لیبیا!! زمینی صورتحال
احباب
لیبیا کے سیاسی حال و احوال کے بارے میں اکثر دریافت کرتے رہتے ہیں۔ توانائی،
عالمی سیاست اور جغرافیہ کے طالب علم کی حثیت سے ہمیں بھی اس سے بہت دلچسپی ہے۔ اس
حوالے سے احباب ہمارے دومضامین کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں
ہفت روزہ دہلی 31 مئی 2020
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل 15 مئی 2020 (فیس بک پر بھی موجود ہے)
آج کچھ گفتگو تازہ ترین زمینی صورتحال پر
جیسا
کہ آپ نقشے میں دیکھ سکتے ہیں، گزشتہ چند ہفتوں کے درمیان وفاقی حکومت کی پئے در
پئے عسکری کامیابیوں کے باجود اب بھی 90 فیصد لیبیا پر باغیوں کا قبضہ ہے۔ لیکن
معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ یہاں 17 لاکھ 59 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر صرف 69 لاکھ
نفوس آباد ہیں۔ اسکے مقابلے میں پاکستان کا رقبہ اسکے نصف یعنی 8 لاکھ 82
ہزار مربع کلومیٹر کے قریب ہے اور آبادی 22 کروڑ سے زیادہ۔لیبیا کا بڑا حصہ غیر
آباد صحرا پر مشتمل ہے۔ تاہم تپتا ہو اصحرا زرخیز زمیں سے زیادہ قیمتی ہے کہ
اسکی تہوں میں قدرت نے تیل، گیس اور گرانقدر معدنیات کے ذخائر چھپا رکھے
ہیں۔ ملک کی زیادہ تر آبادی بحر روم کے ساحل پر مشرق میں طبرق اور مغرب میں
طرابلس، سرت، ترہونہ میں ہے۔ جنوب مشرق میں مصر کی سرحد پر الجوف اور جنوب مغرب
میں الجزائر سے متصل غات بھی بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ فوجی چھاونیاں، سول و
فوجی ہوائی اڈے اور تیل و گیس کی تنصیباب تیونس کی سرحد کے قریب ساحلی علاقوں میں
ہیں۔
اس
پس منظر میں اگر آپ منسلک نقشے کو دیکھیں تو آپکو اندازہ ہوگا کہ کنڑول کے اعتبارسے
ملک کا عصبی مرکز شمالی مغربی لیبیا ہے جہاں اس وقت لڑائی ہورہی ہے اور اگر لیبیا
حکومت کے دعوے درست ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک پر وفاقی حکومت کی گرفت مضبوط ہوتی
جارہی ہے۔
چند سطور مشرق و مغرب تقسیم پر
20
اکتوبر
2011 کو جب ملک گیر تحریک کے دوران کرنل قذافی ایک مسلح جتھے کے ہاتھوں ماردئےگئے
تو ملک کا سارانظام درہم برہم ہوگیا اور قبائلی سردار ایک دوسرے کےمد مقابل آگئے۔
اچھی بات یہ ہوئی کہ فوج نے موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے سیاسی عمل کی حمائت
جاری رکھی۔ ایک سال کے اندر یعنی 7 جولائی 2012کو پارلیمانی
انتخابات ہوئے اور جرنیلوں کی کونسل نے اقتدارمنتخب نمائندوں کو سونپ دئے۔
نئی نویلی جمہوریت کئی آزامائشوں سے دوچار رہی۔
جون
2014 کو پارلیمانی انتخابات کے بعد اسمبلی کے افتتاحی
اجلاس میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ ارکان کے ایک گروپ نے اسمبلی کی عمارت پر قبضہ
کرکے مخالفین کو نکال دیا۔ یہاں سے نکلے ہوئے ارکان نے مشرق میں مصر کی سرحد پر
ساحلی شہر طبرق میں اسمبلی لگالی۔ متوازی اسمبلیوں نے قوت کے حصول کیلئے عسکریت پسندوں
سےتعلقات استوار کرلئےاور یہیں سے 'امریکی شہری' خلیفہ حفترنے انٹری ڈالدی۔ انکی
سربراہی میں لیبیا نیشنل آرمی (LNA) بنوائی گئی۔جنرل
حفتر ملک کو اسلامی بنیاد پرستی المعروف اخوان المسلمون کے مقابلے کیلئے سیکیولر نجات
دہندہ بن کر آئے تھے چنانچہ طبرق اسمبلی نے حفتر ملیشیاکوگود لے لیا۔ آنا
فانا حفتر ملیشیا کو میزائیل بردار کشتیوں، چینی ساختہ ڈرون سمیت جدید ترین اسلحے
سے لیس کردیا گیا۔2015کے آغاز میں مصری فضائیہ نے بمباری کرکے مشرقی لیبیاپر
طبرق اسمبلی کی گرفت مضبوط کردی۔
17
مارچ
2015کو طرابلس اسمبلی، طبرق اسمبلی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے درمیان وفاق الوطنی
یا GNAکے نام سے ایک وسیع البنیاد حکومت کا معاہدہ طئے
پاگیا جسکی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ توثیق کردی۔ بحث مباحثے کے بعد وزیراعظم
کیلئے فائز السراج کے نام پر اتفاق ہوگیااور فائز انتظامیہ نے طرابلس آکر اقتدار
سبنھال لیا۔
مصر،
روس، اسرائیل، یونان، فرانس اور سب سے بڑھ کر متحدہ عرب امارات کی شہہ پر طبرق
اسمبلی نے وفاقی حکومت کا تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور حفتر ملیشیا نے روسی
فضائیہ، فرانسیسی بحریہ اور ڈرون کی مدد سے طرابلس کے مضاٖفات سے تیونس کی سرحد تک
بڑے علاقے ہر قبضہ کرلیا۔ تاہم داارلحکومت طرابلس وفاقی حکومت کے قبضے میں
رہا۔
صدر
ایردوان بھانپ گئے کہ لیبیا بہانہ اور ترکی اصل نشانہ ہے چنانچہ وہ بھی کھل کر
وفاقی حکومت کی مدد کو آگئے۔ اس معاملے کو ترکی کو اخلاقی برتری حاصل ہے کہ وہ
دہشت گردوں کے مقابلے میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کی حمائت کررہا ہے۔
لب
لباب یہ ہے کہ اسوقت عملی طور پر ملک کا 80 فیصد حصہ حفتر ملیشیا اور طبرق اسمبلی
کے قبضے میں ہے لیکن ملک کے عصبی مرکز پر وفاق کی گرفت روزبروز مضبوط ہوتی جارہی
ہے۔ اگر لیبیا کی فوج فزان صوبے میں واقع الجفرا کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے میں
کامیاب ہوگئی تو حفتر ملیشیا بے بس ہوجائیگی۔ یہ اڈا روسیوں کے زیرانتطام ہےجہاں
چینی ڈرون کے علاوہ جدید ترین مگ اور فرانسیسی ساختہ میراج موجود ہیں۔اس اڈے
سے محرومی کی صورت میں حفتر ملیشیا کیلئے تیل کے ذخائر پر
قبضہ اور تنصیبات کی ناکہ بندی ناممکن اور طبرق انتظامیہ مالی وسائل سے محروم
ہوجائیگی جسکے بعد لیبیا کی فوج طبرق تک موٹر سائیکلوں پر بھی پیش قدمی
کرسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment