اسرائیل، امریکہ اور خلیجی جرنیلوں کے 'مشاورت'
دوتہائی فلسطینی فتح کیلئے پرامید
اسرائیلیوں کو نقل مکانی کے بحران کا سامنا
اہلِ
غزہ نے رمضان اور عیدالفطر کے بعد عیدِ قرباں بھی آتش و اہن کی موسلا دھار بارش میں
منائی۔ اب سے ایک ماہ بعد سانحہ کربلا کی یاد منائی جائیگی جب محبوبِ خدا (ص) کے محبوب
نظر نے خلیل اللہ ؑ کے لختِ جگر ؑکاعزمِ پورا کردکھایا۔ نہائت اسکی حسین (ر) ابتدا
ہے اسماعیل ؑ۔ غزہ اور غرب اردن میں جہاں ذبیح اللہ ؑ کی سپردگی اور امامِ عالی
مقام (ر) کے پرعزم صبرکے اتباع کا شاندار مظاہرہ نظر آرہا ہے وہیں قید وبند کی
صعبوبتوں کاخندہ پیشانی سے سامنا کرکے بچیوں، باعفت خواتین اور کم سن نوجوانوں
سمیت ہزاروں فلسطینی فرزندِ اسرائیل ؑ کی سنت بھی تازہ کررپے ہں۔کیا عجب کہ جیسے
جرم پاکدامنی میں بند یوسف ؑ کو ان کے رب نے
زنداں سے نکال کر تختِ شاہاں عطا کردیا، ایسی ہی مہربانی ان نہتوں پر بھی ہوجائے
کہ ہمارارب ہر چیز پر قادر ہے۔
نوٹ:
حضرت یوسف ؑ کے والد، حضرت یعقوبؑ کی کنیت اسرائیل تھی اسی لئے انکی قوم بنی
اسرائیل کہلائی
ڈھائی
سو دن سے جاری بربریت کی اس مشق نے ہزاروں
معصوم شہریوں کیساتھ 15694بچوں کو پیوند خاک کردیا اور 17 ہزار بچے یتیم و بے
سہارا ہوگئے۔ زخموں سے کراہتے اور چیختے نونہالوں
کی تعداد کا تخمینہ بھی مشکل ہے کہ اسپتال ریت کا ڈھیر ہیں اور سڑکوں کے کنارے یہ پھول تڑپ رہے ہیں۔ غزہ
کیساتھ غرب اردن میں بھی وحشیانہ کارواائیاں جاری ہیں۔جنین، نابلوس ، اریحا، تلکرم، رام اللہ اور مشرقی یروشلم پر
اسرائیلی فوج کے دھاووں میں 7 اکتوبر سے مئی کے اختتام تک 26 کم سن بچوں سمیت 504 افراد
جاں بحق اور 5400 سے زیادہ زخمی ہیں۔ گرفتار ہونیوالوں کی تعداد 9170 ہے۔ حملوں کے دوران ڈرون کے ذریعے میزائیل داغنے
کے علاوہ کئی بار بمبار طیارے بھی استعمال ہوئے۔انسانی جانوں کیساتھ معاشی قتل عام
اسرائیلی فوج کا ہدف نظر آرہا ہے۔ جنینن اور تلکرم میں کارخانوں کو چن چن کر تباہ
کردیا گیا۔ غرب اردن ایک زرخیز علاقہ ہے کہ خود اللہ نے اسے برکت والی سرزمین کہا
ہے۔ اسرائیلی فوج نے یہاں زینون، سنگترے، سیب اور انگوروں کےباغات کو پامال
کردیا۔عیدالاضحیٰ پر قربانی کیلئے بھیڑ اور دنبے بھی سارے اسرائیل اور اردن کے کچھ
علاقوں کو یہیں سے فراہم کئے جاتے ہیں لیکن حملوں کے بعد واپس ہوتی اسرائیلی
سپاہ دنبوں کے گلے ہنکا کر اپنے ساتھ لے
گئی۔ زراعت اجڑ جانے کی وجہ سے مویشیوں کیلئے چارہ بھی میسر نہیں یعنی ٖحیات
کیساتھ اسباب حیات بھی ختم کئے جارہے ہیں۔
بائیڈن
امن معاہدے کیلئے امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینلن کی پھرتیاں دیکھنے کے قابل ہیں۔
موصوف ناشتہ قاہرہ میں کرتے ہیں تو چائے کیلئے عمان تشریف لے آتے ہں۔ تل ابیب میں کوشر
ظہرانہ تناول فرماے کے بعد قیلولہ ریاض میں ہوتا ہے۔ایک ہفتہ پہلے انھیں نے
خوشخبری سنائی کہ اسرائیل نے بائیڈن کا تین مرحلوں پر مشتمل امن منصوبہ منظور
کرلیا ہے۔امن معاہدے پر اسرائیلی آمادگی کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیل کے عبرانی
چینل 12 نے بتایا کہ نیتھن یاہو حکومت نے بائیڈن امن منصوبے
پر جو چار صفحاتی جواب بھیجا ہے اس میں قیدیوں کی رہائی سے پہلے ہی مستقل جنگ بندی
پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔ اسرائیل کے جواب میں غزہ سے مزاحمت کاروں کے اقتدار کے
خاتمے پر بھی اصرار نہیں کیا گیا۔ موقف سے باعزت پسپائی کیلئے Permanent Cease Fire کےبجائے عسکری کشیدگی
کا مستقل خاتمہ یا cessation of military
hostilities permanentlyکے الفاظ استعمال کئے گئے
ہیں۔
اسی
دوران قاہرہ اور قطر سے اعلان ہوا کہ
مجوزہ معاہدہ مستضعفین کو بھی قبول ے لیکن
اہل غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی فوج کی واپسی کیلئے امریکہ اور اقوام متحدہ کی
ضمانت چاہتے ہیں۔جناب بلینکن نے وضاحت کی اس درخواست کو ترمیم قراردیتے ہوئے اسے
ناقابل عمل قراردیدیا۔اس پر تبصرے کرتے ہوئے مزاحمت کاروں کے ترجمان نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ غیرجانبدار ہیں اور نہ قابل
اعتماد، انکا دوغلا رویہ قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
امن کی بات
چیت کیساتھ کچھ پراسرار بلکہ مشکوک سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔امریکہ کی آن لائن خبر
رساں ایجنسی AXIOSنے انکشاف کیا کہ 10 جون کو اسرائیلی
فوج کے سربرہ جنرل ہرزی حلوی (Herzi Halevi)نے بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور مصر کے فوجی
سربراہان سے ملاقات کی۔یہ اجلاس مناما، بحرین میں ہوا اور امریکی مرکزی کمان (Central Command)کے سربراہ جنرل مائیکل
کوریلا (Michael Kurilla) اس
نشست کے میزبان تھے۔ صحافتی و عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ گفتگو کے دوران لبنان سےاسرائیل پر حملوں کے
تناظر میں ایران کی گوشمالی اور علاقے میں تہران کے سفارتی و عسکری اثرات کو لگام
دینے کی مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ اسی کیساتھ اسرائیل کے فوجی انخلا کے بعد مستقبل میں غزہ کی صورت گری پر بھی بحث
کی گئی۔امریکی مرکزی کمان اور اسرائیلی فوج کے ترجمانوں نے اس خبر پر تبصرے سے
انکار کردیا لیکن تردید بھی نہیں کی۔
جنگ بندی پر نیتھن یاہو کی
آمادگی زمینی حقائق کے ادراک و اعتراف کا مظہر ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی
فوج کے محکمہ سراغرسانی نے اپنی حکومت کو قیدیوں کی بازیابی کیلئے طاقت کے استعمال
کی مزید کوئی کوشش نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ فوجی ذرایع کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی
نگرانی پر مامور مزاحمت کاروں کو مبینہ طور پر ہدائت جاری کردی گئی ہے کہ آئندہ وہ
'قیدخانوں' کی طرف اسرائیلی چھاپہ ماروں کی حرکت کا مشاہدہ کرتے ہی قیدیوں کو ہلاک
کردیں۔ اسرائیلی خفیہ ذرایع کے مطابق یہ 120 قیدی تین سے پانچ کی ٹولیوں میں پٹی
کے مختلف گھروں پر رکھے گئے ہیں لہٰذا ان سب کو بیک وقت بازیاب
کرانا ممکن نہیں۔ اس خبر نے اسرائیلی میں سنسنی پھیلادی۔
قیدیوں کے لواحقین، بازیابی
کی کوششوں سے مستضعفین کو مشتعل کرنے کے بجائے امن معاہدے پر زور دے رہے ہں۔اسی بناپر غزہ سے اسرائیلی
فوج کی واپسی کا مطالبہ خود اسرائیل میں زور پکڑ گیا ہے۔ لوگوں کو ڈرہے کہ کہیں
غلط اطلاع اور افواہ پر ہی انکے پیارے مارنہ دئےجائیں۔ قیدیوں کے رہائی اور امن معاہدے کیلئے جارحیت کے 250 دن مکمل ہونے پر
اسرائیلی طلبہ، اپنی قومی انجمن کی اپیل
پر 250 منٹ کلاسوں سے باہر رہے۔امریکہ کے NBCٹیلی ویژن نے انکشاف کیا ہے کہ اسی خدشے کے پیش نظر امریکہ بہادر
نے اسرائیل سے بالا بالا ان پانچ امریکی شہریوں کی رہائی کیلئے مستضعفین سے براہ
راست مذاکرات شروع کردئے ہیں جنھیں سات اکتوبر کو پکڑا گیا تھا۔
گزشتہ
ہفتے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFPپر جاری ہونے والے ضعیف خاتوں تامی میٹسگر (Tami Metsger)کے انٹرویو نے اسرائیلیوں کو رلادیا۔اس خاتون کے 79 سالہ
شوہر جورام میٹسگر (Yoram
Metsger)کا غزہ میں دوران حراست انتقال ہوگیا۔ تامی
نے اپنے شوہر کی تصوہر گود میں رکھ کر زاروقطار روتے ہوئے کہا کہ کہ ا'گر بی بی
ٰ(وزیراعظم نیتھن یاہو) کی سنگدل حکومت جنگ بند کردیتی تو میرا شوہر آج زندہ ہوتا۔
بی بی کے سینے میں دل ہے نہ اسکو انسانی جانوں کی پرواہ ۔اس
بے حس حکومت نے میرا سہاگ لوٹ لیا'
اسی ہفتے عرب دنیا کے موقر
مرکزدانش Palestinian Center for Policy and Survey
Research(PSR) نے فلسطینی رائے عامہ کا ایک جائزہ شایع کیا ہے۔ یہ سروے، غربِ
اردن، مشرقی بیت المقدس اور بے گھر اہل غزہ کی آرا پر مشتمل ہے، یعنی اس میں شمالی
غزہ کے وہ علاقے شامل نہیں جو نسبتاً کم متاثر ہیں۔ جائزے کے مطابق،
غزہ کے 60 فیصد خاندان کا
کوئی نہ کوئی فرد اسرائیلی وحشت کی نذر ہوگیا لیکن دوتہائی اہل غزہ کے خیال میں 7 اکتوبر کی کاروائی درست تھی اور 80 فیصٖد سمجھتے ہیں کہ اسکی وجہ سے مسئلہ
فلسطین عالمی سطح پر اجاگر ہوا۔ دوتہائی فلسطینی مستضعفین کی فتح کے بارے میں اب
بھی پرامید ہیں، تاہم غزہ کے رہائشیوں میں یہ تناسب 50 فیصد ہے جبکہ 25 فیصد لوکوں کا خیال ہے کہ اسرائیل جنگ
جیت رہا ہے۔ فلسطینیوں کی اکثریت محمود عباس پر اعتماد نہیں کرتی اور 60 فیصد لوگ مقتدرہ
فلسطین (PA)کی
تحلیل چاہتے ہیں۔ اہل غزہ کی اکثریت دوریاستی حل کی حامی نہیں۔
ایک طرف بدترین مشکلات، جان
و مال کے زیاں اور مکانات و زرعی زمینوں کی بربادی کے باوجود فلسطینی اپنی فتح کے بارے میں پرامید ہیں تو دوسری جانب اسرائیلیوں میں مایوسی پیدا ہورہی ہے۔ جنگی
کابینہ سے حزب اختلاف کی علیحدگی کے بعد امن کے خواہشمند اسرائیلی خود کو انتہا
پسند حکومت کے رحم و کرم پر محسوس کر رہے ہیں۔
غزہ سے ملحق علاقوں میں رہنے
والوں کو گھر چھوڑے اٹھ ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد غزہ کے شمال میں اشدود
اور اثقلان سےہزاروں لوگ وسط اسرائیل منتقل ہوئے۔ کچھ عرصہ حکومت نے ان لوگوں کو ہوٹلوں میں رکھا لیکن سرکاری میزبانی
ختم ہونے کے بعد بہت سے خاندانوں نے اب میدانوں اور پارکوں میں خیمے گاڑ دئے ہیں۔
لبنان سے میزائیل اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں الجلیل اور الناصرہ کا علاقہ بھی مخدوش
ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزارت تعلیم کے ترجمان نے بتایا کہ اگر غزہ جنگ اور لبنان سے
حملے ختم نہ ہوئے تو الخلیل، الناصرہ، اثقلان اور اشدود کے اسکول، اگست میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر نہیں کھلیں
گے۔اس اعلان کے بعد ان علاقوں سے نقل مکانی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی بہت سے اسرائیلی
بے گھر ہوکر اقوام متحدہ کی اصطلاح میں Internally Displaced
People (IDPs) کی حیثیت اختیار کرچکے ہے۔
ادھر امریکی جامعات اور
شہروں میں غزہ کیلئے مظاہرہ کرنےوالوں کیخلاف انتقامی کاروائیاں عروج پر پیں۔ شکاگو
کی نجی جامعہ ڈی پال (DePaul University)میں حیاتیات (Biology)کی ایک پروفیسر کو برطرف کردیا گیا۔ پروفیسر این ڈی اکینو (Ann d' Aquino)نے اپنی کلاس کے طلبہ کو مضامین لکھنے کیلئے جو موضوعات دئے ان میں
Gaza Genocide بھی شامل تھا۔یہ جامعہ
1898میں قائم ہوئی اور حیاتیاتی علوم میں جستجو و تحقیق کا ایک موقر ادارہ سمجھی
جاتی ہے۔ اپنی مقبول پروفیسر کی برطرفی پر طلبہ نےزبردست احتجاج کیا۔ پروفیسر
صاحبہ نے اپنے شاگردوں کو پرامن رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی
کےساتھ اب جامعات میں علمی مباحثوں کی روائت بھی ختم کی جاری ہے۔ ڈاکٹر اکینونے
خدشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے اقدامات سے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں تحقیقی سرگرمیوں
کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
گرمی کی تعطیلات کی وجہ سے
صرف summer semesterکے
طلبہ کلاسوں میں آرہے ہیں چنانچہ جامعات میں سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں لیکن رہائشی
علاقوں میں مظاہرے جاری ہیں۔ گزشتہ ہفتے نیویارک کے جرمن قونصل خانے کے باہر مظاہرہ کیا گیا اور غزہ میں بہنے والے سرخ لہو
اور اس خونریزی میں جرمنی کی سہولت کاری کے خلاف بطور احتجاج قونصل خانے کے مرکزی
دروازے پر سرخ رنگ پھینک دیا گی۔ اسی روز نیویارک کے ریلوے اسٹیشن پر زبردست
مظاہرہ ہوا جس میں اسرائیل کے خلاف نعروں پر رئیسِ شہر سخت برہم ہیں اور انھوں نے
آئندہ اس قسم کے مظاہرے روکنے کیلئے پولیس کا احکامات جاری کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ریل
اڈے کے نعروں پر امریکی سینیٹ نے بھی 'تشویش' کا اظہار کیا اور قائد ایوان سینیٹر
چک شومر نے کہا اسرائیل مردہ باد کا نعرہ ناقابل قبول ہےاور آزادی اظہار رائے کے
نام پر اس قسم کے اشتعال انگیز نعرے لگانے کی اجازت نہیں۔
اور آخر میں گروپ 7کے
سربراہی اجلاس کا ذکر۔ اٹلی میں ہونے والی اس بیٹھک کے افتتاحی اجلاس میں جنگی
اخراجات کیلئے یوکرین کو 50 ارب ڈالر قرض دینے کا اعلان کیا گیابھی ہے۔اب یہ بھی سن
لیجئے کہ رقم کہاں سے آئیگی؟؟؟
یوکرین پر حملے کے بعد
امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں نے اپنے ملکوں میں روسی ہوٹلوں، تیل کمپنیوں،
بینکوں اور دوسرے تجارتی اداروں کی شاخوں اور اثاثہ جات کو منجمد کردیا تھا جن سے
حاصل ہونے والی آمدی (سود) سے یوکرین کو قرض دیا جائیگا۔یعنی قزاقی کے مال سے 'دوست'
کی مدد ہوگی۔ یہاں سگےاور سوتیلے کا فرق ایک بار پھر ظاہر ہوگیا۔ اسرائیل کو غزہ
قتل عام کیلئے کئی سو ارب ڈالر بطور تحفہ پیش کئے گئے جبکہ یوکرین کو قرض دیا
جارہا ہے۔ قرض کی شکل میں ملنے والی رقم کا 90 فیصد حصہ امریکی اور یورپی اسلحہ ساز کمپنیوں کے پاس چلا جائیگا
اور یوکرینی اپنا پیٹ کاٹ کر سود کیساتھ قرض واپس کرینگے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 جون 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 21 جون 2024
روزنامہ امت کراچی 21 جون 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 جون 2024
No comments:
Post a Comment