Friday, June 28, 2024

سرائیلی وزیرعظم کی جھنجھلاہٹ غزہ مزاحمت ایک نظریہ ہے،جسے فنا کرنا ممکن نہیں۔ فوجی ترجمان کا اعتراف لبنان اسرائیل جنگ کا خطرہ؟؟؟

 

 اسرائیلی وزیرعظم کی جھنجھلاہٹ

غزہ مزاحمت ایک نظریہ ہے،جسے فنا کرنا ممکن نہیں۔ فوجی ترجمان کا اعتراف

لبنان اسرائیل جنگ کا خطرہ؟؟؟

غزہ میں عسکری ہدف کے حصول میں ناکامی پر اسرائیلی وزیراعظم اضطراب کا شکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک نشری تقریر میں جناب نیتن یاہو نے شکوہ کیا کہ امریکہ نے اسلحے کی فراہمی روکدی ہے جسکی وجہ سے اسرائیلی فوج دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی نہیں کرپارہی۔ اسلحہ ملے تو ہم اپنا ہنر دکھائیں۔ Give us the tools and we'll finish the job۔ تل ابیب میں انکی تقریر جاری ہی تھی کہ واشنگٹن میں صحافیوں کو طلب کرکے امریکی حکومت کی ترجمان محترمہ کرین جین پئیر(Karine Jean-Pierre) بولیں 'بی بی کی بات درست نہیں۔ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی جاری ہے، بس 2000 پونڈ کے بموں کی فراہمی معطل کی گئی ہے اور وہ بھی ر فح پر حملے کے بعد'۔ امریکی ترجمان کے مدافعانہ لہجے اور انداز سے صاف لگ رہاتھا کہ صدر بائیڈن خوف میں مبتلا ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کہیں اسرائیلی ترغیب کار (Lobbyists) انکے خلاف مہم نہ شروع کردیں اسی لئے صفائیاں پیش کی جارہی ہیں۔

پئے درپئے ناکامیوں نے وزیراعظم کے ساتھ اسرائیل کے خاندانِ اول میں جھنجھلاہٹ پیدا کردی ہے۔ فرزندِ اول یار نیتن یاہو نے انسٹا گرام پر ایک پوسٹ میں اب تک کی ناکامی کا الزام ہنگامی کابینہ سے علیحدہ ہونے والے نیشنل یونٹی پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز، فوج، خفیہ ایجنسی اور عسکری محکمہ سراغرسانی کے سربراہ پر دھر دیا۔ صاحبزادے کے خیال میں بینی گینٹز 'خیالی و تصوراتی بادشاہ' ہیں۔ پوسٹ میں فوج کے سربراہ جنرل حلوی، خفیہ ایجنسی Shin Betالمعروف شاباک کے ڈائریکٹر جنرل رونن بار اور عسکری محکمہ سراغرسانی کے قائد ہارون خلیفہ کو 'مہلک ناکامیوں' کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پوچھا گیا ہے کہ ان مسخروں کا تقرر کس نے کیا؟؟ ان تینوں کی تعیناتی سابق وزرائے اعظم نیفتالی بینیٹاور یار لیپیڈ کے دور میں ہوئی تھی جب بینی گینٹز وزیردفاع تھے۔

فراہمیِ اسلحے پر پابندی کے رونے دھونے کیساتھ اسرائیلی حکومت اپنی جارحیت کادائرہ لبنان تک بڑھا کر اسے ایک علاقائی جنگ میں تبدیل کردینے کی خواہشمند یے۔منگل 18 جون کو شمالی کمان کے سربراہ میجر جنرل اوری گورڈِن (Ori Gordin)کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں دوسرے جرنیلوں کے علاوہ آپریشنل ڈائریکٹوریٹ کے قائد عدد بسیوک (Oded Basiuk)نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جو فوجی اعلامیہ جاری ہوا اسکے مطابق 'اجلاس میں لبنان پر حملے کے لئے آپریشنل منصوبوں کی منظوری دی گئی اور چوٹی کے کمانڈروں نے زمین پر فورسز کی تیاری کو تیز کرنے کے بارے میں بھی فیصلے کیے'۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل۔

جب واشنگٹن میں صحافیوں نے اس خبر پر تبصرہ کرنے کیلئے امریکی فوج کے ترجمان جنرل پیٹرک رائیڈر سےرابطہ کہ کیا تو جنرل صاحب نے فرمایا 'مشرق وسطیٰ میں علاقائی جنگ کسی کے مفاد میں نہیں اور اسی کیساتھ صدر بائیڈن نے اپنے معتمد خاص  ایمس ہکسٹین (Amos Hochstein) کو علاقے کے دورے پر بھیج دیا۔ اکیاون سالہ ایمس، توانائی کی دنیا میں ترغیب کاری سے وابستہ رہے ہیں جسکی وجہ سے خلیجی ممالک میں بہت اوپر کی سطح تک انکی رسائی ہے۔راسخ العقیدہ یہودی، ایمس کے  اسرائیلی قیادت سے بھی گہرے  مراسم ہیں۔ اجکل جناب ہکسٹین توانائی اور سرمایہ کاری کیلئے صدر بائیڈن کے مشیر ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے دھمکی کا لبنان کے مزاحمت کاروں نےاسی انداز میں جواب دیا۔ بیروت سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ لبنانی جنگ کو طول نہیں دیا چاہتے لیکن ہم نے چوڑیاں بھی نہیں پہن رکھیں۔ حملے کی صورت میں زمین، فضا اور سمندر ہرجانب سے اسرائیل کو نشانہ بنایا جائیگا اور تل ابیب کی طرح ہم بھی کسی قانون و ضابطے کی پابندی نہیں کرینگے۔ مزاحمت کاروں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ حملے کی دھمکی دیکر اسرائیل ہمیں ڈرا رہا ہے حالانکہ ڈرنا انھیں چاہئے کہ ہماری جوابی کاروائی انھیں ریزہ ریزہ کرسکتی پے۔ اس خبر پر کہ اسرائیلی فضائیہ حملے کیلئے یونانی قبرض کے ہوائی اڈے پر جنگی طیارے تعینات کررہی ہے، مزاحمت کاروں نے متنبہ کیا کہ قبرص زیادہ شوخیاں نہ دکھلائے، کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے ہوسکتے ہیں، اسرائیل سے گٹھ جوڑ انھیں بہت مہنگا پڑیگا۔

لبنانی مزاحمت کاروں کی دھمکی پر یونانی قبرص کے صدر Nikos Christodoulides نے فوراً ایک بیان جاری کیا کہ (یونانی) قبرص کسی علاقائی تنازعے میں فریق نہیں۔ کشیدگی کے پرامن حل کا حصہ بننا ہماری ترجیح ہے لیکن جھگڑے میں فریق بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

امریکی نمائندے اموس ہکسٹین سے تفصیلی ملاقات کے بعد بھی تل ابیب سے جواشارے مل رہے ہیں اسکی مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے لبنان پر حملے کی منظوری دیدی ہے۔اسے ستم ظریفی کہئے یا بے شرم سفارتکاری کہ میڈیا پر اسرائیل کو لبنان سے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے  اور دوسری طرف  واشنگٹن میں ملاقات کے دوران امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون نے اسرائیل کے وزیرتزویراتی امور ران ڈڑمر اور مشیر سلامتی زکی حنیگبی کو جنگ کی صورت امریکہ کی جانب سے مکمل حمائت کا یقین دلایا۔حوالہ CNN

اسرائیلی فوج کا بڑا حصہ گزشتہ آٹھ ماہ سے غزہ میں برسرِ پیکار ہے جہاں فوج کا جانی و مالی نقصان بڑھتا جارہا ہے۔ پرکشش تنخواہوں اور مراعات کے باوجود نوجوان بھرتی سے ہچکچا رہے ہیں۔ اسی بنا پر کنیسہ میں ایک مسودہ قانون (بل) پیش کیا گیا ہے جسکے تحت ریزرو(reserve)دستوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ایک سال بڑھادی جائیگی۔اس تناظر میں ایک نیا محاذ کھول دینا تھکن کا شکار اسرائیلی فوج کیلئے اتنا آسان نہیں۔ 

امریکی وزارت دفاع نے بھی اسرائیل کو لبنان کے خلاف کھلی جنگ شروع نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ واشنگٹن کے عسکری ماپرین کا خیال ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کے پاس ہزاروں راکٹ، میزائیل اور ڈرون ہیں۔ اگر بیک وقت سینکڑوں راکٹ داغ دئے گئے تو سب کو فضا میں ناکارہ بنادینا آئرن ڈوم دفاعی نظام کیلئے ممکن نہ ہوگا اور غچہ دے جانیوالے راکٹ و ڈرون بڑی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے لبنان کے جاسوسی ڈرون نے  حیفہ میں اسرائیل کے حساس ترین فوجی اڈے کی کامیابی سے فلمبندی کی۔ جاری ہونے والے نو منٹ کے اس بصری تراشے میں اڈے کے اہم مقامات کی نشاندپی کی گئی ہے۔اسرائیلی فوج نے اس ویڈیو کو خودساختہ یا جعلی نہیں کہا لیکن وضاحت کی کہ ہمارے ترکش میں اور بھی بہت سارے تیر ہیں جو ویڈیو میں نظر نہیں آئے۔اگراسرائیل کے دعوے کو درست مان لیا جائے تب بھی اتنا تو ثابت ہوگیا کہ لبنانی مزاحمت کاروں کے ہوپو (Hoopoe)ڈرون امریکہ کے مشہور زمانہ آئرن ڈوم دفاعی نظام سے مخفی رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

غزہ کی حمائت میں لبنان کیساتھ یمن کے ایران نواز حوثی بھی سرگرمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے لائیبیریا کے پرچم بردار یونانی جہاز Tutorکو حوثیوں نے بحیرہ احمر میں غرق کردیا۔ جہازوں کی آمدورفت پر نظر رکھنے والے برطانوی ادارےUKMTOنے  اسکی تصدیق کرتے ہوئے بتایامیزائیل اور ڈرون کا نشانہ بننے والا جہاز اٹھارہ جون کو ڈوب گیا۔اس حملے میں عملے کا ایک فلپائنی کارکن بھی ہلاک ہوا۔ مال بردار جہاز پر مبینہ طور پر اسرائیل کا سامان تجارت لدا تھا۔مارچ میں اسرائیل کیلئے کھاد سے لدا Belizeکا پرچم بردار برطانوی جہاز Rubynarبھی اسی مقام پر غرق ہوچکا ہے۔

اسلحہ برآمدات کے باب میں اسرائیلی میڈیا نے گزشتہ ہفتے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا جسکے مطابق متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے 2022 میں اسرائیل سے مجموعی طور پر تین ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا جو تل ابیب سے اسلحے کی کُل برآمد کا 24 فیصد تھا۔ خریدے جانیوالے سامان میں ڈرون، ٹینک شکن میزائیل اور جاسوسی کے آلات شامل ہیں۔ گزشتہ سال کے اختتام پر غزہ خونریزی کی وجہ سے  2023 میں ان ملکوں کی خریداری کم ہوکر 3کروڑ نوے لاکھ ڈالر رہ گئی۔

غزہ کے زمینی حقائق پر فوج اور حکومت کا تجزیہ بالکل مختلف ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو بار بار اپنے اس عزم کا اظہار کررہے ہیں کہ پٹی سے مستضعفین کے مکمل خاتمے کے بعد ہی جنگ بند ہوگی اور انکا خیال ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ ہدف حاصل ہوجائیگا۔ گزشتہ ہفتے وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ ر فح سے مزاحمت کاروں کی نصف تعداد موت کے گھاٹ اترچکی اور سرنگوں میں قائم اسلحہ سازی کے کارخانے اور گودام تباہ کردئے گئے۔ لیکن یوم عرفہ کو تابڑ تؤر حملوں میں مزاحمت کاروں نے 11 فوجیوں کو ہلاک اور درجنوں کو شدید زخمی کرکے اس دعوے کی قلعی کھولدی۔

اس حوالے سے  اسرائیلی فوج کے ترجمان رئر ایڈمرل ڈینیل ہیگاری (Daniel Hagari) کے انٹرویو نے اسرائیل میں سنسنی پیدا کردی ہے ۔ عبرانی ٹی وی چینل 13 پر 20 جون کو گفتگو کرتے ہوئے  شریک امیرالبحر نے کہا کہ 'غزہ مزاحمت ایک نظریہ ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جو سمجھتے ہیں کہ مزاحمت جلد ختم کر دی جائیگی وہ قوم کو گمراہ کررہے ہیں۔ (نظرئے کی بیخ کنی کیلئے) اگر حکومت نے متبادل حکمت عملی وضع نہ کی تو (مزاحمت) باقی رہیگی'۔ اسکی وضاحت کرتے ہوئے فوجی قیادت نے کہا کہ میڈیا پر جناب ہیگاری کے انٹرویو کا تجزیہ  سیاق و سباق سے ہٹ کر کیا جارہا ہے۔ انکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عسکری کاروائی کے ساتھ مقامی لوگوں کے تعاون سے ذہنی تطہیر کی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی تجزیہ نگار نے اس وضاحت کو سنجیدہ نہیں لیا۔ یہ بات امریکہ کے عسکری ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ مستضفعفین روائتی پیشہ ور فوج نہیں بلکہ نظریاتی جماعت ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے مزاحمت کی عوام میں پزیرائی اور افرادی قوت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری طرف اسرائیل میں نیتن یاہو کے استعفے اور نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ نیتھن یاہو کے استعفے کیلئے 16 سے 22 جون تک ہفتہ تعطل (Disturbance Week)منایا گیا۔ درجنوں انعام پانے والے 70 سالہ دانشور اور عبرانی زبان کے محقق و مصنف ڈیوڈ گراسمین نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے میں اسحاق رابن المعروف کریا (Kirya) فوجی اڈے کے باہر امن ریلی سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ  ہمیں ایک بڑی لڑائی کا سامنا ہے اور یہ جنگ اسرائیل کے گلی کوچوں میں ہوگی۔ ایک شخص ہمارے جگر گوشوں کی لاشوں پر اپنے اقتدار کا محل تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دینگے۔ ہمارے بچے فوجی وردی پہن کر اور اسلحہ سجا کر سرحد پر نہیں جائینگے ہم انھیں قرطاس و قلم دیکر اسکول اور مدارس بھیجیں گے تاکہ یہ انسانیت کو قتل کرنے کے بجائے انکی راحت کا سامان بنیں۔

گھیراو کے دوران مشتعل مظاہرین نے وزیراعظم کی رہائش گاہ کے سامنے گملوں کو آگ لگادی۔ بجلی کے پول گرادئے اور گیٹ پر لگے بلب آور ارائیشی قمقمے تؤر دئے گیے۔مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے Water Cannonسے چھوڑی جانیوالی پانی کی دھار سے متعدد افراد کی آنکھوں میں شدید زخم آئے اور ایسے بہت سے مریض اب تک ہسپتال میں ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے آتھ ہزار ڈاکٹروں نے اسرائیلی پولیس کمشنر کو خط لکھا کہ پانی کی دھار مجمع متشر کرنے کا صحت مندانہ طریقہ نہیں، اس سے آنکھیں ضایع ہوسکتی ہیں۔ پولیس گردی کا دفاع کرتے ہوئے برسراقتدار لیکڈ پارٹی کے رہنما نسیم وٹوری (Nessim Vaturi)نے  حکومت کی مخالفت اور امن معاہدے کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کو دہشت گردوں کی بی ٹیم قراردیا۔

صدر بائیڈن کی جانب سے  اسرائیل کی غیر مشروط حمائت سے انکی انتظامیہ میں بیچینی بھی بڑھتی جارہی ہے اور وزارت خارجہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری(نائب وزیرخارجہ) برائے اسرائیل و فلسطینی امور اینڈریو ملر نے استعفیٰ دیدیا۔ ملز صاحب نے استعفیٰ تو بظاہر خانگی مصروفیتوں کی بنا پر دیا ہے لیکن انکے قریبی حلقوں کا کہنا کہ وہ اسرائیل کی غیر مشروط پشت پناہی اور غزہ نسل کشی پر بائیڈن انتطامیہ کی بے حسی سے بہت پریشان تھے۔ واشنگٹن پوسٹ نے وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ جناب ملز اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں لیکن غزہ میں نیتن یاہو حکومت کے اقدامات کو وہ بنیادی انسانی اقدار اور اخلاقیات سے متصادم سمجھتے ہیں۔

عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کی حمائت بڑھتی جارہی ہے۔ چار جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے برطانیہ کی لیبر پارٹی نے اپنے منشور میں ایک آزاد و خودمختار ریاست کے قیام کو فلسطینیوں کا ناقابل تنسیخ حق تسلیم کیا ہے۔ منشور میں فلسطینی ریاست کو اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی کے لیے 'ضروری' قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم ایک فلسطینی ریاست کو علاقے میں منصفانہ اور پائیدار امن کیلئے ضروری سمجھتے یعنی محفوظ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد و خودمختار فلسطین۔ جمعہ 21 جون کو مغربی ایشیا کے ملک آرمینیا نے فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرلیا۔ وزارت خارجہ کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا پائیدارامن دوریاستی حل سے وابستہ ہے۔

ذکر جب چھڑگیا قیامت کا ۔۔ بات پہنچی تری جوانی تک کہ امریکی طلبہ تحریک کا ذکر کئے بغیر اہل غزہ کا تذکرہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ بیس جون کو نیویارک کی جامعہ کولمبیا سے گرفتار ہونے والے 46 طلبہ، اساتدہ اور غیر تدریسی عملے کے ارکان کو عدالت نے پیش کیاگیا۔ یہ افراد 30 اپریل سے زیرِ حراست تھے۔ جج Kevin McGrathنے 30 افراد کے خلاف مقدمات کو ابتدائی سماعت کے بعد فوری طور پر خارج کردیا۔ایک لڑکے کے خلاف مقدمہ سرکاری وکیل نے واپس لے لیا۔جن باقی 15 لوگوں پر تشدد اور توڑ پھڑ کے الزامات تھے انھیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ مستقنل میں نیک چال چلن کا وعدہ کریں یعنی مزید مظاہرہ نہ کرنے کی تحریری ضمانت دیدیں تو ان کے خلاف مقدمات واپس لے لئے جائینگے.

طلبہ نے جج کے سامنے باآواز بلند معافی مانگنے سے انکار کردیا۔ اپنے مشترکہ تحریری بیان میں ان نوجوانوں نے کہا کہ ہم فلسطین کی آزادی اور اہل غزہ کے حقوق کی حمائت سے کسی قیمت دست بردار نہیں ہونگے اور اپنے اس عزم و عہد کی بھاری سے بھاری قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 جون 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 جون 2024

روزنامہ امت 28 جون 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 جون 2024


No comments:

Post a Comment