تم تُلنے سے گھبراتے ہو؟؟؟
امریکی انتظامیہ نے جرائم
کی عالمی عدالت ICCکے ان
ججوں اور محتسبوں (Prosecutors) پر تادیبی پابندیاں
عائد کردیں جنھیں افغانستان میں امریکی فوج کی مبینہ زیادتیوں کی تحقیقات
کیلئے نامزد کیا گیاہے۔ صدر ٹرمپ نے آئی سی سی کیجانب سے امریکی فوج کے طرز عمل کی
تفتیش و تحقیق کو امریکی عوام کی توہین اور قومی خودمختاری پرحملہ قراردیاہے۔
عالمی
عدالت کی تشکیل کیلئے اقوام متحدہ کے زیراہتمام اٹلی کے دارالحکومت روم میں دنیا
بھر کے سفارتکاروں کا اجتماع جون 1998 میں منعقد ہواتھا جہاں پانچ ہفتے کے بحث و
مباحثے کے بعد ایک مسودہ قانون منظور کیا گیا۔ یہ مسودہ قانونِ روم یا Statute of Romeکے نام سےمشہور ہوا۔ قانونِ روم کے
تحت ایک عالمی عدالت قائم کی گئی جنھیں ان بڑے جرائم کی تحقیقات اور سزا سنانے کا
اختیار دیا گیا ہےجنکی منصفانہ و شفاف تحقیقات و سماعت مقامی عدالتوں میں ممکن نہ
ہو یا
عدالتیں ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے سنجیدہ نہ نظر آتی ہوں۔
17
جولائی کو قانونِ روم 7 کے مقابلے میں 120 ووٹوں سے منظور ہوا، 21 ممالک نے رائے شماری
میں حصہ نہیں۔رائے شماری ہاتھ اٹھا کر کی گئی تھی۔ ووٹنگ کا حتمی نتیجہ عالمی
عدالت کے ریکارڈ میں موجود ہے لیکن ووٹنگ کی تفصیل محفوظ نہیں۔ یعنی یہ نہیں کہا
جاسکتا کہ کن ممالک نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ یا غیر جانبدار رہے؟ امریکہ،
اسرائیل اور چین نے اسی وقت اعلان کردیاتھا کہ وہ اس قراردادکے خلاف ووٹ دے رہے
ہیں۔ایران، ہندوستان، انڈونیشیا، عراق
لیبیا، قطر، روس، سعودی عرب، سوڈان اور یمن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان
ملکوں نے قراردادکے خلاف رائے دی یا غیر جانب دار رہے۔ تاہم قرارداد پر ووٹنگ سے
پہلے ہی اس بات پر اتفاق رائے ہوچکا تھا تھا کہ فیصلہ 'ایک ملک ایک ووٹ' کےاصول پر
ہوگا اور مخالفت کرنے والے ممالک کو بھی اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا۔ غیر
ضروری طوالت اور دخل در معقولات سے بچنے کیلئے ICCکے
اختیارات صرف چار عالمی جرائم یعنی
·
نسل کشی
·
انسانیت کے
خلاف جرائم
·
جنگی جرائم
اور
·
جارحیت
تک
محدود ہیں۔ مقدمات تیزی سے نمٹانے کیلئے ان چاروں جرائم کی تحقیقات کیلئے علیحدہ
علیحدہ خودمختار معدلہ یا ٹرائیبیونل بھی قائم کردئے گئے۔ عالمی عدالت پر رکن
ممالک کا عزم مستحکم کرنے کیلئے یہ طئے
کیا گیا کہ اتفاق کرنے والے ممالک قرارداد کی اپنی پارلیمان سے توثیق کروائنگے اور
کم ازکم ساٹھ ممالک کی جانب سے توثیق کے بعد ہی عدالتوں کا قیام عمل میں آئیگا۔ 60
ممالک سے توثیق کے بعد یکم جولائی 2002 کو
نیدرلینڈ (ہالینڈ) کے شہر ہیگ (the Hague)میں ICCکی
مرکزی بینچ قائم کردی گئی۔امریکہ اور روس سمیت 79ممالک کی
اسمبلیوں نے ICCکی اب تک توثیق
نہیں کی۔ برصغیر اور اسکے پڑوسیوں میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیشICC کےرکن ہیں۔
جرائم
کی عالمی عدالت 18 ججوں اور ایک مرکزی محتسب اعلیٰ پر مشتمل ہے۔ ملزمان کو دوران
سماعت قید میں رکھنے کیلئے حوالات بھی ہے جو اپنی سہولتوں کے اعتبار سے اعلیٰ پائے
کے پنچ ستارہ ہوٹل سے کسی طور کم نہیں۔اب تک ICCنے 45افراد
پر مقدمے قائم کئے ہیں جن میں لیبیا کے
سابق سربراہ کرنل معمر قذافی اور سابق سوڈانی صدرعمر البشیر شامل ہیں تاہم کوئی بھی
مقدمہ حتمی انجام تک نہیں پہنچا جسکی وجہ سے عدالت کے موثر ہونے پر شدید تحفظات
ہیں۔
امریکہ سے آئی سی سی کے
جھگڑے کا آغاز اس وقت ہوا جب 20 نومبر 2017 کو محتسب اعلیٰ محترمہ فاتوبین سودا Fatou Bensouda نے عالمی عدالت کے ججوں سے
افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کیلئے اجازت طلب کی۔ گیمبیا کی 59 سالہ بن
سودا ایک تجربہ کار وکیل اور اپنے ملک کی سابق اٹارنی جنرل ہیں۔ عدالت کے نام
درخواست میں محترمہ بن سودا نے کہا کہ محتسبین کی
جانب سے ابتدائی جانچ کے بعد آئی سی سی کو ایسے شواہد، آثار اور ثبوت حاصل ہوئے ہیں
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2013 سے 2014 کے درمیان افغانستان میں بڑے پیمانے پر جنگی
جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور چارٹر کے تحت عدالت کو اس پر کاروائی کا اختیار حاصل
ہے۔درخواست میں انھوں نے امریکی فوج، امریکی سی آئی اے، کابل انتظامیہ اور طالبان
کے طرز عمل کی تحقیق کاارادہ ظاہر کیا۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس عرصے کے دوران،
طالبان کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتیں، افغان حکام کی جانب سے
قیدیوں پر مبینہ تشدد، اور امریکی افواج و سی آئی اے کاروائیوں میں جنگی جرائم کا
شائیبہ ملتا ہے جسکی تحقیقات ضروری ہے۔
تین سال تک بن سودا
صاحبہ کی درخواست مختلف اعتراض لگاکر واپس ہوتی رہی لیکن محتسب صاحبہ مستقل مزاجی
سے اپنی درخواست کو نئے شواہد اور نوک پلک درست کرکے دوبارہ اور سہ بارہ جمع کراتی
رہیں۔ چند ماہ پہلے جو ترمیم شدہ مسودہ
جمع کرایا گیا اس میں بڑی صراحت کے ساتھ امریکی فوج اور سی آئی اے خلاف الزامات کو
'کم درجے کی شکائت' قرار دیا گیا ہے۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ ترمیم شدہ درخواست
میں امریکی فوج اور سی آئی اے کے خلاف الزامات کے گِرد 'کم درجے' کی چینی جمانے
کا مقصد صدر ٹرمپ کیلئے تحقیقات کی کڑوی گولی کو نگلنا آسان بنانا تھا۔ دوسری طرف افغان
ملا شاکی ہیں کہ امریکہ اور سی آئی اے کا ذکر زیبِ داستاں سے زیادہ کچھ نہیں اور
تحقیقات کا اصل ہدف طالبان ہیں۔
اس سال مارچ میں عالمی
عدالت نے تحقیقات کی اجازت دیدی تاہم سنگدل محبوب 'کم درجے' پر بھی راضی نہ ہوا
اور امریکی حکام عالمی عدالت پر برس پڑے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ روس نے شام اورلیبیا میں
اپنے جرائم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے ہیگ میں قائم ٹربیونل سے ساز باز کرکے
امریکی فوج اور سی آئی اے کے خلاف مقدمہ بنوایا ہے جو امریکہ کی سالمیت اور خود
مختاری پر براہ راست حملہ ہے۔ عدالت کی جانب سے تحقیقات کی منظوری کے ساتھ ہی
امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ تحریری اجازت کے بغیر امریکی اہلکاروں کی
تفتیش غیر قانونی ہے اوراس میں ملوث آئی
سی سی کے ملازمین کے خلاف تادیبی پابندیاں عائد کردی جائینگی۔ دلچسپ بات کہ
تحقیقات کا اصل ہدف ہونے کے باوجود طالبان کی جانب سے کسی منفی ردعمل کا اظہار
نہیں ہوا۔ کابل انتظامیہ نے تحقیقات پر کوئی اعتراض نہیں کیا تاہم انکا اصرار ہے
کہ جنگی جرائم کے خلاف تحقیقات مقامی سطح پر ہونی چاہئے۔ افغانستان آئی سی سی کا
رکن اور اسکے فیصلوں پر علمدرآمد کا پابند ہے۔
امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ردعمل کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی ایک جعلی عدالت ہے جسے ہم تسلیم نہیں کرتےاور امریکہ کنگرو
کورٹ کے نوٹس
کی تعمیل کرکے اپنے لوگوں کو خطرے سے دوچار کرنے کو تیار نہیں ۔ گزشتہ ہفتے صدر
ڈانلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا ہے جسکے تحت امریکی وزیر خارجہ، وزیر
خزانہ کے مشورے سے عالمی آئی سی سی کے ان اہلکاروں
کے اثاثےمنجمد کرسکتے ہیں، جو امریکی فوج
کے خلاف تحقیقات میں ملوث ہیں۔ حکم نامے
کی رو سے امریکی وزیر خارجہ آئی سی سی کے متعلقہ ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کی
امریکہ میں داخلے پرپابندی عائد کرنے کے بھی مجاز ہیں۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض
ہے کہ حالیہ صدارتی حکمنانےسے ایک سال پہلے ہی آئی سی سی کے بہت سے ملازمین پر سفری اور دیگر پابندیاں عائد کی
جاچکی ہیں۔
آئی سی سی پر بدعنوانی و
رشوت ستانی کا الزام لگاتے ہوئے امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے دعوی کیا کہ انکے محکمہ انصاف کو آئی سی سی میں مالی بدعنوانی و
رشوت ستانی کے ٹھوس ثبوت موصول ہوئے ہیں۔ انکا کہنا تھاکہ محتسب کے دفتر میں بہت اعلیٰ
سطح پر بے ایمانی اور دھوکہ دہی ایک عرصے سے جاری ہے جسکی وجہ سے مہذب دنیا کو آئی
سی سی سے انصاف کی کوئی توقع نہیں۔وائٹ
ہاؤس کی پریس سیکرٹری محترمہ کے مک اینینی نے آئی سی سی کے بارے میں سرکاری موقف کا
اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جنگی جرائم کی جوابدہی کیلئے آئی سی سی کا قیام عمل میں
آیا تھا لیکن غیر موثر افسر شاہی نے عدالت
کو مفلوج کردیاہے اور اب مخصوص مفادات کی تکمیل کیلئے امریکی شہریوں، سرکاری
اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے ساتھ امریکہ کے اتحادیوں اور شراکت داروں کو دھمکانے
کے سوا اس ادارے کا اور کوئی مصرف نہیں۔
افغانستان کے ساتھ آئی
سی سی نے غرب اردن اور غزہ میں اسرائیلی فوج کے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا اعلان
کیا ہےاور 'غیرجانبداری کا گونگھٹ کاڑھتے
ہوئے حماس کوبھی شامل تفتیش کیا جارہا ہے۔ حسب توقع اسرائیل نے ان تحقیقات کو
مسترد کرتےہوئے آئی سی سی کے اہلکاروں کے اسرائیل آنے پر پابندی لگادی ہے۔ حماس تحقیقات میں تعاون کیلئے تیار نظر آرہی ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ HRWنے امریکی حکومت کے ان اقدامات کی مذمت
کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی توہین قراردیاہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی
واشنگٹن کیلئے قائم مقام ڈائریکٹر اینڈریا
پریسو Andrea
Prasowنے کہا کہ عدم تعاون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ قانون کی حکمرانی پر
یقین نہیں رکھتی اور آئی سی سی سے عدم تعاون ایک غیر مہذب طرز عمل ہے۔
انسانی حقوق کے
علمبرداروں کی اس تنقید سے صدر ٹرمپ کے روئے میں کسی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں۔
امریکی صدر امریکی آئین و قانون کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تو عالمی قانون انکے آگے
کیا چیز ہے۔ انھوں نے مئی 2018 میں ایران سے کئے گئے جوہری معاہدے JCPOAسےامریکہ کو بیک جنبش قلم نکال لیا حالانکہ
برسوں کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان اور جرمنی
نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ یورپی یونین بھی مبصر کی حیثیت سے اس تاریخی
معاہدے کا حصہ ہے۔ امریکی سینیٹ نے اس معاہدے کی 2 کے مقابلے میں 98ووٹوں
سے توثیق کی لیکن صدر ٹرمپ نے مشورہ تو دور کی بات، علیحدگی کے اعلان سے پہلےکسی
فریق کومطلع تک کرنے کی زخمت گوارا نہ کی۔ صدر کے رعب کا یہ عالم کہ امریکہ
کےقانون سازوں نے اپنے مینڈیٹ کی توہین خاموشی سے برداشت کرلی۔
امریکی صدر چین، کینیڈا،
میکسیکو اور یورپی یونین سے برسوں پرانے تجارتی معاہدے کو ایک حکم کے تحت منسوخ کرچکے
ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ 'پیرس معاہدے' کا ہوا جس سے صدر ٹرمپ نےتین سطری اعلان کے
ذریعے علیحدگی اختیار کرلی۔ انکا خیال ہے کہ گزشتہ انتخابات میں عوام نے انھیں'سب سے پہلے
امریکہ' کے نام پراقتدار عطاکیا ہے اور امریکہ کو عظیم تربنانے کیلئے انھیں اپنے
فیصلوں کی توثیق یا مشورے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حال ہی میں انھوں نے یہ کہہ کر
عالمی ادارہ صحت سے تعلق توڑلینے کاعندیہ دیدیا کہ ادارہ امریکہ مخالف اور چین کا
حاشیہ بردرا ہوگیاہے۔
عالمی عدالت سے عدم تعاون کے معاملے میں امریکہ اکیلا نہیں۔
روس، شام اور کریمیا میں جنگی جرائم کی تحقیقات پر راضی نہیں جبکہ چین اراکانیوں
کی نسل کشی کی تحقیقات کیلئے میانمار (برما) کی چھان بین کا مخالف ہے۔ اسی طرح یغور
مسلمانوں کے معاملے پر بھی آئی سی سی کو تفتیش کی اجازت نہیں اور اس معاملے میں
پاکستان و سعودی عرب سمیت ترکی،ملائیشیا اور قازقستان کے سوا تقریباً تمام مسلم ممالک چین کے پرجوش حامی ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی
حقوق کمیشن اور دوسرے اداروں کی طرح آئی
سی سی بھی عضو معطل سے زیادہ کچھ نہیں،
جسکی بنیادی وجہ بڑے ممالک کا تکبر ہے۔دنیا کو تہذیب، جمہوریت، آزادیِ اظہارِ رائے اور قانون کی حکمرانی کا
درس دینے والے خود کو کسی قانون کو پابند نہیں سمجھتے۔ 'مستند ہے میرا فرمایا ہوا'
گنگناتے، انسانیت کے کندھوں پر سوار ان پیران تسمہ پا نے دنیا سے انصاف کا جنازہ نکال دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment