امریکہ کی مدد سے چار قیدیوں کی بازیابی ۔۔ آتھ ماہ کے دوران غزہ پرسو فضائی حملے یومیہ ۔۔ سفید فاسفورس کا استعمال
اس ہفتے کی سب سے اہم خبر ، وسطِ
غزہ کے علاقے نصیرات
سے ایک خاتون سمیت چار اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی ہے۔ ہفتہ 8 جون کو امدادی سامان
سے لدے ٹرکوں میں بھیس بدل کر اسرائیلی
چھاپہ مار وہاں آئے۔ بھوکے پیاسے لوگ امداد کیلئے دوڑے اور وہ گھر جہاں قیدی رکھے
گئے تھے اسکی حفاظت پر تعینات کچھ مزاحمت کار بھی امدادی سامان لینے والوں کی قطار
میں لگ گئے۔ اسرائیلیوں کو اسی موقع کا انتظار تھا۔ 'امداادی کارکنوں' نے مشین
گنوں سے مجمع کو بھون دیا۔نصرت کیلئے آنے والے ڈرونوں نے تاک تاک کر نہتے لوگوں کو
نشانہ بنایا۔ اس دوران چاروں قیدی گھر سے باہر آگئے جنھیں اسرائیلی فوج کے خصوصی
دستے نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔جسکے بعد فضا میں بمبارگرجے اور پورے علاقے کو ملبے
کا ڈھیر بنادیا گیا۔ اس کاروائی میں 249 شہری مارے گئے۔ ایسوسی ایٹیڈ(AP)کے مطابق 23بچوں اور 11خواتین سمیت 200لاشیں اسپتال
لائی گئی جبکہ درجنوں افراد ملبے تلے دبے
ہوئے ہیں۔
مستضعفین
اور عرب حلقے الزام لگارہے ہیں کہ قیدیوں کو چھڑانے کیلئے اسرائیلی فوج کے ہیلی
کاپٹر نے غزہ کے ساحل پر امریکہ کی تعمیر کردہ عارضی بندرگاہ (Piers)سے اڑان بھری تھی۔ یہ
بندرگاہ امدادی سامان کیلئے تعمیر کی گئی ہے۔ عرب میڈیا کے جاریکردہ ایک بصری
تراشے میں ہیلی کاپٹر کواامریکی ساخٹہ بندرگاہ سے اڑتا دکھایا گیاہے۔ فلسطینی
ذرایع کے مطابق یہ بندرگاہ غزہ کے شہریوں
پر گولہ باری کیلئے بھی استعمال ہورہی ہے۔امریکہ کی مرکزی کمان نے ان اطلاعات کی سختی
سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بندرگاہ کا امدادی سامان کی ترسیل و تقسیم کے سوا
اور کوئی مصرف نہیں۔
اس
عظیم کامیابی پر اسرائیل اور امریکہ میں جشن بپا پے۔ اسرائیلی محکمہ سرغرانی نے اس
بات کا اعتراف کیا ہے کہ مکان کی نشاندہی امریکہ نے کی اور اسی اطلاع کو بنیاد بناکر
آپریشن کیا گیا، جو اسرائیلی نقطہ نظر سے بہت کامیاب رہا۔ یہ اور بات کہ چار افراد کو چھڑانے میں ڈھائی سو فلسطینی مارے گئے لیکن خونِ خاک نشیناں کس شمارو
قطار میں؟۔ کاروائی میں اسرائیلی فوج کا ایک افسر بھی مارا گیا۔
اس کامیابی سے اسرائیل کے
حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور وزیراعظم نیتھن یاہو نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ
ہمارے قیدی معاہدہ امن سے نہیں دشمن کی
بربادی سے ہی رہا ہونگے۔ مزاحمت کاروں نے اس آپریشن پر رد عمل میں کہا کہ فرار
ہوتے قیدیوں کو ہلاک کردنیا کچھ مشکل نہ تھا لیکن ہمارا عقییدہ زیرحراست افراد کو قتل
کرنے کیا اجازت نہیں دیتا۔ قطر سے جاری
ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سجھا
جائے اور مستضعفین کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرینگے جس میں اسرائیلی فوج کی پسپائی،
فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی کی
بین الاقوامی ضمانت شامل نہ ہو۔
سات جون کو غزہ پر جاری بموں
کی موسلادھار بارش کے آٹھ ماہ مکمل ہوگئے۔
سات کلومیٹر چوڑی اور 21 کلومیٹر لمبی اس پٹی پر 244دن سے آگ برس رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم HRWنے اپنے اس الزام کو دہرایا کہ اسرائیل
لبنان اور غزہ پر بمباری میں سفید فاسفورس استعمال کررہا ہے۔ اس سریع الاشتعال
مادے سے بھڑکنے والی آگ کی 800 ڈگری سینٹی گریڈ حرارت، فولاد پگھلانے کیلئے کافی ہے۔ جنیوا کنونشن
کے تحت شہری آبادیوں پر سفید فاسفورس کا استعمال ممنوع ہے۔ ایح آر ڈبلیو کا کہنا
ہے کہ تحقیقات کےدوران انھیں کم از کم 19 مقامات پر سفید فاسفورس کے شواہد ملے ہیں۔
یعنی جس حرارت پر فولاد پانی ہوجائے اسکا سامنا پھول سے بچے کررہے ہیں۔
سب بلاوں کا ہے جہاں سے نزول
۔۔ یہ بلا بھی وہیں سی آئی ہے
دوسرے مہلک ہتھیاروں کی طرح
اسرائیل کو 'انسانیت سوز' سفید
فاسفورس بھی چچا سام فراہم کرتے ہیں
بچے کھچے شفاخانے اور تعلیمی
ادارے اسرائیلی بمباروں کا خاص نشانہ ہیں۔ پانچ جون کو وسطی غزہ کے علاقے نصیرات
میں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی چلنے والے اسکول کو نشانہ بنایا گیا جس میں بچوں
سمیت 27 افراد جاں بحق ہوگئے۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ اسکول کے کمپاونڈ
میں رکھا ایک کنٹینر دہشت گردوں کا اڈا تھا جسے نشانہ بنایا گیا اور شہری ہلاکتیں
بالواسطہ و غیرارادی نقصان ہے۔ افغانستان میں معصوم جانوں کے زیاں کو امریکہ بہادر
بہت معصومیت سے Collateral Damageکہا کرتے
تھے۔
غزہ
میں وحشیانہ کاروائیاں اب عالمی سطح پر مذمت کا نشانہ بن رہی ہیں۔اقوام متحدہ نے بچوں کے قتل عام پر اسرائیل کو List of Shame کی زینت بنادیا۔اسکا اعلان کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے معتمد عام
انتونیو گچیرس نے کہا کہ غزہ میں بچوں کا قتل عام ناقابل برداشت اور متحارب فریقوں
کیلئے شرم کا باعث ہے۔ غیرجانبداری کابھرم رکھنے اور موذیوں کو منہہ بند کرنے
کیلئے شرمناک فہرست میں مزاحمت کاروں کا
نام بھی ٹانک دیا گیا۔ ماضی میں روس، افغانستان،
عراق، شام، صومالیہ اور یمن کا نام شرمناک فہرست پر ڈالا جاچکاہے۔
اقوام عالم کے ردعمل کا گلا
گھونٹنے کیلئے امریکہ مزید مستعد ہوگیا
ہے۔جنوبی افریقہ کی درخواست پر عالمی فوجداری عدالت (ICC)کی جانب سے غزہ نسل کشی کی تحقیقات واشنگٹن کو پسند نہیں اور عدالت
کے مستغٰیث (Prosecutor)نے
تفتیش کیلئے اسرائیلی وزیراعظم، وزیر دفاع اور عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری جاری
کرنے کی جو استدعا کی ہے اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ منگل 4 جون کو امریکی
ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) نے ایک مسودہ قانون (بل) منظور کرلیا جسکے تحت
عدالتی اہلکاروں پر پابندی لگانے کا عزم ظاہر کیا گیاہے۔ اسکے علاوہ امریکہ میں
عدالت کے اثاثوں، مفادات کے لین دین اور نقل و حمل کیلئے بھی خصوصی اجازت درکار
ہوگی۔ یہ بل 155 کے مقابلے میں 247 ووٹوں سے منظور ہوا اور 205 قدامت پسند ریپبلکن
ارکان کے ساتھ ڈیموکریٹک ہارٹی کے 42 روشن خیالوں نے بھی اس کی حمائت میں ہاتھ
بلند کئے۔
دوسری طرف چلی اور میکسیکو
کے بعد اسپین نے عالمی عدالت کے مقدمے
میں فریق بننے کا اعلان کیا ہے۔ اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے ہسپانوی وزیر
خارجہ ہوزے مینوئل الباریس نے کہا کہ انکا
ملک نسل کشی کے اس مقدمے میں فریق بننا چاہتا ہے۔اسپین اس کیس میں شامل ہونے والا
پہلا یورپی ملک ہے۔
کولمبیا نے اسرائیل کو کوئلے کی فراہمی بند کردی
ہے۔اسرائیل کو کولمبین کوئلے کی برآمد کا حجم
32 کروڑڈالر سالانہ ہے جو اس چھوٹے سے ملک کیلئے معمولی رقم نہیں۔ملک کے صدر گستاوو پیدرو نے کہا کہ
اہلِ کولمبیا غزہ نسل کشی پر دلگرفتہ ہیں اور ہم نہتے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے
والوں سے معمول کے تجارتی تعلقات نہیں رکھ سکتے۔
جہاں تک بائیڈن امن معاہدے
کا تعلق ہے تودس بارہ دن گزرجانے کے باوجود کوئی عملی پیشرفت نظر نہیں آئی اور چار
قیدیوں کی بازیابی کے بعد یہ معاملہ خاصہ پیچھے چلاگیا ہے۔ فتح کے نشے میں چور
اسرائیل نے غزہ کے طول و عرض میں بمباری کی نئی مہم شروع کردی ہے۔ فضا سے آتش و
آہن کی بارش کیساتھ ٹینکوں اور بحیرہِ احمر سے بھی میزائیل برس رہے ہیں۔ عینی
شاہدین کا کہنا ہے کہ ہر طرف شعلہ و دھواں اور سڑکوں
پر لاشیں بکھری ہیں۔ زخمیوں کی چیخوں سے آسمان پھٹتا محسوس ہورہا ہے۔
امن کے بارے میں اسرائیلی
حکومت کے اتحادی بھی یکسو نہیں۔ وزیراعظم نیتھن یاہو کے اتحادی حریدی قدامت پسندوں
کی جماعت توریت (UTJ)پارٹی
نے بائیڈن امن فارمولے کی حمائت کا اعلان کیا ہے۔پارٹی قیادت نے ایک بیان میں کہا
کہ قیدیوں کی رہائی ہماری سب سے پہلی
ترجیح اور انکی محفوظ واپسی کی ضمانت دینے والا ہر معاہدہ UTJ کیلئے قابل قبول ہے۔ تاہم عظمت یہود اور دینِ صیہون (RZP-Otzma) جماعتیں مُصر ہیں کہ مستضعفین
کی مکمل بربادی سے پہلے جنگ بندی نہیں ہوگی۔ اس گروہ کے پاس کنیسہ کی 14 نشستتیں
ہیں یعنی ترپ کا پتہ انکے پاس ہے۔اس معاملے میں انتہا پسند کسی رعائت و درگزر یا رواداری
کے قائل نہیں۔ بیک وقت عبرانی، انگریزی
اور عربی میں شایع ہونے والےاخبار روزنامہ الارض
(Haaretz)نے امن معاہدے کے حق میں اداریہ لکھا تو تل ابیب
میں اسکے دفتر کے شیشے توڑ دئے گئے۔
قوم پرستی
کے نعروں اور حب الوطنی کی ہاہاکار کے علی الرغم حکومتی حلقوں میں بیچینی رنگ
دکھانا شروع ہوگئی ہے۔اسرائیلی حزب اختلاف کی
ماہانِ مملکت (ریاستی مورچہ) المعروف نیشنل یونٹی پارٹی، ہنگامی کابینہ سے الگ
ہوگئی۔ غزہ پر حملے کے بعد قومی یکجہتی کے اظہار کیلیے پارٹی کے قائد اور فوج کے
سابق سربراہ بینی گینٹز نے وزیراعظم اور وزیردفاع پر مشتمل عبوری ہنگامی کابینہ
میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ ایک اور سابق جرنیل غادی الائزنکوٹ، وزیر تزویراتی
امور ران ڈرمر اور پاسبانِ توریت یا Shasپارٹی کے سربراہ آریا دری کو اس تین رکنی ہنگامی کابینہ میں مبصر
کا درجہ حاصل ہے۔ نو جون کی صبح صحافیوں سے باتیں کرتے ہوے جناب گینٹز نے کہا کہ
وزیراعظم نیتن یاہو نے اسرائیل کو "حقیقی فتح" تک پہنچنے سے روک دیا ہے
اور وہ اپنے ذاتی سیاسی مفادات کیلئے عسکری کوششوں کو نقصان پہنچارہے۔ موصوف گلوگیر
لہجے میں بولے کہ ہمارے بچے گرم خون بہارہے ہیں اور بی بی کو اپنی کرسی بچانے کی
پڑی ہے۔ اس تناظر میں میرے لئے ساتھ چلنا ممکن نہیں۔
نیتن یاہو نے جناب گینٹز کے
فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا، "بینی، یہ پسپائی کا نہیں
بلکہ محاذ پر عزم کیساتھ کھڑے رہنےکاوقت ہے۔
بدترین
سینسر کے باجود غزہ مظالم کی خبریں کسی نہ کسی شکل میں دنیا ے سامنے آرہی ہیں لیکن
اسی نوعیت کی قیامت غرب اردن پر بھی برپا
ہے۔ گزشتہ ہفتے نابلوس پر اسرائیلی فوج کے دھاوے میں بہت سے
فلسطینی جاں بحق ہوئے اور درجنوں نوجوان گرفتار کرلئے گئے۔ اسرائیلی فوج مظاہرین
کے تعقب میں جوتوں سمیت حضرتِ یوسف ؑ کے مزار میں گھس گئی۔ اس مزار کے بارے میں
مورخٰین کو تحفظات ہیں، اسلئے کہ حضرت یوسفؑ کا انتقال اور تدفین مصر میں ہوئی
تھی۔ یہودی روایات کے مطابق مصر سے ہجرت کرتے ہوئے حضرت موسیؑ نے جناب یوسف ؑ کی
باقیات کا کچھ حصہ بطور تبرک اپنے ساتھ رکھ لیا تھا جسے نابلوس کے قریب بلاطۃ
البلد میں دفن کیا گیا جو قبرِ یوسفؑ کے نام سے مشہور ہے۔ غرب اردن کے شہر اریحا(Jericho)کی خیمہ بستی عقبة جبر بھی جبر
کا نشانہ بنی۔ گھر گھر تلاشی کے دوران خواتین سے بدتمیزی پر نوجوان مشتعل ہوگئے
اور دست بدست لڑائی میں دواسرائیلی فوجی مارے گئے۔انتقام میں ٹینکوں سے گولہ باری
کی گئی جس سے کئی رہائشی عمارتیں تباہ اور متعدد نوجوان جاں سے گئے
ادھر امریکی جامعات فلسطین
کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں خلاف بھرپور انتقامی کاروائیاں کررہی ہیں۔ ملک کی
انتہائی موقر جامعہ اسٹینفرڈ (Stanford)نے 12 طلبہ اور مظاہرہ کی فلمبندی کرنے والے ایک صحافی کے خلاف
مجرمانہ (felony)سرگرمی
کا پرچہ کٹوادیا۔عدالت سے ضمانت منظور ہوجانے پر بھی یہ طلبہ جامعہ نہیں آسکیں گے
اور نہ کامیاب طلبہ کو سند جاری ہوگی۔
آٹھ ماہ سے جاری بمباری و
گولہ باری کے باوجود اہل غزہ کی مزاحمت جاری ہے۔ پٹی پر اسرائیلی کنٹرول کے دعووں
کی قلعی اسوقت کھل گئی جب 5 جون کو چار پیادہ مزاحمت کار رفح سے غزہ کے گرد بنی ٹینکوں اور
بکتر بند کاڑوں کی آہنی دیوار عبور کرکے اسرائیلی فوج کی پشت پر پہنچ گئے۔ اسرائیل
نے حملے میں اپنے ایک سپاہی کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔ حملے میں کئی فوجی زخمی
ہوئے۔ ان چار لڑکوں سے لڑنے کی اسرائیلی فوجیوں میں ہمت نہ تھی چنانچہ ابھیں ڈرونوں
سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ تین 'دہشت گرد'
جاں بحق ہوگئے جبکہ چوتھے کی تلاش جاری ہے۔ انھیں کاروائیوں کی بنا پر قومی سلامتی کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر
ذکی حینیبی( Tzachi Hanegbi) نے گزشتہ ہفتے کہا کہ
مستضعفین کا مکمل خاتمہ دسمبر سے پہلے ممکن نہیں۔
آخر میں ایک مظاہرے پر گفتگو
کا اختتام۔
تین جون کو تل ابیب میں “انسداد بیرحمی حیوانات” کیلئے مظاہرہ کیا
گیا۔ ان روش خیالوں کو کوشر (حلال) ذبیحہ، جانوروں پر ظلم محسوس ہوتا ہے۔ مظاہرین
نے جانوررں کا قتل عام بند کرواور کوشر ذبیحہ پر پابندی لگاو کے فلک شگاف نعرے
لگائے۔یہ مظاہرہ اس ملک کے باشندوں نے کیا جو آٹھ ماہ سے شہری علاقوں پر یومیہ سو سے
زیادہ فضائی حملے کررہا ہے۔کاش یہ لوگ غزہ
کے Gentilesکو حیوان ہی تسلیم کرلیں
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 جون 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 14 جون 2024
روزنامہ امت کراچی 14 جون 2024
ہفت روزہ رہبر سرنگر 16 جون 2024
No comments:
Post a Comment