بنگلہ دیش کے یکطرفہ
انتخابات۔ غاصبانہ قبضے کا تیسرا دور
سات جنوری کو ہونے والے بنگلہ دیش کے انتخابات ہئیت و ترکیب کے
اعتبار سے گزشتہ تین چناو کی طرح رہے۔ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے
ہندوستان نواز عناصر کے ہتھکنڈے حتمی ہدف کے حوالے سے تو تینوں بار ایک سے تھے
لیکن حکمتِ عملی اور طریقہ وارادت میں وقت و حالات کی مناسبت سے ترمیم و پُرکاری
ہر بار مختلف و متنوع تھی۔ بنگلہ دیش کی سیاست اپنے قیام کے وقت سےہندوستان کے گرد
گھوم رہی ہے ۔جب مئی 2014 میں شری اجیت
دوال وزیراعظم نریندرا کے مشیر قومی سلامتی مقرر ہوئے تو یہ تعلق مزید
گہرا اور کثیر جہت ہوگیا۔ جناب دوال اس سے پہلے خفیہ ایجنسی IB کے سربراہ تھے، انھوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا بڑا
حصہ خفیہ پولیس میں گزارا ہے۔ وہ بطور جاسوس سات سال پاکستان میں رہ چکے ہیں اور
اس دوران انھوں نے جماعت اسلامی کی سیاست، عوام میں پزیرائی اورجماعتی حکمت عملی
کا گہرا مطالعہ کیا۔
جناب دوال نے ذمہ داری سنبھالتے ہی بنگلہ دیش امور کو اپنی نگرانی
میں لے لیا۔ بنگلہ دیشی معاشرے سے اسلامی اقدار اور نظریائی وابستگی کی مکمل بیخ
کنی دوال Doctrine کی بنیاد
ہے۔فوج کی نگرانی کے ساتھ شہری انتظامیہ پر گرفت کا یہ عالم کہ تھانوں میں SHOکی تقرری سے
پہلے اسکی جناب دوال سے توثیق ضروری ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی میں ہندوستان نے کلیدی
کردار ادا کیا لیکن عام بنگلہ دیشی ہندوستان اور ہندوتوا کے بارے میں سنجیدہ
تحفظات رکھتا ہے۔ اس شک و عدم اعتمادکے ٖڈانڈے قیام پاکستان کے وقت ہونے والی
خونریزی خاص طور سے 16اگست 1946 کے کلکتہ ہنگامے اور اسکے دو ماہ بعد پھوٹ پڑنے
والے نواکھالی فسادات سے ملتے ہیں۔ عدم اعتماد اور اسکے نتیجے میں پیداہونے والی
نفرت کا زہر اب تک اثر دکھارہا ہے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے فوراً بعد سیکیولر انتہاپسندوں نے 'غداروں' کو
ٹھکانے لگانے کا مطالبہ کیا جس پر حسینہ واجد کے والد صدر شیخ مجیب الرحمٰن مرحوم
نے بہت سے سیاسی کارکنوں اور فوجیوں پر پاکستانی فوج سے تعاون کے مقدمات بنائے
لیکن اس فہرست میں جماعت اسلامی یا مسلم لیگ کا کوئی معروف رہنما شامل نہیں تھا۔
سانحہ ستمبر (9/11)کے بعد جب ساری دنیا میں اسلام پسندوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا تو
حسینہ واجد نے اس فضا کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے غداروں کو پھانسی چڑھاو تحریک
کا آغاز کیا۔ 2008 کی انتخابی مہم کے دوران محترمہ نے "جنگ آزادی" کی
مخالفت کرنے والے "غداروں" کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ دوسری
طرف سیکیولر عناصر نے انتخابی میدان میں جماعت اسلامی کو تنہا کرنے کی مہم شروع
کردی۔انتخابات سے صرف چند ہفتہ پہلے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP)نے اتحاد
میں جماعت کیلئے مختص کوٹے کو دودرجن سے کم کرکے دو کردیا اور عملاً جماعت اتحاد
سے الگ ہوگئی۔ زہریلی مہم کے باوجود، جماعت اسلامی 33 لاکھ ووٹ لے کر اتحاد میں
دوسرے نمبر پر رہی لیکن 300 کے ایوان میں اسے صرف دونشستیں مل سکیں۔ اس سے پہلے
ہونے والے انتخابات میں جماعت نے 24 لاکھ ووٹوں کے عوض 17 نشستیں جیتی تھیں۔
اس اندرونی سیاست کا جماعت کو جو نقصان پہنچا وہ اپنی جگہ لیکن خود
بی این پی پارلیمانی اعتبار سے دیوالیہ ہوگئی کہ 2 کروڑ 28 لاکھ ووٹ لینے کے
باوجود اسکی جھولی میں صرف 30 نشستیں آئیں۔گزشتہ انتخابات میں 2 کروڑ 31 لاکھ ووٹ
لے کر بی این پی نے 193 نشستیں جیتی تھیں۔ جماعت اوربی این پی کے درمیان رخنے اور
تنازعے کا عوامی لیگ کو زبردست فائدہ ہوا اور اس نے 230 نشستوں پر کامیابی حاصل
کرلی۔ حسینہ واجد کے اتحادی حسین محمد ارشاد کی جاتیہ پارٹی نے 27 نشتیٰں جیت کر
اتحادکے پارلیمانی حجم کو 257 پر پہنچادیا
جو ایوان کے 85 فیصد سے زیادہ تھا یا یوں کہئے کہ پارلیمان حسینہ واجد کیلئے rubber stampبن گئی۔ غیر
ملکی مبصرین کے مطابق انتخابات میں بڑے پیمانے پر ٹھپے بازی کی شکایات آئیں، تاہم
اچھی بات ووٹ ڈالنے کا تناسب تھا کہ 87 فیصد سے زیادہ رائے دہندگان نے اپنا حق
رائے دہندگی استعمال کیا۔
اقتدار سنبھالتے ہی حسینہ واجد نے 'پھانسی مہم' کا آغاز کیا اور سول
عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے بجائے سزا دلوانے کیلئے آئین میں ترمیم کرکے انٹڑنیشنل
کرائمز ٹریبیونل قائم کردئے۔ دلچسپ بات کہ ٹریبیونل کی تشکیل سے پہلے ہی سابق امیر
جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم، امیر جماعت مطیع الرحمان نظامی، عبدالقادر
ملا،نائب امیر دلاور حسین سعیدی، اسسٹنٹ سکریٹری جنرل قمرالزماں، علی احسن مجاہدکے
علاوہ مسلم لیگی رہنما اور بی این پی کے سابق وزیرصلاح الدین قادر چوہدری سمیت حزب
اختلاف کے سینکڑوں رہنماوں کے پروانہ گرفتاری جاری کردئے گئے ۔
انسانی حقوق کی تنظیموں HRW ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ یورپی یونین،
عالمی اداروں اور دیگر ممالک نے ٹرییبیول کے طریقہ کار کو غیر شفاف قراردیا۔ لیکن
ہندوستان کی بھرپور حمائت کی بنا پر حسینہ واجد جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو
پھانسی گھاٹ بھیج دینے میں کامیاب ہوگئیں۔ اسی کیساتھ 2009 میں عدالت نے اظہار
وجوہ کا نوٹس جاری کیا کہ جماعت اسلامی ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کا عزم رکھتی
ہے جسکی عدلیہ نے تشریح کچھ اس طرح کی کہJI Charter puts God above democratic Process، جو ملکی آئین سے متصادم لہٰذا کیوں نے
الیکشن کمیشن میں جماعت کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے۔ جماعت اسلامی نے اس نوٹس کا
کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ جماعت کے انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی۔
جماعت اسلامی کو کچلنے کے ساتھ بی این پی کے پر کُترنے کا سلسلہ شروع ہوا اور
پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلی گئیں۔
ان پیش بندیوں کے بعد 2014 کی انتخابی مہم شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی
کے ایک قائد عبدالقادر مولا کو پھانسی ہوچکی تھی جبکہ باقی جانے کو تیار بیٹھے
تھے۔ خالدہ ضیا پہلے سے گرفتار تھیں۔ دسمبر 2013 کے آغاز میں بی این پی، جماعت
اسلامی اور حزب اختلاف کے لاکھوں کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ جماعت کی طلبہ تنظیم
اسلامی چھاترو شبر پر خاص مہربانی تھی جسکے درجنوں کارکنوں کو قتل اور لاپتہ کردیا
گیا۔ پانچ جنوری 2014 کو اس شان سے انتخابات ہوئے کہ عوامی لیگ اور اسکی اتحادی
جاتیا پارٹی کے سوا کوئی بھی میدان میں نہ تھا۔ان انتخابات میں ووٹ
ڈالنے کا تناسب 40 فیصد سے کم رہااور268 نشستوں کیساتھ حسینہ واجد اور انکی اتحادی
جاتیا پارٹی نے تین چوتھائی اکثریت برقرار رکھی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے ان
انتخابات کو غیر شفاف قراد دیتے ہوئے اسکے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو
جمہوری تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے ایک بیان میں
اسکے لئے lacked legitimacyکا لفظ استعمال کیا
جماعتی
قائدین کے گلوں میں پھندے، تنظیم کے گرد آئینی زنجیر اور حزب اختلاف کے کارکنوں سے
جیلیں بھردینے کے بعد حسینہ واجد کے اقتدار کو کوئی خطرہ باقی نہ رہا چنانچہ دوسری
مدت میں حسینہ واجد کا ہدف ابلاغ عامہ خاص طور سے سوشل میڈیا رہا۔ حلف اٹھاتے ہی
قانوں سازی کا آغاز ہوا اور Digital Security Act یا
DSAمنظور کرلیا
گیا۔ جسکا بنیادی مقصد فیس بک ، ٹویٹر، انسٹاگرام اور یو ٹیوب وغیرہ پر قدغنیں
لگانا تھا۔ اجیت دوال کے تصنیف کردہ اس قانون میں 1971 کی 'تحریک آزادی' کو مکمل
تحفظ دیا گیا ہے۔ قانون کے تحت ہر وہ تحریر، لطیفہ یا اشارہ غیر قانونی ہےجس سے '
جنگ آزادی، 'بنگلہ بندھو'، قومی ترانے یا پرچم کی بے توقیری کا اظہار ہوتا ہو۔اسکے
علاوہ ایسی تحریر بھی قابل گرفت ہے جس سے معاشرے میں 'بے چینی ' جنم لے۔ ڈی ایس اے
کی خلاف ورزی پر 14 سال قید ہوسکتی ہے۔اس قانون پر بہت سختی سے عمل ہورہا ہے اور
سینکڑوں سرکش بلاگرز عقوبت کدوں کی زینت ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک 53 سالہ بلاگر
مشتاق احمد بدنامِ زمانہ قاسم پور جیل میں تشدد کی تاب نہ لاکر چل بسے۔
قانون سازی
کے دوران شوشہ اٹھا کہ بے نامی سم (SIM)، سیٹلائٹ فون اورمواصلات
کے جدیدنظام نے موبائل فون تک حکومت کی رسائی کو غیر یقینی کردیاہے۔اس کمزوری کے
علاج کیلئے حکومت نے Digitalسراغرسانی کی ایک
اسرائیلی کمپنی Cellebriteسے الیکٹرانک نقب زنی (hacking)کا نظام
خریداہے جسے Universal Forensic Extraction Deviceیا
UFEDکہتے ہیں۔ان
مشینووں سے ہزاروں مربع میل رقبے میں موجود موبائل فون پر ہونے والی گفتگو،SMSاورفون میں
موجود Dataاس صفائی سے اڑایا جاسکتاہے کہ صارف کو خبر تک نہیں ہوتی۔ترجمے کا
بھی ایک جامع نظام موجود ہے اور دنیا کی 150 زبانوں کا ایکدوسرے میں ترجمہ براہ
راست ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی فون کے کیمرے سے صارف کی تصویر بھی لے لی جاتی ہے تاکہ
سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔
انھیں
اقدامات کے دوران 2018 کے انتخابات کا وقت آگیا۔ انتخابی مہم کے آغاز پر عدالت نے
فیصلہ سنایا کہ چونکہ خالدہ ضیا کو مالیاتی بد عنوانی کے الزام میں سزا ہوچکی ہے
لہذا وہ انتخاب لڑنے کی اہل نہیں ہیں۔ اسکے باوجود حزب اختلاف نے انتخابی مہم شروع
کردی۔عدالتی پابندی کی بنا پر جماعت اسلامی کیلئے اپنے نشان پر انتخاب لڑنا ممکن
نہ تھا اسلئے جماعت کے نمائندوں کو بی این پی کے ٹکٹ جاری کئے گئے۔ مہم شروع ہوتے
ہی پکڑ دھکڑ، کارکنو ں کا اغوا اور بوری بند لاشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور آخر کار
حزب اختلاف میدان سے ہٹ گئی۔ اس بار حکومت نے ووٹ ڈالنے کا 'خصوصی اہتمام' کیا اور
الیکشن کمیشن کے مطا بق 80 فیصد سے زیادہ افراد نے رائے دہی کا حق استعمال کیا۔ ان
انتخابات میں پہلی بار ووٹنگ مشینیں استعمال ہوئیں اور بی بی سی ایک نمائندے نے
شہادت دی کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر مخصوص لوگ سارا دن مشینوں سے 'کھیلتے ' نظر آئے۔
اس یکطرفہ مشق میں حکمران اتحاد نے 300 میں سے 283 نشستیں جیت لیں۔
جب 2024 کے
انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا تو حزب اختلاف نے مہم کے بجائے ہڑتال کا سلسلہ
شروع کردیا۔ ا نکا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن نہیں
اسلئے ضروری ہے ایک غیر جانبدار عبوری حکومت قائم کی جائے۔ لیکن حکومت نے دباومیں
آنے سے انکار کردیا اور حزب اختلاف انتخابی میدان سے باہر چلی گئی ۔ آزاد امیدوار
بھی کنارے بیٹھ گئے اور اکثر نشستوں پر صرف عوامی لیک یا انکی حلیف جاتیہ پارٹی کے
امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے۔ حالات کو بھانپ کر حکومت نے لالچ و دباو
کے ذریعے خودساختہ جماعتوں اور نام نہاد یا ڈمی آزاد امیدواروں کی جانب سے کاغذات
نامزدگی جمع کروادئے اور پھر انھیں انتخابی چلانے کیلئے بھی مجبور کیا گیا۔
عالمی
مبصرین انتخابات سے پہلے ہی اسکے انتظامات پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکے تھے۔
برطانوی وزارت خارجہ، شعبہ دولت مشترکہ و ترقیاتی امور نے اپنے بیان میں کہا 'شفاف
انتخابات قابل اعتماد، کھلے اور منصفانہ مسابقت پر منحصر ہیں۔ انسانی حقوق کا
احترام، قانون کی حکمرانی اور مناسب عمل جمہوری عمل کے لازمی عناصر ہیں۔ انتخابی
مہم کے دوران (بنگلہ دیش میں) ان معیارات کی پاسداری نہیں کی گئی ۔ ہمیں پولنگ کے
دن سے پہلے حزب اختلاف کے ارکان کی بڑی تعداد میں گرفتاریوں پر تشویش ہے'
امریکی
وزرات خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا امریکہ اور دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ
(بنگلہ دیش کے) انتخابات آزادانہ یا منصفانہ نہیں تھے اور تمام جماعتوں نے اس میں
حصہ نہیں لیا۔ جناب ملر کا کہنا تھا کہ امریکہ کو حزب اختلاف کے ہزاروں سیاسی
ارکان کی گرفتاریوں اور انتخابات کے دن بے ضابطگیوں کی اطلاعات پر تشویش ہے۔
انتخابی
نتائج کے مطابق عوامی لیگ اور انکی اتحادی جاتیا پارٹی نے 268 نشستیں جیت لیں۔ اس
بار ووٹ ڈالنے کے تناسب کے بارے میں بھی ایک لطیفہ ہوا کہ نتائج کے اعلان کرتے
ہوئے چیف الیکشن کمشنر جناب قاضی حبیب الاول نے کہا کہ 27 فیصد بنگلہ دیشیو ں نے
ووٹ ڈالے لیکن ساتھ بیٹھے الیکش کمشنر محمد عالمگیر کی سرگوشی پر انھوں نے ووٹ
ڈالنے کا تناسب 40 فیصد کردیا۔انتخابات اس حد تک یکطرفہ تھے کہ وزیراعظم حسینہ
وااجد نے گوپال گنج 3 کی نشست پر 249965 ووٹ لئے اور انکے قریب ترین حریف بنگلہ
دیش سپریم پارٹی کے نظام الدین لسکار، کو صرف 469ووٹ ملے۔
پندرہ سال
سے اقتدار پر قابض حسینہ واجد کو اجیت دوال صاحب مزید پانچ سال کیلئے مسلط رکھنے
میں کامیاب تو ہوگئے لیکن اس سے سترہ کروڑ بنگلہ دیشیوں میں مایوسی بلکہ غیر ملکی
قبضے کا جو احساس پیدا ہورہاہے وہ خود ہندوستان کے حق میں بہتر نہیں۔ نصف صدی پہلے
اسی احساس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا تھا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 جونری 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی، 19 جنوری 2024
روزنامہ امت کراچی 19 جنوری 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 جنوری 2024
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment