کیاامریکہ بہادر دیوالیہ ہوسکتے ہیں؟؟؟
دنیا کے سب سے امیر اور بزعم خود طاقتور ترین ملک پر لدے قرض کا بوجھ
31 کھرب 40 ارب ڈالر (31.4Trillion) سے تجاوز کرچکا ہے۔ اسکے مقابلے میں امریکہ کی
مجموعی قومی پیداوار 26 کھرب 86 ارب کے قریب ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں ختم ہونے والے مالی سال 2022کے
دوران ، ٹیکسو ں اور دوسرے محصولات کی مد میں چچاسام کو 4
کھرب 90 ارب ڈالرکی آمدنی ہوئی لیکن سرکاری اخراجات کا تخمینہ 6 کھرب 27 ارب ڈالر
تھا، یعنی صرف ایک سال کے دوران بائیڈن انتظامیہ نے ایک کھرب 37 ارب ٖڈالر کے نئے
قرضے لئے۔ گزشتہ برس قرض پر 475 ارب ڈالر سود
اداکیا گیا۔
امریکہ اس حال کو ایک دن میں نہیں پہنچا۔ اسکے حکمرانوں کی کشورکشائی
اور ہر جگہ اپنی مرضی مسلط کرنے کی شیطانی خواہش نے سپر پاور کو دنیا کی سب سے
مقروض قوم بنا دیا ہے لیکن بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مصداق امریکہ
اپنی عادتیں بدلنے کو تیار نہیں اور ہر سال ڈیڑھ کھرب ڈالر کے اضافی قرضے لئے جارہے
ہیں۔۔ سود کی ادایئگی کیلئے "اسٹینڈ
بائی لون" کے عنوان سے جو قرض لیا
جاتا ہے اسکا سب سے بڑا فراہم کنندہ چین ہے۔ لیکن آئی ایم ایف یا وورلڈ بینک سےنقدی
لینے کے بجائے بھاری شرح سود پر سرکاری تمسکات
(Bonds and Treasury Note)فروخت کئے جاتے ہیں۔ان تمسکات کے سب سے بڑے خریدار چین،
جاپان، جنوبی کوریا اور خلیجی ممالک ہیں۔
حکومتی اخراجات کو ایک حد میں رکھنے کی غرض سے امریکی
کانگریس (پارلیمان) نے1917 میں وفاقی حکومت کے لئےقرضے کی حد مقرر کی۔ یہ پہلی جنگ
عظیم کازمانہ تھا اور امریکی حکومت اپنے جنگی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے بے تحاشہ
قرض لے رہی تھی۔ اسوقت ڈیموکریٹک پارٹی کے ووڈرو ولسن امریکہ کے صدر تھے اور
کانگریس کے دونوں ایوانوں میں انکی پارٹی کو برتری حاصل تھی لیکن پارٹی وفاداریوں
سے بالا تر ہوکر امریکی قانون سازوں سے قرض پر پابندی لگائی اور اسکی زیادہ سے
زیادہ حد ساڑھے دس ارب ڈالر مقرر کردی جو مجموعی قومی پیداوار کا دس فیصد تھی۔ صدر
ولسن اس پر بہت تلملائے اور انھوں نے قرارداد ویٹو کردینے کی دھمکی دی لیکن امریکی
کانگریس ڈٹی رہی اور یہ قانون بن گیا کہ واشنگٹن ایک حد سے زیادہ قرض نہیں لے سکتا۔
جنگ کے فوراً بعدامریکہ بدترین کساد بازاری کا شکار ہوا اور
حکومتی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کانگریس نے قرضے کی حد بڑھادی۔ضرورت کے مطابق
قرض کی حد بڑھتی رہی حتیٰ کہ دسمبر 2021 میں
یہ 31 کھرب 40 ارب ہوگئی۔ گزشتہ
برس کے اختتام پر وزیرخزانہ محترمہ جینٹ یلین نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئےکہا امریکہ
پر چڑھاقرض اپنی حدوں کے قریب ہے جبکہ جاری اخراجات آمدنی سے بہت زیادہ ہیں لہٰذا
قرض کی حد بڑھادی جائے اور اس سال 19 جنوری کو قرضوں کا حجم اس حد کو پار کرگیا۔
مالیاتی اداروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے واجب الادا بلوں کی
ادائیگی روکدی ہے، ظاہر ہے کہ یہ ادائیگی غیر معینہ مدت تک نہیں روکی جاسکتی۔ مالیاتی اصطلاح میںیکم جون X Dateہے یعنی اگر اس تاریخ تک ادائیگی نہ کی گئی تو قرقی کی نوبت
آسکتی ہے۔
قرقی کا یہ مطلب نہیں
کہ قرض خواہ سرکاری اثاثہ جات پر قبضہ شرو ع کردینگے۔لیکن اگر یکم جون تک اگرامریکی کانگریس نے قرض کی حد میں اضافے کی
منظوری نہ دی تو حکومت مفلوج ہوجائیگی۔ سرکاری
ملازمین کو تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگی رک جائیگی۔جبکہ سوشل سیکیورٹی (پینشن)
کی ادائیگی بھی منقطع ہوسکتی ہے جس سے لاکھوں ریٹائرڈ معمر شہری متاثر ہونگے۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام چلنے والی جامعات میں
درس و تدریس کا سلسلہ معطل ہو جایئگا۔سرکاری کتب خانے ، پارک اور میوزیم مقفل اور
دنیا بھر میں پھیلے امریکی سفارت خانوں کو تالہ لگادیا جائیگا۔ دلچسپ بات کہ صدر و
نائب صدر، اعلیٰ عدالتوں کے جج، ارکان کانگریس اور فوجی جرنیلوں کی تنخواہیں
برقرار رہینگی، اسی طرح محکمہ ڈاک و تار،
سرکاری ہسپتال اور لازمی خدمات سے وابستہ
افراد کو خصوصی فنڈ سے ادائیگی جاری رہیگی۔
یکم مئی کو وزیرخزانہ نے اپنے ایک سرکاری مراسلے میں بتایا
کہ یکم جون سے حکومت قرضوں چڑھے سود کی واجب الاداقسطیں ادا کرنے سے قاصر
ہوجائیگی۔ اسکا مطلب ہوا کہ امریکی حکومت کے تمسکات پر سود کی ماہانہ ادائیگی روک دی
جائیگی۔ مالیاتی ساکھ کی درجہ بندی کرنے والے ادارے موڈیز کا کہنا ہے کہ اگر ایسا
ہوا تو امریکی حکومت کی ساکھ میں ایک درجے
کی کٹوتی ہوسکتی ہے ۔
قارئین یہ سطور پڑھ کر امریکہ کے بارے میں فکر مند ہوگئے
ہونگے لیکن ڈاکٹر یلن صاحبہ نے اپنےملک کی جو خوفناک تصویر کشی کی ہے اس سے حزب اختلاف بالکل بھی متاثر نہیں۔۔ قائد حزب اختلاف اور کانگریس
کے اسپیکر کیون میکارتھی کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی لبرل معاشی پالیسیوں سے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار سے تجاوز کرچکا ہے
اور ملکی معیشت عملاً دیوالیہ ہے۔ریپبلکن پارٹی کا موقف ہے کہ مزید قرضے لینے کے بجائے امریکی حکومت کو اپنے
اخراجات میں کمی کرنی چاھئے۔
انتظامیہ کیلئے مشکل یہ کہ قومی آمدنی کا 60 فیصد معمرلوگو
ں کی پینشن (سوشل سیکیورٹی) اور انکے صحت
کے اخراجات یعنیMedicaid Medicare & پر خرچ ہوتاہے۔
یہ وہ اخراجات ہیں جنکی ادائیگی لازمی ہے، صوابدیدی اخراجات کیلئے بجٹ کا 30 فیصد مختص ہے جسکابڑاحصہ دفاع کی نذر ہوجاتا ہے۔باقی
رہا دس فیصد تو اس سے قرضوں پر چڑھنے والے سودکی ادائیگی ہوتی ہے۔ اب بیچارے صدر
بائیڈن کھائیں کہاں کی چوٹ، بچائیں کدھر کی
چوٹ؟
خرچ کے باب میں صرف
دفاع ہی وہ مد ہے جس پر چھری پھیری جاسکتی ہے اسلئے کہ باقی تو لازمی اخراجات ہیں۔
لیکن دفاع یہاں ایسی مقدس گائے ہے کہ اسکے خرچ میں کٹوتی کے بارے میں سوچنا بھی بدترین
سیاسی پاپ ہے۔ ٹیکس میں اضافے پر ریپبلکن تیار نہیں۔ بدقسمتی سے تیسری دنیا کی طرح
امریکہ میں بھی ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے۔ ایک تقریر میں صدر بائیڈن
نے انکشاف کیا کہ 2021 میں امریکہ کی 55 کارپوریشنوں کا مجموعی منافع 40 ارب ڈالر
تھا لیکن ان میں سے کسی ادارے نے ایک پائی ٹیکس ادا نہیں کیا۔کرونا وبا کے دوران 2
کروڑ امریکی بیروزگار ہوگئے لیکن اسی عرصے میں ملک کے 650 امیر ترین افراد کی دولت
میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ان لوگوں کی مجموعی دولت کا حجم اب 4 ہزار
ارب ڈالر ہے۔
امریکہ سے باہر یہ تاثر ہے کہ اس دیس میں دودھ شہد کی نہریں
بہہ رہی ہیں اور انصاف و مساوات کا یہ
عالم کہ یہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ
میں پانی پیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے بڑے شہروں میں پُلوں کے نیچے شیرخواار بچوں سمیت 5 لاکھ افراد خیمہ زن ہیں۔ خون جمادینے والی سردی اور چلچلاتی کرمی میں انکے لئے سرچھپانے کا کوئی بندوبست نہیں۔ یہاں
سے گزرنے والے مخیر لوگوں کے چندوں سے انکی گزراوقات ہوتی ہے۔،
سرکاری اعدادوشمار ے مطابق پانچ کروڑ چالیس
لاکھ امریکی اِن معنوں میں بھوک کا شکار ہیں کہ انکے لئے فراہمیِ خوراک کا بندو بست
مشکوک ہے۔ تین کرؤر چالیس لاکھ افراد ایسے ہیں جنھیں تین وقت پیٹ بھر کے کھانا
میسر نہیں۔ ان میں ایک کروڑ تعداد ان بچوں کی ہے جنکے والدین و سرہرست مانگ تانگ
کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ ہر پانچ
میں سے ایک سیاہ فام اور مقامی یعنی Native
American المعروف ریڈ
انڈین ؑغذائی عدم تحفظ کا شکار یے۔ اس تناظر
میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اخراجات میں
کمی کیلئے سماجی بہبود اور سوشل سیکیورٹی کے پروگرام میں کٹوتی سے غربت کا سیلاب بے قابو ہوسکتا ے۔
جیسا کہ ہم اس اسے پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں، امریکہ
میں کامیاب سیاست کیئے گہری جیب ضروری ہے۔ کانگریس کی ایک نشست پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ صدارتی انتخابی
مہم اربوں کا کھیل ہے۔ یہ رقم کارپویشنیں عطیات کی شکل میں فراہم کرتی ہیں جو درحقیقت
مفادات کی سرمایہ کاری ہے۔ عطیہ دینے والے، منتخب ارکان سے اپنی مرضی کی قانون سازی کرواتے
ہیں۔
ایک مباحثے کے دوران جب صدارتی امیدوار محترمہ ہلیری کلنٹن نے اپنے حریف ڈانلڈ ٹرمپ پر پھبتی کسی کہ یہ وہ ارب پتی ہے جس نے گزشتہ سال کوئی ٹیکس ادا
نہیں کیا تو جناب ٹرمپ بہت ڈھٹائی سے بولے
کہ میں تو کبھی سینیٹر یا رکنِ کانگریس
نہیں رہا۔ آپ سینیٹر تھیں اور آپ نے جو قوانین
بنائے اس میں دی گئی چھوٹ سے میں نے فائدہ اٹھایا ہے۔
اس وقت معاملہ یہ ہے کہ صدر بائیڈن کی جانب سے ٹیکسوں میں
اضافے کی تجویز ریپبلکن کیلئے ناقابل قبول ہے، دفاعی اخراجات میں کمی کا سوال ہی
پیدا نہیں ہوتا اورسوشل سیکیورٹی اخراجات میں کٹوتی حکومت کیلئے سیاسی خودکشی ہوگی۔
کانگریس کے ایوان زیریں میں ریبلکن کو برتری حاصل ہے توایوان میں صدر بائیڈن کی
ڈیموکریٹک پارٹی اکثریت میں ہے۔
جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے ہے x-dateکا سنگ میل صرف 9 دن دور ہے اور طویل مذاکرات کے کئی دور
مکمل ہوجانے کے باوجود اس معاملے پر اتفاق پیدا نہیں ہوا۔فریقین کو معاملے کی نزاکت
کا احساس ہے اور صدر بائیڈن جو آجکل G-7 اور معاہدہ اربع یا Quadچوٹی اجلاسوں میں
شرکت کیلئے جاپان گئے ہوئے ہیں، واشنگٹن سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
اگر یکم جون تک حکومت
اور حزب اختلاف کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہوا تو امریکی حکومت نادہندہ ہوجائیگی کہ
وہ ان اخراجات کی ادائیگی نہیں کرپائی جن اشیا اور خدمات سے واشنگٹں مستفید ہوچکا ہے۔ تصور کیجئے کہ
خدانخواستہ اگر آپ گھر کی بجلی اور گیس کا بل ادانہ کر پائیں تو کیا ہوگا، کچھ
ایسا ہی حال چچا سام کا ہوجائیگا۔ یہاں لاکھوں خاندانوں کا انحصار سوشل سیکیورٹی الاونس، صحت کیلئے
میڈی کیئر اور خوراک و رہائش کے لیے دیے جانے والے مفت کوپن پر ہے۔اسی طرح گورنمنٹ
اسکولوں میں ضرورت مند بچوں کے لیے مفت ناشتہ اور کھانا سرکاری اعانت سے فراہم کیا
جاتا ہے۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں یہ تمام سہولتیں معطل ہوجائینگی۔ اسی کیساتھ شہری
ہوابازی کے محکمے میں تالہ بندی سے پروازوں کا نظام دربرہم ہوسکتا ہے۔ ماہرین خطرہ ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت
کے نادہندہ ہونے کی صورت میں جہاں لاکھوں
سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی متاثر ہوگی، وہیں 80 لاکھ سے زیادہ افراد روزگار سے محروم ہوجائینگے۔
اگر ریپبلکن پارٹی کے
قدامت پسند اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو صدر بائیڈن کی زنبیلِ حکمت میں کیا کچھ موجود
ہے؟
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ایک فرمان یا آرڈنینس کے ذریعے قرض
کی حد کو اسوقت تک کیلئے معطل کرسکتے ہیں جب تک کانگریس نئی حد کا بل منظور نہیں
کرلیتی۔ اس صورت میں قرض کی حد عملاً ختم ہوجائیگی اور حکومت اپنی ضرورت بھر نیا قرض
لے سکے گی۔
دوسری صورت امریکی دستور کی 14 ویں ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کو حاصل
اختیارات کا استعمال ہے۔ جولائی
1868 سے نافذ اس ترمیم کا بنیادی مقصد شہریوں کے حقوق کا تحفط، قوانین کے یکساں اطلاق
اور حصولِ شہریت کے ضابطوں کو شفاف بنانا تھا اسی لئے یہ ترمیم Equal Protection Actکے نام سے مشہور ہے یعنی تمام شہریوں کیلئے قانون کا اطلاق
یکساں طریقے پر ہوگا۔ اسی ترمیم میں قومی قرض یا National Debtکو
ریاست کی ذمہ داری قراردیتے ہوئے قرض خواہوں کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ریاست قر
ض واپس کرنے کی پابند ہے۔ترمیم کی ایک شِق میں کہا گیا ہے کہ 'مجاز عوامی قرض کی قانونی حیثیت پر
سوال نہیں اٹھایا جائے گا نہ ادائیگی کی حد مقر ر کی جائیگی'
قانونی ماہرین کے خیال میں یہ الفاظ مبہم ہیں اور بادی
النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت قرض کی پوری
رقم معاہدے کے مطابق غیر مشروط طور پر واپس کرنے کی پابند ہے اور واپسی کی کو ئی حد
مقرر نہیں کی جا سکتی، لیکن حکومت کے مشیر
شِق کی تشریح کچھ اسطرح کررہے ہیں کہ وفاقی قرض کی حد و حیثیت پر کوئی سوال نہیں کیا
جاسکتا۔ کسی آئینی شق یا ضاطبے کے غیر مروجہ
و غیر معمولی استعمال کو امریکہ کی سیاسی
اصطلاح میں نیوکلئیر آپشن کہا جاتا ہے۔ بائیڈن مخالفین 'جوہری حملے' کی طرف سے غافل
نہیں اور وہ اسکے مقابلے کیلئے عدالت عظمیٰ جانے کو تیار نظر آرہے ہیں۔ نو رکنی امریکی سپریم کورٹ کے چھ جج سیاسی اعتبار سے قدامت پسندی کی طرف مائل ہیں
اسلئے چودھویں آئینی ترمیم کے استعمال پر حکم امتناعی خارج از امکان نہیں۔
علمائے سیاست اور اقتصادیات کے پنڈتوں کا خیال ہے کہ نادہندگی، لبرل امریکی حکومت اور قدامت پسند حزب
اختلاف دونوں کی سیاسی موت ہے۔ بیان بازی
اور لن ترانی اپنی جگہ لیکن X-dateکے آخری گھٹے کے 59 ویں منٹ پر قرض کی حد بڑھادی جائیگی۔ یعنی ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل
کراچی 26 مئی 2023
ہفت روزہ دعوت دہلی 26 مئی
2023
روزنامہ امت کراچی 26 مئی
2023
ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 مئی
2023
روزنامہ قومی صحافت لکھنو