Friday, April 19, 2024

اہل غزہ کی لہو رنگ عید

 

اہل غزہ کی لہو رنگ عید

اپنے خون  میں غسل کرتے اہلِ غزہ کی عید بھی  لہو رنگ رہی۔ آخری روزے کے افطار کے وقت سے شروع ہونے والا بمباری کا سلسلہ عید کے دن مغرب تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران 120 مقامات پر بمباری کی گئی۔بچی کھچی مساجد اور کھلے مقامات پر عید کے اجتماعات ان بمباروں کے خاص ہدف تھے۔

شمالی غزہ کے  پناہ گزینوں کے کیمپ مخیم الشاطی پر ٹھیک اسوقت حملہ کیا گیا جب وہاں لوگ عید مل رہے تھے۔ قائدِ غزہ اسماعیل ہانیہ کا خاندان ہدف تھااور انکے تین صاحبزادے  حازم، عامر اور محمد، ہانیہ صاحب کی تین پوتیاں اور ایک پوتے سمیت درجنوں افراد اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ایک دہشت گرد کاروائی کا منصوبہ بنارہے تھے۔اسماعیل ہانیہ نے 62 برس پہلے اسی کیمپ میں جنم لیااور یہاں  آباد انکا خاندان حملے کے آغاز سے ہی اسرائیل کے نشانے پر ہے۔ پہلے روز ایک حملے میں انکے بھائی اور بھتیجے سمیت خاندان کے 14 افراد مارے گئے۔ نومبر کے آغاز پر انکی جوانسال نواسی نشانہ بنی جسکے کچھ دن بعد ایک ڈرون انکے کم عمر نواسے کو چاٹ گیا۔سات اکتوبر سے اب تک ہانیہ خاندن کے 60 افراد قتل کئے جاچکے ہیں۔

عید کے دن ہونے والی کاروائی کی اطلاع جناب ہانیہ کو اسوقت ملی جب وہ قطر کے ایک ہسپتال میں اپنی اہلیہ کی عیادت کیلئے آئے تھے۔یہ خبر سنتے ہی انھوں نے اللہ کی حمد بیان کی اور کہا 'اللہ کا شکر کہ جس نے میرے خاندان کوشہادت کا افتخار عطا کیا۔ میرے بچوں کا لہو غزہ میں قتل کئے جانیوالے ہزاروں بچوں کے لہو سے زیادہ قیمتی نہیں تھا۔ہمارے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو قتل کرکے اگر دشمن سمجھتا ہے کہ ہم ہتھیار ڈالدینگے تو یہ انکی بھول ہے۔ غزہ کے بچوں کے پاک لہو نے فتحَ بیت المقدس کی تحریک کو مزید مقدس کردیا ہے۔' دعائیہ کلمات کے بعد ہانیہ صاحب نے عیادت جاری رکھی اور وہ مخصوص مسکراہٹ کیساتھ دعائے شفا پڑھتے ہوئے مریضوں کی پیشانیاں سہلاتے رہے۔ اپنی اہلیہ کو  تین بیٹوں اور پوتے پوتیوں کی شہادت کی اطلاع انھوں نے خود دی۔ خبر سنتے ہی بیگم اسماعیل ہانیہ نے ہاتھ بلند کرکے اپنے بیٹوں کی بلندی درجات کی دعا کی اور انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔

یہ توایک واقعہ تھا۔غزہ سے اسرائیلی فوج کی وحشت و بربریت کی ہولناک خبریں روز ہی آرہی ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے قتل عام کیساتھ طبی سہولیات کو ہدف بناکر تباہ کیا جارہاہے۔عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق اکتوبر کے آغاز سے اب تک انتہائی تجربہ کار ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 489افراد جاں بحق ہوئے،  600سے زیادہ زخمی اور310افراد گرفتار کرکے عقوبت کدوں کو بھیج دئے گئے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ ہسپتال اور شفاخانے تباہ ہوچکے ہیں جبکہ غیر موثر کردئے جانیوالی طبی مراکز کی تعداد 32 ہے۔ مشہور الشفا ہسپتال کے بڑے حصے کو سرنگ تلاش کرنے کے نام پر نذرآتش کردیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق ایمبیولینسوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے اور کم ازکم 126ائمبیولینسوں کو اسوقت نشانہ بنایا گیا جب ان میں مریض سوار تھے۔

بچوں اور خواتین کے قتل عام، گھروں میں گھس کر سامان کی توڑ پھوڑ اور وہاں موجود نہتی خواتین سے نازیبا حرکتوں کی خبریں بھی عام ہیں اور بے شرمی کی انتہا کہ ناشائستہ سمعی و بصری تراشے  اسرائیلی سپاہی سوشل میڈیا پر خود پیش کررہے ہیں۔ ان خبروں اور تراشوں سے دنیا بھر کے سلیم الفطرت انسان تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس تشویش کا 'دف' مارنے کیلئے اب اسلای انتہا پسندی کا کارڈ کھیلا اور اسلامو فوبیا کو ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے۔ 23 مارچ کو ماسکو کی رقص گاہ میں ہونے والی کاروائی سے اس نئے مہم کا آغاز ہوا ہے جس میں 145 قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ ماسکو واردات کے ملزمان تو مسلمان اور مبینہ طور پر داعش سے وابستہ ہیں لیکن چاروں ملزمان فرار ہوتے ہوئے یوکرین کی سرحد کے قریب سے گرفتار ہوئے اور روسی خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ پورا ٹولہ یوکرین سے آیا تھا۔یورپ میں کئی جگہ دہشت گردی کے خطرات کو بہانہ بنا کر فلسطین کے حق میں مظاہروں پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ جگہ جگہ معبدوں اور گرجا گھروں کے قریب 'مشتبہ سرگرمی' کے شوشے عام ہیں۔

جمعرات 11 اپریل کو کانگریس کی ذیلی کمیٹی برائے تفویض (Appropriation)کے روبرو وفاقی ادارہ تحقیقات (FBI)کے سربراہ کرسٹوفر رے نے  امریکہ میں ماسکوکی طرز کی ایک خوفناک اور بہت ی منظم دہشت گردکاروائی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ضروری قانون سازی پر زور دیا۔ اس سے موصوف کی مراد 9/11 کے بعد منظور کئے جانیوالاغیر ملک سراغرسانی و نگرانی ایکٹ یا FISA تھا، جسکی صدر بائیڈن تجدید چاہتےہیں۔ اس قانون کے تحت امریکی اہلکار امریکہ اور امریکہ سے باہر بلا وارنٹ کسی بھی غیر امریکی کی نقل و حرکت کی نگرانی کرسکتے ہیں جس میں فون ریکارڈنگ اور برقی خط وسوشل میڈیا کی جاسوسی شامل ہے۔ 

اہل غزہ کی منظم نسل کشی کیساتھ اسرائیل کے طول و عرض میں قیدیوں کی واپسی کیلئے مظاہرے جارے ہیں، چھ ماہ مکمل ہونے پر تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ جلوس میں شامل لواحقین فریاد کررہےتھے کہ 'بی بی جی!! جنگ بند کرو، ہتھیار رکھو، ہتھیار ڈالو، غزہ سے واپس آجاو، سارے فلسطینی قیدی رہا کردو یا اور جو کچھ ممکن ہے کرو لیکن ہمارے پیاروں کو دوبارہ ہم سے ملادو'۔ ایک بڑے بینر پر لکھا تھا 'بائیڈن ! ہمارے قیدیوں کو نیتھن یاہو (کی انا سے) بچاو'

بی بی کیلئے دلدل سے نکلنا اتنا آسان نہیں۔انکے قدامت پسند اتحادی 'فتح مبین' یعنی رفح کی پامالی اور مستضعفین کے مکمل خاتمے سے کم پر راضی نہیں۔ دودن پہلے انکے اہم شراکت دار اتامر بن گوئر نے کہا کہ ' اگر وزیر اعظم رفح پر حملے اور دشمن کو فنا کئے بغیر جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انکا حق حکمرانی(مینڈیٹ) ختم ہوجائیگا۔ 120 رکنی پارلیمان میں جنگجو انتہاپسندوں کی 14نشستیں، نیتھن یاہو کی حکومت گرانے کیلئے کافی ہیں۔

دوسری طرف اسرائیلی حزب اختلاف اور قیدیوں کے لواحقین ابتدا ہی سے شاکی ہیں کہ وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی کو اپنے قیدیوں کی بحفاظت واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بی بی اپنے جرنیلوں پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ قیدیوں کو طاقت کے بل پر رہا کرایا جائے اور اس کوشش میں کم از کم پانچ قیدی خود اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

انکی خودغرض طبیعت کا بھانڈہ 11 اپریل کو اس وقت پھوٹ گیا جب مشہور اینکر محترمہ الانا دایان Ilana Dayanنے چینل 12 پر اپنے پروگرام 'حقیقت '(عبرانی حفضہ یا Uvda)پر اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے دو سینئر ارکان کی گفتگو نشر کی۔ جنھوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کیلئے Aاور D کے فرضی نام استعمال کئے۔ انکی تصاویر دھندلی اور آواز بدل دی گئی تھی۔

دونوں نے انکشاف کیا کہ 'نیتن یاہو اسرائیلی قیدیوں کی قسمت کے بارے میں لاتعلق دکھائی دیتے ہیں اور انکے اس روئے کی وجہ سے رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ بی بی عوام کے سامنے جو بیانیہ رکھ رہے پیں وہ انکے عملی اقدامات سے بالکل مختلف ے۔

دسمبر کے بعد سے ہمیں اشارے ملنے لگے تھے کہ وزیراعظم مذاکرات نہیں چاہتے اور جنوری کے اختتام پر ہمیں یقین ہوگیا کہ وزیراعظم مذاکرات کی کامیابی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں بی بی کے روئے کو 'سرد بے حسی' کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔سفارتی حکمت عملی کے باب میں نیتن یاہو نئے خیالات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

الانا کے ایک سوال کے جواب میں D کھل کر بولے "یہ کہنا مشکل ہے کہ نیتن یاہو کے بغیر (اب تک) کوئی معاہدہ ہوچکا ہوتا، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نیتن یاہو کے بغیر، معاہدہ کرنے کے امکانات بہتر ہوں گے" ۔ D نے مزید کہا ''ایسا کئی بار ہوا کہ ہمیں دن میں مینڈیٹ ملا اور پھررات کو وزیر اعظم نے فون کرکے کہا 'ایسا مت کہو، یہ شرط نہ مانو، اس کی اجازت نہ دو'

D صاحب کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے حکم پر اسرائیلی ٹیم ناممکن مطالبات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے، جیسے مارچ میں زندہ یرغمالیوں کی فہرست کا مطالبہ، جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ اہل غزہ راضی نہیں ہونگے۔ یہ مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز تھا، اسلئے کہ ہمارے پاس پہلے سے یہ فہرست موجود ہے۔ معلوم نہیں ہم مستضعفین سے یہ مطالبہ کیوں کررہے ہیں۔

جناب A نے جذباتی انداز میں کہا'جب مجھے احساس ہوا کہ ریاست وہ سب کچھ نہیں کر رہی جو وہ کر سکتی ہے، تو میں رو پڑا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ معاہدہ ہونے تک کون زندہ ہوگا یا کیا باقی وہ جائیگا'

'قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ دوماہ پہلے ہوسکتاتھا، میں قوم کو کیسے بتاوں کہ خاکم بدہن، قیدیوں کی رہائی کا وقت ختم ہو نہیں رہا بلکہ ختم ہو چکا'

بی بی نے فلسطینیوں سے نفرت کی آگ بھڑکاکر اسرائیلی قوم کو عدم برداشت کی جس کھائی میں گرادیا ہے اسکی ایک مثال پر گفتگو کا اختتام۔اسرائیلی پولیس جامعہ تل ابیب کی سینئر لیکچرر ڈاکٹر اناث مطار (Anat Matar)کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے الزامات کی تحقیق کررہی ہے۔ ڈاکٹرمطار ایک راسخ العقیدہ یہودی اور 2004 سے یہاں فلسفے کی لیکچرر ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پر الزام ہےکہ انھوں نے ممتاز فلسطینی ادیب و دانشور ولید دقہ کے وفات پر انکے خاندان سےتعزیت کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا کہ 'ڈاکٹر دقہ میرے عزیز دوست اور حوصلہ مندی کا استعارہ تھے'۔ ڈقہ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کاٹ رہے تھے کہ 7 اپریل کو انکا دوران حراست انتقال ہوگیا۔ ولید دقہ نے بی اے اور ایم اے جیل سے کیا۔ پی ایچ ڈی میں انکی ایڈوائزر ڈاکٹر مطار تھیں لیکن تکمیل سے پہلے ہی دقہ مرحوم چل بسے۔

فیس بک پوسٹ دیکھ کر جامعہ کے انتہاپسندوں سے زبردست مظاہرہ کیا۔ انکا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر اناث مطار کو ولید دقہ کی خالی کوٹھری بھیج دیاجائے۔ خبر ہے کہ جامعہ نے تحقیقات مکمل ہونے تک ڈاکٹر صاحبہ کو بلاتنخواہ جببری تعطیل پر بھیج دیا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ جامعات ٹحقیق و جستجو کا مرکز ہوتی ہیں اور آزادی اظہار کے بغیر محققین کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ستم ظریقی نے امریکی و یورپی ماہرین تعلیم کا اب تک اس حوالے کو کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، ہفت روزہ دعوت دہلی، روزنامہ امت کراچی 19 اپریل 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 1 اپریل 2024، روزنامہ قوم صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment