Sunday, June 7, 2020

لیبیا!! زمینی صورتحال


لیبیا!! زمینی صورتحال
احباب لیبیا کے سیاسی حال و احوال کے بارے میں اکثر دریافت کرتے رہتے ہیں۔ توانائی، عالمی سیاست اور جغرافیہ کے طالب علم کی حثیت سے ہمیں بھی اس سے بہت دلچسپی ہے۔ اس حوالے سے احباب ہمارے دومضامین کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں
ہفت روزہ دہلی 31 مئی 2020                                                                                                         
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 15 مئی 2020 (فیس بک پر بھی موجود ہے)
آج کچھ گفتگو تازہ ترین زمینی صورتحال پر
جیسا کہ آپ نقشے میں دیکھ سکتے ہیں، گزشتہ چند ہفتوں کے درمیان وفاقی حکومت کی پئے در پئے عسکری کامیابیوں کے باجود اب بھی 90 فیصد لیبیا پر باغیوں کا قبضہ ہے۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ یہاں 17 لاکھ 59 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر صرف 69 لاکھ نفوس آباد ہیں۔ اسکے  مقابلے میں پاکستان کا رقبہ اسکے نصف یعنی 8 لاکھ 82 ہزار مربع کلومیٹر کے قریب ہے اور آبادی 22 کروڑ سے زیادہ۔لیبیا کا بڑا حصہ غیر آباد صحرا پر مشتمل ہے۔ تاہم تپتا ہو اصحرا زرخیز زمیں سے زیادہ  قیمتی ہے کہ اسکی تہوں میں قدرت نے  تیل، گیس اور گرانقدر معدنیات کے ذخائر چھپا رکھے ہیں۔ ملک کی زیادہ تر آبادی  بحر روم کے ساحل پر مشرق میں طبرق اور مغرب میں طرابلس، سرت، ترہونہ میں ہے۔ جنوب مشرق میں مصر کی سرحد پر الجوف اور جنوب مغرب میں الجزائر سے متصل غات بھی بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ فوجی چھاونیاں، سول و فوجی ہوائی اڈے اور تیل و گیس کی تنصیباب تیونس کی سرحد کے قریب ساحلی علاقوں میں ہیں۔ 
اس پس منظر میں اگر آپ منسلک نقشے کو دیکھیں تو آپکو اندازہ ہوگا کہ کنڑول کے اعتبارسے ملک کا عصبی مرکز شمالی مغربی لیبیا ہے جہاں اس وقت لڑائی ہورہی ہے اور اگر لیبیا حکومت کے دعوے درست ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک پر وفاقی حکومت کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔
چند سطور مشرق و مغرب تقسیم پر 
20 اکتوبر 2011 کو جب ملک گیر تحریک کے دوران کرنل قذافی ایک مسلح جتھے کے ہاتھوں ماردئےگئے تو ملک کا سارانظام درہم برہم ہوگیا اور قبائلی سردار ایک دوسرے کےمد مقابل آگئے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ فوج نے موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے سیاسی عمل کی حمائت جاری رکھی۔ ایک سال کے اندر یعنی 7 جولائی 2012کو پارلیمانی انتخابات ہوئے اور جرنیلوں کی کونسل نے اقتدارمنتخب نمائندوں کو  سونپ دئے۔ نئی نویلی جمہوریت کئی آزامائشوں سے دوچار رہی۔
جون 2014 کو پارلیمانی انتخابات کے بعد  اسمبلی کے افتتاحی  اجلاس میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ ارکان کے ایک گروپ نے اسمبلی کی عمارت پر قبضہ کرکے مخالفین کو نکال دیا۔ یہاں سے نکلے ہوئے ارکان نے مشرق میں مصر کی سرحد پر ساحلی شہر طبرق میں اسمبلی لگالی۔ متوازی اسمبلیوں نے قوت کے حصول کیلئے عسکریت پسندوں سےتعلقات استوار کرلئےاور یہیں سے 'امریکی شہری' خلیفہ حفترنے انٹری ڈالدی۔ انکی سربراہی میں لیبیا نیشنل آرمی (LNA) بنوائی گئی۔جنرل حفتر ملک کو اسلامی بنیاد پرستی المعروف اخوان المسلمون کے مقابلے کیلئے سیکیولر نجات دہندہ بن کر آئے تھے  چنانچہ طبرق اسمبلی نے حفتر ملیشیاکوگود لے لیا۔ آنا فانا حفتر ملیشیا کو میزائیل بردار کشتیوں، چینی ساختہ ڈرون سمیت جدید ترین اسلحے سے لیس کردیا گیا۔2015کے آغاز میں مصری فضائیہ  نے بمباری کرکے مشرقی لیبیاپر طبرق اسمبلی کی گرفت مضبوط کردی۔ 
17 مارچ 2015کو طرابلس اسمبلی، طبرق اسمبلی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے درمیان وفاق الوطنی یا GNAکے نام سے ایک  وسیع البنیاد حکومت کا معاہدہ طئے پاگیا جسکی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ توثیق کردی۔ بحث مباحثے کے بعد وزیراعظم کیلئے فائز السراج کے نام پر اتفاق ہوگیااور فائز انتظامیہ نے طرابلس آکر اقتدار سبنھال لیا۔
مصر، روس، اسرائیل، یونان، فرانس اور سب سے بڑھ کر متحدہ عرب امارات کی شہہ پر طبرق اسمبلی نے وفاقی حکومت کا تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور حفتر ملیشیا نے روسی فضائیہ، فرانسیسی بحریہ اور ڈرون کی مدد سے طرابلس کے مضاٖفات سے تیونس کی سرحد تک  بڑے علاقے ہر قبضہ کرلیا۔ تاہم داارلحکومت طرابلس وفاقی حکومت کے قبضے میں رہا۔
صدر ایردوان بھانپ گئے کہ لیبیا بہانہ اور ترکی اصل نشانہ ہے چنانچہ وہ بھی کھل کر وفاقی حکومت کی مدد کو آگئے۔ اس معاملے کو ترکی کو اخلاقی برتری حاصل ہے کہ وہ دہشت گردوں کے مقابلے میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کی حمائت کررہا ہے۔ 
لب لباب یہ ہے کہ اسوقت عملی طور پر ملک کا 80 فیصد حصہ حفتر ملیشیا اور طبرق اسمبلی کے قبضے میں ہے لیکن ملک کے عصبی مرکز پر وفاق کی گرفت روزبروز مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ اگر لیبیا کی فوج فزان صوبے میں واقع الجفرا کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو حفتر ملیشیا بے بس ہوجائیگی۔ یہ اڈا روسیوں کے زیرانتطام ہےجہاں چینی ڈرون کے علاوہ جدید ترین مگ اور فرانسیسی ساختہ میراج موجود ہیں۔اس اڈے  سے  محرومی کی  صورت میں حفتر ملیشیا کیلئے  تیل کے ذخائر پر قبضہ اور تنصیبات کی ناکہ بندی ناممکن اور طبرق انتظامیہ مالی وسائل سے محروم ہوجائیگی جسکے بعد لیبیا کی فوج طبرق تک  موٹر سائیکلوں پر بھی پیش قدمی کرسکتی ہے۔




Saturday, June 6, 2020

تن کتے کالے ماروگے؟؟؟


تم کتنےکالے ماروگے؟؟؟؟
ابھی   جارج فلائڈ کی تدفین بھی نہیں ہوئی کہ سیاہ فاموں کے خلاف  ایک اور وحشت کے انکشاف نے زخموں پر نمک چھڑک دئے
مقامی ٹیلی ویژن کے مطابق 3 مارچ کو ریاست واشنگٹن (دارالحکومت واشنگٹن نہیں) کے شہر ٹکوما (Tacoma)میں نصف شب کے قریب ایک 33سالہ سیاہ فام مینول ایلس Manuel Ellis مبینہ طور پر نجی کار کا دروازہ کھول کر ا س میں بیٹھی  ایک خاتون کو  ہراساں کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ یہ دیکھ کر وہاں  گزرتی پولیس کار سےچار  افسران اترے جن میں سے دوسفید فام، ایک امریکی افریقی اور ایک ایشائی نژاد تھا۔  ایک افسر نے مینول سے پوچھا کہ 'تم کیا کررہے ہو؟' جس پر مینیول نے کہا وہ اپنے وارنٹ گرفتاری کےبارے میں اس (عورت)سے پوچھ رہا ہے۔ پولیس کے مطابق مینول نے اس دوران پولیس کار پر غصے سے ہاتھ مارااور ایک افسر کو اسکی کمر سے پکڑکر زمین پر گرادیا۔ جس پر پولیس افسران نے مینول کو دبوچ کر اسکے ہاتھ پشت پر باندھ دئے۔ اس دوران مینول کے شورشرابے پر افسران نے اسے زمین پر گرا  کر اسکی گردن کو گرفت میں لے لیا۔کچھ دیربعد مینول  کی حالت خراب ہوگئی  جس پر پولیس نے ایمبولنس کوفون کیا۔ ایمر جنسی کے عملے سے پولیس کی گفتگو پولیس کے وائرلیس  ریڈیو پر ریکارڈ ہوتی رہی جسکا دورانیہ 12 منٹ ہے۔ اس دوران مینول کی فریاد' I can’t breathe'بھی سنائی دے رہی ہے۔ جارج فلائڈ کی ویڈو جاری ہونے کے بعدسے  I can’t breathe امریکہ میں  مظلومیت کااستعارہ بن چکا ہے۔
جب ایمرجنسی کا عملہ وہاں پہنچا تو بیہوش ایلس کی سانس رک چکی تھی اور طبی عملے کے مطابق ایلس کی جائے واردات پر مرچکا تھا۔میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرفت کے نتیجے میں مینول کو آکسیجن نہیں مل سکی (hypoxia)اور سانس بند ہونے سے اسکی موت واقع ہوگئی۔رپورٹ کے مطابق مینول کو لاحق دل کا عارضہ dilated cardiomyopathy   اور خون میں منشیات کی آمیزش  زیرحراست ملزم کی موت کی ثانوی وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔تاہم پولیس رپورٹ میں اس واقعے کو قتل قراردیا گیا ہے۔
اس وقت سے یہ چاروں افسران پوری تنخواہ اور مراعات کے ساتھ معطل ہیں ۔
جمعہ کو سوشل میڈیا پرشہر کی رہائشی محترمہ  سارا مک ڈوول کی بنائی دو ویڈیو، انسانی حقوق  کی  تنظیم 'اجتماعی اقدام' نے جاری کی ہے جس میں پولیس افسران ایک سیاہ فام شخص کو مارتے دکھائی دے رہے ہیں جسکے بعد اسے گرا کر دبوچ لیا گیا۔
میڈیکل رپورٹ، ویڈیو اور پولیس کے وائرلیس کی ریکارڈنگ جاری ہونے کے بعد کل  واشنگٹن کے گورنر جے انسلی Jay Insleeنے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا حکم دے دیا  جبکہ ٹیکوما کی رئیسہ شہر (Mayor) محترمہ  وکٹوریا ووڈردنے ورادت میں ملوث چاروں افسران کی بر طرفی اور ان سب کے خلاف مقدمہ چلانے کی ہدائت کی ہے۔ اپنی جذباتی تقریر میں افریقی نژاد رئیسہ نے کہا کہ سیاہ فاموں کی زندگی کسی سے کم قیمتی نہیں۔

Thursday, June 4, 2020

یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا


یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
امریکی ریاست مینیسوٹا Minnesotaکے سب سے بڑے شہر منیا پولس Minneapolisمیں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کے بہیمانہ قتل سے پھوٹنے والا ہنگامہ تادم تحریر جاری ہے۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ اسطرح ہے کہ ایک شخص 24 مئی کو منیاپولس کے مرکزی علاقے میں کھانے پینے کی ایک دوکان پر آیا اور چیزیں خریدنےکے بعد اس نے 20 ڈالر کا نوٹ پیش کیا جس پرکیشیر کو جعلی ہونے کا شک گزرا۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح امریکہ میں جعلی سکے چلانا بہت بڑا جرم ہے اور جعلسازی کا شبہ ہوتے ہی پولیس کو اسکی اطلاع اور مشکوک کرنسی فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جعلی کرنسی رکھنے کے الزام میں مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ کیشئر نے پولیس کو فون کردیا۔کپ فوڈ Cup Foodکے نام سے قائم یہ 31 سال پرانی دوکان ایک عرب محمود ابومیالہ کی ہے۔ جہاں کھانے پینے کی دوسری حلال چیزوں کے ساتھ ذبیحہ گوشت فروخت ہوتا ہے۔ اسکے تہہ خانے یا basement میں ایک مسجد بھی ہے۔
 پولیس کے چار افسر جب کپ فوڈ آئے تب تک مبینہ ملزم دکان سے باہر جاچکا تھا۔ افسران نے کیشئر سے ملزم کا حلیہ پوچھااور دکان سے چلے گئے۔ دکان کے باہر ایک 40 سالہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کھڑا تھا جسکو افسران نے دبوچا اور  مشکیں کسنے کے بعد اسے پولیس گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ ہتھکڑیاں لگانے تک جارج نےکوئی مزاحمت نہیں کی لیکن وہ باربار پوچھ رہا تھاکہ اسے گرفتار کیوں کیا گیا ہے۔ اسکا کہنا تھا کہ میرے جیب اور بٹوے کی پہلے تلاشی تو لے لو، میرے پاس جعلی نوٹ نہیں ہے۔ اس 'سرکشی' پر پولیس افسر ڈیرک شاون Derek Chauvinکامزاج برہم ہوگیا۔ اس نے جارج کو زمیں پر گراکراسکی گردن اپنے گٹھنے سے دبادی۔اسکے باقی تین ساتھی قریب کھڑے لوگوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہ دن کا وقت تھا اس بارونق علاقے میں درجنوں لوگ موجود تھے۔ کپ فوڈ کے ملازمین بھی شور سن کر باہر آئے اور کئی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے سارا منظر فلم بند کرنا شروع کردیا۔
جارج گھٹی گھٹی آواز میں چیخ رہا تھا I can’t  breathیعنی میں سانس نہیں لے سکتا۔ یہ فریاد بعد از مرگ اس مظلوم کاعلامتی نشان اور مظلومیت کا استعارہ قرار پائی۔ بے بسی کی ان چیخوں پر ڈیرک کو منع کرنے کے بجائے ساتھ کھڑا ایک افسر جو چہرے مہرے سے ایشیائی نژاد لگتا تھا جارج کو relaxکی تلقین کرنے لگا۔ بے نیازی سے اپنا ایک ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈالے ڈیرک اسکی گردن پر سوار رہا۔ پانچ منٹ کے بعد I can’t breathکی چیخیں مدہم ہوئیں اور چھ منٹ بعد جارج کا جسم بے حس و حرکت ہوگیا۔ وہاں موجود لوگوں نے افسر سے کہا یہ مرچکا ہے اسکو چھوڑ دو لیکن ڈیرک نے مجمع کی طرف فخریہ انداز میں دیکھتے ہوئے اسکی گردن پر دباو برقرار رکھا اور جب 9 منٹ بعد ڈیرک کھڑا ہوا تو جارج کا جھاگ سے بھرا منہہ ایک طرف کو ڈھلک گیا۔  
ہمیں یقین ہے کہ یہ پیراگراف پڑھتے ہوئے قارئین کی آنکھیں بھیگ گئی ہونگی۔لیکن  یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اسرائیلی مقبوضہ عرب علاقوں میں گلا گھونٹنے کا یہ انداز بہت عام ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خیال ہے کہ زمین پر لٹاکر محدود دورانئے کیلئے گلا دبانے سے دماغ کو وقتی طور پر خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے جسکی بناپر سر چکرانے لگتا ہے اور  خوف و گبھراہٹ کے علاوہ عضلات بھی کمزور پڑجاتے ہیں جس سے بغاوت کا سودا کافور ہوجاتا ہے۔غالبا اسی تیکنیک سے یہ افسر جارج کا مزاج درست کررہا تھا اور سرِ راہ  ' آپریشن' سے وہاں موجود لوگوں کو عبرت دلانی مقصود تھی کہ اس علاقے میں سیاہ فاموں کی اکثریت ہے۔
منیا پولس میں بہت بڑی تعداد میں صومالی پناہ گزین آباد ہیں۔ امریکی تاریخ کا پہلا مسلمان رکن کانگریس منیا پولس سے ہی منتخب ہوا تھا جب جناب کیتھ ایلیسن 2006 میں 56فیصد ووٹ لے کر واشنگٹن پہنچےاورانکے ووٹروں نے مسلسل پانچ بار ان پر اپنے اعتماد کی تجدید کی۔ 2018 میں جب کیتھ ایلیسن نےریاست کا اٹارنی جنرل بننے کا فیصلہ کیا تو انکی خالی کردہ نشست پر صومالی نژاد الحان عمر رکنِ کانگرس منتخب ہوگئیں۔
یہ امریکہ میں کسی سیاہ فام کی ہلاکت کا پہلا واقعہ نہیں اور پولیس و نسل پرست عناصر کے ہاتھوں سیاہ فاموں کی موت روزمرہ کا معمول ہے۔ امریکہ کے مشہور ماہر عمرانیت ڈاکٹر فرینک ایڈورڈز نے ان اعداو شمار پر بہت عرق ریزی سے کام کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ رجرز (Rutgers university) سے وابستہ ہیں جسکا سماجی علوم میں بڑا مقام ہے۔ انھوں نے 2013 سے 2018 تک پولیس مقابلوں میں کے اعدادوشمار کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ امریکہ میں سیاہ فام مرد کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کا امکان 1 فی ہزار ہے۔ اس حوالے سے پولیس کے ہاتھوں سفید فاموں کے مارے جانے کا امکان ڈھائی گنا کم ہے۔تجزئے کے مطابق ہسپانیوں، امریکی فرزندانِ زمین المعروف ریڈ انڈین اور سیاہ فام خواتین کا پولیس مقابلے میں مارے جانے کا امکان بھی گوروں کےمقابے میں زیادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ایک سیاہ فام کیلئے لاٹری  جیتنے سے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کا امکان زیادہ ہے۔ اس موقع پر امریکی سیاہ فاموں کی تاریخ پر ایک نظر سے اس مظلوم لیکن جفاکش و تنومند قوم کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ 
امریکہ میں افریقیوں کی آمد کا آغاز1619 میں ہوا جب افریقہ کے ساحلوں سےہزاروں کی تعداد میں غلام پکڑ کرلائے گئے۔بعض مورخین کا کہنا ہے کہ سیاہ فام غلاموں کی امریکہ آمد کا سلسلہ 1555میں شروع ہوا جب سیرالیون سے پکڑے ہوئے غلام امریکہ میں فروخت کئے گئے۔ افریقہ کے ساحلوں سے پکڑے ہوئے غلام 'گلوں' کی صورت میں پہلے ہالینڈ کی بندرگاہوں پر پہنچائے جاتے جہاں سے بحر اوقیانوس کے راستے انھیں امریکہ لایا جاتا تھا۔ اسی بنا پریہ گھناونا کاروبار Atlantic Slave Tradeکہلاتا تھا۔ افریقہ سے براہ راست امریکہ آنے والا غلاموں سے لدا پہلا جہاز 1619 میں ورجنیا میں لنگر انداز ہوا۔ اسکے بعد سے 'افریقیوں کا شکار' ایک قومی کھیل بن گیا۔ غلاموں کی تجارت اور ہلاکوو تیمور جیسے غارتگروں کے ہاتھوں مفتوحہ آبادیوں کو غلام بنانے کی مثالیں موجود ہیں مگر یہاں طریقہ وارادت بالکل ہی انوکھا تھا کہ جہاز ساحل پر لنگرانداز ہوتے اور مسلح قزاق بستیوں کو منہہ اندھیرے گھیرلیتے اورعورتوں بچوں سمیت سارےلوگ ہانک کر جہاز پر لاد دئے جاتے۔ دوران سفر مردوں اور عورتوں کو علیحدہ کرکے یہ  قزاق کمسن بچیاں آپس میں تقسیم کرلیتے اور پھر انکے  درمیان'کثرت اولاد' کا مقابلہ ہوتا تاکہ غلاموں کی نئی کھیپ حاصل کی جائے۔ 
1898 تک ایک کروڑ افریقی ہالینڈ لے جائے گئے۔ سفر کے دوران تشدد، بیماری اور دم گھٹنے سے 20لاکھ سے زیادہ غلام ہلاک ہوگئے جبکہ 'گڑبڑ' کرنے والے بہت سے سرکش غلاموں کو انکے پیروں میں وزن باندھ کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ زیادہ تر غلام بحر احمر اور افریقہ کے مغربی اور وسطی ساحلوں سے پکڑے گئے۔ ان غلاموں کی نصف تعداد نائیجیریا کے علاقے بیافرا، گبون اور سیرالیون کے باشندوں پر مشتمل تھی۔اسکے علاوہ سینیگال، لائیبیریا، کانگو اور گھانا کے لوگ بھی پکڑے گئے۔ بحراحمر سے آنے والے قزاقوں نے سوڈانیوں اور حبشیوں کا شکار کیا۔ عمدہ خدوخال کی بنا پر حبشی بچیاں ان اوباشوں کو بہت محبوب تھیں۔ پکڑے جانے والے افریقی غلاموں کی ایک تہائی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی تاہم شمالی امریکہ میں اسلام کولمبس کے آنے سے پہلے ہی پہنچ چکا تھا اور قدیم انڈین قبائل میں بھی مسلمان موجود تھے۔
ان غلاموں کی فروخت کیلئے ورجنیا، شمالی کیرولینا۔ جنوبی کیرولینا اور جارجیا میں غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئیں۔ اسوقت امریکہ بحراوقیانوس کے ساحل پر واقع ان 13 کالونیوں پر مشتمل تھا جنھوں نےبرطانیہ سے آزادی کا اعلان کردیا تھا۔ 1776 میں انھیں 13 کالونیوں نے ریاستوں کی شکل اختیار کرکے ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا USAکی شکل اختیار کرلی ۔امریکہ کے پرچم پر  13 سرخ و سفید پٹیاں انھیں ابتدائی ریاستوں کو ظاہر کرتی ہیں۔1625 میں ان کالونیوں کی مجموعی آبادی 1980 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 1660 تک غلاموں کی تعداد 2000 سے زیادہ ہوگئی یعنی عددی اعتبار سے غلام مالکوں سے زیادہ تھے جنھیں قابو میں رکھنے کیلئے بدترین ہتھکنڈے اور ظلم کے ضابطے وضع کئے گئے۔ سرکشی کی فوری سزا پھانسی تھی۔ جلادی کا کام 'مجرم' کے خونی رشتے دار سے لیا جاتا تھا یعنی بھائی اپنے بھائی کو یا باپ اپنے بیٹے کو پھندہ لگاتا۔ اس دور میں get the ropeیعنی (پھانسی کیلئے) رسی لاو دھمکی کا استعارہ تھا جو اب بھی یہاں ضرب المثل ہے۔ پھانسی کے علاوہ بورے میں بند کرکے ڈنڈوں کی ضربات سے  مارڈالنا، خنجر بھونک کر ہلاک کرنا،  زندہ جلانا، غلامو ں کوتیزاب کے ڈرم میں ڈال دینا اور پیروں میں وزن باندھ کر دریابرد کردینا بھی اس دور کی عام سزا تھی۔ بس یوں سمجھئے کہ افریقہ سے پکڑکر امریکہ لائے جانیوالے غلاموں پر جو مظالم توڑے گئے اسکا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
کم آبادی کی وجہ سے پولیس کا انتظام نہ تھا چنانچہ غلاموں کی نگرانی کیلئے خونخوار کتے سدھائے گئے ۔ رات کے وقت ان غلاموں کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھا لیکن دن کو کام کے دوران بیگاری کے وقت انکی نگرانی کتے کرتے تھے۔ یہ کتے ان غلاموں کے چوکیدار  تھے اور حکم عدولی کی صورت میں 'مجرم' کو کاٹ اوربھنبھوڑ کر جلادی کے فرائض بھی انجام دیتےتھے۔ پولیس نہ تھی اور رات کو گلیوں میں گشت کرتے تربیت یافتہ کتے اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ کوئی غلام بھاگنے نہ پائے۔ ایک زمانے تک سیاہ فاموں میں کتوں کی  دہشت تھی۔ اب بھی امریکہ میں کئی جگہ گھروں کے عقبی دروازوں پر Beware of Dogکے بورڈ لگے ہوتے ہیں۔ اسکا آغاز اسی مفروضے پر ہوا تھا کہ چور و ڈاکو سیاہ فام ہوتے ہیں جنکو خوفزدہ کرنے کیلئے کتے کا بورڈ ہی کافی ہے۔جمعہ کو جب مظاہرین وہائٹ ہاوس کے سامنے جمع ہوئے تو صدر ٹرمپ بھی کتے چھوڑنے کی دھمکی دیکر سیاہ فاموں کیلئے ذلت کا یہ استعارہ زبان پر لے آئے۔
زیادہ تر سیاہ فام تنومند، مضبوط اور محنتی تھے اور امریکہ کی تعمیر انھیں غلاموں کے خون پسینے کی مرہون منت ہے۔ یہ افرادی قوت بالکل مفت میسر تھی اسلئے تعمیراتی منصوبے کی لاگت بہت کم  رہی اور امریکہ میں تعمیری منصوبے تیزی سے مکمل ہوئے۔ صدارتی محل یا وہائٹ ہاوس کی تعمیر کیلئے ٹھیکیداروں نے سیاہ فام غلام فرہم کئے۔ ریکارڈ کے مطابق 1792 سے 1800 تک یہاں جن 307غلاموں نے کام کیا انکے مالکان کو بھاری معاوضہ دیا گیا۔ 2016میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی پہلی سیاہ فام خاتون اول مشل اوبامہ نے کہا کہ 'ہر صبح جب میں بیدار ہوتی ہوں تو درودیوار دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ عظیم الشان عمارت بیگار میں لائے گئے سیاہ فام غلاموں نے تعمیر کی ہےجنھیں انکی محنت کا کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا'   
سیاہ فام 1619 سے 1863 تک کامل غلامی میں رکھے  گئے اور 1863 میں غلامی کے خاتمے کے بعد بھی 'غیر قانونی' غلامی کا سلسلہ جاری رہا۔سیاہ فام بدترین نسلی تعصب اور حقارت کا نشانہ بنائے گئے اور انکی کئی نسلیں بدترین ناانصافی کاشکار رہیں۔ جسکے اثرات اج تک نمایاں ہیں۔
منیا پولس میں جو ہوا اسکی بنیادی وجہ پولیس کی فکری اٹھان ہے۔ قیام امریکہ کے بعد جب پولیس کی تشکیل ہوئی اسوقت شعبے کی بنیادی ذمہ داری غلاموں پر نظر رکھنا تھا۔ مٹر گشتی کرنے والا ہر سیاہ فام مشکوک سمجھا جاتا جس سے پوچھ گچھ پولیس افسر کی ذمہ داری تھی۔ اس دوران ہلکی سی مزاحمت پر گولی ماردی جاتی تھی۔ سیاہ فاموں کے بارے میں یہ تاثر پولیس کے دماغ میں آج بھی راسخ ہے۔ حتیٰ کہ پولیس کے سیاہ فام افسران بھی اسی انداز میں سوچتے ہیں۔افریقی امریکیوں پر بلااشتعال فائرنگ میں گوروں ساتھ سیاہ فام افسران بھی پیچھے نہیں۔ اپنی نسل کے بارے میں منفی تاثر کا ذکر کرتے ہوئے سابق صدر اوباما نے کہا کہ میں بھی جب سڑک پر چلتاہوں تو قریب سے گزرنے والی سفید فام خواتین اپنے پرس مضبوطی سے تھام لیتی ہیں۔
امریکی معاشرے نے سیاہ فاموں کو اب تک برابر کا شہری تسلیم نہیں کیا۔ افریقی امریکیوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ ڈالنے کا تناسب 75 فیصد سے زیادہ ہے لیکن ڈیموکریٹس کو بھی بلیک سے بجائے بیلیٹ سے دلچسپی ہے۔نسلی امتیاز و ناانصافی کی بنا پر سیاہ فام دنیا کے امیر ترین ملک کے غریب ترین شہری ہیں۔ انکی آبادیاں تعلیم و صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرونا وائرس سے ہلاک ہونے ساٹھ فیصد سے زیادہ سیاہ فام ہیں۔ غربت و ناداری کیساتھ پولیس کے متعصبانہ روئے نے ان بدنصیبوں کی زندگی مزید مشکل بنادی ہے۔
جارج فلائڈ کے قتل پر ملک گیر مظاہرے کے باوجود اس مسئلے کے مستقل اور ٹھوس حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی کہ منظم انداز میں ملزمان کو بچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ کاونٹی کے اٹارنی جنرل نے مرکزی ملز م کے  خلاف تیسرے درجے کے قتل کا مقدمہ درج کیا جبکہ وہ  باقی تین افسران کی صرف برطرفی ہی کو کافی قرار دیتے رہے ۔ کاونٹی کے شعبہ صحت نے پوسٹ مارٹم کی جو ابتدائی رپورٹ جاری کی اسکے مطابق '(لاش کے معائنے سے) ایسے شواہد نہیں ملے جس سے اندازہ ہو تا ہوکہ جارج فلائڈ کی موت سانس رکنے یا گلا گھٹنے سے ہوئی ہے۔ مقتول کی پہلے سے خراب صحت (فشارخون) اور ممکنہ خمار کی حالت میں مضبوط گرفت انکی موت کا سبب معلوم ہوتا ہے'
وہ تو بھلا ہو ریاست کے ریاست مینیسوٹا Minnesota  کے مسلمان اٹارنی جنرل  کیتھ ایلیسن کا جنھوں نے معاملے کو کاونٹی سے ریاست منتقل کرتے ہوئے بڑے ملزم کی فرد جرم میں اسے تیسرے درجے کے بجائے دوسرا درجے کا قتل یا Second Degree Murder درج کردایا۔تیسرے درجے کا قتل قتلِ خطا جبکہ دوسرا درجہ جان بوجھ کر بلا اشتعال  قتل یا قتلِ عمد ہے۔موقعہ پر موجود باقی تین افسروں کے خلاف تیسرے درجے یا اعانت قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ۔ان تینوں کو گرفتاربھ کرلیا گیا جبکہ بڑا ملزم پہلے ہی حراست میں ہے۔اگر عدالت میں دوسرے درجے کا قتل ثابت ہوگیا تو عمرقید ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف پسماندگان کی درخواست پر لاش کاایک نجی ہسپتال سے پوسٹ مارٹم کروایا گیا جسکے مطابق جارج کی موت دم گھٹنے کے باعث ہوئی۔ تاہم نسلی تعصب سے آلودہ ریاستی مشنری اور پیچیدہ عدالتی نظام کی موجودگی میں کیتھ ایلیسن اس بہیمانہ قتل کے ذمہ داروں کو قرارواقعی سزا دلوانے کے حوالے سے بہت زیادہ پرامید نہیں۔
مظاہروں کے دوران لوٹ مار اور تشدد کے الزام میں سینکڑوں نوجوان حراست میں ہیں۔ صدرٹرمپ چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف  بلوہ، آتشزنی اور قیمتی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ قائم کرکے عدالتوں سے دس سال قید کی درخواست کی جائے۔ اس وقت بھی امریکی جیلوں میں بند ساٹھ فیصد سیاہ فام ضمانت پر رہائی کے مستحق ہیں لیکن رقم نہ ہونے کی بناپر یہ لوگ جرم بیگناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس سلسلے میںCNNکے نمائندے وین جونز Van Jonesکی ایک چشم کشا بلکہ روح فرسا روداد نذر قارئین ہے
ایک 16 سالہ سیاہ فام بچہ دوکان سےچند ڈالر کی کوئی چیز چوری کرنے کے الزام میں گرفتار ہوا۔ عدالت نے اسے 3000 ڈالر ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا لیکن اس رقم کا بندوبست نہ ہوسکا اور یہ غریب جیل میں بند رہا۔ اس دوران اس سے جنسی زیادتی کی گئی۔ جانوروں کی طرح پیٹا گی۔ اس غریب نے ہولناک قیدِ تنہائی کا عذاب جھیلا اور 3 سال بعد عدالت نے اسے باعزت بری کردیا۔ جیل کے تشدد نے بچے کو نفسیاتی مریض بنا دیاتھا اور رہائی کے دوسال بعد اس نے خودکشی کرلی۔امریکی جیلوں میں نظربند ایسے بیگناہوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور لگتا ہے کہ حالیہ مظاہروں میں گرفتار ہونے والے سینکڑوں نوجوانوں کو قیدوبند کاایسا ہی عذاب سہنا پڑیگا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 4 جون 202
ہفت روزہ  دعوت دہلی