Sunday, March 6, 2022

جھوٹے لوگ ، جھوٹے وعدے

جھوٹے لوگ ، جھوٹے وعدے

امن مذاکرات کیساتھ روس اور یوکرین کے مابین خونریز لڑائی جاری ہے۔ پیر 28 فروری کو امن بات چیت کا پہلا مرحلہ ملاقات جاری رکھنے کے عزم کیساتھ ختم ہوگیا۔ جو کچھ مشرقی یورپ میں اسوقت ہورہا ہےاسے جنگ کے بجائے وحشت و درندگی کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بے اماں یوکرینیوں پر آسمان سے آگ و آہن کی بارش ہورہی ہے۔ شہری ٹھکانے، مواصلاتی نظام، اسکول، ہسپتال اور آبنوشی کے ذخائر کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔خون جمادینے والی سردی میں لاکھوں افراد پناہ کیلئے مارے مارے پھررہے ہیں۔ بمباری کی وجہ سے سڑکیں تباہ اورپُل گِرگئے ہیں۔ چیختے سائرن اور طیاروں کی گھن گرج  میں دہشت زدہ بچوں کو سینے سے لگائے خواتین مغرب کی طرف پیدل نکل پڑی ہیں کہ شائد پولینڈ میں پناہ مل جائے۔اقوام متحدہ کے مطابق چھ  لاکھ یوکرینی پولینڈ میں پناہ گزیں ہیں۔ وہ کمزور افراد جو اتنے لمبے سفر  کی قوت و استطاعت نہیں رکھتے، ملک کے اندر ہی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اس قسم کے لوگوں کو IDPکہتی ہے۔

عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ25 فروری  کی صبح تک روس 250 تباہ کن میزائیل داغ چکاہے۔ یوکرینی وزارت صحت کے مطابق حملے کے پہلے 24 گھنٹوں میں 137 یوکرینی شہری ہلاک ہوئے جن میں کئی شیرخوار بچے بھی ہیں۔

روس کے پاس ایک آزادو خودمختار ملک پر حملے اور شہری آبادی کو تاراج و بے گھر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس بدامنی کی بنیادی وجہ، دنیا میں اپنا اقتدارو اختیار مسلط کرنے کی شیطانی خواہش اور دوسری اقوام کے قدرتی وسائل پر قبضے کی ہوس ہے۔ اس مرحلے پر اس تنازعے کے تاریخی پسِ منظر کے حوالے سے چند سطور

سوویت یونین (USSR)کی تحلیل سے پہلے  یورپ کو مشرق و مغرب میں تقسیم کرنے والی نظریاتی سرحد دیوارِ برلن تھی۔ سیاسی جغرافئے کی رو سے اس دیوار کے مشرق میں روس تک کا علاقہ مشرقی یورپ اور اسکا دوسرا رخ مغربی یورپ کہلاتا تھا جو امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے نیٹو (NATO)اتحاد کے رکن ممالک پر مشتمل تھا۔ روس کے مشرقی یورپی اتحادی نیٹو کے انداز میں معاہدہِ وارسا(Warsaw Pact) کے تحت منظم تھے۔ مشرقی بلاک کی سرحدیں سوویت یونین کی ریاستوں بیلورشین سوشلسٹ ریپبلک اور یوکرین سوشلسٹ ریپبلک سے ملتی تھیں۔

افغانستان سے پسپائی کے بعد گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کا آغاز ہوا۔ وسط ایشیا کی سوویت ریاستوں نے آزادی کا اعلان کردیا اور اسی کیساتھ یورپ کی رشین سوشلسٹ ریپبلک، بلارشین سوشلسٹ ریپبلک اور یوکرین سوشلسٹ ریپبلک بھی بالترتیب روس، بلارُس اور یوکرین کے نام سے خودمختار ملک بن گئے۔ سوویت یونین کے خاتمے پر فلسفِہ کمیونزم غیر موثر اور وارسا معاہدہ معدوم ہوگیا اور جلد ہی مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک نہ صرف آزادانہ تجارت کی راہ پر گامزن ہوئے بلکہ حفاظت کیلئے یہ ریاستیں نیٹو کی چھتری تلے آگئیں۔

نطریاتی تبدیلی سے یورپ کا سیاسی جغرافیہ یکسر بدل گیا اور اب نیٹو کی سرحد دیواربرلن سے گیارہ سو کلو میٹر مشرق کی جانب بلارُس اور یوکرین تک آگئی یا یوں کہئے کہ بلارُس اور یوکرین نے روس اور نیٹو کے درمیان حائلی یا Bufferریاستوں کی شکل اختیار کرلی۔

اس نظریاتی تبدیلی سے بحرِ اسود بھی  نیٹو کے 'نرغے´ میں آگیا۔ مغربی اور جنوبی روس کیلئے بحراسود کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس سمندر کے مغربی ساحل پر رومانیہ اور بلغاریہ ہیں تو جنوب میں ترکی۔ بحر اسود کا بڑا حصہ یوکرین سے لگتا ہے اور اسکے مراسم روس سے اس حد تک دوستانہ تھے کہ حفاظت کی تحریری ضمانت پر یوکرین اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے تمام ایٹمی ہتھیار کریملن کے حوالے کرچکا ہے۔ اس ضمن میں بدترین وعدہ خلافی کی تفصیل آگے آئیگی۔

یوکرین اور روس کے تعلقات کافی عرصہ بہتر رہے لیکن روسیوں اور تاتاروں کی صدیوں پرانی چپقلش کیساتھ جزیرہ نمائےکریمیا اور اس سے متصل بحر اسود کی تہوں میں مدفون تیل و گیس کے بھاری ذخائر سے ماسکو کی نیت میں فتور پیدا ہوگیا۔ دس ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل یہ علاقہ بحر اسود اور بحر ازاق سے گھرا ہوا ہے اور تین میل لمبی ایک تنگ سی خشک پٹی اسے یوکرین سے ملاتی  ہے۔

فروری 2014 میں روس نے کریمیا پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں تاتار، قازقستان کی طرف دھکیل دئے گئے۔ جلد ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے کریمیا کو رشین فیڈریشن میں ضم کرلیا گیا۔اسی کے ساتھ روسی خفیہ فوج نے مشرقی یوکرین کےدو اوبلاسٹ (صوبوں) یعنی دونیسک اور لوہانسک میں مقامی حکومتوں کو مفلوج کردیا۔ جلد ہی روس نواز باغیوں نے ان صوبوں کے کچھ علاقوں میں آزاد ریاست قائم کرلی اور یہاں بھی کریمیا کے انداز میں ریفرنڈم کے ذریعے اسکی توثیق کرالی گئی۔ تاہم ان ریاستوں کو روس سمیت کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔دنبس Donbasکے نام سے مشہور یہ زرخیز علاقہ گندم، جو اور مکئی کی پیداوار کیلئے مشہور ہے۔

کریمیا اور دو مشرقی صوبے کھودینے کے بعد یوکرینی قیادت کو احساس ہواکہ مستقبل میں روس کی چیرہ دستیوں سے بچنے کیلئے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہے، چنانچہ نیٹو سے سلام و پیام کاسلسلہ شروع ہوا۔ زرعی اجناس، معدنیات اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کے اعتبار سے یوکرین ایک مالامال ملک ہے یعنی اس طرف ہے گرم خون اور انکو عاشق کی تلاش۔ چنانچہ نیٹو نے یوکرین کی خواہش کا مثبت جواب دیا۔

یہ صوررتحال روس کیلئے ناقابل قبول تھی۔ اس وقت تو یوکرین، روس اور نیٹو کے درمیان حائل ہے لیکن نیٹو کا رکن بن جانے کی صورت میں امریکہ نواز اتحاد، روس کی دہلیز تک آجائیگا۔ صدر پیوٹن نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ کسی صورت نیٹو کو اپنی سرحدوں کے قریب نہیں آنے دینگے۔

اگر دیکھا جائے تو روس کا یہ خدشہ بے بنیاد بھی نہیں۔ اس ضمن میں معروف امریکی سیاستدان اور امریکی سینیٹ کے رکن برنی سینڈرز نے اپنی حکومت کو یاد دلایا کہ سابق صدر کینیڈی نے کیوبا میں روسی میزائیل کی تنصیب کو ناقابل قبول قراردیا تھا اور اس حوالے واشنگٹن کاموقف اتنا غیر لچکدار  تھا کہ 1962 میں  امریکہ اور روس کے مابین خوفناک جوہری جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا ۔ کیوبا تو امریکہ سے 90 میل کے فاصلے پر ہے جبکہ یوکرین کی  سرحدیں روس سے ملی ہوئی ہیں۔

زبانی گولہ باری اور دھمکیوں کے بعد 24 فروری کو روس نے اپنے حملے کا آغاز مشرقی یوکرین سے کیا اور ڈنبس کے دونوں صوبوں پر قبضہ کرکے انھیں آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا۔

یوکرینی تنازعے کا سب سے نمایاں پہلو  جھوٹ و افترا ہے۔ صدر پیوٹن مسلسل کہتے رہے کہ انکا فوج کشی کا کوئی ارادہ نہیں اور سرحد پر عسکری سرگرمیاں فوجی مشقوں کا حصہ ہیں۔حتٰی کہ فوجی کاروائی کے آغاز پر بھی صدر پیوٹن نے اسے جنگ  کے بجائے محدود عسکری کاروائی یا Limited Operationکہا جسکی درخواست بقول انکے، ڈنبس کے لوگوں نے کی تھی۔قوم سے اپنے خطاب میں روسی صدر نے کہا کہ ڈنبس کے لوگوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے نسل کشی کا خطرہ تھا جسکی وجہ سے انھوں اپنے روسی بھائیوں کو مدد کیلئے پکارا۔جلد ہی سار ے یوکرین کو روسی فضائیہ نے اپنے نشانہ رکھ لیا اور بری افواج نے مشرق اور شمال کی جانب سے تیزرفتاری پیشقدمی شروع کردی۔ صدر پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو غیر مسلح اور 'نازی عزائم' سے پاک کرنا انکی عسکری مہم کا حصہ ہے۔

اگلے دن بحر اسود کی سب سے بڑی بندرگاہ اوڈیسا پر روسیوں نے قبضہ کرکے جنوب کی جانب سے بھی آگے بڑھنا شروع کردیا اور روسی بمباروں نے دوسری بندرگاہ خیرسن کو عارضی طور پر ناکارہ کردیا۔ اوڈیسا پر قبضے اور خیرسن کو ناقابل مرمت نقصان پہنچا کر یوکرین کی سمندر تک رسائی مسدود کردی گئی۔

تادمِ تحریر خونریز جنگ جاری ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس جنگ میں کون فاتح  رہیگا اور کس کو شکست کی ذلت برداشت کرنی ہوگی لیکن غیر جانبدار عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ 'ننھی' سے یوکرینی فوج شدید مزاحمت کرہی ہے۔ حملے کے آغاز پر کہا جارہا تھا کہ 25 فروری تک دارالحکومت کیف روسیوں کے قبضے میں آجائیگا لیکن اپنے دارالحکومت پر یوکرینی فوج کی گرفت ہنوز بہت مضبوط ہے۔مذاکرات پر صدر پیوٹن کی آمادگی سے بھی اندازہ ہورہا ہے کہ میدان جنگ کی کامرانیاں انکی توقعات سے کم ہیں۔ اس سے پہلے صدر پیوٹن بات چیت کیلئے ہتھیار ڈالنے پر اصرار کررہے تھے۔ جنگ کے متوقع نتائج اور دنیا پر اسکے اثرات کے بارے میں گفتگو انشاللہ آئندہ نشست میں۔

جنگ کی وجہ سے ایندھن اور اناج کی قیمتوں میں اضافے نے دنیا بھر کے غریبوں کو جس مشکل میں مبتلا کردیاہے اسکا ماتم اپنی جگہ لیکن اس جنگ نے 'مہذب قوتوں' کی وعدہ خلافی اور  اخلاقی دیوالیہ پن کو جس بیرحمی سے بے نقاب کیا ہے اسکا ذکر قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا

جب 1991 میں یوکرین نے آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا اسوقت نہ صرف سوویت دور کی جوہری تنصیبات وہاں موجود تھیں بلکہ بھاری مقدار میں ایٹمی اسلحہ بھی یوکرینی فوج کے ہاتھ لگ گیا۔دنیا کے پانچ بڑوں کو جوہری ہتھیاروں پر سخت تشویش تھی لہٰذا یوکرین پر زور دیا گیا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرکے جوہری ہتھیار سے دستبردار ہوجائے۔ ایسی ہی 'تلقین' قازقستان اور بلارس کو بھی کی گئی جنکے پاس سوویت دور کے جوہری ہتھیار موجود تھے۔ تاہم  تینوں ہی اپنے سلامتی کے خوف سے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے پر تیار نہ تھے۔

ان  ملکو ں کے خدشات دور کرنے کیلئے دفاع اور تعاون کی یورپی تنظیم OSCEکے بینر تلے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں ایک اجلاس ہوا۔ جہاں سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان نے یقین دلایا کہ اگر یوکرین، قازقستان اور بیلارس  اپنے جوہری پروگرام ختم کردیں تو برطانیہ، روس اور امریکہ  انکے تحٖفظ اور سلامتی کے ذمہ دار ہونگے۔ طویل مذاکرات کے بعد 5 دسمبر 1994 کو ضمانتِ تحفط کی ایک یادداشت پر دستخط ہوئے جسے Budapest Memorandum on Security Assuranceکہا جاتا ہے۔ اس چھ نکاتی یادداشت میں برطانیہ، روس اور امریکہ نے بہت صراحت کیساتھ ضمانت دی  کہ اگر قازقستان، یوکرین اور بیلارُس اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے ایٹمی اسلحہ روس کے حوالے کردٰیں تو:

  1. بیلارُس، قازقستان اور یوکرین  کی سلامتی، خودمختاری اور سرحدوں کا مکمل احترام کیا جائیگا
  2. بیلارُس، قازقستان اور یوکرین  کو دھمکی یا انکے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائیگا
  3. بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کے خلاف کسی قسم کی معاشی پابندی نہیں لگائی جائیگی
  4. بیلارُس، قازقستان اور یوکرین  کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کیا جائیگا
  5. اگر یہ ملک دھمکی یا طاقت کا نشانہ بنے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل انکے دفاع کی ذمہ دار ہوگی
  6. اگر اس عہد سے متعلق کبھی کوئی شک یا ابہام پیدا ہوا تو تینوں ضامن مشورے کے بعد ان ملکوں کو اعتماد میں لینگے

اس تحریری معاہدے کے باوجود 2014 میں روس نے کریمیا اور یوکرین کےدو مشرقی صوبوں کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا یعنی ایک ضامن نے خود ہی معاہدے کو ہوا میں اڑادیا اور  دوسرے  ضامنوں سمیت ساری دنیا خاموش رہی۔ اب ایک بار پھر بے اماں یوکرینی روسی بمباری کا نشانہ بن رہے  ہیں۔ اگر یوکرین کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو اسکے عوام اس بے بسی کے عالم میں نہ مارے جاتے۔بھولی یوکرینی قیادت نے 'بھیڑیوں' کو معصوم سمجھنے کی مجرمانہ غلطی کا ارتکاب کیا جسکی قیمت آج ساڑھے چار کروڑ یوکرینی ادا کررہے ہیں۔

اس یادادشت پر روس کے سابق صدر بورس یلسٹن، امریکی صدر بل کلنٹن، اور برطانیہ کے وزیراعظم جان میجر نے دستخط کئے تھے۔ان میں سے بورس یلسٹن آنجہانی ہوچکے  لیکن جان میجر اور بل کلنٹن اب بھی حیات ہیں۔  اپنے دستخطوں  سے جاری ہونے والی ضمانت کی دھجیاں بکھرتی دیکھ کر انھیں ذرا شرم نہ آئی۔

سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکا ن کی جانب سے وعدہ خلافی کی اس سنگین وادات کے بعد دنیا، خاص طور سے ایران اور شمالی کوریا عالمی ادارے کی یقین دہانیوں پر کیسے اعتماد کرسکتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 4مارچ 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 4 مارچ 2022

روزنامہ امت کراچی 4 مارچ 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment