زلزلہ، ترک ماہرین ارضیات
نے سرجوڑ لئے
سازش کا نظریہ دلیل و منطق
سے عاری
کچھ تکنینکی گفتگو
ترکیہ
کی مختلف جامعات کے 13 ماہرین ارضیات اور ارضی طبیعات (Geophysicist)
نے 5 فروری کو آنے والے خوفناک زلزلے کا
تجزیہ شروع کردیا ہے۔ مطالعے کی قیادت استنبول کی جامعہ تیکنیکل علوم(ITU)کررہی ہے۔ ترک سائنسدانوں کی تحقیق و جستجو کی اس مہم پر گفتگو سے پہلے
قارئین کی دلچسپی کیلئےزلزلے کی مبایات پر چند سطور۔ ٰیہاں اس باب میں اپنی علمی
کم مائیگی بلکہ بے مائیگی کا اعتراف ضروری ہے۔ اگلے چند پیراگراف میں آپ جو کچھ پڑھیں
گے وہ دراصل علماے ارضیات کے گرانقدر کام کی خوشہ چینی ہے جسے مخٹلف مقالوں اور
انٹرنیٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔
زمین کی بیرونی سطح جس پر ہم آباد ہیں وہ سِلوں یا slabs پر مشتمل ہے جنھیں ارضیات کی اصطلاح میں ساختمانی پرتیں یاTectonic Plates کہا جاتاہے۔ یہ سلیں یا پلیٹیں حرکت
کرتی رہتی ہیں، تاہم متصل پلیٹیں اتنے مربوط انداز میں ہِلتی ہیں کہ ہمیں اسکااندازہ ہی نہیں ہوتا ، جیسے
زمین، سورج کے گرد 1670 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہی ہے
لیکن ہمیں اس حرکت کا احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ طلوع آفتاب، دوپہر کو ڈھلنے اوررات
کے چھاجانے کی شکل میں ہم اجرام ہائے فلکی کی حرکت کو ہرروز مشاہدہ کرتے ہیں۔
زمین
کی سِلیں حرکت کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی بھی ہیں اور پرتوں کی ناہموا ٹکّر سے
ہمیں وقتاً فوقتاً ہلکے پھلکے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔ ٰجو آبادیاں بڑی پلیٹوں کے
وسط پر ہیں انھیں یہ ٹکراو تصاد م اور رگڑ
کا احساس نہیں ہوتا ،لیکن کنارے پر آباد لوگ چھوٹے موٹے جھٹکے محسوس کرتے رہتے ہیں۔
بعض اوقات
پلیٹیں آمنے سامنے آکر ایک دوسرے کا راستہ
روک لیتی ہیں یا یوں کہئے کہ جنگلی بھینسوں کی طرح سینگ پھنسالیتی ہیں۔شائد اسی
بنیاد پر قدیم یونانیوں خیال تھا کہ زمین کو بھینسا دیوتا نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا
رکھا ہےاور جب دیوتا جی تھک جاتے ہیں تو
بوجھ دوسرے سینگ پر رکھ لیا جاتا ہے۔ سینگ کی تبدیلی زلزلے کا سبب بنتی ہے۔
ماہرین
ارضیات کا خٰیال ہے کہ پلیٹوں کے ایک دوسرے کے سامنے آجانے سے حرکت رُک جاتی ہے
لیکن پشت سے آنے والا دھکابرقرار رہتا ہے۔
دباو بڑھ جائے پر چٹانوں کی شکست و ریخت شروع ہوتی ہے۔ اگر دباو دونوں جانب سے برقرار
رہے تو بیچ کا حصہ اوپر اٹھ کر پہاڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مثال طور پر اگر آپ
ایک موٹےکاغذ کو ہموار سطح پر رکھ اپنے ہاتھ کاغذ کے کناروں پر رکھ کر اسے دونوں جانب سے آگے بڑھانے
کی کوشش کریں تو کاغذ بیچ سے اوپر (fold) اٹھ جائیگا۔ارضیاتی ساخت میں اس نوعیت کی تبدیلی عام طور سے بہت آہستہ ہوتی ہے جس میں لاکھوں
پر بلکہ بعض اوقات کروڑوں سال لگتے ہیں۔
اگر دباو
برداشت سے بڑھ جائے تو دونوں پلیٹیں پھسل کرایک
دوسرے کے راستے سے ہٹنے لگتی ہیں۔ انشقاق
کے اس عمل کو ارضیات کی اصطلاح میں ruptureکہتے ہیں۔ دونوں پلیٹیں جس مقام پر آمنے سامنے
ملی ہوتی ہیں اسے ماہرین ارضیات نے خطِ دراڑ یا faut lineکا نام
دیا ہے۔ انشقاق کے نتیجے میں پلیٹیں اوپر
نیچے یعنی عمودی اور دائیں بائیں دونوں سمت پھسل
سکتی ہیں۔ پلیٹوں کے پھسلنے سے سطح زمین پر ارتعاش محسوس ہوتا ہے جو درحقیقت زلزلے
کے پہلا جھٹکا ہے۔ ان پلیٹوں کی صرف ایک سینٹی میٹر حرکت خوفناک زلزلے جا سبب بنتی
ہے۔
نقطہ انشقاق
دراصل زلزلے کا مقام یا Hypocenter ہے جسے بعض ماہرین Focal Point یا Focusبھی کہتے ہیں۔ اسکے
عین اوپر سطحِ زمین کا مقام Epicenter
کہلاتا ہیے۔ پلیٹوں کے کھسکنے سے جھٹکے کے
ساتھ وہ توانائی بھی خارج ہوتی ہے جو دونوں
پلیٹوں کی حرکٹ رک جانے کے باوجود پیچھے سے
آنے والے دھکے کے نتیجے میں جمع ہورہی تھی۔اسے
یوں سمجھئے کہ آپ نے گاڑی کے بریک پر سختی
سے پاوں رکھا ہوا ہے۔ پیچھے سے کئی تنو مند نوجوان گاڑی کو دھکا لگارہے ہیں اور
اگر آپ اچانک بریک سے پاوں ہٹالیں تو کیا ہوگا؟ کچھ ایسا ہی انشقاق کے نتیجے میں
ہوتا ہے۔ اس توانائی سے پیداہونے تھرتھراہٹ (Vibrations) زلزلے کے مقام سے سینکڑوں میل دور تک کی زمیں کو
ہلاکر رکھ دیتی ہے۔ پہلے جھٹکے کے بعد یہ توانائی رفتہ رفتہ خارج ہوتی رہتی ہے جو
رادفات یا after shocksکا سبب
ہے۔
زلزلے
کی شدت کو ناپنے کے دوپیمانے ہیں۔ ایک اسکی شدت یا Magnitudeکیلئے جسے
Richter Scaleکہتے ہیں کہ اسے فرانسیسی سائینسدان Charles Richterنے 1935 میں ترتیب دیا تھا۔ زلزلہ پیما یا Seismographپر
ارتعاش کی شدت کو 1 سے9 پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک سے دو شدت کے زلزلے انسانوں کو
محسوس نہیں ہوتے۔ چار سے پانچ کو ہلکے زلزلے کا نام دیا گیا ہے۔ پانچ سے چھ کسی حد
تک سنجیدہ یا moderate سمجھا جاتا ہے۔ چھ سے
7 شدت کے زلزلے شدید اور آٹھ کو بڑا جھٹکا کہا جاتا ہے جبکہ آٹھ سے زیادہ شدت خوفناک
سمجھی جاتی ہے۔
جیسا
کہ ہم نے عرض کیا انشقاق کے نتیجے میں پلیٹوں کے سرکنے سے جہاں جھٹکا محسوس ہوتا
ہے وہیں زبردست Seismicتوانائی
بھی خارج ہوتی ہے، توانائی کی لہریں زلزلے کے نقطہ
آغاز یا Hypocenter سےچہار جانب ارتعاش پیدا کردیتی ہیں۔
توانائی کی شدت یا Intensityناپنے کیلئے اطالوی ماہر طبعیاتی ارضیات Mercalliنے 1902 میں ایک
پیمانہ تجویز کیاجو Scale Mercalli کہلاتا ہے۔ یہ اسکیل 1 سے12 درجات پر مشتمل ہے۔ ایک سے چار معمولی، پانچ
کسی حد تک خطرناک، 6 سے 8 تک سخت اور اسکے بعد اوپر خوفناک سمجھا جاتا ہے ۔
اب آتے
ہیں 6 فروری کے زلزلے کی طرف
امریکی
مساحت ارضی USGSکے مطابق، اس زلزلے کا مرکز غازیان تب شہر سے 32.4کلومیٹر شمال مغرب میں سطح زمین سے 17.9کلومیٹر نیچے اور زلزلے کی شدت 7.8تھی۔ توانائی کی شدت کے اعتبار سے اسے Mercalliکے پیمانے پر ایک سے 12
کے معیار پر یہ 11 تھا۔ بر صغیر کے لوگوں نے اس
نوعیت کے زلزلے کامشاہدہ 18 برس پہلے کیا تھا جب 8 اکتوبر 2005 کو سارا
کشمیر، اسلام آباد اور خیبر پختونخواہ کا بڑا حصہ لرز اٹھا
تھا۔ کشمیر میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.6 اور اسکا مرکز سطح زمین سے 15 کلومیٹر نیچے تھا۔
ترکیہ
کے جس علاقے میں زلزلہ آیا وہ افریقی،
عرب اور اناطولیہ پلیٹوں کے نقطہ اتصال یا Junctionکے پڑوس میں واقع ہے، چنانچہ وہاں پلیٹوں کی
ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ عام ہے اور وقفے وقفے سے جھٹکے محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ ابتدائی
تحقیقات کے مطابق انشقاق کا عمل مشرقی اناطولیہ دراڑ (Fault
line) سے شروع ہوا اور ترک ماہرین کا خیال میں پلیٹوں کی پھسلنے سے کچھ دوسری دراڑیں بھی سرگرم
ہوگئیں۔ زلزلے کے بعد ترک سائیسدانوں نے دراڑ کے 15 کلومیٹر حصے کا جائزہ (mapping)لیا اور انکا خیال ہے کہ مجموعی طور پر پلیٹیں
پانچ مقامات پر انشقاق یا Ruptureکا شکار ہوئیں۔ امریکی مساحت ارضی کا کہنا ہے
کہ بیک وقت دوزلزلے آئے۔ پہلے شمال مشرق اور جنوب مغرب کی جانب پلیٹوں کے سرکنے سے زمین لرز اٹھی جبکہ مشرق سے مغرب کی جانب انشقاق
نے دوسرے جھٹکے کو جنم دیا۔ ترک ماہرین تین زلزلوں کی بات کررہے ہیں لیکن ارضیات کے دوسرے علما کے خیال میں یہ نیا زلزلہ نہیں بلکہ ایک مضبوط رادفہ یا After Shockتھا۔
دنیا
بھر کے ماہرینِ ارضیات ترکوں کے اس تحقیقاتی مطالعے کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔
اسکے نتیجے میں زلزلے کی پیشن کوئی کا کوئی نظام مرتب ہوجانے کا تو کوئی امکان
نہیں لیکن پلیٹوں کی حرکت ، انشقاق اور خط دراڑ کے تجزئے سے شائد ان علاقوں کی
نشاندہی ممکن ہوجائے جہاں شدید زلزلے کے امکانات بہت واضح ہیں۔
یہاں ایک
نظریہ سارش کا ذکر بھی شائد قارئین کی دلچسپی کاباعث ہو۔ امریکی فوج نے جامعہ
الاسکا کے تعاون سے بلند فضا اور گہرے پانیوں
میں ریڈیو کمیونیکیشن کو موثر بنانے کیلئے
High-frequency Active Auroral Research Program یا HAARPکے عنوان سے ایک منصووبہ
شروع کیاہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس مقصد کیلئے آواز کی لہروں پر قابو پانے کی
جو تیکنیک وضع کی کئی ہے اسے زیرزمین
ارتعاش پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان لہروں کے ذریعے بادلوں کی حرکت
بھی متاثر کی جاسکتی ہے، گویا چچا سام، موسم کو بطور ہتھیار استعمال کرنے یا Weaponizing Weatherکی
شیطانی خواہش رکھتے ہیں۔ مستقبل میں شائد HAARPکے ذریعے زلزلہ لانا یا بادلوں کا رخ موڑنا ممکن ہوجائے لیکن فی الوقت یہ ٹیکنالوجی
اس مقام پر نہیں پہنچی، چنانچہ ہمیں نظریہ
سازش منطق و دلیل سے محروم
اور بے بنیاد نظر آتا ہے۔
حوالہ جات:
Dorling
Kindersley, What Causes an Earthquake? (Internet Article)
روزنامہ صباح ترکیہ