غزہ امن کیلئے صدر بائیڈن کی امن تجاویز
اعتراف شکست اور تکبر کی گھونگھٹ، امدادی
سرگرمیوں میں دو نمبری
جھوٹ کا
بھانڈا چوراہے پر پھوٹ گیا
دو سو اڑتیس دن کی مسلسل بمباری اور غزہ
کو کھنڈر بنا دینے کے بعد مستکبرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قتلِ عام جیسے 'نیک کام' کے اختتام کا وقت آچکا ہے۔ جی ہاں 31 مئی کو امریکی
صدر بائیڈن نے قصرِ مرمریں میں صحافیوں سے
باتیں کرتے ہوئے کہا ‘غزہ جنگ کا righteous مقصد مزاحمت کاروں کی قوت کو اس حد تک کمزور کرنا تھا کہ وہ
دوبارہ 7 اکتوبر جیسا حملہ نہ کرسکیں۔ اب چونکہ یہ مقصد حاصل ہوچکا ہے اسلئے جنگ
بند ہوجانی چاہئے'
انھوں نے تین مرحلوں پر
محیبط قیامِ امن کی جو تجویز پیش کی وہ کچھ اسطرح ہے:
- پہلامرحلہ:
چھ ہفتے کے دوران اسرائیلی فوج کی واپسی، غزہ میں قید بیمار، ضعیف و خواتین
اوراسرائیلی عقوبت کدوں سے فلسطینیوں کی رہائی
- دوسرا مرحلہ:
تمام زندہ قیدیوں کی رہائی
- تیسرا مرحلہ:
غزہ کی تعمیر نو کا آغاز اور مرجانے والے قیدیوں کی باقیات کی اسرائیل حوالگی
اپنے امن فارمولے کے متوقع
دوررس نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'معاہدے سے تمام قیدیوں کی بحفاطت
واپسی اور اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ مزاحمت کاروں سے نجات کے بعد نہ
صرف غزہ خوش و خوشحال ہوگا بلکہ پائیدار امن اور سب کیلئے قابل قبول تصفیے کے
نتیجے میں اسرائیل و فلسطین کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار ہوجائیگی'
بچوں اور خواتین کے قتل عام
کو 'نیک مقصد' ایک انتہائی سنگدل شخص ہی قرار دے سکتا ہے۔ تاہم یہ کوئی پہلا واقعہ
نہیں۔ جنگ عراق کے دوران امریکہ کے وزیردفاع ڈِک چینی خلیج میں ایک امریکی اڈے پر پہنچے جہاں عراق کو
نشانہ بنانے کیلئے طیاروں پر بم لادے جارہے تھے۔ چینی صاحب نے ایک بم پر سیاہ
مارکر سے With Loveلکھدیا اور اپنی تحریر پر انگلی رکھ کر فاتحانہ قہقپہ
لگایا۔ چنگیز و ہلاکو سپاہِ دشمن کی کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کرتے تھے۔ان وحشیوں
نے بھی شہری ہلاکتوں کو کبھی 'نیک' نہ جانا۔
شیخی و لن ترانی سے قطع نظر
صدر بائیڈن کی تقریر شکست کا اعتراف اور امن فارمولا لاڈلے کو واپسی کیلئے 'باعزت
راستہ' دینے کے کوشش سے زیادہ کچھ نہیں کہ خواتین و بچوں کے قتل عام اور غزہ کو
ناقابل رہائش بنادینے کے باوجود اسرائیل 34 ہفتوں کے دوران اپنا ایک بھی عسکری ہدف
حاصل نہ کرسکا۔وزیراعظم نیتھن یاہو بار بار کہہ رہے تھے کہ ر فح مزاحمت کاروں کا
آخری ٹھکانہ ہے، انکی عسکری قیادت وہیں چھپی ہوئی ہے اور اسرائیلی قیدی بھی ر فح
کی سرنگوں میں بند ہیں۔ جرنیلوں نے یقین دلایا تھا کہ اگر اسرائیلی فوج ر فح داخل
ہونے میں کامیاب ہوگئی تو قیدیوں کو ہم بزورِ طاقت چھڑالیں گے۔ حملے کے آغاز پر
اسرائیل نے ر فح کو مصر سے ملانے والی راہداری Philadelphi Corridorروٹ پر مکمل قبضے کا دعوی کیا تھا۔جرنیلوں کے خیال میں یہ پٹی اہل
غزہ کیلئے آکسجن کی نالی ہے۔ ر فح آپریشن میں سینکڑوں شہریوں کو زندہ جلادیا گیا
اور یہ وحشت بلا وقفہ جاری ہے لیکن اب تک کوئی قیدی بازیاب ہوا، نہ کوئی مطلوب
رہنما قتل ہوسکا۔ بچوں کے جنازے کندھوں پر اٹھائے، بھوکے پیاسے، خاک برسر و خوں
بدامان 25 لاکھ اہل غزہ کے ہونٹ آج بھی الحمد الله على كل حال (ہر حال میں اللہ کا
شکر) کے ذکر سے تر ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی فوجیوں
کی ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ر فح گیٹ کے بہت قریب سے داغے گئے راکٹوں
نے قلبِ اسرائیل کو نشانہ بنایا اور تل ابیب کا بن گوریان ائرپورٹ گھنٹوں مفلوج
رہا۔امریکہ کے میزائیل شکن نظام آئرن ڈوم نے اکٹر راکٹ ناکارہ کردئے لیکن چند راکٹ
اس نظام کو غچہ دیکر 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ساحلی شہر ہر تسلیا تک پہنچنے میں
کامیاب ہوگئے جہاں عسکری کالونی میں ایک گھر سے شعلے بھڑکتے نظر آئے
مستضعفین نے امریکی صدر کی
تقریر کو انکا احساس شکست سمجھ کر اس متکبرانہ پیشکش کا مدبرانہ جواب دے دیا۔ ٹائمز
آف اسرائیل کے مطابق جواب میں کہا گیا ہے کہ 'اہل غزہ جنگ بندی اور اسرائیلی افواج
کے انخلا کو یقینی بنانے کے لیے نیک نیتی سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں'
اسرائیل کے انسانیت سوز
مظالم کو چھپانے کیلئے بائیڈن
انتظامیہ جس بے شرمی سے جھوٹ بول رہی ہے وہ خود امریکی حکام کیلئے ناقابل برداشت
ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزارت خارجہ کی ایک سینئر اہلکار نے استعفی
دیدیا۔محترمہ اسٹیسی گلبرٹ (Stacy Gilbert)نے اپنے خط میں لکھا 'اسرائیل، شہریانِ غزہ کیلئے امریکی امداد کی
تقسیم میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جسکے شواہد موجود ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن صدر
بائیڈن نے کانگریس کے نام رپورٹ میں لکھوایا کہ امداد کی تقسیم میں مشکل تو ہورہی
ہے لیکن اسکا ذمہ دار اسرائیل نہیں'۔ گلبرٹ صاحبہ کا کہنا ہے کہ انکا ضمیر قوم سے
جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا۔ موصوفہ کی وزارت خارجہ سے وابستگی کو 20 سال ہو چکے ہیں۔
اہلکاروں کی طرح میڈیا پر
بھی امریکی انتظامیہ بے نقاب ہورہی ہے۔ سی این این (CNN) نے انکشاف کیا کہ ر
فح خیمہ بستی کو خاکستر کرنے کیلئے بوئنگ کا تیار کردہ GBU-39
بم استعمال ہوا۔ ہلاکت خیزی کے اعتبار سے سترہ کلو گرام بارود بھرے
اس بم کا شمار Focused Lethally Munition (FLM)میں
ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ نشر ہوتے ہی امریکی وزارت دفاع(پینٹاگون) کی ترجمان محترمہ
سبرینا سنگھ نے کہا 'ہم معاملے کی تحقیق کررہے ہیں'۔ تقریباً اسی وقت امریکی قومی
سلامتی کے ترجمان جان کربی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل سے شہریوں کے بہتر
تحفظ کے مطالبے کا اعادہ کیا۔ جب کسی صحافی نے فاضل ترجمان کو صدر بائیڈن کا وہ
بیان یاد دلایا جس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ اگر امریکی اسلحہ شہری آبادی کے
خلاف استعمال ہوا تو اسکی اسرائیل فراہمی پر پابندی لگادی جائیگی تو موصوٖف بولے
'امریکی حکومت اور عوام بے گناہوں کی ہلاکت پر سوگوار ہیں، لیکن ہمارے خیال میں
اسرائیل نے سرخ لکیر عبور نہیں کی'
اسی سی این این نے انسانی
امداد کا بھانڈا بھی پھوڑدیا۔ بہت شور تھا کہ امداد کی تقسیم کیلئے امریکی بحریہ
نے غزہ کے ساحل پر 32کروڑ ڈالر کے خرچ سے عارضی گودی(Pier)تعمیر کی ہے۔اس ماہ کی 17 تاریخ کو یہاں اٹلی سے آنے والا پہلا
جہاز لنگر انداز ہوا اور26 مئی کو تندو تیز لہریں اسکا بڑا حصہ بڑا حصہ بہا لے گئیں۔ یعنی جدید ترین امریکی ٹیکنالوجی 9 دن میں چیں بول گئی۔ابتدائی
تحقیقات پر پتہ چلا کہ گودی صرف تین فٹ اونچی لہروں اور 15 میل فی گھنٹہ ہوا
برداشت کرنے کیلئے بنائی گئی تھی۔
غزہ قتل عام پر جہاں دنیا کا
دہرا معیار بے نقاب ہوا وہیں اہلِ ضمیر بھی استقامت کا اظہار کررہے ہیں۔ اٹھائیس
(28) مئی کو فرانس کی ثابت قدم پارٹی (La France Insoumise (LFI کے
رکن قومی اسمبلی Sébastien Delogu نے اظہار یکجہتی کیلئے اجلاس
کے دوران ایوانِ اسمبلی میں فلسطین کا پرچم لہرادیا۔بات بہت معمولی سی تھی لیکن
اسپیکر صاحبہ نے غصےکے عالم میں چیخ کر کہا 'یہ ناقابل قبول ہے' اور 36 سالہ
سباسشین کو اجلاس سے نکال دیا۔فاضل رکن کو پندرہ دن کیلئے معطل کردیا گیا، اس دوران
انھیں تنخواہ بھی نہیں ملے گی۔لیکن سباشین کو اس پر کوئی پریشانی نہیں۔ دوسرے دن
ایک مظاہرے میں جوش و خروش سے فلسطین کا پرچم لہراتے ہوئے انھوں نے کہا 'میں قومی
اسمبلی کے قواعد پر قائم رہنے کے بجائے تاریخِ انسانیت کے درست جانب کھڑے رہنے کو
ترجیح دونگا'
جیسا
کہ ہم اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں، غزہ کیساتھ غرب اردن میں آباد فلسطینی پناہ گزین اسرائیلی فوج کے نشانے پر
ہیں۔ جنین کا ہنستا بستا علاقہ تقریباً کھنڈڑ بن چکا ہے۔ اسکا صنعتی علاقہ مسمار
کردیاگیا۔ اس ہفتے نابلوس، اریحا اور مقتدرہ فلسطین کے دارالحکومت رام اللہ نے
بدترین جارحیت کا مشاہدہ کیا۔رام اللہ کی جلزون خیمہ بستی پر اسرائیلی فوج کے حملے
میں متعدد نوجوان جاں بحق ہوئے۔پناہ گزینوں کا یہ کیمپ 1949میں قائم ہوا تھا۔ڈھائی
سو مربع میٹر رقبے پر یہاں ساڑھے آتھ ہزار نفوس ٹھنسے ہوئے ہیں۔ نابلوس میں گھر
گھر تلاشی کے دورن خواتین سے بدتمیزی پر نوجوان مشتعل ہوگئے اور دست بدست لڑائی
میں دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کردیا گیا۔
ر فح ہر
قبضے کے بعد فلسطینیوں کیساتھ اسرائیلی فوج سرحد کی دوسری جانب، مصر کو بھی للکار رہی ہے، 27 مئی کو جھڑپ میں دو مصری فوجی مارے گئے۔ یہ خبر اسرائیلی حکومت نے جاری
کی جبکہ مصر نے اس واقعے کا ذکر تک نہیں کیا۔ صحافتی ذرایع کا کہنا ہے کہ ایک سرنگ
کے تعقب میں جب اسرائیلی مصر کی جانب آئے تو وہاں موجود محافظین نے انکا راستہ
روکا جس پر اسرائیلیوں نے گولی چلادی۔ اسرائیلیوں کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں نے رفح
سے مصری سرحد تک سرنگیں کھود رکھی ہیں جس سے انھیں مدد پہنچتی ہے۔
اسرائیل کیلئے مغرب اور مغرب
نواز حکومتوں کی مکمل و غیر مشروط حمائت میں اب تک کوئی فرق نہیں آیا۔ امریکہ میں ڈیموکریٹک
پارٹی کے لبرل و آزاد خیال عناصردبے الفاظ میں اسرائیلی حکومت پر تنقید کررہے ہیں
لیکن بحیثیت جماعت دائیں بازو کے قدامت پسندوں کی طرح ڈیموکریٹک پارٹی بھی اسرائیل
کی حمائت کیلئے پرجوش ہے۔ یکم جون کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب
کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کو جو دعوت نامہ جاری ہوا اس پر کانگریس کے قدامت پسند
اسپیکر مائک جانسن، ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد بزعم خود سیاہ
فام لبرل، حکیم جیفری، سینیٹ کے قائد ایوان چک شومر اور قائد حزب اختلاف سینیٹر مچ
مک کونل نے دستخظ کئے ہیں۔ خط میں بن یامین نیتھن یاہو سے 'استدعا' کی گئی ہے کہ
وہ امریکی عوام کو جمہوریت کے دفاع، دہشت
کردی کے استیصال اور علاقے میں منصفانہ اور پائیدار امن کیلئے اپنے خیالات زریں سے
مستفید فرمائیں۔
چند ہی دن پہلے سینیٹر چک
شومر نے اسرائیلی فوجی کاروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیتھن یاہو سے استعفیٰ
کا مطالبہ کیا تھا۔ مشترکہ دعوت نامے سے
یہ بات پھر واضح ہوگئی کہ دائیں بازو کے امریکی
قدامت پسند ہوں یا بائیں بازو کے لبرل و سیکیولر عناصر، اسرائیل کے عشق میں سب ایک
ہیں۔
لامقطوعہ
ولا ممنوعہ، فوجی امداد کیساتھ اب اقتصادی مدد کیلئے فرمائش کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایک
جامعہ میں ' اقتصادی صؤرتحال' پرسیمنار سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک) کے گورنر عامر جارن (Amir Yaron) نے دہائی دی کہ جنگ کا خرچ
ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہاہے۔ گورنر صاحب کا کہنا تھا کہ جنگ کے اخراجات کا
تخمینہ 67 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے اور جنگ کی وجہ سے اسرائیلی معیشت میں مندی
کے اثرات نمایاں ہیں۔ قومی معیشت کی شرح، نمو جو 2022 میں 6.5 فیصد تھی، موجودہ
مالی سال 1.6فیصد رہ جائیگی۔علمی مجلس میں جذبات کا تڑکہ لگاتے ہوئے گورنر صاحب نے
کہا کہ جنگ محض جذبات سے نہیں لڑی جاسکتی بلکہ آزادی کی قیمت نقدی کی شکل میں ادا
کی جاتی ہے۔
وزیرعظم یتھن یاہو نے صدر
بائیڈن کے تجویز کردہ امن منصوبے کو مسترد کردیا۔ یکم جون کو ایک بیان میں انھوں
نے کہا کہ اسرائیل مکمل فتح تک جنگ رکھنے کیلئے پرعزم ہے اور مزاحمت کاروں کو صفحہ
ہستی سے مٹائے بغیر ہماری تلواریں نیاموں میں نہیں جائینگی۔اسرائیلی سیاست پر نظر
رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مستضعفین کو فنا کرنے پر اصرار تل ابیب کی
سیاسی مجبوری ہے۔ قدامت پسندوں نے اپنی
قوم کو ایسے بھیانک جنگی جنون میں مبتلا کردیا ہے کہ جنگ بندی پر آمادگی انکی شکست
تصور کی جائیگ۔ عظمتِ یہود جماعت (Otzma)کے سربراہ، وزیراندرونی
سلامتی بن کوئر اور دینِ صیہون جماعت (RZP)کے قائد، وزیر
خزانہ اسموترچ نے
دھمکی دی ہے کہ اگر بائیڈن کا تجویز کردہ امن معاہدہ
منظور ہواتو وہ حکومتی اتحاد سے الگ ہوجائینگے۔ ایک سو بیس رکنی پارلیمان میں
حکمراں اتحاد کو 64ارکان کی حمائت حاصل ہے جن میں سے 14 نشستیں ان دونوں کے پاس
ہیں۔
دوسری طرف مزاحمت کار، اسرائیلی فوج کی پسپائی اور جنگ کے خاتمے سے
پہلے قیدی رہا کرنے کو تیار نہیں۔ دیکھنا ہے کہ امریکی اپنے لاڈلے کو معقولیت اختیار
کرنے پر کیسے راضی کرتے ہیں؟؟
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 7 جون 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 7 جون 2024
روزنامہ امت کراچی 7 جون 2024
ہفت روزہ رہبر 7 جون 2024
No comments:
Post a Comment