراہ آرٹیکل چھ کے تحت سزا
یافتہ مجرم ہیں اور انہیں اپیل دائر کرنے سےپہلے گرفتاری
دینا ہو گی۔ رجسٹرا ر نے اپنے اعتراض میں کہا کہ سپریم کورٹ کے طے شدہ قواعد و
ضوابط کے مطابق مجرم کی درخواست کو اسکی سپردگی سے قبل نہیں سنا جا سکتا
جنرل صاحب کو اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لئے
ایک ماہ کا وقت دیا گیاہے۔65 صفحات پر مشتمل یہ درخواست پرویز
مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دو دن
قبل سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ
·
خصوصی عدالت نے یہ فیصلہ پرویز
مشرف کی عدم موجودگی میں سنایا
·
انہیں کوئی وکیل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور غیر حاضری میں ہی ٹرائل کیا
گیا۔
·
درخواست گزار خصوصی عدالت کے فیصلے
سے مطمئن نہیں اور انہیں بیان ریکارڈ کرانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
چنانچہ
·
اپیل کا فیصلہ سنائے جانے تک خصوصی عدالت کا فیصلہ معطل
کردیا جائے اور
·
علالت کے باعث جنرل صاحب کوحاضری سے استثنٰی دیا جائے
وائس آف
امریکہ کے مطابق ، سلمان صفدر نے اعتراضات
کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر معمولی بات نہیں۔اعتراضات خلاف 30 کے اندر ایک مدلل درخواست دائر کردی
جائیگی
17دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت دستورِ
پاکستان سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف
کو سزائے موت سنائی تھی۔ فیصلے میں عدالت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدائت کی
گئی تھی کہ وہ مجرم کو گرفتار کرکے سزائے موت پر عمل درآمد یقینی بنائیں ۔
استغاثہ کے مطابق پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے نومبر 2007 کو ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کرکے آئین جزوی
طور پرمعطل کردیا اور قاضی القضاۃ افتخار محمد چوہدری سمیت اعلی9ٰ عدالتوں کے 60 ججوں کوانکے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا
تھا۔
اس مقدمے کا دورانیہ چھ سال سے زائدتھا اور ملزم (اب مجرم) صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوا جسکے بعد وہ ملک سے فرارہو گئے۔
13
جنوری کو لاہور ہائیکورٹ کے ایک تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے مقدمے کیلئے قائم
ہونے والی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قراردے دیا تھا
No comments:
Post a Comment