Thursday, November 28, 2024

 

عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم کا پروانہ گرفتاری جاری کردیا

یورپی ممالک اور کنیڈا پر نیتھن  یاہو کے دروازے بند

اسرائیلی وزیراعظم کی  خفیہ ادارے شاباک سے جھڑپ

ابوظہبی میں اسرائیلی ربائی (امام) کا قتل

بائیڈن انتطامیہ سے نیتھن یاہو کا شکوہ

قیدی چھڑانے کیلئے مزاحمت کاروں کی شرائط ماننی ہونگی۔ اسرائیلی خفیہ ادارے کی رائے

اسرائیلی قائد حزب اختلاف کی جانب سے امن کیلئے سعودی ثالثی کی تجویز

عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے 21 نومبر کو غزہ نسل کشی کے مبینہ ملزمان اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو، سابق وزیر دفاع یعقوب گیلینٹ اور حماس کے ابراہیم المصری المعروف ابو ضیف کے پروانہ گرفتاری جاری کردئے مستغیث اعلیٰ (Prosecutor) کریم خان نے اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کے وارنٹ جاری کرنے کی بھی استدعا کی تھی لیکن ان دونوں حضرات کی شہادت کے بعد ججوں نے اسے غیر موثر قرار دیدیا۔اسرائیلی حکام کے مطابق محمد ضیف بھی اب حیات نہیں لیکن اس حوالے سے مصدقہ اطلاع نہ ہونے کے باعث ضیف صاحب کو بھی حراست میں لینے کا حکم جاری کردیا گیا۔

فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ 'اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیاد موجود ہے کہ نیتن یاہو اور یعقوب گیلنٹ غزہ کی شہری آبادی کے خلاف وسیع و منظم حملوں، قتل و غارتگری کیساتھ  بھوک و فاقہ کشی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں'۔ پروانہ گرفتاری کی وجوہات بیان کرتے ہوئے آئی سی سی کے ججوں نے مزید کہاکہ 'منظم ناکہ بندی کے نتیجے  میں  خوراک، پانی، بجلی، ایندھن اور طبی سامان کی کمی نے غزہ کے ایک حصے کو انسانی زندگی کے لئے غیر موزوں بنادیا ہے۔ غذائی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے بچوں سمیت لاتعداد شہری ہلاک ہوئے۔ یہ اقدامات ججوں  کے خیال میں انسانیت کش جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں'

ابوضیف  کے وارنٹ میں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے،  عصمت دری اور یرغمالیوں کو یرغمال بنانے کے الزامات شامل ہیں۔ٍ ابراہیم المصری ابو ضیف کو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور غزہ کی جنگ شروع کرنے کا مبینہ ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے۔تینوں ملزمان پر انسانیت کے خلاف اور جنگی جرائم کے یکساں الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حالیہ قدم  پروانہ گرفتاری کا حکم ہے  اور مقدمے کا حتمی فیصلہ نہیں۔

حسب توقع اسرائیل اور امریکہ نے فیصلے پر سام دشمنی (Antisemitic) کا فتویٰ جڑ دیا۔ قومی سلامتی کے امریکی ترجمان نے کہا کہ 'یہ معاملہ ICCکے دائرہ اختیار سے باہر ہے' فیصلے کے فوراً بعد قصرِ ابیض کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ عالمی فوجداری عدالت کی طرف سے پروانہ گرفتاری کا اجرا شرمناک ہے۔اس اسے ایک روز پہلے امریکی سینیٹ کے نو منتخب قائد ایوان جان تھیون (Jogn Theon)نے دھمکی دی تھی کہ اگر ICC نے اسرائیلی قیادت کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ عالمی عدالت کے ججوں اور مستغیثِ اعلیٰ  کریم خان پر پابندی لگانے کا بل منظور کراینگے۔

قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ قانونِ روم یا Rome Statute of the International Criminal Courtمجریہ 1998 کے 125 دستخط کنندگان میں امریکہ، اسرائیل ، روس، چین، پاکستان اور ہندوستان شامل نہیں۔

آئی سی سی کے وارنٹ جاری ہونے سے دودن پہلے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس کی آنے والی کتاب 'امید کبھی نہیں مرتی، بہتر دنیا کی جانب ایک مقدس سفر'  سے جو اقتباس ویٹیکن نے جاری کئے اسکے مطابق پاپائے روم  نے اس کتاب میں عالمی ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھا ہے کہ کیا اسرائیل، غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہورہاہے؟ اور خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ 'تحقیقات کرائی جائے'

آئی سی سی کے فیصلے پر ہنگری کے سوا سارے یورپ کا ردعمل مثبت ہے۔ ہالینڈ کے وزیراعظم نے ایک بیان میں کہا کہ انکا ملک ICCکی خودمختاری اورقانونِ روم کا احترام کرتا ہے۔ہالینڈ،گرفتاری کے وارنٹ پرکاروائی کریگا۔اسی بنا پر اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے ہالینڈ کا دورہ منسوخ کردیا ہے۔ اپنی ہم منصب کی دعوت پر انھیں اگلے ہفتے ایمسٹرڈیم آنا تھا۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس آئی سی سی کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر نیتن یاہو فرانس آتے ہیں تو کیا حکومت انہیں گرفتار کرے گی تو ترجمان نے no commentsکہہ کر بات ختم کردی۔ کینیڈاا،ناروے، برطانیہ اور آئرلینڈ نے بھی فیصلے پر عملدرآمد کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کے ذمہ دار برائے خارجہ امور جوزف بوریل نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ایک متفقہ فیصلہ ہے اور تمام ریاستیں جن میں یورپی یونین کے تمام ارکان شامل ہیں، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہیں۔ہنگری نے پروانہ گرفتاری کے اجرا کو  شرمناک اور مضحکہ خیز قراردیا ہے۔ وزیراعظم وکٹر اوربن کے ترجمان نے کہا کہ فیصلے میں دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والے ملک کے رہنماؤں کو دہشت گرد تنظیم کے رہنماؤں کے برابر کھڑا کرکے بین الاقوامی عدلیہ کی توہین کی گئی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل  نے وارنٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ 'انصاف کے شکنجے نے بالآخر ان لوگوں کو جکڑل ہی لیا جو فلسطین اور اسرائیل میں جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ان گھناونےجرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے کوئی 'محفوظ پناہ گاہ' نہیں ہو نی چاہیے۔بیانات کی حد تک کو معاملہ ٹھیک ہے لیکن کیا یورپی ممالک، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور نیوزی لینڈ وارنٹ کی تعمیل میں اپنا مخلصانہ کردار اداکرینگے، ہہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

جہاں تک غزہ نسل کشی کا تعلق ہے تو بائیڈن انتظامیہ اپنے آخری ایام میں بھی اسرائیلی سہولت کاری کیلئے کمر بستہ نظر آرہی ہے۔ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکہ نے ایک بار پھر ویٹو کردی۔ یہ تحریک  کونسل کے دس غیر مستقل ارکان کی طرف سے پیش کی گئی جسکے حق میں پندرہ میں سے 14 ارکان نے ہاتھ بلند کئے لیکن چچا سام کے اکلوتے ووٹ نے قرارداد کو غیر موثر کردیا۔ اسی روز اسرائیل کو ٹینک کے گولوں کی فراہمی روکنے کی قرارداد امریکی سینیٹ نے 18 کے مقابلے میں 79 ووٹوں سے مسترد کردی۔ برنی سینڈرز سمیت صرف ایک تہائی ڈیمو کریٹس نے قرارداد کی حمائت کی اورفلسطین دشمنی میں ڈیموکریٹس و ریپبلکن یکجان نظر آئے۔

دلچسپ بات کہ بے شرمی کی حد تک غیر مشروط حمائت کے باوجود ظالم محبوب کی طرح 'بی بی' خوش نہیں۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں تقریر کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ '(غزہ مہم کے ہر پہلو پر ) امریکہ کو اعتراض تھا۔ انکی تجویز تھی کہ ہم غزہ میں داخل نہ ہوں۔انھیں ہمارے غزہ شہر اور خان یونس میں داخلے کے بارے میں تحفظات تھے۔ صدر بائیڈن نے ر فح پر اسرائیلی فوج کے حملے کی سخت مخالفت کی'۔ نیتھن یاہو کے مطابق امریکی حکومت نے اہم ہتھیاروں کی ترسیل روک دینے کی دھمک دی لیکن میں نے ان سے دوٹوک کہا 'اسلحہ نہ ملا تو ہم اپنے ناخنوں سے لڑیں گے'۔ جھوٹ اور شیخی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ صدر بائیڈن نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے 2000 پاونڈ بموں کی ترسیل روکی اور وہ بھی صرف ایک ہفتے کیلئے۔ ناخنوں سے لڑنے کی لاف زنی سے نیتھن یاہو معلوم نہیں کس کو بے وقوف بنارے ہیں کہ اسرائیلی فوج کیلئے ڈائپرز بھی امریکہ بھیج رہا ہے۔

ایک طرف بی بی کا شکوہ تو دوسری جانب امریکی ہند بحرالکاہل کمان (Indo-Pacific Command)کے سربراہ ایڈمرل سام پاپارو نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے نتیجے میں امریکی فوج کے لئے مختص اسلحے کے ذخائر سکڑ گئے ہیں۔مرکز دانش، بروکنگز انسٹی ٹیوٹ (Brookings Instituteمیں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر البحر نے کہا کہ کہ پیٹریاٹ اور فضا سے زمین میں مار کرنے والے میزائل بڑی تعداد میں استعمال ہوچکے اور ان اہم اثاثوں کے ذخائر میں کمی محسوس کی جارہی ہے۔

بدترین بمباری،  اور غزہ وبیروت کو تباہ کردینے کے باوجود نہ تو نہتوں کی مزاحت کمزور پڑی اور نہ اسرائیل اپنے قیدی رہا کراسکا۔لبنان سے راکٹوں، میزائیلوں اور ڈرونوں کی بارش بھی جاری ہے۔لبنانی راکٹوں نے کریات شمعونہ، حیفہ، الخلیل، رمعات گن اور شفا عمروکے بڑے حصے کو کھنڈر بنادیا ہے۔

گزشتہ ہفتے تل ابیب کے ایک تہہ خانے میں قیدیوں کی رہائی پر غور کیلئے وزیراعظم نیتھن یاہو نے ایک خصوصی اجلاس طلب کیا۔ بیٹھک میں خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet)کے سربراہ ران بار، فوج کے سربراہ جنرل حرزی حلوی اور موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ برنی نے شرکت کی۔ گفتگو کے دوران فوج اور خفیہ اداروں کے سربراہوں نے وزیراعظم کو مطلع کردیا کہ طاقت کے بل پر قیدیوں کو چھڑانا ممکن نہیں۔ مسلسل قید اور کم خوراکی کی بنا پر یرغمالیوں کی حالت خراب ہے اورانکے لئے موسم سرما حراست میں گزارنا بے حد دشوار ہوگا۔ شاباک کے سربراہ کا خیال ہے کہ 'مزاحمت کاروں کی شرائط مان لینے کے سواقیدیوں کو چھڑانے اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا'

ہدف کے حصول میں ناکامی نے وزیراعظم نیتن یاہو کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ پیدا کردی ہے۔خفیہ اداروں سے انکی توتڑاخ کی داستانیں عام ہیں۔گزشتہ ہفتے جب حساس خفیہ دستاویز افشا کرنے کے الزام میں شاباک کی درخواست پرعدالت نے وزیراعظم کے ترجمان ایلی فینسٹائین پر فردِ جرم عائد کی تو نیتھن یاہو پھٹ پڑے اور اپنے ایک بصری پیغام میں کہا کہ معلومات افشاکیس میں گرفتار ہونے والوں کیساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ فوج اور شاباک نے معلومات پر پابندی کے حکم المعروف Gag orderکی آڑ لیکر حساس معلومات تک میری رسائی روکدی ہے حالانکہ آئین کے تحت وزیراعظم کو اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔

اسی کیساتھ قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے غزہ اور لبنان میں جنگ بندی، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں پائیدار امن کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔تل ابیب کے موقر مرکز دانش متوِم انسٹیٹوٹ (Mitvim Institute)میں تزویراتِ امید (Strategy of Hope)کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب لیپڈ نے کہا کہ اتحادی سیاست، علاقوں کے الحاق کا خبط اور غزہ کی اسرائیل سے وابستگی کے مذہبی تصورات کی وجہ سے بی بی جنگ کو طول دے رہے ہیں۔قائد حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ حقیقی فتح سفارتی پیش رفت سے ہی حاصل ہوگی۔

یارلیپڈ کے خیال میں لبنان اور غزہ میں جاری لڑائی کے خاتمے، ایران کے جوہری عزائم کے خلاف خطے کو متحد کرنے، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات اور اسرائیل سے "مستقبل کی علیحدگی" کے لئے مقتددہ فلسطین (PA) سے مذاکرات وقت کی ضرورت ہے۔ جناب لیپڈ نے اس مقصد کے لیے ریاض میں ایک علاقائی کمیشن کا منصوبہ تجویز کیا۔ یار لیپڈ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو امن کے لیے ایک موقع قرار دیتےہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی انتظامیہ ہے جو فیصلہ کن اقدامات سے نہیں ڈرتی۔

غزہ، غربِ اردن اور لبنان میں ہونے والے مظالم کا ردعمل اسرائیل سے باہر بھی محسوس ہورہا ہے۔ اکیس نومبر کو ابوظہبی سے لاپتہ ہونے والے خبد (Chabad) ربائی (امام) زی کوگن (Zvi Kogan)کی لاش تین دن بعد العین سے برآمد ہوگئی۔ خبد،حریدی فرقے کے اعلیٰ ترین خاندان سے تعلق رکھنے والے ائمہ، حفاظ توریت اور تالمود(ئہودی فقہ) کے شارحین ہیں۔ربائی کوگن کے پاس اسرائیل اور مالدووا کی دہری شہریت تھی۔ اٹھائیس سالہ ربائی، امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ ابوظہبی آگئے اور یہاں وہ Rimonکے نام سے میں کوشر (حلال) اشیائے خوردنی کی دوکان چلاتے تھے۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق چند ازبک نوجوانوں نے انھیں اغوا کرکے قتل کیا اور مبینہ طور پر ترکیہ فرار ہوگئے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپپشل 29 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 29 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم دسمبر 2024


Thursday, November 21, 2024

 

ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اسرائیلی بربریت میں شدت آگئی

 اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب نہیں ہورہا۔ امریکی وزارت خارجہ

اسرائیلی وزیراعظم کی نجی رہائشگاہ پر برقِ بلا کوند گئی

ہالینڈ اور فرانس میں غزہ نسل کشی کے خلاف پرعزم مظاہرے

اسرائیلی خفیہ ایجنسی میرے والد کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ فرزندِ اول کا الزام

اسرائیلی عوام غارتگری سے اکتا گئے

انتخابی مہم کے دوران جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے غزہ مزاحمت کاروں کو دھمکی دی تھی کہ اگر انکے اقتدار سنبھالنے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے اور انکا انجام بہت براہوگا۔ بدھ 13 نومبر کو صدر بائیڈن کی دعوت پر نومنتخب صدر ڈانلڈ ٹرمپ، قصر ابیض تشریف لائے۔ اس موقع پر، اور موضوعات کے علاوہ بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جان سولیون نے جناب ٹرمپ کو غزہ اور لبنان کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ملاقات کے بعد جناب ٹرمپ نے اپنی دھمکی دہرائی کہ 'اگر میرے عہدہ سنبھالنے تک امریکی قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی'

ڈانلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سے غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کر گئی ہے۔ کلسٹر اور بنکر بسٹر بمبوں کی بارش کیساتھ نفسیاتی دباو کی مہم بھی عروج پر ہے۔ اسرائیلی فوج عام لبنانیوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے بمباری کی دہشت انگیز تصاویر جاری کرری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بصری تراشہ  بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا جس میں ایک خوفناک بم جنوبی لبنان کی ایک کئی منزلہ عمارت سے ٹکراتا دکھائی دیا جسکے بعد ایک خوفناک دھماکہ اور شعلوں میں لپٹی عمارت دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس ہوگئی۔ان تراشوں اور تصاویر کا مقصد خوف پیدا کرکے مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن اس مہم کے جواب میں جنوبی لبنان سے اعلامیہ جاری ہواکہ 'ہم جارحیت کے خلاف غیر معینہ مدت تک مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے صلاحیت اسلحے اور سینہ و سر کی کوئی کمی نہیں'۔

جواب آن غزل کے طور پر  16 نومبر کی رات فیشن ایبل ساحلی شہر قیصریہ (Caesarea) میں وزیراعظم کی ذاتی رہائشگاہ پر شعلہ (Flare) داغدیا گیا جس سے سارا محلہ سرخ ہوگیا۔یہ برق بلا میزائیل، ڈرون یا راکٹ سے نہیں پھوٹی بلکہ کسی بانکے کی رائفل نے شعلے اگلے۔ محل پر گزشتہ ماہ ہونے والے میزائیل حملے کےبعد سے بی بی اور انکی بی بی اپنے پرتعیش گھر کو تالہ لگاکر زیرزمین بنکر میں پناہ گزین ہیں لیکن وزیراعظم کی رہائش پر کوندنے والی اس برق بلا نے سارے اسرائیل کو خوفزدہ کردیا ہے

جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے امریکی مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی انکی پہلی ترجیح ہوگی، چنانچہ جلدازجلد فیصلہ کن فتح کیلئے انھوں نے حلف برداری کے فورا بعد اسرائیل کو فوجی سازوسامان اور گولہ بارود کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں اور تاخیر ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری طرف غزہ و لبنان قتل عام میں سہولت کاری کیلئےصدر بائیڈن بھی پرعزم ہیں۔گزشتہ ماہ امریکہ نے اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ اگر ایک ماہ کے دوران غزہ میں اقوام متحدہ اور نجی اداروں کی جانب سے بھیجی جانیوالی انسانی ضروریات کی اشیا کی ترسیل پر عائد قدغنیں ختم نہ کی گئیں تو اسرائیل کو اسلحے اور دوسری امداد کی فراہمی معطل کردی جائیگی۔ یہ مہلت 12 نومبر کو پوری ہوگئی اور اقوام متحدہ کی رپوٹ میں صاف صاف کہا گیا کہ امداد کی نقل و حمل پر پابندی نہ صرف برقرار، بلکہ غزہ میں قحط کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ اُس روز ایک طرف اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کررہی تھیں توعین اسی وقت واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی حکومت کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ 'اسرائیل غزہ کی امداد روک کر امریکی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوا، نہ اسے نسل کشی قرار دیا جاسکتا ہے، اسلئے فوجی امداد جاری رہیگی'

غزہ نسل کشی بند کرانے کا وعدہ کرکے مسلمان ووٹوں سے جیتنے والے ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کیلئے اب تک جتننے افراد کو نامزد کیا ہے وہ سب کے سب فلسطین دشمن، مسلم مخالف اور اسرائیل و ہندوستان نواز ہیں۔ اقوام متحدہ کیلئے مجوزہ سفیر محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else Stefanic)کا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔اسرائیل میں امریکی سفارتکاری کا منصب آرکنسا (Arkansas)کے سابق گورنر مائک ہکابی (Mike Huckabee) کو سونپا جارہا ہے۔ہکابی صاحب کا خیال ہے کہ 'اسرائیل سے باہر کسی قطعہ ارض پر فلسطینی ریاست قائم کردی جائے۔ اسرائیل حضرت ابراہیم (ع) کے وقت سے یہودیوں کا وطن ہے'۔ اپنی نامزدگی کے بعد انھوں نے کہا کہ وہ غرب اردن کو 'سلطنت سلیمانؑ' کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے اسے یہودالسامرہ کہتے ہیں۔

مشیر قومی سلامتی کیلئے قرعہ فال فلورڈا سے رکن کانگریس مائیکل والٹز کے نام نکلا ہے۔پچاس سالہ مائیکل طویل عرصہ امریکی فوج کے چھاپہ مار دستے Green Barretسے منسلک رہے۔موصوف نے اسلامی انتہا پسندی، کمیونزم، چینی طرز حکومت جیسے نظریاتی معاملات پر خاصہ کام کیا ہے اسی بنا پر انھیں عسکری دانشور کہا جاتا ہے۔ جناب والٹز ہندوستان کے پرجوش حامی اور کانگریس کے ہندنواز پارلیمانی گروپ India Caucusکے سربراہ ہیں۔انکا خیال ہے کہ اصل جنگ  نظریات سے لڑی جاتی ہے۔ نظریاتی تطہیر کا کام وقت طلب اور صبر آزما ہے اسکے مقابلے میں دشمن کے ٹینک کو بم سے اڑانا کچھ مشکل نہیں۔مشیر قومی سلامتی کی حیثت سے فلسطین اور ایران میں امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے سفارتی، سیاسی، عسکری و اقتصادی دباو کے ساتھ نظریاتی تطہیر انکی تزویراتی (اسٹریٹیجک) حکمت عملی کا حصہ ہوگا۔

کیوبن نژاد 53 سالہ سینیٹر مارکو روبیو (Marco Rubio)وزیرخارجہ نامزد کئے جارہے ہیں۔وزیرخارجہ تعینات ہونے کی صورت میں انکی خالی ہونے والی سینیٹ نشست پر نومنتخب صدر کی بہو لارا ٹرمپ قسمت آزمائی کرینگی۔ مارکو روبیو اسرائیل اور ہندوستان کے پر جوش حامی ہیں۔موصوف بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ان کا خیال ہے کہ "مزاحمت کار شیطانی درندے ہیں اور اسرائیل ان وحشیوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتا، انھیں ہر قیمت پرختم کرنا ہوگا'

ریاست ہوائی (Hawaii)سے سابق رکن کانگریس لیٖفٹینیٹ کرنل (ر) تلسی گیبرڈ کو ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس نامزد کی گئی ہیں۔تلسی صاحبہ کی والدہ ہندوہوگئی تھیں, انکی تبلیغ سے شوہر نے ہندومت قبول کرلیااور تلسی سمیت تمام بچے بھی ہندو ہوگئے۔ تلسی گیبرڈ 2012 میں رکن کانگریس منتخب ہوئیں اور گیتا پر حلف اٹھایا۔ نریندرا مودی کے دورہ امریکہ پر انھوں نے ہندوستانی وزیراعظم کو یہ کہہ کر گیتا کا تحفہ پیش کیا کہ انفرادی و اجتماعی طور پر زندگی گزارنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی اور نہیں۔تلسی صاحبہ کا اصرار ہے کہ 'اسلامی دہشت گردی' کی نام لے کر مذمت کی جائے۔ محترمہ کے خیال میں امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی جمہوریتوں کو اسلامی انتہا پسندی سے سخت خطرہ لاحق ہے۔غزہ نسل کشی کے معاملے میں وہ اسرائیل کی دامے درمے قدمے سخنے مکمل حمائت پر یقین رکھتی ہیں۔

گوانتاموبے عقوبت کدے کے سابق جیلر اور فاکس نیوز کے میزبان پیٹ ہیگسیتھ(Pete Hegseth) ٹرمپ انتظامیہ کے وزیردفاع ہونگے۔ انکے دور میں گوانتامو تشدد کا مرکز تھا جہاں لب کشائی اور اعتراف جرم کیلئے واٹربوڑڈنگ کا انسانیت سوز طریقہ استعمال کیا گیا جسکا شکار ہوکر کئی قیدی دماغی توازن کھو بیٹھے۔ پلاٹون کمانڈر کی حیثیت سے انھوں نے تشدد کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ “وحشی اسی سلوک کے مستحق ہیں، دنیا میں کہیں بھی دہشت گردوں کو پیار نہیں کیا جاتا'

سفیروں، انٹیلیجنس، قومی سلامتی اور وزیرخارجہ کیلئے ان نامزدگیوں سے مشرق وسطیٰ امن کے بارے میں نومنتخب صدر کے اخلاص پر امریکی مسلمان شک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔

دلچسپ بات کہ ظالم محبوب بھی ڈانلڈ ٹرمپ سے خوش نہیں۔ فلورڈا سے رکن کانگریس میتھیو گیٹس (Matt Gaetz)کی بطور مختاراعلیٰ (اٹارنی جنرل) نامزدگی پر اسرائیل سخت برہم ہے۔جناب گیٹس پر الزام ہے کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کے State of the Unionخطاب میں 'مُنکرِ ہولوکاسٹ (Holocaust Denier)'چارلس جانسن کو اپنے ذاتی مہمان کے طور پر کانگریس مدعو کیا تھا۔ چارلس جانسن سمجھتے ہیں کہ ہولوکاسٹ کے دوران 60 لاکھ افراد کا قتل مبالغہ آرائی ہے، بیماری کی وجہ سے ڈھائی لاکھ اموات ہوئی تھیں۔کئی اسرائیل نواز  ریپبلکن سیینٹروں نے کہا ہے وہ جناب گیٹس کی توثیق کیلئے ہونے والی رائے شماری کے دوران مخالفت میں ہاتھ اٹھائینگے۔

غزہ و لبنان کے حوالے سے دنیا بھر میں عوامی جذبات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ جمعہ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں اسرائیلی اور مقامی ٹیم کے درمیاں فٹبال میچ کے بعد اسرائیلی شائقین نے غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ولندیزی نوجوانوں پر پتھراو کیا۔ جوابی کاروائی نے تصادم کی شکل اختیار کرلی اور پولیس نے غزہ کے حامیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ تین دن بعد ایسے ہی ایک واقعے کے دوران مقامی ریل (ٹرام) کا ایک ڈبہ جلادیا گیا۔ جلتی پر تیل ڈالنے کیلئے انتہاپسند رہنما اور پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت فریڈم پارٹی کے سربراہ گیرت وائلڈرز نے الزام عائد کیا کہ کچھ لوگ یہودی سرطان کے نعرے لگارہے تھے۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ مظاہرے میں حصہ لینے والے مراکش نژاد باشندوں کو ملک بدر کیا جائے۔

اسکے دودن بعد13 نومبر کو فرانس کے قدامت پسندوں نے Israel Foreverکے نام سے پیرس میں میلہ منعقد کیا جس سے حاصل ہونے والی آمدنی اسرائیلی فوجیوں کی فلاح و بہبود کیلئے عطیہ کی جانی تھی۔ تقریب میں شرکت کیلئے قبضہ گردوں کے روح رواں اور اسرائیلی وزیرخزانہ مسٹر بیزلل اسموترچ کو خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ اس موقع پر نسل کشی کے مخالفین نے زبردست مظاہرہ کیا۔ میلے کے اخراجات ادا کرنے والے مشہور تجارتی ادارے CAREFOURکے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا گیا۔ مظاہرین میں جنگ مخالف یہودی بھی شامل تھے۔ شدید مخالفت کی بنا پر اسرائیلی وزیرخزانہ نے شرکت سے معذرت کرلی۔ یہ تقریب ایسے وقت منعقد ہوئی جب دوسرے دن فرانس اور اسرائیل کے درمیان ایک دوستانہ فٹبال میچ کھیلا جانا تھا۔ جسکی حفاظت کیلئےخودکار اسلحے سے لیس پولیس کے ہزاروں سپاہی پیرس میں گشت کررہے تھے۔صدر میکراں، سابق صدور سارکوزی، ہولاندے اور وزیراعظم سمیت فرانس کی قیادت اسرائیل سے یکجہتی کیلئے میدان میں موجود رہی۔ ان اکابرین کے آنے پر آزاد فلسطین کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔

نیتھن یاہو اور انکے اتحادیوں کے جنگی جنون کے علی الرغم 69 فیصد اسرائیلیوں خیال ہے کہ قیدیوں کی رہائی انتہائی ضروری ہے جسکے لئے (اہل غزہ کی شرائط پر) جنگ بندی میں کوئی برائی نہیں۔ دلچسپ بات کہ جنگجو لیکڈ پارٹی میں بھی جنگ سے اکتاہٹ بڑھ رہی ہے اور انکے 46 فیصد حامی اب جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔ حوالہ: اسرائیلی ٹیلی ویژن 12

گفتگو کا اختتام ایک دلچسپ خبر پر کہ اسرائیل کے فرزند اول یار نیتھن یاہو نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی شاباک(Shin Bet)انکے والد کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے اور عسکری راز افشا کرنے کے خود ساختہ الزام میں گرفتار ہونے والے چار فوجی افسر شاباک کے عقوبت کدے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 22 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 نومبر 2024


Thursday, November 14, 2024

 

ٹرمپ کی کامیابی اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل

ایران!!! نئی امریکی حکومت کا بنیادی ہدف؟؟؟

اسرائیل کو فیصلہ کن فتح کے ساتھ جلداز جلد جنگ ختم کرنے کی تلقین

انتطامیہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں ٹرمپ کے زیراثر

امریکی انتخابات مکمل ہوگئے جن میں ڈانلڈ ٹرمپ نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے کہ وہ تمام کی تمام سات فیصلہ کن ریاستوں میں جیت گئے اور  2020 کے مقابلے میں انکے ووٹوں میں سترہ  لاکھ کا اضاٖفہ ہوا۔دوسری طرف چار سال پہلے کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے  ووٹ 83لاکھ کم ہوگئے۔ سینیٹ یا راجیہ سبھا کی چار نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی سے چھین کر صدر ٹرمپ کی جماعت نے 100 رکنی ایوان میں اپنا حجم 53 کرلیا، 47 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہیں۔ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) میں ریپبلکن پارٹی نے  218نستیں جیت کر 435 رکنی ایوان میں اکثریت حاصل کرلی ہے، 209 نشستوں پر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئےجبکہ 8 پر گنتی جاری ہے۔

اگر عدلیہ کا جائزہ لیا جائے تو 9 رکنی عدالت عظمیٰ میں جناب ٹرمپ کے نظریاتی اتحادیوں کی تعداد 6 ہے جن میں سے 3 کا تقرر نو منتخب صدر کے گزشتہ دورِ صدارت میں ہوا تھا۔ اسکا مطلب ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو مقننہ اور عدلیہ دونوں کی مکمل حمائت حاصل ہوگی۔ انھیں قانون سازی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی، اور اگر صدارتی احکامات کے خلاف انکے مخالفین عدالت گئے تو فیصلہ ٹرمپ صاحب کے حق میں ہونے کی توقع ہے۔ نئے صدر،  کابینہ کا انتخاب، سفرا کا تقرر اور وفاقی ججوں کی تعیناتی اپنی مرضی سے کرسکیں گے۔ اسلئے کہ امریکہ میں تمام اہم تقریوں کی سینیٹ سے تو ثیق ضروری ہے۔

نئی ٹرمپ انتظامیہ کیسی ہوگی تو اس معاملے میں کوئی ابہام ہے  نہ صدر ٹرمپ پتے چھپانے کے قائل ہیں۔ کامیابی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں وہ ترجیحات کا اعلان کرچکے ہیں یعنی

  • صدارتی حکم کے ذریعے ایک کروڑ سے زیادہ تارکین وطن کی ملک بدرری اور میکسیکو کی سرحد پر فوج کی تعیناتی۔
  • کارپویشنوں کے ٹیکس میں کٹوتی
  • درآمدات پر بالعموم اور چینی مصنوعات پر بالخصوص بھاری درامدی محصولات کا نفاذ۔ انتخاب سے ایک دن پہلے  انھوں نے کہا کہ چینی درآمدات پر 70 فیصد محصول بھی خارج از امکان نہیں۔
  • تیل اور گیس کی تلاش کیلئے کھدائی پر تمام پابندیاں ختم کردی جائینگی اور وہ چاہتے ہیں ملکی برآمدات میں تیل اور LNGکا تناسب کم ازکم پانچ فیصد ہو
  • امریکی فوج میں تبدیلیِ جنس کے آپریشن پر فوری پابندی

جہاں تک بین الاقوامی امور اور عالمی امن کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ٹرمپ سرکار مسلمانوں کے لئے اچھی نظر نہیں آرہی۔ ہم اپنی آج کی گفتگو کو ٹرمپ انتظامیہ کی فلسطین پالیسی تک محدود رکھیں گے۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں انھوں نے مسلمانوں اور عربوں کا ذکر عزت و احترام اور 'اپنائیت' سے کیا۔ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی انکی ترجیج ہوگی۔کامیابی کے بعد حامیوں سے خطاب میں انھوں نے مسلمانوں کی حمائت کا فخریہ اعتراف کیا۔ لیکن غزہ جنگ بندی کے حوالے سے انکی تجویز فلسطینیوں کیلئے انتہائی تشویشناک  ہے۔نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ریپبلکن پارٹی کی ترجمان محترمہ ایلزبیتھ پیپکو نے اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے بات کرتے ہوئے کہا 'ڈانلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ایک فیصلہ کن فتح کے ساتھ اسرائیل غزہ جنگ کو جلد ختم کردے '۔ ڈانلڈ ٹرمپ اس سے پہلے بھی غزہ جنگ کے خاتمے کو اسرائیل کی فیصلہ کن فتح سے مشروط کرچکے ہیں۔

ایرانی امور کیلئے سابق امریکی سفارتکار برائن ہوک (Brian Hook)، ٹرمپ عبوری بندوبست (Transition) کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔برائن ہوک، ایران کے معاملے اپنے سخت گیر روئے کیلئے مشہور ہیں۔آٹھ نومبر کو سی این این سے باتیں کرتے ہوئے برائن ہوک نے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں بدامنی اور عدم استتحکام پھیلارہا ہے اور صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کسی نئی امن پیشرفت سے پہلے ایران کو تنہا اور مالی پابندیوں کے ذریعے اسکی معیشت کی نمو کو کم سے کم کردیا جائے تاکہ تہران دہشت گردوں کی مالی اعانت، حوصلہ افزائی اور سہولت کاری نہ کرسکے۔ برائن ہوک کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ایران میں regime change کی خواہش نہیں رکھتے لیکن وہ ایران کو معقولیت پر مجبور کرنے کیلئے اسے دیوار سے لگا کر رکھنا چاہتے ہیں۔بائیڈن انتظامیہ کے اس الزم کے بعدکہ ایران ڈنلڈ ٹرمپ کو قتل کرانا چاہتا ہے، ٹرمپ صاحب مزید مشتعل ہوگئے ہیں۔

اپنے گزشتہ دوراقتدار میں جناب ٹرمپ نے  Deal of the Centuryکے عنوان سے جو 'معاہدہ ابراہیم ؑ'متعارف کرایا تھا وہ اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ابراہیمؑ معاہدہ ِامن کے خالق انکے داماد جیررڈ کشنر تھے، جنکی معاونت کیلئے اب نومنتخب صدر کے دوسرے داماد مسعود (مائیکل) بولوس بھی میدان میں ہیں۔ دوسال پہلے جناب ڈانلڈ ٹرمپ کی چھوٹی صاحبزادی ٹیفنی ٹرمپ نے لبنانی کروڑپتی مائیکل بولوس سے شادی کی ہے۔ دلہا میاں کا اصل نام مسعود ہے جسکے تلفظ میں مشکل کی وجہ سے وہ خود کو مائیکل کہتے ہیں۔ جناب بولوس نے اپنے سسر کی انتخابی مہم میں دل کھول کر پیسے خرچ کئے۔سات نومبر کو لبنانی میڈیا الجدید سے باتیں کرتے ہوئے مائیکل بولوس نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں وہ لبنانی امور کے ذمہ دار ہونگے۔ جیرڈ یہودی اور مسعود بولوس راسخ العقیدی قبطی مسیحی ہیں۔

معاہدہ ابراہیم ؑ کے مطابق مشرقی بیت المقدس سمیت تمام قبضہ بستیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائیگا۔باقی ماندہ علاقوں کو نیم خودمختاری دیکر ریاست فلسطیں قائم ہوگی۔فلسطینی ریاست کو فوج اور اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس معاہدے کو مزاحمت کار یکسر مسترد کرچکے ہیں۔

معاہدے کی 'روح' بیان کرتے ہوئے جیرڈ کشنر نے اسے  فلسطینیوں کیلئے مواقع اور امکانات کی دستاویز قراردیا ہے۔ انکاکہنا ہے کہ معاہدہ امن پر دستخط کے ساتھ ہی غرب اردن اور غزہ میں جدید ترین صنعتی منصوے شروع کئے جائینگے۔زراعت و مویشی بانی کیلئے تمام سہولتوں سے مزین فارم قائم ہونگے۔ٹیکنالوجی سینٹر کے قیام سے فلسطینی نوجوان کرہ ارض پر راج کرینگے۔چمکتی ریت سے  آراستہ غزہ کا شفاف ساحل دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز نگاہ بنے گا اور  صرف چند سال میں فلسطینیوں کا یہ علاقہ قرآن کے الفاظ میں سونا اگلتی برکتوں والی سرزمین میں تبدیل ہوجائیگا۔

جناب ٹرمپ نے غزہ جنگ کے آغاز پر اسے ایرانی کاروائی قراردیا تھا۔انکاخیال ہے کہ طوفان اقصٰی کا مقصد معاہدہ ابراہیم ؑ کو سبوتاژ کرنا تھا اور یہ سارا منصوبہ ایران میں تیار ہوا۔گزشتہ ماہ مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹرمپ بیانئے کی حمائت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ ایران ہے اور ایرانی اثرورسوخ ختم کئے بغیر علاقے میں استحکام نہیں آسکتا۔ ٹرمپ انظامیہ کیلئے جو نام سامنے آرہے  وہ لوگ بھی ایران کو 'فلسطینی تنازعے' کی جڑ سمجھتے ہیں۔ سفاتکار جان بولٹن، سینیٹر ٹام کاٹن، سینٹر مارک روبیو، انکی بہو لاراٹرمپ اور کاش پٹیل سب کے سب اسرائیل نواز اور اس بات پر مُصر ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کواسلحہ اور نظریاتی تربیت ایران سے ملتی ہے۔ انکے مشیرِ خصوصی، ٹیسلا و ٹویٹر کے سربراہ ایلون مسک مصنوعی ذہانت (AI)کی مدد سے سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف منظم و موثر مہم چلا رہے ہیں۔

دس نومبر کو ٹرمپ عبوری ٹیم نے نیویارک سے رکن کانگریس اور ریپبلکن پارلیمانی پارٹی کی نائب قائد محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else Stefanic)کو سفیر برائے اقوام متحدہ کا منصب پیش کیا ہے۔ چالیس سالہ اسٹیفانک نے امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو یہود دشمن یعنی Antisemiticقرار دیتے ہوئےجامعہ ہاروڈ، ایم آئی ٹی اور جامعہ پینسلوانیہ (Upen)کی صدور کو کانگریس کمیٹی کے روبرو طلب کیااور سماعت کےدوران امریکہ کی اِن موقر ترین جامعات کی سربراہان کے خلاف دھمکی آمیززبان استعمال کی۔ اس روئے سے پریشان ہوکر ٗUpen کی سربراہ ڈاکٹر لز میگل (Liz Magill)مستعفی ہوگئیں، جس پر اسٹیفانی نے ہانک لگائی کہ 'ایک گئی، دو باقی ہیں' ہارورڈ کی سربراہ ڈاکٹر کلاڈین گے (Claudine Gay)  کومظاہرین سے تعاون کے الزام میں مقدمات کی دھمکی دی گئی۔ڈاکٹر صاحبہ پھر بھی نہ مانیں تو انکے خلاف ادبی سرقے یا plagiarism کا اسکینڈل اچھال کر ڈاکٹر گے کو استعفے پر مجبور کردیا گیا۔

اس پس منظر میں جلداز جلد فیصلہ کن فتح کے اصرار سے غزہ کی جو صورتحال ابھرتی نظر آرہی اس پر سنگاپور میں مقیم ماہر تعلیم جناب اعظم علی صاحب کا تجزیہ بڑا صائب محسوس ہوتا ہے۔ اعظم علی صاحب اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں رقمطراز ہیں 'جنگ ختم کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں ظالم کا ہاتھ روکنا یا مظلوم اور اس کی مزاحمت کو ختم کرنا۔ یہاں دوسراحل زیادہ قرین از قیاس نظر آتا ہے '

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جنوری 2024


 

 

Thursday, November 7, 2024

 

ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار بنانے کا عندیہ

ایک سال کے دوران غزہ پر 80 ہزار ٹن بارود برسایا گیا

حساس راز افشا کرنے کے الزام میں وزیراعظم کے ترجمان گرفتار

اردنی سرحد پر فوج کا نیا ڈویژن تعینات کرنے کا منصوبہ لیکن سپاہی ندارد

جبالیہ کیلئے اضافی بریگیڈ کو کوچ کا حکم

اسرائیل کیلئے بارود مصری بندرگاہ اور تیل ترک بندرگاہ سے آرہا ہے

غزہ وحشت و بربریت کو اب چارسو دن ہوگئے۔ چند دن پہلے اقوام متحدہ نے اس بدنصیب قطع ارضی کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جسکے مطابق 21کلومیٹر طویل اور 8 کلومیٹر چوڑی اس پٹی پر شاید ایک مربع کلومیٹر جگہ بھی ایسی نہیں جہاں بم نہ گرے ہوں۔ سات اکتوبر کو اسرائیلی حملے کا ایک سال مکمل ہونے تک اس ننھے سے رقبے پر 80ہزارٹن بارودبرسایا گیا۔ لیکن آتش و آہن کی ایک سال سے جاری موسلادھار بارش کے دوران ہی اہل غزہ نے  خان یونس میں تمام ممکنہ سہولتوں سے آراستہ اسکول تعمیر کرلیا۔یہ اسکول تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر قائم کیا گیا ہے۔پرنسپل صاحبہ کا کہناہے کہ ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا لیکن ہم اپنے بچوں کا مستقبل نہیں برباد ہونے دینگے۔ جب ایک صحافی نے کہا 'اگر اسرائیل نے اسے بھی تباہ کردیا تو؟ 'اس پر پرنسپل صاحبہ قرآنی آئت کا حوالہ دیتے ہوئے بولیں 'تخلیقِ اول مشکل ہوتی ہے، دوبارہ بنانا کیا مشکل؟'

وزیراعظم نیتھن یاہو اب بھی شعلہ جوالہ بنے ہوئے ہیں لیکن سارے اسرائیل میں شہری زندگی افراتفری کا شکار ہے۔ لبنان سے متصل علاقے میں ہر گھنٹہ سائرن اور اسکے بعد زیرزمین پناہ گاہوں کی طرف دوڑ نے عام شہریوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ چھوٹے بچوں والے خاندان رات مستقل بنیادوں پر تہہ خانوں میں گزار ریے ہیں جسکی وجہ سے صحت وصفائی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔

اسرائیلی فوج مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کی راکٹ، میزائیل اور ڈرون بنانے والی فیکٹریاں تباہ اور داغنے والے لانچر برباد کردئے گئے۔ گزشتہ ہفتہ وزیر دفاع نے بہت فخر سے کہا کہ  دشمن کی راکٹ بازی کی صلاحیت صفر کی جاچکی ہے۔ سوئے اتفاق کہ جس وقت وزیردفاع تل ابیب میں یہ لاف زنی فرمارہے تھے، عین اسی وقت سرحد سے متصل مطلعہ (Metula)پر راکٹوں کی بارش نے  ہندوستان کے چار شہریوں سمیت پانچ افراد کی جان لے لی، یہ ہندوستانی وہاں کھیتوں پر کام کرنے آئے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد مطلعہ کے شمال میں کریات عطا کی عسکری کالونی نشانہ بنی اور دومزید اسرائیلی مارے گئے۔دوسرے دن لبنانی ڈرون نے نہریہ میں ریل کو نشانہ بنایا جس سے ایک پل کو نقصان پہنچا اور ایک کھڑی ریل کے دو ڈبے تباہ ہوگئے۔ اس سے اگلے روز یعنی تیس اکتوبر کولبنانی مزاحمت کاروں نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے نیتنیا (Netnaya) کو زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل سے نشانہ بنایا۔اسرائیل کا دعوی ہے کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔لبنانیوں نے تل ابیب پر حملے کیلئے پہلی بار Surface to Surface میزائیل استعمال کئے۔

خوف و ہراس صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں،کچل ڈالنے اور مٹادینے کی شیخی کے ساتھ خوف کا یہ عالم کہ وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک محفوظ تہہ خانے  منتقل ہوگئے ہیں اور اب کابینہ کا اجلاس ایک خفیہ زمین دوز بنکر میں ہورہا ہے۔ مزیداحتیاط کیلئے اجلاس کا مقام ہر بار تبدیل کردیا جاتا ہے۔فوجی قیادت بھی اب GHQکے بجائے زیرزمیں خفیہ پناہ گاہوں میں مجلسیں سجاتی ہے۔ شمالی غزہ کو بدترین فاقے میں مبتلا کرنے کے باوجود وہاں مزاحمت میں کمی کے آثار نہیں۔دو نومبر کو شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں تیسرا پیادہ بریگیڈ تعینات کردیا گیا۔ وہاں 162nd ڈویژن کے گیواتی اور 401st بریگٰیڈ پہلے ہی مصروف جنگ ہیں۔

دوسری طرف ایران نے 26 اکتوبر کے اسرائیلی حملے کا امریکی انتخابات (5 نومبر) سےپہلے جواب دینے کی دھمکی دی ہے، سی این این (CNN)کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ  'طوفان دیگری در راہ است' یعنی  ایک اور طوفان اب راستے میں ہے۔اس عزم کے اظہارِجلی کیلئے یہ تحریر عبرانی ترجمے کے ساتھ تہران کے ایک چوک میں ثبت کردی گئی ہے۔

یکم نومبر کو رہبر معظم حضرت علی خامنہ ای کے مشیر امورخارجہ اور مجلسِ تشخیصِ مصلحت نظام کے رکن کمال خرازی نے لبنانی ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اگر مملکت کی بقا خطرے میں نظر آئی تو اسلامی جمہوریہ ایران اپنے جوہری نظریے پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔جناب خرازی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری تکنیکی صلاحیتیں موجود ہیں۔ تاہم رہبرِ معظم کا فتویٰ جوہری ہتھیار بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حضرت خامنہ ای نے2019 میں فتویٰ دیا تھا کہ جوہری بم بنانا اور ذخیرہ کرنا غلط اور اس کا استعمال حرام ہے۔

اپنے سائے سے بھی خوفزدہ نیتھن یاہو کو آجکل ہر طرف جاسوس نظر آرہے ہیں۔دوہفتہ پہلے ایران کیلئے جاسوسی کے الزام میں چند اسرائیل شہری گرفتار کئے گئے اور خفیہ پولیس شا باک(Shin Bet) نے31اکتوبر کو لِد شہر سے 32 سالہ رفائل گولیو(Rafael Guliyev)اور انکی اہلیہ لالہ کو گرفتار کرلیاجن پر ایران کیلئے جاسوسی کا الزام ہے۔تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص عشر بن یامین کو گرفتار کیا گیا جو اسرائیلی جوہری سائنسدانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوا تھا۔

دو دن سے خبر گرم تھی کہ غزہ نسل کشی اور وہاں نظربند اسرائیلی قیدیوں کے متعلق انتہائی حساس معلومات اڑا لی گئیں جن میں سے کچھ نکات جرمن اخبار Bildاور برطانوی Jewish Chronicleمیں شایع بھی ہوچکے ہیں۔اس خبر کی تصدیق یکم نومبر کو ہوگئی جب جج میناخم مزراحی Menachem Mizrahiنے بتایا کہ سرکاری راز افشا کرنے کے الزام میں شاباک کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے چندملزمان کو انکی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے زیرحراست ملزمان کی تعداد اور نام بتائے بغیر کہا کہ 'راز افشا ہونے سے اسرائیل کے جنگی مقاصد کے حصول کو نقصان پہنچا ہے'۔ خبر کی اشاعت پر وزیراعظم آفس نے وضاحت کی کہ گرفتار ہونے والوں میں وزیراعظم کا کوئی مشیر یا عملے کا کوئی شخص شامل نہیں۔ تاہم چینل 12 نے گرفتار ہونے والے ایک فرد کے حوالے سے بتایا کہ وہ تنخواہ دار تو نہیں لیکن وزیراعظم کا قریبی مشیر تھا۔اپنے مقربین کی گرفتاری پر جناب نیتھن یاہو نے حساسیت” کی دُہائی دیکر عدالت سے معلومات پر پابندی کا حکم المعروف Gag orderجاری کرالیا۔ تین نومبر کو جج مجسٹریٹ مناخم مزراہی نے ایک ملزم کے Gag order منسوخ کئے تو پتہ چلا یہ صاحب وزیراعظم کے ترجمان ایلی فینسٹائین (Eli Feldstein) ہیں،  جنھوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے ایک مجوزہ خفیہ آپریشن کی تفصیلات یورپین میڈیا کو دی تھیں اور خبر ملتے ہی مزاحمت کاروں نے قیدیوں کے گرد گھیرا سخت کردیا۔ تین دوسرے زیرحراست ملزمان جن کے نام عدالت کے حکم پر خفیہ رکھے گئے ہیں انکے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ تینوں وزیراعظم کے گہرے دوست ہیں۔اس خبر پر قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے جو تبصرہ کیا اسکا شاعرانہ زبان میں ترجمہ کچھ اسطرح ہے۔ ہوئے تم دوست جسکے دشمن آسکا آسماں کیوں ہو

اسرائیل کو داخلی محاذ پر جاسوسی تو سرحدوں پر فوجی قلت کا سامنا ہے۔ فوج کے جاسوسی یونٹ 8200نے اپنی ایک رپورٹ میں وزارت دفاع کو مطلع کیا ہے کہ اسوقت جورڈن ویلی بریگیڈ بحیرہ مردار (بحیرہ لوط) سے شمال میں گولان تک کی نگرانی کرتی ہے جبکہ جنوب میں ایلات (خلیج عقبہ) تک یووو ریجنل بریگیڈ تعینات ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہزار 17 کلومیٹر طویل مشرقی سرحد کی موثر نگرانی دو بریگیڈ کے بس کی بات نہیں۔ رپورٹ ملتے ہی وزارت دفاع نے اردن سے متصل مشرقی سرحد کی نگرانی کیلئے فوج کی ایک نئی ڈویژن بھرتی کرنے کی منظوری دے دی۔سوال یہ ہے کہ اس نئے ڈویژن کیلئے افرادی قوت کہاں سے آئیگی کہ غزہ سے معذوروں کی شکل میں آنے والی زندہ لاشیں دیکھ کر اسرائیلی نوجوانوں کا فوج میں جانے کا ارمان خوف میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شاندار تنخواہ اور پرکشش مراعات کی پیشکش کے باوجود بھرتی مراکز پر سناٹا ہے۔

حریدی فرقے کے علما،  مدارس (Yeshiva)کے طلبہ کافوجی بھرتی سے استثنیٰ ختم کرنے کے مجوزہ قانون کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔استثنیٰ ختم ہونے کی صورت میں حریدی فرقے کی جماعتوں پاسبان توریت (Shas)پارٹی اور یونائیٹیڈ توریت پارٹی نے حکومتی اتحاد سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔ یہ بیساکھیاں ہٹتے ہی جناب نیتھن یاہو کی حکومت زمیں بوس ہوجائیگی۔مدارس کے استثنیٰ کو بنیاد بناکر عام نوجوان بھی بھرتی مراکز کا رخ نہیں کررہے۔

گزشتہ ہفتے وزیردفاع نے حریدی ارکانِ کنیسہ (پارلیمان) کو خطاب کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا 'معزز علما، پاسبان و پاسدارانِ توریت! یہ مذہبی یا سیاسی نہیں، مملکت کے بقا کا معاملہ ہے۔ ہم کئی سمت اور کئی افق سے جارحیت کا ہدف ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں ہمارے فوجی زخمی اور معذور ہیں، لاتعدادکڑیل جوان مادر وطن پر قربان ہوگئے، ملک کو مزید فوجیوں کی ضرورت ہے۔ اسستثنٰی ختم کئے بغیر ہم غیر حریدیوں کو فوج میں بھرتی پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ اسرائیل رہیگا تو مدارس بھی قائم رہینگے۔ ملک بچائیں یا توریت پڑھائیں ؟ عوام فیصلہ کرلیں۔ اسرائیل کے دفاع میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا' اس خطاب پر لبرل و سیکیولر عناصر نے تو تالیاں پیٹیں اور ڈیسک بجائے لیکن علما ٹس سے مس نہ ہوئے اور دوسرے روز تل ابیب کے بھرتی مرکز پر داڑھی، شیروانی اور ٹوپی والوں نے زبردست مظاہرہ کیا اور پولیس سے مارکھائی۔

دنیا بھر میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرے اور آگاہی کی جو زبردست مہم چل رہی ہے وہ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے باعث اب تک غیر موثر ہے لیکن کہیں کہیں انسانی ضمیر میں حرکت محسوس ہورہی ہے۔ کمپیوٹر کے ملائم سہارے (Software) تیار کرنے والا امریکی ادارہ پلانٹِر (Palantir), اسرائیلی محکمہ دفاع کو مصنوعی ذہانت (AI)کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسرائیلی فوج سے تعاون کو غزہ نسل کشی میں سہولت کاری قراردیتے ہوئے ناروے کے تجارتی ادارے اسٹور برانڈ (Store brand)نے پلانٹِر میں سرمایہ کاری معطل کردینے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹور برانڈ کی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 109ارب ڈالر ہے تاہم اس کے پاس اس وقت پلانٹر کے صرف 2 کروڑ 24 لاکھ ڈالر کے حصص ہیں۔ یہ رقم بہت بڑی تو نہیں لیکن انسانی حقوق کے بارے میں نارویجین کمپنی کی فکر مندی قابل تحسین ہے۔

اسکے مقابلے میں مصر کا رویہ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ خبر ملتے ہی کہ جرمنی سے 150ٹن بارود اسرائیل بھیجا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے وکلا نے اس پر پابندی کیلئے برلن (جرمنی) کی عدالت میں ایک درخواست دائر کردی۔سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ اہل غزہ کے قتل عام کیلئے یہ تباہ کن سامان جرمن مال بردار جہازMV Kathrin کے ذریعے روانہ کیا گیا ہے جو 28 اکتوبر سے اسکندریہ (مصر) کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہے۔ مصری حکومت نے اسکی تردید کی ہے لیکن وکلا نے سمندری ٹریفک پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ کا حوالہ دیکر کہا ہے کہ MV Kathrin اسکندریہ  سے یکم نومبر کو اسرائیلی بندرگاہ اشدود روانہ ہوگیا۔

کچھ ایسا ہی معاملہ آذربائیجان، قازقستان اور ترکیہ کا ہے۔ اسرائیل اپنی ضرورت کا تیل آذربائیجان اور قازقستان سے خریدتا ہے۔ یومیہ دولاکھ 20 ہزار بیرل تیل، 1768 کلومیٹر لمبی پائپ لائن کے ذریعے بحر روم میں ترک بندرگاہ جیحان (Ceyhan)پہنچتا ہے۔ جہاں سے ٹینکروں کے ذریعے اسے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ لے جایا جاتا ہے۔ آجکل راکٹ حملوں کی وجہ سے حیفہ پورٹ مخدوش ہوگئی ہے تو غزہ کے شمال میں اشدود کی بندرگاہ استعمال ہورہی ہے۔قازقستان اور آذربائیجان سے شکوہ نہیں کہ وہ کوئی دعوی نہیں کرتے لیکن اپنی ہر تقریر میں اسرائیل کی مذمت کرنے والے محترم طیب ایردوان،  جیحان کی پائپ لائن بند کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ معلوم نہیں یہ اسرائیل کا خوف ہے یا پائپ لائن محصولات کی لالچ؟؟؟؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 8 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 10 نومبر 2024