Saturday, November 12, 2022

ٹُک خبر لے کے ہر گھڑی ہم کو

 

پھر وہ گھڑی۔۔۔۔۔

جنوب ایشیائی ممالک کی انجمن آسیان (ASEAN)کا سربراہی اجلاس کمبوڈیا کے دارالحکمومت نوم پنھ میں ہورہا ہے۔ سال میں دوبار ہونے والی یہ  تین روزہ بیٹھک اتوار کو ختم ہوگی۔ اس بار آسیان نے سربراہی کانفرنس میں جاپان، امریکہ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت کئی دوسرے ملکوں کے سربراہان ِ حکومت و مملکت کو خصوصی  طور پر مدعو کیاہے۔

اس موضوع پر  گفتگو پھر کبھی،  فی الحال تو وہ گھڑی پھر یاد آگئی

کمبوڈیا کے وزیراعظم ہُن سین نے اپنے مہمانوں کو گھڑیوں کا خصوصی تحفہ دیا ہے۔ کمبوڈیائی  وزیراعظم گھڑیوں کے بڑے شوقین ہیں۔ عوام کی بڑی اکثریت نانِ شبینہ سے محروم لیکن ہن سین جی کے شوق کا یہ عالم کہ   انھوں نے سوئٹزرلینڈ کے مشہور گھڑی ساز ادارے Richard Milleسے ایک فرمائشی گھڑی بنوائی  ہے جسکی قیمت دس لاکھ ڈالر ہے۔

شوقین مزاج اور قدر دان ،   ہن سین  نے ASEANمہمانوں کیلئے   طلائی   گھڑی تیار کروائی ہے  جسکے کناروں پر جلی حروف میں Made in Cambodia درج ہے۔  خالص چمڑے کے فیتے پر ASEAN Cambodia 2022 کُھدا ہوا ہے۔

 اپنے فیس بک پیغام میں وزیراعظم ہن سن نے  فخریہ کہا  کہ یہ گھڑی سو فیصد ساختہ کمبوڈیا ہے  اور معزز مہمانون کیلئے 25 کی تعداد میں ان گھڑیوں کا اسپیشل ایڈیشن تخلیق کیا گیا ہے۔

یہ خبر پڑھ کر ہمیں سعودی ولی عہد کی دی  ہوئی گھڑی یاد آگئی جسے انتہائی حقارت کے ساتھ  سوق دیرہ دبئی میں فروخت بلکہ  نیلام کردیا گیا۔ اچھا ہے پاکستان آسیان کا رکن نہیں ورنہ  کمبوڈیا کی یہ طلائی گھڑی سنگاپور میں بک  رہی ہوتی



 

Thursday, November 10, 2022

اسرائیلی انتخابات میں انتہاپسندوں کی کامیابی ۔۔ فلسطینیوں کی نئی آزمائش

 

اسرائیلی انتخابات  میں انتہاپسندوں کی کامیابی ۔۔ فلسطینیوں کی نئی آزمائش  

تین سال کے دوران اسرائیل کے پانچویں پارلیمانی انتخابات یکم نومبر کو ہوئے۔ بار بار انتخابات کے موجودہ سلسلے کا آغاز جنوری 2019 میں ہوا۔ وجہ نزاع لازمی فوجی بھرتی کا قانون بنا اور اس معاملے میں وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو المعروف بی بی کے شریکِ اقتدار اتحادیوں کے درمیان کشیدگی اتنی بڑھی کہ حکومت تحلیل ہو گئی۔ یہ تنازعہ کیا ہے؟ اس کی تفصیل ہم اس سے پہلے ایک نشست میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اسرائیل میں لازمی فوجی بھرتی کا قانون نافذ ہے جس کے تحت ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال 8 ماہ اور لڑکی کو دو سال فوجی خدمات سر انجام دینی ہوتی ہیں۔ لازمی فوجی خدمت کے قانون سے قدامت پسند حریدی (Heridi) فرقہ یا Ultra-Orthodox Jews مستثنیٰ ہیں۔ حریدی خود کو توریت اور احکامات ربانی یا تلمود (Talmud) کا وارث سمجھتے ہیں اور ان کے یہاں ہر مرد کے لیے توریت و تلمود (فقہ) کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کے لیے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshiva کہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں زمین پر بیٹھنا۔ حریدیوں کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی تربیت کے لیے مدراس سے 32 مہینے کی غیرحاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی جسے حریدی اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔

بی بی کی اتحادی اسرائیل مادر وطن وطن پارٹی (Yisrael Beitinu) کے سربراہ لائیبرمین کو حریدیوں کے لیے فوجی خدمت سے استثنےٰ پر شدید اعتراض تھا۔ ان کے خیال میں ایک فرقے سے خصوصی برتاو، دوسروں سے ناانصافی ہے۔ چنانچہ انہوں نے 2019 کے آغاز پر فوجی خدمت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے کے لیے ایک قانون متعارف کروادیا۔ اس ’جسارت‘ پر حریدی ربائی (علما) سخت مشتعل ہو گئے اور ان کی دونوں جماعتوں یعنی شاس اور جماعتِ  توریت  نے دھمکی دی کہ اگر بی بی نے بل کی حمایت کی تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ بی بی کو اس وقت پارلیمان کے 73 ارکان کی حمایت حاصل تھی جن میں شاس اور توریت جماعت کے 13 ارکان بھی شامل تھے۔ ان دو جماعتوں کے بغیر 120 رکنی کنیسہ (پارلیمنٹ) میں واضح اکثریت برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ بی بی نے اپنے متحارب حلیفوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن دونوں ہی اپنی بات پر اڑے رہے چنانچہ وزیر اعظم نے صدر سے کنیسہ تحلیل کرنے کی درخواست کردی اور 9 اپریل 2019 کو نئے انتخابات ہوئے۔

انتخابات کا اعلان ہوتے ہی جناب لائیبر مین نے صاف صاف کہا کہ حکومت سازی کے لیے وہ صرف اسی جماعت کی حمایت کریں گے جو ان کے بل کی حمایت کا پیشگی وعدہ کرے۔ اس ضمن میں حریدیوں کا موقف بھی بالکل بے لچک تھا اور توریت جماعت کے سربراہ موسٰی گیفنی نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ بل کس قیمت پر منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔
نئے انتخابات کے نتائج نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ مقررہ آئینی مدت میں کوئی بھی جماعت حکومت نہ بنا سکی، چنانچہ صدر نے نو زائیدہ اسمبلی تحلیل کر دی اور 17 ستمبر کو نئے انتخابات ہوئے۔ان  انتخابات کے نتائج بھی ویسے کے ویسے ہی تھے۔ وہ ایوان بھی کھلنے سے پہلے مرجھا گیا اور 2 مارچ 2020 کو تیسرے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس بار بھی معلق کنیسہ وجود میں آیا لیکن بی بی نے اپنے مخالف نیلے اور سفید یا B&W اتحاد کو شراکت اقتدار کا جھانسہ دے کر مخلوط حکومت بنالی۔ اس دوران نتن یاہو اور ان کی اہلیہ کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں تیزی آگئی۔ بربنائے عہدہ بی بی کو پیشی اور پوچھ گچھ سے استثنیٰ حاصل رہا۔

شراکت اقتدار معاہدے کے تحت نومبر 2020 میں B&W کے سربراہ کو وزیر اعظم بننا تھا۔ بی بی کی کوششوں سے ان کے سیکیولر و قوم پرست اتحادیوں نے فوجی تربیت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے میں دلچسپی نہیں لی لیکن وزیر اعظم کا استثنی مزید موثر بنانے کے لیے قانون سازی سے بھی انکار کر دیا۔ ساتھ ہی استغاثہ نے سپریم کورٹ کے روبرو موقف اختیار کیا کہ موجودہ قانون کے تحت وزیر اعظم کو اصالتاً (in person) حاضری سے استثنیٰ تو حاصل ہے لیکن سنگین الزامات پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قانونی سقم کے حوالے سے وکلائے صفائی کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کر دی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اصالتاً حاضری سے استثنیٰ وزیر اعظم کا حق نہیں بلکہ رخصت، عدالت کی توثیق سے مشروط ہے۔ پہلی حاضری کے بعد سے کرونا کا بہانہ بنا کر بی بی ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔وزیر اعظم کے وکلا نے بی بی کو متنبہ کیا کہ اگر B&W سے شرکت اقتدار کے معاہدے کے تحت نومبر میں انہوں نے وزرات عظمیٰ چھوڑی تو عدالت سے ان کی گرفتاری کا حکم جاری ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے B&W کو دھمکی دی کہ اگر استثنا کے قانون میں ترمیم کر کے وزیر اعظم کے ساتھ سابق وزیر اعظم کو بھی تحفظ دے کر اسے ناقابل دست اندازی عدالت نہ بنایا گیا تو وہ حکومت تحلیل کر دیں گے۔ آخر کار سانجھے کی یہ ہنڈیا پھوٹ ہی گئی۔

چوتھے انتخابات گزشتہ برس 23 مارچ کو منعقد ہوئے۔ اس بار بھی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی اور صورتحال کچھ یہ ہوئی کہ بی بی کے لیکوڈ اتحاد اور ان کے مذہبی حلیفوں کی مجموعی نشستیں 52 اور ان کے مخالفین کا پارلیمانی حجم 51 تھا۔ یمینیہ (دایاں بازو) پارٹی کو سات نشستیں ملیں۔ مول تول اور سودے بازی کے بعد یمینیہ نے بی بی مخالف اتحاد سے معاہدہ کر لیا جس کے سربراہ Yesh Atid یا مستقبل پارٹی کے یار لیپڈ Yair Lepid تھے۔ یمینیہ کے ساتھ آ جانے کے بعد بھی حکومت سازی کے لیے 61 کا عدد پورا نہ ہوا اور ایوان وزیر اعظم کی کنجی 10 نشستوں والےعرب اتحاد کے پاس آگئی۔ یہ اتحاد دو دھڑوں پر مشتمل تھا۔ جوائنٹ لسٹ، جس کے پاس 6 نشستیں تھیں اور 4 نشستوں والی اخوانی فکر کی حامل رعم۔عربوں کو اپنے ساتھ ملانے والا غدار کہلاتا اس لیے بی بی اور ان کے مخالف مسٹر لیپڈ عربوں کے سائے سے بھی دور رہے۔ لیکن لیلےٰ اقتدار کا عشق قومی پرستی پر غالب آگیا اور یارلیپڈ نے رعم سے اتحاد کر کے حکومت بنالی۔

 طئے یہ پایا کہ آدھی مدت یمینیہ کے نفتالی بینیٹ وزیر اعظم ہوں گے اور اگست 2023 میں شمعِ اقتدار یار لیپڈ کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ جوڑ توڑ کے بعد رعم کو ملا کر بھان متی کے اس کنبے کو 120 کے ایوان میں 61 ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ بھان متی اس لیے کہ اتحاد میں ربائی (ملا) مخالف اسرائیل مادرِ وطن پارٹی، بائیں بازو کی لیبر اور دائیں بازو کی یمنیہ کے ساتھ عربوں کی رعم بھی شامل تھی۔

اتحاد میں دراڑ کا آغاز اس سال اپریل میں Passover کے تہوار سے شروع ہوا۔ یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ کی قیادت میں بنی اسرائیل کو بحر قلزم سے بحفاظت گزار کر ان کے سامنے فرعون اور اس کے پورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ غرق کر دیا تھا۔ یہ واقعہ عبورِ عظیم Passover کہلاتا ہے۔
تہوار پر خصوصی عبادت کے ساتھ لذتِ کام و دہن کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ ہسپتال کے مریضوں اور مسافروں میں کھانے تقسیم ہوتے ہیں۔ یہودیوں کے یہاں کھانے پینے کے ضابطے اور پابندیاں خاصی سخت ہیں۔ اس تہوار پر حمص (Chametz) بہت مقبول ہے جو چنے کے آٹے سے بنایا جاتا ہے۔ فلسطینی حمص تو آٹے کو پانی میں گوندھ کر براہ راست بنایا جاتا ہے لیکن اسرائیلی، ذائقے کو خمیری بنانے کے لیے آٹے کو گوندھ کر ایک دن چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے دن اس آٹے کی روٹیاں بنالی جاتی ہیں۔ یہودی علما کے نزدیک خمیر ایک نشہ آور چیز ہے جو ان کی شریعت میں حرام ہے۔ روایت کے مطابق مصر میں حمص روٹی بنانے کا یہی طریقہ تھا لیکن جب Passover کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم پر یہودیوں نے ہجرت کی تو جلدی کی وجہ سے وہ آٹے کو خمیر نہ کر سکے اور تازہ آٹے کی روٹیاں بنالیں۔ علما نے اس کی یہ تعبیر پیش کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت کے علاوہ نشے سے پرہیز بھی اللہ کی رضا کا سبب بنا جس کی وجہ سے ان پر وہ رحمت نازل ہوئی۔ اسی بنا پر Passover کی تقریبات میں یہودی حمص استعمال نہیں کرتے۔ اس بار حکومت کی جانب سے تہوار کے موقع پر جو کھانا تقسیم کیا گیا اس میں حمص بھی شامل تھا۔

قدامت پسندوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ عبادت گاہوں میں خواتین اور مردوں کا علیحدہ انتظام مناسب نہیں ہے جس کی وجہ سے دیوارِ گریہ سمیت یہودی معبدوں میں اختلاطِ مردوزن قابل اعتراض حد پر آگیا ہے۔یمینیہ کی ایک رہنما محترمہ ایدت سلیمان کو حمص کی تقسیم اور عبادت گاہوں میں اختلاطِ مردوزن پر حلقہ انتخاب کی جانب سے سخت دباو کا سامنا تھا اور معاملہ طنرو تنقید سے راہ چلتے فحش گالیوں اور ہلکے پھلکے دھول دھپے تک پہنچ گیا۔ اسکول جاتے ہوئے ان کے بچوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا۔ گھر کے آگے اشتعال انگیز مظاہرے کے ساتھ ان کے شوہر سے دفتر میں بدتمیزی کی گئی۔

اسی کے ساتھ ایک اور تنازعہ بھی اٹھ کھڑا ہو۔ امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے میں تقریر کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے فلسطینیوں کے علاقے کو دریائے اردن کا مغربی کنارہ کہہ دیا۔ یہودیوں کے یہاں یہ علاقہ یہودا والسامرہ (Ezor Yehuda VeShomron) کہلاتا ہے۔ قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ مغربی کنارہ کہہ کر نیفتالی صاحب نے اسے مقبوضہ عرب علاقہ تسلیم کر لیا ہے جبکہ یہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔

محترمہ ایدت پر دباو اتنا بڑھا کہ انہوں نے وزیر اعظم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔چنانچہ 120 کے ایوان میں وزیر اعظم کے ووٹ 60 ہو گئے جبکہ اکثریت کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ تاہم تیکنیکل نکتے نے جناب نیفتالی بینیٹ کو بچا لیا۔ ضابطے کے مطابق اعتماد کے ووٹ کا حکم جاری کرنا اسپیکر کا صوابدیدی اختیار ہے اور اسپیکر ان کی پارٹی کا ہے۔ حزب اختلاف صرف عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم سے جان چھڑا سکتی ہے جس کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ محترمہ عیدت نے اعلان کیا تھا کہ اگر اعتماد کا مرحلہ آیا تو وہ حکومت کی حمایت نہیں کریں گی لیکن عدم اعتماد کی تحریک میں وہ غیر جانب دار رہیں گی۔

کچھ دنوں بعد مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام پر ایک نیا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بائیں بازو کی لیبر پارٹی کا خیال ہے کہ نئی بستیوں کے قیام سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ لہذا یہ سلسلہ معطل کر دیا جائے۔ اس بات پر یمینیہ کے ایک اور قدامت پسند رکن پارلیمنٹ نیر اوبیک Nir Orbach سخت مشتعل ہو گئے اور کہا کہ اگر نئی آبادیوں کا فیصلہ معطل نہ ہوا تو حکومت کو خدا حافظ۔ نیر صاحب کی اس بات پر لیبر پارٹی کی سربرہ موراو میکائیلی Merav Michaeli برہم ہو گئیں اور کہا کہ نیفتالی جی فیصلہ کر لیں، اگر وہ نیر کے ناز اٹھانا چاہتے ہیں تو حکومت کو سرخ سلام۔ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی بی نے دھمکی دے دی کہ کینسہ کے اگلے اجلاس میں وہ عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں گے۔ ہزیمت سے بچنے کے لیے نیفتالی بینیٹ اور یار لیپڈ نے تحلیلِ پارلیمنٹ کی قرارداد پیش کر دی۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا تھا کہ اسرائیلی رائے عامہ کی مذہبی و نظریاتی بنیادوں پر تقسیم بہت واضح ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) 120 نشستوں پر مشتمل ہے اور گزشتہ پانچ انتخابات میں کوئی بھی جماعت 36 سے زیادہ نشستیں نہ لے سکی۔اسرائیلی سیاست پانچ واضح گروہوں بلکہ رجواڑوں پر مشتمل ہے:

بی بی کی قیادت میں دائیں بازو کا لیکوڈ اتحاد

یہودی ربائی

عرب مسلم اتحاد

قوم پرست

بایاں بازو اور لبرل قوتیں

عرب اتحاد کی حیثیت ہندوستان کے دلتوں کی سی ہے کہ کوئی جماعت انہیں منہ نہیں لگاتی۔ اسرائیل میں 1967 کے بعد ہتھیائے گئے علاقے کے لوگ قانونی طور پر ‘پناہ گزین’ سمجھے جاتے ہیں جو اسرائیلی شہریت کے حق دار نہیں لیکن قیام اسرائیل یعنی 1947 کے وقت جو عرب، یروشلم اور اسکے مضافات میں آباد تھے انہیں اسرائیلی شہری تسلیم کر لیا گیا۔ اسرائیل کی کل آبادی میں ایسے عربوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب ہے جن میں 21 فیصد مسلمان اور باقی ماندہ 4 فیصد مسیحی اور دروز ہیں۔

حسبِ سابق اس بار بھی 39 جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلمان اور عربوں کا حداش اتحاد، سیکیولر عرب تنظیم بلد اور اخوانی فکر سے وابستہ رعم پارٹی نے بھی قسمت آزمائی کی۔ گزشتہ انتخابات میں حداش نے 5 رعم نے 4 اور بلد نے ایک نشست حاصل کی تھی۔حالیہ انتخابات کی انتہائی اہم بات مسلمان اور عرب ووٹروں کی مایوسی تھی۔ اسرائیلی کی تاریخ میں پہلی بار عرب شریکِ اقتدار ہوئے تھے لیکن معاملہ یہ تھا کہ

ذکرِ حسین پر وہی پابندیاں رہیں

ذاکر حسین راشٹر پتی بن گئے تو کیا

فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک میں مزید شدت آ گئی۔ غزہ پر بمباری معمول کے مطابق رہی۔ اسرائیلی بستیوں کے قیام کا سلسلہ جاری رہا۔ عربوں کی بے دلی کا عملی مظاہرہ انتخاب کے دن ہوا جب ان کی آبادیوں میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 30 فیصد سے بھی کم رہا۔ اس کے مقابلے میں انتہا پسند عناصر کا جوش و خروش مثالی تھا جس کے نتیجے میں 70.61 فیصد ووٹ ڈالے گئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اسرائیل میں انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ لوگ صرف پارٹیوں کے انتخابی نشان پر ٹھپہ لگاتے ہیں اور مجموعی ووٹوں میں ہر جماعت کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اسے نشستیں عطا کر دی جاتی ہیں۔ جو جماعت مجموعی ووٹوں کے 3.5 فیصد سے کم ووٹ حاصل کرے اسے دوڑ سے باہر کر دیا جاتا ہے۔

نتائج کے مطابق بی بی کا لیکوڈ اتحاد 32 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا اور یار لیپڈ کی آزاد خیال مستقبل پارٹی نے 24 نشستیں حاصل کیں۔  دینِ صیہوں یا Religious Zionist پارٹی 14 کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ ان میں سے 6 نشستیں اس کی اتحادی عزمِ یہود (Otzma Yehudit) کی ہیں۔ حریدیوں کی شاس پارٹی نے 11 اور جماعت تویت نے 7 نشستیں حاصل کیں۔ شاس ‘پاسبانِ توریت’ کا عبرانی مخفف ہے۔ سابق وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کی یمینیہ اور عربوں کی بلد کم سے کم ووٹ حاصل کرنے کی شرط پوری نہ کر سکی۔ عرب اتحاد حداش اور اسلامی خیال کی رعم نے پانچ پانچ نشستیں حاصل کیں۔

انتہا پسند مذہبی جماعتیں سب سے بڑا پارلیمانی گروپ بن کر ابھری ہیں جن کا مجموعی حجم 32 ہے اور اتنی ہی نشستیں انتہا پسند بی بی نے حاصل کی ہیں۔ گویا پارلیمنٹ میں بی بی اور اس کے مذہبی اتحادیوں کی تعداد 62 ہے جبکہ حکومت سازی کے لیے 61 کی ضروت ہے۔

نئی حکومت میں مذہبی جماعتیں بی بی کی برابر کی شراکت دار ہوں گی۔ عزم یہود کے سربراہ اتامار بن گوو (Itmar Ben Givr) پر دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے کئی مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے تھے۔ اتامار علی الاعلان امریکی دہشت گرد باروش گولڈاسٹائین (Baruch Goldstein) کو ہیرو اور اسرائیل کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی شہریت کے حامل گولڈاسٹائین نے فلسطینی شہر ہیبرون کی ایک مسجد میں 29 نماز ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اتامار کھلے عام کہتے ہیں کہ سلطنتِ اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بنی قریظہ کے قتل کو نسل کشی قرار دیا جائے اور سعودی حکومت اس پر معافی مانگے۔شاس، جماعتِ توریت، عزمِ یہود اور دینِ صیہون چاروں مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق اور یہاں آباد فلسطینیوں کو مصر اور اردن دھکیل دینے کے حامی ہیں۔

انتہا پسندوں کی کامیابی سے جہاں فلسطینی حقارت آمیز سلوک اور قتل عام میں شدت آنے کا خدشہ محسوس کر رہے وہیں عام اسرائیلی بھی خوف زدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا ردعمل عام اسرائیلیوں کو بھگتنا ہو گا۔ لبرل و آزاد خیال عناصر خاص طور سے خواتین کو ڈر ہے کہ قدامت پسند حکومت ان کی شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائے گی۔ اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بی بی کے لیے اتنی بڑی تعداد میں ملاوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہو گا۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت بھی بہت دن چلنے والی نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 نومبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 11 نومبر 2022

روزنامہ امت کراچی 11 نومبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 13 نومبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Friday, November 4, 2022

یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے؟؟؟؟

 

یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے؟؟؟؟

لانگ مارچ اور عمران خان پر حملے کے بعد سے  سیاسی و صحافتی دانشور صورتحال کا اپنے انداز میں تجزیہ کررہے ہیں، اس   حوالے سے چند سطور:

عزیزو! اب  تک   ہمارے سیاسی نیتاوں کو  وردی والوں  سے اپنے  معاملات میں مدا خلت کی شکائت  تھی۔ کہا جاتا تھا کہ سجیلے  جوان    دوڑ میں   آگے نکل  جانیوالے   'سرکش' گھوڑے کو نا اہلی  کا چابک    لگاکر میدان سے  نکال باہر کرتے  ہیں ۔  پھر نئے شہسوار کو  'پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنادیا جائیگا'، ' پاکستان ایک مثالی لبرل و معاشرہ  بنے گا' ، دو نہیں ایک پاکستان' 'مدنی  ریاست'   'صاف چلی ،  شفاف چلی ' جیسے پرکشش نعروں اور وعدوں کیساتھ ایوان میں لایا جاتا ہے۔  کچھ عرصے  بعد   جب راندہ ِ  درگاہ گھوڑے  کے سر سے مقبولیت کا بھوت   اترجاتا ہے تو اسکے  سافٹ وئر میں مناسب تبدیلی کرکے اس new and improved  جانور کو دوبارہ مقابلے کے نشان پر کھڑا کردیا جاتا ہے کہ 'چل مرے گھوڑے بسم اللہ'

لگتا ہے کہ اس بار  ہمارے    سیاستدان   وردی والوں  سے ملنے والی کڑوری  دوا انھیں کو پلانے میں کامیاب ہوگئے۔

فوج  میں قیادت کی تبدیلی    بہت اہم سنگ میل ہے  کہ اوپر آنے  والی تبدیلی،  دوسرے اعلیٰ افسران کیلئے  ترقی ، من پسند تبادلے اور پرکشش مواقع کا پیغام لاتی ہے۔ فوج بہت منظم ادارہ ہے لیکن وہ سب  ہیں پاکستانی اور انسان، چنانچہ انکے یہاں بھی غیر مرئی  اور مہذب قسم کی  محکمہ جاتی سیاست، روابط، فون  وملاقات  اور ترغیب کاری   (lobbying)کی 'واردات' ہوتی ہے۔

آجکل فوج کے کماندارِ اعلی  جناب قمر باجوہ صاحب کی سبکدوشی کا مرحلہ درپیش  ہے۔  باجوہ صاحب کی چھڑی کے خواہشمندوں  میں جنرل  فیض حمید،  جنرل عاصم منیر احمد شاہ اور جنرل ساحر شمشاد مرزا سرِ فہرست ہیں۔ جنرل فیض حمید اور کپتان ایک دوسرے کے ممدوح ہیں اور خانصاحب کی    دوبارہ تخت نشینی کی دیوانگی کی حد تک خواہش کا ایک بنیادی محرک بھی یہی کہ وہ 'تکڑے اور محب وطن'  جنرل فیض حمید کو کماندارِ اعلیٰ تعینات کر سکیں۔ دوسری طرف جنرل فیض حمید بھی  یقین کی حد تک پرامید ہیں کہ اِ دھر لیلٰےِ اقتدار نے کپتان کے گلے میں بانہیں ڈالیں  ادھر  جرنیلی چھڑی خود بخود انکی  بغل میں ہوگی۔اس حوالے سے کپتان اپنی خواہش  اور پسند کو  غیر مبہم انداز میں اتنی  بار دہراچکے ہیں کہ باقی دو جرنیل  حضرات کو اس منصب پر تقرری کیلئے عمران خان کی حمائت کی کوئی امید نہیں۔

 جنرل فیض حمید نے   اپنی تقرری کیلئے ترغیب کاری کا دائرہ  عسکری میدان سے سیاسی اکھاڑے تک بڑھادیا ہے اور GHQکی غلام گردشوں میں ہونے والی سرگوشیاں کپتان کے گوش گزار کردی جاتیں ہیں۔ اسی بناپر کپتان بڑے پراعتماد انداز میں کہتے پھر رہے  ہیں کہ 'مجھے اپنے خلاف ہونے والی ہرسازش کا علم ہے' ۔ پہلے سیاسی تبدیلیوں کے مشورے چھاونیوں میں ہوتے تھے اسی طرھ اب GHQکے مستقبل پر بلڈی سویلین کھل کر بحث کررہے ہیں۔

آرمی  چیف کے ساتھ  دوسری تقرریاں بھی ہونی ہیں جن میں سب سے اہم ڈائریکٹر جنرل سی یا DG Counter Intelligenceہے۔  ڈی جی سی  بربنائے عہدہ  آئی ایس آئی کے سربراہ   کو جوابدہ ہیں  لیکن فوج کے سربراہ بھی  ڈی جی سی کو ہدایات دیتے ہیں یعنی انکی reporting  dotted lineفوج کے سربراہ کو بھی ہے۔ ڈی جی سی   کا کام دہشت گردوں پر نظر رکھنا ہے اسلئے ، ملا، مساجدم مداراس کیساتھ سیاسی جماعتیں بھی انکی عقابی نگاہوں کا ہدف ہیں۔

آجکل ڈی جی سی    میجر جنرل فیصل نصیر ہیں جنھیں  عمران خاں ، وزیراداخلہ اور وزیراعظم کیساتھ وزیرآباد حملے کا سرغنہ نامزد کرنا چاہتے ہیں۔جنرل فیصل نصیر اور جنرل فیض  حمید کی آویزش برسوں پرانی ہے۔   کافی وعرصہ پہلے  جب  جنرل فیصل (تب بریگیڈیر) کراچی میں ملٹری انٹیلیجنس سے وابستہ تھے اسوقت انکی کراچی ہی میں تعینات بریگیڈیر شاہد پرویز سے نہیں بنتی تھی جو کراچی میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر تھے۔ شاہد پرویز جناب فیض حمید کے منظورِ نظر تھے تو فیصل نصیر،  جنرل ساحرشمشاد   کی good booksمیں۔ بعد میں جنرل فیض حمید کی مخالفت کے باوجود فیصل نصیر ترقی کرکے میجر جنرل بن گئے اور اب دوماہ پہلے انھیں GGCتعینات کردیا گیا۔جنرل فیض حمید اس ہزیمت کو اب تک نہیں بھولے۔

آئین کے تحت سپہ سالار کا تقرر وزیراعظم کی ذمہ داری ہے اسلئے  بظاہر فیض حمید کا اس منصب پر آنا  بعد از قیاس لگتا ہے کہ  وہ جنرل عاصم اور جنرل ساحر شمشار سے جونئیر ہیں اور شہباز شریف   کے  وہ اس حد تک منظور نظر نہیں کہ  انھیں  اپنے افسران پر سے چھلانگ لگواکر کمان کی چھڑی سونپ دی جائے۔جنرل فیض حمید کے چیف بننے کی ایک صورت یہی باقی رہ گئی ہے کہ  ملک گیر ہڑتال اور دھرنوں سے شریف حکومت کو مفلوج کردیا جائے اور ملک ایسی بحرانی کیفیت میں   آجائے کہ   جنرل باجوہ اور شریف انتظامیہ  کیلئے  جنرل فیض حمید کے تقرر کے سوا اور کوئی راستہ نہ رہے۔اسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے   آزادی مارچ شروع  ہوا ۔ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کاحوصلہ ساتویں آسمان کو چھورہاتھا اسلئے  کپتان اور جنرل دونوں کو توقع تھی کہ

وہ جو پی کر شراب نکلے گا

کس طرح آفتاب نکلے گا

لیکن  شرکا میں وہ  جوش و خروش نظر نہ آیا جسکی کپتان کو توقع تھی۔ مجمع ہر جگہ بلاشبہ بہت بڑا تھا لیکن یہ  کارواں نہ بن سکا یعنی لوگ بڑی تعداد میں آتےپرجوش انداز میں عمرا  ن خان کا خطاب سنتے اور تقریر ختم ہونے پر ساتھ چلنے کے بجائے خدا حافظ کہہ کر گھروں کی راہ لیتے اور دوسرے شہر میں نیا مجمع حاضر ہوجاتا۔ شاہ محمود قریشی ، اسدعمر اور دوسرے امن جو رہنماوں کا خیال تھا کہ اس کارواں کا لانگ مارچ کے بجائے عوامی رابطہ  مہم بنادیا جائے لیکن مہم جو کپتان   اور انکے غیر مرئی سہولت کاروں کے خیال میں وقت نکلا جارہا تھا۔ اسی دوران صدف نعیم کی شہادت سے مزید دھچکہ لگا۔

بدقسمتی سے سیاست کی بدقماش و بدخصال دیوی کو انسانی خون بہت پسند ہے۔ چنانچہ تجربہ کار سیاسی طبیبوں نے تحریک کیلئے خون کا انجیکشن تجویز کیا اور حملہ ہوگیا جس میں تین معصوم بچوں کا باپ اپنی جان سے گیا۔حکمت عملی یہ تھی کہ اسے مذہبی جنونی کا حملہ قراردیا جائے۔ تحقیقات کے آغاز سے بھی پہلے وزیرِداخلہ رانا ثنااللہ نے اس  حملے کو مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار دے دیا۔ عمران خان پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ   انھیں راستے سے ہٹانے کیلئے مذہبی انتہا پسندوں کو  استعمال کیا جائیگا، ملاؤں کے سر الزام دھرنے کا خانصاحب اور حکومت دونوں کا فائدہ ہے۔ سلمان رشدی پر حملے کی مذمت کرکے خاںصاحب مغرب میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرچکے ہیں اب خود کو مذہبی انتہا پسندوں کا ہدف ثابت کرکے وہ مزید منظور و محبوب نظر ہوجائینگے۔ سرکار کوبھی اس میں فائدہ ہے۔ جھوٹا سچا الزام لگاکر امریکہ کی خوشنودی کیلئے دو ایک حفاظ کو پھانسی چڑھادینا نقصان کا سودا نہیں۔

اس حملے کے ردعمل میں فیصل نصیر کو ہدف بنایا گیا۔ تاکہ فوج میں عمران خان  کے ترغیب کار  یہ کہہ سکیں کہ آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ اور جنرل باجوہ  کی حماقتوں سے اب فوج عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن  چکی ہےاور اگر اس ادارے کی ساکھ کو بچانا ہے تو عمران کے منظور نظر کوسپہ سالاری عطاکردو ورنہ اگر عوام بے قابو ہوگئے تو فوج بھی صورتحال پر قابو نہ پاسکے گی


Thursday, November 3, 2022

یوکرین جنگ ۔۔ تھکن، جنجھلاہٹ اور دراڑ

 

یوکرین جنگ ۔۔  تھکن، جنجھلاہٹ اور دراڑ

یوکرین روس جنگ نویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ جب 24 فروری کو صدر پیوٹن نے طبلِ جنگ بجایا اُس وقت ان کے جرنیلوں کا خیال تھا کہ عسکری کارروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہوجائے گی۔ جنگ کے ابتدائی ایام میں لگ بھی کچھ ایسا ہی رہا تھا۔ روسی افواج نے جارحانہ پیش قدمی کرکے جنوب مشرقی یوکرین کے بڑے حصے پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ دنباس (Donbas)کے نام سے مشہور اس علاقے کے دو صوبوں یعنی دینیاتسک (Donetsk)اور لوہانسک (Luhansk) کے کچھ حصوں پر روس 2014ء میں قبضہ کرکے اپنی مرضی کی حکومت بناچکا تھا، چنانچہ پیش قدمی کرتی فوج کو ابتدائی مرحلے میں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ دوسری طرف فضا سے داغے جانے والے تباہ کن میزائلوں نے یوکرین کے دفاعی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق جنگ کے آغاز سے وسط اکتوبر تک روس نے یوکرین پر 4500 میزائل برسائے۔

جنگ شروع کرتے ہی روس نے اپنی سرحد سے متصل مشرقی یوکرین میں زاپوریژیا (Zaporizhzhia)کے جوہری پاور پلانٹ پر قبضہ کرلیا جو زاپوریژیا صوبے کے شہر اینرہودار (Enerhodar)میں دریائے دنیپر(Dniper)کے کنارے واقع ہے۔ سوویت دور کا یہ پلانٹ 1986ء میں مکمل ہوا تھا جس میں 6 جوہری ری ایکٹر نصب ہیں، اور پلانٹ میں بجلی پیدا کرنے کی مجموعی گنجائش 5700 میکاواٹ (MW)ہے۔ یہ یورپ کی سب سے بڑی جوہری تنصیب ہے، جبکہ گنجائش کے اعتبار سے اس کا شمار دنیا کی دس بڑی جوہری تنصیبات میں ہوتا ہے۔ چند ہی دنوں میں جوہری پلانٹ کے قریب واقع تھرمل (پن بجلی گھر) پلانٹ بھی روس کے قبضے میں آگیا۔

جنگ کے ابتدائی دنوں میں یوکرینی فوج کا سب سے مہلک اسلحہ ترک ساختہ ڈرون تھے۔ ان ڈرونوں کے ذریعے یوکرین نے روسی فوج کی صفوں کی پشت پر حملے کرکے ان کی رسد میں خلل ڈالا اور کئی محاذوں پر روسی کمک کے راستے مسدود ہوگئے۔ اسی کے ساتھ امریکہ نے یوکرین کو جدید ترین ہمارس (HIMARS) راکٹ فراہم کردیے۔ ہمارس راکٹ اپنے دشمن کو پچاس میل دور سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی اسلحہ ساز ادارے لاک ہیڈ مارٹِن نے یہ راکٹ 1990ء میں تیار کیے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے مزید مہلک اور تیر بہدف بنادیا گیا ہے۔ اس ہتھیار کی عملی آزمائش نہتے افغانوں پر کی گئی تھی۔ امریکی حملے کے آغاز پر جارح فوج کا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کا طبعی جغرافیہ تھا۔ ملک کا بڑا علاقہ کوہستان پر مشتمل ہے۔ کھائیوں، غاروں اور چٹانوں کی اوٹ کو افغان جنگجو حفاظتی مورچوں کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ ان راکٹوں پر خصوصی بارودی مواد نصب کیے گئے جن کی ہلاکت خیزی کا یہ عالم تھا کہ ان کی ضرب سے بلند و بالا پہاڑوں کی مضبوط چٹانیں سُرمہ بن کر بکھر جاتی تھیں۔ لیکن چٹانوں کو رائی بنادینے والا بارود حریت پسندوں کے عزم کو پست نہ کرسکا۔ اس کے برعکس یوکرین میں ہمارس راکٹوں کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ امریکہ کے علاوہ جرمنی اور برطانیہ نے جدید ترین توپوں، زمین سے فضا میں مار کرنے والے راکٹوں اور گولہ بارود کا ڈھیر لگادیا۔

جدید ترین اسلحہ، تربیت اور زبردست مالی امداد سے، پسپا ہوتی یوکرینی فوجیں سنبھل گئیں اور ستمبر کے آخر سے زوردار جوابی حملوں کا آغاز ہوا۔ یوکرینی فوج نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے مقبوضہ Kherson, Zaporizhzhia, Luhansk, Donetsk صوبوں کے کئی علاقے روسیوں سے واپس چھین لیے۔ اس دوران روس کے ایران ساختہ ”شاہد 136“ڈرونوں نے یوکرین کے بجلی گھروں اور آب نوشی کے ذخائر کو نشانے پر رکھ لیا۔ ترک ڈرون کے مقابلے میں شاہد 136 خودکش ہیں یعنی یہ ہدف پر تباہ کن راکٹوں کے ساتھ خود بھی گرجاتے ہیں۔ اسی لیے ان سستے ”جنگی کھلونوں“ کو disposable droneکہا جاتا ہے۔ ان ڈرون حملوں میں یوکرین کے ایک تہائی کے قریب بجلی گھر تباہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ملک کا بڑا علاقہ تاریک اور پینے کے پانی کی قلت ہے۔ گزشتہ دنوں گروپ7 کی مجازی (virtual) چوٹی کانفرنس میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے شکوہ کیا کہ روس کے بمباروں اور مہلک میزائلوں سے کہیں زیادہ نقصان ہمیں شاہد ڈرونوں نے پہنچایا ہے۔ ایران جوہری منصوبے پر تعاون کے بدلے روس کو خودکش ڈرون فراہم کررہا ہے جبکہ اسرائیل روس سے تعلقات کے ہونکے میں غیر جانب دار ہے۔

امریکہ کی قومی سیکورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے الزام لگایا ہے کہ ڈرون کے ساتھ ایران نے ”قلیل تعداد“ میں سپاہی بھی مقبوضہ کریمیا بھیج دیے ہیں جو روسی افواج کو یوکرین پر ڈرون حملوں کی تربیت دے رہے ہیں۔ ایران اور روس دونوں نے امریکہ کے دعوے کو سفید جھوٹ قرار دیا ہے۔ کیا یوکرین کے خلاف ایرانی مدد کا واویلا اس کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی پیش بندی ہے؟ اگر واقعی ایرانی سپاہ کریمیا بھیجی گئی ہیں تو فرقہ وارانہ منافرت بھی خارج ازامکان نہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں سُنّی تاتار آباد ہیں جنھیں روسیوں کی جانب سے نسل کُشی کا سامنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ روس تاتار کشیدگی اب شیعہ ایران اور سنی تاتار تصادم میں تبدیل ہوجائے۔

یوکرینیوں نے تابڑ توڑ زمینی حملوں کے ساتھ روس کی زمینی اور آبی سرحدوں کے اندر بھی کئی کامیاب کارروائیاں کی ہیں، جن میں سب سے اہم روس کو کریمیا سے ملانے والے پل پر کار دھماکا ہے۔ آبنائے کرش پر تعمیر کیا جانے والا یہ پل یوکرین میں تعینات فوج کو کمک اور اسلحہ کی فراہمی کا سب سے محفوظ راستہ سمجھا جاتا ہے۔ روسیوں کے مطابق پل کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، لیکن اس کلیدی پُل تک رسائی بذاتِ خود یوکرینیوں کا بڑا کارنامہ ہے۔

اس واقعے کے چند ہی دن بعد یوکرینی سرحد کے قریب بیلگرود (Belgorod)چھائونی پر دھاوا بولا گیا اور روسی فوجی وردی میں ملبوس یوکرینی چھاپہ ماروں نے سپاہیوں پر اُس وقت فائرنگ کردی جب یہ جوان نشانہ بازی کی مشق کررہے تھے۔ حملے میں 11 سپاہی ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے۔

یوکرینیوں کا سب سے بڑا کارنامہ روس کے تباہ کن جہاز ایڈمرل میکرووف (Admiral Makarov) کی غرقابی ہے۔ یوکرینی بحریہ کے مطابق ایک مسلح ڈرون کشتی نے بحراسود میں مقبوضہ کریمیا کی بندرگاہ سیوسٹاپول (Sevastopol) کے قریب 409 فٹ لمبے اس میزائل بردار جہاز کو نشانہ بنایا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ڈرون کشتی ترک ساختہ تھی۔ روس نے اس واقعے کو آبی دہشت گردی قرار دیا ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکہ میں روس کے سفیر اناتولی انٹینووف (Anatoly Antonev) نے کہا کہ یوکرینی نازیوں نے بحری قزاقوں اور پیشہ ور دہشت گردوں کے تعاون سے سیوسٹاپول کی بندرگاہ پر حملہ کیا جس سے وہاں کھڑے جہازوں کو نقصان پہنچا۔ سفیر صاحب کا کہنا تھا کہ دہشت گردانہ کارروائی کی امریکہ اور نیٹو کی جانب سے ”پشت پناہی“ پر بطور احتجاج روس غلہ کی فراہمی معطل کررہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ترکیہ کی کوششوں سے روس اور یوکرین نے گندم اور دوسری زرعی اجناس کی بحراسود کے راستے ترسیل شروع کی تھی۔ روسی اور یوکرینی غلے سے لدے جہازوں کو ترک بحریہ بحرِروم تک حفاظت فراہم کررہی ہے۔ بحر روم کے کنارے واقع ملکوں بلکہ ساری دنیا میں ایک بار پھر گندم، جوار، مکئی اور دوسرے دانے مہنگے اور نایاب ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

ایک ہفتے کے دوران روسی فضائیہ کے دو بمبار طیارے تربیتی پرواز کے دوران رہائشی عمارتوں پر گرکر تباہ ہوگئے۔ بہت سے عسکری تجزیہ نگار ان حادثات کو روسی فوج کی تھکاوٹ اور کم حوصلگی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ شدید بمباری کے باوجود زمین پر روسی فوج کی کارکردگی بہت اچھی نہیں۔ دوسری جانب امریکہ اور نیٹو، یوکرین کے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے جتن کررہے ہیں۔ صدر پیوٹن کے جرنیلوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یوکرین فضائی اور میزائل حملوں کو غیر موثر کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ روس کا دوسرا افغانستان بن جائے گا۔

یوکرینیوں کی بے مثال مزاحمت ہے تو قابلِ تعریف… لیکن امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔ اب تک امریکہ بہادر اس جنگ میں 51.92ارب ڈالر پھونک چکے ہیں، جبکہ یورپی اعانت کا حجم 16.24 ارب ڈالر ہے۔ جہاں تک یوکرین کے مالی نقصان کا تعلق ہے تو عالمی بینک نے ستمبر کے آخر تک اس کا تخمینہ 348ارب ڈالر لگایا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ دس ماہ کے دوران یوکرین کے 6 ہزار شہری ہلاک اور 9ہزار سےزیادہ زخمی ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے 77لاکھ شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ جانی نقصان کے بارے میں کوئی مصدقہ خبر نہیں کہ ہر جنگ کی پہلی شہید سچائی ہے۔

جنگ پر بے تحاشا اخراجات نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شدید اقتصادی مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔ امریکہ ھیرا ہاتھی، کہ مر کر بھی سوا لاکھ کا۔ وہاں پریشانی تو ہے لیکن صرف گرانی کی حد تک۔ قلت کی آزمائش سے امریکہ اب تک محفوظ ہے۔ لیکن یورپ کا حال بہت خراب ہے۔ پہلے اس کی معیشت کو کورونا ناگن نے ڈسا، اور اب جنگ کی شکل میں نئی مصیبت سر پر آن پڑی۔ مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے یورپین سینٹرل بینک (اسٹیٹ بینک) شرح سود میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا عذاب کیا کم تھا کہ موسم سرما کے آغاز پر گیس کی لوڈشیڈنگ نے سردی سے ٹھٹھرتے گوروں کے چودہ طبق روشن کردیے۔

اسی کے ساتھ کساد بازاری کے کوڑے نے یورپی یونین کی بڑی بڑی کارپوریشنوں، خاص طور سے توانائی کمپنیوں کو ادھ موا کردیا ہے۔ جرمنی کی سب سے بڑی بجلی کمپنی Uniperکا کہنا ہے کہ اگر سرکار نے اعانت نہ کی تو اسے تالا لگ جائے گا۔ اس کمپنی کی سالانہ آمدنی (revenue) کا تخمینہ 170 ارب ڈالر ہے۔ گزشتہ سال اسے 4 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا، اور اِس سال کی ہر سہ ماہی ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ خسارے کے بوجھ سے کراہتی یونیپر نے بلب روشن اور دروازے کھلے رکھنے کے لیے 60 ارب ڈالر کی فرمائش کی ہے۔ دوسری صورت میں 11 ہزار ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔

سیاسی راہنما اپنے سر آئی بلا ٹالنے کے لیے ہر پریشانی کی وجہ روس اور یوکرین جنگ کو قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری سے تنگ آئے عام یورپی بھی اب یوکرینی جنگ اور اس کے نتیجے میں نازل ہونے والی مصیبت سے جھنجھلائے ہوئے لگ رہے ہیں۔ کئی جگہ یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ روس کو نیچا دکھانے کے لیے یورپ کی معیشت کو آگ لگادینا کہاں کی عقل مندی ہے! سوشل میڈیا پر ”یوکرین تنازعے کے بات چیت کے ذریعے پُرامن حل“ کے عنوان سے بحث شروع ہوگئی ہے۔

ہفتے کو چیک ریپبلک (سابق چیکوسلاواکیہ) کے دارالحکومت پراگ میں 70 ہزار افراد نے مہنگائی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور معاشی پریشانیوں کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ جلوس کے شرکا روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور یوکرین تنازعے کے پُرامن حل کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔ اسی کے ساتھ وزیراعظم Peter Fiala سے استعفے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے، حالانکہ نئی حکومت نے گزشتہ برس نومبر کے آخر میں نظم و نسق سنبھالا ہے۔ اسی قسم کے مظاہرے اگلے ہفتے پیرس، روم اور جرمنی کے شہروں میں متوقع ہیں۔

تاہم معاملہ یک طرفہ نہیں بلکہ ”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی“۔ عین اس وقت جب چیک ریپبلک کے ٖدارالحکومت پراگ میں ہزاروں افراد یوکرین جنگ بند کرکے تنازعے کو بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کررہے تھے، ماسکو میں روسی وزیرخارجہ سرگئی لاورو (Sergei Lavrov)نے بھی کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔

روس کے سرکاری ٹیلی ویژنRIA Novosti(RIAN) (روسی رسم الخط РИАН) پر گفتگو کرتے ہوئے جناب لاورو نے بہت ہی ”نرم“ لہجے میں کہا ”اگر ہمارے مغربی ہم نشینوں (Colleagues)نے بات چیت کے ایک نئے دور کا اہتمام کیا تو وہ ہمیں مذاکرات کے لیے تیار پائیں گے“۔ ہم نے ”نرم“ اس لیے کہا کہ جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار کسی روسی رہنما نے نیٹو یا یورپ کے لیے مخالف (Adversary) یا دشمن (Enemy) کے بجائے Colleagueکا لفظ استعمال کیا ہے جو دوست، ہم منصب، ساتھی، یا ہم نشیں کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

جناب لاورو نے گفتگو کو مشروط کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہماری دو شرائط کو تسلیم کرلیا جائے تو بات چیت نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ روسی وزیرخارجہ نے ان دو شرائط کو کچھ اس طرح بیان کیا:

:1   مغرب کو روس کے مفادات اور اس کی سلامتی کا خیال رکھنا ہوگا۔ روس کئی سالوں سے نیٹو کی توسیع پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کررہا ہے۔ کریملن نیٹو کے پھیلائو کو اپنے مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

 :2      روس کو توقع ہے کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے مغرب سنجیدہ رویّے کا مظاہرہ کرے گا۔

روسی وزیرخارجہ نے ان دونکات کی وضاحت نہیں کی لیکن کریملن یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہ دینے پر اصرار جاری رکھے گا۔ اس کے جواب میں روس یوکرین کو تحفظ و عدم مداخلت کی ضمانت دینے کو تیار نظر آرہا ہے۔ تناو کم کرنے کے اقدامات میں روس کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ سرِفہرست ہے۔

اسی دن صدر پیوٹن کے ترجمان ڈیمتری پیسکوف (Dmitry Peskov) نے روسی خبر رساں ایجنسی تاس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے گفتگو پہلے امریکہ سے ہونی چاہیے جو اس معاملے میں فیصلہ کن حیثیت (deciding vote)رکھتا ہے۔

روسی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ”صرف“ امریکہ سے مذاکرات پر اصرار حملے کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ہے۔ روس دنیا سے یہ بات تسلیم کرانا چاہتا ہے کہ یوکرین کے خلاف اس کی فوجی کارروائی علاقے میں امریکی مداخلت کا ردعمل ہے، اور اسے روسی جارحیت قرار دینا قرین از انصاف نہیں۔

روس یوکرین کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور کریملن نے اپنے دفاع اور انتہائی حساس تزویراتی (strategic) مفادات کے تحفظ کے لیے فوج کشی کی ہے۔ روس اس حملے کو جنگ کے بجائے ”خصوصی عسکری کارروائی“ قرار دیتا ہے۔

الفاظ، اصطلاح، نیت، ترجیحات اور حکمت عملی سے قطع نظر، دنیا میں امن کے خواہش مندوں کے لیے روس کی جانب سے امن کے یہ موہوم ہی سہی لیکن مثبت اشارے انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ آتش و آہن کی بارش اور توپوں کی گھن گرج میں شاخِ زیتون کی ہلکی سی سرسراہٹ ہی میزائل باری سے دہشت زدہ یوکرینیوں کے لیے نشاط انگیز ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 4 نومبر 2022

ہفت  روزہ دعوت دہلی، 4 نومبر 2022

روزنامہ امت کراچی 4 نومبر2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 6 بومبر 2022

روزنامہ قومی سیاست لکھنو