ترکی مغرب کشیدگی ۔ تلخ کلامی کے بعد مفاہمت کے اشارے
ترکی اور مغرب کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر اپنے عروج کو چھو رہی ہے۔انقرہ سے برسلز اور واشنگٹن کی کشمکش و کشیدگی 18 سال پرانی ہے۔ اسکا آغاز 2002 میں ہوا جب طیب رجب ایردوان کی انصاف و ترقی پارٹی (AKP) نے 550 کے ایوان میں 363نشستیں جیت لیں۔ یہ 33 سال میں پہلا انتخاب تھا جب کسی جماعت نے واضح اکثریت حاصل کی ورنہ 1969 سے 1997تک مخلوط حکومتیں تشکیل پائیں جنھیں فوجی جرنیل اپنے بوٹوں کی نوک پر رکّھے رہے۔ اے کے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے باوجود اسلام کے حق میں ایک تقریر کے باعث سزایافتہ ایردوان کسی بھی منتخب عہدے کیلئے نااہل تھے۔ چنانچہ انکے دستِ راست عبداللہ گل وزیراعظم منتخب کرلئے گئے۔ اتفاق سے انتخابی بدعنوانی کی بناپر ترک عدالت نے شمال مشرقی صوبے سعرد (Siirt)کے انتخابات کالعدم قراردے دئے اوراگلے برس فروری میں وہاں دوبارہ انتخابات منعقد ہوئے۔ اسوقت تک جناب ایردوان کی نااہلی ختم ہوچکی تھی چنانچہ انھوں نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور انکی کامیابی پر عبداللہ گل مستعفی ہوگئے جسکے بعد جناب ایردوان کو وزیراعظم منتخب کرلیا گیا۔
جناب ایردوان نے اپنی مقبولیت اور دو تہائی کے قریب پارلیمانی حجم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیزی سے اصلاحات شروع کیں، جس میں سب سے اہم قدم آئی ایم ایف پروگرام کا اختتام تھا۔ اسی کے ساتھ پارلیمان کی بالادستی کیلئے قانون سازی کی گئی۔ ساتھ ہی دینی مدارس پر سے پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ امتناع شراب کے حوالے سے جناب ایردوان نے لاجواب تدبر کا مظاہرہ کیا۔مسودہ قانون میں کہا گیا ہےکہ کسی بھی تعلیمی ادارے یاعبادت گاہ سے پانچ سو میٹر کے اندر شراب خانے کی اجازت نہیں۔ اس بِل کی مخالفت کسی کیلئے بھی ممکن نہ تھی اور قانون نافذ ہوتے ہی میکدے آبادی سے کافی فاصلے تک محدود ہوگئے۔
مغرب کو ترکی میں اسلام پسندوں کی کامیابی پر تشویش تو پہلے دن سے تھی لیکن انقرہ واشنگٹن کشیدگی کا کھلا آغاز اسوقت ہوا جب 2003 میں ترک وزارت دفاع نے عراق پر حملے کے لئے انسرلیک سے امریکی جنگی جہازوں کے اڑنے پر پابندی لگادی۔ صدر بش خاصے ناراض ہوئے۔ وزیراعظم ایر دوان کا موقف تھا کہ جنگ اقوام متحدہ یا نیٹو کی اجازت کے بغیر چھیڑی جاری ہے لہٰذا ترک سرزمین عراق پر حملے کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔ اس وقت جارج بش کو 2004 کی انتخابی مہم کا سامنا بھی تھا اسلئے انھوں نے بات بڑھانے سے گریز کیا۔
دوسری جانب ایردوان حکومت نے معاشی اصلاحات جاری رکھیں جس سے خوشحالی میں اضافہ ہوا اور 2007 کے انتخابات بھی اے کے پی نے جیت لئے۔شفاف طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں ایردوان کی مقبولیت اور بڑھ گئی۔ یہیں سے سازشوں کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ ارب پتی دانشور، جمہوریت کے چمپئین اور سیکیولر ازم کے علمبردار جارج سورو (George Soros)میدان میں آئے۔ امریکی شہریت کے حامل ہنگری نژاد 91سالہ جارج سورو ایک تنگ نظر یہودی ہیں جنکے خیال میں دنیا کی تمام خرابیوں کی جڑ مذہبی سیاست ہے۔ وہ سیاست میں مذہب کی آمیزش کو جمہوریت کیلئے زہرِ قاتل سمجھتے ہیں۔ اسی لئے انکا خیال ہے کہ دنیا بھر کی جمہوری قوتوں کو مل کر مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمون کا راستہ روکنا چاہئے۔ اپنے فلسفے کی ترویج و اشاعت کیلئے انھوں نے Open Society Foundations )ا OSFکے نام سے ایک 'خیراتی' ادارہ قائم کیا ہے۔ فاونڈیشن بنانے کا فائدہ یہ ہے کہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مخلتف ممالک میں ذیلی تنظیموں کو رقومات 'امداد' کی شکل میں بھیجی جاتی ہے اور ان 'عطیات پر وہ ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
صدر مورسی کا تختہ الٹنے میں بھی OSFنے مبینہ طور پر کلیدی کرداراداکیااور اس 'کارِ خیر' میں جناب سورو کو مصری عرب پتی نجیب ساویرس کی حمائت حاصل تھی۔ جناب نجیب مشہور ٹیلی کمیونیکشن کمپنی اورسکوم (ORASCOM)کے بانی و مالک ہیں۔ پاکستان میں موبائل فون کی خدمات فراہم کرنے والا ادارہ موبی لنک کمیونیکشنز اورسکوم کی ملکیت ہے۔ اخوان کی حکومت ختم کرنے کیلئے نجیب ساویرس اور جارج سورو سے پانی کی طرح پیسہ بہایا۔
مزے کی بات کہ مذہب کو سیاست اور جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک سمجھنے والے سورو صاحب کو اسرائیل میں مذہبی جماعتوں کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں جہاں ربائیوں (یہودی علما) کی جماعتیں ایک عرصے تک اسرائیل حکومتی اتحاد کا حصہ رہیں ہیں۔ اسی طرح یورپ میں کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی بھی بے حد مقبول ہے۔
جیسے ہی AKP نے دوسری مدت کا انتخاب جیتا، سارے ترکی میں زبردست مظاہرے شروع ہوگئے۔ حزب اختلاف اور سورو کی OSFنے الزام لگایا کہ جناب ایردوان صدر بننا چاہتے ہیں اوراگر ایسا ہوا تو مقننہ اور ایوان صدارت دونوں پر اتاترک مخالفین کا قبضہ ہوجائیگا جس سے ترکی کے سیکیولر تشخص بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ اعتراض بذات خود غیر جمہوری تھا کہ اسوقت کے ترک آئین کی روسے صدر کا انتخاب پارلیمنٹ سے ہوتا تھا اور اگر ترک قومی اسمبلی آزادانہ انتخاب کے ذریعے ایردوان کو صدر چُن لے تو اس پر اعتراض کی کیا گنجائش ہے۔ تاہم جناب ایردوان نے حزب اختلاف کی طرف مصالحت ومفاہمت کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنی جماعت کی جانب سے صدر کیلئے نامزدگی کی پیشکش مسترد کردی اورجناب عبداللہ گل صدرمنتخب کرلئے گئے۔
اسی دوران مئی 2010 میں ترکی سے امدادی سامان کے ساتھ کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ روانہ ہوا۔ ایک کشتی پر پاکستانی صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے۔اس قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں 9 سماجی کارکن مارے گئے۔ اپنے مذمتی بیان میں جناب ایردوان نے صاف صاف کہا کہ 'سپرطاقت' کی شہہ کے بغیر اسرائیل اس خونریزی کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ترکی کے اس دوٹوک موقف سے ترکی و امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے مغربی اتحادی بھی سخت برہم ہوئے اور ایردوان مغرب کیلئے ایک ناپسندیدہ شخصیت بن گئے۔
لیکن اس دبنگ موقف سے ترکی میں جناب ایردوان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوااور 2011 میں تیسر ی بار انتخاب جیت کر AKPنے اپنی ہیٹ ترک مکمل کرلی۔ آئین میں ترمیم کرکے ملک میں صدارتی نظام رائج کردیاگیا اور AKPنےجناب ایردوان کو 2018 کے انتخابات کیلئے اپنی جماعت کا صدراتی امیدوار نامزد کردیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ایک بار پھر مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس دوران تشدد کے واقعات بھی ہوئے اور سارا ترکی ہفتوں مفلوج رہا۔ ترک حکومت نے الزام لگایا کہ اس بدامنی کے پیچھے سول سوسائیٹی کے رہنما عثمان کوالہ Osman Kavala’yaکا ہاتھ تھا اوراس تحریک کو جارج سورو مالی مدد فراہم کررہے تھے۔ مظاہروں اور بد امنی سے اے کے پی کی مقبولیت متاثر ہوئی اور 2015 انتخابات میں اے کے پی واضح اکثریت نہ حاصل کرسکی لیکن اس نے قوم پرست جماعت MHPسے مل کر حکومت بنالی۔
امریکہ اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی اسوقت پیدا ہوئی جب جولائی 2016 میں ایردوان کے خلاف ناکام فوجی کاروائی کے دوران باغی طیاروں نے انسر لیک کے امریکی اڈے سے اڑان بھری۔ جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک وزارت دفاع نے انسرلیک اڈے کا انتظام سنبھال لیا اور اب اس اڈے کی نگرانی ترک فضائیہ کے ہاتھ میں ہے۔
ترک حکام کے مطابق اس ناکام بغاوت میں بھی عثمان کوالہ ملوث تھے چنانچہ انھیں 18 اکتوبر 2017 کو گرفتار کرلیا گیا۔ استغاثہ نے فوجی بغاوت کے ساتھ عثمان پر 2013 میں ملک گیر ہنگاموں میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا۔ واضح ثبوت نہ ہونے کی بناپر انھیں مظاہروں کے الزام سے بری کردیاگیا لیکن فوجی بغاوت کے جرم میں وہ ابھی تک قید ہیں۔جناب جارج سورو، عثمان کوالہ کی رہائی کیلئے مہم چلارہے ہیں بلکہ یوں کہیےکہ انھوں نے اس مہم پر اپنے خزانے کے منہہ کھولدئے ہیں۔
فلسطینیوں کی حمائت، فرانس میں مسلم دشمن قوانین کی مخالفت، بحر روم کے مشرقی حصے پر ترکی کے معدنی و تجارتی حقوق کے تحفظ کا عزم اور مغرب نواز حفتر دہشت گردوں کے خلاف لیبیا کی عسکری مدد کی بنا پر ترکی کے امریکہ، یورپ اور اسرائیل سے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ روس سے فضائی دفاعی نظام کی خریداری پر امریکہ نے انقرہ پر سخت معاشی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ روس، امریکہ اور یورپ کی جانب سے بھرپور فوجی حمائت کے باوجود آذربائیجان کے ہاتھوں آرمینیا کی شکست نے ترکی کی فوجی استعداد کے بارے میں مغرب کو تشویش میں مبتلا کردیاہے کہ اس جنگ میں ترک ڈرون اور میزائیلوں نے کلیدی اورفیصلہ کن کردار اداکیاہے۔
جارج سورو کی کوششوں سے سارا یورپ عثمان کورالہ کی پشت پر ہے۔ وہ اس معاملےکو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق تک بھی لے گئے جس نے 2019 میں عثمان کورالہ کی رہائی کا حکم جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے اس بات کے کوئی 'معقول' شواہد نہیں کہ عثمان نے جرم کیا ہے لہٰذا ان کی قید انہیں خاموش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس فیصلے کو بنیاد بناکر یورپ میں انسانی حقوق کے مرکزی ادارے کونسل آف یورپ نے ترکی کو دھمکی دی ہے کہ اگر یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے حکم کی تعمیل نہ کی گئی تو انقرہ پر سخت پابندیاں لگ سکتی ہیں۔
حالیہ کشدیدگی اسوقت عروج کو پہنچی جب عثمان کی گرفتاری کے چار سال مکمل ہونے پر18 اکتوبر کو انقرہ کے امریکی سفارتخانے نے ایک بیان جاری کیا جسکا متن کچھ اسطرح ہے
'عثمان کوالا کی نظربندی کو آج چار سال مکمل ہو گئے۔ انکے مقدمے کی سماعت میں مسلسل تاخیر، مختلف مقدمات کو یکجا کرنے اور بریت کے بعد نئے مقدمات کے اندراج سے ترک عدلیہ، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور شفافیت کے احترام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔چنانچہ کینیڈا، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، جرمنی، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، سویڈن اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفارتخانوں کا خیال ہے کہ ترکی کی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور قانون کے مطابق اس مقدمے کا منصفانہ اور فوری حل ضروری ہے۔ اس معاملے پر یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلوں کے تناظر میں ہم ترکی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عثمان کوالا کی فوری رہائی کو یقینی بنائے'
گویا یہ دس ملکو ں کی مشترکہ قرارداد ہے۔ ترکی یورپی عدالت کا فیصلہ یہ کہہ کر پہلے ہی مسترد کرچکا ہے کہ انقرہ یورپی یونین کارکن نہیں اسلئے ترکی اس عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر اور اسکے فیصلوں پر عملدرآ مد کا پابند نہیں۔ دہرے معیار کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ امریکہ اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم کے خلاف عالمی عدالت انصاف ICJکو تحقیقات کی اجازت دینے کو تیار نہیں نہ وہ ICJکا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تفتیش کیجائے، لیکن واشنگٹن کا اصرار ہے کہ ترکی یورپی عدالت کا فیصلہ من و عن تسلیم کرلے۔
صدر ایردوان نے اس قرارداد کا جواب 23 اکتوبر کو شمال مغربی ترکی کے صدر مقام اسکشہر (Eskisehir)میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہو دیا۔ ترک صدر نے کہاکہ ان غیر ملکی سفیروں کو یہ کہنے کی جرات کیسے ہوئی کہ آپ لوگ ترکی کو سبق سکھائیں گے۔ آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں؟ سفیرو! ترکی کو سمجھو یا ترکی چھوڑدو۔ عوام کے پرجوش نعروں میں انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے وزیرِ خارجہ کو ضروری حکم دے دیا ہے کہ اب انھیں کیا کرنا ہے۔ ہم ان 10 سفیروں کو ناپسنیدہ شخص یعنیPersona non grataقرار دے رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کی اپنے ملک میں میزبانی نہیں کر سکتے۔
سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دئے جانے کے اعلان پر امریکہ اور اور جرمنی کے علاوہ کسی مغربی ملک کا ملک کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔جرمن وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ہم آپس میں 'گہری مشاورت' کر رہے ہیں۔ ترک روزنامہ صباح کے مطابق امریکہ نے ترک حکومت کو یقین دلایا ہے کہ واشنگٹن عثمان کوالہ کے معاملے میں ترکی کی خودمختاری کا مکمل احترام کرتا ہے۔ پیر، 25 اکتوبر کو انقرہ کے امریکی سفارتخانے نے اپنے ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ انکا ملک سفارتی تعلقات کے حوالے سے ویانا کنونشن کے ضابطہ 41کا پابند ہے۔ اس ضابطے کے تحت سفیر وں کیلئے میزبان ملک کے قوانین کے احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت لازمی ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے اب تک سفیر بدری کے باضابطہ احکامات جاری نہیں کئے۔
ترکی ایسے وقت میں یورپ اور امریکہ سے سفارتی تصادم کا خطرہ مول لے رہا ہے جب کرونا کی تباہ کاریوں سے اسکی معیشت شدید دباو میں ہے۔ ایک سال کے دوران ترک لیرا کی قدر میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی پابندیوں کی بناپر اسکی برآمدات بھی متاثر ہیں۔ ترکی میں مہنگائی عروج پر ہے جسکی وجہ عام لوگ بہت پریشان ہیں۔ان دس ممالک سے ترک تجارت کا بڑا حصہ وابستہ ہے۔
سفارتی نامہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان ممالک کو ترکی کی جانب سے ایسے سخت ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ اب ایک طرف جواب الجواب میں مغرب کی جانب سے خاموشی ہے تو دوسری طرف ترک حکومت نے بھی ان سفیروں کو ملک چھوڑنے کے سرکاری احکامات جاری نہیں کئے۔جہاں تک اقتصادی مشکلات کا معاملہ ہے تو وہ یکطرفہ نہیں۔ ترکی یقیناً سخت مشکل میں ہے لیکن یورپ کا حال بھی خاصہ پتلاہے، لہذا کشیدگی بڑھانا کسی کے مفاد میں نہیں اور خیال ہے کہ بات چیت کے ذریعے اس دلدل سے نکلنے کا باعزت راستہ تلاش کرلیا جائیگا۔اس ضمن میں امریکہ کا سجدہ سہو خوش آئند ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29 اکتوبر 2021
ہفت روزہ امت کراچی 29 اکتوبر 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 29 اکتوبر 2021
ہفت روزہ سرینگر 31 اکتوبر 2021
روزنامہ قومی صحافت لکھنو