Thursday, March 31, 2022

او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس چین کا مسلم ممالک سے اظہار یکجہتی

 

او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس

چین کا مسلم ممالک سے اظہار یکجہتی

منظمہ التعاون الإسلامی، المعروف OICکے وزرائے خارجہ  کانفرنس اسلام آباد میں ختم ہوگئی۔ یہ  وزرائے خارجہ کی  48 ویں بیٹھک تھی۔ او آئی سی کا قیام مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پر مسلم دنیا کے شدید ردعمل کا نتیجہ تھا۔ یہ واقعہ 21 اگست 1969کو پیش آیا جب 28 سالہ آسٹریلوی انتہا پسند ڈینس مائیکل روحان نے  نمازِفجر  کے بعد مسجد اقصیٰ کے منبر پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔ بارہویں صدی کا یہ منبر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے شام کے سلجوقی حکمراں  نور محمد زنگی نے حلب  کی جامعہ مسجد کیلئے 1169 میں بنوایا تھا۔لکڑی سے تراشے اس منبر کی محراب پر خوبصورت رسم الخط میں قرآنی آیات تحریر ہیں۔ جب 1187 میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو ساری اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نورالدین زنگی نے بہت اہتمام کے ساتھ یہ منبربیت المقدس بھجوادیا۔ سلطان صلاح الدین نے اپنے ہاتھوں سے منبر کو  مسجد اقصٰی میں نصب کیا اور اس پر بیٹھ کر پہلا خطبہ دیا، اسوقت سے یہ منبرِ سلطان صلاح الدین ایوبی کہلاتا ہے۔

ڈینس کا دعویٰ تھا کہ وہ (نعوذ باللہ) خدا کا فرستادہ ہےاور اسے اسکے رب نے مسجداقصیٰ تباہ کرنے کا حکم  دیا ہے تاکہ اس جگہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جاسکے۔آگ سے  ناصرف منبر جل کر خاک ہوا بلکہ قریب کے چوبی ستون، دروازے اور چھت کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا۔ واقعے کے دوسرے روز ڈینس کو پولیس نے گرفتار کرلیا لیکن مقدمے کے دوران اسرائیلی عدالت نے اسے ذہنی مریض (insane)قراردیتے ہوئے علاج کیلئے نفسیاتی ہسپتال بھیج دیا۔ پانچ سال بعد اُسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر واپس آسٹریلیا رونہ کردیاگیا۔

مسجدِ اقصیٰ میں آتشزدگی کا سانحہ 1967کے سقوطِ بیت المقدس کے صرف دوسال بعد پیش آیا۔ القدس شریف پر قبضے کے ساتھ ہی انتہاپسندوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ مسجد اقصٰی ہیکل سلیمانی کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے اور اسے منہدم کرنے کی تجاویز کئی بار پیش کی گیئں۔ چنانچہ آگ لگنے کی خبر آتے ہی  ساری دنیا کے مسلمان مشتعل ہوگئے۔ سب سے بڑ مظاہرہ سرینگر میں ہوا۔

مفتیِ اعظم فلسطین سید امین الحسینی نے مسلم سربراہان اور مولانا مودودی سمیت دنیا کی اسلامی تحریکوں اور تنظیموں کو خطوط لکھے جس میں قبلہ اول کی حفاظت کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ مفتی صاحب نے اپنے مراسلوں میں لکھا کہ فلسطینی عوام خود پر ڈھائے جانیوالے مظالم کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن مسجد اقصیٰ، مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی طرح مسلم امت کا مشترکہ سرمایہ ہے جسکے تحفظ کیلئے مراکش سے انڈونیشیا تک ساری ملت کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز، مراکش کے بادشاہ حسن دوم، انڈونیشیا کے صدر سوہارتو اور ملائیشیا کے وزیراعظم ٹنکو عبدالرحمان نے مختلف مسلم سربراہوں سے گفتگو کی اور 22 سے 25 ستمبر تک مراکش کے دارالحکومت رباط میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جہاں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ چوٹی ملاقات سے پہلے وزرائے خارجہ کے کئی اجلاس ہوئے جس میں ایجنڈے کے علاوہ  رکنیت کی شرائط طئے کی گئیں جسکے مطابق  مسلم اکثریتی ممالک کے علاوہ ان ملکوں کو بھی رکن بنایا جائیگا جہاں مسلمان اکثریت میں تو نہیں لیکن قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی طئے ہوا کہ ہندوستان کو مبصر کے طور پر دعوت دی جائیگی۔ دہلی کو مدعو کئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان ، پاکستان اور انڈونیشیا مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا کے تین بڑے ملک ہیں۔

اس تاسیسی اجلاس میں ہندوستان اور  پاکستان کے درمیان شدید بدمزگی پیدا ہوئی جسکا جائزہ شائد ہمارے قارئین کو دلچسپ محسوس ہو

سربراہ کانفرنس کیلئے وزرائے خارجہ کے تیاری اجلاس  میں پاکستان نے بھی ہندوستان کو مدعو کرنے کی حمائت کی تھی اسی بناپر یہ فیصلہ متفقہ قرارپایا۔ہندوستان نے دعوت ملنے پر وفد کی تشکیل شروع کردی اور اس دورن رباط میں ہندوستان کے سفیر شری گربچن سنگھ کو وفد کا قائم مقام سربراہ مقرر کردیا گیا۔ وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی نے  او آئی سی کانفرنس کیلئے فخرالدین علی احمد کی سربراہی میں ایک چاررکنی وفد کی منظوری دی۔ فخرالدین علی احمد اسوقت وزیر صنعت تھے جو بعد میں ہندوستان کے صدر منتخب ہوئے۔ وفد کے دوسرے ارکان میں مشہور ماہر لسانیات اور جامعہ علی گڑھ کے سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹرعبدالعلیم، وزارت خارجہ کی ایک اعلی افسر ڈاکٹر عشرت عزیز اور شری گربچن سنگھ کو نامزد کیا گیا۔

اتفاق سے اسی دوران احمد آباد میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے جس میں جانی نقصان کیساتھ کاروباری مراکز کو نذرآتش کرکے مسلمانوں کا معاشی قتل عام بھی ہوا۔ پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے او ائی سی کے تاسیسی اجلاس کیلئے ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔صدر یحییٰ نے ساتھ ہی یہ بھی کہدیا کہ اگر  سربراہی اجلاس میں ہندوستانی وفد موجود ہوا تو وہ اس نشست میں شریک نہیں ہونگے۔ انھوں نے شاہ مراکش کی اس گاڑی کو واپس بھیج دیا جو انھیں لینے انکی قیام گاہ آئی تھی۔ پاکستانی صدرکو منانے مراکش کے بادشاہ، سعودی شاہ فیصل، شہنشاہ ایران،  صدر سوہارتو اور افغان وزیراعظم جناب اعتمادی خود شاہی محل آئے لیکن صدر یحیٰی اپنے وقف پر ڈٹے رہے۔ یہ صورتحال میزبان کی حیثیت سے مراکشی حکومت کیلئے شرمندگی کا باعث تھی۔معاملہ خراب ہونے پر ہندوستانی وفد نے خود ہی شرکت سے معذرت کرلی۔ اپنے ایک بیان میں ہندوستانی سفیر گربچن سنگھ نے کہا کہ 'ہندوستان مسلم قوم کے مفادات کو اپنی سفارتی انا کے بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتا چنانچہ ہم بوجھل دل کے ساتھ اجلاس میں شرکت سے معذرت کرتے ہیں'

تاسیسی اجلاس کے بعد سے او آئی سی کے 12 سربراہ اجلاس ہو چکے ہیں۔ دوسری سربراہی کانفرنس 22 سے 24 فروری  1974، لاہور میں منعقد جس میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا جسکے بعد شیخ مجیب الرحمان نے اجلاس میں شر کت کی۔ اس وقت او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے جن میں سے 56 اقوام متحدہ کے رکن ہیں، فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ بڑی مسلم اقلیت والے ممالک روس اور تھائی لینڈ کے علاوہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی اوآئی سی کے اجلاسوں میں مبصر کے طور پر شریک ہوتے ہیں۔ اگر جغرافیائی اعتبار سے او آئی سی کا تجزیہ کیا جائے تو افریقہ کے 27، ایشیا کے 27 اور جنوبی امریکہ کے دو یعنی  گایانا اور سرینام اسکے رکن ہیں۔ او آئی سی میں یورپ کا صرف ایک ملک  البانیہ شامل ہے۔ شام کی رکنیت معطل ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کی کُل آبادی ایک رب 90 کروڑ ہے۔

ہم جنس پرستی جیسے حساس سماجی معاملے پر او آئی سی یکسو نہیں۔ اس حوالے سے سرکاری موقف یہ ہے کہ تنظیم ہم جنس پرستی کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف سمجھتی ہے لیکن البانیہ، گبون، گنی بساو اور سیرالیون نے اقوام متحدہ کے اس چارٹر پر دستخط کردئے ہیں جسکے تحت ہم جنس پرستی کو ایک معمول کے انسانی رویہ تسلیم کیا گیا ہے۔ بحرین، عراق، اردن اور ترکی نے اقوام متحدہ کے مذکورہ بالا چارٹر پر دستخط تو نہیں کئے لیکن ان ملکوں میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

حالیہ وزرائے خارجہ کانفرنس 48 ویں تھی جو اسلام آباد میں 23 مارچ کو منعقد ہوئی۔ پاکستان اس سے پہلے چار بار وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی کرچکا ہے، 1970  اور 1993کی مجلسیں کراچی میں جمیں جبکہ 1980 اور 2007 کے اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوئے۔

حالیہ اجلاس  کے آغاز پر  غیر ضروری جوش و خروش نظر آیااسلئے کہ ایک ہفتہ قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے Organization of Islamic Cooperation (اوآئی سی) کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 15 مارچ کو یومِ تدارکِ اسلامو فوبیا (Day to Combat Islam phobia)قرار دیا گیا۔ یہ بلاشبہ او آئی سی کا بڑا کارنامہ ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کے معاملے پر دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اس موضوع پر ہم ایک تفصیلی مضمون گزشتہ ہفتے نذرِ قارئین کرچکے ہیں۔

'شراکت برائے اتحاد، انصاف اور ترقی' کو اس کانفرنس کا خیالیہ (theme)قرار دیاگیا اور تقریروں میں اتحاد پر خاصہ زور رہا لیکن ہر ملک نے مسلمانوں سے بدسلوکی کے معاملے میں اپنے مفادات کا 'خاص' خیال رکھا۔ مثلاً عمران خان نے مسلمانوں سے بدسلوکی کا ذکر کرتے ہوئے چین کے ویغور اور میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموشی اختیار کرلی کہ چین کے بارے میں خاطرِ احباب لاحق تھا۔ اسی طرح ترک وزیرخارجہ میولت چاووشولو (Mevlut Cavusoglu) نے مسلم امت کے  ماضی کا ذکر کرتے ہوئے یروشلم کی طرف اشارہ  تو کیا لیکن اس بار فلسطینیوں کی حالتِ زار پر انکا لہجہ روائتی ترک جوش و خروش سے محروم تھا۔

اس احتیاط کے باوجود اجلاس سے عمران خان کا افتتاحی خطاب اور ترک وزیرخارجہ کی تقریر کو پزیرائی نصیب ہوئی۔ اپنے خطاب میں ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ 'شراکت برائے اتحاد، انصاف اور ترقی' کو اس کانفرنس کو محض اس کانفرنس کے خیالئے اورنعرے تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ اس ڈھانچے پر فکرو عمل کی یگانگت کے ساتھ بھرپور کام ہونا چاہئے۔ ترک وزیر نے امت مسلمہ کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دی کہ ' ہماری 1400 سال پرانی تہذیب، شاندار ثقافت، سائینس و دانش کہاں ہے؟ آنکھوں سے اوجھل اس خزانے کو کیسے تلاش کیا جائے؟ انکا کہنا تھا کہ ہمارے عظیم الشان تہذیبی مراکز یروشلم، دمشق، حلب اور کابل تباہ کردئے گئے۔ انکی شناخت بدل دی گئی۔ مسلم ترکوں نے مغرب کو سات سو اورقبرص کو پانچ سو سال عادلانہ نظام فراہم کیا اور اکیسویں صدی میں ہم خود بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کو لاحق آزمایشوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کشمیر میں ہمارے بھائی بہنوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ یورپ میں اسلاموفوبیا عروج پر ہے۔ چین میں ترک نژادویغور اور دوسرے مسلمانوں کیلئے اپنے مذہب پر عمل کرنا مشکل کردیا گیا ہے۔ بھارت ان ملکوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں لیکن وہاں اسکارف پر پابندی لگادی گئی ہے یا یوں کہئے کہ کروڑوں چینی اور ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی شناخت خطرے میں ہے ۔ روہنگیا (برما) مسلمانوں کا تو اب دنیا ذکر بھی نہیں کرتی۔

عالمی قوتوں سے شکوے کے ساتھ انھوں نے خوداحستابی پر زور دیا۔ جناب چاووشولو نے کہا اپنی محرومیوں کا دوسروں پر الزام دھر دینا بہت آسان ہے۔ لیکن اس سے کچھ نہیں ہوگا؟ امت کو  سب سے پہلے خود احتسابی پر کاربند ہونا ہوگا۔ لیبیا، شام اور یمن میں بھائی بھائی کا خون بہارہا ہے۔ کئی اسلامی ممالک کی شناخت خانہ جنگی، زبوں حالی اور خونریزی ہے۔ او آئی سی مشترکہ مفاد کیلئے تشکیل دی گئی ہے۔ اہم معاملات پر ایک زبان ہونے اور مشترکہ بیانئے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ترک وزیرخارجہ نے  یوکرین جنگ کے تناظر میں مہذب سفید فام دنیا کی نسل پرست ذہنیت کو بے نقاب کیا۔ انھوں نے کہا، مغربی میڈیا پر یہ جملے عام ہیں ' یہ مشرق وسطیٰ تو نہیں، یہ افغانستان بھی نہیں تو پھر یہاں کیوں خونریزی ہورہی ہے؟'  ہم کہتے  ہیں کہ 'ہمارے لئے خون بس خون ہے ، چاہے خارکیف میں گرے یا حلب میں '

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسلامی دنیا کو کسی فریق کا اتحادی بننے کے بجائے غیر جانبدار رہ کر خونریزی روکنے اور تنازعے کا حل میں قائدانہ کردار اداکرنا چاہئے۔ یوکرین کی جنگ سے ساری دنیا متاثر ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'ہم ڈیڑھ ارب ہیں لیکن عالمی منظر نامے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ یہ اسلئے کہ ہم نے خود کو بڑی طاقتوں سے وابستہ کرلیا ہے۔گروہی (بلاک) سیاست اور مجازی کشمکش (Cold War) نے دنیا کو غلط سمت میں ڈالدیا ہے جو اجتماعی تباہی کا راستہ ہے۔ مسلم دنیا کو اس سے الگ رہ کر حق و انصاف کے اصولوں پر قیامِ امن کی کوشش کرنی چاہئے۔ عمران خان نے زورد دیکر کہا کہ افغان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ ہمارے افغان بھائی سنگین انسانی بحران کا شکار ہیں۔ اگر دنیا سے دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرنا ہے تو  افغان حکومت کی مدد اور اسے مستحکم کرنا ہو گا۔ مغرب میں انسان تو کیا جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے لیکن مظلوم افغانوں کا کسی کو خیال نہیں جو چالیس برس سے بیرونی حملوں اور مداخلت کا شکار ہیں۔ کوئی قوم افغانوں کی طرح متاثر نہیں ہوئی۔ دنیا جان لے کہ افغان قوم پر فیصلے مسلط نہیں کئے جاسکتے۔

پاکستانی وزیراعظم نے او آئی سی کا نظریاتی تشخص اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ  اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری  اسلامی اقدار کا تحفظ ہے، ہمیں انٹر نیٹ پر فحاشی کے خاتمے کے لیے مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے، دنیا غلط سمت میں جا رہی ہے، ہم 1.4 ارب مسلمانوں کو دنیا میں خیر کے فروغ اور ظلم و ستم اور ناانصافی کے خاتمے کیلئےمتحد ہونے کی ضرورت ہے۔

کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے ولے 'اعلانِ اسلام آباد' میں فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انکے حق خودارادی کی مکمل حمائت کا اعلان کیا گیا۔ او آئی سی نے اپنے پرانے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسرائیل کی 1967 کی سرحدوں پر واپسی انصاف کا تقاضہ ہے۔اعلامئے میں القدس شریف کو آزادوخودمختار فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا۔

اوآئی سی نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں انکے حق خودارادی کے تحفظ پر زور دیا۔ اعلامئے میں 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خودمختار حیثیت کی تبدیلی پر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اسے سلامتی کونسل کی قراراداد کی صریح خلاف ورزی قراردیا گیا۔ اس سال 9 مارچ کو آواز سے تیز رفتار میزائیل کی آزمائش کے دوران ہندوستان کی جانب سے پاکستانی  فضائی حدود کی خلاف ورزی کا بھی اعلامئے میں نوٹس لیا گیا۔

اعلانِ اسلام باد میں جموں و کشمیر کے علاوہ مالی، صومالیہ، سوڈان، کیمرون، جبوتی، بوسنیا، نگورنوکاراباخ( آذربائیجان) اور ترک قبرصی عوام کو مسلم امت کی جانب سے غیر مشروط حمائت کا یقین دلایا گیا۔ایران یا حوثیوں کا نام لئے بغیر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر میزئیل اور ڈرون حملوں کی شدید مذمت کی گئی۔

مشرقی یورپ میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے روس اور یوکرین پر زور دیا گیا کہ وہ  جنگ بند کرکے  اپنے  تنازعات بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اس ضمن میں او آئی سی نے ثالثی کی بھی پیشکش کی۔

مسلم وزرائے خارجہ کو  افغانستان کی صورتحال پر سخت تشویش ہے۔ او آئی سی نے افغانستان کی سالمیت اور خودمختاری کی مکمل حمائت کرتے ہوئے افغان اسٹیٹ بینک کی  منجمد رقوم جلد ز جلد جاری کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ کابل کی مالی مشکات کو دورکیا جاسکے۔

وزرائے خارجہ اجلاس میں بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ  شریک  نہیں ہوئے اور انکی نمائندگی نائب وزیرخارجہ نے کی۔ ایران سے وزارت خارجہ کے ترجمان تشریف لائے جبکہ افغانستان کی نمائندگی انکی وزرات خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے۔  

حالیہ او آئی سی کانفرنس کی سب سے اہم بات چینی وزیرخارجہ وانگ یی کی شرکت تھی جنھیں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیاگیا۔ جناب وانگ یی نے دعوت پر حد درجہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے میزبان یعنی پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو 'بھائیجان' کہہ کر مخاطب کیا۔  

انھوں نے کہا ’کشمیر پر ہم نے آج ایک بار پھر اپنے بہت سے اسلامی دوستوں کے مطالبات سنے ہیں, جنکی چین مکمل حمائت کرتا ہے۔‘ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شری ارندم باغچی نے اس بیان کا نوٹس لیتے ہوئے  کہا  ’ہم او آئی سی کے افتتاحی اجلاس میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی طرف سے بھارت کے حوالے کو مسترد کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ‘جموں و کشمیر سے متعلق تمام امور، بھارت کے اندرونی معاملات ہیں۔ جس پر چین سمیت دیگر ممالک کے پاس تبصرے کا کوئی جواز نہیں ۔

کشمیر کے معاملے پر چینی وزیرخارجہ کے بیان اور اس پر ہندوستان کا شدید ردعمل اس وقت سامنے آیا جسکے دوسرے ہی دن جانب وانگ یی کو دہلی پہچنا تھا۔ لداخ میں گزشتہ برس چین اور بھارت کے درمیان خوفناک تصادم کے بعد کسی چینی رہنما کا یہ پہلا دورہ بھارت تھا۔ وانک یی 25 مارچ کو کھٹمنڈو جاتے ہوئے کابل سے دہلی پہنچے تھے جہاں انھوں  نے اپنے ہم منصب ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال سے ملاقات کی۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مرکزی ایجنڈا شدید معاشی پابندیوں میں جکڑے روس کی مدد تھا۔ بیجنگ اور دہلی دونوں کا خیال ہے کہ پابندیوں سے امن کے امکانات روشن ہونے کے بجائے روس کے اشتعال میں اضافہ ہورہاہے ۔اسی کیساتھ جناب وانگ نے چین بھارت تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ہندوستان نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بات چیت کے آغاز کو لداخ سے چینی فوجی کی واپسی سے مشروط کردیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم اپریل 2022

ہفت روزہ دعوت یکم اپریل 2022

روزنامہ امت کراچی یکم اپریل 2022

ہفت روزہ  رہبر سرینگر 3 اپریل 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

Thursday, March 24, 2022

اسلاموفوبیا!! مسلمانوں کو خطرہ یا مسلمانوں سے خطرہ؟؟؟

اسلاموفوبیا!! مسلمانوں کو خطرہ یا مسلمانوں سے خطرہ؟؟؟

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے Organization of Islamic Cooperation (اوآئی سی) کی جانب سے ایک قرارداد منظور کرلی جس میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 15 مارچ کو یومِ تدارکِ اسلامو فوبیا (Day to Combat Islam phobia)قرار دیا گیا۔

اس موضوع پر گفتگو سے پہلے لفظ 'اسلاموفوبیا' کی تشریح و توضیح ضروری ہے۔ یہ 'اسلام' اور یونانی لفط 'فوبیا' کا مرکب ہے۔ فوبیا کے معنی خوف کے ہیں۔ ہماری عمر کے لو گوں نے ھائیڈروفوبیا یا آب ترسی کانام سنا ہوگا۔ یہ کیفیت ایسے کتے کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے جسے rabiesکا متعدی مرض ہو۔ اسکے نتیجے میں اشتعال آمیز ہیجان پیداہوتا ہے اور مریض پانی کو دیکھ کر خوف سے چیخنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کو Hydro(پانی) Phobia( کاخوف) کہتے پیں۔

اس ترکیب کے مطابق اسلامو فوبیا کا مطلب ہوا کہ اسلام کا خوف۔حالانکہ خوف میں خود مسلم امت مبتلا ہے۔ کئی مسلم ممالک سمیت دنیا کے بڑے حصے میں مسلمان خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت نہیں۔ امریکہ اور کنیڈا جیسے ممالک جہاں حجاب پر قانونی وقدغن نہیں وہاں بھی بچیوں کے سر سے اسکارف نوچنے اور باحجاب خواتین پر آوازیں کسنے کی واردات عام ہیں۔ عام انتہا پسندوں کا کیا ذکر، خود برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانس صاحب ہجو اڑاتے ہوئے برقعہ پوش خواتین کو 'چلتا پھرتالیٹر بکس' (Letter Box) کہہ چکے ہیں۔ چینی صوبے سنکیانک میں عبادت ، غذااور لباس سمیت سلام جیسی بے ضرر  ثقافتی رسم بھی نشانے پر ہے۔

ایسی مظلوم و مقہور اقلیت سے کسی کو کیا خوف ہوسکتا ہے؟ یہ خوف دراصل اس شیطانی پروپیگنڈے کا حصہ جسکے مطابق  مسلمان ایک  چلتاپھرتا خود کش بمبار ہے۔ تربیت کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی جاتی ہے کہ ہر فلسطینی دہشت گرد ہے اور طرزو عمل سے  لبرل،  آزاد خیال بلکہ دین بیزار نظر آنے والے شخص کی ذہنی حالت بھی کسی وقت اچانک تبدیل ہوسکتی ہے۔فوبیا کی ایک کیفیت امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں میں پائی جاتی ہے جنھیں سیاہ فاموں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اسکے بارے میں خود صدر اوباما نے کہاکہ سڑک پر انھیں آتا دیکھ کر سفید فام خواتین کے ہاتھ بے اختیار اپنے پرس کی طرف چلے جاتے تھے۔

 اسلاموفوبیا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف دورِ حاضر کی ایک بدترین کاروئی 15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہوئی جب ایک مسلح سفید فام برینٹن ہیریسن ٹیرینٹ (Brenton Harrison Tarrant)نماز جمعہ سے کچھ پہلے مرکزی جامعہ مسجدالنور میں داخل ہوا۔ اسوقت ڈیڑھ سو کے قریب نمازی جمعہ کی پہلی اذان کے بعد سنت و نوافل میں مصروف تھے۔اٹھائیس (28) سالہ برینٹن نے مسجد میں داخل ہوتے ہی اندھادھند فائرنگ کرکے 47 نمازیوں کوشہید اور درجنوں کو زخمی کردیا۔ اس دوران یہ وحشی فیس بک پر ساری کاروائی براہ راست نشر کرتا رہا جو اسکے خیال میں صلیبی تہذیب کے تحفظ کیلئے ایک ضروری قدم تھا۔ مسجد النور میں خون کی ہولی کھیلنے کے بعد برینٹن پانچ کلومیٹر دور لن وڈ اسلامک سینٹر(Linwood Islamic Centre)پہنچا اور پارکنگ لاٹ میں فائرنگ کرکے مسجد جانے والے چار نمازیوں کو شہید کردیا۔فائرنگ کی آواز پر ایک افغان نوجوان عبدالعزیز وہاب زادہ مسجد باہر آیا۔ نہتا عبدالعزیز ،برینٹن پر جھپٹ پڑا جو گولیاں ختم ہوجانے پر اپنی کار سے دوسرا پستول نکال رہا تھا۔ اس مزاحمت پر برینٹن نے راہ فرار اختیار کرلی۔

اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم محترمہ جیسنڈا آرڈرن (Jacinda Ardern)کا رویہ انتہائی مثبت رہا۔ وہ اسکارف اوڑھ کر مسجد النور آئیں اور جذباتی انداز میں اپنے اسکارف کی طرف اشارہ کر تے ہوئے بولیں  'جو تہذیب ڈیڑھ میٹر کپڑے کے اس ٹکڑے سے خوفزدہ ہے اس کمزور تہذیب کو باقی رہنے کا حق نہیں' نیوزی لینڈ اور مسیحی اقدار و ثقافت کا طرہ امتیاز تنوع ہے اور مسلم سمیت تمام مذاہب کو ہم دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ہر شخص کو اپنے عقیدے پر رہنے، اسکی پرامن تبلیغ اور اپنی تہذیب و ثقافت کے اظہار کا حق ہے اور اس حق کا تحفظ  حکومت، ہماری فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقدس فریضہ ہے۔

اس واقعہ کے ڈھائی ماہ بعد 31مئی کو مکہ المکرمہ میں او آئی سی کی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی جو ادارے کی تشکیل کی 50 ویں سالگرہ تھی۔ اجلاس میں اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے 15 مارچ کے شہدا کی یاد میں عالمی دن منانے کا مطالبہ کیا گیا۔اس واقعے کے بعد اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، ملائیشیا کے محضیر (مہاتر) محمد اور ترک صدر طیب ایردوان نے متعدد بار انتہائی سختی سے اسلاموفوبیاکی مذمت اور حرمت رسول (ص) کے تحفظ کیلئے عالمگیر قانون سازی پر زور دیا۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل دوسال سے 15 مارچ کو خصوصی ویڈیو پیغام جاری کررہے ہیں۔

روس کے صدر ولادیمر پیوتن نے گزشتہ سال 22 دسمبر کو سالانہ اخباری کانفرنس میں توہین رسالت اور اسلام فوبیا کا خصوصی ذکر کیا۔ روسی صدر ہر سال کے اختتام پر صحافیوں سے گزرنے والے سال کے دوران اپنی حکومت کی کارکردگی اور اہم عالمی امور پر روس کے سرکاری بیانئے کی وضاحت وتشریح کرتے ہیں۔ اس بار صدر پیوٹن نے مسلمانوں سے عالمی برادری کے سلوک پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'پیغمبر اسلام سے گستاخی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی  اور اسلام کے پیروکاروں کے مقدس احساسات کی توہین ہے۔'روسی صدر نے کہا کہ اس قسم کے اقدامات شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے والے میگزین کے دفتر پر حملے کا ذکر کیا۔ صدر پیوتن نے فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو سراہا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس کی کچھ حدود ہیں اور اس سے دوسروں کی آزادی کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کی تیسری برسی پر اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے او آئی سی کی ایک قرارداد منظور کرلی جس کے مطابق ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے تدارک کاعالمی دن منایا جائے گا۔ قرارداد، ایران، پاکستان، ترکی، سعودی عرب ، اردن اور انڈونیشیا کی جانب سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے پیش کی۔ او آئی سی کے تمام 57 ارکان کےعلاوہ روس اور چین سمیت 8 دوسرے ممالک بھی مسودے کے تجویز کنندہ میں شامل ہیں۔

قرارداد میں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک کے خلاف موثر کردار ادا کریں۔ تحریک پیش کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ مذہب وعقیدے کے حوالے سے انفرادی طور پر مسلمانوں یا مسلم اداروں اور آبادیوں کیخلاف نفرت اور تشدد انکے بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے جسکا ہر قیمت پر تدارک ہونا چاہئے۔جناب منیر اکرم نے کہا کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے۔ اسلاموفوبیا دنیا کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں، تفریق اور تشدد کی شکل میں نظر آتا ہے اور بدقسمتی سے یہ رحجان دنیا کے کئی علاقوں میں بڑھ رہا ہے۔  پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ اس طرح کا تشدد، تفریق اور معاندانہ برتاؤ  حقوقِ انسانی کی  پامالی کا باعث ہے۔

یورپی یونین اور فرانس نے اس قرارداد پر 'تحفظات' کا اظہار کیا جبکہ ہندوستان کو تدراکِ مسلم فوبیا کا دن منانے پر گہری تشویش ہے۔اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے شری ٹی ایس تریمورتی (T.S, Trimurti)نے کہا کہ اس قرارداد سے ہندو، سکھ اور بودھ جیسے دیگر مذاہب کے خلاف روا رکھی جانیوالی تفریق اور نفرت نظر انداز ہو جائے گی۔ تریمورتی جی نے کہا کہ یہ قرارداد ایک مخصوص مذہب کے حق میں  تو آواز اٹھاتی ہے مگر اس میں دیگر مذاہب کے لوگوں  کو نظر انداز کر دیا گیاہے۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا میں ہندوازم کے ایک ارب 20 کروڑھ پیروکار ہیں، بودھ مذہب کے 53 کروڑ ماننے والے ہیں اور تین کروڑ سے زیادہ سکھ ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ صرف ایک مخصوص مذہب نہیں بلکہ ہر مذہب نفرت اور تشدد کا شکار ہے (حوالہ وائس آف امریکہ)

اس 'بے ضرر' سی قرارداد پر یورپی یونین اور فرانس کے تحفظات اور ہندوستانی حکومت کی تشویش بلکہ اشتعال ناقابل فہم ہے۔ ساری دنیا کی طرح سانحہ کرائسٹ چرچ کی ہندوستان نے بھی مذمت کی تھی۔ فائرنگ کے دوران فیس بک پرحملہ آور کی 'تقریر'، جذباتی انداز اور بدن بولی سے مسلم فوبیا بہت واضح تھا۔ اس نے کئی  باراس خوف' کا اظہار کیا کہ مغربی ممالک میں مذہبی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان اپنی ثقافت پھیلارہے ہیں جس سے صلیبی تہذیب سخت خطر ے میں ہے۔

شری تریمورتی نے چند ماہ قبل بھی کہا تھا کہ  مذہبی نفرت کا رجحان صرف ابراہیمی مذاہب (اسلام، یہودیت اور مسیحیت) کے خلاف نہیں بلکہ ہندو، بودھ اور سکھ مذہب کے خلاف بھی پھیل رہا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بامیان (افغاستان)میں گوتم بدھ کے قدیم مجسمے کا انہدام، گوردواروں کی بے حرمتی، مندروں پر حملے اور مندروں کی مورتیوں کو منہدم کرنے کا جشن منائے جانے جیسے واقعات غیر ابراہیمی مذاہب کے خلاف مذہبی نفرت کی چند مثالیں ہیں جنکی مذمت اور انکے تدارک کیلئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

تریمورتی جی کے اس موقف سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں کہ مذہبی منافرت اور نسلی و ثقافتی تعصب کی ہر شکل قابل مذمت اور شرفِ انسانی کی نفی ہے۔اقوام عالم کو اسکے تدارک و بیخ کنی کی فکر کرنی چاہئے۔ اسکے لئے ہندوستان  تدارکِ مسلم فوبیا قرارداد میں مناسب ترمیم پیش کرسکتا تھا لیکن اس پر 'تشویش' سے مسلم دنیا پر ہندوستان کا تاثر خراب ہوا ہے۔ مہذب دنیا کو اس بات پر حیرت ہے کہ وہ ملک جہاں کروڑوں مسلمان بستے ہیں، ایک ایسی قرارداد کی مخالفت کر رہا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت کو روکنا ہے۔

ان خدشات کا اظہار ہندوستا نی صحافیوں نے بھی کیا ہے۔ انگریزی ماہنامہ Caravanسے وابستہ سینیر صحافی ا ور تجزیہ نگار جناب ہرتوش سنگھ بل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ کی قرارداد ایک اچھا قدم ہے لیکن دلی کو تشویش ہے کہ کل اس پر بھی انگلی اٹھ سکتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہندسرکار ایک طرف مذہبی برابری، جمہوریت اور رواداری کی بات کرتی ہے تو دوسری جانب خود Citizenship Amendment Act المعروف سی اے اے جیسا مذہبی تفریق پر مبنی قانون منظور کراتی ہے ۔ ہرتوش جی نے کہا کہ اقوام متحدہ میں رواداری کی بات کرنے والی مودی سرکار ہندوستان میں جمہوریت کو اکثریتی مذہب کے پیرائے میں ڈھال رہی  ہے۔

جامعہ دہلی کے شعبہ مشرقی ایشیا سے وابستہ ڈاکٹر راونی ٹھاکر کاکہنا ہے کہ ہندو فوبیا انہیں تو کہیں نظر نہیں آتا۔ البتہ اسلامو فوبیا تھوڑا تھوڑا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت کی نظریاتی وابستگی بہت واضح ہے۔ ہندتوا پر یقین رکھنے والے بھارتی حکمراں اسلام کو ایک بیرونی دھرم قرار دیتے ہیں ۔ شریمتی ٹھاکر کے خیال میں یہی سیاسی و نظریاتی عقیدہ اس قرارداد پر دلی کے اعتراض کا بنیادی سبب ہے۔ (حوالہ وائس آف امریکہ)

ہندوستانی اخبار روز نامہ  ہندو کے  تجزیہ کارامِت بروا (Amit Baruah)کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا کی قرارداد کے حوالے سے ہندوستان کا بیانیہ ناقابل فہم ہے۔ انکا خیال ہے کہ ہندوستانی قیادت نے 'مخصوص آبادی' کو پیغام دینے کیلئے یہ موقف اختیارکیا ہے۔ اس بات میں دورائے نہیں کہ اسلاموفوبیا ایک سنگین معاملہ ہے اور یہ ایک اچھی بات ہے کہ یہ اب دنیا کے سنٹر سٹیج پر یہ ایک گمبھیر مسئلے کے طور پر ابھر کر آیا ہے۔ شری بروا نے کہا کہ  ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں اور ملک کی آبادی میں انکا تناسب چودہ فیصد ہے۔ انڈونیشا اور پاکستان کے ساتھ ہندوستان مسلم آبادی والے تین سب سے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں میں بی جے پی کی حکومت آنے بعد مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، تشدد اور مذہبی نفرت کے واقعات میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور بعض عرب ممالک بھی ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے سوال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔شری بروا کا کہنا ہے کہ قرارداد سے کہیں زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے یہاں اسلاموفوبیا پر قابو پانے کے لیے اس کے خلاف سخت قوانین بنائیں۔ (حوالہ بی بی سی)

 یہ قرارداد اس اعتبار سے اہم ہے کہ اقوام عالم نے  مسلمانوں کے خلاف تعصبات اورامتیازی سلوک کو ایک حقیقی خطرہ تسلیم کرلیا ہے۔ لیکن اگر مہذب دنیا نے اس  خطرے کے سدباب کیلئےعملی اقدامات نہ کئے تو معاملہ 8 مارچ یوم خواتین کی طرح سالانہ تقریبات سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ بد قسمتی سےاقوام متحدہ کی حیثیت ایک علامتی  ادارے سے زیادہ نہیں اور اقوام عالم کی یہ نمائندہ انجمن  ان توقعات پر پورا نہیں اتر سکی  جو اس سے وابستہ کی گئی تھیں۔

یہ قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی ہے جو قوت نافذہ سے محروم ہے۔اقوام متحدہ کا بااختیار ادارہ سلامتی کونسل ہے لیکن وہاں کسی بھی فیصلے کیلئے 'پانچ بڑوں' کا متفق ہونا ضروری ہے۔ اس قرارداد پر یورپی یونین نے کھل کر تحفظات کا اظہار کیا ہے لہذا اس بات کا فی الحال کوئی امکان نہیں کہ فرانس اور برطانیہ اس تحریک کی حمائت کرینگے۔

قرارداد کی منظوری کیلئے وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر ایردوان نے بہت محنت کی جس پر وہ تعریف کے مستحق ہیں ۔ اب توہین رسالت کے خلاف قانون سازی پر توجہ دی جانی چاہیے۔اس موقع پر ہمیں مصر کے سابق صدر محترم محمد مورسی بہت یاد آرہے ہیں جو صرف ایک سال برسراقتدار رہے لیکن اس دوران اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں انھوں نےدوٹوک لہجے میں کہا

جناب صدر ہماری دوستی اور دشمنی کا پیمانہ بہت واضح اور روشن ہے۔ جو میرے آقا(ص) کی توقیر کریگا اسکے قدموں میں ہم اپنی آنکھیں بچھادینگے لیکن جو سرکار (ص)کی توہین کا مرتکب ہوا وہ میرا جانی دشمن ہے چاہے وہ میرا خونی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 مارچ 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 25 مارچ 2022

روزنامہ امت کراچی 25 مارچ 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 مارچ 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو



 

 

 

Thursday, March 17, 2022

توانائی کا بحران ۔۔یہ عارضہ، عارضی نوعیت کا ہے

توانائی کا بحران ۔۔یہ عارضہ، عارضی نوعیت کا ہے

مشرقی یورپ کی خونریزی چوتھے  ہفتے میں داخل ہوچکی ہے اور اسکے جلد ختم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ صدر پیوٹن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے تک فوجی کاروائی جاری رہیگی جبکہ یوکرینی صدر ولادیمر زیلنسکی کیلئے ہتھیار ڈالنے کا تصور ہی ناقابل قبول ہے۔ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا اسکے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہر گزرتے دن کیساتھ یوکرین کے افغانستان بننے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ یوکرینیوں کی غیر متوقع مزاحمت پر خود کریملن کو بھی حیرت ہے۔

روسی بمباری میں شدت کے باوجود میدانِ جنگ میں وسعت کا امکان فی الحال کم ہے کہ یوکرینی صدر کی متعدد جذباتی درخواستوں کے باوجود امریکہ اور نیٹو اس جنگ میں براہ راست ملوث ہونے کو تیار نہیں۔ ہم نے جان کرامکان  صفر کے بجائے 'کم ' لکھا ہے کہ روسی صدر پیوٹن کے خیال میں یوکرین کو اسلحے کی فراہمی بھی جنگ میں براہ راست شرکت ہے اور 12 مارچ کو روسی وزارت دفاع نے صاف صاف کہا کہ وہ پولینڈ سے اسلحہ لے کر یوکرین آنے والے قافلوں کو عسکری ہدف سمجھتے ہیں۔ا سی شام روسی بمباروں نے مغربی یوکرین کے شہر لویو (Lviv)کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جس میں یوکرینی وزارت دفاع کے مطابق کئی غیر ملکی تربیت کاروں (انسٹرکٹر) سمیت 35 افراد ہلاک ہوگئے۔ یاوورِو (Yavoriv)نامی سوویت دور کا یہ  اڈہ پولینڈ کی سرحد پرہے۔روس کا دعویٰ ہے کہ یاورو نیٹو سے آنے والے اسلحے کا ابتدائی پڑاو ہے۔

اب تک مشرقی و شمالی یوکرین روسی بمباری کا ہدف تھا لیکن یاوورِو پر حملے سے اندازہ ہوتاہے کہ نیٹو سے آنے والی کمک کا راستہ روکنے کیلئے روسی فضائیہ اپنی کاروائی کا دائرہ یوکرین کے مغرب میں نیٹو ممالک کی سرحد تک بڑھارہی ہے۔ اگر نیٹو سے مدد کا یہ راستہ مسدود ہوگیا تو یوکرین کیلئے مزاحمت بہت مشکل ہوجائیگی۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ روس کی اس نئی حکمت عملی پر نیٹو کا ردعمل کیا ہوگا اور اس خطرے کے سدباب کیلئے چچاسام اور انکے اتحادی کیا جوابی چال چلیں گے؟

لڑائی کا حتمی انجام کیا ہوگا اسکے بارے میں فی الحال کچھ کہنا ممکن نہیں لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد براعظم یورپ میں لڑی جانے والی اس پہلی جنگ کے منفی اثرات ساری دنیا میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ خاص طور سے غریب ممالک کا برا حال ہے۔ لبنان، شام اور یمن کا دارومداد یوکرینی گندم، جو، مکئی اور خوردنی تیل پر ہے۔بنیادی غذائی اجناس کی  فراہمی معطل ہوجانے سے لاکھوں لوگ نان شبینہ سے محروم ہوگئے ہیں۔ مصر، ترکی اور بنگلہ دیش بھی 'دانوں' کی طرف سے اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہیں۔ ترکی میں روٹی کے نرخ دگنے ہوگئے اور دیہاتوں میں نانبائیوں کی دوکانوں پر قطاریں نظر آرہی ہیں۔

اسی کیساتھ دنیا بھرمیں توانائی کے دام بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔ اولادِ آدم کی بدنصیبی کہ ایک عرصے تک COVID 19المعروف کرونا نے حیات  اور اسبابِ حیات کو غارت کیا اور جب اس نامراد سے نجات کا امکان پیداہوا تو مشرقی یورپ میں خون کی اس ہولی نے ادھ موئی انسانیت کو توانائی اور غذائی بحران میں مبتلا کردیا۔اس جنگ کے  انجام اور ممکنہ غذائی بحران پر گفتگو انشااللہ پھر کسی نشست میں۔ آج ہم اس 'انسانی وحشت' کے تیل کی تجارت و سیاست پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینگے۔

یہ بات بہت عرصے سے کہی جارہی تھی کہ اگر روس اور یوکرین کے درمیان لڑائی چھڑگئی تو مہنگی توانائی کی صورت میں ساری دنیا کو اسکی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ فروری کے وسط میں جب کشیدگی اپنے عروج کوپہنچی، اسوقت یہ بات واضح  تھی کہ نیٹو جارحیت کے جواب میں روس کے پیٹ پر حملہ کریگا۔ صدر جو بائیڈن اور یورپ کے زعما بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہہ چکے تھے کہ حملے کی صورت میں براہ راست میدان سجانے کے بجائے پابندیاں لگا کر روسی معیشت کا گلا گھونٹا جائیگا۔

اس محاذ پر کریملن کو شدید آزمائش کا سامنا ہے۔ روسی وزارت خزانہ کے مطابق پابندیوں سے ساری دنیا میں پھیلے 300 ارب ڈالر کے روسی اثاثے منجمد ہیں۔معاشی میدان میں نیٹو کا ہدف روسی تیل اور گیس ہے۔ دنیا میں تیل اور گیس کی پیداوار کا 30 فیصد حصہ امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماہ بہ ماہ معمولی کمی و بیشی کے ساتھ ان تینوں ملکوں کی پیدوار تقریباً برابر ہے اور اوسطاً ہر ملک اپنے کنووں سے ایک کروڑ بیرل تیل یومیہ نکالتاہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی پیداوار ایک کروڑ ساڑھے گیارہ لاکھ اور روس کی ایک کروڑ دس لاکھ بیرل بتائی جارہی ہے جبکہ سعودی عرب کی پیدوار 95 لاکھ سے ایک کروڑ پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دلچسپ بات کہ تیل کی عالمی پیدوار میں امریکہ بہادر کا حصہ دس فیصد ہے لیکن چچا سام دنیا سے حاصل ہونے والی تیل اور گیس کے مجموعی حجم کا 20 فیصد روزانہ پھونک ڈالتے ہیں۔

تیل اور گیس کی روسی برآمدات کا تخمینہ 47 لاکھ بیرل روزانہ ہے جس میں سے 25 لاکھ بیرل یورپ کو فراہم کیا جاتا ہے جو یورپی ضرورت کا چالیس فیصد ہے۔ پولینڈ، ہنگری، فن لینڈ، مالدووا اور چیکو سلاواکیہ (سلاوانیہ اور چیک ریپبلک) کی 70 سے 80 فیصد ضرورت روسی تیل اور گیس سے پوری ہوتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب تیل اور گیس کی بات ہوتی ہے تو اسکا ذکر بیرل میں کیا جاتا ہے۔یہ تو آپکو معلوم ہی ہے کہ  بیرل مائع کو ناپنے کا پیمانہ ہے جبکہ  گیس کی پیمائش حجم یا حرارت کے معیار (Thermal)پر ہوتی ہے لیکن تجزیاتی آسانی کیلئے تیل اور گیس کے مجموعی حجم کو  'تیل کے مساوی'کی شرح سے فی بیرل Oil Equivalent  میں پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی آج جب ہم روسی توانائی کا ذکر کررہے ہیں تو  اعدادوشمار میں تیل اور گیس کی مجموعی مقدار بیرل کی شکل میں پیش کی جائیگی۔

جنگ سے پہلے یہ تاثر عام  تھا کہ جیسے ہی یوکرین پر حملہ ہوا روس سے جرمنی آنے والی گیس پائپ لائن بند کردی جائیگی۔ اس ضمن میں قطر، ناورے، آذر بائیجان اور الجزائر سمیت کئی گیس فراہم کنندگان سے بات بھی کی گئی۔ روس پر پابندی کی صورت میں فراہمی کی ضمانت دینے قطر کے امیر بنفسِ نفیس واشنگٹن تشریف لائے۔ لیکن حملے کے بعد بھی یورپ کو روسی گیس کی فراہمی جاری ہے تاہم گیس کی اضافی پائپ لائن Nord Stream 2 پر کام روک دیا گیا ہے۔ روس سے جرمنی آنے والی 48 انچ قطر کی 1222 کلومیٹر طویل اس پائپ لائن سے 55 ارب مکعب میٹر گیس سالانہ فراہم کی جاسکتی ہے۔ دھمکیوں کے باوجودیورپی یونین نے یورپ کو روسی گیس کے بہاو پر کوئی پابندی نہیں لگائی بس اضافی پائپ لائن پر کام رکوادیا جس سے گیس کی آمد شروع ہی نہیں ہوئی۔کریملن کیلئے اصل دردِ سر فروخت شدہ گیس کی قیمت کی وصولی ہے۔ روسی بینکوں پر پابندی کی وجہ سے خریدار ادائیگی نہیں کرسکتے۔

جنگ شروع ہوتے ہی تیل کی قیمتوں میں بھاری اضافہ دیکھا گیا لیکن جب اصل صورتحال سامنے آئی تو قیمتیں نیچے آنا شروع ہوگئیں۔گزشتہ ہفتے امریکی صدر بائیڈن نے امریکہ آنے والے روسی تیل پر پابندی لگادی اور اس اعلان پر تیل کی قیمتیں ایک دم 14 ڈالر فی بیرل بڑھ گئیں۔ مال تجارت (Commodities)کی قیمتوں میں 'خبروں' کی بنیاد پر اس غیر معمولی اتار چڑھاو کو Headlines Effectکہا جاتا ہے۔ عام طور سے صورتحال واضح ہوتے ہی قیمتوں میں استحکام آجاتا ہے۔ چنانچہ اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ جب دوسرے دن یہ بات سامنے آئی کہ روس سے امریکہ آنے والےروسی تیل کی مقدارصرف چھ لاکھ بیرل روزانہ ہے جو کُل امریکی ضروت کے تین فیصد سے بھی کم ہے تو قیمتوں میں گراوٹ شروع ہوگئی۔

اسی کیساتھ کچھ مزید خبروں نے تیل کی قیمتوں پر دباو کو مزید بڑھادیا۔ پہلی غیر مصدقہ مثبت  خبر یہ تھی کہ صدر بائیڈن ویینزویلا کے تیل پر سے پابندیاں ختم کررہے ہیں۔ وینیزویلا کے صدارتی انتخاب میں امریکی  منظور نظر امیدوار کی شکست پر صدر ٹرمپ نے دھاندلی کاالزام لگایا اور گزشتہ سال جولائی میں وینیزویلا سے تیل کی برآمدات پر پابندی لگادی گئی۔ اس بندش کے خاتمے کو اس بات سے تقویت ملی کہ وییزویلا نے ان دو امریکیوں کو رہا کردیا جو کئی سالوں سے جاسوسی اور فراڈ کے الزام میں نظر بند تھے۔

دوسری خبر ایران جوہری معاہدے برجام یا JCPOA میں امریکہ کی واپسی کے بارے میں تھی۔ اس معاہدے پر 2016 سے عملدرآمد شروع ہوا تھا جسکے مطابق ایران نے جوہری ہتھیار نہ بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے اسکی تصدیق  کیلئےعالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA)کو اپنی تنصیبات کے معائنے کی غیر مشروط اجازت دی تھی۔ اس معاہدے پر سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان کے ساتھ جرمنی نے دستخط کئے تھے اسی لئے برجام کو 5 plus oneبھی کہتے ہیں۔ معاہدے کے بعد ایران پر سے تمام پابندیاں ختم کردی گئی تھیں۔ دوسال قبل صدر ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے نکال کر ایران پر دوبارہ  پابندیاں لگادیں۔خبروں کے مطابق طویل مذاکرات کے بعد امریکہ JCPOAکا حصہ بننے اور ایران پر سے پابندیاں ختم کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔

ایک اور خبر کچھ اسطرح تھی کہ لیبیا میں تیل کے ایک بڑے میدن الفیل کو دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑا کر اس میدان سے تیل کی برآمدات بحال کردی گی ہیں۔ اسکے علاوہ متحدہ عرب امارات اور کوئت نے کہا ہےکہ وہ اوپیک کے مقررہ کوٹے سے زیادہ تیل بازار میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف عالمی توانائی ایجنسی (IEA)نے اعلان کیا کہ تیل کی قیمتوں کو قابومیں رکھنے کیلئےامریکہ تیل کے تزویراتی (Strategic)ذخیرے سے 3 کروڑ بیرل بازار میں لارہا ہے۔ اسی کیساتھ یورپی ممالک نے بھی اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے اپنے ذخائر سے مجموعی طور پر تین کروڑ بیل جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ان خبروں سے قیمتوں میں استحکام پیدا ہوا اور ایک ہفتہ قبل 130 ڈالر فی بیرل  فروخت ہونے والے تیل کی قیمت اب 107 ڈالر کے نشان سے نیچےآچکی ہے۔

یہ قیمت بھی تیل درآمد کرنے والے ممالک کیلئے بہت زیادہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں صرف ایک ڈالر فی بیرل اضافے سے ہندوستان کے درآمدی اخراجات 12 کروڑ ڈالر ماہانہ بڑھ جاتے ہیں جبکہ پاکستان کو تیل کی درآمد کیلئے ماہانہ ایک کروڑ پینتیس لاکھ ڈالراضافی خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ قیمتی زرمبادلہ پر اس دباو سے ملکی کرنسی کی قدر بھی  متاثر ہوتی ہے۔

 یورپ اور امریکہ کی جانب سے تیل کی خریداری رک جانے سے 16 لاکھ بیرل روسی تیل بازار میں آگیا ہے اور ساری دنیا کے آڑھتی اسکے لئے گاہک تلاش کررہے ہیں۔ وینیزویلا  اپنے آٹھ سے دس لاکھ بیرل تیل کیلئے گاہک ڈھونڈ رہا ہے اور ایران پر سے پابندیاں ختم ہوگئیں تو پندرہ لاکھ بیرل ایرانی تیل بھی بازار میں ہوگا۔اس تجزئے سے ہمارے قارئین کو یقیناً کچھ راحت محسوس ہورہی ہوگی جنکے گھریلو بجٹ کا بڑا حصہ بجلی اور گیس کے بلوں اور پیٹرول پمپوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ تاہم اچھی و مثبت صورت گری کیساتھ ایک خدشے کا ذکر  بھی سن لیجئے۔

آج روسی نائب وزیراعظم دیمتری گریگورینکوDmitry Grigorenkoنے امریکہ  اور یورپ کی جانب سے روسی تیل کے بائیکاٹ پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر تیل بطور ہتھیار ہمارے خلاف استعمال ہوتا رہا تو گیس بند کرکے ہم بھی یورپ کو تاریکی میں دھکیل سکتے ہیں۔ماہرین نے فاضل نائب وزیراعظم کے اس ارشاد عالیہ کو بہت زیادہ اہمیت  نہیں دی کہ اس وقت جبکہ 16 لاکھ بیرل تیل پہلے ہی فالتو پڑاہوا ہے، یورپی گیس پائپ لائن بند کرکے 25 لاکھ بیرل مزید تیل (Oil Equivalent) کو کہاں ٹھکانے لگایا جائیگا، یعنی یورپ کو روسی گیس کی بندش کی کوئی تُک نہیں۔ لیکن دنیا پر قبضے کا خناس جب سر میں سماجائے تو منطق، عقل اور دلیل و برہان کا کیا ذکر؟؟؟

 ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 18 مارچ 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 مارچ 2022

روزنامہ امت کراچی 18 مارچ 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 20 مارچ 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو