Thursday, September 9, 2021

سندھ سے گیس کے نئے ذخیرے کی دریافت

سندھ سے گیس کے نئے ذخیرے کی دریافت

 یونائیٹیڈ انرجی پاکستان UEPکی قیادت میں پاکستان  پیٹرولیم  لمیٹیڈ (PPL)اور اطالوی کمپنی ای این آئی  (Eni)پر مشتمل مشارکے (JV)نے سندھ کے ضلع خیر پور میں  گیس کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت کیا ہے۔ تینوں  کمپنیاں  یہاں ایک ایک تہائی  کے  حصے دار ہیں

یونائیٹیڈ انرجی چین کا ادارہ ہے جس نے 2011 میں 77 کروڑ 75 لاکھ   ڈالر کے عوض  بی پی کے حصص خرید کر ملک میں اپنے پیر جمائے اورایک سال بعد 5 ارب ڈالر کے سرمایے سے جارحانہ انداز میں تلاش و ترقی کا کام شروع کیا۔ بی پی اور انکی پیشرو  یونین ٹیکسس UTPتلاش و ترقی کے معاملے میں کسی حد تک محتاط طرز عمل کی قائل تھیں اور انھوں نے اپنی سرگرمی کا دائرہ بدین اور اسکے قرب  وجوار تک محدود رکھا  جبکہ گرم دم ِ جستجو یونایٹیڈ انرجی کی شناخت ہے۔ تین برس  پہلے  یو ای پی  نے Eni کے حصص  خرید لئے۔

موجودہ کامیابی خیر پور کے لطیف بلا ک کے کنویں جگن ایک پر ہوئی  جہاں 11350 فٹ تک کھدائی کے بعد  گیس کے دوذخائر دریافت ہوئے۔ مسامدار ریت کے اس ذخیرے کو ماہرین ارضیات نے گورو ریت یا Goru Sandنام دیا ہے۔ جسکی پرت  بی (B sand zone)سے گیس کا تخمینہ   ایک کروڑ 26 لاکھ مکعب فٹ (12.6mmcf) یومیہ اور پرت  سی (C sand zone) سےایک کروڑ 37 لاکھ مکعب  13.7mmcfروزانہ ہے۔ یعنی یہاں سے مجموعی طور پر  2 کروڑ 63 لاکھ مکعب  فٹ (26.3mmcf)گیس روزانہ حاصل ہوگی۔

شاندار کامیابی پر پی پی ایل اور یوای یل کے کارکنوں کودلی مبارکباد



 

 

افغانستان! امریکی انخلا کے بعد

افغانستان! امریکی انخلا کے بعد

منگل 30 اگست کو کابل کے ہوائی اڈے پر کھڑے امریکی فضائیہ کے پانچ مسافر بردار C-17طیاروں میں سے ہر ایک پر 105 امریکی فوجی بیٹھے تھے لیکن پانچویں جہاز پر 104 مسافر تھے۔ اس سے پہلے ایر پورٹ پر موجودسینکڑوں جنگی جہاز، بکتر بند گاڑیاں، ہیلی کاپٹر اور دوسرا قیمتی اسلحہ قابض فوج کے سپاہیوں نے خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کردیاتھا۔ امریکی ٹیلی ویژن CBSپر یہ روداد سنکر ہمیں بے اختیار قرآن کے وہ الفاظ یاد آگئے کہ  'اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر انکا خیال بھی نہ گیا تھا۔ اس نے انکے دلوں میں رعب ڈالدیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو برباد کررہے ہیں اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروارہے ہیں۔ پس عبرت حاصل کرو ائے دیدہ بینا رکھنے والو۔ سورہ الحشر آیت2

جہازوں پر بیٹھے فوجیوں کے علاوہ انکے کمانڈنگ افیسر میجر جنرل کرس ڈانیہو Chris Donahue ایک جہاز کے قریب اپنے ہاتھ میں نیم خودکار بندوق لئے کھڑے تھے۔ سارے ایر پورٹ کا کنٹرول طالبان سنبھال چکے تھے۔ دس دس منٹ کے وقفے سے چار جہازوں نے اڑان بھری اور اب صرف ایک جہاز وہاں کھڑا تھا جس پر ایک نشست خالی تھی۔ ریڈار سمیت ایر پورٹ کا سارا مواصلاتی نطام مفلوج کیاچکا تھا چنانچہ جنرل  صاحب اپنے سیٹیلائٹ فون پر امریکی مرکزی کمان (سینٹرل کمانڈ) کے سربراہ جنرل کینیتھ میکنزی کے آخری حکم کا انتظار کررہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں جنرل ڈانیہو کے فون پر انکے باس کا پیغام آیا “Flush the Force”یعنی انخلا مکمل کرلو۔ پیغام پڑھتے ہی جنرل ڈانیہو نے اپنے افسر کو rogerیعنی ٹھیک ہے کا پیغام بھیجا اور دوڑتے ہوئے جہاز پر سوار ہوگئے۔ جب آخری C-17کابل ایر پورٹ سے روانہ ہوا اسوقت مقامی وقت 11:59تھا، یعنی اگست کے آخری دن کےآغاز سے ایک منٹ پہلے امریکی فوج نے انخلا مکمل کرلیا۔ 

عین اسی وقت کابل سے ہزاروں میل دور امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں وزارت خارجہ (پینٹاگون) کی سماعت گاہ صحافیوں سے بھری ہوئی تھی۔ جیسے ہی آخری طیارہ فضامیں بلند ہوا، وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے گُڈآفٹرنون سے گفتگو کا آغاز کیا۔ انکا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن نے قوم سے اپنا وعدہ پورا کردیا اور اگست کے اختتام سے پہلے ہی فوجی انخلا مکمل کرلیا گیا۔ اسی کے ساتھ نشریاتی رابطے پر جنرل میکنزی نمودار ہوائے اور انھوں نے امریکی فوج کی مکمل واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب افغان سرزمین پر امریکہ یا نیٹو کا ایک بھی سپاہی، تنصیبات یا اڈاباقی نہیں، انھو ں نے بہت فخر سے کہا کہ ایر پورٹ پر موجود امریکی فوج کا تمام سامان ناکارہ کردیا گیا ہے۔

اس موقع پر جنرل صاحب نے کہا کہ کوششوں اور قربانیوں کے باوجود ہم ہر اس شخص کو افغانستان سے نہیں نکال سکے جنھیں ہم اپنے ساتھ لانا چاہتے تھے۔ اسوقت افغانستان میں ڈھائی سو امریکی شہری موجود ہیں۔ جنرل میکنزی نے اعتراف کیا کہ انخلا کے دوران طالبان کا رویہ حقیقت پسندانہ((Pragmaticاوردیانتدارانہ (Businesslike) تھا۔ملاوں نے تحفظ فراہم کرنے ذمہ داری انتہائی اخلاص سے پوری کی۔

دوسرے دن صدر بائیڈن نے اپنےخطاب میں قوم کو اعتماد میں لیا۔امریکی صدر نے کہا  کہ 'جنگِ افغانستان اب ختم ہوگئی۔ میں (بش، اوبامااور ٹرمپ کے بعد)چوتھا امریکی صدر ہوں جسے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اس جنگ کو کب اور کیسے ختم کیا جائے۔ انتخابی مہم کے دوران ہم نے قوم سے جنگِ افغانستان ختم کرنے کا وعدہ کیا تھااور آج میں نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کردیا۔ افغانستان سےانخلا ہی بہتر تھا اور میں انخلا میں مزید توسیع نہ کرنے کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں، چونکہ یہی امریکہ کے بہترین مفاد میں تھا'۔  جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں جنگ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھی اوریہ لڑائی اسی وقت ختم ہو جانی چاہیے تھی جب مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا اور القاعدہ کا قلع قمع ہوگیا۔ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ، جب میں نے اقتدار سنبھالا ، طالبان 2001 کے بعد سے اپنی مضبوط ترین فوجی پوزیشن میں تھے، اور وہ تقریباً آدھے ملک کو کنٹرول کر رہے تھے۔ طالبان کی تیز رفتار پیش رفت معزول افغان حکومت کی نااہلی تھی جس کی وجہ سے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی جلد بازی میں وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ تین لاکھ افغان فوج چشمِ زدن میں تحلیل ہو جائیگی اور صدر اشرف غنی اس طرح ملک چھوڑ کر فرار ہو سکتے ہیں۔ افغان صدر کے اس بزدلانہ روئے کی بنا پرامریکوں، امریکہ کے اتحادیوں اور ساتھ دینے والے افغان باشندوں کو مشکلات جھیلنا پڑیں۔ حالیہ انخلا مشن کے دوران ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد کو کابل سے نکالا گیا اور 17 دنوں تک یہ اعصاب شکن مہم جاری رہی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا انخلا کسی بھی اور ملک نے کبھی نہیں کیا۔ اب وہاں محض ایک سو سے دو سو امریکی شہری باقی رہ گئے ہیں۔ جن میں دوہری شہریت رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔

جنگ افغانستان کے نقصانات کا احاطہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے فرمایا کہ اس جنگ پر 20 کھرب ڈالر خرچ ہوئے اور 2400 سے زیاد امریکی فوجیوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ شکست کاتاثر مٹانے کیلئے انھوں نے ایک نئی مہم  شروع کرنے کا اعلان کیا اور بولے کہ داعش خراسان جیسے دہشت گردوں کے ساتھ لڑائی ختم نہیں ہوئی، انھیں معاف کیا جائے گا اور نہ انکا جرم بھلایا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر دولت اسلامیہ خراسان کےخلاف فضائی حملے کیے جائیں گے

امریکی صدر نے جارحیت سے سبق سیکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد امریکہ دوسرے ممالک میں فوج بھیج کر وہاں قوم سازی نہیں کرے گا۔ افغانستان میں جس طرح ہم قوم سازی اور جمہوریت لانا چاہتے تھے، ایسا وہاں صدیوں میں نہیں ہوا۔ امریکہ آنے والے افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری میں حائل پریشانیوں کے بارے میں صدر بائیڈن نےکہا کہ اب ہزاروں افغان تارکین وطن کی امریکہ میں از سر نو آبادکاری کا چینلج بھی درپیش ہے جہنیں عارضی طور پر مختلف فوجی اڈوں میں رکھا جا رہا ہے۔

اپنے خطاب کے اختتام پر امریکی صدر نے افغان پناہ گزینوں کا ذکر بظاہر سرسری سا کیا لیکن اب یہ مسئلہ امریکی و یورپی رہنماوں کیلئے دردِ سر بنتا جارہا ہے۔ امریکہ آنے والے افغانیوں کی اکثریت فوجی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ وہ تو بھلا ہو اکنا ریلیف ICNA Reliefاور دوسری اسلامی رفاحی تنظیموں کا جو ان لوگوں کی بحالی کیلئے سرگرم ہوگئی ہیں ورنہ امریکی حکومت کیلئے ان لوگوں کی آبادکاری بہت مشکل لگ رہی ہے۔

زیادہ تر افغانی خواتین پردے کی پابند ہیں اور مسلمانوں کی موجودگی سے پریشان یورپیوں کیلئے مزید حجابیوں کی آمد سخت پریشانی کا باعث ہے۔'افغانی نہ کھپن' کا نعرہ یورپ میں مقبول ہورہا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق یورپیوں کی اکثریت افغان پناہ گزینوں کو اپنے یہاں بسانے کی حامی نہیں۔ فرانسیسی صدر نے تجویز دی ہے کہ ان افغانوں کو پاکستان اور ترکی میں آباد کیا جائے لیکن یہ دونوں ملک پہلے ہی سے دباو میں ہیں۔ پاکستان چالیس لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزنیوں کی میزبانی کررہاہے تو ترکی نے لاکھوں شامیوں کو مہمان بنایا ہوا ہے۔اس سلسلے میٓں برطانیہ، جرمنی اور ہالینڈ کے وزرائے خارجہ نے پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ کسی ڈچ وزیرخارجہ کا یہ  پندرہ سال کے دوران پہلا دورہ اسلام آبادتھا۔ یورپی رہنماوں کے دورے پاکستان کو منانے کیلئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان مغرب کے ان سہولت کاروں کو اپنے یہاں آباد کرلے۔ یورپی یونین انکا خرچ دینے کو تیار ہے۔ لیکن معاملہ صرف گنجائش و خرچ کا نہیں بلکہ امریکہ جانے کے خواہشمند ان افغانوں کی اکثریت مبینہ طور پر سی آئی اے کی تنخواہ دار اور انکی تربیت یافتہ ہے، جسکی وجہ سے پاکستان اور ترکی کے خفیہ اداروں کو شدید تحفظات ہیں۔

پناہ گزینوں کی آبادکاری کیساتھ امریکہ اور مغرب طالبان سے رابطہ بحال کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن ان” کا نام لینے میں حیا مانع ہے اسلئے براہ راست بات چیت سے گریز کا گھونگھٹ لٹکا لیا گیا ہے۔امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے گزشتہ ہفتے  کہا کہ وہ “نئی حقیقت” سے  رابطے میں ہیں اور “ان” سے گفتگو کیلئے وہ جلد  قطر جاینگے۔یورپی یونین بھی ملاوں سے رابطہ بحال کرنے کے جتن کررہا ہے اور وہاں بھی شرم و حیا رکاوٹ ہے۔ یونین کے ذمہ دار برائے امور خارجہ جناب جوزف بوریل نے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے بعد صحافیوں سے غیر رسمی باتیں کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے بارے میں گہرے تحفظات کے باوجود “نئی حقیقت” کو نظر انداز کردینا مناسب نہ ہوگا اور “عبوری مقتدرہ” سے باالواسطہ رابطے کیلیے ایک علاقائی پلیٹ فارم تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔علاقائی پلیٹ فارم کامصرعہ طرح جاری ہوتے ہی مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی کہ مغرب اس پلیٹ فارم پر ہندوستان کی ریل گاڑی کو بھی ٹہرانا چاہتا ہے جسکے بارے میں ملاوں کو شدید تحفظات ہیں۔

طالبان  سے رابطہ بحال کرنے کیلئے گزشتہ ہفتے جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس نے قطر کا دورہ کیا۔ ملاقات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قطر ی وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کہا ہے کہ تباہی کا شکار افغان عوام اقوام عالم کی حمائت کے مستحق ہیں۔ انکا کہنا تھا کہافغانستان کو سفارتی تنہائی کا شکارکرکے دیوار سے لگانا مناسب نہیں اور اس طرزعمل سے افغان عوام کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ علاقے کے غیر مستحکم ہونے کے امکانات بڑھ جائینگے۔انکے مہمان ہم منصب نے قطری رہنما کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی اور یورپی یونین طالبان سے رابطے کیلئے تیار ہیں لیکن اس ضمن میں عملی اقدامات سے پہلے ملاوں کو کچھ شرائط پوری کرنی ہونگی۔زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے مغرب کیلئے طالبان سے کُٹّی ممکن نہیں تو کھلی مہروعنایت سے انانیت کا بت مجروح ہوتا ہے۔

ماضی میں شدید کشیدگی کے باوجود ہندوستان نے بھی ملاوں سے رابطے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ طالبان کی جانب شاخ زیتون لہراتے ہوئے اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے شری ٹی ایس تیرومورتی نے طالبان رہنماوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کرنےکی تجویز پیش کی  ہے۔ تیرومورتی صاحب نے جب یہ ارشاد فرمایا اسوقت موصوف بربنائے عہدہ پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے سربراہ تھے۔سلامتی کونسل کی صدارت باری باری ایک مہینے کیلئے مختلف ارکان کے پاس رہتی ہے اور 31 اگست تک اس منصب پر ہندوستان فائز تھا۔ تیرومورتی صاحب کا کہناتھا کہ دنیا کو زمینی حقائق تسلیم کرکے نئے افغان حکمرانوں سے مکالمہ شروع کردینا چاہئے۔ دلی کا خیال ہے کہ سفارتی تنہائی ملاوں کو مزید انتہا پسند بنادیگی۔ تیرومورتی صاحب کی کوششوں سے گزشتہ ہفتے منظور ہونے والے قرارداد میں فرانس اور برطانیہ کے ان نکات کو شامل نہیں کیا گیا جس میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی کابل فری زون قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔گزشتہ بیس سالوں کے دوران ہندوستان نے افغانستان میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے لیکن طالبان اور دہلی میں شدید کشیدگی کی بناپر دونوں فریق سلام و نمستے کے روادار بھی نہیں۔تاہم علاقائی مفادات کے پیشِ نظر امریکہ کی خواہش ہے کہ ہندوستان اور طالبان کے درمیان رسمی سا ہی سہی لیکن سلسلہ کلام شروع ضرور ہونا چاہئے۔کہا جارہا ہے کہ ہندوستان نے مُلّاوں کو رام کرنے کی ذمہ داری اپنے سینئر سفارتکار سیداکبر الدین کو سونپی ہے۔ اکسٹھ سالہ اکبرالدین اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے رہ چکے ہیں۔ اس سے پہلے وہ مصر اور سعودی عرب میں ہندوستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ موصوف عربی بہت اچھی بولتے ہیں ۔ انکے والد پروفیسر بشیرالدین جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں شعبہ صحافت کے سربراہ تھے اور انھیں اردو اور ہندی کے علاوہ فارسی پر بھی عبور ہے۔اپنے والد اور والدہ محترمہ زیبا بشیر کی طرح جناب اکبر الدین بھی فارسی روانی سے بولتے ہیں۔صحافتی ذرایع کا کہنا ہے کہ اکبرالدین نے کچھ عرصہ قبل قطر میں طالب رہنماوں سے ملاقات کی تھی جس میں شکوے شکایات کے خاتمے اور تعلقات استوار کرنے کی بات ہوئی۔ طالبان کو دہشت گرد فہرست سے نکالنے کیلئے ہندوستان، برطانیہ اور فرانس سے رابطے میں مصروف ہے اور اگر یہ دونوں مان گئے تو رسمی قرارداد جلد ہی پیش کردی جائیگی۔ سفارتی حلقوں کے مطابق امریکہ، چین اور روس نے اس تجویز کی حمائت کا عندیہ دیا ہے۔

ہندوستانی حکومت تو بظاہر ملاوں سے رابطے کی خواہشمند نظر آرہی ہے جو علاقائی امن کے حوالے سے خوش آئند ہے لیکن انتہاپسند ہند میڈیاکی طالبان پر 'گلپاشی'  'نئی حقیقت' کو متضاد اشارے کررہی ہے۔ عام طالب کیلئے یہ بات سخت اشتعال کا باعث ہے کہ ہندوستانی ذرایع ابلاغ لاکھوں جانوں کی قربانی دیکر حاصل کی جانیوالی فتح کا کریڈٹ پاکستانی فوج کو دے رہے ہیں۔

علاقائی ممالک سے تعلقات کو فروغ دینے کیلئے ملّا سماجی اور کھیل کود کا میدان بھی استعمال کررہے ہں گزشتہ دنوں افغانستان کی جوانسال (under-19)کرکٹ ٹیم دوستانہ کھیل کیلئے بنگلہ دیش روانہ ہوگئی۔ اور ٹیم کو رخصت کرتے ہوئے عبوری وزیر صحت و کھیل نے اعلان کیا کہ قوم کو صحت مند رکھنے کیلئے نہ صرف افغانستان میں کھیل کے میدانوں کو آباد رکھا جائیگا بلکہ علاقائی ممالک کی ٹیموں سے صحت مند مسابقت کی حوصلہ افزائی کی جائیگی۔

چین اور روس طالبان سے براہ راست رابطے میں ہیں اور دونوں نے علاقائی امن کے فروغ اور معاشی ترقی کیلئے کابل کیساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دنیا کے اس غریب ترین ملک کو اللہ نے قیمتی معدنیات سے نوازا ہے۔ دوسری دھاتوں کے علاوہ اجکل کا hot itemلیتھیم ہے۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں یہ دھات برقی ایندھن ذخیرے کرنے کا کام آتی ہےاور  امریکی مساحت ارضی Geological Survey کاخیال ہے کہ امریکہ لیتھیم کا سعودی عرب ہے۔

اسی بناپر کیا امریکہ اور کیا یورپ سب ہی کابل سےبات چیت کے خواہشمند ہیں لیکن عبرتناک شکست سے انا کاخناس بری طرح مشتعل ہے۔ قومی تذلیل سے صدر بائیڈن سخت دباو میں ہیں اور رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق انکی مقبولیت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ بعض ریپبلکن منچلے تو مواخذے کی بات کررہے ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ خفت مٹانے اور خود کو دبنگ ثابت کرنے کیلئے جناب بائیڈن داعش کی سرکوبی کے نام پر کہیں نئی فضائی مہم نہ شروع کردیں۔انکے جرنیلوں نے کچھ دن پہلے ماورائے افق یا over the horizon مہم جوئی کا عندیہ تھا۔  کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پنجشیر میں کشیدگی کے پیچھے بھی چچا سام کا ہاتھ ہے اور واشنگٹن ہی نے اصحاب الشمال  کو ملاوں کیخلاف بغاوت پر اکسایا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 ستمبر 2021

ہفت روزہ  دعوت دہلی ، 10 ستمبر 2021

روزنامہ امت کراچی 10 ستمبر 2021

ہفت روزہ رہبر، سرینگر 12 ستمبر



2021

 

Thursday, September 2, 2021

نیا جال لائے پُرانے شکاری

نیا جال لائے پُرانے شکاری

بیالیس سال سے جاری خود کش دھماکوں اور فضائی حملے سے افغانوں کو جو نجات ملی تھی اسکا دورانیہ 11 دن بھی نہ رہ سکا اور حسین خواب کے نقطہ عروج پر 26 اگست کو بد نصیب افغانوں کی آنکھ کابل ایر پورٹ کے قریب خوفناک خود کش دھماکے اور فائرنگ  سےکھل گئی۔افغانستان 1979 سے  بمباری، اندھا دھند فائرنگ اور ڈرون کے ڈراونے حملوں کا نشانہ بنا ہواہے۔ گزشتہ جمعرات کو ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ عراق والشام یا داعش نے قبول کی ہے۔ انگریزی میں اسکا مخفف ISISہے۔القاعدہ کی طرح داعش کی ولادت اور پرورش کے بارے میں بھی  سوالیہ نشانات ہیں۔

اس حوالے سے امریکہ کے ایک سیاسی و عسکری مبصر اور امریکی فوج کے سابق افسر کینتھ او کیف  Kenneth O’Keefeنے ستمبر2014 میں انکشاف کیا  تھا کہ 'داعش کی پنیری سی آئی اے کی نرسری میں اُگائی گئی ہے'۔ روسی ٹیلیویژن پر اپنے  سنسنی خیز انٹرویو میں کین اوکیف نے کہا کہ داعش امریکی سی آئی اے نے تشکیل دی ہے۔ جناب اوکیف کا کہنا تھاکہ اس دہشت گرد تنظیم کوشامی صدر بشارالاسد کے خلاف کھڑا کیا گیا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ شامی فوج جدید اسلحے سے لیس اور انتہائی تربیت یافتہ ہے جسے ایران اور روس کی بھرپور حمائت حاصل ہے جبکہ لبنانی حز ب اللہ بھی اسکی پشت پر ہے اور اس منظم فوج کا مقابلہ عوامی مظاہروں اور محدود چھاپہ مار کاروائیوں سے ممکن نہیں۔ کین اوکیف نے الزام لگایا کہ خلیجی ممالک نے اسلحے کی خریداری اور بھرتی کیلئے داعش کو وسائل فراہم کئے تھے۔ داعش کے سپاہیوں کو اردن کے فوجی اڈوں پر بھاری اسلحے یعنی بکتر بند گاڑیوں، توپخانوں اور ٹینکوں کے استعمال کی تربیت دی گئی کہ یہ جنگجو چھاپہ مار جنگ کے ماہر ہیں اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کا انھیں کوئی تجربہ نہیں۔ کین اوکیف کا کہنا ہے کہ ابلاغ عامہ کے نمائندوں سے گفتگو، حساس و ہیجان انگیز تصویر کشی، انٹرنیٹ و یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پر تشہیر کیلئے بھی داعش کے کارکنوں کو خصوصی تربیت دی گئی ہے۔

کین اوکیف کے علاوہ ایک اور امریکی صحافی ایرن کلائن نے انکشاف کیاتھا کہ داعش کے منتخب جنگجووں کو ایلپاسو El Pasoکے امریکی فوجی اڈے پر ٹینک چلانے اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی مشق کرائی گئی۔ایلپاسو امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع ہے جو اپنے گرم موسم اور ریت کے طوفانوں کی بنا پر عراق سے مماثلت رکھتا ہے۔

کسی غیر جابندار ذریعہ سے مسٹر اوکیف یا ایرن کلائن کے ان خدشات و انکشافات کی تصدیق یا تردید نہ ہوسکی لیکن داعش کے اچانک ظہور ، عراق و شام میں انکی برق رفتار پیشقدمی اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد اس علاقے سے انکا قلع قمع نادیدہ سرپرستی کا پتہ دیتی ہے۔ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، تاریکی میں استعمال ہونے والی عینک، گن شپ ہیلی کاپٹر اور دوسرے قیمتی اسلحے کیلئے خطیر رقم کی فراہمی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایک وقت میں ISIS  کے مالی وسائل کا تخمینہ دوارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ آخر داعش کو یہ وسائل کس نے فراہم کئے؟؟ کینتھ اوکیف کا کہنا ہے کہ امریکہ نے داعش کی تشکیل و تربیت اور اسلحے کی فروخت کی مد میں اربوں ڈالر کمائے اور اب اسکے خاتمے کی مہم واشنگٹن اور اسکے حواریوں کیلئے اضافی آمدنی کا سبب بنے گی۔

داعش کے ظہور کے بارے میں مسٹر اوکیف نے بالی ووڈ اورہالی ووڈ کے حوالے سے امریکہ کے عسکری فلسفے پر بڑے لطیف انداز میں گفتگو کی تھی۔ کینتھ کا کہناتھا کہ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ دنیا میں فلمسازی کے دو بڑے مراکز ہیں۔ امریکی تہذیب کی جارحانہ پیشقدمی کے اثرات بالی ووڈ کی فلموں پر  مغربی  دھنوں اور ہالی ووڈ اسٹائل رقص کی صورت میں نظر آتےہیں لیکن ان دونوں مراکز پر تخلیق کی جانیوالی کہانیوں میں اب بھی بڑا واضح  فرق ہے۔ ہندوستانی فلم ڈھائی سے ساڑھے تین گھنٹے میں مہرو محبت کے کلمات، مارکٹائی، گیت و رقص، ظالم سماج کا ماتم ، بزرگوں کی نصیحت، رقیب کی بڑھکوں اور مزاحیہ کلمات کے تڑکوں کے بعد وصال کے حسین لمحات یا ابدی فراق کے ہیبتناک مناظر کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اسکے برعکس ہالی ووڈ کی فلموں میں کہانی کے اختتام پر تشنگی کا عنصر شامل کردیا جاتا ہے جسکی بناپر اسی کہانی پر فلم کے بہت سے اضافی  ایڈیشن جاری کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے مثلاً EXORCIST کے بعد EXORCIST 1,2,3جاری کی گئی۔ سلوراسٹالون کی مشہور زمانہ راکی کے پانچ ایڈیشن کے بعد ریمبو 1,2,3,4کا سلسلہ شروع ہوااور ریمبو کے اختتام پر راکی ریمبو کے امتزاج نے ایک نئی سیریز کو جنم دیا۔ مسٹر اوکیف کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اپنی عسکری پالیسی بھی اسی انداز میں تشکیل دیتا ہے یعنی فوجی مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے سے پہلے ایک نیا ہدف تراش کر کشور کشائی  کا سلسلہ جاری رکھاجاتا ہے۔ چنانچہ داعش دراصل القاعدہ کا تسلسل ہے۔

چارسال پہلے امریکہ کے سرکاری ریڈیو VOA پر اپنے ایک انٹرویو میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے داعش کو امریکہ کا آلہ کار قرار دیا تھا۔اپریل 2013میں جب امریکہ نے داعش کیخلاف انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم یعنی 43GBU- المعروف بموں کی ماں یا MOAB استعمال کیااسوقت افغانستان کے سیاسی حلقوں میں سخت بے چینی پھیلی تھی۔موایب سے ہونے والے دھماکے کی شدت  11 ٹن TNT کے مساوی ہے جبکہ ہیروشیماپر گرائے جانیوالے ایٹم بم کی تاثیر 15 ٹن TNTکے برابر تھی۔ بمباری کی تفصیل بیان کرتے ہوئے پینٹاگون ( امریکی وزارت دفاع )کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس خوفناک بم کا ہدف آچی کاگاوں مہمند درہ تھا جہاں مبینہ طور پر داعش نے زیرزمین سرنگوں کا ایک مربوط سلسلہ تعمیر کر رکھا تھا۔اس زیرزمین قلعے کو خراسان کمپلیکس کہا جاتا تھا۔ امریکہ میں افغانستان کے سفیر حمداللہ محب نے اسوقت دعویٰ کیا تھاکہ اس حملے سے ایک بھی شہری متاثر نہیں ہوا اور 'بموں کی ماں' نے خراسان کمپلیکس کو  ریت کے تودے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہاں تعینات سارے کے سارے داعش چھاپہ مار اپنے کمانداروں  سمیت زندہ دفن ہوگئے۔

لیکن جب گرد بیٹھی تو پتہ چلا کہ داعش کا بال بیکا تک نہ ہوا اور بموں کی ماں نے معصوم شہریوں کو جلا کر خاک کردیا۔اسی پس منظر میں  VOAنے حامد کرزئی سے جب گفتگو کی تو سابق افغان صدر پھٹ پڑے اور انھوں نے صاف صاف کہا کہ  داعش اورامریکی فوج میں کوئی فرق نہیں۔سابق امریکی صٖدر تو یہاں تک کہہ گئے کہ امریکہ کے فوجی ہیلی کاپٹروں پر داعش کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے امریکی سیاستدان داعش کا راگ الاپ رہے ہیں۔ عسکری تجزیہ نگار اور دوسرے ماہرین دعوٰی کررہے ہیں کہ امریکی فوج کی واپسی اور افغان فوج کی تحلیل سے پیدا ہونے والے خلا کو داعش تیزی سے پُرکررہی ہے اور ایک نیا نائن الیون بس مہینوں کی بات ہے۔اسی مصرعہ طرح پر غزلخوانی کرتے ہوئے پاکستان کے مشیر سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے  فرمایا کہ اگر افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا تو ایک اور نائن الیون جنم لے سکتا ہے۔یہ اور بات کہ 20 سال گزرجانے کے بعد اس سانحے کے حقیقی ذمہ داروں کے بارے میں خود امریکی ماہرین بھی یکسو نہیں۔ 

کابل ائرپورٹ پر حملے سے دودن پہلے امریکی صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق دہشت گرد کسی بھی وقت حملہ کرنے والے ہیں اور آخر کار یہ حملہ ہوگیا جس میں 13 امریکی سپاہیوں سمیت 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جسکے جواب میں  امریکی ڈرون نے ننگر ہار صوبے میں تقریباً اسی جگہ داعش کے مبینہ دہشت گردوں پر حملہ کیا جہاں 4 سال پہلے بموں کی ماں نے قیامت  ڈھائی تھی۔

اس حملے کے دودن بعد 29 اگست کو امریکی ڈرون نے شمالی کابل کے گنجان علاقے میں ایک کارکو نشانہ بنایا۔ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ آتشگیر مواد سے بھری اس کار کاہدف کابل ایرپورٹ کے باہر انخلا کے انتظار میں  کھڑے  ہزاروں شہری تھے۔اس حملے سے چند گھنٹہ پہلے کابل کے امریکی سفارتخانے نے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ ایرپورٹ کے قرب وجوار سے ہٹ جائیں۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس حملے میں  شیر خوار سمیت ایک ہی خاندان کے 9 افراد مارے گئے۔داعش کا کیا نقصان ہوا اسکے بارے میں خود چچاسام  کو بھی کچھ خبر نہیں۔امریکی مرکزی کمان (سینٹرل کمانڈ) کے ترجمان نے خالی اتنا کہا کہ اس پیش بندی کے نتیجے میں دہشت گردی کی ایک بڑی کاروائی ناکام بنادی گئی۔

انخلا کے دن قریب آتے ہی داعش کے حملوں اور امریکہ کی جوابی کاروائیوں سے ایک طرف افغانوں میں خاصی بیچینی ہے تو  دوسری طرف واشنگٹن کے ذرایع ابلاغ افغانستان سے فوج کی واپسی کو امریکہ کی شکست قرار دے رہے ہیں جسکی وجہ سے صدر بائیڈن شدید دباو میں ہیں۔امریکی ماہرین کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ افغان فوجوں نے اسلحے کے ذخائر طالبان کے حوالے کردئے ہیں جن میں ہزاروں بکتر بند گاڑیاں، مہلک مشین گنیں، جنگی جہاز اور جدید ترین ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے تاریکی میں دیکھنے والی خصوصی عینکوں کے علاوہ جاسوسی کے حساس ترین آلات کی ایک بہت بڑی کھیپ بھی ملاوں کے ہاتھ لگی ہے۔

امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ  طالبان  ہیلی کاپٹر سمیت جدید اسلحہ استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن بقول صدر ٹرمپ یہ'تیزملا' جلد ہی تربیت حاصل کرلینگے۔ بعض امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ  روس اور چین کو  'مال، غنیمت' کے اس ڈھیر سے دلچسپی ہے اور وہ افغانوں کو تربیت کی آڑ میں جدید ترین امریکی اسلحے تک رسائی حاصل کر لینگے جس سے اسلحہ سازی کے باب میں امریکہ کی کلیدی پیش رفت دشمن کے سامنے  بے نقاب ہوسکتی ہے۔ کئی سابق جرنیل چھینے گئے امریکی اسلحے کو بمباری کے ذریعے تباہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کام جلداز جلد ہوجانا چاہئے کہ طالبان نے قیمتی اسلحے کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔

طالب رہنما خطرہ ظاہر کررہے ہیں کہ داعش کی سرکوبی کے نام پر امریکہ فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا جسکی وجہ سے افغانستان کے طول و عرض میں بےچینی و بے یقینی پھیلی رہیگی اور اقتصادیات کی تعمیر نو کا کام شروع نہیں  ہوپائیگا جو نئی حکومت کی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔طالبان نے بہت زور دیکر کہا ہے کہ 31 اگست کو انخلا کی تکمیل کے بعد افغان سرزمین پر داعش یاامریکہ کسی بھی قوت کی کاروائی سنگین جارحیت تصور ہوگی جسکی ذمہ داروں کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔

دوسری طرف واشنگٹن کی تیاریوں سے صاف ظاہر  ہے کہ امریکہ افغانستان پر فضا ئی حملے جاری رکھے گا جسکے لئے پینٹاگون ماورائے افق over the horizonمہم کی اصطلاح استعمال کررہا ہے۔ جب کابل ایرپورٹ خالی کرنےکے بعد امریکہ کے پاس افغانستان میں کوئی بھی فوجی یا ہوائی اڈا نہیں رہیگا تو ماورائے افق حملے کیسے ہونگے؟ افغانستان خشکی سے گھرا ملک ہے اور اسکی فضائی حدود میں داخلہ پاکستان، ایران، ترکمنستان، ازبکستان اور تاجکستان سے ہی ممکن ہے۔ کیا یہ ممالک امریکی بمباروں اور ڈرون کو اپنی فضائی حدود سے گزرکر افغانستان جانے کی اجازت دینگے؟؟ اعلان کی حد تک تو یہ تمام ممالک غیر مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان پر حملے کیلئے استعمال نہیں ہونے دینگے لیکن گزشتہ دو حملوں کیلئے ڈرون طیارے کسی نہ کسی ملک کی سرحد عبور کرکے افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔

اسی کیساتھ افغانستان میں مداخلت اورغیر ملکی موجودگی کو قانونی تحفظ دینے کیلئے اقوام متحدہ کی سطح پر کوششوں کا آغاز ہوچکاہے۔رائٹرز کے مطابق فرانس کے صدر ایمیونیل میخواں نے کہا ہے کہ انکا ملک برطانیہ کے تعاون سے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کریگا جسکے تحت کابل میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ایک محفوظ یا سیف زون Safe Zoneقائم کیا جائیگا۔

سیف زون کے نام سے اس “سیاسی جزیرے” کے قیام کا مقصد افغانستان چھوڑنے کے خواہشمند لوگوں کیلئے ملک سے روانگی کو محفوظ اور یقینی بنانا ہوگا۔ سادہ الفاظ میں یہ کابل ائرپورٹ اور اس سے متصل بڑے علاقے پر قبضے کا منصوبہ ہے۔کابل ائر پورٹ سمیت پورا دارالحکومت افغانستان کا اٹوٹ انگ ہے جس پر قبضے کو افغان عوام کبھی برداشت نہیں کرینگے۔ ملاوں کو توقع ہے کہ چین اور روس اس قرارداد کوویٹو کرکے غیر موثر کردینگے۔

برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکی دارالحکومتوں میں ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے مغرب افغانستان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں، یا یوں کہئے کہ غیر ملکی قبضہ ختم ہوئے ابھی تین ہفتے بھی نہیں گزرے کہ کہ زرغونہ جان کے کشورِ حسین کو نئی زنجیر پہنانے کی کوششیں شروع ہوگئیں ہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ابکی بار داعش کی گوشمالی کے نام پر افغانستان کو فضاسے نشانہ بنانے کے علاوہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعے دنیا کے اس غریب ترین ملک کو فقروفاقہ میں مبتلا کرکے مخصو ص ایجنڈے پر چلنے کیلئے مجبور کیا جائیگا۔ اسی کیساتھ سفارتی تنہائی میں مبتلا کرکے عالمی اداروں تک کابل کی رسائی مسدود کردی جائیگی۔

طالبان کو ان مشکلات کا اچھی طرح اندازہ ہے جن سے نمٹنے کیلئے نئی افغان قیادت ملک میں سیاسی یکجہتی اور مفاہمت کے ایک نکاتی ایجنڈے پر لسانی اکائیوں اور سیاسی طبقات سے بات چیت میں مصروف ہے۔ غیر مشروط عام معافی سے ہیجان میں کمی آئی ہے۔گزشتہ ہفتے خانہ بدوش کوچی قبیلے کے سربراہ اور سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی نے خود کو نئی انتظامیہ کے حوالے کردیا۔ انکا کہنا تھا میرا جینا مرنا افغانستان میں ہے۔ نہ میں روپوش رہونگا اور نہ ملک چھوڑونگا۔ جواب میں طالبان نے انکی سرداری تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مشران (سردار اور معززین) کا احترام افغان اقدار کا حصہ ہے۔

گفتگو و مذاکرات کے نتیجے میں پنجشیر کا معاملہ بھی بات چیت کے ذریعے حل ہوتا نظر آرہا ہے۔ معاملہ صرف پنجشیر تک محدود نہیں، بلخ کے سابق گورنر استاد عطا محمد نور کے صاحبزادے خالد نور نے مُلّا مخالف شمالی اتحاد سے طالبان کے رابطے کی تصدیق کی ہے۔  ترکی کی کوششوں سے عبدالرشید دوستم اور طالبان کے درمیان ثالثی شروع ہوچکی ہے۔عبوری وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دوستم ،  احمد مسعود اور سابق نائب صدر امراللہ صالح سمیت ہم تمام افغان رہنماوں کا احترام کرتے ہیں اور کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کے بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا

افغان سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ پابندیوں اور فضائی حملوں کا مقابلہ قومی اتفاق رائے اور مفاہمت ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کو افغان قوم کے آہنی عزم کا اندازہ ہوچکا ہے چنانچہ براہ راست حملے کے بجائے اندرونی خلفشار دشمن کی ترجیح ہے جسے بے لاگ و جرات مندانہ مکالمے سے ناکام بنایا جاسکتا ہے اور ملا اسی سمت میں کام کرتے نظر آرہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 ستمبر 2021

روزنامہ امت کراچی 3 ستمبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 3 ستمبر 2021

ہفت روزہ رہبرسرینگر 3 ستمبر



2021