Thursday, March 31, 2022

او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس چین کا مسلم ممالک سے اظہار یکجہتی

 

او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس

چین کا مسلم ممالک سے اظہار یکجہتی

منظمہ التعاون الإسلامی، المعروف OICکے وزرائے خارجہ  کانفرنس اسلام آباد میں ختم ہوگئی۔ یہ  وزرائے خارجہ کی  48 ویں بیٹھک تھی۔ او آئی سی کا قیام مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پر مسلم دنیا کے شدید ردعمل کا نتیجہ تھا۔ یہ واقعہ 21 اگست 1969کو پیش آیا جب 28 سالہ آسٹریلوی انتہا پسند ڈینس مائیکل روحان نے  نمازِفجر  کے بعد مسجد اقصیٰ کے منبر پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔ بارہویں صدی کا یہ منبر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے شام کے سلجوقی حکمراں  نور محمد زنگی نے حلب  کی جامعہ مسجد کیلئے 1169 میں بنوایا تھا۔لکڑی سے تراشے اس منبر کی محراب پر خوبصورت رسم الخط میں قرآنی آیات تحریر ہیں۔ جب 1187 میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو ساری اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نورالدین زنگی نے بہت اہتمام کے ساتھ یہ منبربیت المقدس بھجوادیا۔ سلطان صلاح الدین نے اپنے ہاتھوں سے منبر کو  مسجد اقصٰی میں نصب کیا اور اس پر بیٹھ کر پہلا خطبہ دیا، اسوقت سے یہ منبرِ سلطان صلاح الدین ایوبی کہلاتا ہے۔

ڈینس کا دعویٰ تھا کہ وہ (نعوذ باللہ) خدا کا فرستادہ ہےاور اسے اسکے رب نے مسجداقصیٰ تباہ کرنے کا حکم  دیا ہے تاکہ اس جگہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جاسکے۔آگ سے  ناصرف منبر جل کر خاک ہوا بلکہ قریب کے چوبی ستون، دروازے اور چھت کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا۔ واقعے کے دوسرے روز ڈینس کو پولیس نے گرفتار کرلیا لیکن مقدمے کے دوران اسرائیلی عدالت نے اسے ذہنی مریض (insane)قراردیتے ہوئے علاج کیلئے نفسیاتی ہسپتال بھیج دیا۔ پانچ سال بعد اُسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر واپس آسٹریلیا رونہ کردیاگیا۔

مسجدِ اقصیٰ میں آتشزدگی کا سانحہ 1967کے سقوطِ بیت المقدس کے صرف دوسال بعد پیش آیا۔ القدس شریف پر قبضے کے ساتھ ہی انتہاپسندوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ مسجد اقصٰی ہیکل سلیمانی کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے اور اسے منہدم کرنے کی تجاویز کئی بار پیش کی گیئں۔ چنانچہ آگ لگنے کی خبر آتے ہی  ساری دنیا کے مسلمان مشتعل ہوگئے۔ سب سے بڑ مظاہرہ سرینگر میں ہوا۔

مفتیِ اعظم فلسطین سید امین الحسینی نے مسلم سربراہان اور مولانا مودودی سمیت دنیا کی اسلامی تحریکوں اور تنظیموں کو خطوط لکھے جس میں قبلہ اول کی حفاظت کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ مفتی صاحب نے اپنے مراسلوں میں لکھا کہ فلسطینی عوام خود پر ڈھائے جانیوالے مظالم کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن مسجد اقصیٰ، مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی طرح مسلم امت کا مشترکہ سرمایہ ہے جسکے تحفظ کیلئے مراکش سے انڈونیشیا تک ساری ملت کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز، مراکش کے بادشاہ حسن دوم، انڈونیشیا کے صدر سوہارتو اور ملائیشیا کے وزیراعظم ٹنکو عبدالرحمان نے مختلف مسلم سربراہوں سے گفتگو کی اور 22 سے 25 ستمبر تک مراکش کے دارالحکومت رباط میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جہاں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ چوٹی ملاقات سے پہلے وزرائے خارجہ کے کئی اجلاس ہوئے جس میں ایجنڈے کے علاوہ  رکنیت کی شرائط طئے کی گئیں جسکے مطابق  مسلم اکثریتی ممالک کے علاوہ ان ملکوں کو بھی رکن بنایا جائیگا جہاں مسلمان اکثریت میں تو نہیں لیکن قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی طئے ہوا کہ ہندوستان کو مبصر کے طور پر دعوت دی جائیگی۔ دہلی کو مدعو کئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان ، پاکستان اور انڈونیشیا مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا کے تین بڑے ملک ہیں۔

اس تاسیسی اجلاس میں ہندوستان اور  پاکستان کے درمیان شدید بدمزگی پیدا ہوئی جسکا جائزہ شائد ہمارے قارئین کو دلچسپ محسوس ہو

سربراہ کانفرنس کیلئے وزرائے خارجہ کے تیاری اجلاس  میں پاکستان نے بھی ہندوستان کو مدعو کرنے کی حمائت کی تھی اسی بناپر یہ فیصلہ متفقہ قرارپایا۔ہندوستان نے دعوت ملنے پر وفد کی تشکیل شروع کردی اور اس دورن رباط میں ہندوستان کے سفیر شری گربچن سنگھ کو وفد کا قائم مقام سربراہ مقرر کردیا گیا۔ وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی نے  او آئی سی کانفرنس کیلئے فخرالدین علی احمد کی سربراہی میں ایک چاررکنی وفد کی منظوری دی۔ فخرالدین علی احمد اسوقت وزیر صنعت تھے جو بعد میں ہندوستان کے صدر منتخب ہوئے۔ وفد کے دوسرے ارکان میں مشہور ماہر لسانیات اور جامعہ علی گڑھ کے سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹرعبدالعلیم، وزارت خارجہ کی ایک اعلی افسر ڈاکٹر عشرت عزیز اور شری گربچن سنگھ کو نامزد کیا گیا۔

اتفاق سے اسی دوران احمد آباد میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے جس میں جانی نقصان کیساتھ کاروباری مراکز کو نذرآتش کرکے مسلمانوں کا معاشی قتل عام بھی ہوا۔ پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے او ائی سی کے تاسیسی اجلاس کیلئے ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔صدر یحییٰ نے ساتھ ہی یہ بھی کہدیا کہ اگر  سربراہی اجلاس میں ہندوستانی وفد موجود ہوا تو وہ اس نشست میں شریک نہیں ہونگے۔ انھوں نے شاہ مراکش کی اس گاڑی کو واپس بھیج دیا جو انھیں لینے انکی قیام گاہ آئی تھی۔ پاکستانی صدرکو منانے مراکش کے بادشاہ، سعودی شاہ فیصل، شہنشاہ ایران،  صدر سوہارتو اور افغان وزیراعظم جناب اعتمادی خود شاہی محل آئے لیکن صدر یحیٰی اپنے وقف پر ڈٹے رہے۔ یہ صورتحال میزبان کی حیثیت سے مراکشی حکومت کیلئے شرمندگی کا باعث تھی۔معاملہ خراب ہونے پر ہندوستانی وفد نے خود ہی شرکت سے معذرت کرلی۔ اپنے ایک بیان میں ہندوستانی سفیر گربچن سنگھ نے کہا کہ 'ہندوستان مسلم قوم کے مفادات کو اپنی سفارتی انا کے بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتا چنانچہ ہم بوجھل دل کے ساتھ اجلاس میں شرکت سے معذرت کرتے ہیں'

تاسیسی اجلاس کے بعد سے او آئی سی کے 12 سربراہ اجلاس ہو چکے ہیں۔ دوسری سربراہی کانفرنس 22 سے 24 فروری  1974، لاہور میں منعقد جس میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا جسکے بعد شیخ مجیب الرحمان نے اجلاس میں شر کت کی۔ اس وقت او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے جن میں سے 56 اقوام متحدہ کے رکن ہیں، فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ بڑی مسلم اقلیت والے ممالک روس اور تھائی لینڈ کے علاوہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی اوآئی سی کے اجلاسوں میں مبصر کے طور پر شریک ہوتے ہیں۔ اگر جغرافیائی اعتبار سے او آئی سی کا تجزیہ کیا جائے تو افریقہ کے 27، ایشیا کے 27 اور جنوبی امریکہ کے دو یعنی  گایانا اور سرینام اسکے رکن ہیں۔ او آئی سی میں یورپ کا صرف ایک ملک  البانیہ شامل ہے۔ شام کی رکنیت معطل ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کی کُل آبادی ایک رب 90 کروڑ ہے۔

ہم جنس پرستی جیسے حساس سماجی معاملے پر او آئی سی یکسو نہیں۔ اس حوالے سے سرکاری موقف یہ ہے کہ تنظیم ہم جنس پرستی کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف سمجھتی ہے لیکن البانیہ، گبون، گنی بساو اور سیرالیون نے اقوام متحدہ کے اس چارٹر پر دستخط کردئے ہیں جسکے تحت ہم جنس پرستی کو ایک معمول کے انسانی رویہ تسلیم کیا گیا ہے۔ بحرین، عراق، اردن اور ترکی نے اقوام متحدہ کے مذکورہ بالا چارٹر پر دستخط تو نہیں کئے لیکن ان ملکوں میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

حالیہ وزرائے خارجہ کانفرنس 48 ویں تھی جو اسلام آباد میں 23 مارچ کو منعقد ہوئی۔ پاکستان اس سے پہلے چار بار وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی کرچکا ہے، 1970  اور 1993کی مجلسیں کراچی میں جمیں جبکہ 1980 اور 2007 کے اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوئے۔

حالیہ اجلاس  کے آغاز پر  غیر ضروری جوش و خروش نظر آیااسلئے کہ ایک ہفتہ قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے Organization of Islamic Cooperation (اوآئی سی) کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 15 مارچ کو یومِ تدارکِ اسلامو فوبیا (Day to Combat Islam phobia)قرار دیا گیا۔ یہ بلاشبہ او آئی سی کا بڑا کارنامہ ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کے معاملے پر دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اس موضوع پر ہم ایک تفصیلی مضمون گزشتہ ہفتے نذرِ قارئین کرچکے ہیں۔

'شراکت برائے اتحاد، انصاف اور ترقی' کو اس کانفرنس کا خیالیہ (theme)قرار دیاگیا اور تقریروں میں اتحاد پر خاصہ زور رہا لیکن ہر ملک نے مسلمانوں سے بدسلوکی کے معاملے میں اپنے مفادات کا 'خاص' خیال رکھا۔ مثلاً عمران خان نے مسلمانوں سے بدسلوکی کا ذکر کرتے ہوئے چین کے ویغور اور میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموشی اختیار کرلی کہ چین کے بارے میں خاطرِ احباب لاحق تھا۔ اسی طرح ترک وزیرخارجہ میولت چاووشولو (Mevlut Cavusoglu) نے مسلم امت کے  ماضی کا ذکر کرتے ہوئے یروشلم کی طرف اشارہ  تو کیا لیکن اس بار فلسطینیوں کی حالتِ زار پر انکا لہجہ روائتی ترک جوش و خروش سے محروم تھا۔

اس احتیاط کے باوجود اجلاس سے عمران خان کا افتتاحی خطاب اور ترک وزیرخارجہ کی تقریر کو پزیرائی نصیب ہوئی۔ اپنے خطاب میں ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ 'شراکت برائے اتحاد، انصاف اور ترقی' کو اس کانفرنس کو محض اس کانفرنس کے خیالئے اورنعرے تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ اس ڈھانچے پر فکرو عمل کی یگانگت کے ساتھ بھرپور کام ہونا چاہئے۔ ترک وزیر نے امت مسلمہ کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دی کہ ' ہماری 1400 سال پرانی تہذیب، شاندار ثقافت، سائینس و دانش کہاں ہے؟ آنکھوں سے اوجھل اس خزانے کو کیسے تلاش کیا جائے؟ انکا کہنا تھا کہ ہمارے عظیم الشان تہذیبی مراکز یروشلم، دمشق، حلب اور کابل تباہ کردئے گئے۔ انکی شناخت بدل دی گئی۔ مسلم ترکوں نے مغرب کو سات سو اورقبرص کو پانچ سو سال عادلانہ نظام فراہم کیا اور اکیسویں صدی میں ہم خود بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کو لاحق آزمایشوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کشمیر میں ہمارے بھائی بہنوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ یورپ میں اسلاموفوبیا عروج پر ہے۔ چین میں ترک نژادویغور اور دوسرے مسلمانوں کیلئے اپنے مذہب پر عمل کرنا مشکل کردیا گیا ہے۔ بھارت ان ملکوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں لیکن وہاں اسکارف پر پابندی لگادی گئی ہے یا یوں کہئے کہ کروڑوں چینی اور ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی شناخت خطرے میں ہے ۔ روہنگیا (برما) مسلمانوں کا تو اب دنیا ذکر بھی نہیں کرتی۔

عالمی قوتوں سے شکوے کے ساتھ انھوں نے خوداحستابی پر زور دیا۔ جناب چاووشولو نے کہا اپنی محرومیوں کا دوسروں پر الزام دھر دینا بہت آسان ہے۔ لیکن اس سے کچھ نہیں ہوگا؟ امت کو  سب سے پہلے خود احتسابی پر کاربند ہونا ہوگا۔ لیبیا، شام اور یمن میں بھائی بھائی کا خون بہارہا ہے۔ کئی اسلامی ممالک کی شناخت خانہ جنگی، زبوں حالی اور خونریزی ہے۔ او آئی سی مشترکہ مفاد کیلئے تشکیل دی گئی ہے۔ اہم معاملات پر ایک زبان ہونے اور مشترکہ بیانئے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ترک وزیرخارجہ نے  یوکرین جنگ کے تناظر میں مہذب سفید فام دنیا کی نسل پرست ذہنیت کو بے نقاب کیا۔ انھوں نے کہا، مغربی میڈیا پر یہ جملے عام ہیں ' یہ مشرق وسطیٰ تو نہیں، یہ افغانستان بھی نہیں تو پھر یہاں کیوں خونریزی ہورہی ہے؟'  ہم کہتے  ہیں کہ 'ہمارے لئے خون بس خون ہے ، چاہے خارکیف میں گرے یا حلب میں '

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسلامی دنیا کو کسی فریق کا اتحادی بننے کے بجائے غیر جانبدار رہ کر خونریزی روکنے اور تنازعے کا حل میں قائدانہ کردار اداکرنا چاہئے۔ یوکرین کی جنگ سے ساری دنیا متاثر ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'ہم ڈیڑھ ارب ہیں لیکن عالمی منظر نامے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ یہ اسلئے کہ ہم نے خود کو بڑی طاقتوں سے وابستہ کرلیا ہے۔گروہی (بلاک) سیاست اور مجازی کشمکش (Cold War) نے دنیا کو غلط سمت میں ڈالدیا ہے جو اجتماعی تباہی کا راستہ ہے۔ مسلم دنیا کو اس سے الگ رہ کر حق و انصاف کے اصولوں پر قیامِ امن کی کوشش کرنی چاہئے۔ عمران خان نے زورد دیکر کہا کہ افغان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ ہمارے افغان بھائی سنگین انسانی بحران کا شکار ہیں۔ اگر دنیا سے دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرنا ہے تو  افغان حکومت کی مدد اور اسے مستحکم کرنا ہو گا۔ مغرب میں انسان تو کیا جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے لیکن مظلوم افغانوں کا کسی کو خیال نہیں جو چالیس برس سے بیرونی حملوں اور مداخلت کا شکار ہیں۔ کوئی قوم افغانوں کی طرح متاثر نہیں ہوئی۔ دنیا جان لے کہ افغان قوم پر فیصلے مسلط نہیں کئے جاسکتے۔

پاکستانی وزیراعظم نے او آئی سی کا نظریاتی تشخص اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ  اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری  اسلامی اقدار کا تحفظ ہے، ہمیں انٹر نیٹ پر فحاشی کے خاتمے کے لیے مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے، دنیا غلط سمت میں جا رہی ہے، ہم 1.4 ارب مسلمانوں کو دنیا میں خیر کے فروغ اور ظلم و ستم اور ناانصافی کے خاتمے کیلئےمتحد ہونے کی ضرورت ہے۔

کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے ولے 'اعلانِ اسلام آباد' میں فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انکے حق خودارادی کی مکمل حمائت کا اعلان کیا گیا۔ او آئی سی نے اپنے پرانے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسرائیل کی 1967 کی سرحدوں پر واپسی انصاف کا تقاضہ ہے۔اعلامئے میں القدس شریف کو آزادوخودمختار فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا۔

اوآئی سی نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں انکے حق خودارادی کے تحفظ پر زور دیا۔ اعلامئے میں 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خودمختار حیثیت کی تبدیلی پر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اسے سلامتی کونسل کی قراراداد کی صریح خلاف ورزی قراردیا گیا۔ اس سال 9 مارچ کو آواز سے تیز رفتار میزائیل کی آزمائش کے دوران ہندوستان کی جانب سے پاکستانی  فضائی حدود کی خلاف ورزی کا بھی اعلامئے میں نوٹس لیا گیا۔

اعلانِ اسلام باد میں جموں و کشمیر کے علاوہ مالی، صومالیہ، سوڈان، کیمرون، جبوتی، بوسنیا، نگورنوکاراباخ( آذربائیجان) اور ترک قبرصی عوام کو مسلم امت کی جانب سے غیر مشروط حمائت کا یقین دلایا گیا۔ایران یا حوثیوں کا نام لئے بغیر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر میزئیل اور ڈرون حملوں کی شدید مذمت کی گئی۔

مشرقی یورپ میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے روس اور یوکرین پر زور دیا گیا کہ وہ  جنگ بند کرکے  اپنے  تنازعات بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اس ضمن میں او آئی سی نے ثالثی کی بھی پیشکش کی۔

مسلم وزرائے خارجہ کو  افغانستان کی صورتحال پر سخت تشویش ہے۔ او آئی سی نے افغانستان کی سالمیت اور خودمختاری کی مکمل حمائت کرتے ہوئے افغان اسٹیٹ بینک کی  منجمد رقوم جلد ز جلد جاری کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ کابل کی مالی مشکات کو دورکیا جاسکے۔

وزرائے خارجہ اجلاس میں بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ  شریک  نہیں ہوئے اور انکی نمائندگی نائب وزیرخارجہ نے کی۔ ایران سے وزارت خارجہ کے ترجمان تشریف لائے جبکہ افغانستان کی نمائندگی انکی وزرات خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے۔  

حالیہ او آئی سی کانفرنس کی سب سے اہم بات چینی وزیرخارجہ وانگ یی کی شرکت تھی جنھیں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیاگیا۔ جناب وانگ یی نے دعوت پر حد درجہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے میزبان یعنی پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو 'بھائیجان' کہہ کر مخاطب کیا۔  

انھوں نے کہا ’کشمیر پر ہم نے آج ایک بار پھر اپنے بہت سے اسلامی دوستوں کے مطالبات سنے ہیں, جنکی چین مکمل حمائت کرتا ہے۔‘ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شری ارندم باغچی نے اس بیان کا نوٹس لیتے ہوئے  کہا  ’ہم او آئی سی کے افتتاحی اجلاس میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی طرف سے بھارت کے حوالے کو مسترد کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ‘جموں و کشمیر سے متعلق تمام امور، بھارت کے اندرونی معاملات ہیں۔ جس پر چین سمیت دیگر ممالک کے پاس تبصرے کا کوئی جواز نہیں ۔

کشمیر کے معاملے پر چینی وزیرخارجہ کے بیان اور اس پر ہندوستان کا شدید ردعمل اس وقت سامنے آیا جسکے دوسرے ہی دن جانب وانگ یی کو دہلی پہچنا تھا۔ لداخ میں گزشتہ برس چین اور بھارت کے درمیان خوفناک تصادم کے بعد کسی چینی رہنما کا یہ پہلا دورہ بھارت تھا۔ وانک یی 25 مارچ کو کھٹمنڈو جاتے ہوئے کابل سے دہلی پہنچے تھے جہاں انھوں  نے اپنے ہم منصب ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال سے ملاقات کی۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مرکزی ایجنڈا شدید معاشی پابندیوں میں جکڑے روس کی مدد تھا۔ بیجنگ اور دہلی دونوں کا خیال ہے کہ پابندیوں سے امن کے امکانات روشن ہونے کے بجائے روس کے اشتعال میں اضافہ ہورہاہے ۔اسی کیساتھ جناب وانگ نے چین بھارت تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ہندوستان نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بات چیت کے آغاز کو لداخ سے چینی فوجی کی واپسی سے مشروط کردیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم اپریل 2022

ہفت روزہ دعوت یکم اپریل 2022

روزنامہ امت کراچی یکم اپریل 2022

ہفت روزہ  رہبر سرینگر 3 اپریل 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment