Thursday, April 9, 2020

نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوزنرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز


نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
کرونا وائرس سے جہاں دنیا کے کروڑوں انسانوں کی زندگی داو پر لگی ہے وہیں یہ غیر مرئی جرثومہ اسباب زندگی کو بھی تیزی سے چاٹ رہا ہے۔سارے جہان کی معیشت کا پہیہ جام اور زمینی، آبی و فضائی شاہراہیں ویران ہیں۔کرونا وائرس کے خوف سےاربوں انسان اپنےگھروں میں بند ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قیامت کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایاہے کہ اس روز 'دودھ پلانے والیاں اپنے شیرخواروں کا بھول جائینگی'۔ یورپ اور امریکہ میں قیامت صغریٰ کا ایسا ہی منظر ہے کہ اپنے پیاروں کی تیمارداری تو دورکی بات، وائرس چمٹ جانے کے خوف سے  ماں اپنے اکلوتے بیٹے کے آخری دیدار سے بھی گریزاں ہے اور  لاشیں  بلا تجہیزوتکفین دفن کی جارہی ہیں۔اللہ امریکہ و یورپ میں مصروف عمل مسلمان ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بہترین اجر دے جو شہید ہونے والے مسلمانوں کی میتوں کو پلاسٹک کے بیگ میں ڈالنے سے پہلے علامتی تیمم کراکے وہیں مردہ خانوں میں نماز جنازہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے تھائی لیند میں مسلمانوں کے احتجاج اور اقوام متحدہ کے اعتراض کے باوجود دوسری لاشوٓں کی طرح مسلمان میتوں کو بھی نذر آتش کیا جارہاہے۔ صدر ٹرمپ سمیت امریکہ کا نسل پرست طبقہ آسمانی  آفت کے اس موقعہ کو بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کررہا ہے۔امریکہ کے سرجن جنرل ایڈمرل جیروم آدم اپنی ہر بریفنگ اور اخباری کانفرنس میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی تباہی کو 9/11سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اسکی تشریح کرتے ہوئے قدامت پسند تجزیہ نگار  'ازلامک ٹیررازم' کا تڑکہ لگاکر اس خوفناک واقعہ اور اس میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کے اس مہمل کورس کی گردان  شروع کردیتے ہیں جو دودہائیوں سے جاری ہے۔ 
ساری دنیا میں لاک ڈاون کی وجہ سے کارخانوں اور کاروں کے پہییے جام، دوکانیں بند اور دفاتر مقفل ہیں جسکی وجہ سے خام تیل کی کھپت نہ ہونے کے برابر ہے۔ قیمتیں پہلے ہی دباو کا شکار تھیں کرونا وائرس نے تیل کی رہی سہی تجارت کا بھی دیوالیہ نکال دیا۔ جرثومے کے حملے سے پہلے دنیا میں تیل کی طلب کا تخمینہ 10 کروڑ بیرل یومیہ تھا جو اس آفت کے بعد کم ہوکر 6 کروڑ روزانہ رہ گئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حالات کے معمول پر آجانے کے بعد بھی کم از کم ایک سال تک  تیل کی مانگ گزشتہ برس  کے مقابلے میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ بیرل  یومیہ کم رہیگی۔
 قیمتوں کی گراوٹ کے باوجود اوپیک ممالک، روس اور امریکہ نے پیداوار کا حجم برقرار رکھا۔ امریکی تیل  مقامی سطح پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں سخت لاک ڈاون مارچ کے وسط سے شروع ہوا اسلئے سلیٹی (Shale)چٹانوں سے کشید ہونے والا  تیل کم قیمت پر ہی سہی لیکن فروخت ہوتا رہا۔ چین جنوری کے آغاز سے ہی آفت کا شکار ہواجوسعودی تیل کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ چینی معیشت کے معطل ہونے سے جاپان، جنوبی کوریا اور ہندوستان کی منڈیاں بھی سست ہونا شروع ہوگیئں۔ جاپان اور جنوبی کوریا نے کرونا وائرس کے پھیلاو کووکنے کیلئے اپنے ملکوں کی سرحدیں بند کردیں اور سعودیوں کے ان دو بڑے گاہکوں نے بھی تیل کی درآمد بہت کم کردی۔
فروری کے اختتام پر چین میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے تو امید بندھی کہ اب گلشن کا کاروبار دوبارہ شروع ہوگا لیکن اسی دوران ارامکو کے شعبہ مارکیٹنگ میں انکشاف ہوا کہ روس بہت ہی رعائتی قیمت پر خام تیل چین کو پیش کررہا ہے اور سودے کو مزید پرکشش بنانے کیلئے قیمت چینی کرنسی میں قبول کرنے کو تیار ہے۔ سعودی عرب کیلئے یہ خطرے کی گھنٹی تھی کہ دنیا کو درپیش بدترین کساد بازاری کے تناظر میں چینی منڈی سے بیدخلی کے بعد ارامکو کو تالہ لگنے کی نوبت آسکتی تھی۔
اس تشویشناک خبر پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBSنے روسی صدر پوٹن کو فون کیا لیکن بات نہ بن سکی اور ارامکو نے تیل کی قیمت کم کرنے کیلئے پیداوار میں  بھاری اضافے کا اعلان کردیا۔ 8 مارچ کو کمپنی کے مرکز ظہران میں اعلیٰ حکام نے انکشاف کیا کہ حکومت نے تیل کی پیداوار 85 لاکھ بیرل یومیہ سے بڑھا کر ایک کروڑ 20 لاکھ بیرل روزانہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ خبربھی آئی کہ قیمتوں کی خوفناک جنگ چھیڑنے کا حکم براہ راست  MBSنے دیا ہےجو  فون پر گفتگو کے دوران روس کی جانب سے تیل کی پیداوارمیں کٹوتی سے صاف انکار اور صدر پوٹن کی سردمہری پر سخت غصے میں تھے۔
اس وقت تک کرونا وائرس کی  وبا یورپ پہنچ چکی تھی۔ اٹلی، فرانس اور جرمنی میں مکمل لاک ٖ ڈاون تھااور یورپ و امریکہ کے بازار ہائے حصص شدید مندی بلکہ ویرانی کا منظر پیش کررہے تھے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب کے اعلان سے قیمتیں تیرکی طرح نیچے آئیں اور تیل  20 ڈالر فی بیرل بکنے لگا۔لاک ڈاو ن کی وجہ امریکہ کے کارخانے، بازار  اور کاروبارپہلے ہی ٹھپ تھے، اس خبر نے تو یوں سمجھئے کہ امریکی تیل کی صنعت کا جنازہ ہی نکال دیا کہ یہاں خام تیل کی پیداواری لاگت ہی 38 ڈالر فی بیرل ہے اور بازار میں یہ اس سے آدھی قیمت پر دستیاب تھا۔ قدرت کی فیاضیوں کی بناپر سعودی تیل کی پیدوارای لاگت  3 ڈالر فی بیرل ہے یعنی قیمت کے زمین پر لگ جانے سے ارامکو کو تو بس نفع میں نقصان کا سامنا تھا لیکن دام کے اس درجہ گراوٹ پر امریکی تٰیلیوں  نے اپنے کنووں کے منہہ بند کرنے ہی میں عافیت جانی۔ نتیجے کے طور پرصرف دو دن میں  صنعت سے وابستہ ایک لاکھ کارکن بیروزگار ہوگئے۔
بازار میں تیل کے خریدار پہلے ہی بہت کم تھے، سعودی عرب کی جانب سے کنووں کے منہہ کھول دینے سے ایک نئی مشکل نے سراٹھالیا یعنی اب زمین سے نکالے جانیوالے'فالتو' تیل کو ذخیرہ کرنا آڑھتیوں کیلئے عذاب بن گیا۔ زمین پر موجود ذخائر، ٹینکرز اور سمندروں میں محو خرام تیل برادر جہاز بھی لبالب بھرگئے جنکا کوئی خریدار نہیں اور  ٹینکروں کا کرایہ ان میں رکھے گئےتیل کی قیمت سے زیادہ۔چنانچہ کنیڈا میں آڑھتیوں نے کرائے سے جان چھڑانے کیلئے خام تیل 3 ڈالر فی بیرل بلکہ اس سے بھی کم پر فروخت کردیا۔
چین سے ارامکو کا پتہ کاٹنے کی روسی کوشش،  پیداوار میں کمی کے معاملے پر سعودی ولی عہد اور روسی صدر کی تلخ گفتگو، جوانسال شہزادے کا اشتعال اور اسکے نتیجے میں قیمتوں کی جنگ تو اس کہانی کا ایک پہلو ہے لیکن نظریہ سازش پر یقین رکھنے والے تجزیہ نگار معاملے کی تشریح ایک دوسرے ہی انداز میں کررہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران امریکہ کے تیلیوں نے عرق ریز تحقیق و جستجو سے تیل وگیس کےغیر روائتی (Unconventional)ذخائر تلاش کرلئے ہیں۔تیل کی تلاش کیلئے عام طور سے ایسی چٹانوں میں قسمت آزمائی کی جاتی ہے جو مسامدار ہوں جہاں تیل ایک جگہ جمع رہنے کا امکان ہو۔ تیل و گیس کے سطح زمین کی طرف سفر کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ مسامات ایکدوسرے سے جڑے ہوئے ہوں۔ اسی لئے ریت اور چونے کے پتھر (Limestone) کو تیل و گیس کیلئے روائتی ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکسس Texasکے بانکوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ Shaleیا سلیٹی چٹانوں سے تیل کشید کیا جائے کہ علم ارضیات کے مطابق سلیٹی چٹانوں کانامیاتی موادہی خاص درجہ حرارت اور زیرزمین دباو سے تیل میں تبدیل ہوتا ہے اور رس رس کر اوپر موجود مسامدارچٹانوں میں ذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔ تاہم سلیٹی چٹانوں کی ایک قباحت یہ ہے کہ اسکے مسام ملے ہوئے نہیں ہوتے اسلئے تیل کو سطح زمین کی طرف بہاو پر آمادہ کرنامشکل ہے۔ اسکا حل یاروں نے یہ نکالا کہ زبردست دباو ڈال کر ان چٹانوں کو توڑپھوڑ کر مساموں کو آپس میں ملادیا جاتاہے اور پھر ان مساموں میں ریت یا ایسا مواد ڈالدیا جاتا ہے جنکے درمیان سے تیل وگیس کا بہنا آسان ہوجائے۔ یہ ذرا مٓختلف ترکیب ہے جسکی وجہ سے اسے Unconventional کہا جاتا ہے۔ دنیا کے روائتی میدانوں میں صدیوں سے کھدائی کی جارہی ہے جسکی وجہ سے یہاں موجود  تیل کی بڑی مقدار کشید کرلی گئی ہے۔ اسکے مقابلے میں سلیٹی چٹانوں میں امریکہ کے علاوہ دوسری جگہ بہت زیادہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ سلیٹی چٹانوں کھدائی بہت مشکل ہے جسکی وجہ سے  امریکی تیل کی پیدواری بہت لاگت بہت زیادہ ہے جسکا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ لیکن امریکی ماہرین اسکی لاگت کم کرنے کے نت نئے جتن کررہے ہیں اوریہ کاوشیں کامیاب بھی ہورہی ہیں۔ چند برس پہلے تک سلیٹی چٹانوں سے تیل نکالنے کی لاگت 65 ڈالر فی بیرل تھی جسے کم کرکے اب 38 کرلیا گیاہے۔ سعودی عرب،  روس اور روائتی ذخائر رکھنے والے دوسرے ممالک کو ڈر ہے کہ اگر امریکہ کےسلیٹی چٹانو ں کی پیداواری لاگت روایتی میدانوں کے برابرآگئی تو انکا دھندہ مندا ہوجائیگا کہ امریکہ میں لاکھوں مربع میل پر سلیٹی چٹانیں موجود ہیں جن سے ڈٰیڑھ سے دوکروڑ بیرل تیل یومیہ نکالا جاسکتا ہے۔لیکن پیدواری لاگت کی وجہ سے یہ نفع بخش سودا نہیں۔
نظریہ سازش پر یقین رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور روس کی حالیہ لڑائی نورا کشتی ہے۔ پیداوار پر اختلاف محض بہانہ اور امریکہ کی سلیٹی چٹانیں ان دونوں کا اصل نشانہ ہیں۔ یعنی روس اور امریکہ تیل کی عالمی قیمت گراگر امریکہ کے سلیٹی میدانوں کو  بند کروادیناچاہتے ہیں۔ امریکہ میں تیل کی پیداوارو ترقی میں صدر ٹرمپ ذاتی دلچسپی لیتے ہیں اورامریکی صدر کواس بات پر فخر ہےکہ انکے عہد اقتدار میں امریکہ نہ صرف تیل و گیس میں خودکفیل ہوگیا بلکہ اب وہ برآمد کنندگان میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ تیل کی قیمتوں پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور ماضی میں جب بھی قیمتیں بہت زیادہ بلند ہوئی انھوں نے قیمتوں کو نیچے لانے کیلئے دباو ڈالکر سعودی پیداوار میں اضافہ کروالیا۔
خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اس 'چالاکی' کو سمجھ گئے ہیں چنانچہ انھوں نے گزشتہ ہفتے MBSسے براہ راست بات کی جسکے بعد اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ـ میری اپنے دوست MBSسے ابھی بات ہوئی جنھوں نے بنایا کہ صدر پوٹن نے (تیل کی پیداوار) کم کرنے کیلئے ان سے بات کی ہے' اپنے ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ  روس اور سعودی عرب کی جانب سے تیل کی یومیہ پیدوار میں ایک کروڑ بیرل بلکہ اس سے بھی زیادہ کٹوتی متوقع ہے۔ صدر کے اس ٹویٹ سے تیل کی قیمتوں میں ایک دم  8 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوگیا لیکن اسکے چند ہی منٹ بعد روسی صدر کے ترجمان نے پوٹن اور MBSکے درمیان کسی گفتگو کی صاٖف تردید کردی۔
دوسری طرف ظہران سے کچھ ایسے اشارے ملے کہ گویا صدر ٹرمپ کا دباو سعودیوں کے لئے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ چند ماہ پہلے صدر ٹر مپ کھل کر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی مدد کے بغیر سعودی بادشاہت چند گھنٹے بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔
ظہران سے آنے والی خبروں کے مطابق ارامکو پیداوار میں کمی کیلئے تیار ہے لیکن قیمتوں میں استحکام کیلئے ضروری ہے کہ  اوپیک، روس،تیل برآمد کرنے والے غیر اوپیک ممالک اور امریکی تیل کمپنیوں سمیت تمام فریق کٹوتی پر رضامند ہوں۔ سعودیوں کو ڈر ہے کہ اوپیک اورروس کی جانب سے پیدوار میں کمی کے نتیجے میں جب قیمت بڑھے گی تو امریکی کمپنیاں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرپور پیداوار شروع کردینگی،جس سے قیمت دوبارہ نیچے آجائیگی اور اس یکطرفہ قدم سے سعودی عرب کو نقصان کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔
اس فارمولے پر بات کرنے کیلئے 6 اپریل کو ویڈیو کانفرنس طلب کی گئی تھی لیکن امریکی کمپنیوں نے اپنے اس خدشے کا اظہار کیاکہ قیمتیں طئے کرنے کا یہ قدم امریکہ کے Anti-Monopolyقانون کے تحت قابل دست اندازی Securities & Exchange Commission (SEC) ہوسکتا ہے۔  امریکی اداروں کی اسی ہچکچاہٹ کی بنا پر یہ نشست ملتوی کردی گئی اور اب یہ ویڈیو بیٹھک جسےVOPECکہا جارہا ہے جمعرات کو منعقد ہوگی۔ تاہم اب تک امریکی تیل کمپنیوں نے اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی ۔
جہاں تک تیل کی قیمتوں میں استحکام کا تعلق ہے تو صدر ٹرمپ امریکی صنعت کی پشت پناہی کیلئے حددرجہ پرعزم ہیں۔ 2 اپریل کو امریکہ کی تمام بڑی تیل کمپنیوں کے سربراہان نے وہائٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی جس میں انھوں نے صنعت کے رہنماوں کواپنی مکمل حمائت کا یقین دلایا۔دوسرے دن کرونا وائرس پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ اپنی تیل کی صنعت کو بچانے کیلئے ہر قدم اٹھانینگے جن میں غیر ملکی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی بھی شامل ہے۔
سعودی عرب اور روس کیلے تیل کی پیداور میں کمی اب خود انکی مجبوری بن چکی ہے ۔ طلب سے زیادہ حجم کو ذخیرہ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ٹینکرز اور دوسری تنصیبات میں اب مزید تیل رکھنے کی گنجائش نہیں۔ مزے کی بات کہ ارامکو کی دیکھا دیکھی کوئت اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس ماہ کے وسط سے پیدوار میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
تیل کی پیداوارمیں کمی  سعودی عرب کی مجبوری تو ہے لیکں MBS کےلئے ایک کروڑ بیرل یومیہ کٹوتی ممکن  نہیں کہ ارامکو کی کل پیداوار اسوقت  ایک کروڑ بیس لاکھ بیرلُ ہے۔ اوپیک کے ممالک مجموعی طور پر دو کروڑ اسی لاکھ بیرل تیل روزانہ زمین سے نکالتے ہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس عظیم الشان کٹوتی کیلئے امریکہ سمیت تمام ملکوں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ دیکھنا ہے کہ جوانسال شہزادے اپنے دوست کے دباو کا کب تک اور کیسے مقابلہ کرتے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10اپریل
2020

Tuesday, April 7, 2020

یہودیوں کا تہوارِ نجات


یہودیوں کا تہوارِ نجات یا Passover
 دنیا بھر کے یہودی 8 سے  16 اپریل  تک Passoverکا تہوار منارہے ہیں۔ مسلمانوں کی طرح یہودی  بھی قمری کیلینڈرستعمال کرتے ہیں۔ عبرانی کیلنڈر کے پہلے مہینے نشعان  کی 15 تاریخ کو غروب آفتاب سے شروع ہونے والی Passover تقریبات 7 دن جاری رہینگی، قدامت پسند (Orthdox)8 دن تک Passoverکا اہتمام کرتے ہیں۔
اس تہوار کے بارے میں دورائے پائی جاتی ہے۔
 عرب نژاد یہودیوں کے خیال میں یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب   سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ کی قیادت میں بنی اسرائیل  کو بحر قلزم سےبحفاظت گزارکر انکے  سامنے  فرعون اور اسکےپورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ  غرق کردیا۔یہ عبورِعظیم Passoverکہلاتا ہے۔
 دوسری طرف یہودیوں کے سوادِ اعظم کے خیال میں قصہ کچھ اسطرح ہے کہ  اللہ نے  اہل مصر کو  10 آفتوں میں مبتلا کیا جو دراصل حضرت موسیٰ کیلئے اللہ کی نشانیاں تھیں۔ قرآن میں 9 نشانیوں کا ذکر ہے (سورہ بنی اسرائیل آئت  101)۔
آخری عذاب سے پہلے اللہ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ فلاں رات کو ہر مصری کی سب سے بڑا بیٹا  مرجائیگا اور معاملہ صرف انسانوں تک ہی نہیں رہیگا بلکہ انکے جانوروں اور مویشیوں کاپہلا بچہ بھی  اس رات ہلاک ہوگا۔ اسرائیلوں کو ہدائت کی گئی کہ وہ شناخت کیلئے قربان کی گئی بھیڑ کا خون اپنے گھروں کے دروازوں اور دہلیز پر لتھیڑ دیں تاکہ موت کا فرشتہ انھیں چھوڑ کر  (Passover)آگے بڑھ جائے۔
اس روز کی سب سے اہم عبادت  ہر خاندان کی طرف سے ایک بھیڑ یا بکرے کی قربانی ہے۔قربانی کا سارا گوشت اسی  روز ختم کرنا ضروری ہے ۔ اگر خاندان کے افرادایک ہی نشست میں پورا بکرا چٹ نہ کرسکیں تو اسکا بقیہ حصہ پڑوسی یا نادار لوگوں کو دیا جاسکتا ہے لیکن اسے آئندہ کیلئے محفوظ رکھنے کی اجازت نہیں۔۔اسی کے ساتھ مٹھائی اور انگور کی شراب کے ساتھ مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔
حسن اتفاق کہ  حضرت ابراہیم سے  وابستہ تینوں آسمانی مذاہب  کے  مقدس ترین  ایام ایک ہی وقت میں آئے  ہیں  :
·        مسیحیوں کے ایام صوم یا Lentکا یہ آخری ہفتہ ہے اور اس  جمعہ کو ہمارے مسیحی بھائی Good Fridayاوراتوارکو عیدِ ایسٹر منائینگے۔  Palm Sunday(5 اپریل)  سے ایسٹر تک کا عرصہ مسیحیوں کے یہاں بہت مبارک و مقدس سمجھا جاتا ہے۔
·          فرعون سے نجات کی صورت میں اللہ نے بنی اسرائیل پر احسان عظیم فرمایا
·        اور مسلمانوں کیلئے یہ استقبال رمضان کے ایام ہیں۔
ااہل کتاب کو Lentکی برکات اور عید ایسٹر اور Passoverکی  خوشیاں مبارک ہوں
دعا کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خلیل  اور انکی نسل میں جنم لینے والے عظیم پیغمبروں   سے موسوم خوشی کے  ان لمحات میں ہمیں اس مصیبت سے نجات عطافرمائے، ہماری انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم پر پھر سے مہربان ہوجائے۔ بیشک ہم  نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہےاور ہم سب اس پر اپنے رب کے حضور شرمندہ ہیں۔

Thursday, April 2, 2020

کرونا وائرس! وبا یا حیاتیاتی دہشتگردی


کرونا وائرس! وبا یا حیاتیاتی دہشتگردی  
ضدی زکام سے شروع ہونے والا کرونا وائرس، بگڑےنمونئے کے بعد متعدی بیماری اور اب ایک خوفناک عالمی وبا (Pandemic)بلکہ خوفناک بلا کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ایسی بلا جو انسانی حیات کے ساتھ اسباب حیات کو بھی نگلے جارہی ہے۔ بہت سے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ بیماری سے زیادہ افراد اسکے نتیجے میں آنے والی بیروزگاری اور کساد بازاری میں بھوک اور افلاس سے ہلاک ہونگے۔ اٹلی میں نوجونوانوں نے فیس بک پر قومی انقلاب کے نام سے ایک جماعت قائم کرلی ہے جسکے ارکان کی تعداد 26 ہزار سے زیادہ ہے۔ قومی انقلاب کاکہنا ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے شہریوں کے پاس اشیائے خوردونوش خریدنے کی سکت نہیں چنانچہ انھیں یہ سامان بلاقیمت فراہم کیا جائے۔ کئی دوکانوں سے نوجوان کھانے پینے کا سامان قیمت اداکئے بغیر اٹھاکر لے گئے۔ اب اکثر دوکانوں پر مسلح پولیس تعینات کردی گئئ ہے۔ گھروں میں بند لوگ کثرت شراب نوشی سے گردے اور جگر کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ Greenlandکی ملکہ مارگریٹ دوم نے دارالحکومت نوک Nuukمیں شراب کی فروخت پر پابندی لگادی ہے جسکی وجہ سے مئے نوش مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے.
صدر ٹرمپ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر لاک ڈاون بہت دن جاری رہا تو بھوک اور خودکشی سے مرنے والوں کی تعدادکرونا مرض کا شکار ہونے والوں سے زیادہ ہوگی۔ لاک ٖڈاون سے امریکیوں میں چڑچڑاہٹ بڑھ گئی ہے، میاں بیوی کی نوک جھونگ قابل دست اندازی پولیس مارپیٹ تک آپہنچی ہے۔،شراب و منشیات کے استعمال نے معاملہ اور بھی خراب کردیا ہے کہ والدین اپنے معصوم بچوں کے سامنے شغل مئے نوشی اور چرس و گانجہ سے شوق فرمارہے ہیں۔ہر شخص  آہٹ بلکہ سائے سے بھی خوفزدہ۔کھانسی اور  چھینک پر موت کا گمان، بس یوں سمجھئے کہ زندگی اجیرن بلکہ بوجھ ہوکر رہ گئی ہے۔ آمدنی صفر اور بازاروں میں روزمرہ استعمال کی اشیا دستیاب نہیں۔ کچھ ریاستوں میں اشیائے خوردونوش کے مراکز پر نظم و ضبط برقرار رکھنے کیلئے نیم فوجی دستے تعینات کردئے گئے ہیں۔ چوری چکاری کی واردات میں کئی جگہ سفید پوش گھرانوں کے بچے پکڑے جارہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاروبار کی بندش نے اقتصادیات کا قافیہ تنگ کردیا ہے۔اس نامراد جرثومے سے زندگی کے ساتھ معیشت و معاشرت سب ہی کو غارت ہوگئی ہے۔
یہ بلا کیسے نازل ہوئی اسکے بارے میں عالمی ادارہ صحت (WHO)کا سرکاری موقف تو یہی ہے کہ اس وبانے گزشتہ سال کے اختتام پر وسطی چین کے صوبے خوبے (Hubei)کے دارالحکومت ووہّان میں جنم لیا تھا۔ WHOکے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس نزلہ، زکام،کھانسی اور سانس کی بیماریوں کا موجب بننے والے جرثوموں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں سوائن فلو اور سارس جیسے جرثومے  بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ جرثومہ اس سے پہلے انسانوں میں نہیں پایا گیا۔ سرکاری طور پر 7 جنوری کو  اس دشمن جان و ایمان جرثومے کو نویل کرونا وائرس کا نام دیا گیا۔ نویل (نیا)کا سابقہ اسلئے ٹانکا گیا کہ اس سے پہلے یہ جرثومہ میں نہیں پایا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زندہ چوہے، بھنی بلی یا چمگاڈر سے یہ جرثومہ پہلی بار کسی انسان میں منتقل ہوا جسکے بعد یہ چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ اس جرثومے سے پھیلنے والی بیماری کو طبی اصطلاح میں Corona Virus Disease of 2019یاCOVID-19کہا جاتا ہے۔
یہ بیماری کیا ہے اسکی مختصر تاریخ اور دنیا پر اسکے اثرات کے بارے میں دونشستوں میں تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ آج ذکر ایک نئے پہلو کا جو تادم تحریر نظریہ سازش سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے کہ کسی بھی فریق نے اسکے بارے میں ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کئے اور زیادہ تر باتیں مبہم سیاسی بیانات، جواب، وضاحت اور جواب الجواب پر مشتمل ہے۔
الزام تراشی کا آغاز اسوقت ہوا جب فروری کے اختتام میں ریپبلکن پارٹی کے سینٹر ٹام کاٹن نے الزام لگایا کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر نہیں پھوٹا بلکہ اسے ایک منصوبے کے تحت جنم دیا گیا ہے۔ 42سالہ  ٹام کاٹن سابق امریکی فوجی ہیں جو عراق اور افغانستان میں جنگ لڑچکے ہیں۔ سیاست میں موصوف اس اعتبار سے نووارد ہیں کہ عراق سے واپسی پر 2012میں یہ اپنی آبائی ریاست ارکنسا (Arkansas)سے ایوان نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے اور دوسال بعد انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینئر رہنما ٹام پرائر سے سینٹ کی نشست چھین کر میدان سیاست میں سنسنی پیدا کردی۔ مسٹر پرائر اس نشست پراس سے پہلے  دوبارکامیاب ہوچکے تھے۔ اس زبردست کامیابی نے مسٹر کاٹن کو پارٹی میں ایک ممتاز مقام عطاکردیا اور وہ آجکل صدر ٹرمپ کے بہت قریب تصور ہوتے ہیں۔ انکے قریبی رفقا کا خیال ہے کہ ٹام کاٹن 2024کے انتخابات میں امریکی صدارت کیلئے قسمت آزمائی کرینگے۔
ٹام کاٹن نے چین کے آزاد آن لائن سائینسی جریدے ChinaXiv,  کے حوالے سے چینیوں کے اس دعوے کی تردید کی جس میں کہا گیا ہے کہ ووہّان کی مچھلی مار کیٹ سے یہ وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا۔ جریدے کے مطابق نومبر کے آخر میں ووہّان سے باہر کسی مقام پر یہ جرثومہ کسی انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا۔ اس دوسرے آدمی یا Patient Zeroسے یہ جرثومہ  ووہّان کے کسی قصاب اور کارکن کو منتقل ہوا جسکے بعد وہاں آنے والے صارفیں متاثر ہوئے۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تواس سے  چینی  حکومت اور WHOکے ماہرین کا یہ مفروضہ غلط ثابت ہوتا ہے کہ یہ بیماری کسی زندہ چوہے یا چمگادر نے پھیلائی ہے۔ سینیٹرکاٹن باربار اصرار کررہے ہیں کہ Patient Zeroکی تفصیل فراہم کی جائے۔ انھوں نے دھمکی دی ہے کہ امریکی حکومت چاہے نہ چاہے وہ چینی حکومت کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ جاری رکھیں گے۔
امریکہ میں انسداد دہشت گردی کے ماہر اور فوجی محکمہ سراغرسانی کے سابق افسر فلپ جیلارڈی نے اپنے ایک مقالے میں لکھا کہ کئی رپورٹس اس جانب اشارہ کررہی ہیں کہ (کرونا)وائرس کے کچھ حصے فطری نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انکی افزائش بلکہ پیدائش ہتھیار بندی کیلئے کی گئی ہے۔ مسٹر جیلارڈی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس تغیر پزیری (Mutation)کی فطری صلاحیت سے عاری ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے لیبارٹری میں جنم دیا گیا ہے یعنی اس پر ایک  حیاتیاتی ہتھیار ہونے کا شبہہ ہوتا ہے۔ جیرالڈی صاحب کا کہناہے کہ یہ جرثومہ ووہّان کے انسٹیٹیوٹ برائے جرثومیات (Virology)سے لیک ہوکر کسی انسان یاجانور کے جسم میں داخل ہوگیاجہاں سے مچھلی مارکیٹ پہنچا اور اب ساری دنیا میں قیامت ڈھا رہا ہے۔ جناب جیرالڈی کے اس تجزئے کے بعد سینٹر ٹام کاٹن کے موقف میں بھی مزید سختی آگئی ہے۔ سینیٹر صاحب کے خیال میں  کروناوائرس کی تخلیق چینی فوج کا کارنامہ ہے جسے ووہّان کے فوجی انسٹیٹیوٹ برائے جرثومیات میں تخلیق کیا گیا۔ اپنے ساتھی کے اس الزام کے بعد صدر ٹرمپ نے کرونا وائر س کو 'ووہّان جرثومہ'، 'غیر ملکی جرثومہ' اور  'چینی جرثومہ' کہنا شروع کردیا تھا لیکن اپنی ٹیکنیکل ٹیم کے مشورے پر  انھوں نے یہ سلسلہ ترک کردیاہے۔ 
سینیٹر کاٹن کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان زاو (Lijian Zhao)نے روس کے ایک سائینسی جریدے میں شائع ہونے والے مقالے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ COVID-19کی جائے پیدائش امریکہ ہے۔چینیوں  کے خیال میں  ووہّان آنے والے امریکہ فوج کے کھلاڑیوں نے کروناوائرس  وہاں میں  پھیلایا جہاں گزشتہ سال اکتوبر میں دنیا کے فوجی کھیل منعقد ہوئے تھے۔ ان مقابلوں میں شرکت کیلئے پینٹاگون نے  280 کھلاڑیوں پر مشتمل امریکی فوج کی 17 ٹیمیں ووہّان بھیجی تھی۔ چینیوں کو شک ہے کہ کھلاڑیوں کے روپ میں آنے والے حیاتیاتی جنگ کے ماہرین نے یہ جرثومہ ووہّان میں پھیلایا ہے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں جناب زاو نے سینٹر کاٹن کی جانب سے چینی Patient Zeroکا  نام بتانے کے اصرار پر کہا کہ :
·        امریکہ کے  Patient Zero کا نام بتایا جائے
·        دنیا کو بتایا جائے کہ امریکہ میں کل کتنے لوگ اس جرثومے سے متاثر ہوئے
·        ان ہسپتالوں کا نام بتایا جائے جہاں یہ لوگ زیرعلاج ہیں
·        بہت ممکن ہے کہ امریکی فوج کے سپاہی یہ مرض لے کر ووہّان ائے تھے
·         تمام معلومات اور اعدادوشمار شفاف رکھنے کی ضرورت ہے
·        ہم امریکہ سےوضاحتوں کا مطالبہ کرتے ہیں
چینی ماہرین کا کہنا ہےکہ امریکہ،  فرانس، جاپان اور آسٹریلیا میں جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں ان میں سے کم از پانچ افراد ایسے ہیں جنھوں  نے نہ ملک سے باہرسفر کیا اور نہ ہی کسی مریض سے انکی ملاقات ہوئی جس سے اندازہ  ہوتا ہے کہ  ووہان میں پھوٹ پڑنے سے پہلے کرونا وائرس چین سے باہر بھی موجود تھا۔
جناب زاو نے اس موقع پر 11مارچ کو امریکی ایوان نمائندگان کی ذیلی کمیٹی کے سامنے بیماری کی روک تھام مرکز (CDC)کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ریڈفیلڈ کے بیان کا حوالہ دیا جس میں ارکان کانگریس کے سوالات کا جوااب دیتے ہوئے مسٹر ریڈفلیڈ نے کہا تھاکہ امریکہ میں کئی ایسی اموات ہوئی ہیں جو بظاہر انفلوئنزاکا نتیجہ تھیں لیکن بعد ازمرگ ٹیسٹ اور رپورٹس کے تفصیلی تجزئے سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بدنصیب کرونا وائرس کا شکار ہوئے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سوال کیا کہ چین میں وبا پھوٹنے سے پہلے یہ امریکی اس جرثومے کا شکار کیسے ہوئے؟ انکا کہنا تھا کہ امریکی مریضوں کی اکثریت دارالحکومت کئ قریب رہائش پزیر لوگوں کی تھی جہاں سے امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک حیاتیاتی لیبارٹری بہت دور نہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے اس ٹویٹ پر چینی حکومت کی جانب سے مزید کوئی بیان یا تبصرہ سامنے نہیں آیا لیکن بیجنگ نے اسکی تردید بھی نہیں کی۔ جب واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے اسکے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نےاپنے مخصوص انداز میں  اسےfake news  قرار دیتےہوئے اس پر تبصرے سے انکار کردیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ  چینی قیادت سے مسلسل رابطے میں ہیں  لیکن انھوں نے ایسی کوئی بات کسی سے نہیں سنی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ چیئر مین ژی  ہنگامی صورتحال کی نگرانی میں مصروف ہیں اور انھوں نے کئی دن سے  کسی سربراہ سے بات نہیں کی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے علاوہ جنوبی افریقہ میں چین کے سفیر نے بھی پنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ چین میں پھوٹ پڑنے والے اس تباہ کن وائرس کی (چین کے) باہر سے آمد خارج از امکان  نہیں۔تاہم چینی سفیر نے اس سلسلے میں کسی ملک کا نام نہیں لیا۔
 روسی اخبار اسپتنک کا کہناہے کہ کرونا وائرس  شمالی یورپ کے ننھے سے بلقانی ملک لیٹویا (Latvia)میں نیٹو کی ایک فوجی تجربہ گاہ میں تولد ہوا۔ایرانی، چینی  اور روسی ذرائع ابلاغ  نے امریکی قانون داں پروفیسر لارنس بوائل کا ایک بیان بھی نقل کیا ہے جس میں پروفیسر صاحب نے شک ظاہر کیا کہ کرونا وائرس امریکہ کا حیاتیاتی اسلحہ ہے جسے جرثومے کی شکل میں پھیلایا گیا۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جناب لارنس بوائل  انسدادحیاتیاتی دہشت گردی کے ماہر ہیں اور انھوں ہی نے امریکہ کے حیاتیاتی دہشت گردی  کے خلاف قانون مجریہ 1989کا ابتدائی مسودہ تحریر کیا تھا۔
دوسری طرف ایران کے پریس ٹی وی کا دعویٰ ہے کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک کے حیاتیاتی اسلحے کے ریسرچ سینٹر پر امریکہ اور اسرائیل کے ماہرین نے یہ جرثومہ تخلیق کیاہے۔ پریس ٹی وی نے اپنی رپورٹ کے دفاع میں اسرائیلی سائینسدانوں کا یہ دعویٰ پیش کیا جس میں کہا گیا کہ 90 روز میں Infectious Bronchitis Virus(IBV) کے خلاف  ویکسین تیار کرلی جائیگی۔ ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ  ویکسین کی تیکنیکی تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ COVID-19کی ویکسین ہے۔اسی کیساتھ وبائی امراض پھوٹ پڑنے کے امکانات کے بارے مائکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس کے خطابات کی بازگشت بھی عام ہے۔
2015میں ایبولا وائرس کے اختتام پر ماہرین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جناب گیٹس نے مغربی افریقہ میں ایک خوفناک وبائی نزلے کا خدشہ ظاہر کیاتھا جو انکے خیال1 کروڑ افراد کو لقمہ اجل بنا سکتا ہے۔انکا یہ خطاب جسے TED Talk کہا جاتا ہے  ان ناگہانی خطرات کے بارے میں تھا جسکا دنیا کو سامنا ہوسکتا ہے۔ جناب گیٹس کا کہنا تھا کہ دنیا میں علاج و معالجہ خاص طور سے وبائی امراض سے حفاظت کے انتظامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں جسکی بنا پرکئی ملک کسی بڑی وبا کا موثر انداز میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
2017 میں ڈیوس (سوئٹزرلینڈ) کے مشہور زمانہ عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر امریکی ٹیلی ویژن CBSسے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے ایک بار پھر اس خدشے کا اعادہ کیاکہ ترقی یافتہ ممالک بھی کسی بڑی وبا سے نبٹنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ گفتگو کے دوران بل گیٹس نے بہت زور دیکر کہا تھا کہ کسی بھی وباکے پھوٹ پڑنے پر اسکے مقابلے کیلئے ویکسین کی بروقت تیاری سب سے اہم اور مقدم ہے لیکن دنیا کے ڈاکٹر، سائینسدان اور تحقیقاتی ادارے اسکے لئے تیار نہیں۔
2018 میں امریکی ریاست میسیسچیوسٹس Massachusetts   کی میڈیکل سوسائیٹی کے سالانہ لیکچر میں بل گیٹس نے کہا کہ تعلیم و ایجادات کی وجہ سے دنیا کے زیادہ تر لوگوں کا معیار زندگی نسبتاً بلند ہوگیا ہے لیکن اب بھی کسی عالمی وبا کے مقابلے کیلئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی تیار نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا کو وبا سے نبرد آزما ہونے کیلئے اسی نوعیت کی تیار کرنئ چاہئے جیسی دنیا کے ممالک جنگ اور فوجی حملے کے مقابلے کیلئے کرتے ہیں
2019 میں امریکہ کی مشہور میڈیا کمپنی Netflixکی Next Pandemicکے عنوان سے بننے والی دستاویزی فلم میں  بل گیٹس نے چین کے کسی مچھلی بازار سے ایک خوفناک وائرس کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔ مچھلی بازار کے بجائے جناب گیٹس نے wet marketکا لفظ استعمال کیاتھا۔ دستاویزی فلم میں چینی شہر لیانگہوا(Lianghua)کا ایک گوشت بازار بھی دکھایا گیا جہاں جانوروں کو صارفین کے سامنے ذبح کرکے گوشت فروخت ہوتا ہے، لیناگہوا جنوبی چین کے ساحلی صوبے گوانگ ڈونگ میں واقع ہے۔ یہاں بھی  ووہّان کے ہونان مچھلی بازار کی طرح مچھلی اور جانوروں کا تازہ گوشت فروخت ہوتا ہے۔ یقیناً یہ حسن اتفاق ہے لیکن کرونا وائرس کا ظہور بالکل اسی انداز میں ہوا جسکا خدشہ بل گیٹس نے اس دستاویزی فلم میں ظاہر کیا تھا۔
29 مارچ کو پاکستان کے سابق عبوری وزیرخارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کےمستقل نمائندے جناب عبداللہ حسین ہارون نے اعدادشمار اور استثنائی حقوق (Patent)کی تفصیل کے ساتھ کرونا وائرس کو امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیارثابت کیا ہے۔ اپنے طویل ویڈیو خطاب میں انھوں نے کہا کہ اس قسسم کا ہتھیار شام میں بھی استعمال کیاجاچکا ہے۔ جناب حسین ہارون کا کہنا تھا کہ  Chironکمپنی نے امریکہ اور اسکی ویکسین کیلئے یورپ سے استثنائی حقوق حاصل کئے گئے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ  وائرس کی تخلیق برطانیہ میں ہوئی اور اسے ائر کینیڈا کے ذریعے چین بھیجا گیا۔ اسکی ویکسین اسرائیل نے بنائی ہے جسے صرف وہی ملک خرید سکیں گے جنکے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ جناب حسین ہارون کا کہنا تھا کہ وائرس سے چین کو ہدف بنانے کا مقصدچین کو معاشی طور پر مفلوج کرنا تھا جو حجم کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دنیا میں  دوسرے نمر پر ہے۔ انھوں نےبل گیٹس فاونڈیشن اور امریکہ کی طبی علوم کے مشہور تحقیقی مرکز جامعہ ہاپکنز کوبھی اس کام میں ملوث قراردیا۔احباب کو یقیناً علم ہوگا کہ کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے کام کی نگرانی جامعہ ہاپکنز کررہی ہے۔
جناب حسین ہارون کے اس انکشاف پرکسی بھی جانب سے کوئی تبصرہ، تردید یا وضاحتی بیان نہیں آیا۔ ہارون صاحب نے اعدادوشماراور استثنائی سند کے نمبر تو دئے لیکن انکی ویڈیو پیشکش میں کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہ تھا۔ اسی طرح چینی حکام، ایرانی میڈیا، روسی جرائد اور امریکی سیاستدانوں اور ماہرین کے بیانات بھی ابھی تک مفروضوں، خدشات اور قیاس پر مشتمل ہیں۔ کسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس دستاویزی  ثبوت سامنے نہیں آیا۔ سیانے کہتے ہیں کہ جنگ کی سب سے پہلی شہید سچائی ہوتی ہے۔ جیسے یہ فتنہ پرورجرثومہ ننگی آنکھ تو دورکی بات  عام خوردبین سے بھی نظر نہیں آتاویسے ہی اس انسانیت سوز شرارت کے ذمہ دار بھی شائد کبھی بھی منظر عام پر نہ آسکیں۔ 9/11کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تالش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
ہفت روزہ فرئیڈے اسپیشل کراچی 3 اپریل2020