گھر کا بھیدی
صدر ٹرمپ کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی جان
بولٹن نے ملازمت کے دوران اپنی یادداشت کو کتابی شکل
دی ہے جسے مشہور طباعتی ادارہ سائمن
ایند شوسٹر Simon
& Schuster شائع کررہا ہے۔ کتاب کی رونمائی 23 جون
کومتوقع ہے۔ کمپنی کی مشہوری اور اشتہا بڑھانے کیلئے مصنف اور طباعتی ادارے کتاب
کے کچھ سنسنی خیز حصے اشاعت سے پہلے جاری کردیتے ہیں چنانچہ 'کمرہ
جہاں یہ کچھ ہوا' (The Room Where It Happened)کے
عنوان سے زیرطباعت اس کتاب کے کچھ حصے بھی امریکی اخبارات
کی زینت ہیں۔ 71 سالہ جان
بولٹن اپریل 2018 سے ستمبر 2019 تک صدر
کے مشیر سلامتی رہ چکے ہیں۔ صدرٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا تجزیہ کرتے ہوئے جان بولٹن
نے لکھا:
·
امریکی
صدر کی خارجہ پالیسی اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے کہ دوسری مدت کے لیے کامیابی کیسے یقینی بنائی جائے
·
صدر ٹرمپ چین کی
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی نظر انداز کرنے کے لیے تیار رہتے تھے
·
ایغور مسلمانوں کو
حراستی مراکز میں رکھنے پر انہوں نے چینی صدر سے کہا تھا کہ "یہ بالکل ٹھیک
قدم ہے"
·
گروپ 20 سربراہی
اجلاس کے دوران صدر ژی پنگ سے ملاقات میں
انھوں نے چینی صدر سے کہا 'براہ کرم اس بات کو یقینی بنائیے کہ
امریکہ کے آئندہ انتخابات میں میں ہی دوبارہ منتخب ہو جاوں
·
انھوں نے چینی صدر
سے سویا بین اور گیہوں خریدنے کی درخواست کی۔ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ اسطرح انھیں
کسانوں کے ووٹ مل سکیں گے
·
صدر ٹرمپ نے
یوکرین پر دباؤ ڈالنے کے لیے مبینہ طور پر مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ
کا خیال ہے کہ جان بولٹن نے کچھ ایسے مواد کو کتاب کا حصہ بنایا ہے جو خفیہ و حساس
نوعیت کے باعث شایع نہیں کیا جاسکتا۔ وفاقی حکومت کے کلیدی اہلکاروں نے اہم سرکاری راز یا کلاسی فائیڈ اطلاعات کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے جسکی پاسداری ملازمت
سے سبکدوشی کے بعد بھی ضروری ہے۔
امریکی
محکمۂ انصاف نے کل عدالت سے درخواست کی
ہے کہ کلاسی فائیڈ مواد کو حذف کئے جانے تک
کتاب کی اشاعت معطل کی جائے۔ درخواست میں حکومت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کتاب
کی اشاعت سے امریکہ کی قومی سلامتی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ عدالت کو اس
سے پہلے بھی ایسی ہی ایک درخواست دے چکی ہے۔ دوسری طرف سائمن شوسٹر 23 جون کو اسکی
اشاعت عام کیلئے پرعزم نظر آرہی ہے۔
صدر
ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں میں جان
بولٹن کی کتاب کو جھوٹ کا پلندہ اور جھوٹی کہانیوں کا مجموعہ قرار دیا ہے
No comments:
Post a Comment