خلیفہ حفتر کو معاملات سے الگ کرنے کی تیاری
لیبیا
میں فوج کی کامیاب کاروائیوں کے نتیجے میں روس، جنرل السیسی، فرانس، اسرائیل اور
متحدہ عرب امارات کے لاڈلے خلیفہ حفتر دباو میں ہیں اور لگتا ہے کہ انکے
سرپرست بھی اب خلیفہ جی سے پیچھا چھڑانے کے موڈ میں ہیں
امارات
اور جنرل السیسی کی منت سماجت کے باوجود روس اس دلدل سے نکلنا چاہ رہا ہے۔ خلیفہ
حفتر امریکی شہری ہیں اور کہا جارہاہے کہ مائک پومپیو بھی اپنے ہم وطن کی باعزت واپسی چاہتے ہیں
صدر
پوٹن ترک صدر سے رابطے میں ہیں تو دو نوں ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی بات چیت میں
مصروف ۔لیبیا کے امور پر ترک صدر کے مشیر امر اللہ ایسلر نے مشورہ دیا ہے کہ
امن بات چیت میں حفتر کے بجائے طبرق انتظامیہ کی نمائندگی کیلئے
اسمبلی کے اسپیکر عقیلہ صالح کو آگے لایا جائے۔احباب کی وضاحت
کیلئے عرض ہے کہ عقیلہ نام سے صنف نازک کی غلط فہمی نہ ہو۔موصوف وجاہت
سے مزین ایک مرد ہیں ۔
حالیہ
بحران کا آغاز 2014کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں
بدترین ہاتھا پائی سے ہوا تھا جسکے بعد ارکان کے ایک گروہ نے اسپیکر عقیلہ
صالح اور انکے حامیوں کو وہاں سے نکال دیا ۔
دربدر
ہونے والے ارکان اسپیکر کی قیادت میں مصر کی سرحد پر واقع ساحلی شہر طبرق چلے گئے
تھے۔ اسی بنا پر انھیں طبرق انتظامیہ کہا جاتا ہے۔
جنرل
السیسی نےموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طبرق اسمبلی کو گود لے لیا ۔السیسی موج
میلہ میلہ کرتی وہ شوقین عورت ہے جسکے پلے د ھیلہ نہیں چنانچہ انھوں نے امارات کے
ولی عہد محمد بن زید سے رابطہ کیا۔MBZپر آجکل علاقائی
قوت بننے کا خبط سوار ہے اور جنرل صاحب نے MBZکو بحر روم پر
برتری کی افیون پلاکر انکے بٹوے کی زپ کھول لی۔جیب بھری ہو تو دوستوں کی کیا
کمی۔ تیل کی خوشبو سے مسحور ہوکر اسرائیل ، روس اور فرانس بھی میدان میں کود پڑے
لوہا
گرم ہونے پر آخری چوٹ لگانے کو امریکہ سے جنرل حفتر طلب کئے گئے، دیکھتے ہی
دیکھتے سارا لیبیا انکے زیر نگیں آگیا اور لیبیا کی حکومت دارالحکومت طرابلس
تک محدود رہ گئی۔
گزشتہ
سال کے آخر میں وزیراعظم فائز السراج نے ترکی سے مدد طلب کی ۔آسمان لیبیا کا دشمن
تھا کہ اسکے تمام ہوائی اڈے حفتر کے قبضے میں تھے۔روسی بمباروں اور فرانس کے میراج
کےساتھ چینی و اسرائیلی ساختہ ڈروں نے لیبیا کی فوج کو مفلوج کردیا تھا۔
ترکی
کے سادہ وپرکار ڈرون نے چند ہی مہینوں میں میدان کا نقشہ تبدیل کردیا اور اب
کیا روس اور کیا مصر سب امن مذاکرات کی دہائی دے رہےہیں۔
گزشتہ
ہفتے امریکی صدر نے صدر ایردوان سے لیبیا کے مسئلے پر بات کی۔امریکہ کو بھی بحر
روم میں ترکی کی بڑھتی ہوئی قوت کا احساس ہے۔نیٹو کے حکقوں میں افواہ گردش کررہی ہے
کہ ترکی لیبیا کے ساحلی شہر مصراتہ میں لیبیا کے تعاون سے بحری و فضائی اڈہ قائم
کررہا ہے۔ یعنی بحر روم کے شمال و مشرق کے ساتھ اسکے جنوبی ساحلوں پر بھی ترکی کی
گرفت مضبوط ہوجائیگی۔
جنرل
السیسی کی طفل تسلیوں کے باوجود روس کو پانی کے سر سے اونچا ہوجانے کا اندازہ
ہوگیا ہےاور اب وہ کندھے پر سوار حفتر سے جان چھڑانے کی فکر میں ہے
اسپیکر
عقیلہ صالح ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور اگر بندوقیں راستے سے ہٹ جائیں تو بلڈی
سویلین یہ تنازعہ جلد سلجھا سکتے ہیں۔دیکھنا ہے کہ حفتر کو پر امن انداز میں
راستے سے ہٹانے میں فائز السراج کتنی جلد کامیاب ہوتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment