Wednesday, July 8, 2020

مادرملت محترمہ فاطمہ جناح


8 جولائی  مادرملت  محترمہ فاطمہ جناح کا یومِ وفات
محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو وزیر مینشن (کھارادر) کراچی کے ایک فلیٹ میں پیدا ہوئیں۔ مادر ملت اپنے سات بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی اور اپنے بڑے بھائی یعنی قائداعظم کی لاڈلی تھیں۔ انکے دوسرے بھائیوں کے نام احمد علی، رحمت علی اور بندے علی جبکہ محترمہ شیریں جناح اور مریم جناح انکی بڑی بہنیں ہیں۔ فاطمہ جناح نے جامعہ کلکتہ کے ڈاکٹر رفیع الدین احمد ڈینٹل کالج سے بی ڈی ایس کی ڈگری حاصل کی اور کراچی میں مطب شروع کردیا۔ انکی رہائش قائداعظم کے ساتھ تھی۔ 1918 میں قائداعظم کی شادی کے بعد وہ اپنے فلیٹ منتقل ہوگئیں۔ بد قسمتی سے شادی کے صرف 11 سال بعد ہی قائد کی اہلیہ انتقال کرگئیں جسکا قائداعظم کو شدید صدمہ ہوا۔ اپنے بھائی کی دلجوئی کیلئے فاطمہ جناح نے کلینک بند کردی اور فلیٹ بیچ کر قائداعظم کے گھر منتقل ہوگئیں۔ اسکے بعد سے اپنے بھائی کی آخری سانس تک وہ انکے ساتھ رہیں۔ تحریک پاکستان میں وہ قائد کا دست و بازو تھیں۔ آزادی کے بعد انھوں نے خواتین کی انجمن اپوا کی بنیاد ڈالی مگر قائدکی وفات کے بعد وہ عملاً گوشہ نشین ہوگئیں۔
 1958 میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگادیا۔ جسکے بعد جماعت اسلامی خلاف قانون قراردیدی گئی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی کے خلاف اقدامات کا آغاز ہوا۔ مغربی پاکستان میں نوابزادہ نصر اللہ خاں، بلوچ رہنما اورخان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی ایوبی جبر کا نشانہ بنی۔ ان کاروائیوں کے نتیجے میں ملک سیاسی قبرستان بن گیا۔ مولانا مودودی، نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان اور حزب اختلاف کے دوسرے رہنماوں کی درخواست پر 1960 میں مادرملت نے حزب اختلاف کی قیادت سنبھال لی اور ایوب خان کے آمرانہ اقدامات کے خلاف منظم مزاحمت کا آغاز ہوا۔ اس دوران محترمہ کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال ہوئی۔ستم ظریفی کہ جو لوگ آج خواتین کے حقوق کی باتیں کر رہے وہ اسوقت مادر ملت کے خلاف فتوے جاری کر رہے تھے جبکہ فضل الرحمان کے والِدمفتی محمود مرحوم اور انکی جماعت کے علاوہ  باقی تمام  'ملا' مادر ملت کا دست و بازو تھے۔
اسی دوران 1965 میں صدارتی انتخابات کا اعلان ہوا اور حزب اختلاف نے محترمہ فاطمہ جناح کو صدر ایوب کے خلاف انتخاب  لڑنے پر راضی کرلیا۔مادر ملت کی جانب سے اس اعلان نے فیلڈ مارشل صاحب کی نیندیں اڑادیں اور انتہائی زہریلی مہم کا آغاز ہوا۔ بلاول میاں کے نانا جناب ذوالفقار بھٹو  نے فرمایا کہ سندھ میں جب کڑک مرغی اذان دینے لگے تو ہم اس کو ذبح کردیتے ہیں۔ یہ دراصل فاطمہ جناح کے غیر شادی شدہ ہونے پر طنز تھا۔ دوسری طرف متحدہ حزب اختلاف نے فاطمہ جناح کے حق میں بھرپور مہم چلائی۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰں۔ پروفیسر غلام اعظم، مولانا فرید احمد شانہ نشانہ تھے تو مغربی پاکستان میں نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا عبدالحامد بدایونی، میاں طفیل محمد، ولی خان، غوث بخش بزنجو، محمودعلی قصوری، کراچی کے محمود اعظم فاروقی اور دوسرے رہنما مادرملت کی انتخابی مہم کیلئےمیدان میں آئے۔
 یہ انتخابات بنیادی جمہوریت یاBDنظام کے تحت ہوئے جس میں کونسلرز کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔ انتخابات سے پہلے کارکنوں کی گرفتاری،کونسلروں کو دھمکی اور اغوا کے باوجود مادر ملت انتخابات جیت گئیں لیکن ریڈیو سے ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کردیاکیا۔اس جعلسازی کا پورا انتظام بھٹو صاحب کے ہاتھ میں تھا جنھوں نے1977 میں بھی ایسی ہی دھاندھلی کے ذریعے دو تہائی نشتیں حاصل کیں جسکے نتیجے میں قوم کو 10 سال تک فوجی آمریت کا عذاب جھیلنا پڑا۔
ایوب خان کی دھاندھلی سے کامیابی کے بعد کراچی کے عوام کو دہشت زدہ کرنے وزیرتوانائی عمر ایوب خان کے والد گرامی گوہر ایوب  غندوں کی فوج کے ساتھ لیاقت آباد پر حملہ اور ہوئے اور درجنوں بے  گناہ لوگ مارے گئے اور کراچی پہلی بار لسانی فسادات کا شکار ہوا۔
اس زمانے کے دولطیفے احباب کی دلچسپی کیلئے۔ لاہور میں کسی جگہ (غالباً سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کے گھر) فاطمہ جناح، مولانا مودودی، ایوب خان، عبدالولی خان اور دوسرے زعما کھانے پر مدعو تھے۔ ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران ایوب خان نے مولانا مودودی سے پوچھا کہ 'مولانا! علما کا سیاست میں کیا کام اور مذہب کا ریاست سے کیا تعلق ہے؟' مولانا نے جنرل صاحب کی بات غور سے سنی ایک لمحہ توقف کیا اور فرمایا 'فیلڈ مارشل صاحب اس سوال کا جواب تو میں دیدیتا ہوں پہلے یہ فرمائیے کہ جرنیلوں کا حکومت میں کیا کام اور فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے۔ مولانا کے جواب پر باقی تمام لوگ تو صرف مسکرائے لیکن خان عبدالولی خان نے زوردار قہقہ لگایا اور ایوب  خان کو دیکھتے ہوئےبولے مولانا صیب! میں تو سوچ رہا تھا کہ اس سوال کے جواب میں ہم کو آپ کی تقریر سننی پڑیگی لیکن آپ نے تو ایک ہی جملے میں جرنل صاحب کو خاک چٹادی۔
دوسرا لطیفہ: علما فاطمہ جناح کے حامی تھے لیکن روشن خیالوں نے ایک نیا شوشہ یہ اٹھایا کہ فاطمہ جناح شیعہ ہیں اور یہ علما صرف اقتدار کی خاطر ایک 'بدمذہب' کی حمائت کر رہے ہیں۔ لیاقت آباد میں مشہور شیعہ عالم علامہ ابن حسن جارچوی کے گھر پر علما کا اجلاس تھا جس میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا ظفر انصاری، مولانا مودودی اور ہر مکتبہ فکر کے علما موجود تھے۔ سرکاری اخبار کے ایک صحافی نے طنزیہ سوال کیا کہ فاطمہ جناح تو صدر منتخب ہونے کےبعد فقہ جعفریہ نافذ کردینگی کیا سنیوں کیلئے یہ قابل قبول ہے؟ مولانامودودی  نے ترنت جواب دیا کہ یہ فقہ کافریہ سے بہر حال بہت بہتر ہے۔
عوامی امنگوں کی ترجمان اور آمریت کی خلاف یہ توانا آواز 53سال پہلے 8 جولائی 1967 کو ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔ فاطمہ جناح کی موت اب تک ایک معمہ ہے۔ سرکاری اعلامئے کے مطابق مادرملت کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں قتل کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح مزار قائد کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔

عبدالستار ایدھی


عبدالستار ایدھی
آج مولانا عبدالستار ایدھی کی چوتھی برسی ہے۔ اس موقع پر ہم وہ پوسٹ آپکی خدمت میں پیش کررہے ہیں جو انکی وفات  پر لکھی گئی:
عبدالستار ایدھی دنیا سے کوچ کرگئے۔ ایدھی صاحب کو جمعرات کی شام مصنوعی تنفس پر رکھا گیا تھا لیکن دوسروں کی خدمت کرنے والے جسم سے یہ احسان برداشت نہ ہوسکا اور یہ خادم انسانیت صرف چھ گھنٹے بعد دار فانی سے کوچ کرگیا۔ دنیا میں خدمت خلق کا کام کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن جو چیز ایدھی کو ساری دنیا سے ممتاز کرتی ہے وہ خدمت خلق کے کام میں انکا انہماک ہے۔ وہ خود ہی ایمبیولینس چلاتے ہوئے جائے حادثہ پر پہنچتے وہاں سے زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے جبکہ جاں بحق ہوجانے والوں کی لاشیں انکے لواحقین کے گھر لے کر جاتے۔ لاوارث لاشوں کو اپنے ہاتھ سے غسل دیتے۔ خواتین کی میتوں کو انکی اہلیہ غسل دیتیں اور لاشوں کی تدفین تک ایدھی صاحب قبر کے سرہانے کھڑے رہتے۔ خدمت خلق ہی انکا اوڑھنا بچھونا تھا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ مرحوم کا کوئی ذاتی مکان یا جائداد نہ تھی اور وہ کھارادر کے بانٹوا ہسپتال ہی میں رہا کرتے تھے۔
 کچھ عرصہ قبل ایدھی صاحب کو نوبل انعام دینے کیلئے مہم بھی چلائی گئی۔ میرے خیال میں اسکی ضرورت نہ تھی کہ ایدھی کا مقام اس سے بہت بلند ہے۔ یہ تو وہ انعام ہے جو ڈرون حملوں میں ہزاروں بیگناہوں کو قتل کرنے والے بارک اوباما کو عطا ہوا۔ قصابِ صابرہ و شتیلا منیخم بیگن جسکا حقدار قرارپایا۔ یہ وہ تمغہ ہے جو وطن فروشی کے صلے میں انوارالسادت کے گلے میں ڈالا گیا۔ ایسا فضول اور مہمل انعام ایدھی صاحب کیلئے توقیر کا نہیں توہین و تذلیل کا باعث بنتا کہ یہ خادم انسانیت اس سے کہیں اعلیٰ اور ارفع مقام پر فائز ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اسلام آباد کے زیرتعمیر ائرپورٹ کو ایدھی کے نام سے موسوم کردیا جائے یہ سارے اہل پاکستان کیلئے عزت و افتخار کا باعث ہوگا۔
 ہمیں ایدھی صاحب کا انتخابی کارکن ہونے کا شرف رہا ہے۔ یہ غالبا 1974 یا 75 کی بات تھی۔ سینیٹ کی تشکیل کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی نے سینیٹر بننے کا فیصلہ کیا اور انکی قومی اسمبلی کی نشست خالی ہوگئی۔ یہ میٹھادر و کھارادرپر مشتمل کراچی کا حلقہ نمبر 7 کہلاتا تھا۔ عبدالستار ایدھی صاحب نےمحلے کے نوجوانوں کے اصرار پر ضمنی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مقابلے میں پیپلز پارٹی کے جسٹس نورالعارفین اور جمیعت علمائے پاکستان کے محمد حنیف حاجی طیب تھے۔ ہم لوگوں نے ایدھی صاحب کی مہم بہت خلوص اور محنت سے چلائی لیکن جیتنا تو درکنار انکی ضمانت بھی ضبط ہوگئی کہ بازارِ سیاست میں دیانت و خدمت کی کوئی مانگ نہیں۔ستار ایدھی اس سے پہلے 1970کے عام انتخابات میں بھی اپنی ضمانت ضبط کراچکے تھے۔
 ایدھی صاحب اب اپنے رب کے پاس پہنچ چکے ہیں جو چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے اجر دیتا ہے اور بڑے بڑے گناہ معاف کردیتا ہے۔دعا ہے کہ ا للہ تعالی اپنے اس فقیرسے نرمی کا معاملہ فرمائے۔ انکی لغزشوں سے صرف نظر فرمائے ۔لاوارث لاشوں کو عزت و احترام سے دفنانے والے کی قبر کو فراخی عطا ہو یہ یہ جنتوں کے باغوں میں سے ایک باغ بن جائے۔ یہ ایک اچھے انسان کی موت ہے اور دنیا میں اچھے انسانوں کی پہلے ہی بہت کمی ہے۔

Saturday, July 4, 2020

قدیم ترین جامعہ دیوالیہ ہوگئی


قدیم ترین جامعہ دیوالیہ ہوگئی
کرونا وائرس کی وبا کےبعد سے ٹیلی ویژن کے نیم خواندہ لیکن خود کو عقل کل سمجھنے والے اینکرز سے لے کر وفاقی وزیر سائینس و ٹیکنالوجی تک سارے دانشور اعلیٰ تعلیم کے اداروں پر سنگباری میں مصروف ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی جامعات اس موذی وائرس پر تحقیق کرری  ہیں۔ بہت سی  جامعات  جدرین (Vaccine) اور تریاقچےکی تیاری میں  دواسازا کمپینوں کے ساتھ مل کر اہم پیشرفت بھی کرچکی ہیں۔لیکن اس میدان میں پاکستانی جامعات کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔
ان بقراطوں کی جانب سے پاکستانی جامعات کیلئے ردی وبیکار کے فتووں پر  ہم جیسوں کیلئے تبصرہ  ممکن نہیں تاہم احباب کی خدمت ایک خبر کا ذکر ضروری ہے۔ 
'خبرّیت' کے اعتبارسے یہ کوئی اہم اطلاع نہیں اسلئے میڈیا پر اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ جیو ٹی وی کے مطابق خبر کچھ اسطرح ہے
پاکستان میں انجنیئرنگ کی تعلیم کی سب سے قدیم اور موقر ترین ادارہ جامعہ  برائے انجنئرنگ اور ٹیکنالوجی المعروف UETدیوالیہ ہوگیااور اب اسکے پاس تدریسی و غیر تدریسی عملے کی تنخواہ کیلئے پیسے نہیں۔جامعہ کی انتظامیہ نے ایک 'حکم' کےذریعے
 شیخ الجامعہ کی تنخواہ میں 50 فیصد کم کردی 
تدریسی عملے اورانتظامیہ کے سینئر افسران کے مشاہروں میں 35 فیصد کٹوتی کی گئی ہےاور
نچلےدرجے کے ملازمین کو اب  اپنے معاوضوں میں  10 فیصدکمی کا عذاب سہنا پڑیگا
صرف یہی نہیں بلکہ پوری زندگی  جامعہ کی خدمت میں کھپادینے والے ریٹائرڈ  اساتذہ  اور کارکنوں کی پینشن پر بھی چھرا چل گیا۔جامعہ کے ان محسنوں کو 25 سے 30 فیصد کٹوتی کی نوید سنادی گئی
شیخ الجامعہ ڈاکٹر سید منصور سرور کے مطابق اعلی تعلیمی کمیشن (HEC)کو کئی بار جامعہ کی مالی مشکلات کے بارے میں مطلع کیا گیا، مگر HECخود ہی قلاش ہے۔
یہ درسگاہ 1921 میں مغلپورہ ٹیکنیکل کالج کے نام سے قائم کی گئی جو بعد میں مغلپورہ انجنیرنگ کالج کہلایا
1962 میں اسے جامعہ کا درجہ دیدیا گیا۔
یو ای ٹی میں  دنیا کی بہترین جامعات سے ڈاکٹریٹ کی سند رکھنے والے 257ماہرین درس وتدریس کے فرائض انجام رہے ہیں۔یہاں کا تدریسی عملہ 882 افراد پر مشتمل ہے
بے سروسامانی کے باوجود جامعہ تحقیق و جستجو کے میدان میں بھی سرگرم ہے اور جامعہ سے وابستہ تحقیقی اداروں کی تعداد 20 کے قریب ہے
جامعہ سے فارغ التحصیل افراد پاکستان سمیت دنیا بھر   میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوارہے ہیں۔
مسلم لیگ کے رہنما احسن قبال،  جمہوریت کے فروغ کیلئے قائم ہونے والے مرکزدانش PILDATکے سربرہ احمد بلال محبوب UETطلبہ یونین کے صدر رہ چکے ہیں۔
جامعہ کی ایک سابق طالبہ محترمہ مہرین فاروقی آسٹریلیا میں سینٹر ہیں
پاکستان جوہری توانائی کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر پرویزبٹ بھی UETکے فارغ التحصیل ہیں
ٹیکنالوجی کے اس دور میں انجنئرنگ کی اس قدیم ترین درسگاہ کو دیوالیہ ہوجانا ایک المیہ  نہیں اور اور کیا ہے؟؟؟؟


Thursday, July 2, 2020

افغان امن! اب روسی مداخلت کا شوشہ


افغان امن! اب روسی مداخلت کا شوشہ
افغان ملت کی پریشانی جلد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی۔سواتین کروڑ سے کچھ زیادہ نفوس پر مشتمل یہ جنتِ ارضی 1979سے غیر ملکی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ نہ تو سر پھرے افغان غیر ملکی بالادستی قبول کرنے کو تیار ہیں نہ قابض قوتیں غیر مشروط واپسی پر آمادہ۔
طویل اعصاب شکن مذاکرات کے بعد 28 فروری کو طالبان اور امریکہ معاہدے سے امن کی ایک امید موہوم پیدا ہوئی ہے۔ یہ دستاویز معاہدہ امن نہیں بلکہ عزمِ امن ہے جس میں فریقین  نے پائیدار امن کے قیام کیلئے کچھ اقدامات کا عزم ظاہرکیا ہے۔ معاہدے کے مطابق، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا 14 مہینوں میں مکمل ہو گا اور پہلے مرحلے میں 130 دنوں کے دوران یہاں تعینات 13 ہزار نیٹو فوجیوں کی تعداد کم کرکے8600 کردی جائے گی۔دوسری طرف طالبان نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ افغان سرزمین امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی طالبان نے کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام ممکن بنایا جاسکے۔ ملاوں نےان مذاکرات سے قبل جنگی قیدیوں کے تبادلے کی شرط رکھی ہے۔اسوقت پانچ ہزار طالبان  امریکہ کی قید میں اور ایک ہزار افغان جنگجو  طالبان کی حراست میں ہیں۔
معاہدے کے ساتھ ہی اسے ناکام بنانے کی منظم کوششوں کو آغاز ہوا۔طالبان کے اصرار پر  اس پورے معاملے سے کابل انتظامیہ کو الگ رکھا گیا تھا جسکی وجہ سے افغان حکومت معاہدے کو اپنی توہین سمجھتی ہے اور ڈاکٹر اشرف غنی اسے ناکام بنانے کیلئےقیدیوں کی رہائی میں مسلسل تاخیر کر رہے ہیں۔ معاہدے کے مطابق جون کے آخر تک قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونا تھا لیکن تادم تحریر ڈھائی ہزار کے قریب طالبان رہا کئے گئے ہیں۔یہ شکائت بھی ہے کہ کابل انتظامیہ بھاری رقوم کے عوض عادی مجرموں کو طالبان قراردیکر رہا کررہی ہے۔اسی کے ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں طالبان اور سرکاری فوج کے درمیان تصادم اور افغانستان کے مخلتف شہروں پر امریکی طیاروں کی  بمباری جاری ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے داعش اور دوسرے شر پسند عناصر بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افغانستان سے غیر مشروط انخلا کو امریکہ کے قدامت پسند اپنی شکست سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں صدر ٹرمپ کو خود اپنی پارٹی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج کی واپسی سے دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔ جون کے آغاز سے اس  مہم میں تیز ی آگئی ہے۔
چند ہفتہ پہلے بین الاقوامی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی کمیٹی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ طالبان اب بھی القاعدہ سے رابطے میں ہیں اور ملاوں نے ان دہشت گردوں سے لاتعلقی اختیار کرنے کے بجائے مراسم کو مزید مضبوط کرلیاہے۔ مزے کی بات کہ کہیں بھی اس سلسلے میں کوئی دستاویزی شواہد نہیں فراہم کئے گئے اور صاف لگتا ہے کہ کابل انتظامیہ کی جانب طالبان کے روئیے کو اس مفروضے کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان بین الافغان مذاکرات کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال رہے ہیں اور وہ افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا کے انتظار ہیں ہیں۔ کمیٹی کا خیال ہے کہ فوجی انخلا کے بعد طالبان القاعدہ کی مدد سے حکومت پر قبضے کی کوشش کرینگے۔ امریکی حکام نے اس رپورٹ کو تجزیہ قراردیتے ہوئے مسترد کردیاہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیدارا پراعتماد ہیں کہ طالبان اپنے معاہدے پر قائم رہیں گے اور بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے طالبان کے اخلاص پر شبہہ کی کوئی وجہ نہیں۔  
افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے اور مذاکرات کے دوران امریکی وفد کے قائد جناب زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہاکہ قیدیوں کے تبادلے اور تشدد میں کمی کے معاملے پر نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔جناب خلیل زاد نے انکشاف کیا کہ امریکی وزارت خارجہ کی نگراں کمیٹی افغانستان کی زمینی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کمیٹی کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کا رویہ اور طرز عمل مثبت اور عزم بہت واضح ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب خلیل زاد نے کہا کہ یہ رپورٹ پندرہ مارچ کو مرتب کی گئی ہے جبکہ امن معاہدے پر دستخط 28 فروری کو ہوئے تھے اورگنجلک صورتحال میں وعدوں پر عملدرآمد کیلئے پندرہ دن کی مہلت غیر حقیقت پسندانہ ہے۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی کی جانب سے جون 2019 میں بھی اسی نوعیت کی رپورٹ سامنے آئی تھی، جسکے مطابق افغانستان کے تمام بڑے دہشت گرد گروپ طالبان کی نگرانی میں کام کررہے ہیں۔ دلچسپ بات کہ رپورٹ میں ان 'بڑے گروپوں' کی تفصیل یا شناخت نہیں بیان کی گئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفین نے اپنے اندیشے اور خدشات کی بنیاد پر یہ رپورٹ ترتیب دی ہے۔ ان دستاویزات میں داعش کی سرگرمیوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔ دوسری طرف امریکہ کے سراغرساں حلقے داعش کو عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ قراردے رہے ہیں۔
اس ماہ کےوسط میں طالبان نے انکشاف کیا کہ افغان خفیہ ایجنسی 'نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی' (NDS) امن معاہدہ ناکام بنانے کیلئے زلمے خلیل زاد کو ہلاک کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلئے این ڈی ایس داعش سے کرائے کے قاتل بھرتی کررہی ہے۔ چند دن پہلےطالبان نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں دو افراد کو پشتو میں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انکا تعلق داعش سے ہے اور ان دونوں کواین ڈی ایس  کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل کے کہنے پر  زلمے خلیل زاد کو قتل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔طالبان کا کہنا ہےکہ اس سازش کا مقصد امریکہ اور طالبان معاہدے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ رحمت اللہ نبیل نے ویڈیو جعلی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے تاہم  امریکی حکام کا کہنا کہ انکی حکومت ویڈیو کی تحقیق کررہی ہے۔
گزشتہ دنوں یہ سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا کہ روس کی عسکری اینٹیلیجنس امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے والے طالبان کو نقد انعامات کی پیشکش کررہی ہے۔ نیویارک ٹائمز نےکسی فردکا نام لئے بغیر امریکی محکمہ سراغرسانی کے حوالے سے بتایا کہ حکام نے امریکی صدر کو اس بارے میں آگاہ کردیا تھا۔ اخبار کے مطابق حکام نے جوابی اقدامات بھی تجویز کئے تھے جن میں ماسکو سے سفارتی شکایت اور روس پر پہلے سے عائد تعزیرات کو سخت اور اسکا دائرہ وسیع کرنے کے ساتھ چند دوسرے سخت اقدامات تجویز کئے تھے۔ 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت پر صدر بارک اوباما نے اپنے عہد صدارت کے اختتام پر روسی اہلکاروں کی گرفتاری اور سفری پابندیو ں  سمیت کچھ پابندیاں عاید کردی تھیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے بھی اس رپورٹ کی تصدیق کی اور کہا کہ روس سرکاری طور پرطالبان کو دہشت گرد سمجھتا ہے لیکن ادھر کچھ عرصے سے کریملن ملاوں پر مہربان نظر آرہا ہے اور ماضی قریب میں طالبان رہنما افغان شخصیات کے ہمراہ ماسکو کا دورہ کرچکے ہیں۔
نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور CNNکو صدرٹرمپ جھوٹا یا Fakeمیڈیا کہتے ہیں، چنانچہ اس خبر کی امریکی صدر نے سختی سے تردید کی اور رپورٹ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ نہ تو مجھے کسی نے اس بارے میں بتایا اور نہ  نائب صدر مائیک پینس یا وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف مارک میڈوز  کو افغانستان میں روسیوں کی جانب سے ہمارے فوجیوں پر حملوں کے متعلق کوئی بریفنگ دی گئی۔'نامعلوم ذرائع' نے یہ اطلاع جھوٹے اخبار نیویارک ٹائمز کو دی ہے۔ ہر کوئی اس سے انکار کر رہا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ جھوٹااخبار نامعلوم ذرائع کو سامنے لائے لیکن اخبار  ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اس 'نامعلوم ' کا کوئی وجود ہی  نہیں۔ اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے اس خبر کو من گھرٹ روسی فریب (hoax)قراردیا۔امریکی صدر کے اس طنز کا پس منظر ڈیموکریٹک پارٹی کا وہ الزام ہے کہ روس نے 2016 کا انتخابات میں صدر ٹرمپ کو جتانے کیلئے مداخلت کی تھی۔
روس نے بھی افغانستان میں امریکی یا نیٹو سپاہیوں کے قتل پر  طالبان کو انعام دینے کی خبر کو  من گھڑت، غلط اور شرانگیز قراردیا ہے۔ واشنگٹن کے روسی سفارت خانے نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ نیویارک ٹائمز  میں شائع ہونے والی خبر  بے بنیاد ہے اور اسکی اشاعت سے امریکہ اور برطانیہ میں تعینات اسکے سفارتی عملےکی جانیں  خطرے پڑ سکتی ہیں۔ سفارت خانے نے کہا کہ امریکہ کا اخبار جھوٹی خبریں پھیلا رہا ہے۔ٹویٹ میں امریکہ کے متعلقہ اداروں سے ویانا کنوینشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جسکے تحت سفارتکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکہ یا نیٹو فوجیوں کی ہلاکت کیلئے روسی خفیہ اداروں کی جانب سے کسی پیشکش کی سختی سے تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ  طالبان مجرم پیشہ یا کرائے کے قاتل نہیں بلکہ مادر وطن کو آزاد کرانے کی مقدس جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ طالبان  تمام کارروائیاں اپنے منصوبے اور ہدف کے مطابق کرتے ہیں، طالبان عسکری وسائل کے اعتبار خود کفیل ہیں اور انھیں اللہ کے علاوہ کسی کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔طالبان کاکہنا ہے کہ ملت کے مخالف افواہ اور دہشت گرد سرگرمیوں کے ذریعے افغانستان میں  قیام امن کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
روس اور طالبان کے درمیان ساز باز اور امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی سازش کا معاملہ اسوقت سامنے آیا ہے جب امریکی انتخابات میں صرف 4 ماہ باقی ہیں اور صدر ٹرمپ انتخابات سے پہلے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو 8500سے کم کردینا چاہتے ہیں۔ بلکہ وہ کئی بار مکمل  فوجی انخلا کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔صدر ٹرمپ کرونا وائرس کی وجہ سے  امریکہ انخلا میں تیزی کے خواہشمند ہیں۔کچھ عرصہ پہلے نیٹو نے اٖفغانستان میں تعینات اپنے چار سپاہیوں کے مثبت ٹیسٹ کی تصدیق تھی۔ امریکیوں کو ڈر ہے کہ اگر افغانستان میں یہ وبا بڑے پیمانے پر پھوٹ پڑی تو نیٹو کی چھاونیوں اور اڈوں کو محفوظ رکھنا ناممکن ہوجائیگا۔ دوسری طرف یہ نامراد وائرس امریکی اقتصادیات کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے جسکی وجہ سے معاشیات کے امریکی علما افغانستان سے دوکان کو جلد از جلد بڑھالینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
انتخابی مہم کے پہلے جلسے میں  بھی صدر ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان میں ہمارے لڑاکے پولیس کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں جو اِن دلاوروں کے شایان شان نہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور ان  کے مخالفین صدرٹرمپ پر روسی صدر پوٹن  کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کاالزام لگاتے ہیں جسکے جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا سابق صدر بارک اوباما اور جو بائیڈن کے  مقابلے میں روس کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ کہیں زیادہ  سخت ہے۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں جنگ افغانستان صدر ٹرمپ کی حماقت سے طول پکڑ گئی اور اوباما کی نااہلی نے افغانستان کو امریکیوں کیلئے دلدل بنادیا۔
دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن طالبان اور امریکی دونوں ہی افغان امن کے معاملے میں بظاہر مخلص و پرعزم نظر آرہے ہیں اورانھیں شاہراہ امن پر جگہ جگہ نصب  نصب سازشوں  اور فتنہ انگیزیوں کے دام ہمرنگ زمیں کا بھی اندازہ ہے۔ اس معاملے کامثبت پہلو یہ ہے کہ امریکہ و طالبان کے درمیان گہرے روابط ہیں۔چند ہفتہ پہلے صدر ٹرمپ نے طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے براہ راست بات کی تھی جبکہ زلمے خلیل زاد بھی طالبان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ یہ امریکی دباو کا ہی نتیجہ ہے کہ اتوار کو صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی تیز کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ انکا کہنا تھا کہ کابل انتظامیہ بین الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع کرنا چاہتی ہے۔ مذکرات کیلئے افغان سرکاری وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے گزشتہ دنوں ایسی عبوری حکومت کے قیام پر آمادگی ظاہر کی جس میں طالبان کوبھی نمائندگی حاصل ہو۔
افواہوں اور غلط فہمیوں کے باوجود طالبان و امریکہ کے درمیان مسلسل رابطہ خوش آئند ہے اور بظاہر دونوں فریق اہک دوسرے پر اعتماد بھی کرتے نظر آرہے ہیں لیکن وقت بہت کم ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق کرونا وائرس صدرٹرمپ کی مقبولیت پر منفی اثر ٖڈال رہا ہے۔ اگلے دوتین ہفتوں کے دوران انتخابی مہم عروج کو پہنچ جائیگی۔ ڈر ہے کہ کہیں آوے جاوے اور زندہ باد ومردہ باد کے  ہنگامے میں طالع آزماوں کو اپنی چال چلنے کا موقع مل جائے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 جولائی 2020
ہفت روزہ دعوت دہلی