Friday, June 7, 2024

غزہ امن کیلئے صدر بائیڈن کی امن تجاویز اعتراف شکست اور تکبر کی گھونگھٹ، امدادی سرگرمیوں میں دو نمبری جھوٹ کا بھانڈا چوراہے پر پھوٹ گیا

 

غزہ امن کیلئے صدر بائیڈن کی امن تجاویز

اعتراف شکست اور تکبر کی گھونگھٹ، امدادی سرگرمیوں میں دو نمبری

 جھوٹ کا بھانڈا چوراہے پر پھوٹ گیا

دو سو اڑتیس دن کی مسلسل بمباری اور غزہ کو کھنڈر بنا دینے کے بعد مستکبرین اس نتیجے پر پہنچے  ہیں کہ قتلِ عام جیسے 'نیک کام' کے اختتام کا وقت آچکا ہے۔ جی ہاں 31 مئی کو امریکی صدر بائیڈن نے  قصرِ مرمریں میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا غزہ جنگ کا righteous مقصد مزاحمت کاروں کی قوت کو اس حد تک کمزور کرنا تھا کہ وہ دوبارہ 7 اکتوبر جیسا حملہ نہ کرسکیں۔ اب چونکہ یہ مقصد حاصل ہوچکا ہے اسلئے جنگ بند ہوجانی چاہئے'

انھوں نے تین مرحلوں پر محیبط قیامِ امن کی جو تجویز پیش کی وہ کچھ اسطرح ہے:

  • پہلامرحلہ: چھ ہفتے کے دوران اسرائیلی فوج کی واپسی، غزہ میں قید بیمار، ضعیف و خواتین اوراسرائیلی عقوبت کدوں سے فلسطینیوں کی رہائی
  • دوسرا مرحلہ: تمام زندہ قیدیوں کی رہائی
  • تیسرا مرحلہ: غزہ کی تعمیر نو کا آغاز اور مرجانے والے قیدیوں کی باقیات کی اسرائیل حوالگی

اپنے امن فارمولے کے متوقع دوررس نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'معاہدے سے تمام قیدیوں کی بحفاطت واپسی اور اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ مزاحمت کاروں سے نجات کے بعد نہ صرف غزہ خوش و خوشحال ہوگا بلکہ پائیدار امن اور سب کیلئے قابل قبول تصفیے کے نتیجے میں اسرائیل و فلسطین کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار ہوجائیگی'

بچوں اور خواتین کے قتل عام کو 'نیک مقصد' ایک انتہائی سنگدل شخص ہی قرار دے سکتا ہے۔ تاہم یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ جنگ عراق کے دوران امریکہ کے وزیردفاع ڈِک چینی خلیج میں ایک امریکی اڈے پر پہنچے جہاں عراق کو نشانہ بنانے کیلئے طیاروں پر بم لادے جارہے تھے۔ چینی صاحب نے ایک بم پر سیاہ مارکر سے With Loveلکھدیا اور اپنی تحریر پر انگلی رکھ کر فاتحانہ قہقپہ لگایا۔ چنگیز و ہلاکو سپاہِ دشمن کی کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کرتے تھے۔ان وحشیوں نے بھی شہری ہلاکتوں کو کبھی 'نیک' نہ جانا۔

شیخی و لن ترانی سے قطع نظر صدر بائیڈن کی تقریر شکست کا اعتراف اور امن فارمولا لاڈلے کو واپسی کیلئے 'باعزت راستہ' دینے کے کوشش سے زیادہ کچھ نہیں کہ خواتین و بچوں کے قتل عام اور غزہ کو ناقابل رہائش بنادینے کے باوجود اسرائیل 34 ہفتوں کے دوران اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہ کرسکا۔وزیراعظم نیتھن یاہو بار بار کہہ رہے تھے کہ ر فح مزاحمت کاروں کا آخری ٹھکانہ ہے، انکی عسکری قیادت وہیں چھپی ہوئی ہے اور اسرائیلی قیدی بھی ر فح کی سرنگوں میں بند ہیں۔ جرنیلوں نے یقین دلایا تھا کہ اگر اسرائیلی فوج ر فح داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی تو قیدیوں کو ہم بزورِ طاقت چھڑالیں گے۔ حملے کے آغاز پر اسرائیل نے ر فح کو مصر سے ملانے والی راہداری Philadelphi Corridorروٹ پر مکمل قبضے کا دعوی کیا تھا۔جرنیلوں کے خیال میں یہ پٹی اہل غزہ کیلئے آکسجن کی نالی ہے۔ ر فح آپریشن میں سینکڑوں شہریوں کو زندہ جلادیا گیا اور یہ وحشت بلا وقفہ جاری ہے لیکن اب تک کوئی قیدی بازیاب ہوا، نہ کوئی مطلوب رہنما قتل ہوسکا۔ بچوں کے جنازے کندھوں پر اٹھائے، بھوکے پیاسے، خاک برسر و خوں بدامان 25 لاکھ اہل غزہ کے ہونٹ آج بھی الحمد الله على كل حال (ہر حال میں اللہ کا شکر) کے ذکر سے تر ہیں۔

دوسری طرف اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ر فح گیٹ کے بہت قریب سے داغے گئے راکٹوں نے قلبِ اسرائیل کو نشانہ بنایا اور تل ابیب کا بن گوریان ائرپورٹ گھنٹوں مفلوج رہا۔امریکہ کے میزائیل شکن نظام آئرن ڈوم نے اکٹر راکٹ ناکارہ کردئے لیکن چند راکٹ اس نظام کو غچہ دیکر 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ساحلی شہر ہر تسلیا تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں عسکری کالونی میں ایک گھر سے شعلے بھڑکتے نظر آئے

مستضعفین نے امریکی صدر کی تقریر کو انکا احساس شکست سمجھ کر اس متکبرانہ پیشکش کا مدبرانہ جواب دے دیا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جواب میں کہا گیا ہے کہ 'اہل غزہ جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے انخلا کو یقینی بنانے کے لیے نیک نیتی سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں'

اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کو چھپانے کیلئے بائیڈن انتظامیہ جس بے شرمی سے جھوٹ بول رہی ہے وہ خود امریکی حکام کیلئے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزارت خارجہ کی ایک سینئر اہلکار نے استعفی دیدیا۔محترمہ اسٹیسی گلبرٹ (Stacy Gilbert)نے اپنے خط میں لکھا 'اسرائیل، شہریانِ غزہ کیلئے امریکی امداد کی تقسیم میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جسکے شواہد موجود ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن صدر بائیڈن نے کانگریس کے نام رپورٹ میں لکھوایا کہ امداد کی تقسیم میں مشکل تو ہورہی ہے لیکن اسکا ذمہ دار اسرائیل نہیں'۔ گلبرٹ صاحبہ کا کہنا ہے کہ انکا ضمیر قوم سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا۔ موصوفہ کی وزارت خارجہ سے وابستگی کو  20 سال ہو چکے ہیں۔

اہلکاروں کی طرح میڈیا پر بھی امریکی انتظامیہ بے نقاب ہورہی ہے۔ سی این این (CNN) نے انکشاف کیا کہ ر فح خیمہ بستی کو خاکستر کرنے کیلئے بوئنگ کا تیار کردہ GBU-39 بم استعمال ہوا۔ ہلاکت خیزی کے اعتبار سے سترہ کلو گرام بارود بھرے اس بم کا شمار Focused Lethally Munition (FLM)میں ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ نشر ہوتے ہی امریکی وزارت دفاع(پینٹاگون) کی ترجمان محترمہ سبرینا سنگھ نے کہا 'ہم معاملے کی تحقیق کررہے ہیں'۔ تقریباً اسی وقت امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل سے شہریوں کے بہتر تحفظ کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ جب کسی صحافی نے فاضل ترجمان کو صدر بائیڈن کا وہ بیان یاد دلایا جس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ اگر امریکی اسلحہ شہری آبادی کے خلاف استعمال ہوا تو اسکی اسرائیل فراہمی پر پابندی لگادی جائیگی تو موصوٖف بولے 'امریکی حکومت اور عوام بے گناہوں کی ہلاکت پر سوگوار ہیں، لیکن ہمارے خیال میں اسرائیل نے سرخ لکیر عبور نہیں کی'

اسی سی این این نے انسانی امداد کا بھانڈا بھی پھوڑدیا۔ بہت شور تھا کہ امداد کی تقسیم کیلئے امریکی بحریہ نے غزہ کے ساحل پر 32کروڑ ڈالر کے خرچ سے عارضی گودی(Pier)تعمیر کی ہے۔اس ماہ کی 17 تاریخ کو یہاں اٹلی سے آنے والا پہلا جہاز لنگر انداز ہوا اور26 مئی کو تندو تیز لہریں اسکا بڑا حصہ بڑا حصہ بہا لے گئیں۔ یعنی جدید ترین امریکی ٹیکنالوجی 9 دن میں چیں بول گئی۔ابتدائی تحقیقات پر پتہ چلا کہ گودی صرف تین فٹ اونچی لہروں اور 15 میل فی گھنٹہ ہوا برداشت کرنے کیلئے بنائی گئی تھی۔

غزہ قتل عام پر جہاں دنیا کا دہرا معیار بے نقاب ہوا وہیں اہلِ ضمیر بھی استقامت کا اظہار کررہے ہیں۔ اٹھائیس (28) مئی کو  فرانس کی ثابت قدم پارٹی (La France Insoumise (LFI کے رکن قومی اسمبلی Sébastien Delogu نے اظہار یکجہتی کیلئے اجلاس کے دوران ایوانِ اسمبلی میں فلسطین کا پرچم لہرادیا۔بات بہت معمولی سی تھی لیکن اسپیکر صاحبہ نے غصےکے عالم میں چیخ کر کہا 'یہ ناقابل قبول ہے' اور 36 سالہ سباسشین کو اجلاس سے نکال دیا۔فاضل رکن کو پندرہ دن کیلئے معطل کردیا گیا، اس دوران انھیں تنخواہ بھی نہیں ملے گی۔لیکن سباشین کو اس پر کوئی پریشانی نہیں۔ دوسرے دن ایک مظاہرے میں جوش و خروش سے فلسطین کا پرچم لہراتے ہوئے انھوں نے کہا 'میں قومی اسمبلی کے قواعد پر قائم رہنے کے بجائے تاریخِ انسانیت کے درست جانب کھڑے رہنے کو ترجیح دونگا'

جیسا کہ ہم اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں، غزہ کیساتھ غرب اردن میں آباد فلسطینی پناہ گزین اسرائیلی فوج کے نشانے پر ہیں۔ جنین کا ہنستا بستا علاقہ تقریباً کھنڈڑ بن چکا ہے۔ اسکا صنعتی علاقہ مسمار کردیاگیا۔ اس ہفتے نابلوس، اریحا اور مقتدرہ فلسطین کے دارالحکومت رام اللہ نے بدترین جارحیت کا مشاہدہ کیا۔رام اللہ کی جلزون خیمہ بستی پر اسرائیلی فوج کے حملے میں متعدد نوجوان جاں بحق ہوئے۔پناہ گزینوں کا یہ کیمپ 1949میں قائم ہوا تھا۔ڈھائی سو مربع میٹر رقبے پر یہاں ساڑھے آتھ ہزار نفوس ٹھنسے ہوئے ہیں۔ نابلوس میں گھر گھر تلاشی کے دورن خواتین سے بدتمیزی پر نوجوان مشتعل ہوگئے اور دست بدست لڑائی میں دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کردیا گیا۔

ر فح ہر قبضے کے بعد فلسطینیوں کیساتھ اسرائیلی فوج سرحد کی دوسری جانب،  مصر کو بھی للکار رہی ہے، 27 مئی کو جھڑپ میں دو مصری فوجی مارے گئے۔ یہ خبر اسرائیلی حکومت نے جاری کی جبکہ مصر نے اس واقعے کا ذکر تک نہیں کیا۔ صحافتی ذرایع کا کہنا ہے کہ ایک سرنگ کے تعقب میں جب اسرائیلی مصر کی جانب آئے تو وہاں موجود محافظین نے انکا راستہ روکا جس پر اسرائیلیوں نے گولی چلادی۔ اسرائیلیوں کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں نے رفح سے مصری سرحد تک سرنگیں کھود رکھی ہیں جس سے انھیں مدد پہنچتی ہے۔ 

اسرائیل کیلئے مغرب اور مغرب نواز حکومتوں کی مکمل و غیر مشروط حمائت میں اب تک کوئی فرق نہیں آیا۔ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل و آزاد خیال عناصردبے الفاظ میں اسرائیلی حکومت پر تنقید کررہے ہیں لیکن بحیثیت جماعت دائیں بازو کے قدامت پسندوں کی طرح ڈیموکریٹک پارٹی بھی اسرائیل کی حمائت کیلئے پرجوش ہے۔ یکم جون کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کو جو دعوت نامہ جاری ہوا اس پر کانگریس کے قدامت پسند اسپیکر مائک جانسن، ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد بزعم خود سیاہ فام لبرل، حکیم جیفری، سینیٹ کے قائد ایوان چک شومر اور قائد حزب اختلاف سینیٹر مچ مک کونل نے دستخظ کئے ہیں۔ خط میں بن یامین نیتھن یاہو سے 'استدعا' کی گئی ہے کہ وہ امریکی عوام کو  جمہوریت کے دفاع، دہشت کردی کے استیصال اور علاقے میں منصفانہ اور پائیدار امن کیلئے اپنے خیالات زریں سے مستفید فرمائیں۔

چند ہی دن پہلے سینیٹر چک شومر نے اسرائیلی فوجی کاروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیتھن یاہو سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ مشترکہ دعوت نامے  سے یہ بات پھر واضح  ہوگئی کہ دائیں بازو کے امریکی قدامت پسند ہوں یا بائیں بازو کے لبرل و سیکیولر عناصر، اسرائیل کے عشق میں سب ایک ہیں۔

لامقطوعہ ولا ممنوعہ، فوجی امداد کیساتھ اب اقتصادی مدد کیلئے فرمائش کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایک جامعہ میں ' اقتصادی صؤرتحال' پرسیمنار سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک) کے گورنر عامر جارن (Amir Yaron) نے دہائی دی کہ جنگ کا خرچ ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہاہے۔ گورنر صاحب کا کہنا تھا کہ جنگ کے اخراجات کا تخمینہ 67 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے اور جنگ کی وجہ سے اسرائیلی معیشت میں مندی کے اثرات نمایاں ہیں۔ قومی معیشت کی شرح، نمو جو 2022 میں 6.5 فیصد تھی، موجودہ مالی سال 1.6فیصد رہ جائیگی۔علمی مجلس میں جذبات کا تڑکہ لگاتے ہوئے گورنر صاحب نے کہا کہ جنگ محض جذبات سے نہیں لڑی جاسکتی بلکہ آزادی کی قیمت نقدی کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔

وزیرعظم یتھن یاہو نے صدر بائیڈن کے تجویز کردہ امن منصوبے کو مسترد کردیا۔ یکم جون کو ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ اسرائیل مکمل فتح تک جنگ رکھنے کیلئے پرعزم ہے اور مزاحمت کاروں کو صفحہ ہستی سے مٹائے بغیر ہماری تلواریں نیاموں میں نہیں جائینگی۔اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مستضعفین کو فنا کرنے پر اصرار تل ابیب کی سیاسی مجبوری ہے۔ قدامت پسندوں نے  اپنی قوم کو ایسے بھیانک جنگی جنون میں مبتلا کردیا ہے کہ جنگ بندی پر آمادگی انکی شکست تصور کی جائیگ۔ عظمتِ یہود جماعت (Otzma)کے سربراہ، وزیراندرونی سلامتی بن کوئر اور دینِ صیہون جماعت (RZP)کے قائد، وزیر خزانہ اسموترچ  نے دھمکی دی ہے کہ اگر بائیڈن کا تجویز کردہ امن معاہدہ منظور ہواتو وہ حکومتی اتحاد سے الگ ہوجائینگے۔ ایک سو بیس رکنی پارلیمان میں حکمراں اتحاد کو 64ارکان کی حمائت حاصل ہے جن میں سے 14 نشستیں ان دونوں کے پاس ہیں۔

 دوسری طرف  مزاحمت کار،  اسرائیلی فوج کی پسپائی اور جنگ کے خاتمے سے پہلے قیدی رہا کرنے کو تیار نہیں۔ دیکھنا ہے کہ امریکی اپنے لاڈلے کو معقولیت اختیار کرنے پر کیسے راضی کرتے ہیں؟؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 7 جون 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 7 جون 2024

روزنامہ امت کراچی 7 جون 2024

ہفت روزہ رہبر 7 جون 2024


میکسیکو کے انتخابات، 87 فیصد ووٹ خواتین کے نام پہلی بار ایک خاتون صدر منتخب

 

میکسیکو کے انتخابات، 87 فیصد ووٹ خواتین کے نام

پہلی بار ایک  خاتون صدر منتخب

یونائیٹیڈ میکسیکن اسٹیٹس المعروف میکسیکو کے انتخابات میں بائیں بازو کے اتحاد نے میدان مار لیا اور 61 سالہ ڈاکٹر کلاڈیا شینبام (Caludia Sheinbaum)ملک کی 66ویں صدر منتخب ہوگئیں۔ انکے اتحاد نے 500 رکنی ایوان نائبین (قومی اسمبلی) میں 276 اور 128 ارکان پر مشتمل سینیٹ میں 70 نشستیں جیت کر پارلیمان میں بھی برتری حاصل کرلی۔ حالیہ انتخابات اس لحاظ سے بے حد اہم ہیں نہ صرف یہاں پہلی بار ایک خاتون صدر منتخب ہوئیں بلکہ وہ 71 فیصد کیتھولک آبادی والے ملک کی پہلی  یہودی صدر ہونگی۔دلچسپ بات کہ انکی قریب ترین حریف سوچیل گالویز (Xóchitl Gálvez)بھی ایک خاتون ہیں۔ کلاڈیا نے 58.56 اور سوچیل نے  28.45 فیصد ووٹ لئے گویا میکسیکو کے 87 فیصد ووٹروں نے اس بار اپنے ملک کی قیادت و سیادت کیلئے خواتین کے حق میں رائے دی۔

تیرہ کروڑ نفوس پر مشتمل میکسیکو براعظم شمالی امریکہ کے جنوب میں واقع ہے۔ انیس لاکھ بہتر ہزار 500 مربع کلومیٹر رقبے کے حامل اس ملک کی آبی سرحدیں مغرب میں بحرالکاہل اور مشرق میں خلیج میکسیکو کے راستے بحراوقیانوس سے ملتی ہیں۔ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد 3155 کلومیٹر طویل ہے۔

میکسیکو کا سب سے بڑا مسئلہ انتہائی پرتشدد جرائم ہیں جسکی سرپرستی منظم مافیا کرتے ہیں۔ہر سال 40 ہزار سے زیادہ افراد ان خونیوں کے ہاتھوں  قتل ہورہے ہیں۔ خواتین پر مجرمانہ حملے، اغوا برائے تاوان اور مغوی بچیوں سے باالجبر جسم فروشی کی واردات عام ہیں۔ جرائم پیشہ گروہوں کی رسائی اور پزیرائی اعلیٰ سطح تک ہے اسلئے مجرم خوف سے عاری بلکہ کاروائیوں میں دیدہ دلیری کا رجحان نظر آتا ہے۔ اسی بنا پر ہزاروں لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں شمالی سرحد عبور کرکے امریکہ جانے کے لئے ہر خطرہ انگیز کرنے کو تیار ہیں۔ بری راستے کے علاوہ سرحد پر بہنے والے دریائے ریوگرانڈ کو تیر کر پار کرنے کی کوشش میں ہر ماہ متعدد لوگ ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر شینبام پرعزم ہیں کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کو لگام دیکر میکسیکو کو خوش و خوشحال معاشرہ بنادینگی۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ نومنتخب صدر اس کارِ خیر میں کس حد تک  کامیاب رہتی ہیں، لیکن ایوانِ صدارت کیساتھ پارلیمان میں بھی واضح اکثریت کی بناپر توقع ہے کہ انھیں قانون سازی اور انتظامی امور میں کسی بڑی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا

کلاڈیا شینبام کا ننھیال لتھوانیہ سے  1920 میں میکسیکو آکر آباد ہوا جبک انکے دادا جان کے خاندان نے 1940 میں بلغاریہ سے یہاں ہجرت کی۔ کہا جاتا ہے کہ انکا ننھیال و ددھیال یہودی عقیدے کا حامل تو ہے لیکن طبیعت کے اعتبار دونوں خاندان آزاد خیال اور سیکیولر ہیں، تاہم انکے یہاں یہودی تہوار اہتمام سے منائے جاتے ہیں۔

کلاڈیا کی ولادت میکسیکو میں ہوئی۔ انھوں نے جامعہ میکسیکو (UNAM)سے طبیعیات (فزکس) میں ماسٹر اور پھر اسی درسگاہ سے انرجی انجنیرنگ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ کلاڈیا نے امریکہ کی موقر جامعہ کیلی فورنیا برکلے  کی تحقیقی سرگرمیوں میں حصہ لیااور کئی مقالے تحریر کئے۔انھوں نے اپنی مادرعلمی میں درس و تدریس کے فرائض بھئ انجام دئے۔ماحولیاتی تبدیلی پر نومنتخب میکسیکن صدر نے امریکی سائنسدانوں کیساتھ مل کر اقوام متحدہ میں ایک مقالہ پیش کیا۔ انکے گروپ کو 2007 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

کلاڈیا دورِ طالب علمی ہی سے سیاست میں سرگرم ہیں۔وہ جامعہ میکسیکو میں پارٹی برائے جمہوری انقلاب (PRD)کے طلب ونگ کی صدر تھیں۔انھوں نے 2015 کے انتخابات میں حصہ لیکر عملی سیاست کا آغاز کیا اور  میکسیکو سٹی کے مضافاتی قصبے Tialpanکی رئیس شہر منتخب ہوگئیں۔ تین سال بعد وہ میکسیکو سٹی کی رئیس شہر چُن لی گئیں۔ سیاسی و نظریاتی اعتبار سے کلاڈیا سیکیولر و آزاد خیال ہیں۔ وہ خود کو بہت فخر سے feministکہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ اسقاط کو خواتین کا حق سمجھتئ ہیں اور ہم جنسوں (LGBT)کیلئے ہم جنس شادی سمیت تمام حقوق کی حامی ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ عقیدتاً یہودی تو ہیں لیکن وہ کسی یہودی عبادتگاہ (Synagogue) سے وابستہ نہیں۔حالیہ دنوں میں انکی مادر علمی UNAMمیں غزہ خوریزی کے خلاف بڑے مظاہرے ہوئے اور اسرائیلی سفارتخانے کو مشتعل ہجوم نے آگ لگائی۔ ان واقعات پر انکا کوئی منفی بیان سامنے نہیں آیا۔

اسرائیل کے علاوہ جن ملکوں کی قیادت یہودی سیاستدان کرچکے ہیں ان میں جینیٹ جگن صاحبہ 1997 سے 1999 تک گایانہ (Guyana)کی صدر رہیں، رکاردو مدورو 2002 سے 2006 تک ہنڈوراس کی صدارت پر فائز رہے اور پیدرو پیبلو کوچنسکی نے 1016 سے 2018تک پیرو کی قیادت کی۔ اسوقت ولادیمر زیلینسکی یوکرین کے صدر ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 7 جون 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 7 جون 2024

روزنامہ امت کراچی7 جون 2024

ہفت روزہ رہبر 9 جون 2024






 

Wednesday, June 5, 2024

تیل کے میدان سے پیدوار کا آغاز

 

تیل کے میدان سے پیدوار کا آغاز

تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن (OGDCL)نے کوہاٹ میں کھودےجانیوالے ترقیاتی کنویں چندا 7 سے پیداوار شروع کردی۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کسی نشست میں عرض کیا تھا تیل اور گیس کی صنعت ، گہری جیب، باوقار و پر عزم صبر اور آہنی اعصاب کا تقاضہ کرتی ہے۔

ایک طویل عرضہ مساحت ارضی میں صرف ہوتا ہے، برسوں کے تحقیق و مطالعے اور علاقے میں پہلے کی جانیوالی کوششوں کے تنقیدی جائزے کے بعد کھدائی کی جگہ کا تعین ہوتا ہے۔ کھدائی سےپہلے زیرزمین چٹانوں کی ساخت اور متوقع خطرات سے نبٹنے کی پیش بندی ضروری ہے جس پر خاصہ وقت لگتاہے۔ کھدائی کے اکثر مقامات نجی ملکیت ہیں لہٰذامالکان سے مول تول بھی ایک اعصاب شکن مشق ہے۔

اسکے بعد کہیں جاکر کھدائی کا مرحلہ آتا ہے جس پر پانی کی طرح سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ شمالی علاقوں میں ایک کنویں کی کھدائی پر چھ سے نو مہینے لگتے ہیں اور ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر صرف ہوتے ہیں۔پوٹھوار میں بعض کنووں پر کھدائی کا خرچ چار کروڑ ڈالر تک رہا ہے۔

اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد اللہ کی مہربانی سے اگر پیمائش و آزمائش (WL&T)کے نتائج اچھے آجائیں تو پھر پیداوا ر کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ دریافت سے پیداوار کا وقفہ کم ازکم ایک سال اور بعض اوقات دس سال تک بھی ہوسکتاہے

او جی ڈی کے اعلامئے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ چندا 7 کی کھدائی کب مکمل ہوئی، لیکن میرا خیال ہے کہ گزشتہ برس مارچ میں دریافت کی تصدیق ہوئی تھی۔سوئی ناردرن گیس (SNGPL) کی پائپ لائن کنویں سے 1.3 کلومیٹر دور ہے لہذا گیس کی ترسیل کیلئے کنویں سے SNGPL کے نیٹ ورک تک اضافی پائپ لائن بھی بچھانی گئی۔

اعلان کے مطابق جون کے آغاز سے پیداوار شروع ہوچکی ہے اور 5492 میٹر گہرائی پر ملنے والی دتہ اور کنگریالی پرتوں سے 305 بیرل تیل اور 25 لاکھ مربع فٹ (2.5mmscfd)گیس یومیہ حاصل کی جارہی ہے۔ دونوں پیداواری پرتیں ریت کی چٹانوں پر مشتمل ہیں۔

اس مشارکے میں او جی ڈی سی کا حصہ 72 فیصد ہے، صدرالدین ہاشوانی کی OPIساڑھے دس اور سرکار کی گورنمنٹ ہولڈنگز(GHPL) ساڑھے سترہ فیصد کی حصہ دار ہیں

اسی کیساتھ او جی ڈی سی نے حیدرآباد کے کنر 8 کنویں سے پیداوار کی بحالی کی نوید بھی سنائی ہے۔پیداواری پرت کا دباو کم ہوجانے کی وجہ سے یہ کنواں عملاً خشک ہوچکا تھا۔ اوجی ڈی سی کے ماہرین نے تکمیل مکرر (re-completion)کے دوران مصنوعی اچھال (Artificial Lift) کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا شاندار استعمال کرکے 540 بیرل یومیہ پیداوار بحال کرلی

کنر کی سو فیصد ملکیت او جی ڈی سی کی ہے

اس شاندار کامیابی پر اوجی ڈی اور OPIکے ماہرین اور کارکنوں کو دلی مبارکباد

آپ ہماری   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

Friday, May 31, 2024

عالمی عدالت کا فیصلہ مسترد کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں سلمان رشدی بھی فلسطینی ریاست کے مخالف

 

عالمی عدالت کا فیصلہ مسترد

کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

سلمان رشدی بھی فلسطینی ریاست کے مخالف

عالمی عدالت انصاف (ICJ)نے ر فح  میں فوری جنگ بندی کا حکم دیدیا۔دو ہفتہ پہلے جنوبی افریقہ نے عدالت کو دہائی دی تھی کہ اسرائیلی حملے سے وہاں پناہ لئے ہوئے 12 لاکھ شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے لہٰذا فوری طور پر عبوری حکم جاری کیا جائے۔ جمعہ 24 مئی کو جسٹس نواف سلام نے فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل کو حکم دیا کہ  وہ رفح میں فوجی آپریشن فوراً بند کردے۔ تل ابیب کو عدالتی حکم پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کرنے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔فاضل عدالت نے کہا کہ رفح میں اسرائیلی اقدامات سے حیاتِ انسانی کے لئے درکار بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے  اور فلسطینی عوام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔فوجی کاروائی جاری رہنے سے ایک خوفناک انسانی سانحہ جنم لے سکتا ہے۔فیصلے میں بہت صراحت اور غیر مبہم انداز میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی تفتیشی ٹیم کو غزہ جانے کیلئے سہولت فراہم کرے۔عبوری حکم میں 28مارچ کو جاری ہونے والے حکم کا اعادہ کرتے ہوئے  پٹی پرامداد کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کی ہدائت کی گئی ہے۔یہ فیصلہ پندرہ رکنی بینچ کے 13 ججوں  کی حمائت سے جاری ہوا لیکن درحقیقت صرف یوگنیڈا کی جسٹس Julia Sebutindeنے مخالفت کی اسلئے کہ مخالفت کرنے والے دوسرے جج کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ آئی سی جے مدعی اور مدعا علیہ کے ایک ایک جج کو عدالت کی معاونت کیلئے رکھتی ہے۔

اسرائیل اور اسکے اتحادی، جو عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے مستغیث (Prosecutor)کریم خان کی جانب سے وزیراعظم نیتھن یاہو، وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست پر پہلے ہی حاصے مشتعل تھے ،اس حکم پر پھٹ پڑے۔فیصلے کو یہود دشمن (Antisemitic) قرار دیتے ہوئے قدامت پسند حکمران اتحاد کے ترجمان اتامر بن گوئر نے تبصرے کے طور پر اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان کا یہ قول نقل کیا کہ 'ہمارا مستقبل اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ Gentiles(غیر یہودی) کیا کہیں گے بلکہ اصل بات یہ  ہے کہ یہودی کیا کریں گے'۔

غزہ کی پٹی کو دنیا سے ملانے والے راستے معبر ر فح (Rafah Crossing)پر اسرائیلی قبضے کی وجہ سے غذا اور دوا کی فراہمی منقطع ہے۔ہسپتال اندھیروں میں ڈوبےاور بچھی کھچی ایمبیولینس ناکارہ ہوچکی ہیں۔اسرائیل کے 'دباو' پر جنرل السیسی نے پاکستان کی الخدمت سمیت مسلم دنیا سے غزہ کیلئے مصر آنے والی مدد اسرائیل کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے، یعنی افریقہ و ایشیا کے غریب مسلمانوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر جو امدادی سامان بھیجا ہے وہ اب سرائیل میں تقسیم ہوگا۔جنرل صاحب کی'فراخدلانہ'پیشکش پر مقتدرہ فلسطین (PA)کے سربراہ محمود عباس نہال ہیں اور صدر بائیڈن نے مصر کا پرجوش شکریہ ادا کیا ہے۔

امریکہ میں طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی جاری ہے۔ جامعہ ہارورڈ نے مظاہرہ کرنے والے 13 طلبہ کو اسناد کا اجرا ایک سال کیلئے موخر کردیاہے جن میں زیادہ تر پی ایچ ڈی کے امیدوار ہیں جو چھ سات سال محنت کرکے سند کے حقدار ٹہرے تھے۔سزاپانے والوں میں Rhodes scholar پاکستانی طالب علم اسمر اسرار صفی اور ہندوستان کی شردھا جوشی بھی شامل ہیں۔اس فیصلے کے خلاف اساتذہ کی منظور شدہ قرارداد جامعہ کے گورننگ بورڈ نے  مسترد کردی۔ اسرائیلی نواز عناصر، طلبہ کیساتھ ہارورڈ کے اساتذہ پر بھی Antisemiticہونے کا الزام لگارہے کہ احتجاجی مظاہرہے میں Harvard Out of Occupied Palestine کے نعرے لگائے گئے، یعنی اسرائیل کو'مقبوضہ فلسطین' کہا جارہا ہے۔

جبرو تشدد  کے ذریعے امریکی جامعات میں طلبہ کے احتجاجی کیمپ اکھاڑدئے گئے لیکن اب اسرائیل کے پارکوں اور سڑک کنارے خیمے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔غزہ سے متصل علاقوں کے 2 لاکھ افراد کو اسرائیل فوج نے وہاں سے ہٹنے کا حکم دیا تھا۔ کچھ عرصہ انھیں ہوٹلوں میں رکھا گیا لیکن اب انکا خرچ بند ہے چنانچہ یہ لوگ امریکی طلبہ کی طرح بطور احتجاج خیمہ زن ہوگئے۔

امریکی اہل دانش کی طرح اسرائیلی تعلیمی اداروں میں بھی بیچینی کے آثار ہیں۔ کزشتہ ہفتہ اسرائیلی جامعات کے 1400 سے زیادہ اساتذہ نے وزیراعظم کے نام ایک کھلے خط میں لکھاکہ 'ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ کو بلا تاخیر ختم کرے اور یرغمالیوں کی فوری واپسی کو یقینی بنائے کہ فوری جنگ بندی اخلاقی تقاضہ اور اسرائیل کے مفادات کے عین مطابق ہے'۔

حکومتی حلقے بھی عسکری حکمت پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ اسرائیلی سلامتی کونسل کے سینئر رکن Dr. Yoram Hemo نے مایوس ہوکر اپنے عہدے سے استعفٰی دیدیا، وزیراعظم کے نام خط میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا'موجودہ طریقہ کار جاری رکھ کر مزاحمت کاروں کو شکست دینا ممکن نہیں بلکہ مجھے یہ ناممکن لگتا ہے۔اصل ہدف کے علاوہ متبادل کامیابیاں حاصل کی جاسکتی تھیں لیکن اسکے امکانات بھی اب ختم ہوگئے۔ حکومت آپریشن جاری رکھنا چاہتی ہے, خاکم بدہن انجام تصور سے بھی بدتر ہوسکتا ہے'

سفارتی محاذ پر فلسطینیوں کو گزشتہ ہفتہ بڑی کامیابی نصیب ہوئی جب ہسپانیہ، ناروے اور آئرلینڈ کے وزرائے اعظم نے مشترکہ بیان میں اعلان کیا کہ یہ ممالک 28 مئی سے فلسطین کو خود مختار ریاست تسلیم کرلینگے۔بیان میں کہاگیا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن نہیں قائم ہوسکتا اورجتنے زیادہ ممالک جتنا جلدفلسطین کو تسلیم کرینگے اسی تیزی سے علاقے میں امن بحال ہوگا۔ دوسرے دن اسکی مزید وضاحت کرتے ہوئے آئرلینڈ کے وزیرخارجہ مائیکل مارٹن نے کہا کہ انکا ملک ریاست فلسطین کو1967 کی سرحدوں کے مطابق تسلیم کررہاہے، یعنی غزہ، مغربی کنارہ اور دو یروشلم۔ انکا کہنا تھا کہ مغربی یروشلم (دیوارِ گریہ) اسرائیل کا اور مشرقی بیت المقدس (القدس شریف) فلسطین کا دارالحکومت ہے۔

اس فیصلے پر اسرائیل میں سخت اشتعال ہے۔ وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز نے اسے دہشت گردوں کی پشت پناہی قراردیتے ہوئے تینوں ممالک سے سفیروں کو مشورے کیلئے واپس بلالیا۔ ہسپانیہ کی وزیر محنت و معاشیات اور نائب وزیراعظم دوم محترمہ جولاندا دیز(Yolanda Díaz)نےایک جلسے میں From the river to the sea, Palestine will be Freeکا نعرہ لگاکر غصے کی آگ پر تیل چھڑک دیا۔جب کسی صحافی نے اس 'آمد کی شانِ نزول' پوچھی تو موصوفہ نے کندھے اچکاتے ہوئے شانِ بےنیازی سے فرمایا' اجکل ہر شخص یہی کہہ رہا ہے' یعنی ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی۔ معاملہ یہاں تک رہتا تب بھی ٹھیک تھا، اسی شام تل ابیب کے ہسپانوی سفارتخانے کے باہر سلیم الفطرت اسرائیلیوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے غدر کی ابتدا کردی۔ سفارتی و سیاسی تنہائی اپنی جگہ، اسرائیل کے نظریاتی حامی اب بھی پرجوش ہیں۔ ایک عرصے سےگوشہ تنہائی میں رہنے والے دانشور سلمان رشدی نے جرمن رسالے Bildکو ایک انٹرویو میں فلسطینی ریاست کے 'متوقع قیام' پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ ہندوستان نژاد سلمان رشدی کا خیال ہے کہ 'اگر فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو یہ تنگ نظر طالبانی ریاست سے مختلف نہیں ہوگی اور جو لوگ آزاد فلسطین کے نعرے لگا رہے ہیں وہ آزاد ریاست نہیں انتہاپسند جنونی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں'

اپنے تین اتحادیوں کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے پرصدر بائیڈن نے بہت محتاط ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔قصرمرمریں کے ترجمان نے کہا کہ 'صدر بائیڈن ہمیشہ سے دو ریاستی حل کے پرجوش حامی رہے ہیں، لیکن انکا خیال ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے، مختلف ممالک کی کیجانب سے یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا مسئلے کا حل نہیں'۔ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش میں  صدر بائیڈن تیزی سے غیر مقبول ہورہے ہیں یعنی نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق، امریکہ کی اُن چھ ریاستوں میں جہاں اس بار گھمسان کا معرکہ درپیش ہے، ڈانلڈ ٹرمپ آگے لگ رہے ہیں۔ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیوادا، وسکونسن اور پنسلوانیہ کی ریاستوں میں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں یہ تمام ریاستیں جیت کر جناب بائیڈن نے 79 انتخابی ووٹ اپنے نام کرلئے تھے۔ اگر اس بار ان میں سے دو تین ریاست بھی وہ ہارگئے تو صدر صاحب کو  قصرِ مرمریں سے بوریا بستر لپیٹنا ہوگا یعنی بے گناہوں کے لہو سے جنم لینے والے تالاب میں بائیڈن سیاست غرق ہوجائیگی۔ 

غزہ خونریزی کا دباو ڈانلڈ ٹرمپ بھی محسوس کررہے ہیں۔ جمعہ 24 مئی کو جب سابق صدر نیویارک کے علاقے برونکس میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کررہے تھے تو وہاں موجود اسرائیل نواز افراد نے Bring them home کے نعرے لگائے۔کئی بار جناب ٹرمپ نے نظرانداز کرتے ہوئے پُر اعتماد لہجے میں sureکہا لیکن بار بار کی مداخلت سے جنجھلا کر اپنے مخصوص لہجے میں بولے۔"میرا خیال ہے جن کا آپ اور ہر کوئی انتظار کر رہا ہے، ان میں سے بہت سے مر چکے ہیں،کچھ شائد زندہ ہوں لیکن اکثر مر چکے ہیں'

غزہ کو ملیا میٹ کردینے کے ساتھ آزادی اظہار کا گلا گھونٹ دینے کی کاروائی میں مزید شدت آگئی ہے۔ الجزیرہ پر پابندی کے بعد گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP)کے دفتر پر چڑھ دوڑی اور نشریات بند کرکے کیمرے، کمپیوٹر اور دوسرے آلات چھین لئے۔اسرائیلی وزیراطلاعات سلام کرہی کا کہنا ہے کہ اے پی میدان جنگ کی روداد براہ راست دکھا کر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہا تھا۔دوسری طرف اسرائیل کے فوجی شرمناک تصاویر اور بصری تراشے خود جاری کررہے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے ایک تصویر شایع کی ہے جس میں جامعہ غزہ پر قبضے کےبعد لائبریری کی کتابوں کو دیاسلائی دکھاکر ایک دلاور کتاب ُپڑھتا نظر آرہا ہے۔صدیوں قبل بغداد پر قبضے کے بعد سب سے پہلے وہاں کا مرکزی کتب خانہ جلایا گیا تھا۔ لیکن ان میں سے کچھ نے جب کتابیں پڑھنے کی ہمت کرلی تو یہ وحشی، انسانیت کا فخر اور تہذیب و اخلاق کے استاد بن گئے۔

صحافت کا گلا گھونٹنے اور جھوٹے پروپیگنڈے کی ایک عبرتناک مثال پر گفتگو کا اختتام۔ سات اکتوبر کی کاروائی میں اسرائیلی فوج کے دوسرے افسر وں کےساتھ غزہ بریگیڈ کے کمانڈر کرنل آصف حمامی (Assaf Hamami)کو مزاحمت کاروں نے جنگی قیدی بنالیا۔لیکن اسرائیلی فوج نے انکے اہل خانہ کو مطلع کیا کہ کرنل صاحب داد شجاعت دیتے ہوئے “شہید “ ہوگئے۔ انکے لئےشجاعت کے اعلیٰ اعزاز کی سفارش ہوئی اور دسمبر میں موصوف کی تدفین بھی پورے عسکری تزک و احتشام سے کردی گئی۔ گزشتہ ہفتےامریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے مزاحمت کاروں کے حوالے سے بتایا کہ کرنل صاحب نے پہلے ہی ہلے میں ہتھیار ڈال کر خود کو مزاحمت کاروں کے حوالے کردیا تھا اور موصوف غزہ میں قید ہیں۔ دعوے کے ثبوت میں  مستضعفین نے بصری تراشہ بھی جاری کردیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 31 مئی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 31 مئی 2024

روزنامہ امت کراچی 31 مئی 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 جون 2024


Thursday, May 23, 2024

شکست یا کھائی ۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

 

شکست یا کھائی ۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

گزشتہ ہفتے مقبوضہ فلسطین میں تین تہوار منائے گئے۔قیام اسرائیل کی 76 ویں سالگرہ جو فلسطینیوں کیلئے ایک بھاری آفت کی برسی تھی۔غزہ پر حالیہ حملے کے فوراً بعد شایع ہونے والے کالم میں ہم نے قبضے کی واردات کا تفصیلی ذکر کیا تھا جب برطانوی فوج کی مدد سے 12لاکھ فلسطینیوں کو کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں ٹھونس دیا گیا جسے دنیا غزہ کے نام سے جانتی ہے۔قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں کی 2 کروڑ مربع میٹر اراضی پتھیا لی گئی۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948کو مکمل ہوا جسے یہ مظلوم یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔ اسی کیساتھ یہودی رہنماڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔ پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ'اسرائیل کوئی ریاست نہیں بلکہ فلسطینیوں کے قلب میں گھونپا گیا سامراجی خنجر ہے'

قیام اسرائیل اور یوم النکبہ سے تین دن پہلے 12 مئی کو فلسطین پر قبضے کے دوران مارے جانیوالے جارح سپاہیوں کی یاد میں یوم ذکر(Yum HaZikaron) یا میموریل ڈے منایاگیا۔اس موقع پر وزیراعظم نیتھن یاہو کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جیسے ہی فوجی قبرستان میں داخل ہوئے  'اسرائیلی بچوں کا قاتل مردہ باد' ،ہمارے قیدی واپس لاو'کے فلگ شگاف نعروں سے انکا اسقبال ہوا۔ مظاہرین نے اسرائیلی پرچموں  پر 7:10لکھا ہوا تھا یعنی 'بی بی بقراطی چھوڑو اور 7 اکتوبر کی ذمہ داری قبول کرو'

اس ہفتے جنوب میں ر فح اور شمال میں جبالیہ اسرائیلی بمباروں کا خاص ہدف رہا۔ یہ دونوں مقامات کھنڈروں پر بسی خیمہ بستیاں ہیں یعنی برباد و خراب حالوں کو پامال کرکے دادِ دلاوری وصول کی گئی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق روزانہ 74 مقامات پر بمباری کی جارہی ہے۔ ڈرون کے ذریعے میزائیل اور راکٹ حملے اسکے علاوہ ہیں۔ بمباری کا دائرہ غرب اردن تک بڑھادیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے شمالی غربِ  اردن کے علاقے جنین پر بمباری کی گئی۔ جنین بھی ایک خیمہ بستی ے جہاں 37 مربع کلومیٹر رقبے میں 50 ہزار نفوس آباد ہیں یعنی 13سو افراد فی مربع کلومیٹر۔اس گنجان آبادی پر وحشیانہ بمباری سے جو تباہی آئی اسکی تفصیل یہاں لکھنے کی ہم میں ہمت نہیں۔

ر فح کے حوالے سے صدر بائیڈن مسلسل بے نقاب ہورہے ہیں۔اسرائیلی حملے کے ساتھ ہی امریکی صدر نے اعلان کیا کہ اسرائیل کو مہلک بموں کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے بائیڈن صاحب یہ بھی کہہ گئے کہ اگر اس پابندی کو معطل کرنے کیلئے کانگریس نے کوئی بل منظور کیا تو وہ اسے ویٹو کردینگے۔ لیکن ابھی اس گھن گرج کی بازگشت باقی ہی تھی کہ اسرائیل میں امریکہ کے سفیر جیک لیو نے غبارے میں سوئی چبھودی۔اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بہت صراحت سے وضاحت فرمائی کہ 'امریکہ اسرائیل تعلقات اور عسکری تعاون میں کوئی تبدیلی نہیں آیا، بس High Payloadبموں کی ترسیل 'موخر' کردی گئی ہے۔ ساتھ ہی جنابِ بائیڈن نے ایک ارب ڈالر مالیت کا اضافی اسلحہ فوری طور پر اسرائیل بھیجنے کیلئے کانگرییس سے منظوری طلب کرلی۔ اس کھیپ میں ٹینک کے گولے، بلڈوزر و بکتر بند گاڑیاں اور توپ کے گولے شامل ہیں۔جب کسی صحافی نے صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون سے پوچھا کہ ر فح میں اسوقت آباد تمام کے تمام 12 لاکھ شہری خیموں میں مقیم ہیں اور ان بے آسرا و ے اماں نہتوں پر بمباری کو نسل کشی کے سوا اور کیا کہا  جاسکتا ہے تو موصوف نے بہت ڈھٹائی سے کہا غزہ میں انسانی جانوں کازیاں افسوسناک ہے ۔اسرائیل کو احتیاط کرنی چاہئے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا۔یہی موقف عالمی عدالت انصاف (ICJ)میں اسرائیل کے اٹارنی جنرل جیلاد نوم نے اختیار کیا۔جنوبی افریقہ کے دلائل کے بعد جب انھیں طلب کیا گیا تو فاضل وکیل نے کہا 'غزہ میں “افسوسناک” جنگ ہورہی ہے، انسانی جانوں کا زیاں ایک المیہ ہے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا۔

دوسری جانب بھرپور تشدد کے باوجود امریکہ اور یورپ کی طلبہ تحریک میں مزید شدت آرہی ہے اور طلبہ کامیابیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ جامعہ ہیوسٹن میں مک ڈونالڈ نے اپنے ریستوران بند کردئے جبکہ اسٹار بکس  کافی کی دکان بھی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ یہ امریکہ میں جلسہ ہائے تقسیم اسناد کا موسم ہے۔ تقریباً ہر جگہ طلبہ نے اسٹیج پر فلسطینی پرچم لہرائے اور فلسطین کفیہ گلے میں ڈال کر اپنی اسناد وصول کیں۔ امریکی دارالحکومت کے قریب جامعہ ورجنیا دولت مشترکہ (VCU) میں طلبہ کے اعتراض کے باوجود ریاستی گورنر کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔گورنر صاحب کی نگاپوں کو راحت پہنچانے کیلئے احتجاجی کیمپ بھی اکھاڑدئے گئے لیکن نوجوانوں نے کچھ اور پی سوچ رکھا تھا۔جیسے ہی گورنر صاحب تقریر کیلئے کھڑے ہوئے طلبہ آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے ہوئے ہال سے باہرچلے گئے۔ ٹیکس کے گورنر ایبٹ اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ انکے حکم پر ریاست کی تمام سرکاری جامعات میں مظاہروں کو کچلنے کیلئے نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔ ان ساری کوششوں کے باوجود دارالحکومت کی جامعہ آسٹن میں جلسہ تقسیم اسناد کے دوران اسٹیج پر فلسطینی پرچم لہراتے رہے۔

خود صدر بائیڈن کو اس وقت مشتعل طلبہ کا سامنا کرنا پڑا جب 19 مئی کو وہ تقسیمِ اسناد کیلئے ریاست جارجیا کے معروف مورہاوس کالج پہنچے۔امریکی صدر جیسے ہی تقریر کیلے چبوترے (پوڈیم) پر آئے فضا نہرتا بحر فلسطین، Genocide Joeاور غزہ خونریزی بند کرو کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس دوران صدر بائیدن متانت سے  مسکراتے  رہے۔ انھوں نے نعرہ زن طلبہ کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ حق اظہار رائے کی حمائت کرتے ہیں۔ آپکی بات سنی جارہی ہے ۔ امریکی صدر نے زور دیکر کہا کہ غزہ میں مکمل اور فوری جنگ بندی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔

جامعات میں مظاہروں اور اظہار رائے پر پابندیوں سے خود امریکہ کے سنجیدہ عناصر کو بھی تشویش ہے۔ گزشتہ ہفتے ریاست اوہایو کی Franciscan University of Steubenville کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے امریکی عدالت عظمیٰ کے قدامت پسند جج جسٹس سموئیل الیٹو نے کہا کہ امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کو سخت خطرہ لاحق ہے۔انکا کہنا تھا کہ 'خوبصورت کیمپس کے باہر امڈ آنے والے بحران نے ہمارے بنیادی اصولوں کو گہنادیا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے، خاص طور سے ان مقامات پر جہاں اسے وسیع تر قبولیت ملنی چاہئے۔ جسٹس الیٹو، نو رکنی بینچ کے پانچ قدامت پسند ججوں میں سےایک ہیں۔ انھیں 2006 میں صدر بش نے سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا تھا

طلبہ تحریک کو سب سے بڑی کامیابی بیلیجیم میں نصیب ہوئی جہاں جامعہ بیلجئم (UGent) نے اسرائیل کے تین تحقیقاتی اداروں Holon Institute of Technology ، MIGAL Galilee Research Institute اور Volcani Center  سے تعاون ختم کردیا۔ ن تینوں مراکز کا زرعی تحقیق کے حوالے سے اعلیٰ مقام ہے۔جامعہ کے ریکٹر،  رک وان ڈی وال (Dr Rik Van de Walle) نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ادارے انسانی حقوق کے باب میں جامعہ بیلجئم کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔(حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)

سیاسی وسفارتی محاذ پر بھی اسرائیل کو دباو کا سامنا ہے۔ سوئیڈن کے دوسرے بڑے شہر گٹن برگ (Gothenburg)کے رئیس شہر (مئیر) نے کونسل میں ایک تجویز پیش کی ہے جسکے تحت اسرائیل سمیت جبری قبضے پر قائم ریاستوں کی مصنوعات گٹن برک میں فروخت نہیں ہوسکیں گی۔ بلدیاتی کونسلروں کے نام خط میں مئیر ڈینئیل برنمر (Daniel Bernmar)نے کہا کہ گٹن برگ کے شہری، قبضہ گردوں کو تجارت کے مواقع دینے کو تیار نہیں۔ (حوالہ: الجزیرہ)

اسپین کے وزیرخارجہ مینول الباریز نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کیلئے اسلحہ لے کر جانے والے جہاز ایندھن یا کسی دوسری سہولت کیلئے اسپین کی کسی بندرگاہ پر نہیں رک سکتے ۔

غزہ تشدد کیخلاف کھیل کے میدانوں سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بینکاک (Bangkok)میں ایشین فٹبال کنفیڈریش کے حالیہ  اجلاس کے دوران فیفا FIFAسے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنےکی سفارش کی گئی ہے۔ خیال ہے کہ فیفا کے آئندہ اجلاس میں اس تجویز پر رایے شماری ہوگی۔

ر فح حملے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے یورپی یونین کے سربراہ امورِ خارجہ جوف بوریل نے کہاکہ اسرائیل ر فح آپریشن فورا ختم کردے۔ اگر کاروائی جاری رہی تو یورپی یونین کے اسرائیل سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ کچھہ ایسی ہی تشویش کا اظہار نیٹو، G-7 اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے کیا جب اپنے اسرائیلی ہم منصب کے نام ایک مشترکہ خط میں  برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، جنوبی کوریا، ڈنمارک، سوئیڈن، جاپان اور فن لینڈ کے وزرائے خارجہ نے ر فح کاروائی روک کر انسانی امداد کیلئے مصر کاراستہ کھولنے  کا مطالبہ کیا۔ تاہم یہ خط وصول ہونے پہلے ہی اسرائیلی وزیرخارجہ صاف صاف کہہ چکے تھےکہ  ' دنیا جو چاہے کہتی پھرے، دہشت گردوں کے مکمل استیصال سے پہلے اسرائیل جنگ بند کرنے والا نہیں'

اب قیامِ امن آوازیں اسرائیل سے بھی اٹھ رہی ہیں۔ ہفتہ 18 مئی کو اہل غزہ سے یکجہتی کیلئے یروشلم میں اسرائیلی کنیسہ(پارلیمان ) کے باہر زبردست مظاہرہ ہوا۔ لوگ بینر لئے کھڑے تھے جن پر عبرانی میں لکھا تھا 'بچوں کو بھوکا مارنا سنگین جنگی جرم ہے'۔ عین اسی وقت اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر حیفہ میں سابق فوجیوں نے مظاہرہ کیا۔اس موقع پر جنگ بند کرو، ہمارے قیدی واپس لاو، نئے انتخابات کراکر (کرپشن کے الزام میں) جیل کی ہوا کھاؤ کے نعرے لگائے گئے۔

اعتدال پسند قوم پرست رہنمااور اسرائیلی مادر وطن پارٹی کے سربراہ ایوگدرلائیبرمین (Avigdor Lieberman) نے وزیراعظم نیتھن یاہو، وزیردفاع یوف گیلینٹ اور فوج کے سربراہ جنرل حرزی حلوی کو غزہ مسئلہ کا سرغنہ قرار دیتے ہوئے، تینوں Losersسے فوری استعفی کا مطالبہ کیاے۔

امریکہ اور یورپ کیساتھ اسرائیل سے اٹھنے والی آوازیں بہت زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہی ہیں کہ یہ وزیراعظم نیتھن یاہو کی سیاسی زندگی و موت کا معاملہ ہے۔اس جنگ نے اسرائیلی وزیراعظم کو انتہائی غیر مقبول بنادیاہے  اور اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ بند ہوتے ہی نئے انتخابات کرانے ہونگے جس میں جناب نیتھن یاہو اور انکے اتحادیوں کی شکست یقینی ہے۔ بی بی اور انکی بی بی کے خلاف کرپشن کے کئی مقدمات زیرسماعت ہیں جن سے بچاو کیلے موصوف نے بربنائے عہدہ حکم التوا (Stay order)لے رکھا ہے۔ وزیراعظم کی بددیانتی کے ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ بی بی  ایوان وزیراعظم چھوڑتے ہی زینتِ زنداں ہوجائینگے۔ لبنان کے منارہ ٹیلی ویژن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'بی بی کیلئے  defeat or abyss(شکست اور کھائی) والی صورتحال ہے۔ یعنی اگر جنگ بندی قبول کرتے ہیں تو یہ انکی کھلی شکست جبکہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں کھائی انکا مقدر ہے'

متکبر و مجرم پیشہ ٹولے کے عبرتناک انجام کی نوید کانوں کو بھلی تولگی لیکن قطرے سے گُہر بننے کے سفر میں اہل غزہ اور فلسطینیوں پر جو گزر رہی ہے اسے دیکھنے اور پڑھنے کی تاب نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 24مئی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 مئی 2024

روزنامہ امت کراچی 24 مئی 2024

ہفت روزہ روزنامہ رہبر 26 مئی 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو