Thursday, April 25, 2024

غزہ !!! سفاکی کے دوسو دن

 

سفاکی کے دوسو دن

قائدین پر زمین تنک

اسرائیلی معیشت اور اسرائلیوں کی صحت نازک ہورہی ہے

 تادیبی پابندیوں اور بی بی کے پروانہ گرفتاری کا امکان

منگل 23 اپریل کو غزہ قتل عام کے 200 دن پورے ہوگئے۔صرف غزہ ہی نہیں غربِ اردن بھی کربلا بناہواہے۔ڈرون حملوں اور بمباری کیساتھ فوج کی سرپرستی میں قبضہ گردوں (Settlers)  کی فائرنگ سے 500 نوجوان لقمہ اجل بنے، زخمی ان گنت اور ہزاروں افراد عقوبت کدوں میں ٹھنسے ہیں۔ نابلوس، الخلیل ، تلکُرم، اریحہ، قلقیلیہ، جنین، رام اللہ ، مشرقی بیت المقدس،  ہر جگہ ماتم کا سماں، یعنی ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ، تیس لاکھ انسانوں کیلئے ایک دہکتی بھٹی ہے۔ قتل عام، مکانوں اور دوکانوں کی تباہی کیساتھ زراعت ان وحشیوں کا خاص نشانہ ہے۔ یہاں کا ایک دیہی علاقہ قراوۃ بنی حسان  اپنی سرسبزی اور پھلوں کے باغات کیلئے سارے فلسطین میں مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں زینوں کے کچھ باغ ایسے ہیں جنکی کاشت حضرت یوسف ؑ کے بڑے بھائی یہودا نے  شروع کی تھی۔ سات اکتوبر کے بعد سے یہاں نئی فصل لگانے کی اجازت نہیں۔ گزشتہ ہفتےقبضہ گرد قراوۃ بنی حسان پر  چڑھ دوڑے۔ زیتون اور بادام کے باغ روند دئے گئے۔ نئے پودوں اور کونپلوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا۔

ہفتہِ رفتہ کے  دوران اہل غزہ میں قتل عام جاری رہا اور بمباری سے  ہونے والے جانی نقصان کا تخمینہ 34 افراد یومیہ ہے۔ اتوار کو خان یونس کے نصر ہسپتال میں ایک اجتماعی قبر کا انکشاف ہوا۔اسرائیلی فوج نے ہسپتال خالی کرنے سے پہلے  18 بچوں سمیت 180 افراد کو گولی مار کر دفن کردیا۔ ماہرین کا خیال ہے کچھ جان بلب زخمی، زندہ دفن کر دئے گئے تھے۔

تاہم اپنی غاصبانہ ولادت کے بعد سے پہلی بار اسرائیل شرمندہ اور مدافعت پر مجبور نظرآرہا ہے ۔اس کا آغاز 14 اپریل کی صبح ایرانی ٖڈرون اور میزائیل حملے سے ہوا۔ایران کی اس کاروائی پر اسرائیلی قیادت کا اشتعال دیکھنے کے قابل تھا۔منہہ سے جھاگ اڑاتے نیتھن یاہو نے کہا کہ ہمارا جواب ایرانیوں کی نسلیں یاد کھیں گی۔ غرور کا یہ عالم کہ جب برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون اپنی جرمن ہم منصب کے ساتھ انکا غصہ ٹھنڈا کرنے بنفس نفیس تل ابیب آئے تو بی بی جی نے صاٖف کہدیا کہ 'احباب کا مشورہ سرآنکھوں پر لیکن ہم انتقام تو لینگے۔' بی بی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو امریکی یہاں تک کہہ گئے کہ ایران پر حملے کے بجائے شوقِ ستم رفح پو پورا کرلیجئے

شوروہنگامے کے بعد،  19 اپریل کو حملہ اس شان سے کیا گیاکہ خود انکے وزیر اندرونی سلامتی، اتامر بن گوئر نے تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک لفظی ٹویٹ میں بی بی کو'خوفزدہ کوّا' کہدیا۔ عبرانی اور انگریزی پر دسترس رکھنے والے لسانی ماہرین نے اس عبرانی لفظ کا انگریزی  مترادف اپاہج یا Lame قراردیا ہے۔ مزے کی بات کہ اب تک اسرائیل نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اصفہاں اور تبریزکا نشانہ بنایا گیا۔ اصفہان میں ایران کی جوپری تنصیات ہیں۔ اسرائیلی میڈیا نے تاثر دیا کہ گویا ایران کا جوہری اڈہ تہس نہس کردیا ہے لیکن عالمی جوپری توانائی ایجنسی (IAEA)نے اعلان کیا کہ ایران کے جوہری اثاثوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔اسی کیساتھ امریکہ کے سیارچوں (Satellites) نے اصفہان و تبریز کی صاف و شفاف تصاویر جاری کرکے اسرائیلی غبارے کو سوئی چھبھودی۔تصاویر کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں گرائے جانے والے  ڈرونوں کے ملبہ صاف نظر آرہا ہے جس  سے ایرانیوں کے اس دعوے کی تصدیق ہوگئی کہ چاروں حملہ آور ڈرون اصفہان کی شہری حدود سے باہر ہی گرالئے گئے۔ حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی حکام نے کہا کہ ہمارے لئے یہ ایک فوجی مشق تھی جسکا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اہل غزہ جس آزمائش سے گزررہے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن اب ان کے قائدین پر زمیں تنگ ہوتی نظر آرہی ہے۔ جنگ بندی کے بارے میں مستضعفین کے بے لچک روئے سے جہاں اسرائیل اور امریکہ بہت پریشان ہیں وہیں مصر کے جنرل السیسی اور قطر کے امیر کا پیمانہِ صبر بھی لبریز ہونے کو ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق قائدین کو اشارے مل رہے ہیں کہ امیرِ ذی وقار امریکہ کی جانب سے سخت دباو میں ہیں۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ عارضٰی جنگ بندی پر رضامند ہوکر اہل غزہ قیدی رہا کردیں۔امریکی سی ائی اے کے ڈائریکٹر  ولیم برنس صاٖف صاف کہہ چکے ہیں کہ قائدینِ غزہ کے بے لچک روئے کی وجہ سے غزہ کے شہری عذاب کا شکار ہیں۔ مستضعفین اسکے لئے تیار نہیں، انکا کہنا ہے کہ 35ہزار فلسطینیوں کی قربانیوں کو وہ ضایع نہیں ہونے دینگے۔ قطری حکام نے مبینہ طور پر قائدین غزہ کو پیغام پھجوادیا ہے کہ اگر ہماری بات نہیں ماننی تو پھر کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈ لو۔ اتوار 21 اپریل کو مسصعفین کا اعلیٰ اختیاراتی وفد ترکیہ پہنچا جہاں مبینہ طور پر صدر ایردوان سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا گیا۔ شنید ہے کہ عُمان نے  بھی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔

دوسری جانب امریکی خبر رساں ویب سائت Axiousنے انکشاف کیا ہے کہ تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکہ نے غرب اردن میں تعینات نسخ یہودا اسرائیلی بٹالین پر پابندی لگانےکا فیصلہ کیا ہے۔ لیہی (Leahy) قانون مجریہ 1997 کے تحت امریکی امداد یا اسلحہ وصول کرنے والی کوئی غیر ملکی فوج اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث پائی گئی تو اس  پر تادیبی پابندیاں لگادی جاینگی۔اسرائیل کی نسخ یہودا قدامت پسند حدیدی فرقے کے جوانوں پر مشتمل ہے۔ بٹالین میں توریت کی ہدایات پر سختی سےعمل کیا جاتا ہے جسے حقّہ (Halaka) کہتے ہیں۔ یہ بٹالین ایک برس سے غزب اردن میں تعینات ہے۔ سات اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے اس بتالین کے ہاتھوں 500 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ براہ راست قتل کے علاوہ بتالین کی سرپرستی میں قبضہ گرد (Settlers)بھی نہتے فلسطینوں کو قتل، انکے مکانات و جائیداد جلاتے، کھڑی فصلیں روندتےاور فساد مچاتے پھر رہے ہیں۔

دوروز قبل پیرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے کہا کہ (پابندی کے حوالے) سے انکی سفارش ایک مجاز پینل کی تفصیلی و شفاف تحقیقات پر مبنی ہے۔ جناب بلینکن نے یہ بھی کہا کہ ایک دوروز میں سرکاری اعلان متوقع ہے۔ اس خبر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نیتھں یاہو ٹویٹر پرچلائے کہ 'ایک ایسے وقت میں جب ہمارے فوجی دہشت گرد عفریت سے لڑ رہے ہیں، اسرائیلی فوج کےایک یونٹ پر پابندیاں لگانےکا ارادہ مضحکہ خیزی کی انتہا اور اخلاقی پستی ہے'

امریکہ  کے علاوہ بیگ کی عالمی عدالت سے آنے والی خبریں بھی بی بی کیلئے بہت اچھی نہیں۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے وزیراعظم نیتھں یاہو، وزیردفاع اور فوج کے سربراہ کے خلاف پروانہ گرفتاری کا اجرا بعید از قیاس نہیں۔ ٹی وی کے مطابق 16 اپریل کی رات وزیراعظم، وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز۔ وزیرانصاف یاریو لیون اور وزیرِ امور تزویرات (Strategy) ران ڈرمر کے درمیان کچن کیبنٹ کا اجلاس صبح تک جاری رہا، جس میں اس معاملے پر غور کیا گیا۔

اسرائیلی مظالم کی تفصیلات عام ہونے کیساتھ امریکہ اور یورپ میں یہود مخاف رجحان (Antisemitism) کے نام پر تعلیمی اداروں میں نظریاتی تطہیر کا کام جاری ہے۔ دسمبر کے آغاز پر امریکہ کی تین موقر ترین جامعات، ایم آئی ٹی(MIT)، ہارورڈ اور جامعہ پیسلوانیہ (UPenn)کے سربراہان کو کانگریس کی مجلس قائمہ کے سامنے طلب کیا گیا۔ نیویارک سے ریپبلکن پارٹی کی رکن محترمہ الیس اسٹیفنک (Else Stefanic) اس سماعت کی روح رواں تھیں انھوں نے  ہارورڈ کی سربراہ  ڈاکٹر کلاڈین گے  اور UPennکی صدر لز مگ گل (Liz Magill) سے انتہائی ناشائستہ انداز میں  بحث کی۔ اسٹافنک صاحبہ کا مطالبہ تھا کہ جامعات کے طلبہ کو 'پڑھایا' جائے کہ 7 اکتوبر کو اہل غزہ نے اسرائیل کو بربریت کا نشانہ بنایا۔جامعات کے سربراہان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے کنڈرگارٹن اسکول نہیں جہاں پڑھایا جاتا ہو بلکہ جامعات میں نظریات،  بیانئے، واقعات اور واردات کا تجزیہ کرتے ہوئے تمام فریقوں کے موقف اور شواہد ودلائل کا بے لاگ تجزیہ کیا جاتا ہے۔ استیفنک صاحبہ نے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سربرایان سے استعفیٰ طلب کیا۔سماعت کے بعد اسرائیلی لابی نےاتنا شور مچایاکہ ٰہارورڈ اور UPennکی سربراہان مستعفی ہوگئیں۔ گزشتہ ہفتے  جامعہ کولمبیا کی سربراہ ، مصر نژاد ڈاکٹر  نعمت شفیق کو طب کیا گی جیاں طلبہ جامعہ کے ایک پارک پر قبضۃ کرکے خٰیمہ زن ہوگئے ہیں جسے وہ غربِ اردن کی علامتی قبضہ بستی (Settlement)قرار دیتے ہیں۔ رکن کانگریس اسٹیفانک صاحبہ ایک بار پھر غصے میں ہیں۔ سماعت کے دوران محترمہ شفیق نے کہا کہ  انکے پاس طلبہ کے حق اظہار اور حق اجتماع پر پابندی لگانے کا کوئی اختیار نہیں۔ قانون سازی کانگریس کا کام ہے وہ پابندی کا قانون مننظور کرلے تو ہم اپنی جامعہ میں اس پر عملدرآمد یقینی بنالینگے۔اب ڈاکٹر شفیق پر بھی استعفیٰ کیلئے دباو ڈالا جارہا ہے۔

اسرائیلی تعلیمی اداروں میں  فلسطیینیوں کے خلاف نفرت اور عدم برداشت کی ایک مثال ہم گزشتہ نشست میں دے چکے ہیں جب جامعہ تل ابیب کی ایک سینئر لیکچرر کے خلاف صرف اس بنیاد پر مجرمانہ تحقیق کا کھاتہ کھولدیا گیا کہ انھوں نے ایک فوت ہوجانے والے فلسطینی قیدی کی تعزیت کی تھی۔ایسا ہی کچھ امریکہ میں بھی ہورہا ہے۔جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC)نے 10 مئی کو ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد میں الوداعی خطاب یا Valedictorianمنسوخ کردیاہے۔ تقریب میں فارغ التحصیل ہونے والے سب سے لائق و فائق طالب علم کی طرف سے الوداعی خطاب امریکی جامعات کی روائت اہے۔ اس بار خطاب کیلئے بنگلہ دیش نژاد طالبہ اثنا تبسم کا انتخاب ہوا اور جلسے کے دعوت نامے میں اثنا کا نام بھی شایع کردیا گیا۔ مخصوص گروہ نے گزشتہ دنوں 'انکشاف' کیا کہ اثنا سوشل میڈیا پر غزہ میں اسرائیلی وحشت کو نسل کشی کہتی ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں میں نہ صرف شرکت کرتی ہےبلکہ دوست احباب کو بھی ساتھ لیکر کر جاتی ہے۔ تین دن پہلے جامعہ کے نگراں کار (Provost)ڈاکٹر اینڈریو گُزمین نے اثنا کاالوداعی خطاب منسوخ کرتے ہوئے فرمایا کہ 'بات آزادی اظہار رائے کی نہیں بلکہ اس سے جامعہ، اسکے طلبہ،اساتذہ اور جلسہ تقسیم اسناد میں شریک ہونے والے 65 ہزار افراد کی سیفٹی  خطرے میں پڑسکتی ہے۔ معلوم نہیں پانچ منٹ کی تقریر سے کیا قیامت آجاتی۔

ظلم و زیادتی، سینسر وپابندی اور انسانیت سوز تشدد نے جہاں دنیا بھر کے سلیم الفطرت لوگوں کو کرب میں مبتلا کررکھا ہے، وہیں یہ وحشت خود اسرائیلی شہریوں کیلئے بھی عذاب بنتی جارہی ہے۔صحت کی خدمات فراہم کرنے والے ملک کے دوسرے بڑے ادار ے مکابی ہیلتھ کئر سروسز (Maccabi Healthcare Services) کے ایک جائزے کے مطابق صرف 46 فیصد اسرائیلی شہری جسمانی اور دماغی طو ر پر خود کو صحت مند سمجھتے ہیں۔ سترہ فیصٖد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بہت کمزور اور بیمار ہوگئے ہیں۔ دائمی امراض میں مبتلا 35 فیصد افراد کا خیال ہے کہ غزہ حملے کے بعد انکی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔طبی سہولتوں، معالجین اور شفاخانوں پر جنگ کے زخمیوں اور متاثرین کا ہجوم کی وجہ سے عام لوگ نظر انداز ہورہے ہیں۔ نفسیاتی صحت کا معاملہ بھی کچھ اچھا نہیں۔جائزے کے مطابق صرف 35 فیصد اسرائیلیوں کو اپنی دماغی اور جذباتی  صحت پر عتماد ہے۔

انسانی صحت کے ساتھ اسرائیل کی معاشی صحت  بھی اضمحلال کی طرف گامزن ہے۔ امریکہ نے غزہ قتل عام کیلئے اپنے خزانوں کے منہہ کھول دئے ہیں۔ بمبار طیاروں، مہلک میزائیلوں اور توپ کے گولوں سے لیکر سپاہیوں کے adult diapersتک امریکہ سے مفت آرہے ہیں۔ اسکے باوجود تل ابیب نے دسمبر میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 43 ارب ڈالر قرض لئے۔غزہ حملے سے پہلے قرض کا حجم مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 60 فٰیصد کے مساوی تھا جو گزشتہ برس بڑھ کر 62.1فیصد ہوگیا اور اکاونٹنٹ جنرل یالی روٹنبرگ کا خٰیال ہے کہ 2024 میں قرض کا بوجھ جی ڈی پی کا 67 فیصد ہوجائیگا.دوماہ قبل Moody'sنے اسرائیل کی ساکھ، مستحکم (Stable) سے کم کرکے منفی (Negative)کردی تھی جسکی وجہ سے قرضوں پر سود کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔

ایک دلچسپ  نکتےپر گفتگو کا اختتام۔ غزہ نسل کشی میں امریکی صدر کی سہولت کاری پر مظاہروں کے دوران Genocide Joe کا نعرہ عام ہے۔ گزشتہ ہفتے  سابق صدر ٹرمپ کے انتخابی جلسے میں انکے حامیوں نے بھی یہ نعرہ لگادیا، حالانکہ اسرائیل کی حمائت میں جناب ٹرمپ، بائیڈن سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ تاہم وہ نعرے سن کر مسکراتے اور حمائت میں ہاتھ ہلاتے رہے۔ ایک صحافی نے جب ان سے پوچھا کہ یہ کیسا نعرہ ہے تو موصوف بولے 'لوگ غلط کیا کہہ رہے ہیں۔ یعنی یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 26 اپریل 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 اپریل 2024

روزنامہ امت 26 اپریل 2024

ہفت روزہ رببر، سرینگر 28 اپریل 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Friday, April 19, 2024

اہل غزہ کی لہو رنگ عید

 

اہل غزہ کی لہو رنگ عید

اپنے خون  میں غسل کرتے اہلِ غزہ کی عید بھی  لہو رنگ رہی۔ آخری روزے کے افطار کے وقت سے شروع ہونے والا بمباری کا سلسلہ عید کے دن مغرب تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران 120 مقامات پر بمباری کی گئی۔بچی کھچی مساجد اور کھلے مقامات پر عید کے اجتماعات ان بمباروں کے خاص ہدف تھے۔

شمالی غزہ کے  پناہ گزینوں کے کیمپ مخیم الشاطی پر ٹھیک اسوقت حملہ کیا گیا جب وہاں لوگ عید مل رہے تھے۔ قائدِ غزہ اسماعیل ہانیہ کا خاندان ہدف تھااور انکے تین صاحبزادے  حازم، عامر اور محمد، ہانیہ صاحب کی تین پوتیاں اور ایک پوتے سمیت درجنوں افراد اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ایک دہشت گرد کاروائی کا منصوبہ بنارہے تھے۔اسماعیل ہانیہ نے 62 برس پہلے اسی کیمپ میں جنم لیااور یہاں  آباد انکا خاندان حملے کے آغاز سے ہی اسرائیل کے نشانے پر ہے۔ پہلے روز ایک حملے میں انکے بھائی اور بھتیجے سمیت خاندان کے 14 افراد مارے گئے۔ نومبر کے آغاز پر انکی جوانسال نواسی نشانہ بنی جسکے کچھ دن بعد ایک ڈرون انکے کم عمر نواسے کو چاٹ گیا۔سات اکتوبر سے اب تک ہانیہ خاندن کے 60 افراد قتل کئے جاچکے ہیں۔

عید کے دن ہونے والی کاروائی کی اطلاع جناب ہانیہ کو اسوقت ملی جب وہ قطر کے ایک ہسپتال میں اپنی اہلیہ کی عیادت کیلئے آئے تھے۔یہ خبر سنتے ہی انھوں نے اللہ کی حمد بیان کی اور کہا 'اللہ کا شکر کہ جس نے میرے خاندان کوشہادت کا افتخار عطا کیا۔ میرے بچوں کا لہو غزہ میں قتل کئے جانیوالے ہزاروں بچوں کے لہو سے زیادہ قیمتی نہیں تھا۔ہمارے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو قتل کرکے اگر دشمن سمجھتا ہے کہ ہم ہتھیار ڈالدینگے تو یہ انکی بھول ہے۔ غزہ کے بچوں کے پاک لہو نے فتحَ بیت المقدس کی تحریک کو مزید مقدس کردیا ہے۔' دعائیہ کلمات کے بعد ہانیہ صاحب نے عیادت جاری رکھی اور وہ مخصوص مسکراہٹ کیساتھ دعائے شفا پڑھتے ہوئے مریضوں کی پیشانیاں سہلاتے رہے۔ اپنی اہلیہ کو  تین بیٹوں اور پوتے پوتیوں کی شہادت کی اطلاع انھوں نے خود دی۔ خبر سنتے ہی بیگم اسماعیل ہانیہ نے ہاتھ بلند کرکے اپنے بیٹوں کی بلندی درجات کی دعا کی اور انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔

یہ توایک واقعہ تھا۔غزہ سے اسرائیلی فوج کی وحشت و بربریت کی ہولناک خبریں روز ہی آرہی ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے قتل عام کیساتھ طبی سہولیات کو ہدف بناکر تباہ کیا جارہاہے۔عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق اکتوبر کے آغاز سے اب تک انتہائی تجربہ کار ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 489افراد جاں بحق ہوئے،  600سے زیادہ زخمی اور310افراد گرفتار کرکے عقوبت کدوں کو بھیج دئے گئے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ ہسپتال اور شفاخانے تباہ ہوچکے ہیں جبکہ غیر موثر کردئے جانیوالی طبی مراکز کی تعداد 32 ہے۔ مشہور الشفا ہسپتال کے بڑے حصے کو سرنگ تلاش کرنے کے نام پر نذرآتش کردیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق ایمبیولینسوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے اور کم ازکم 126ائمبیولینسوں کو اسوقت نشانہ بنایا گیا جب ان میں مریض سوار تھے۔

بچوں اور خواتین کے قتل عام، گھروں میں گھس کر سامان کی توڑ پھوڑ اور وہاں موجود نہتی خواتین سے نازیبا حرکتوں کی خبریں بھی عام ہیں اور بے شرمی کی انتہا کہ ناشائستہ سمعی و بصری تراشے  اسرائیلی سپاہی سوشل میڈیا پر خود پیش کررہے ہیں۔ ان خبروں اور تراشوں سے دنیا بھر کے سلیم الفطرت انسان تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس تشویش کا 'دف' مارنے کیلئے اب اسلای انتہا پسندی کا کارڈ کھیلا اور اسلامو فوبیا کو ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے۔ 23 مارچ کو ماسکو کی رقص گاہ میں ہونے والی کاروائی سے اس نئے مہم کا آغاز ہوا ہے جس میں 145 قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ ماسکو واردات کے ملزمان تو مسلمان اور مبینہ طور پر داعش سے وابستہ ہیں لیکن چاروں ملزمان فرار ہوتے ہوئے یوکرین کی سرحد کے قریب سے گرفتار ہوئے اور روسی خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ پورا ٹولہ یوکرین سے آیا تھا۔یورپ میں کئی جگہ دہشت گردی کے خطرات کو بہانہ بنا کر فلسطین کے حق میں مظاہروں پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ جگہ جگہ معبدوں اور گرجا گھروں کے قریب 'مشتبہ سرگرمی' کے شوشے عام ہیں۔

جمعرات 11 اپریل کو کانگریس کی ذیلی کمیٹی برائے تفویض (Appropriation)کے روبرو وفاقی ادارہ تحقیقات (FBI)کے سربراہ کرسٹوفر رے نے  امریکہ میں ماسکوکی طرز کی ایک خوفناک اور بہت ی منظم دہشت گردکاروائی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ضروری قانون سازی پر زور دیا۔ اس سے موصوف کی مراد 9/11 کے بعد منظور کئے جانیوالاغیر ملک سراغرسانی و نگرانی ایکٹ یا FISA تھا، جسکی صدر بائیڈن تجدید چاہتےہیں۔ اس قانون کے تحت امریکی اہلکار امریکہ اور امریکہ سے باہر بلا وارنٹ کسی بھی غیر امریکی کی نقل و حرکت کی نگرانی کرسکتے ہیں جس میں فون ریکارڈنگ اور برقی خط وسوشل میڈیا کی جاسوسی شامل ہے۔ 

اہل غزہ کی منظم نسل کشی کیساتھ اسرائیل کے طول و عرض میں قیدیوں کی واپسی کیلئے مظاہرے جارے ہیں، چھ ماہ مکمل ہونے پر تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ جلوس میں شامل لواحقین فریاد کررہےتھے کہ 'بی بی جی!! جنگ بند کرو، ہتھیار رکھو، ہتھیار ڈالو، غزہ سے واپس آجاو، سارے فلسطینی قیدی رہا کردو یا اور جو کچھ ممکن ہے کرو لیکن ہمارے پیاروں کو دوبارہ ہم سے ملادو'۔ ایک بڑے بینر پر لکھا تھا 'بائیڈن ! ہمارے قیدیوں کو نیتھن یاہو (کی انا سے) بچاو'

بی بی کیلئے دلدل سے نکلنا اتنا آسان نہیں۔انکے قدامت پسند اتحادی 'فتح مبین' یعنی رفح کی پامالی اور مستضعفین کے مکمل خاتمے سے کم پر راضی نہیں۔ دودن پہلے انکے اہم شراکت دار اتامر بن گوئر نے کہا کہ ' اگر وزیر اعظم رفح پر حملے اور دشمن کو فنا کئے بغیر جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انکا حق حکمرانی(مینڈیٹ) ختم ہوجائیگا۔ 120 رکنی پارلیمان میں جنگجو انتہاپسندوں کی 14نشستیں، نیتھن یاہو کی حکومت گرانے کیلئے کافی ہیں۔

دوسری طرف اسرائیلی حزب اختلاف اور قیدیوں کے لواحقین ابتدا ہی سے شاکی ہیں کہ وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی کو اپنے قیدیوں کی بحفاظت واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بی بی اپنے جرنیلوں پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ قیدیوں کو طاقت کے بل پر رہا کرایا جائے اور اس کوشش میں کم از کم پانچ قیدی خود اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

انکی خودغرض طبیعت کا بھانڈہ 11 اپریل کو اس وقت پھوٹ گیا جب مشہور اینکر محترمہ الانا دایان Ilana Dayanنے چینل 12 پر اپنے پروگرام 'حقیقت '(عبرانی حفضہ یا Uvda)پر اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے دو سینئر ارکان کی گفتگو نشر کی۔ جنھوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کیلئے Aاور D کے فرضی نام استعمال کئے۔ انکی تصاویر دھندلی اور آواز بدل دی گئی تھی۔

دونوں نے انکشاف کیا کہ 'نیتن یاہو اسرائیلی قیدیوں کی قسمت کے بارے میں لاتعلق دکھائی دیتے ہیں اور انکے اس روئے کی وجہ سے رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ بی بی عوام کے سامنے جو بیانیہ رکھ رہے پیں وہ انکے عملی اقدامات سے بالکل مختلف ے۔

دسمبر کے بعد سے ہمیں اشارے ملنے لگے تھے کہ وزیراعظم مذاکرات نہیں چاہتے اور جنوری کے اختتام پر ہمیں یقین ہوگیا کہ وزیراعظم مذاکرات کی کامیابی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں بی بی کے روئے کو 'سرد بے حسی' کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔سفارتی حکمت عملی کے باب میں نیتن یاہو نئے خیالات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

الانا کے ایک سوال کے جواب میں D کھل کر بولے "یہ کہنا مشکل ہے کہ نیتن یاہو کے بغیر (اب تک) کوئی معاہدہ ہوچکا ہوتا، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نیتن یاہو کے بغیر، معاہدہ کرنے کے امکانات بہتر ہوں گے" ۔ D نے مزید کہا ''ایسا کئی بار ہوا کہ ہمیں دن میں مینڈیٹ ملا اور پھررات کو وزیر اعظم نے فون کرکے کہا 'ایسا مت کہو، یہ شرط نہ مانو، اس کی اجازت نہ دو'

D صاحب کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے حکم پر اسرائیلی ٹیم ناممکن مطالبات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے، جیسے مارچ میں زندہ یرغمالیوں کی فہرست کا مطالبہ، جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ اہل غزہ راضی نہیں ہونگے۔ یہ مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز تھا، اسلئے کہ ہمارے پاس پہلے سے یہ فہرست موجود ہے۔ معلوم نہیں ہم مستضعفین سے یہ مطالبہ کیوں کررہے ہیں۔

جناب A نے جذباتی انداز میں کہا'جب مجھے احساس ہوا کہ ریاست وہ سب کچھ نہیں کر رہی جو وہ کر سکتی ہے، تو میں رو پڑا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ معاہدہ ہونے تک کون زندہ ہوگا یا کیا باقی وہ جائیگا'

'قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ دوماہ پہلے ہوسکتاتھا، میں قوم کو کیسے بتاوں کہ خاکم بدہن، قیدیوں کی رہائی کا وقت ختم ہو نہیں رہا بلکہ ختم ہو چکا'

بی بی نے فلسطینیوں سے نفرت کی آگ بھڑکاکر اسرائیلی قوم کو عدم برداشت کی جس کھائی میں گرادیا ہے اسکی ایک مثال پر گفتگو کا اختتام۔اسرائیلی پولیس جامعہ تل ابیب کی سینئر لیکچرر ڈاکٹر اناث مطار (Anat Matar)کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے الزامات کی تحقیق کررہی ہے۔ ڈاکٹرمطار ایک راسخ العقیدہ یہودی اور 2004 سے یہاں فلسفے کی لیکچرر ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پر الزام ہےکہ انھوں نے ممتاز فلسطینی ادیب و دانشور ولید دقہ کے وفات پر انکے خاندان سےتعزیت کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا کہ 'ڈاکٹر دقہ میرے عزیز دوست اور حوصلہ مندی کا استعارہ تھے'۔ ڈقہ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کاٹ رہے تھے کہ 7 اپریل کو انکا دوران حراست انتقال ہوگیا۔ ولید دقہ نے بی اے اور ایم اے جیل سے کیا۔ پی ایچ ڈی میں انکی ایڈوائزر ڈاکٹر مطار تھیں لیکن تکمیل سے پہلے ہی دقہ مرحوم چل بسے۔

فیس بک پوسٹ دیکھ کر جامعہ کے انتہاپسندوں سے زبردست مظاہرہ کیا۔ انکا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر اناث مطار کو ولید دقہ کی خالی کوٹھری بھیج دیاجائے۔ خبر ہے کہ جامعہ نے تحقیقات مکمل ہونے تک ڈاکٹر صاحبہ کو بلاتنخواہ جببری تعطیل پر بھیج دیا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ جامعات ٹحقیق و جستجو کا مرکز ہوتی ہیں اور آزادی اظہار کے بغیر محققین کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ستم ظریقی نے امریکی و یورپی ماہرین تعلیم کا اب تک اس حوالے کو کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، ہفت روزہ دعوت دہلی، روزنامہ امت کراچی 19 اپریل 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 1 اپریل 2024، روزنامہ قوم صحافت لکھنو


اسرائیل پر ایران کا حملہ

 

اسرائیل پر ایران کا حملہ

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر 185 شاہد ڈرون، 110 میزائیل، 36 کروز اور متعدد منجنیقی (ballistic)میزائیل داغ دئے۔ پانچ گھنٹے جاری رہنے والی اس مہم کا آغاز عراقی صوبے دیالہ کے قریب ایرانی سرحد سے ہوا۔یمن کے حوثیوں، لبنانی حزب اللہ اور عراقی ایران نواز عناصر نے بھی اس مہم میں حصہ لیا۔ ایران کا حملہ کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع نہیں تھا بلکہ اس حملے کی سب سے منفرد بات پی یہ تھی کہ اس میں رازداری کا تکلفاً بھی خیال نہیں رکھا گیا اور ایران نے سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔

 دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیل کے میزائیل حملے کا تہران نے بدلہ لینے  کا اعلان کیا تھا۔ یکم اپریل کو ہونے والی میزائیل باری میں 16 افراد جاں بحق ہوئے جن میں پاسداران انقلاب ایران کے سینئیر کمانڈر بریگیڈئر جنرل محمد رضا بھی شامل تھے۔

ایران نے حملے کے لئے اپنی تیاریوں کو خفیہ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور 12 اپریل کو امریکی صدر جوبائیڈن نے بہت اعتماد سے کہا کہ ایرانی حملہ 24 گھنٹے میں متوقع ہے اور اسکے ساتھ ہی اسرائیلی دفاع کی بنفس نفیس نگرانی کیلئے امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا تل ابیب پہنچ گئے۔

ہفتے کی رات ایرانی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ 'قابض صیہونیوں' پر میزائیل اور ڈرون داغ دئے گئے ہیں۔ٹھیک اسی وقت اسرائیلی فوج کے ترجمان نائب امیر البحر ڈینئل ہگاری قومی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور کہا کہ ہم غافل نہیں۔ اسرائیل کا دفاعی نطام مستعد و چوکس ہے۔ انھوں نے اسرائیلی شہریوں کو حفاظتی اقدامت اختیار کرنے کی ہدائت کرتے ہوئے کہا کہ Killer Drone  نصف شب (پاکستانی معیاری وقت مطابق اتوار کی صبح ساڑھے تین  بجے) تک اسرائیلی حدود میں داخل ہونگے اور انکے استقبال کو ہم تیار ہیں۔

اسی کیساتھ امریکہ نے اسرائیل کے تحفظ کیلئے اردن، عراق و شام کی فضاوں پر حفاظتی چھتری (Aerial umbrella)تان دی۔ امریکہ، برطانیہ اور اردنی فضائیہ کے طیارے  فضا میں بلند ہوئے  اور ایرانی ڈرونوں کو روکنے کی کاروائی کاآغاز ہوا۔اسرائیلیوں کے اعتماد کا یہ عالم کہ چینل 12 نے ایرانی ڈرون ، راکٹ اور میزائیلوں کے اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے کی تفصیل اسکرین پر لگادی جسے ہر پانچ منٹ بعد updateکیا جارہا تھا۔

امریکہ کے دفاعی نظام نے اکثر ڈرون اور میزائیلوں کو اسرائیلی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی ناکارہ کردیا۔ اسرائیل کی فضا نصف شب کے بعد میزائل شکن مزاحمتی گولوں Interceptorکے دھماکوں سے گونچ اٹھی ۔ڈرون اور مزاحمتی گولوں کے تصادم سے آسمان پر پھلجڑی کا سمان بندھ گیا۔ مسجد اقصٰی اور گبند صحرا کے اوپر بھی یہی منظرتھا۔

ڈرون اور میزائیل داغے جانے کے فورآٍ بعد پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تہران نے  'قوام متحدہ کے چارٹر 51کے تحت کاروائی کی ہے جو تمام اقوام کو دفاع کاحق دیتا ہے، ہمارا مشن مکمل ہوگیا۔ایران کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا۔ ساتھ ہی کہا کہ 'اس معاملے میں امریکہ ٹانگ نہ اڑاے'

صبح پانچ بجے اسرائیل  میں خطرہ ٹلنے کے سائرن کیساتھ اعلان ہوا کہ 'میزائیلوں کی بارش تھم چکی اہے اور شہری اب معمول کی مصروفیات شروع کرسکتے ہیں' تھوڑی ہی دیر بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے ایران کا خوفناک حملہ ناکام بنادیا، انکے 99 فیصد ڈرون اور میزائیلوں کو اسرائیل نے اپنے 'اتحادیوں' کی مدد سے فضامیں ناکارہ کردیا ہے۔ترجمان کے مطابق ایک میزائیل گرنے سے صحرائے نقب (Negev Desert)کے شہر ارد یں ایک سات سالہ بچی شدید زخمی ہوئی اور جنوبی اسرائیل میں ایک فوجی اڈے کی عمارت کو معمول نقصان پہنچا۔

اس مشن کے نتیجے میں ایران نے یہ ثابت کردیاکہ اسکے ڈرون اور میزائیلوں کی پہنچ اسرائیل تک ہے۔ کم ازکم تین ایرانی میزائیل اسرائیلی اڈوں تک پہنچے اور F-35 طیاروں کے ایک اڈے کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تاہم اس سے صرف عمارت کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا۔ یعنی رت  جگے اور اعصاب شکن اضطراب کے سوا اسرائیلیوں کا کوئی خاص زِک نہ پہنچی۔آئرن ڈوم اور اس سے متعلقہ اخراجات چچا سام کے سر ہیں اسلئے مالی بوجھ بھی کوئی خاص نہیں۔

اس قسم کی کاروائی میں رازاداری کوکلیدی حیثیت حاصل ہے یعنی دشمن کو  بےخبری میں دبوچ کر ہی کاری ضرب لگائی جاتی ہے لیکن ایران کا ہر عمل انتہائی شفاف تھا۔ ایسا کیوں ہوا، اسکا جواب عسکری ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔

سات اکتوبر کے بعد یہ غزہ کی انتہائی پرسکون شب تھی کہ وہاں تعینات تمام بمبار طیارے اور خونی ڈرون ایرانی ڈرونوں اور میزائیلوں کا تعقب کررہے تھے۔ اس لحاظ سے یہ اس دوستانہ میچ  کا سب سے مثبت پہلو تھا



Wednesday, April 17, 2024

آزادی اظہار ۔۔۔ دہرا معیار

 

آزادی اظہار ۔۔۔ دہرا معیار  

کل امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ پم پاکستان میں آزادیٔ اظہار کے لیے کام جاری رکھیں گے۔

اور

آج صبح امریکہ کی موقر دانشگاہ جامعہ جنوبی کیلی فورنیا المعروفUSCکے نگراں کار (Provost)ڈاکٹر اینڈریو گُزمین نے 10 مئی کو ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد میں الوداعی خطاب یا Valedictorian خطاب منسوخ کردیاگیا

جلسہ تقسیم اسناد میں فارغ التحصیل ہونے والے سب سے لائق و فائق طالب علم کی طرف الوداعی خطاب امریکی جامعات کی روائت اہے۔ اس خطاب کیلئے طالب علم کا انتخاب اسکی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں اور دوسری صلاحیتوں کی بنیاد پر سینئیر اساتذہ کرتےہیں۔

جامعہ USC کے جلسہ تقسیم اسناد کے الوداعی خطاب کیلئے 100 طلبہ میں سے بنگلہ دیش نژاد طالبہ اثبا تبسم کا انتخاب ہوا اور جلسے کے دعوت نامے میں اثنا کا نام بھی شایع کردیا گیا

مخصوص گروہ کی جانب سے گزشتہ دنوں 'انکشاف'  ہوا  کہ اثنا نے غزہ میں اسرائیلی کاروائی کو سوشل میڈیا پر  نسل کشی قراردیا ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں میں نہ صرف شرکت کرتی ہےبلکہ دوست احباب کو بھی ساتھ لیکر کر جاتی ہے۔

آج پرووسٹ صاحب نے اثنا کالوداعی خطاب منسوخ کرتے ہوئے فرمایا کہ 'بات آزادی اظہار رائے کی نہیں بلکہ جامعہ، اسکے طلبہ،اساتذہ اور جلسہ تقسیم اسناد میں شریک ہونے والے 65 ہزار افراد کی سیفٹی کا ہے۔

پانچ منٹ کی تقریر سے معلوم نہیں کیا قیامت ٹوٹ پڑتی



Thursday, April 11, 2024

عید آزاداں، شکوہ ملک و دیں ۔۔ عید محکوماں ہجومِ مومنیں

 

ہمارا ہفتہ وار کالم

 عید آزاداں، شکوہ ملک و دیں ۔۔ عید محکوماں ہجومِ مومنیں

گزشتہ چھ ماہ سے یہ کیفیت ہے کہ جب بھی کچھ لکھنے بیٹھے غزہ کے علاوہ اور کوئی موضوع سوجھتا ہی نہیں۔ دودن پہلے ہم نے  اپنے اس 'خللِ دماغ' کا فرائیڈے اسپیشل کے ایک ذمہ دار  سے ذکر کیا تو موصوف بولے 'ہماری بھی یہی حالت ہے  یعنی ہوئی جن سے توقع خستگی میں داد پانے کی ۔۔ وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہِ تیغِ ستم نکلے

یہ تحریر جس و قت قلمبند کی جارہی ہے اسکے ایک دن بعد دنیا بھر میں افق پر عید کا چاند تلاش کیا جارہا ہوگا۔یہ خیال آتے ہی ہمیں علامہ اقبال کا وہ شعر یاد آگیا جسے ہم نے سرنامہِ کلام بنایا ہے۔  اس وقت اس کرہ ارض پر بحیرہ روم کے کنارے آباد تنگ سی غزہ نامی پٹی کے سوا ساری دنیا، سامراج کے زیراقتدارو زیراثر بلکہ محکوم ہے۔

مکمل تباہی اور بھوک کے باوجود غزہ میں مایوسی نام کو نہیں۔استقبالِ رمضان کیلئے بچوں نے اپنے خیموں کو برقی قمقموں سے سجایا تھا اور اب عیدالفطر کی تیاری بھی اسی جوش و خروش سے ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں  کاکہنا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں سارا غزہ  تلاوت قرآن سے  گونجتا بلکہ جھومتا نظر آرہا ہے۔ ایک کارکن کا کہنا تھا کہ تاریک راتوں میں جب بچے اور بچیوں کی خوش الحانی کانوں میں اطمینان کا  رس گھول رہی ہو،  اس وقت اسرائیلی بموں اور توپوں کے دھماکوں سے پردہ سماعت پر جو کراہیت طاری ہوتی ہے اسکا اظہار ممکن نہیں۔ جنکے اسلاف تلواروں کے سائے میں سجدے کیا کرتے تھے  وہ بموں کی بارش میں تراویح اداکررہے ہیں۔

غزہ میں سحر و افطار کی بھی اپنی ہی شان ہے، جنگلی گھاس سے بنی چٹنی کیساتھ روٹی کے دونوالوں کی سحری اور افطار میں گھاس کا سوپ۔ سوپ کو'خوش مزہ' بنانے کیلئے اس پر لیمون کے چند قطرے چھڑک لئے جاتے ہیں۔ آبنوشی کے ذخائر یاتو تباہ ہوگئے یا ان میں بارود کی آمیزش ہے چنانچہ نالوں اور جوہڑوں کے پانی کو چھان کر پینے کے قابل بنالیا گیا ہے۔

اسکے باوجود طنطنے کا یہ عالم کہ جب صحافیوں نے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی سے قطر اور قاہرہ میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں پوچھا تو موصوف جھلا کر بولے ' ہم تو قیدیوں کی رہائی کے عوض جنگ بندی کیلئے تیار ہیں لیکن مستضعفین، غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ عرب مصالحت کاروں حتیٰ کہ اپنے میزبان (قطر) کی بات بھی نہیں مان رہے '۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق موساد کے سربراہ نے وزیراعظم نیتھن یاہو کو مطلع کر دیا ہے کہ طاقت کے بل پر قیدیوں کو چھڑانا ممکن نہیں اور نہ ہی بمباری کے ذریعے مستضعفین پر دباو موثر ہوگا۔اپنے پیاروں کی رہائی کیلئے اسرائیل کو لچک پیدا کرنی ہوگی جن میں شمالی غزہ کو گھیراو ختم کرنا شامل ہے۔ فوج کی سات اکتوبر پوزیشن پر واپسی کے معاملے کو بھی ہمیں ناک کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان سے اپنے فوجی دستے واپس بلالئے ہیں۔ پسپا ہوئی سپاہ کو مزاحمت کاروں نے راکٹوں کی سلامی پیش کی۔ تمام راکٹوں  کو امریکی ساختہ دفاعی نظام نے ناکارہ کردیا لیکن  اس 'واردات' نے  اسرائیلیوں کا یہ دعوی غلط ثابت کردیا کہ مزاحمت ماروں کے تمام راکٹ لانچر ٹھکانے لگادئے گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم سے فون پر بات کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ  امن مذاکرات جاری رکھنے کیلئے متاثرین کی اپنےگھروں کو واپسی کے معاملے پر اسرائیل کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ وہ عرض تو یہ کرنا چاہتے تھے کہ دلدل سے نکلنا ہے تو غزہ سے فوج واپس بلالو لیکن  یہ کہتے ہوئے  زبان جل جانے کاخطرہ تھا اسلئے مظلوم بے گھروں کی آڑ لے لی۔اور تو اور اب برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے بھی کہدیا کہ غزہ میں 'خوفناک' جنگ کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔ یہ وہی ذاتِ  شریف ہیں جو غزہ حملے کے بعد اسلحے سے لدے طیارے میں تل ابیب پہنچے اور نیتھن یاہو سے ہاتھ ملاتے ہوئے رعونت بھرے لہجے میں بولے Finish them all BB۔اسرائیلی وزیراعظم کو پیار سے بی بی پکارا جاتا ہے۔ امریکی کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینی پلوسی سمیت 57 ارکان کانگریس نے صدر بائیٖڈن کے نام خط میں مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کیلئے اسلحے کی فراہمی معطل کردیجائے۔

عبرانی ذرایع ابلاغ پر نقصانات کے جو تازہ اعداد وشمار شایع ہوئے ہیں اسکے مطابق  غزہ پر حملے کے بعد سے اسرائیل کے 600 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور اگر 7 اکتوبر کو مستضعفین کے حملے میں ہونے والے نقصانات کو  شامل کرلیا جائے تو تعداد 3000 سے زیادہ ہے جن میں کئی جرنیل بھی شامل ہیں۔  1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں تل ابیب کا جانی تقصاان 800 کے قریب تھا جبکہ 1973 کی 19 دن جاری رہنے والی جنگِ کپور المعروف جنگ رمضان میں 2500 صیہونی سپاہی مارے گئے۔ وزیراعظم نیتھن یاہو کی جانب سے کامیابی اور دشمن کو کچل دینے کے دعویٰ اپنی جگہ لیکن فوج میں اضطراب، تھکن اور جھنجھلاہٹ کے آثار بہت واضح ہیں۔ اسرائیلی عسکری انٹیلیجنس کے سربراہ میجر جنرل ہارون خلیفہ (Aharon Haliva) نے اپنے کمانڈروں سے گفتگو  کرتے ہوئے صاف صاف کہدیاکہ 'ہمیں پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے جبکہ برا وقت جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا' (حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)

جمعۃ الوداع کو مزاحمت کاروں نے تابڑ توڑ حملے کرکے کئی ٹینکوں کو تباہ اور 14 اسرائیلی سپاہیوں کوہلاک کردیا۔ اسرائیلی فوج کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ خان یونس میں  مزاحمت کار ایک سرنگ سے اچانک نکلے اور وہاں سے گزرتے فوجی قافلے کو نشانے پر ر کھ لیا۔اس کاروائی  میں کپتان سمیت چار اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ خلیجی میڈیاکے مطابق علاقے میں اسرائیلی ٹینکوں کے ایک قافلے کو بھی نشانہ بنایا گیا اور جلتے ہوئے ٹینکوں میں  14فوجی جھلس کر ہلاک ہوگئے۔ غزہ کی سرنگیں اسرائیلی فوجیوں کیلئے ڈراونا خواب بن گئی ہیں۔ جعلی سرنگیں انکے لئے آگ کے الاو تو سانپ کی طرح پھیلی اور بل کھاتی 'اصلی' سرنگوں سے اچانک موت کے فرشتے نمودار ہوجا تے ہیں  

اسرائیلی حکمرانوں کی پریشانی ذرایع ابلاغ پر قدغن سے بھی ظاہر ہورہی ہے۔ غزہ کے بارے میں اسرائیلی فوج کے شعبہ اطلاعات سے منظوری کے  بغیر کچھ چھاپنے یا دکھانے کی اجازت نہیں۔ یکم اپریل کو اسرائیلی کنیسہ نے غیرملکی ذرائع ابلاغ کو بند کرنے کا قانون دس کے مقابلے میں 70 ووٹوں سے منظور کرلیا۔ اسکا اصل ہدف چونکہ الجزیرہ ہے اسلئے یہ قانون الجزیرہ ایکٹ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بل فروری میں پیش ہواتھا لیکن پہلی خواندگی (reading) کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑگیا۔ اب عجلت کا یہ عالم کہ وزیراعظم  نے جو ہرنیا کے آپریشن کیلئے ہسپتال میں تھے، بستر علالت سے اپنی پارٹی کے whipکو ہدائت کی کہ بل کی فوری منظوری کیلئے تمام جماعتوں سے رابطہ کیا جائے۔ قانون کے تحت ملکی سلامتی کے خلاف خبریں نشر اور شائع کرَے والے غیر ملکی اداروں پر 45 دن کی پابندی لگائی جاسکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر بندش کا دورانیہ بڑھایا بھی جاسکے گا۔

نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اسرائیل کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے کولمبیا نے نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت (ICJ)کے روبرو جنوبی افریقہ کی درخواست میں فریق بننے کی استدعا کردی۔عدالت کے نام خط میں کہا گیا ہے کہ کولمبیا کے عوام فلسطینیوں کی نسل کشی پر سخت مضطرب ہیں، ہمیں بھی اپنا موقف پیش کرنے اجازت دی جائے

دنیا کی بیچینی کے ساتھ، حکومتوں کے جبر کے باوجود عرب ممالک میں جذبات کے عوامی اظہار کی خبریں بھی آرہی ہیں۔جمعہ الوداع پر مظاہروں کا ذکر جو تین مختلف شہروں میں ہوئے لیکن ردعمل بالکل ایک ساتھا۔ مسجد اقصٰی میں نماز کے بعد لوگوں نے القدس ہمارا ہے کہ نعرے لگائے جس پر 16 افراد کو اسرائیلی فوج نے گرفتار کرلیا۔ عین اسی وقت  قاہرہ میں بھی لوگ سڑکوں پر تھے ۔ پولیس نے 10 افراد کو نیتھن یاہو کے خلاف توہین آمیز کتبے لہرانے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔اسی دوران اردن کے دارالحکومت عمان میں ہزاروں افراد نے اسرائیلی سفارتخانے کی عمارت پر دھرنا دیا جنکا مطالبہ تھا کہ تل ابیب سے تعلقات توڑ لئے جائیں ۔ لاٹھی چارج اورآنسو گیس استعمال کرکے مجمع کو منتشر کرنے کےساتھ 10 مظاہرین دھر لئے گئے۔

نوشتہ دیوار دیکھتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی 'تعاون' معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ریاض نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات پر رضامندی کی دوٹوک تردید کرتے ہوئےکہا کہ جب تک 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزادو خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوجاتی، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوہفتہ قبل خبر آئی تھی کہ سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ سے فون پر گفتگو میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔دوسری جانب  اسپین کے وزیراعظم پیدرو سنچیز نے اعلان کیا کہ  انکا ملک جولائی تک فلسطین کو آزادوخودمختار ریاست تسلیم کرلیگا۔

غزہ میں امداد تقسیم کرنے والی غیر سرکاری امریکی تنظیم  ورلڈ سینٹرل کچن کے کارواں پر حملے کا مغربی دنیا سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ یکم اپریل کو ہونے والے اس واقعہ میں سات کارکن ہلاک ہوئے۔ان لوگوں کا تعلق آسٹریلیا، پولینڈ، کینیڈا، برطانیہ اور فلسطین سے تھا۔اسرائیل کی جانب سے غلطی کے اعتراف اور دو فوجی افسران کی برطرفی  آسڑیلیا اور پولینڈ کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی۔ پولستانی وزیراعظم نے کہا کہ یہ اقدامات کافی نہیں، مارے جانے والے ہمارے شہری کے ورثا کو ہرجانہ ادا کیا جائے۔ ورلڈ سینٹرل کچن کے بانی ہوزے آندرے (José Andrés ) کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا غزہ آپریشن درحقیقت انسانیت کے خلاف جنگ ہے۔

ملکی اور غیر ملکی دباو کے باوجود نیتھن یاہو اور انکے قدامت پسند اتحادیوں کی رائے تبدیل ہوتی نظر نہیں آتی اور اہل غزہ کو آتش و آہن سے شکست دینے میں ناکامی پر وہ بھوک کا ہتھیار استعمال کرنے کیلئے پرعزم نظرآتے ہیں۔ صدر بائیڈن سے انکی گفتگو کے بعد اسرائیلی کابینہ نے غزہ میں انسانی امداد کے لئے اشدود کی بندرگاہ استعمال کرنے اجازت دیدی ہے۔ اسی کیساتھ شمال میں معبر بیت حانون (Erez Crossing)اور جنوب میں معبر کریم ابوسالم (Karem Sholom Crossing)بھی کھول دی جائیگی۔اشدود کی بندرگاہ Erezکراسنگ کے قریب ہے جہاں سے الخدمت اور مسلمان ممالک کے دوسرے رفاحی اداروں کیلئے امداد پہنچانا مشکل ہے کہ مسلم دنیا کا بڑا حصہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔کریم ابوسالم اردن سے قریب ہے لیکن وہاں بھی راستے میں اسرائیل کا بڑا علاقہ حائل ہے۔سب سے آسان راستہ مصری سرحد پر رفح کراسنگ ہے جسے اسرائیل نے بند کررکھا ہے۔

امریکی میڈیا کچھ اس طرح خبریں رہا ہے جیسے صدر بائیڈن کی ڈانٹ ڈپٹ نے اسرائیل کو معقولیت پر مجبور کیا لیکن معاملہ کچھ اور ہے یعنی صدر بائیڈن کی کمزور شخصیت اور سیاست میں انکے دوغلے پن سے فائدہ اٹھاکر اسرائیلیوں نے اپنا الو سیدھا کرلیا۔اب امدادی سامان مصر کے بجائے اسرائیل سے آئیگا جو انکے وفادار و سہولت کار فلسطینی اور عرب فوجی تقسیم کرینگے تاکہ مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں کی جاسوسی ہوسکے۔ اسکا ایک بڑا مقصد امداد کے نام پر رفح سے شہریوں کا انخلا ہے تاکہ حملے کی صورت میں اسرائیل اور امریکہ کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ مزاحمت کاروں سے جنگ میں اسرائیل شہری نقصان کم سے کم کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے

اور میک ڈونالڈ کے بائیکاٹ سے متعلق ایک دلچسپ خبر پر گفتگو کا اختتام۔۔۔۔ مک ڈونالڈز نے اسرائیل میں اپنے تمام ریستوران لائیسنس یافتہ (Franchise) ادارے سے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہاں  مک ڈونالڈ کے 225 ریستوران 30 سال سے ایک نجی کمپنی Alonyal Limited چلا رہی ہے۔ غزہ حملے کے آغاز پر مک ڈونلڈز نے اسرائیلی فوجیوں کو مفت KOSHER(حلال) برگر پیش کئے اور فوجی فاونڈیشن کو عطیہ بھی دیا۔ گزشتہ ہفتے میک ڈاولڈ کارپوریشن نے  تمام کے تمام 225 ریستوران  واپس خرید لئے۔ کمپنی  نے غیر مبہم وضاحتی بیان جاری کیا جس میں  کہا گیا ہے کہ  'مک ڈونلڈز کارپوریشن غزہ کے معاملے پر کسی بھی حکومت کی مالی اعانت یا حمایت نہیں کر رہی ہے ، اور ہمارے مقامی لائسنس یافتہ کاروباری شراکت داروں کی طرف سے تمام کارروائی میک ڈونلڈز کی منظوری کے بغیر آزادانہ طور پر کی گئی تھی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی ,ہفت روزہ دعوت دہلی , روزنامہ امت کراچی  12 اپریل 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 اپریل 2024، روزنامہ قومی صحافت لکھنو