Monday, June 29, 2020

امریکی انتخابات


امریکی انتخابات  
ہفتے کو امریکی ریاست اوکلاہوما کے دوسرے بڑے شہر ٹلسہ میں ایک جلسہ عام سے صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا۔ امریکی صدر کا پہلا جلسہ بہت زیادہ کامیاب نہ رہا۔ صدرٹرمپ کے قریبی حلقے دعوی کررہے تھے کہ امریکہ بھر سے 10 لاکھ افراد نے جلسے میں شرکت کی خواہش ظاہر کی ہے۔ جگہ نہ ملنے کے خوف  سے انکے سینکڑٖوں حامی کئی دن پہلے سے جلسہ گاہ کے آگے خیمے لگاکر بیٹھ گئے لیکن جب کاروائی شروع ہوئی تو جلسہ گاہ ایک تہائی سے زیادہ خالی تھی۔ فائر ڈپارٹمنٹ نے تخمینہ ظاہر کیا ہے کہ 19 ہزار کی سماعت گاہ میں صرف سات ہزار افراد بیٹھے تھے۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کرونا کے خوف سے لوگوں نے جلسہ گاہ آنے کے بجائے گھر بیٹھ کر صدر کا خطاب سننے کو ترجیح دی۔ تاہم روائتی سیاستدانوں کی طرح صدر ٹرمپ نے مجمع کو ٹھاٹھیں مارتا سمندر کہہ کر دو گھنٹہ خطاب کیا۔
اب تک دونوں بڑی جماعتوں نے سرکاری طور پر اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیااور کرونا وائرس کی وجہ سے قومی اجتماعات کا اہتمام مشکل نظر آرہا ہے جس میں پارٹیاں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔خیال ہے کہ یہ اجتماعات اس سال ویڈیولنک کے ذریعے ہونگے۔ پرائمری انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے  صدر ٹرمپ کا مقابلہ سابق نائب صدر  جو بائیڈن کرینگے۔ جناب بائیڈن نے اب تک نائب صدر کیلئے اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔ وہ بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ ایک خاتون انکی نیابت کرینگی اور سیاہ فاموں میں پھیلی حالیہ بیچینی کے پیش نظر خیال ہے کہ قرعہ فال کسی خاتون سیاہ فام رہنما کے نام نکلے گا۔
اس سال 3 نومبر کو صدارتی انتخابات کے ساتھ ہی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی جملہ 435 اور سینیٹ کی 35 نشستوں کے علاوہ 13 ریاستوں میں گورنروں کا چناو ہوگا۔اسی دن بلدیاتی اور مقامی قیادتوں کیلئےبھی میدان سجے گا۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات کا نظام دوسرے ملکوں سے مختلف ہے جسکی وجہ یہاں کا منفرد وفاقی نظام ہے۔ امریکہ 50 آزاد و خود مختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی  ہر ریاست کا اپنا دستور، جھنڈا اورمسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح بااختیار ہیں۔امریکی صدر وفاق کی علامت اور اسکی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے اور اس مقصد کیلئے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral-Collegeتشکیل دیا گیا ہے۔ اس موقع پر امریکہ کے کلیہ انتخاب کا ایک مختصر سا تعارف قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔
کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اسکی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اور یہ اس ریاست کیلئے ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کیلئےمختص نشتوں کے برابر ہے۔ امریکہ میں ایوان نمائندگان کی نشتیں آبادی کے مطابق ہیں جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر ریاست سے سے دو دو سینیٹرز منتخب کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کیلئے انتخابی کالج میں تین ووٹ ہیں۔گویا کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے۔ الیکٹرل کالج کی ہیت کو اسطرح سمجھئے کہ ٹیکسس (Texas) سے ایوان نمائیندگان کے 36 ارکان منتخب ہوتے  چنانچہ 2 سییٹرز کو ملاکر انتخابی کالج میں ٹیکسس کے 38 ووٹ ہیں۔انتخابی کالج میں سب زیادہ ووٹ کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 55 جبکہ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ڈلوئر، ورمونٹ اس اعتبار سے بہت چھوٹی ہیں جنکے صرف تین تین ووٹ ہیں۔ الیکٹرل کالج میں 'سارے ووٹ جینتے والے کیلئے' کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی اس ریاست سے انتخابئ کالج کیلئے مختص سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دئے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 55 الیکٹرل ووٹ اسے مل جائینگے۔ صرف ریاست مین Maine اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹرل ووٹ ایوان نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کئے جاتے ہیں ورنہ باقی سارے امریکہ میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ دلچسپ بات کہ اس سال  3 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کیلئے 14 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹرل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کیلئے ووٹ ڈالینگے۔ ووٹنگ کے بعد نتائج مرتب کئے جائینگے اور اسے ایک بکس میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائیگا۔6 جنوری 2021 کو سینیٹ کے چیئرمین کی نگرانی میں تما م ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر صدارتی انتخاب کا سرکاری نتیجہ مرتب کیا جائیگا۔ یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ قانونی طور سے الیکٹرل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود گزشتہ دوسو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جب الیکٹرل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔
2016 کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو مجموعی یا پاپولر ووٹوں کے اعتبارسے ڈانلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کئے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹرل ووٹوں کی تعداد کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔اس سلسلے چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کہ مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے
امریکی دارالحکومت میں ہلیری کلنٹن نے 90 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہاں مختص 3 الیکٹرل ووٹ اپنے نام کرلئے، جبکہ مشیگن میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں صدر ٹرمپ کو صرف 10703یا 0.23فیصد ووٹوں کی برتری کے عوض 16 انتخابی ووٹ مل گئے۔کچھ ایسا معاملہ فلورڈا ور پنسلوانیہ میں ہوا جہاں باالترتیب 1.2اور 0.7فیصد برتری کے عوض 49 الیکٹرل ووٹ صدر ٹرمپ کے کھاتے میں لکھ دئے گئے۔ دوسری طرف 0.3فیصد کی معمولی سے برتری حاصل کرکے ہلیری نے نیوہیمپشائر انتخابی کالج کے 4 ووٹ حاصل کرلئے۔
انتخابی نظام پر اس مختصر سی گفتگو کے بعد اب  متحارب امیدواروں کا مختصر سا تعارف  
ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ ددھیال کی جانب سے جرمن نژاد ہیں جبکہ انکی والدہ صاحبہ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے ہے۔ ہم نے انکے خاندانی پس منظر کا ذکر اسلئے کیا کہ موصوف کو غیر ملکی تارکین وطن کا امریکہ آنا سخت ناپسند ہے حالانکہ انکے داداجان 16 برس کی عمر میں امریکہ آئے تھے اور انکی اسکاٹش والدہ محترمہ ماریہ مکلیوڈ 17 برس کی عمر میں سیاح کی حیثیت سے امریکہ شریف لائیں اور انکے والد کے عشق میں مبتلا ہوکر یہیں کی ہورہیں۔ اس اعتبار سے  ٹرمپ صاحب تارکین وطن کے پوتے اور بیٹے ہیں۔ شریک حیات کے انتخاب مں بھی صدر ٹرمپ نے غیر ملکی خواتین کو ترجیح دی۔انکی موجودہ اہلیہ میلانیا سلوانیہ (سابق یوگو سلاویہ) سے امریکہ تشریف لائی تھیں اور انکی پہلی اہلیہ ایواناکا تعلق چیکوسلاواکیہ سے تھا۔
حالیہ نامراد کرونا وائرس کی طرح دنیا 1918 میں بھی ایک خوفناک متعدی مرض کا شکار ہوئی تھی ۔ بدترین زکام کی اس وباکو ہسپانوی فلو کا نام دیاگیا جو 1920 تک جاری رہی۔ تقریباً 50کروڑ افراد اس مرض سے متاثر ہوئے جن میں سے 5 کروڑ افراد دم توڑ گئے۔ صدر ٹرمپ کے دادا فریڈرک ٹرمپ بھی اس مرض میں مبتلا ہوکر صرف 49 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ جس کے بعد انکی جوانسال دادی نے اپنے 13 سالہ بیٹے فریڈرک جونیر (صدر ٹرمپ کے والد) کیساتھ مل کر ٹرمپ اینڈ سنز کی بنیاد رکھی جو جلد ہی تعیمرات و جائیداد کی خریدوفروخت کا بہت بڑا ادارہ بن گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے والد کے ساتھ اس کاروبار میں آگئے اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ تفریحی ٹیلی ویژن، ہوٹل، گالف کورس اور ملبوسات کا کام شروع کیا۔ تفریح کی دنیا سے وابستگی کے باوجود ڈانلڈٖ ٹرمپ شراب اور سگریٹ سے مکمل پر ہیز کرتے ہیں جسکی وجہ انکے چھوٹے بھائی کی کثرت مئے نوشی سے ہلاکت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انکے بیٹے بیٹیاں، داماد اور بہو بھی شراب سے اجتناب کرتے ہیں۔ جنگ ویتنام کے دوران مسٹر ٹرمپ نے جھوٹ اور دھوکہ دہی سے لازمی فوجی خدمت سے استثنا حاصل کرلیا۔ مسٹر ٹرمپ کی کاروباری ساکھ  بے حد مشکوک ہے۔ وہ چھ بار خود کو دیوالیہ قرار دے چکے ہیں جسکا بنیادی مقصد قرض کی ادائیگی سے فرار تھا۔ وہ ایک سخت گیر آجر اور مغرور افسر bossکے طور پر مشہور ہیں۔ معمولی باتوں پر زیر دستوں کی توہین اور ملازمتوں سے فراغت انکی عادت ہے۔دفتر میں You-are-firedانکا تکیہ کلام ہے۔تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر، واجبات سے نارواکٹوتی اور ملازمین پر بھاری جرمانے موصوف کا طرہ امتیاز ہے۔گفتگو اور تقریر کے میدان میں انکی صلاحیت واجبی سی ہے۔ ذخیرہ الفاط  بے حد مختصر ہے جسکی بنا پر تقریر کے دوران وہ ایک ہی لفظ کو  بار باردہراتے رہتے ہیں۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کے باب میں بھی جناب ٹرمپ کی شہرت اچھی نہیں۔ وہ بہت فخر سے فرماتے ہیں کہ میں ٹیکس بچانے کیلئے ہر قانونی حربہ استعمال کرتاہوں۔ اصرار کے باوجود مسٹر ٹرمپ اپنے ٹیکس گوشواروں کی اشاعت پر تیار نہیں حالانکہ یہ امریکہ کے صدراتی امیدواروں کے روائت ہے۔
تلون مزاج ٹرمپ اپنی سیاسی وابستگی نظریہ ضرورت کے تحت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ 1980 میں وہ ریپبلکن پارٹی میں تھے اورانھوں نے رونالڈ ریگن کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ رونالڈ ریگن کے بعد وہ صدر (ڈیڈی) بش کے ساتھ رہے لیکن وہائٹ ہاوس کی مبینہ'سردمہری' کے باعث سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ 1999 میں وہ ریفورم پارٹی میں شامل ہوگئے۔ انکی نظریں 2000 کے انتخابات پر تھیں لیکن وہاں خرانٹ سیاستدان پیٹ بوکینن نے انکی ایک نہ چلنے دی چنانچہ 2001 میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کا دامن تھام لیا۔ 2004 میں انھوں نے ڈیموکریٹک کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہوا کا رخ دیکھ دبکے رہنے ہی میں عافیت جانی۔ 2008 میں دوسری ناکام کوشش کے بعد 2011 میں انھوں نےدوبارہ ریپبلکن پارٹی کی رکنیت اختیار کرلی۔ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صدر ٹرمپ کا رویہ خاصہ جارحانہ تھا لیکن ہفتے کو اپنے پہلے جلسہ عام میں مسلمان انکی گل افشانیوں سے کسی حد تک محفوظ نظر آئے اور انھوں نے اپنے مخصوص لہجے میں دانت پیس کر ازلامک ٹیررازم (Islamic Terrorism)کی گردان سے بھی گریز کیا۔ اس بار انکا ہدف بایاں بازو ہے۔ خیال ہے کہ جولائی کے آخر میں صدر ٹرمپ اپنے انتخانی منشور کا اعلان کرینگے جسکے بعد انکی انتخابی حکمت عملی کا ایک تجزیہ پیش کیا جائگا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے 'حتمی متوقع' امیدوار سابق نائب صدر جوزف رابینیٹ  بائیڈن المعروف جو بائیڈن ہیں۔ ہم نے حتمی لکھ کر احتیاط کا حصار اسلئے باندھاہے کہ انھیں اب تک پارٹی ٹکٹ جاری نہیں ہوا تاہم انکی نامزدگی یقینی ہوچکی ہے۔صدر ٹرمپ ملکی معاملات سے بے خبری کی پھبتی کستے ہوئے انھیں خوابیدہ یا Sleepy Joeکہتے ہیں۔ 77 سالہ جو 2009 سے جنوری 2017 تک امریکہ کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ انکا تعلق امریکی ریاست ڈیلاویئر Delawareسے ہے۔جناب بائیڈن کی والدہ آئرش نژاد اور ددھیالی شجرہ فرانس اور انگلستان سے ملتا ہے۔انکے والد تیل کی صنعت سے وابستہ ایک خوشحال تاجر تھے لیکن جو کی ولادت کے وقت انکا کاروبار گھاٹے کا شکار ہوگیا اور ننھے جو کا بچپن سختیوں میں گزرا۔انھوں نے خاصی کم عمری سے معاشی جدوجہد میں اپنے والد کا ہاتھ بٹایا اور یہی وجہ تھی کہ امریکہ کے روائتی سیاستدانوں کی طرح قانون کی اعلیٰ تعلیم کیلئے ہارورڈ, ییل (Yale)یا جامعہ اسٹینفورڈ کا رخ کرنے کے بجائے  انھوں نےنیویارک کی جامعہ سراکیوس (Syracuse University)میں داخلہ لیا، جہاں سے قانون کی سند حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کردی۔ جو بائیڈن کالج کے دنوں میں فٹبال کے کھلاڑی تھے۔
جناب باییڈن کی نظریں زمانہ طالب علمی سے ہی وہائٹ ہاوس پر ہیں۔ انکی سابق اہلیہ آنجہانی نیلا ہنٹر نے اپنی ایک سہیلی کو بتایا کہ پہلی ملاقات میں جو بائیڈن نے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 30 سال کی عمر میں  سینیٹر اور اسکے بعد امریکہ کے صدر بننا چاہتے ہیں۔ نیلا جامعہ سراکیوس میں انکی ہم جماعت اور تعلیم میں جو بائیڈن کی سنجیدگی سے بہت متاثر تھیں۔انھوں نے جناب بائیڈن کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ ان جیسے مخلص، محنتی، پرعزم اور یکسو شخص کیلئے یہ ہدف حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں۔1966 میں دونوں نے شادی کرلی۔  1969 میں 27 برس کے بائیڈن لبرل منشور پرریپبلکن پارٹی کو شکست دیکر بلدیاتی کونسلر منتخب ہوگئے۔ یہ حلقہ ریپبلکن پارٹی کا گڑھ تھا اور قدامت پسندوں کو شکست سے دوچار کرکے جو بائیڈن نے ریاستی سیاست میں اپنامقام بنالیا۔ 
1972کے عام انتخابات میں جو بائیڈن نے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ انکا مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی رہنما کیلب بوگس Caleb Boggsسے تھا جو 1960 سے اس نشست پر کامیاب ہوتے چلے آرہے تھے۔ اس سے پہلے مسٹر بوگس ریاست کے گورنر اور کانگریس کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ تجربےکا فرق یوں سمجھئے کہ جب 1942 میں جو بائیڈن کی ولادت ہوئی اسی سال کیلب بوگس بلدیاتی کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ یعنی جوبائیڈن جس شخص کے مقابلے میں خم ٹھونک کر میدان میں آئے تھے اسکا سیاسی تجربہ موصوف کی مجموعی عمر سے زیادہ تھا۔مسٹر بوگس کے دبدبے کا یہ عالم کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کسی رہنما میں انکا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ وہ صدراتی انتخاب کا سال تھا اور ریپبلکن پارٹی کےصدر رچرڈ نکسن کی مقبولیت بام عروج پر تھی۔جناب بوگس صدر نکسن کے قریبی رفقا میں سے تھے۔ سب سے بڑی بات کہ جو بائیڈن کی جیب  بھی خالی تھی اور اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ مقابلہ بس رسمی ہی سا ہوگا۔ خود جناب بوگس نے بھی جو بائیڈن کو کوئی اہمیت نہ دی اور وہ صدر نکسن کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ جو بائیڈن کی ہمشیرہ ویلیری باییڈن انکی انتخابی مہم کی ناظمہ تھیں۔ انھوں نے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اشتہارات کے بجائے گھر گھر دستک اور گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے جلسوں کی منفرد حکمت عملی اختیار کی۔یہ وہ وقت تھا جب جنگ ویتنام کے حوالے سے عوام میں بیچینی تھی۔ جناب بائیڈن نے ویتنام سے امریکی فوجیوں کی واپسی کو مہم کی بنیاد بنایا اور شدید مقابلے کے بعد 'سرپھرے لڑکے' کے نام سے مشہور جو بائیڈن مسٹر بوگس کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ دلچسپ بات کہ صدراتی انتخاب میں ریاست کے 60 فیصد لوگوں نے صدرنکسن کو ووٹ دیا لیکن سینیٹ کیلئے جو بائیٖڈن نے نکسن کے حمائت یافتہ امیدوار سے 3 ہزار ووٹ زیادہ لے کر یہ نشست جیت لی۔ اسوقت بائیڈن کی عمر 30 سال تھی یعنی انکے طئے کردی ہدف کے عین مطابق۔بلاشبہ یہ انکی عظیم الشان کامیابی تھی لیکن صرف چندہفتوں بعد انکی شدید ترین آزمائش کا آغاز ہوا اور ٹریفک کے خوفناک حادثے میں انکی اہلیہ اور شیرخوار بچی ہلاک اور دو نوں بیٹے شدید زخمی ہوگئے۔ شریک حیات کے انتقال کے بعد دوچھوٹے زخمی بچوں کی تیمارداری کے ساتھ سینیٹ کی ذمہ داری نبھانا مشکل تھا چنانچہ انھوں نے حلف اٹھانے سےپہے ہی استعفیٰ دینےکی خواہش ظاہر کی لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت اور ہمشیرہ کے کہنے پر انھوں نے ارادہ ترک کردیا۔ حلف برداری کی تقریب اس ہسپتال کی عبادت گاہ میں منعقد ہوئی جہاں انکے بچے زیرعلاج تھے۔اس سانحے نے بائیڈن کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کئے اور یہ خدا سے بھی متنفر ہوگئے۔ چند سال بعد انکی ملاقات ایک ماہر تعلیم محترمہ جل جیکبس سے ہوئی جنھوں نے انکی دلجوئی کی۔ جلد ہی یہ ملاقات ایک مخلصانہ رفاقت میں تبدیل ہوئی اور 1977 میں دونوں نے شادی کرلی۔ دوسری طرف انکے بچے بھی مکمل صحتیاب ہوگئے اور جوزف بائیڈن خوش و خرم رہنے لگے۔ وہ سیینٹ کی نشست پر مسلسل 6 بار منتخب ہوئے۔ امریکہ میں سینیٹر کی مدت 6 برس ہے گویا وہ 36 سال تک سینٰنٹ کے رکن رہے۔
اسی کیساتھ انھوں نے امریکی صدارت کیلئے قسمت آزمائی جاری رکھی۔ 1988 کے انتخابات میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کی خواہش ظاہر کی لیکن نوشتہ دیوار پڑھ کر دستبردار ہوگئے۔ اسی دوراں انھیں ایک دماغی عارضہ لاحق ہوا لیکن جلد ہی وہ صحتیاب ہوگئے۔ انھوں نے یکسوئی کیساتھ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں دلچسپی لینی شروع کردی، 2007 میں وہ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ہرموضوع پر بلاتکان اور لایعنی گفتگو کی بناپر  وہ 'باتونی بائیڈن'مشہور ہوئے اور  انکی سنجیدگی مشکوک قرار پائی۔ معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ ساتھیوں نے سنیٹ کمیٹی سے انکی معزولی کی بات شروع کردی۔
اسی دوران 2008 کا صدارتی انتخاب  آپہنچا اور جو بائیڈن وہائٹ ہاوس کا خواب آنکھوں میں سجائے ایک بار پھر صدارتی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ جارج بش کی دوسری مدت ختم ہورہی تھی۔ معاشی حالات خراب تھے اور بیروزگاری عروج پر تھی۔  جنگ عراق کے بارے میں بھی بیچینی تھی اور عام خیال تھاکہ اس بار قصر مرمریں کی کنجی ڈیموکریٹک کے ہاتھ لگ جائیگی۔ انھوں نے بھرپور مہم چلائی۔ وہ پرائمری انتخابات میں تو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے لیکن انکے مخالف بارک اوباما جو بائیڈن کے مدلل انداز گفتگوسے بہت متاثر تھے۔ یہ دونوں سینیٹ میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام چکے تھے چنانچہ نامزدگی یقینی ہوتے ہی بارک اوباما نے جو بائیڈن کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نامزد کردیا۔نائب صدرکی حیثیت سے جوبائیڈن نے بہت ہی اخلاص اور 'فرمانبرداری' سے صدر اوباما کی نیابت کی۔
حالیہ انتخابی مہم کے آغاز پر جو بائیڈن کی پوزیشن اچھی نہ تھی لیکن جنوبی کیرولینا کی کامیابی سے انکی مہم میں جان پڑٰی اور جلد ہی انھوں نے سینیٹر برنی سینڈرز کو پیچھے چھوڑدیا۔ جناب سینڈرز نے سخت مقابلہ تاہم لیکن پئے در پئے شکست کے بعد موصوف جو بائیڈن کے حق میں دستبردارہوگئے۔ فی الحال جوبائیڈن کی توجہ نائب صدر کیلئے اپنے امیدوار کے انتخاب پر ہے۔ خیال ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں یہ فیصلہ ہوجائیگا جسکے بعد انکی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔  انشااللہ آئندہ نشست میں  دونوں جماعتوں کے منشور اور انتخابی مہم کے ساتھ ممکنہ انتخابی نتائج پر بات ہوگی۔   
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 26 جون 2020
ہفت روزہ دعوت دہلی

No comments:

Post a Comment