Thursday, June 11, 2020

مرنے پہ ہمارے عام ہوئی جو جیتے جی ہم کہہ نہ سکے


مرنے پہ ہمارے عام ہوئی جو جیتے جی ہم کہہ نہ سکے
امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کے بہیمانہ قتل سے پھوٹنے والا ہنگامہ اب پولیس کو لگام دینے کی منظم قومی  تحریک میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس وقت امریکہ کو ایک ہی وقت میں تین بڑی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ یعنی کرونا کی وبا جسکی وجہ سے ملکی معیشت دباو میں ہے تو دوسری جانب ملگ گیر مظاہروں سے لاک ڈاون کے بعد کھلنے والے بازار دوبارہ ٹھپ ہوگئے ہیں  اور پھر 5 ماہ بعد ملک میں انتخابات ہونے ہیں۔
 مزید گفتگو سے پہلے گزشتہ نشست میں پیش کی جانیوالی گزارشات کے حوالے ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
مضمون میں کہا گیاتھاکہ 'جارج فلائڈ کے قتل پر ملک گیر مظاہرے کے باوجود اس مسئلے کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی، کہ اب تک اس واقعے کے تمام ملزمان گرفتار نہیں ہوئے، اور بڑے ملزم پر جو مقدمہ بنایا گیا وہ تیسرے درجے کا قتل ہے، یعنی غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کی بنا پر موت یا قتل خطا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق '(لاش کے معائنے سے) ایسے شواہد نہیں ملے جس سے اندازہ ہوتا ہوکہ جارج فلائڈ کی موت سانس رکنے یا گلا گھٹنے سے ہوئی ہے۔ مقتول کی پہلے سے خراب صحت (فشارِ خون) اور ممکنہ خمار کی حالت میں مضبوط گرفت اس کی موت کا سبب معلوم ہوتی ہے'
کالم تحریر کرتے وقت معاملہ ایسا ہی تھا لیکن بعد میں ریاست کے مسلمان اٹارنی جنرل  کیتھ ایلیسن  نے معاملے کو کاونٹی سے ریاست منتقل کرتے ہوئے بڑے ملزم کی فرد جرم میں اسے تیسرے درجے کے بجائے دوسرے درجے کا قتل یا Second Degree Murder درج کردایا جو جان بوجھ کر بلا اشتعال  قتل یا قتلِ عمد ہے۔ اسی کے ساتھ جائے واقع  پر موجود باقی تین افسروں کے خلاف اعانت قتل کا مقدمہ درج کرکے تینوں کو گرفتاربھی کرلیا گیا۔ اسی کے ساتھ پسماندگان کی درخواست پر لاش کاایک نجی ہسپتال سے پوسٹ مارٹم کروایا گیا جسکے مطابق جارج کی موت دم گھٹنے کے باعث ہوئی ہے۔
جارج فلائڈ کی ہلاکت کے خلاف تحریک تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے۔ پہلے دس بارہ دنوں میں جلسے جلوس امریکی داالحکومت واشنگٹن اور چند بڑے شہروں تک محدود تھے جو صدر ٹرمپ کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ ہیں۔ مظاہرین کی غالب اکثریت بھی سیاہ فاموں، مسلمانوں، ہسپانیویوں او رنگدار ایشائیوں پر مشتمل تھی۔اس دوران جلاو گھیراو اور لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے جسے بنیاد بناکر سفید فام انتہا پسندوں کے ساتھ خود صدر ٹرمپ نے  ان مظاہروں پر 'ٹھگوں کے اجتماع' کی پھبتی کسی۔امریکی صدر نے الزام لگایا کہ بائیں بازو کا فاشسٹ گروپ Antifa لوٹ مار کو تحفط دینے کیلئے ان مظاہرو ں کی سرپرستی کرریا ہے لیکن 30 مئی کو ریاست نیواڈا(Nevada)کے شہر لاو ویگاس میں 3 سفید فام دہشت گردوں کو لوٹ مار کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیاگیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے FBIنے ان سابق امریکی فوجیوں کے خلاف وفاقی عدالت میں جو فرد جرم پیش کی ہے اسکے مطابق تینوں کا تعلق انتہا پسند Boogalooگروپ سے ہے جو امریکی دستور کو تسلیم نہیں کرتے اور وفاقی و ریاستی حکومت کو طاقت کے بل پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ بو گلو  گروپ نے کرونا لاک ڈاون ختم کرانے کیلئے  بھی احتجاجی تحریک شروع کرنے کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ بوگلو گروپ کے تربیت یافتہ شرپسند وں نے Black Lives Matter کے جلوسوں میں منیاپولس، نیویارک، لاس اینجیلیس اور دوسرے مقامات پر دوکانوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا۔ آگ لکانے کیلئے یہ دہشت گرد جلد بھڑک اٹھنے والا خاص قسم کا آتشگیر مادہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ بوگلو گروپ کے سرغنوں کی گرفتاری کے بعد مظاہروں کے دوران پولیس سے تصادم کے واقعات تو پیش آرہے پیں لیکن لوٹ مار یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
6 جون کو ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں سفید فام کھل کر سامنے آئے اور بڑے شہروں کے ساتھ دیہی امریکہ میں بھی زبردست مظاہرے ہوئے۔ گورے مظاہرین نے پولیس اصلاحات اور سماجی انصاف کے حق میں نعرے لگائے۔ کئی مقامات پر ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسند رہنماوں نے سیاہ فاموں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے جلوسوں میں شرکت کرکے Black Lives Matter کے نعرے لگائے۔ 2012 میں صدراوباما کے خلاف ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رامنی وہائٹ ہاوس کی طرف مارچ میں شریک ہوئے۔ انہوں نے مظاہرے کے دوران لی گئی اپنی تصاویر ٹویٹر پرBlack Lives Matterپیغام کے ساتھ جاری کیں ۔  فلمسازی کے عالمی مرکز ہالی ووڈ میں بھی زبردست مظاہرہ ہوا اور عالمی شہرت یافتہ فنکاوں نے پولیس اصلاح کیلئے قانون سازی پر زور دیا۔اب شہروں کے ساتھ دیہی امریکہ اور سفید فام آبادیوں میں بھی سماجی انصاف اور پولیس گردی کے خلاف  تحریک  زوروشور  سے جاری ہے۔
امریکہ کے ساتھ نیوزی لینڈ، برطانیہ، برازیل، لبنان، کینیڈا، آسٹریلیا،اٹلی، فرانس، ڈنمارک اور یورپ کے بڑے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے اور Black Live Mattersکے ساتھ 'انصاف نہں تو امن نہیں' کے نعرے لگائے گئے۔ اس تحریک کی عالمی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ 6 جون کو اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں زبردست مظاہرہ ہوا جسکا اہتمام ماحولیاتی آلودگی کیخلاف  سرگرم Meretzیا گرین پارٹی نے کیا تھا۔ میریٹز پارلیمانی حجم کے اعتبار سے بہت ہی چھوٹی جماعت ہے جسکے پاس  120 رکنی کنیسہ (پارلیمان) میں صرف 3 نشستیں ہیں لیکن اسکے مظاہرے میں  ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔اسرائیلیوں نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے Palestinians Lives Matterکے کتبے اٹھارکھے تھے۔ اس دوران مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے مجوزہ الحاق کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے سربراہ نشان ہاروٹز نے کہا کہ علاقے میں امن اور  خوشی و خوشحالی کیلئے اسرائیل و فلسطین کے نام سے دو آزاد و خودمختار ریاست ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ کے حالات سے سبق سیکھنا چاہتے جہاں پولیس کے امتیازی روئے اور  ظلم وتشدد نے سیاہ فاموں کو عدالتی نظام سے مایوس کردیا ہے۔
اس موقعہ پر امریکہ کے مخالفین کو چٹکیاں لینے کا موقع بھی مل گیا۔ چینی کیمونسٹ پارٹی نے امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی اور وزیر خارجہ پومپیوکو باور کرایاکہ چین بھی امریکہ میں ہونے والےمظاہروں کی اسی طرح حمایت کرسکتا ہے جیسےامریکہ نے ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کی تحسین کی تھی۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکی پولیس کو اپنی نسلی اقلیتوں پر  تشدد بند کردینا چاہیے ۔
اس معاملے میں صدر ٹرمپ اپنے روئے سے بہت ہی غیر حساس نظر آئے اور اس بہیمانہ واردات کی کھل کر مذمت کرنے بجائے وہ پہلے دن سے مظاہروں کی مخالفت کررہے ہیں۔ گورنروں سے گفتگو میں انھوں نے دھمکی دی کہ اگر مظاہروں پر قابو نہ پایا گیا تو وہ تحریک کو کچلنے کیلئے فوج طلب کرلینگے۔ مظاہرین کیخلاف دھمکی کوخود امریکی فوج نے بھی پسند نہیں کیا اور اس معاملے پرٹرمپ انتظامیہ اور امریکی فوج کے درمیان غیر محسوس سی خلیج صاف  نظر آرہی ہے۔ ہنگاموں سے متاثر شہروں میں فوج تعیناتی کی وزیردفاع مارک ایسپن نے  کھل کر مخالفت کی۔جب وہائٹ ہاوس کے سامنے موجود پرامن مظاہرین کو  پولیس تشدد سے منتشر کرانے کے بعدصدر ٹرمپ فاتحانہ انداز میں پیدل چلتے ہوئے گرجاگھر کے مرکزی دروازے  پر انجیل  کے ساتھ تصویر کھچوانے آئے تو وزیردفاع اور فوج کے اعلی افسران صدر کے ساتھ  چبوترے پر جانے کے بجائے  سیڑھیوں کے نیچے کھڑے رہے۔اس دوران فوجی افسران وردی کے بجائے سویلین لباس میں تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے سابق وزیردفاع جنرل جیمز میٹس نے الزام لگایا کہ صدر اپنے مخصوص سیاسی نظریات کیلئے ملک کے اتحاد کو داو پر لگا رہے ہیں ۔انکا کہنا تھا کہ مظاہرین اپنے اس حق کا استعمال کررہے ہیں  جو انھیں امریکی آئین نے دیا ہے جسے کچلنے کیلئے فوج کے استعمال   سے جوانوں کے حوصلے متاثر ہونگے۔عوام امریکی فوج کے پشتیبان ہیں اور مقبول عوامی تحریک کو دبانے  کیلئے طاقت کا استعمال خود فوج کیلئے نقصان دہ ہوگا۔ امریکی ٹیلی ویژن CNN سے باتیں کرتے ہوئے امریکی فوج کے سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کولن پاول نے کہا کہ صدر ٹرمپ جھوٹے ہیں اور فوج کو عوام کے سامنے لاکر ماورائے آئین قدم آٹھانا چاہتے ہیں۔ ایک اور سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارٹن ڈیمپسی نے بھی مظاہرین کے خلاف فوج کے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نصف صدی قبل ویت نام جنگ کے خلاف مظاہرے کے دوران  تعیناتی سے فوج پر عوام کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچی جسے بحال کرنے میں کئی دہائیاں صرف ہوئی تھیں۔ سب سے سخت ردعمل سابق وزیرِ خارجہ ٖڈاکٹرکونڈلیزا رائس کا تھا کہ یہ ہمارا ملک ہے جنگ کا میدان نہیں جہاں فوج  اتار دی جائے۔
امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی موت ایک عام سی بات ہے اور ہر قتل کے بعد غم و غصے کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن جارج فلائڈ کے قتل پر ہونے والا ردعمل ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے اور  پولیس کو لگام ڈالنے کیلئے موثر قانون سازی کا مطالبہ زوروں پر  ہے۔ مظاہروں میں پولیس کے بجٹ میں بھاری کٹوتی کے ساتھ نسلی امتیاز اور سماجی انصاف کے باب میں پولس افسران کی خصوصی تربیت پر زور دیا جارہا ہے۔ منیا پولس کی مقامی اسمبلی (بلدیہ) میں  پولیس کے شعبے کو تحلیل کرکے قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے مقامی  پنچائتوں کا نظام ترتیب دینے کی تجویز پیش کردی گئی ہے۔ تٖفصیلات بتاتے ہوئے شہری کونسل کی صدر لیسا بینڈر نے زور دے کر کہا کہ محکمۂ پولیس کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اب ایسا متبادل ترتیب دیا جارہا ہے جسکے ذریعے کمیونٹی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ منیا پولس کے رئیس شہر (میئر) جیکب فرے محکمۂ پولیس کو ختم کرنے کے مخالف ہیں۔ انہوں نےکہا کہ نسل پرستی پر مبنی نظام میں اصلاح ضروری ہے لیکن پولیس کے  پورے محکمے کو ختم کردیا مناسب نہیں۔ امریکہ کے سب سے برے شہر نیویارک کے رئیس شہر بل دی بلاسیو نے کہا کہ   پولیس کے بجٹ میں کٹوتی کرکے بچت کو  سماجی خدمات کیلئے استعمال کیا جائیگا۔
حکومت و سیاسی طبقات کے ساتھ امریکہ کے بڑے تجارتی ادارے بھی ان  مظاہروں سے متاثر نظر آرہے ہیں۔ نیٹ فلکس، گوگل، مائیکرو سافٹ، سٹی بینک، ویلزفارگو بینک اور سپر اسٹورٹارگٹ کی انتظامیہ نے بھرتیوں میں یکساں مواقع کو یقینی بنانے کیساتھ سماجی انصاف کی تحریکوں کی مالی مدد کیلئے بھاری رقوم مختص کرنے کاوعدہ کیا ہے۔
اس تحریک کو عوام میں جو پزیرائی نصیب ہوئی ہے اسکی امریکہ کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔سابق صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ  60 کی دہائی میں شہری حقوق کیلئے جو عظیم الشان تحریک برپاہوئی تھی اسوقت ایسی یکجہتی نظر  نہیں آئی حالانکہ حالیہ تحریک کے مقابلے میں اسوقت تشدد آمیز واقعات بہت کم تھے لیکن انھیں بہت زیادہ اچھالا گیا اور سفید فام امریکیوں کی اکثریت اس تحریک سے الگ تھلگ رہی۔سیاسیات و عمرانیات کے علما کے خیال میں اس غیر معمولی عوامی ردعمل کی بنیادی وجہ وہ ویڈیو ہے جس نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
اس سلسلے میں جہاں پولیس اصلاح، امتیازی سلوک کے خاتمے اور سماجی انصاف کے فروغ کیلئے دوررس اقدامات پر غوروفکر کیاجارہا ہے وہیں گرفتاری کے وقت پولیس کے مخصوص ہتھکنڈوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ جس میں سرفہرست 'گلا گھونٹ گرفت' یا Chokeholdہے۔زیرحراست سرپھرے ملزمان کو تابعدار بنانے کیلئے انھیں زمین پر لٹاکر محدود  دورانئے کیلئے گلا زور سے دبادیا جاتا ہے جس سے پھیپھڑے کو آکسیجن اور دماغ کو خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔اس  بناپر سر چکرانے لگتا ہے اور  خوف و گبھراہٹ کے علاوہ عضلات بھی کمزور پڑجاتے ہیں۔ نتیجے کے طورپر بغاوت کا سودا کافور ہوجاتا ہے۔Chokeholdکا آغاز اسرائیل سے ہوا تھا اور امریکہ و یورپ میں یہ طریقہ عام ہے۔ گلا گھونٹ گرفت کوغیر قانونی قراردینے پر اب اتفاق رائے ہوتا نظر آرہا ہے۔ منیاپولس کے بعد نیویارک اور کیلی فورنیا میں گلا گھونٹ گرفت کو غیر قانونی قراردیدیا گیا ہے۔ 8 جون کو فرانس کے وزیر داخلہ کرسٹوفر کارسٹنر نے سارے فرانس میں زیرحراست ملزموں پر گلا گھونٹ ہتھکنڈے کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے، ہمارے خیال میں Chokehold پر اقوام متحدہ کے  ذریعے ساری دنیا میں پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔
8 جون کو کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاہ فام گروپ یا Caucusنے Justice in Policing act of 2020پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جسکے تحت
·        گلاکھونٹ گرفت غیر قانونی ہوگی
·        پولیس کی بدسلوکی پر مقدمہ قائم کرنے کا طریقہ آسان کردیاجائیگا
·        منشیات سے متعلق پروانہ گرفتاری کی تعمیل کیلئے دروازے پر دستک دئے بغیر گھر میں داخلہ ممنوع ہوگا۔ اس طریق گرفتاری کو no-knock warrantکہتے ہیں۔
·        بدسلوکی کے مرتکب پولیس افسران کا ایک قومی رجسٹر بنایا جائیگا تاکہ ایک شہر سے برطرف یا معطل کیا جانیوالا افسر دوسرے شہر میں پولیس کی نوکری نہ حاصل کرسکے۔
ایوان نمائندگان کے ساتھ سینٹر کوری بوکر اور سینیٹر کملا ہیرس نے بھی اس بل پر دستخط کئے ہیں۔ اس مسودہ قانون کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے کہ اب تک کسی ایک ریپبلکن نے اسکی حمائت کا اعلان نہیں کیا۔ قانون سازی کیلئے بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر کی توثیق ضروری ہے۔اپنی اکثریت کی بنا پر ڈیموکریٹس اس بل کو ایوان زیریں سے تو آسانی سے منظور کروالینگے لیکن سینیٹ میں 53  ریپبلکن کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کی تعداد صرف 47 ہے لہذا کم از کم 4 ریپبلکن سینیٹرزکو ساتھ ملائے بغیر بل کی منظوری ممکن نہیں۔ بل کی منظوری کے بعد بھی صدر ٹرمپ کیلئے اسے ویٹو کرنے کا اختیار موجود ہے جسے غیر موثر کرنے کیلئے 67 سینٹرز کی حمائت درکار ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیانات اور بدن بولی سے تو لگتا ہے کہ انھیں یہ بل پسند نہیں۔
صدر ٹرمپ پولیس کے بجٹ میں کمی کے سخت مخالف ہیں اور وہ خود کو فخر سے صدر برائے لااینڈ آرڈرکہتے ہیں۔ پیر کو انھوں نے پولیس کے معاملات پرغور کیلئے ملک بھر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کا اجلاس طلب کیا۔ جس میں حالیہ مظاہروں اور ان سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔اس بیٹھک میں نائب صدر، اٹارنی جنرل،داماداول جیررڈ کشنر اور اعلی حکام بھی شریک ہوئے۔میٹنگ کے خاتمے پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل و غیر مشروط و پرجوش حمائت کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر پولیس حکام نے صدر ٹرمپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ عملی اعتبار سےاس اجلاس کی حیثیت غیر رسمی مشاورت سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ امریکہ میں  پولیس شہری  انتظامیہ کو جوابدہ ہے۔لیکن صدر ٹرمپ پولیس بجٹ میں کٹوتی اور منیاپولس بلدیہ کی جانب سے شعبہ پولیس کو تحلیل کئے جانے کی قرارداد سے  قدامت پسند طبقے کو ڈرارہے ہیں۔ ایوان صدارت کی پریس سکریٹری محترمہ کیلی مک اینےنی Kayleigh McEnany نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی پولیس کے بجٹ میں کٹوتی اور شعبہ ختم کر کے امریکیوں کی جان خطرے میں ڈالنا چاہتی ہے۔ قدامت پسند میڈیا کی جانب سے یہ بات اس شدومد سے دہرائی گئی کہ صدارے کیلئے در ٹرمپ کے ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن بھی دباومیں آگئے اور انھوں نے ترنت وضاحت فرمائی کہ وہ پولیس میں اصلاح چاہتے ہیں تاہم جناب بائیڈن پولیس بجٹ میں کٹوتی کی حمائت نہیں کرینگے۔نومبر میں صدرٹرمپ کے ساتھ امریکہ کے قانون ساز بھی اپنی نشستیں برقرار رکھنے کیلئے ووٹروں کی منت سماجت کررہے ہیں۔ پولیس اصلاح کے حامیوں  نے دھمکی دی ہے کہ بل کی مخالفت کرنے والے ارکان کانگریس کو انتخاب والے دن پچھتانا پڑیگا۔    
امریکی محکمہ صحت اور سائینسدانوں کو ہزاروں افراد کے اجتماعات پر سخت تشویش ہے۔انھیں کروناکی صورتحال دوبارہ بے قابوہونے کا خدشہ بے چین کئے ہوئے ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق انجہانی جارج فلائڈ بھی کرونا وائرس میں مبتلا تھے۔قومی مرکز برائے انسداد امراض مظاہروں کے درمیان ماسک لگانے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی تلقین کررہا ہے لیکن جذباتی مظاہرین سائنسدانوں کی ہدایات کو مسلسل نظر انداز کررہے ہیں۔ اس قسم کے جذباتی مکالمے سنائی دے رہے ہیں کہ
·        ہماری جان خطرے میں پڑتی ہے تو کوئی حرج نہیں،  ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
·        ہمیں کرونا کے مقابلے میں  پولیس سے زیادہ خطرہ ہے
·        میرے کسی عزیز کو کرونا نہیں ہوالیکن میرے کئی دوست پولیس بربریت کا نشانہ بنے
کل جارج کو ہیوسٹن کے قبرستان میں سپردخاک کیا جائیگا۔ Black Lives Matterکی قیادت احتجاجی تحریک کو اسکے منطقی انجام یعنی سیاہ فاموں کے ماوراے عدالت قتل کے خاتمے تک جاری رکھنے کیلئے پرعزم نظر آرہی ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 2020

No comments:

Post a Comment