Tuesday, January 30, 2024

افغان تیل پیداوار میں اضافہ

 

افغان تیل پیداوار میں اضافہ

افغانستان میں تیل کی پیداوار 14ہزار بیرل یومیہ بڑھ گئی۔ گزشتہ سال جنوری میں چین کی سنکیانگ سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی (CAPEIC) سے شمالی افغانستان کے دریائے آمو میدان (Amu Darya Basin)میں کُھدے ہوئےکنووں سے بذریعہ صیانہ (workover) پیداوار کی بحالی اور چند نئے کنویں کھودنے کا معاہدہ کیا گیا۔

یہ محض ٹھیکہ نہ تھا بلکہ افغان حکومت نے CAPEIC سے مل کر Afg-China Oil and Gas Ltd کے نام سے ایک ادارہ قائم کرلیا۔ مشارکے نے 11 مہینے کی ریکارڈ مدت میں 54 کروڑ ڈالر خرچ کرکے 24 کنووں سے 14000 ہزار بیرل یومیہ پیدوار بحال کرلی۔

ابتدائی سرمایہ کاری کی 49 فیصد رقم چینی کمپنی نے فراہم کی ہے جبکہ انسانی قوت اور نقدی کی شکل میں باقی سرمایہ کاری افغان وزارت معدنیات کی ہے۔ اس منصوبے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر ماہرین ارضیات و طبعی ارضیات و مہندسین افغانی ہیں۔

احباب کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ افغان تیل صنعت کی زبان روسی ہے کہ قبضے کے دوران روس نے افغان تیل صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ افغان مساحت ارضی (Geological Survey)کی تمام رپورٹ، حساب و یادداشت (Log)وغیرہ روسی زبان میں ہیں۔ جامعہ کابل کے شعبہ ارضیات میں دوسرے مضامیں کے ساتھ روسی زبان بھی پڑھائی جاتی ہے۔ CPEIC کےزیادہ تر ماہرین روسی زبان بولنے والے ویغور ہیں۔

افغانستان کو 50 ہزار بیرل تیل یومیہ کی ضرورت ہے جبکہ حالیہ اضافے سے مقامی پیداوار کا حجم 15000 بیرل روزانہ ہوگیا ہے۔ خیال ہے کہ تیل میں خود انحصاری کا ہدف 2025 تک حاصل کرلیا جائیگا

آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔




Thursday, January 25, 2024

 

تاریخی ظلم و جبر، بے مثال صبر و  استقامت، مبہم اشارے اور  تھکن کے آثار

اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوق (Isaac Herzog) نے ڈیووس کے  عالمی اقتصادی فورم میں صاف صاف کہدیا کہ اسرائیل  فی الحال امن بات چیت کے موڈ میں  نہیں ۔ قیدیوں کی رہائی اور حماس کے خاتمے سے پہلے جنگ بندی کی بات بھی نہ کی جائے ۔ دوسرے روز صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے مبہم انداز میں کہا کہ  سعودی عرب و اسرائیل کے سفارتی تعلقات غزہ جنگ کی خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسرائیلی صدر کی گفتگو سے پہلے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کہہ چکے تھے کہ انکا ملک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا خواہشمند تو ہے لیکن  ہمارے مراسم فلسطینیوں کے حقوق سےمشروط ہیں اور آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے بعد ہی ریاض، تل ابیب سے سفارتی تعلقات قائم کریگا

اس سے پہلے اسرائیلی ارکان پارلیمان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نیتھں یاہو  المعروف بی بی نے کہا کہ غزہ کی جنگ جلدختم ہونے والی نہیں۔ یہ مہینہ دو مہینہ نہیں بلکہ بہت طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ ہمیں ایسے “وحشیوں” کا سامنا ہے جنھیں خود اپنی جان کی پرواہ نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بی بی یہاں تک کہہ گئے کہ جنگ 2025 اور اسکے بعد تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔

عام لوگوں کیساتھ صحافی، اساٹذہ، طبی عملہ، شعرا اور فنکار اسرائیلیوں کا خصوصی ہدف ہیں۔ چندروز پہلے  مشہور  خطاط، مصورہ اور شاعرہ برّہ بنت ابو محسن کو ڈرون نے نشانہ بنایا۔ حملے میں 31 سالہ برّہ  اور انکی والدہ جاں بحق ہوگئیں۔ برّہ کی  ننھی بیٹی کا اپنی خالہ کے سوا اب دنیا میں کوئی پرسان حال نہیں۔اسی شام غزہ کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ اسریٰ کو اسرائیلی بمباروں نے ریت کا ڈھیر بنادیا۔ ویڈیو پر یہ منظر دیکھ کر  صدر بائیڈں بہت 'دکھی' ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے بلاثبوت دعویٰ کیا کہ جامعہ کو حماس  فوجی اڈے کے طور پر استعمال کررہی تھی۔ اس 'وضاحت' پر امریکی صدر کا دکھ ختم اور ضمیر مطمئن  ہوگیا۔

خرچ کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے قیمتی  جنگ ہے  جس پر دسمبر تک اسرائیل،  60 ارب ڈالر پھونک چکا ہے ۔ہلاک شدگان کی صحیح تعداد کے بارے میں درست اعدادوشمار کا حصول بہت مشکل ہے کہ اسرائیل کی جانب سے لڑنے والے فوجیوں کی بڑی تعداد افریقی، دروز اور شامی نژاد گولانی پناہ گزینوں پر مشتمل ہے جبکہ ساری دنیا سے اسرائیل کے حامی جنگجو  بھی غزہ کا رخ کررہے ہیں۔ غیر اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت سرکاری اعدادوشمار کا حصہ نہیں۔ فلسطین کے صحافتی ذرایع اسرائیلی ہلاکتوں کو ہزاروں میں بیان کررہے ہیں۔ جنگ میں زخمی ہونے والوں میں سے اکثر کا معاملہ بہت خراب ہے اور بہت سوں کے اعضا کاٹے جارہے ہیں۔  عبرانی روزنامہ یدیعوت اخرنت (Yedioth Ahronoth) کا کہنا ہے کہ غزہ پر حملے کے آغاز سے 3 جنوری تک بارہ ہزار اسرائیلی سپاہی اپاہج ہوچکے ہیں ۔اخبار کے مطابق یہ ایک بہت محتاط تخمینہ ہے اسلئے کہ زخمی ہونے والے فوجیوں کی جانب سے معذوری کی درخواستوں کا حجم 20 ہزار سے تجاوز کرچکاہے۔وزیراعظم نیتھن یاہو کے داماد کیپٹن پیری آئرن بھی معذوروں میں شامل ہیں۔ کپتان صاحب کی ایک ٹانگ غزہ رہ گئی۔فوج کے بحالی مراکز (Rehabilitation Centers) میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 60ہزار ہے۔

اسرائیلی فوج کی کُل تعداد، محفوط یا reserveدستے ملاکر 6لاکھ 46 ہزار ہے۔ان میں سے 12 ہزار کے اپاہج ہونے کا مطلب ہوا کہ 1.86 فیصد فوج اب لڑنے کے قابل نہیں۔ تین ماہ کی وحشیانہ بمباری سے جہاں غزہ کے ایک فیصد شہری اپنی جان سے ہاتھ دوبیٹھے وہیں اہل غزہ کی پرعزم مزاحمت نے اسرائیلی کی دو فیصد فوج ٹھکانے لگادی۔ جسمانی معذوری کے ساتھ غزہ سے واپس آنے والے فوجی نفسیاتی ، دماغی اور اعصابی امراض میں بھی مبتلا ہورہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک فوجی نے اپنی خاتون دوست کے جسم میں سرکاری رایفل سے 24  گولیاں اتاردیں۔  

یہی وجہ ہے کہ غزہ میں ڈیوٹی کا دورانیہ کم کیا جارہا ہے۔ غزہ سے پانچ ڈویژن فوج واپس بلانے کی خبر ہم اس سے پہلے ایک نشست میں دے چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے فوج کے ترجمان نائب امیرالبحر ڈینئیل ہجاری نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حماس کی عسکری صلاحیت کو تباہ و برباد کردینے کا ہدف حاصل کرلیا گیا ہے لہٰذا اب طاقت کے 'بہت زیادہ' استعمال کی ضرورت نہیں۔ فوجی ترجمان نے  کہا کہ  36ویں ڈویژن کو 'تربیت اور آرام' کیلئے شمالی غزہ سے واپس بلالیا گیا ہے۔ دو پیادہ اور دو بکتر بند بریگیڈ پر مشتمل یہ ڈویژن غاش یا 'جلال' کے نام سے مشہور ہے۔ غاش ڈویژن کی واپسی پر اسرائیل کے جنگجو عناصر سخت مشتعل ہیں۔ دائیں بازو کے رہنما اور حکمراں اتحاد کی عزمِ یہود پارٹی کے سربراہ اتامر بن گوئر نے فیصلے پر شدید تنقئد کرترے ہوئے کہا کہ 'دشمن کے مضبوط ٹھکانوں سے اسرائیلی فوج کا انخلا ایک سنگین اور خطرناک غلطی ہے جس سے انسانی جانوں کا نقصان ہوگا۔ غیر جانبدار تجزیہ نگار اس لن ترانی کو دل کے بہلانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ یعنی اب اسرائیلی سپاہ میں تھکن کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔

اسرائیلی توقعات کے برخلاف وقت گزرنے کے ساتھ اہل غزہ کی عسکری استعداد بہتر ہوتی جارہی ہے۔ خان یونس اور شمالی غزہ میں اسرائیل کا مایہ ناز مرکاوا ٹینک ناکام ہوچکا ہے۔ مزاحمت کاروں نے  376 ٹینک تباہ یا ناکارہ کردئے ہیں جو کُل اسرائیلی ٹینکوں کے 40 فیصد کے قریب ہے۔ ناکارہ ہوجانے والے ٹینک اسرائیل کیلئے عذاب بنے ہوئے ہیں کہ انھیں اگر وہیں چھوڑدیا جائے تو بچے ان پر چڑھ کر تصویریں کھچوائینگے جبکہ واپس لانے کیئے انھیں بھاری ٹرک بھیجنے پڑتے ہیں جسے مزاحمت کار اپنی غول رائفل اور یاسین راکٹ سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسرائیلی ہلاکتوں کا بڑا حصہ ناکارہ ٹینک ڈھونے والے عملے پر مشتمل ہے جو یومیہ اجرت کے پناہ گزین مزدور ہیں۔

مشکلات، نقصانات اور ہلاکتوں کے باوجود جنگ بندی سے دوٹوک انکار کی بنیادی وجہ اسرائیلی اتحادیوں کی غیر مشروط یعنی 'لاممنوعہ و لا مقطوعہ' حمائت و مدد ہے۔ نقصان سے بچنے کیئلے پیادہ فوج کا ایک حصہ پیچھے ہٹاکر گولہ باری تیز اور ہلاکت خیز کردی گئی ہے۔ اسرائیلی ٹینک اب اس شدت سے گولے برسارہے ہیں کہ امریکہ سے آنے والی 14000 گولے فی ماہ کمک کافی نہیں اور اضافی ضرورت پوری کرنے کیلئے جرمنی نے 120 ملی میٹر کے دس ہزار گولے اسرائیل بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ گولوں کی تیاری میں وقت لگے گا جبکہ اسرائیل کی ضرورت ہنگامی نوعیت کی ہے اسلئے جرمن فوج کے پاس موجود گولوں کے ذخیرے سے پہلی کھیپ فوری طور پر روانہ کی جارہی ہے

مالی مدد اور اسلحے کے انبار کیساتھ اسرائیل کیلئےسیاسی  و سفارتی حمائت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ غزہ میں انسانی جانوں کے زیاں پر 'تشویش' کا اظہار تو ہے لیکن جنگ بندی کی مخالفت میں امریکہ اور یورپ اسرائیل ہی کی زبان بول رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے جرمن وزیرخارجہ جنگ بندی کی حمائت کرتے ہوئے بولیں کہ 'اگر حماس ہتھیار ڈالدے تو جنگ آج ہی بند ہوسکتی ہے۔ اسی تجویز کو یورپی یونین نے دہرایا اور 18 جنوری کو یورپی پارلیمان کی قرارداد میں  اسرائیل کی مکمل  حمائت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ غزہ میں زیرحراست تمام افراد کی رہائی اور حماس کے مکمل خاتمے کے بعد ہی جنگ بند ہوگی۔ یہ تحریک 131 کے مقابلے میں 312ووٹوں سے منظور کرلی گئی  جبکہ  72ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

جہاں امریکہ اور یورپ کی غیر مشروط و مسلسل حمائت، وزیراعظم نیتھن یاہو المعروف بی بی کیئئے تقویت کا باعث ہے ہیں وہیں داخلی محاذ پر دباو بڑھتا جارہا ہے۔ کچھ دن پہلے اسرائیلی خفیہ ایجنسی شین بیت (Shen Bet)کے سابق سربراہ عمی ایالن  (Ami Ayalon) نے کہا تھا کہ فوجی آپریشن کے ذریعے اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی ممکن  نہیں۔ غذائی قلت اور وبائی  امراض کے تناظر میں اسرائیلی قیدیوں کی فوری وطن واپسی ضروری ہے۔ جناب ایالن کا ٓخیال ہے کہ اسرائیلی جیلو ں میں بند تمام کے تمام افراد کی  آزادی کے عوض اپنے قیدیوں کی رہائی نقصان کا سودا نہیں۔ جنگی کابینہ کے رکن اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل گادی آئزنکوٹ (Gadi Eisenkot) نے اسرائیلی ٹیلی ویژن کی عبرانی چینل 13 پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کو چھڑانے کیلئے فوجی آپریشن ہمارے زیرحراست افراد کے حق میں موت کا پیغام ثابت ہوگا۔ فوجی قوت کے ذریعے جتنا دباو ڈالا جاسکتا تھا ڈال دیا گیا۔ یہ حکمت عملی ناکام ہوچکی اور اب سفارتکاری کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔ جنگ کے دوران جنرل صاحب کو ایک جوان بیٹا شمالی غزہ میں ہلاک ہوچکا ہپے۔

معاملہ صرف سابق جرنیلوں تک محدود نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے دعوی کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے چار کمانڈروں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر اخبار کے نمائندے سے کہا کہ عسکری قوت کے زور پر قیدیوں کی بازیابی آسان نہیں۔ یہ صرف سفارتی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ 100دن بعد بھی اسرائیلی فوج غزہ پر کنٹرول میں ناکام رہی ہے۔ حماس کےخاتمے اور قیدیوں کے رہائی کے اہداف کو ایک ساتھ حاصل کرنا نا ممکن حد تک  مشکل ہے

محاذِ جنگ سے تابوتوں اور زخمیوں کی آمد کے ساتھ سفید چھڑیاں لئے نابینا نوجوان، بیساکھیوں پر گھسٹتے  اور وھیل چئیر پر بیٹھے کڑیل جوان  چوکوں اور چوراہوں پر نظر آرہے ہیں۔ یہودیوں کے ہاں ماتم و گریہ زاری ایک مذہبی رسم ہے۔ہلاک شدگان اور غزہ میں زیرحراست قیدیوں کے یاد تازہ رکھنے اور انکی یاد  میں آنسو بہانے کیلئے کئی جگہ یادگاریں قائم کردی گئی ہیں  جنھیں  دیوار گریہ کے حوالے سے ماتم کدے یا Kotel کہا جاتا ہے۔ ان مقامات پر ننھے  یتیم بچے گود میں لئے جوان  بیواوں اور ضعیف والدین کی آہ وبکا کے مناظر عام ہیں۔

بی بی اور انکے انتہا پسند رفقا ابھی تک 'وحشی حماس کو کچل دو ' کے نعرے لگارہے ہیں۔ سرکاری میڈیا قومی ترانے اور فوجی دھنیں بجا کر جنگی ماحول بنائے ہوئے ہے، لیکن جگہ جگہ قائم  یادگاروں اور ماتم کدوں سے ابھرتے بین نے ماحول کو سوگوار کردیا ہے۔ غزہ میں قید افراد کے لواحقین کی جانب سے رہائی کیلئے بات چیت کے مطالبے میں شدت آگئی ہے۔ سینکڑوں متاثرہ خاندان بی بی کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر خیمہ زن ہیں۔ ٓ

اس حوالے سے  اسرائیل کی آن لائن خبر رساں ایجنسی Tazpit Press Service یا TPSنے 18 جنوری کو انکشاف کیا کہ قائد حزب اختلاف یئیر لیپڈ (Yair Lapid)نے وزیراعظم نیتھن یاہو کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد اسپیکر کے پاس جمع کرادی ہے۔حکومت پر عائد کی جانیوالی فردجرم  میں جناب لیپڈ نے کہا کہ ایک دن پہلے اکثریت کے بل پر منظور کئے جانیوالے  ساڑھے 14 ارب کے بجٹ میں فوج کیلئے ڈھائی ارب ڈالر رکھے گئے ہیں جسکا بڑا حصہ مارے جانے والے فوجیوں کے اہل خانہ اور معذور ہونے والوں کی بحالی پر خرچ کیا جائیگا۔ قائد حزب اختلاف نے الزام لگایا بقیہ رقم ان منصوبوں پر خرچ کی جارہی ہے جس سے حکمراں اتحاد کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ اپنے بیان میں جناب لیپڈ نے وزرا کی آپس کی چپقلش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف ہمارے بچے اور بچیاں مارے جارہے ہیں تو دوسری جانب ہنگامی حالات میں بھی وزرا اپنے ذاتی ایجنڈے کے حصول میں مصروف ہیں چنانچہ اس ٹولے کا حکومت میں رہنا ملکی مفاد میں نہیں۔ ٹی پی ایس کے مطابق حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے بھی عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کا اعلان کیا ہے۔

گفتگو ختم کرنے سے ایک شرمناک بلکہ ڈھٹائی پر مبنی مکالمہ پیش خدمت ہے۔ یہ گفتگو ڈیووس اقتصادی فورم میں ہزاروں  ماہرین کے  سامنے ہوئی

نیویارک ٹائمز کے کالم نگار ٹامس فریڈمین: غزہ جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں میں ناقابل یقین عدم مساوات کے پیش نظر میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہودیوں کی زندگیاں،  فلسطینیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کی زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں؟

امریکی وزیرخارجہ: ہر گز نہیں۔ میرے لئے اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لئے، جو کچھ غزہ میں ہورہا پے، وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ معصوم خواتین اور بچوں کی تکلیف دیکھ کر میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن  کیا کیا جائے؟

تم نیا زخم لگاو تمہیں اس سے کیا ہے

بھرنےوالے ہیں ابھی زخم پرانے کتنے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 جنوری 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 جنوری 2024

روزنامہ امت کراچی 26 جنوری 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 جنوری 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Friday, January 19, 2024

بنگلہ دیش کے یکطرفہ انتخابات۔ غاصبانہ قبضے کا تیسرا دور

 

بنگلہ دیش کے یکطرفہ انتخابات۔ غاصبانہ قبضے کا تیسرا دور

سات جنوری کو ہونے والے بنگلہ دیش کے انتخابات ہئیت و ترکیب کے اعتبار سے گزشتہ تین چناو کی طرح رہے۔ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے ہندوستان نواز عناصر کے ہتھکنڈے حتمی ہدف کے حوالے سے تو تینوں بار ایک سے تھے لیکن حکمتِ عملی اور طریقہ وارادت میں وقت و حالات کی مناسبت سے ترمیم و پُرکاری ہر بار مختلف و متنوع تھی۔ بنگلہ دیش کی سیاست اپنے قیام کے وقت سےہندوستان کے گرد گھوم رہی ہے ۔جب مئی 2014 میں شری اجیت دوال  وزیراعظم نریندرا کے  مشیر قومی سلامتی مقرر ہوئے تو یہ تعلق مزید گہرا اور کثیر جہت ہوگیا۔ جناب دوال اس سے پہلے خفیہ ایجنسی IB  کے سربراہ تھے، انھوں  نے پیشہ ورانہ زندگی کا بڑا حصہ خفیہ پولیس میں گزارا ہے۔ وہ بطور جاسوس سات سال پاکستان میں رہ چکے ہیں اور اس دوران انھوں نے جماعت اسلامی کی سیاست، عوام میں پزیرائی اورجماعتی حکمت عملی کا گہرا مطالعہ کیا۔

جناب دوال نے ذمہ داری سنبھالتے ہی بنگلہ دیش امور کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔ بنگلہ دیشی معاشرے سے اسلامی اقدار اور نظریائی وابستگی کی مکمل بیخ کنی دوال Doctrine کی بنیاد ہے۔فوج کی نگرانی کے ساتھ شہری انتظامیہ پر گرفت کا یہ عالم کہ تھانوں میں SHOکی تقرری سے پہلے اسکی جناب دوال سے توثیق ضروری ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی میں ہندوستان نے کلیدی کردار ادا کیا لیکن عام بنگلہ دیشی ہندوستان اور ہندوتوا کے بارے میں سنجیدہ تحفظات رکھتا ہے۔ اس شک و عدم اعتمادکے ٖڈانڈے قیام پاکستان کے وقت ہونے والی خونریزی خاص طور سے 16اگست 1946 کے کلکتہ ہنگامے اور اسکے دو ماہ بعد پھوٹ پڑنے والے نواکھالی فسادات سے ملتے ہیں۔ عدم اعتماد اور اسکے نتیجے میں پیداہونے والی نفرت کا زہر اب تک اثر دکھارہا ہے۔

بنگلہ دیش کے قیام کے فوراً بعد سیکیولر انتہاپسندوں نے 'غداروں' کو ٹھکانے لگانے کا مطالبہ کیا جس پر حسینہ واجد کے والد صدر شیخ مجیب الرحمٰن مرحوم نے بہت سے سیاسی کارکنوں اور فوجیوں پر پاکستانی فوج سے تعاون کے مقدمات بنائے لیکن اس فہرست میں جماعت اسلامی یا مسلم لیگ کا کوئی معروف رہنما شامل نہیں تھا۔ سانحہ ستمبر (9/11)کے بعد جب ساری دنیا میں اسلام پسندوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا تو حسینہ واجد نے اس فضا کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے غداروں کو پھانسی چڑھاو تحریک کا آغاز کیا۔ 2008 کی انتخابی مہم کے دوران محترمہ نے "جنگ آزادی" کی مخالفت کرنے والے "غداروں" کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ دوسری طرف سیکیولر عناصر نے انتخابی میدان میں جماعت اسلامی کو تنہا کرنے کی مہم شروع کردی۔انتخابات سے صرف چند ہفتہ پہلے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP)نے اتحاد میں جماعت کیلئے مختص کوٹے کو دودرجن سے کم کرکے دو کردیا اور عملاً جماعت اتحاد سے الگ ہوگئی۔ زہریلی مہم کے باوجود، جماعت اسلامی 33 لاکھ ووٹ لے کر اتحاد میں دوسرے نمبر پر رہی لیکن 300 کے ایوان میں اسے صرف دونشستیں مل سکیں۔ اس سے پہلے ہونے والے انتخابات میں جماعت نے 24 لاکھ ووٹوں کے عوض 17 نشستیں جیتی تھیں۔

اس اندرونی سیاست کا جماعت کو جو نقصان پہنچا وہ اپنی جگہ لیکن خود بی این پی پارلیمانی اعتبار سے دیوالیہ ہوگئی کہ 2 کروڑ 28 لاکھ ووٹ لینے کے باوجود اسکی جھولی میں صرف 30 نشستیں آئیں۔گزشتہ انتخابات میں 2 کروڑ 31 لاکھ ووٹ لے کر بی این پی نے 193 نشستیں جیتی تھیں۔ جماعت اوربی این پی کے درمیان رخنے اور تنازعے کا عوامی لیگ کو زبردست فائدہ ہوا اور اس نے 230 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ حسینہ واجد کے اتحادی حسین محمد ارشاد کی جاتیہ پارٹی نے 27 نشتیٰں جیت کر اتحادکے پارلیمانی  حجم کو 257 پر پہنچادیا جو ایوان کے 85 فیصد سے زیادہ تھا یا یوں کہئے کہ پارلیمان حسینہ واجد کیلئے rubber stampبن گئی۔ غیر ملکی مبصرین کے مطابق انتخابات میں بڑے پیمانے پر ٹھپے بازی کی شکایات آئیں، تاہم اچھی بات ووٹ ڈالنے کا تناسب تھا کہ 87 فیصد سے زیادہ رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہندگی استعمال کیا۔

اقتدار سنبھالتے ہی حسینہ واجد نے 'پھانسی مہم' کا آغاز کیا اور سول عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے بجائے سزا دلوانے کیلئے آئین میں ترمیم کرکے انٹڑنیشنل کرائمز ٹریبیونل قائم کردئے۔ دلچسپ بات کہ ٹریبیونل کی تشکیل سے پہلے ہی سابق امیر جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم، امیر جماعت مطیع الرحمان نظامی، عبدالقادر ملا،نائب امیر دلاور حسین سعیدی، اسسٹنٹ سکریٹری جنرل قمرالزماں، علی احسن مجاہدکے علاوہ مسلم لیگی رہنما اور بی این پی کے سابق وزیرصلاح الدین قادر چوہدری سمیت حزب اختلاف کے سینکڑوں رہنماوں کے پروانہ گرفتاری جاری کردئے گئے ۔

انسانی حقوق کی تنظیموں HRW ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ یورپی یونین، عالمی اداروں اور دیگر ممالک نے ٹرییبیول کے طریقہ کار کو غیر شفاف قراردیا۔ لیکن ہندوستان کی بھرپور حمائت کی بنا پر حسینہ واجد جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو پھانسی گھاٹ بھیج دینے میں کامیاب ہوگئیں۔ اسی کیساتھ 2009 میں عدالت نے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا کہ جماعت اسلامی ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کا عزم رکھتی ہے جسکی عدلیہ نے تشریح کچھ اس طرح کی کہJI Charter puts God above democratic Process، جو ملکی آئین سے متصادم لہٰذا کیوں نے الیکشن کمیشن میں جماعت کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے۔ جماعت اسلامی نے اس نوٹس کا کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ جماعت کے انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی۔ جماعت اسلامی کو کچلنے کے ساتھ بی این پی کے پر کُترنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلی گئیں۔

ان پیش بندیوں کے بعد 2014 کی انتخابی مہم شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی کے ایک قائد عبدالقادر مولا کو پھانسی ہوچکی تھی جبکہ باقی جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ خالدہ ضیا پہلے سے گرفتار تھیں۔ دسمبر 2013 کے آغاز میں بی این پی، جماعت اسلامی اور حزب اختلاف کے لاکھوں کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ جماعت کی طلبہ تنظیم اسلامی چھاترو شبر پر خاص مہربانی تھی جسکے درجنوں کارکنوں کو قتل اور لاپتہ کردیا گیا۔ پانچ جنوری 2014 کو اس شان سے انتخابات ہوئے کہ عوامی لیگ اور اسکی اتحادی جاتیا پارٹی کے سوا کوئی بھی میدان میں نہ تھا۔ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 40 فیصد سے کم رہااور268 نشستوں کیساتھ حسینہ واجد اور انکی اتحادی جاتیا پارٹی نے تین چوتھائی اکثریت برقرار رکھی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے ان انتخابات کو غیر شفاف قراد دیتے ہوئے اسکے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو جمہوری تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے ایک بیان میں اسکے لئے lacked legitimacyکا لفظ استعمال کیا

جماعتی قائدین کے گلوں میں پھندے، تنظیم کے گرد آئینی زنجیر اور حزب اختلاف کے کارکنوں سے جیلیں بھردینے کے بعد حسینہ واجد کے اقتدار کو کوئی خطرہ باقی نہ رہا چنانچہ دوسری مدت میں حسینہ واجد کا ہدف ابلاغ عامہ خاص طور سے سوشل میڈیا رہا۔ حلف اٹھاتے ہی قانوں سازی کا آغاز ہوا اور Digital Security Act یا DSAمنظور کرلیا گیا۔ جسکا بنیادی مقصد فیس بک ، ٹویٹر، انسٹاگرام اور یو ٹیوب وغیرہ پر قدغنیں لگانا تھا۔ اجیت دوال کے تصنیف کردہ اس قانون میں 1971 کی 'تحریک آزادی' کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ قانون کے تحت ہر وہ تحریر، لطیفہ یا اشارہ غیر قانونی ہےجس سے ' جنگ آزادی، 'بنگلہ بندھو'، قومی ترانے یا پرچم کی بے توقیری کا اظہار ہوتا ہو۔اسکے علاوہ ایسی تحریر بھی قابل گرفت ہے جس سے معاشرے میں 'بے چینی ' جنم لے۔ ڈی ایس اے کی خلاف ورزی پر 14 سال قید ہوسکتی ہے۔اس قانون پر بہت سختی سے عمل ہورہا ہے اور سینکڑوں سرکش بلاگرز عقوبت کدوں کی زینت ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک 53 سالہ بلاگر مشتاق احمد بدنامِ زمانہ قاسم پور جیل میں تشدد کی تاب نہ لاکر چل بسے۔

قانون سازی کے دوران شوشہ اٹھا کہ بے نامی سم (SIM)، سیٹلائٹ فون اورمواصلات کے جدیدنظام نے موبائل فون تک حکومت کی رسائی کو غیر یقینی کردیاہے۔اس کمزوری کے علاج کیلئے حکومت نے Digitalسراغرسانی کی ایک اسرائیلی کمپنی Cellebriteسے الیکٹرانک نقب زنی (hacking)کا نظام خریداہے جسے Universal Forensic Extraction Deviceیا UFEDکہتے ہیں۔ان مشینووں سے ہزاروں مربع میل رقبے میں موجود موبائل فون پر ہونے والی گفتگو،SMSاورفون میں موجود Dataاس صفائی سے اڑایا جاسکتاہے کہ صارف کو خبر تک نہیں ہوتی۔ترجمے کا بھی ایک جامع نظام موجود ہے اور دنیا کی 150 زبانوں کا ایکدوسرے میں ترجمہ براہ راست ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی فون کے کیمرے سے صارف کی تصویر بھی لے لی جاتی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

انھیں اقدامات کے دوران 2018 کے انتخابات کا وقت آگیا۔ انتخابی مہم کے آغاز پر عدالت نے فیصلہ سنایا کہ چونکہ خالدہ ضیا کو مالیاتی بد عنوانی کے الزام میں سزا ہوچکی ہے لہذا وہ انتخاب لڑنے کی اہل نہیں ہیں۔ اسکے باوجود حزب اختلاف نے انتخابی مہم شروع کردی۔عدالتی پابندی کی بنا پر جماعت اسلامی کیلئے اپنے نشان پر انتخاب لڑنا ممکن نہ تھا اسلئے جماعت کے نمائندوں کو بی این پی کے ٹکٹ جاری کئے گئے۔ مہم شروع ہوتے ہی پکڑ دھکڑ، کارکنو ں کا اغوا اور بوری بند لاشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور آخر کار حزب اختلاف میدان سے ہٹ گئی۔ اس بار حکومت نے ووٹ ڈالنے کا 'خصوصی اہتمام' کیا اور الیکشن کمیشن کے مطا بق 80 فیصد سے زیادہ افراد نے رائے دہی کا حق استعمال کیا۔ ان انتخابات میں پہلی بار ووٹنگ مشینیں استعمال ہوئیں اور بی بی سی ایک نمائندے نے شہادت دی کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر مخصوص لوگ سارا دن مشینوں سے 'کھیلتے ' نظر آئے۔ اس یکطرفہ مشق میں حکمران اتحاد نے 300 میں سے 283 نشستیں جیت لیں۔

جب 2024 کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا تو حزب اختلاف نے مہم کے بجائے ہڑتال کا سلسلہ شروع کردیا۔ ا نکا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن نہیں اسلئے ضروری ہے ایک غیر جانبدار عبوری حکومت قائم کی جائے۔ لیکن حکومت نے دباومیں آنے سے انکار کردیا اور حزب اختلاف انتخابی میدان سے باہر چلی گئی ۔ آزاد امیدوار بھی کنارے بیٹھ گئے اور اکثر نشستوں پر صرف عوامی لیک یا انکی حلیف جاتیہ پارٹی کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے۔ حالات کو بھانپ کر حکومت نے لالچ و دباو کے ذریعے خودساختہ جماعتوں اور نام نہاد یا ڈمی آزاد امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروادئے اور پھر انھیں انتخابی چلانے کیلئے بھی مجبور کیا گیا۔

عالمی مبصرین انتخابات سے پہلے ہی اسکے انتظامات پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکے تھے۔ برطانوی وزارت خارجہ، شعبہ دولت مشترکہ و ترقیاتی امور نے اپنے بیان میں کہا 'شفاف انتخابات قابل اعتماد، کھلے اور منصفانہ مسابقت پر منحصر ہیں۔ انسانی حقوق کا احترام، قانون کی حکمرانی اور مناسب عمل جمہوری عمل کے لازمی عناصر ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران (بنگلہ دیش میں) ان معیارات کی پاسداری نہیں کی گئی ۔ ہمیں پولنگ کے دن سے پہلے حزب اختلاف کے ارکان کی بڑی تعداد میں گرفتاریوں پر تشویش ہے'

امریکی وزرات خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا امریکہ اور دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ (بنگلہ دیش کے) انتخابات آزادانہ یا منصفانہ نہیں تھے اور تمام جماعتوں نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ جناب ملر کا کہنا تھا کہ امریکہ کو حزب اختلاف کے ہزاروں سیاسی ارکان کی گرفتاریوں اور انتخابات کے دن بے ضابطگیوں کی اطلاعات پر تشویش ہے۔

انتخابی نتائج کے مطابق عوامی لیگ اور انکی اتحادی جاتیا پارٹی نے 268 نشستیں جیت لیں۔ اس بار ووٹ ڈالنے کے تناسب کے بارے میں بھی ایک لطیفہ ہوا کہ نتائج کے اعلان کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر جناب قاضی حبیب الاول نے کہا کہ 27 فیصد بنگلہ دیشیو ں نے ووٹ ڈالے لیکن ساتھ بیٹھے الیکش کمشنر محمد عالمگیر کی سرگوشی پر انھوں نے ووٹ ڈالنے کا تناسب 40 فیصد کردیا۔انتخابات اس حد تک یکطرفہ تھے کہ وزیراعظم حسینہ وااجد نے گوپال گنج 3 کی نشست پر 249965 ووٹ لئے اور انکے قریب ترین حریف بنگلہ دیش سپریم پارٹی کے نظام الدین لسکار، کو صرف 469ووٹ ملے۔

پندرہ سال سے اقتدار پر قابض حسینہ واجد کو اجیت دوال صاحب مزید پانچ سال کیلئے مسلط رکھنے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن اس سے سترہ کروڑ بنگلہ دیشیوں میں مایوسی بلکہ غیر ملکی قبضے کا جو احساس پیدا ہورہاہے وہ خود ہندوستان کے حق میں بہتر نہیں۔ نصف صدی پہلے اسی احساس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا تھا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 جونری 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی، 19 جنوری 2024

روزنامہ امت کراچی 19 جنوری 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 جنوری 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Sunday, January 14, 2024

مستکبرین کا دو فیصد حصہ اپاہج ہوگیا

 

مستکبرین کا دو فیصد حصہ اپاہج ہوگیا

اسرائیلی روزنامے یدیعوت اخرنت (جدید خبریں  ) یا  Breaking Newsکے مطابق غزہ پر حملے کے آغاز سے 3 جنوری تک 12000 زخمی اسرائیلی سپاہی اپاہج ہوچکے ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ ایک بہت محتاط تخمینہ ہے اسلئے کہ زخمی ہونے والے فوجیوں کی جانب سے معذوری کی درخواستوں کا حجم 20 ہزار سے تجاوز کرچکاہے۔وزیراعظم نیتھن یاہو کے داماد کیپٹن پیری آئرن بھی معذوروں میں شامل ہیں۔ کپتان صاحب کی ایک ٹانگ غزہ رہ گئی۔

فوج کے بحالی مراکز (Rehabilitation Centers) میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 60ہزار ہے جن میں سے 3400 سات اکتوبر کے بعد رجسٹر کئے گئے۔

اسرائیلی فوج کے سرکاری اعلان کے مطابق دسمبر کے اختتام تک جو 3000 فوجی زخمی ہوئے ان میں سے 2300 اپاہج ہوگئے یعنی زخمیوں کے معذور ہوجانے کا تناسب 77 فیصد ہے

معذوری کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کے طبی ماہرین کو متاثر فوجیوں کے نفسیاتی مریض بن جانے کا خطرہ بھی ہے۔

غزہ ہمیشہ سے اسرائیلی فوجیوں کیلئے خوف و دہشت کی علامت بنارہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مشہور واقعہ 2021 میں پیش آیا جب طعنوں سے عاجز آکر ایک معذور اسرائیلی سپاہی اسحاق سیدیان نے فوج کے بحالی مرکز کے سامنے خود کو آگ لگالی۔ اسحاق 2014 کے غزہ حملے میں معذور ہوگیا تھا۔

اسرائیلی فوج کی کُل تعداد، محفوط یا reserveدستے ملاکر 6لاکھ 46 ہزار ہے۔ ان میں سے 12 ہزار کے اپاہج ہونے کا مطلب ہے کہ 1.86 فیصد فوج اب لڑنے کے قابل نہیں۔ تین ماہ کی وحشیانہ بمباری سے جہاں غزہ کے ایک فیصد شہری اپنی جان سے ہاتھ دوبیٹھے وہیں اہل غزہ کی پرعزم مزاحمت نے اسرائیلی کی دو فیصد فوج ٹھکانے لگادی

نوٹ: مذکورہ اسرائیلی اخبار کی انگریزی ہجے Yediot Ahronothہے۔ عبرانی زبان کا یہ جریدہ 1939 سے شایع ہورہا ہے اور اسکی اشاعت 3 لاکھ کے قریب ہے۔ Y-Net کے نام سے اس ادارے کا ایک ٹیلی ویژن چینل بھی ہے۔ نظریاتی اعتبار یہ اخبار قدامت پسند و قوم پرست سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے یہ پوسٹ اس رپورٹ کے انگریزی ترجمے سے کشیدکی کی ہے جو آن لائن رسالے Middle East Eyeمیں شایع ہوئی


Thursday, January 11, 2024

مسلسل بمباری کا چوتھا مہینہ

 

   مسلسل بمباری کا  چوتھا مہینہ

غزہ پر مسلط وحشت کے 100 دن مکمل ہونے کو ہیں۔ انسانی تاریخ میں اتنی طویل دورانئے کی بمباری کی کوئی اور مثال موجود نہیں۔ مہذب دنیا میں جنگ کے بھی کچھ اصول ہیں لیکن غزہ حملہ دراصل بے گناہ انسانوں  کا قتل عام اور معصوم بچوں کا ذبیحہ ہے۔

دوہفتہ قبل  اسرائیلی وزیر اعظم نے  بے گناہ شہریوں اور بچوں کے قتل عام کو انتہائی ڈھٹائی سے ناگزیر یا Collateral  نقصان قرار دیا اور  دوسری جنگ عظیم کے ایک وحشیانہ واقعہ کو بطور مثال پیش کیا تھا اور اب  شبِ عید میلادِ  مسیحؑ (Christmas Eve)کو  غزہ کے مغزی  پناہ گزین  کیمپ پر وحشیانہ حملے کامزید بیرحمانہ جواز تراشا گیا۔  24 دسمبر کی شب یہاں مسیحی خواتین عبادت میں مصروف تھیں کہ  اسرائیلی طیارے سے برسنے والے فاسفوس بم نے خیمے کو آگ کے گولے میں تبدیل کردیا۔ سفید فاسفورس  اور فضامیں موجود آکسیجن کے ملاپ سے بھڑکنے والے شعلے کی حدت 1500 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ نتیجے کے طور تمام عبادت گزار پلک جھپکتے کوئلہ بن گئیں۔ جب مسیحی مذہبی تنظیموں نے احتجاج کیا تو 'تحقیقات' کے بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا “غلطی سے زیادہ طاقتور بم پھینک دئے گئے  اور  فاسفورس بھڑک اٹھنے سے کھچا کھچ بھرا خیمہ راکھ بن گیا'

مساجد، گرجاگھروں، اسکولوں اور مفاد عامہ کی عمارتوں کیساتھ صحافی غزہ میں اسرائیلی فوج کا خصوصی ہدف ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ  الجزیرہ کو حد سے گزرا 'دریدہ دہن' سمجھتے ہیں۔ چنانچہ حملے کے آغاز پرہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نےقطری وزیر اعظم کو  حکم دیا کہ الجزیرہ کے بیانات کو دھیما(tone down) کیا جائے۔ دھمکی کارگر نہ ہونے کی بناپر  اسرائیل نے  دریدہ دہنوں  کی  بدن دریدگی شروع  کردی۔

الجزیرہ کے بیوروچیف وائل  ہمدان دحدوح  اسرائیلی فوج کا بنیادی ہدف ہیں۔ اکتوبر  میں انکی اہلیہ، 15 سالہ بیٹا، 7 سالہ بیٹی اور شیر خوار نواسے سمیت خاندان کے تیس افراد شہید کردئے گئے ۔ پندرہ دسمبر کو ایک اور حملے میں وائل زخمی اور انکے فوٹوگرافر سامر ابودقہ جاں بحق ہوگئے۔ اتوار  7 جنوری کی صبح جناب  وائل کو پھر نشانہ بنایا گیا اور اس بار انکے جوانسال صحافی صاحبزادے حمزہ شہید ہوگئے۔

اللہ نے وائل کو آہنی اعصاب سے نوازا ہے اور موصوف بہت کم عمری حراست و تشدد بھگت رہے ہیں۔ حمزہ کی شہادت پر انھوں نے کہا ' دحدوح خاندان کی نسل کشی آج مکمل ہوگئی' انھوں نے  پرعزم لہجے میں آقا(ص) کا فرمان دہرایا کہ 'سچائی نجات  اور جھوٹ ہلاکت ہے' انھوں نے کہا کہ میں  'سچائی  دنیا کے سامنے لاکر اپنی شریک حیات اور بچوں کو خراج تحسین پیش کرونگا۔ ان معصوموں نے میرے قلم پر اپنی جانیں قربان کی ہیں، میں اپنا قلم سرنگوں کرکے شہیدوں کو شرمندہ نہیں کرونگا'۔ امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلینکن  مگرمچھ کے آنسو چھلکاتے ہوئے بولے کہ  'حمزہ کی المناک موت پر میرادل  خون کے آنسو رورہا ہے'۔  آدمی جب بے شرم ہوجائے تو چاہے کہتا پھرے۔عرب میڈیا کے مطابق 7  اکتوبر سے اب تک  غزہ میں  109 صحافی نشانہ بناکر  موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔

جہاں عالم تمام کے مسلمانوں اور سلیم الفطرت انسانوں کی ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں وہیں دنیا بھر کے مستکبرین اہل غزہ کو  نیست ونابود کرنے کیلئے ناصرف پرعزم ہیں بلکہ دامے، درمے، قدمے،  سخنے اس مشن کی مکمل پشتیبانی کررہے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا سے آنے والے درجنوں سپاہی غزہ میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک  آسٹریلیا نژاد فوجی افسر اہل غزہ کے ہاتھوں ماراگیا جبکہ مقامی ذرایع بتارہے ہیں کہ امریکی کے مایہ ناز چھاپہ مار دستے ڈیلٹا فورس کے ایک سینئر کمانڈر کو غزہ کے نشانہ بازوں نے شکار کرلیا۔ یہ یہاں مارا جانیوالا دوسرا امریکی افسر ہے۔

جیسا کہ ہم اس پہلے عرض کرچکے ہیں، قوت قاہرہ کے بہیمانہ استعمال اور غزہ کو ریت کا ڈھیر بنادینے کے باوجود اسرائیل عسکری ہدف حاصل کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ قیدیوں کو رہا کرنے کی ناکام کوششیں جاری ہیں لیکن ہر مہم تل ابیب کیلئے مزید شرمندی کا سبب بنی ہے۔ سال کے آغاز پر شمالی غزہ میں ایسا ہی ایک چھاپہ اسرائیلی قیدی کی ہلاکت کا سبب  بنا جبکہ اسکے دوسپاہی اپنی ٹانگیں گنوابیٹھے۔

اس جنگ میں غزہ ساختہ  ہتھیاروں نے خوب نام کمایا ہے۔ انکے ٹینک شکن یاسین راکٹوں  نے اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا بھرکس نکال دیا۔ دوسری جانب انکے ماہر نشانہ باز الغول رائفل سے غنیم  کا بہت موثر انداز میں شکار کررہے ہیں۔اس ضمن میں  امریکہ کے انسٹیٹیوٹ برائے مشاہدہ جنگ (ISW)نے انکشاف کیا ہے کہ جنوبی غزہ میں جنگ کے دوران مستضعفین، Thermobaric Rockets راکٹ استعمال کررہے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ راکٹ فضا کی آکسیجن سے توانائی حاصل کرکے خوفناک دھماکے کو جنم دیتے ہیں۔ یہ جدید اسلحہ اس سے پہلے اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہوا۔خبروں کے مطابق اہل غزہ اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹروں کے خلاف طیارہ شکن میزائیل استعمال کررہے ہیں۔ اب تک انکے میزائیل کسی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستضعفین جدید اسلحہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔

بدترین سینسر کے باوجود چھن چھن کر ہی سہی لیکن ناکامیوں کی خبریں اسرائیلی عوام تک پہنچ رہی ہیں۔ خبروں پر پابندی تو  ہے لیکن ایک آدھ خبر اور بصری تراشہ ہی سنسنی کیلئے کافی ہے ۔ دامادِ اول  لیفٹینٹ کرنل پیری آئرن کی وزیراعظم کے ساتھ تصویر اسرائیلی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ کرنل آئرن صاحب کا ایک پیر اب آئرن کا ہے۔

ایک نامعلوم سپاہی کا فوجی ہسپتال کے دروازے پر صحافیوں سے  یہ مکالمہ بھی زباں زدعام ہے

صحافی: کیا ہوا؟ یہاں کیسے؟ آپ تو ٹھیک ٹھاک ہیں

سپاہی: ہم ایک معرکے  سے واپس آرہے ہیں، میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا کوئی ساتھی زخمی  ہوکر یہاں تو  نہیں آیا؟

صحافی: کیا آپ کے ساتھی زخمی بھی ہوئے؟

سپاہی: معلوم نہیں، ہم مشن پر 16 جوان گئے تھے ، واپس صرف 7 آئے ہیں۔ پتہ نہیں باقی زخمی ہوئے، قیدی بنے یا ہلاک ہوگئے۔

ایسے  بصری تراشے اور معذور جوانوں کو دیکھ کر اسرائیل کے عام لوگ مایوس ہورہے ہیں۔ امریکہ اور مغرب کی غیر مشروط حمائت اورحوصلے افزائی کے باوجود جنگ کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہفتہ 30 دسمبر کو تل ابیب میں زبردست مظاہرہ ہوا جسکا اہتمام فوجیوں کے اہل خانہ نے کیا تھا۔ جلوس کے اختتام پر تقریر کرتے ہوئے نوجوان خاتون رہنما روتم تعلیم (Rotem Telem)نے کہا 'ہم اناکی جنگ ہاررہے ہیں۔ غزہ آپریشن بند کرو،  ہمارے اور غزہ کے بچے مارے جارہےہیں۔ بی بی تو سات اکتوبر کو ہی شکست کھاگیاتھا، اب وہ اپنے شکست کاانتقام بے گناہ اہل غزہ اور اسرائیلی سپاہیوں سے لے رہاہے۔ نہتے بچوں پر بمباری جنگی حکمت عملی نہیں مجرمانہ قتل عام ہے' اس موقع پر لوگوں نے بی بی استعفیٰ دو اور شکست خوردہ وزیراعظم نا منظور کے نعرے لگائے۔

اسرائیلی معاشرے کیلئے غزہ حملہ اس اعتبار سے بے حد سخت ثابت ہوا ہے کہ جانی نقصان تو شائد اتنا زیادہ نہیں لیکن اپاہج ہونے والے فوجیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ حملے کے ابتدائی دس دنوں میں 2000 سے زیادہ سپاہی معذور ہوئے۔اکثر زخمی اپنے پیروں اور آنکھوں سے محروم ہوگئے۔ زخمی اس  تیزی سے ہسپتال پہنچ رہے ہیں کہ جدید ترین سہولیات کے باجود انکا سنبھالنا طبی عملے کیلئے مشکل نظر آرہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی میڈیا پر ایک تصویر شایع ہوئی جس میں عسکری ہسپتال کا منظر دکھایا گیا ہے جہاں ایک ٹانگ کٹواکر فارغ ہونے والا  جوا ن اس حالت میں ہسپتال چھوڑ رہا ہے کہ ابھی urine bagکی ضروت بھی ختم نہیں ہوئی۔ جس سے اندازہ ہوتا کہ ہسپتال میں جگہ کم پڑتی جارہی ہے۔اسرائیلی سپاہیوں میں پھوٹ پڑنے والےجلدی امراض سے بھی فوج کا طبی عملہ شدید دباو میں ہے۔موذی مرض لشمانیہ طفیلیہ(Leishmania parasitic disease )غزہ میں تعینات اسرائیلی فوجیوں میں تیزی سے پھیل رہاہے اور جنگ کے آغاز سے اب تک 35ہزڑ سپاہیوں میں اس مرض کے آثار پائے گئے

اسی کیسساتھ غزہ سے اسرائیلی فوج کی جزوی واپسی بھی شروع ہوچکی۔ گزشتہ ہفتے غزہ شہر کے جنوب میں الزیتون محلے سے فوجی گاڑیاں ایک قافلے کی صورت میں واپس ہوتی دیکھی گئیں۔شمالی علاقے سے بھی اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ رہی ہے۔ گولانی بریگیڈ کی واپسی کی اطلاع ہم اس سے پہلے ایک نشست میں دے چکے ہیں۔

دسمبر کے اختتام پر اسرائیلی فوج  نے اپنے پانچ بریگیڈ غزہ سے واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ فوجی اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ بکتر بند بریگیڈ 460، بریگیڈ 261،پیادہ بریگیڈ 828، ریزرو (Reserve) بریگیڈ 14 اورچھاپہ مار ریرزو بریگیڈ 551کو غزہ سے واپسی کا حکم دیدیا گیا ہے۔ دوسری طرف فوج کے سربراہ نے  یہ بھی کہا کہ غزہ آپریشن دسمبر 2024 تک جاری رہیگا۔

کیا  زمینی فوج کی واپسی اہل غزہ کیلئے کسی راحت کا سبب بن سکتی ہے؟بلاشبہ یہ مستضعفین کے صبر اور ثابت قدمی کی فتح ہے کہ  زخم چاٹتا غنیم پسپائی اختیار کررہا ہے لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اپنا نقصان کم کرنے کیلئے بری دستوں کو واپس بلایا جارہا ہے اور اب قتل عام کیلئے فضائی طاقت استعمال کی جائیگی۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شمال سے لبنانی حزب اللہ اسرائیلی فوج کو بھاری نقصان پہنچارہی ہے اور اسرائیل، لبنان پر ایک بھرپور حملے کی تیاری کررہا ہے۔گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیردفاع نے دھمکی دی تھی کہ ہم بیروت کو غزہ بناسکتے ہیں۔ تاہم معاملہ اتنا آسان نہیں۔ جنوبی لبنان میں حزب اللہ بے حدمضبوط ہے اور ایران نے وہاں طیارہ شکن میزائیل سمیت جدید ترین ہتھیار پہنچادئے ہیں۔ کھلی جنگ کی صورت میں ایرانی اپنے ترکش کا ہرتیر استعمال کرلینگے۔ لبنان  کا مذہبی جغرافیہ بھی مختلف ہے۔ فلسطینیوں کی غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے کہ جنکی  جان دنیا کیلئے  اہم نہیں لیکن لبنان نصف کے قریب مسیحیوں پر مشتمل ہے جنکا قتل عام مغرب ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریگا۔گزشتہ دنوں امریکی وزیردفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن یہی سمجھانے اسرائیل آے تھے کہ لبنان پر حملہ اسرائیل اور مغرب کے مفاد میں نہیں۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے انھوں نے  امریکی طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ (USS GERALD FORD)کو بحیرہ احمر سے واپسی کا حکم دیدیا۔

ظلم و جبر کے سلسلے کیسے ختم ہوں کہ امریکہ سے ہرروز تین مال بردار طیارے قتل عام کا ساما ن  لیکر روزانہ تل ابیب اتر رہے ہیں۔ دسمبر کے آخر میں صدر بائیڈن نے 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالر مالیت کے توپ کے گولے ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل بھیجنے کی منظوری دیدی۔ ہنگامی صورتحال میں کسی کلیدی اتحادی کو اسلحے کی فراہمی سے پہلے کانگریس کی توثیق ضروری نہیں۔ ایک ہفتہ پہلے دس کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کے 14000آتشیں گولے اسرائیل کو فراہم کئے جاچکے ہیں۔ ان کے استعمال کا یہ عالم کہ اندھا دھند و مسلسل بمباری کےساتھ اسرائیل نہتے اہل غزہ پر  توپ کے 200 گولے یومیہ برسا رہا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12 جنوری 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 12 جنوری 2024

روزنامہ امت کراچی         12 جنوری 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 جنوری 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو