Thursday, November 21, 2024

 

ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اسرائیلی بربریت میں شدت آگئی

 اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب نہیں ہورہا۔ امریکی وزارت خارجہ

اسرائیلی وزیراعظم کی نجی رہائشگاہ پر برقِ بلا کوند گئی

ہالینڈ اور فرانس میں غزہ نسل کشی کے خلاف پرعزم مظاہرے

اسرائیلی خفیہ ایجنسی میرے والد کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ فرزندِ اول کا الزام

اسرائیلی عوام غارتگری سے اکتا گئے

انتخابی مہم کے دوران جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے غزہ مزاحمت کاروں کو دھمکی دی تھی کہ اگر انکے اقتدار سنبھالنے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے اور انکا انجام بہت براہوگا۔ بدھ 13 نومبر کو صدر بائیڈن کی دعوت پر نومنتخب صدر ڈانلڈ ٹرمپ، قصر ابیض تشریف لائے۔ اس موقع پر، اور موضوعات کے علاوہ بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جان سولیون نے جناب ٹرمپ کو غزہ اور لبنان کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ملاقات کے بعد جناب ٹرمپ نے اپنی دھمکی دہرائی کہ 'اگر میرے عہدہ سنبھالنے تک امریکی قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی'

ڈانلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سے غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کر گئی ہے۔ کلسٹر اور بنکر بسٹر بمبوں کی بارش کیساتھ نفسیاتی دباو کی مہم بھی عروج پر ہے۔ اسرائیلی فوج عام لبنانیوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے بمباری کی دہشت انگیز تصاویر جاری کرری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بصری تراشہ  بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا جس میں ایک خوفناک بم جنوبی لبنان کی ایک کئی منزلہ عمارت سے ٹکراتا دکھائی دیا جسکے بعد ایک خوفناک دھماکہ اور شعلوں میں لپٹی عمارت دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس ہوگئی۔ان تراشوں اور تصاویر کا مقصد خوف پیدا کرکے مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن اس مہم کے جواب میں جنوبی لبنان سے اعلامیہ جاری ہواکہ 'ہم جارحیت کے خلاف غیر معینہ مدت تک مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے صلاحیت اسلحے اور سینہ و سر کی کوئی کمی نہیں'۔

جواب آن غزل کے طور پر  16 نومبر کی رات فیشن ایبل ساحلی شہر قیصریہ (Caesarea) میں وزیراعظم کی ذاتی رہائشگاہ پر شعلہ (Flare) داغدیا گیا جس سے سارا محلہ سرخ ہوگیا۔یہ برق بلا میزائیل، ڈرون یا راکٹ سے نہیں پھوٹی بلکہ کسی بانکے کی رائفل نے شعلے اگلے۔ محل پر گزشتہ ماہ ہونے والے میزائیل حملے کےبعد سے بی بی اور انکی بی بی اپنے پرتعیش گھر کو تالہ لگاکر زیرزمین بنکر میں پناہ گزین ہیں لیکن وزیراعظم کی رہائش پر کوندنے والی اس برق بلا نے سارے اسرائیل کو خوفزدہ کردیا ہے

جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے امریکی مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی انکی پہلی ترجیح ہوگی، چنانچہ جلدازجلد فیصلہ کن فتح کیلئے انھوں نے حلف برداری کے فورا بعد اسرائیل کو فوجی سازوسامان اور گولہ بارود کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں اور تاخیر ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری طرف غزہ و لبنان قتل عام میں سہولت کاری کیلئےصدر بائیڈن بھی پرعزم ہیں۔گزشتہ ماہ امریکہ نے اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ اگر ایک ماہ کے دوران غزہ میں اقوام متحدہ اور نجی اداروں کی جانب سے بھیجی جانیوالی انسانی ضروریات کی اشیا کی ترسیل پر عائد قدغنیں ختم نہ کی گئیں تو اسرائیل کو اسلحے اور دوسری امداد کی فراہمی معطل کردی جائیگی۔ یہ مہلت 12 نومبر کو پوری ہوگئی اور اقوام متحدہ کی رپوٹ میں صاف صاف کہا گیا کہ امداد کی نقل و حمل پر پابندی نہ صرف برقرار، بلکہ غزہ میں قحط کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ اُس روز ایک طرف اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کررہی تھیں توعین اسی وقت واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی حکومت کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ 'اسرائیل غزہ کی امداد روک کر امریکی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوا، نہ اسے نسل کشی قرار دیا جاسکتا ہے، اسلئے فوجی امداد جاری رہیگی'

غزہ نسل کشی بند کرانے کا وعدہ کرکے مسلمان ووٹوں سے جیتنے والے ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کیلئے اب تک جتننے افراد کو نامزد کیا ہے وہ سب کے سب فلسطین دشمن، مسلم مخالف اور اسرائیل و ہندوستان نواز ہیں۔ اقوام متحدہ کیلئے مجوزہ سفیر محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else Stefanic)کا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔اسرائیل میں امریکی سفارتکاری کا منصب آرکنسا (Arkansas)کے سابق گورنر مائک ہکابی (Mike Huckabee) کو سونپا جارہا ہے۔ہکابی صاحب کا خیال ہے کہ 'اسرائیل سے باہر کسی قطعہ ارض پر فلسطینی ریاست قائم کردی جائے۔ اسرائیل حضرت ابراہیم (ع) کے وقت سے یہودیوں کا وطن ہے'۔ اپنی نامزدگی کے بعد انھوں نے کہا کہ وہ غرب اردن کو 'سلطنت سلیمانؑ' کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے اسے یہودالسامرہ کہتے ہیں۔

مشیر قومی سلامتی کیلئے قرعہ فال فلورڈا سے رکن کانگریس مائیکل والٹز کے نام نکلا ہے۔پچاس سالہ مائیکل طویل عرصہ امریکی فوج کے چھاپہ مار دستے Green Barretسے منسلک رہے۔موصوف نے اسلامی انتہا پسندی، کمیونزم، چینی طرز حکومت جیسے نظریاتی معاملات پر خاصہ کام کیا ہے اسی بنا پر انھیں عسکری دانشور کہا جاتا ہے۔ جناب والٹز ہندوستان کے پرجوش حامی اور کانگریس کے ہندنواز پارلیمانی گروپ India Caucusکے سربراہ ہیں۔انکا خیال ہے کہ اصل جنگ  نظریات سے لڑی جاتی ہے۔ نظریاتی تطہیر کا کام وقت طلب اور صبر آزما ہے اسکے مقابلے میں دشمن کے ٹینک کو بم سے اڑانا کچھ مشکل نہیں۔مشیر قومی سلامتی کی حیثت سے فلسطین اور ایران میں امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے سفارتی، سیاسی، عسکری و اقتصادی دباو کے ساتھ نظریاتی تطہیر انکی تزویراتی (اسٹریٹیجک) حکمت عملی کا حصہ ہوگا۔

کیوبن نژاد 53 سالہ سینیٹر مارکو روبیو (Marco Rubio)وزیرخارجہ نامزد کئے جارہے ہیں۔وزیرخارجہ تعینات ہونے کی صورت میں انکی خالی ہونے والی سینیٹ نشست پر نومنتخب صدر کی بہو لارا ٹرمپ قسمت آزمائی کرینگی۔ مارکو روبیو اسرائیل اور ہندوستان کے پر جوش حامی ہیں۔موصوف بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ان کا خیال ہے کہ "مزاحمت کار شیطانی درندے ہیں اور اسرائیل ان وحشیوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتا، انھیں ہر قیمت پرختم کرنا ہوگا'

ریاست ہوائی (Hawaii)سے سابق رکن کانگریس لیٖفٹینیٹ کرنل (ر) تلسی گیبرڈ کو ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس نامزد کی گئی ہیں۔تلسی صاحبہ کی والدہ ہندوہوگئی تھیں, انکی تبلیغ سے شوہر نے ہندومت قبول کرلیااور تلسی سمیت تمام بچے بھی ہندو ہوگئے۔ تلسی گیبرڈ 2012 میں رکن کانگریس منتخب ہوئیں اور گیتا پر حلف اٹھایا۔ نریندرا مودی کے دورہ امریکہ پر انھوں نے ہندوستانی وزیراعظم کو یہ کہہ کر گیتا کا تحفہ پیش کیا کہ انفرادی و اجتماعی طور پر زندگی گزارنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی اور نہیں۔تلسی صاحبہ کا اصرار ہے کہ 'اسلامی دہشت گردی' کی نام لے کر مذمت کی جائے۔ محترمہ کے خیال میں امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی جمہوریتوں کو اسلامی انتہا پسندی سے سخت خطرہ لاحق ہے۔غزہ نسل کشی کے معاملے میں وہ اسرائیل کی دامے درمے قدمے سخنے مکمل حمائت پر یقین رکھتی ہیں۔

گوانتاموبے عقوبت کدے کے سابق جیلر اور فاکس نیوز کے میزبان پیٹ ہیگسیتھ(Pete Hegseth) ٹرمپ انتظامیہ کے وزیردفاع ہونگے۔ انکے دور میں گوانتامو تشدد کا مرکز تھا جہاں لب کشائی اور اعتراف جرم کیلئے واٹربوڑڈنگ کا انسانیت سوز طریقہ استعمال کیا گیا جسکا شکار ہوکر کئی قیدی دماغی توازن کھو بیٹھے۔ پلاٹون کمانڈر کی حیثیت سے انھوں نے تشدد کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ “وحشی اسی سلوک کے مستحق ہیں، دنیا میں کہیں بھی دہشت گردوں کو پیار نہیں کیا جاتا'

سفیروں، انٹیلیجنس، قومی سلامتی اور وزیرخارجہ کیلئے ان نامزدگیوں سے مشرق وسطیٰ امن کے بارے میں نومنتخب صدر کے اخلاص پر امریکی مسلمان شک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔

دلچسپ بات کہ ظالم محبوب بھی ڈانلڈ ٹرمپ سے خوش نہیں۔ فلورڈا سے رکن کانگریس میتھیو گیٹس (Matt Gaetz)کی بطور مختاراعلیٰ (اٹارنی جنرل) نامزدگی پر اسرائیل سخت برہم ہے۔جناب گیٹس پر الزام ہے کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کے State of the Unionخطاب میں 'مُنکرِ ہولوکاسٹ (Holocaust Denier)'چارلس جانسن کو اپنے ذاتی مہمان کے طور پر کانگریس مدعو کیا تھا۔ چارلس جانسن سمجھتے ہیں کہ ہولوکاسٹ کے دوران 60 لاکھ افراد کا قتل مبالغہ آرائی ہے، بیماری کی وجہ سے ڈھائی لاکھ اموات ہوئی تھیں۔کئی اسرائیل نواز  ریپبلکن سیینٹروں نے کہا ہے وہ جناب گیٹس کی توثیق کیلئے ہونے والی رائے شماری کے دوران مخالفت میں ہاتھ اٹھائینگے۔

غزہ و لبنان کے حوالے سے دنیا بھر میں عوامی جذبات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ جمعہ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں اسرائیلی اور مقامی ٹیم کے درمیاں فٹبال میچ کے بعد اسرائیلی شائقین نے غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ولندیزی نوجوانوں پر پتھراو کیا۔ جوابی کاروائی نے تصادم کی شکل اختیار کرلی اور پولیس نے غزہ کے حامیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ تین دن بعد ایسے ہی ایک واقعے کے دوران مقامی ریل (ٹرام) کا ایک ڈبہ جلادیا گیا۔ جلتی پر تیل ڈالنے کیلئے انتہاپسند رہنما اور پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت فریڈم پارٹی کے سربراہ گیرت وائلڈرز نے الزام عائد کیا کہ کچھ لوگ یہودی سرطان کے نعرے لگارہے تھے۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ مظاہرے میں حصہ لینے والے مراکش نژاد باشندوں کو ملک بدر کیا جائے۔

اسکے دودن بعد13 نومبر کو فرانس کے قدامت پسندوں نے Israel Foreverکے نام سے پیرس میں میلہ منعقد کیا جس سے حاصل ہونے والی آمدنی اسرائیلی فوجیوں کی فلاح و بہبود کیلئے عطیہ کی جانی تھی۔ تقریب میں شرکت کیلئے قبضہ گردوں کے روح رواں اور اسرائیلی وزیرخزانہ مسٹر بیزلل اسموترچ کو خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ اس موقع پر نسل کشی کے مخالفین نے زبردست مظاہرہ کیا۔ میلے کے اخراجات ادا کرنے والے مشہور تجارتی ادارے CAREFOURکے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا گیا۔ مظاہرین میں جنگ مخالف یہودی بھی شامل تھے۔ شدید مخالفت کی بنا پر اسرائیلی وزیرخزانہ نے شرکت سے معذرت کرلی۔ یہ تقریب ایسے وقت منعقد ہوئی جب دوسرے دن فرانس اور اسرائیل کے درمیان ایک دوستانہ فٹبال میچ کھیلا جانا تھا۔ جسکی حفاظت کیلئےخودکار اسلحے سے لیس پولیس کے ہزاروں سپاہی پیرس میں گشت کررہے تھے۔صدر میکراں، سابق صدور سارکوزی، ہولاندے اور وزیراعظم سمیت فرانس کی قیادت اسرائیل سے یکجہتی کیلئے میدان میں موجود رہی۔ ان اکابرین کے آنے پر آزاد فلسطین کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔

نیتھن یاہو اور انکے اتحادیوں کے جنگی جنون کے علی الرغم 69 فیصد اسرائیلیوں خیال ہے کہ قیدیوں کی رہائی انتہائی ضروری ہے جسکے لئے (اہل غزہ کی شرائط پر) جنگ بندی میں کوئی برائی نہیں۔ دلچسپ بات کہ جنگجو لیکڈ پارٹی میں بھی جنگ سے اکتاہٹ بڑھ رہی ہے اور انکے 46 فیصد حامی اب جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔ حوالہ: اسرائیلی ٹیلی ویژن 12

گفتگو کا اختتام ایک دلچسپ خبر پر کہ اسرائیل کے فرزند اول یار نیتھن یاہو نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی شاباک(Shin Bet)انکے والد کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے اور عسکری راز افشا کرنے کے خود ساختہ الزام میں گرفتار ہونے والے چار فوجی افسر شاباک کے عقوبت کدے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 22 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 نومبر 2024


Thursday, November 14, 2024

 

ٹرمپ کی کامیابی اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل

ایران!!! نئی امریکی حکومت کا بنیادی ہدف؟؟؟

اسرائیل کو فیصلہ کن فتح کے ساتھ جلداز جلد جنگ ختم کرنے کی تلقین

انتطامیہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں ٹرمپ کے زیراثر

امریکی انتخابات مکمل ہوگئے جن میں ڈانلڈ ٹرمپ نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے کہ وہ تمام کی تمام سات فیصلہ کن ریاستوں میں جیت گئے اور  2020 کے مقابلے میں انکے ووٹوں میں سترہ  لاکھ کا اضاٖفہ ہوا۔دوسری طرف چار سال پہلے کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے  ووٹ 83لاکھ کم ہوگئے۔ سینیٹ یا راجیہ سبھا کی چار نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی سے چھین کر صدر ٹرمپ کی جماعت نے 100 رکنی ایوان میں اپنا حجم 53 کرلیا، 47 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہیں۔ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) میں ریپبلکن پارٹی نے  218نستیں جیت کر 435 رکنی ایوان میں اکثریت حاصل کرلی ہے، 209 نشستوں پر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئےجبکہ 8 پر گنتی جاری ہے۔

اگر عدلیہ کا جائزہ لیا جائے تو 9 رکنی عدالت عظمیٰ میں جناب ٹرمپ کے نظریاتی اتحادیوں کی تعداد 6 ہے جن میں سے 3 کا تقرر نو منتخب صدر کے گزشتہ دورِ صدارت میں ہوا تھا۔ اسکا مطلب ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو مقننہ اور عدلیہ دونوں کی مکمل حمائت حاصل ہوگی۔ انھیں قانون سازی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی، اور اگر صدارتی احکامات کے خلاف انکے مخالفین عدالت گئے تو فیصلہ ٹرمپ صاحب کے حق میں ہونے کی توقع ہے۔ نئے صدر،  کابینہ کا انتخاب، سفرا کا تقرر اور وفاقی ججوں کی تعیناتی اپنی مرضی سے کرسکیں گے۔ اسلئے کہ امریکہ میں تمام اہم تقریوں کی سینیٹ سے تو ثیق ضروری ہے۔

نئی ٹرمپ انتظامیہ کیسی ہوگی تو اس معاملے میں کوئی ابہام ہے  نہ صدر ٹرمپ پتے چھپانے کے قائل ہیں۔ کامیابی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں وہ ترجیحات کا اعلان کرچکے ہیں یعنی

  • صدارتی حکم کے ذریعے ایک کروڑ سے زیادہ تارکین وطن کی ملک بدرری اور میکسیکو کی سرحد پر فوج کی تعیناتی۔
  • کارپویشنوں کے ٹیکس میں کٹوتی
  • درآمدات پر بالعموم اور چینی مصنوعات پر بالخصوص بھاری درامدی محصولات کا نفاذ۔ انتخاب سے ایک دن پہلے  انھوں نے کہا کہ چینی درآمدات پر 70 فیصد محصول بھی خارج از امکان نہیں۔
  • تیل اور گیس کی تلاش کیلئے کھدائی پر تمام پابندیاں ختم کردی جائینگی اور وہ چاہتے ہیں ملکی برآمدات میں تیل اور LNGکا تناسب کم ازکم پانچ فیصد ہو
  • امریکی فوج میں تبدیلیِ جنس کے آپریشن پر فوری پابندی

جہاں تک بین الاقوامی امور اور عالمی امن کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ٹرمپ سرکار مسلمانوں کے لئے اچھی نظر نہیں آرہی۔ ہم اپنی آج کی گفتگو کو ٹرمپ انتظامیہ کی فلسطین پالیسی تک محدود رکھیں گے۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں انھوں نے مسلمانوں اور عربوں کا ذکر عزت و احترام اور 'اپنائیت' سے کیا۔ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی انکی ترجیج ہوگی۔کامیابی کے بعد حامیوں سے خطاب میں انھوں نے مسلمانوں کی حمائت کا فخریہ اعتراف کیا۔ لیکن غزہ جنگ بندی کے حوالے سے انکی تجویز فلسطینیوں کیلئے انتہائی تشویشناک  ہے۔نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ریپبلکن پارٹی کی ترجمان محترمہ ایلزبیتھ پیپکو نے اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے بات کرتے ہوئے کہا 'ڈانلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ایک فیصلہ کن فتح کے ساتھ اسرائیل غزہ جنگ کو جلد ختم کردے '۔ ڈانلڈ ٹرمپ اس سے پہلے بھی غزہ جنگ کے خاتمے کو اسرائیل کی فیصلہ کن فتح سے مشروط کرچکے ہیں۔

ایرانی امور کیلئے سابق امریکی سفارتکار برائن ہوک (Brian Hook)، ٹرمپ عبوری بندوبست (Transition) کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔برائن ہوک، ایران کے معاملے اپنے سخت گیر روئے کیلئے مشہور ہیں۔آٹھ نومبر کو سی این این سے باتیں کرتے ہوئے برائن ہوک نے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں بدامنی اور عدم استتحکام پھیلارہا ہے اور صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کسی نئی امن پیشرفت سے پہلے ایران کو تنہا اور مالی پابندیوں کے ذریعے اسکی معیشت کی نمو کو کم سے کم کردیا جائے تاکہ تہران دہشت گردوں کی مالی اعانت، حوصلہ افزائی اور سہولت کاری نہ کرسکے۔ برائن ہوک کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ایران میں regime change کی خواہش نہیں رکھتے لیکن وہ ایران کو معقولیت پر مجبور کرنے کیلئے اسے دیوار سے لگا کر رکھنا چاہتے ہیں۔بائیڈن انتظامیہ کے اس الزم کے بعدکہ ایران ڈنلڈ ٹرمپ کو قتل کرانا چاہتا ہے، ٹرمپ صاحب مزید مشتعل ہوگئے ہیں۔

اپنے گزشتہ دوراقتدار میں جناب ٹرمپ نے  Deal of the Centuryکے عنوان سے جو 'معاہدہ ابراہیم ؑ'متعارف کرایا تھا وہ اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ابراہیمؑ معاہدہ ِامن کے خالق انکے داماد جیررڈ کشنر تھے، جنکی معاونت کیلئے اب نومنتخب صدر کے دوسرے داماد مسعود (مائیکل) بولوس بھی میدان میں ہیں۔ دوسال پہلے جناب ڈانلڈ ٹرمپ کی چھوٹی صاحبزادی ٹیفنی ٹرمپ نے لبنانی کروڑپتی مائیکل بولوس سے شادی کی ہے۔ دلہا میاں کا اصل نام مسعود ہے جسکے تلفظ میں مشکل کی وجہ سے وہ خود کو مائیکل کہتے ہیں۔ جناب بولوس نے اپنے سسر کی انتخابی مہم میں دل کھول کر پیسے خرچ کئے۔سات نومبر کو لبنانی میڈیا الجدید سے باتیں کرتے ہوئے مائیکل بولوس نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں وہ لبنانی امور کے ذمہ دار ہونگے۔ جیرڈ یہودی اور مسعود بولوس راسخ العقیدی قبطی مسیحی ہیں۔

معاہدہ ابراہیم ؑ کے مطابق مشرقی بیت المقدس سمیت تمام قبضہ بستیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائیگا۔باقی ماندہ علاقوں کو نیم خودمختاری دیکر ریاست فلسطیں قائم ہوگی۔فلسطینی ریاست کو فوج اور اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس معاہدے کو مزاحمت کار یکسر مسترد کرچکے ہیں۔

معاہدے کی 'روح' بیان کرتے ہوئے جیرڈ کشنر نے اسے  فلسطینیوں کیلئے مواقع اور امکانات کی دستاویز قراردیا ہے۔ انکاکہنا ہے کہ معاہدہ امن پر دستخط کے ساتھ ہی غرب اردن اور غزہ میں جدید ترین صنعتی منصوے شروع کئے جائینگے۔زراعت و مویشی بانی کیلئے تمام سہولتوں سے مزین فارم قائم ہونگے۔ٹیکنالوجی سینٹر کے قیام سے فلسطینی نوجوان کرہ ارض پر راج کرینگے۔چمکتی ریت سے  آراستہ غزہ کا شفاف ساحل دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز نگاہ بنے گا اور  صرف چند سال میں فلسطینیوں کا یہ علاقہ قرآن کے الفاظ میں سونا اگلتی برکتوں والی سرزمین میں تبدیل ہوجائیگا۔

جناب ٹرمپ نے غزہ جنگ کے آغاز پر اسے ایرانی کاروائی قراردیا تھا۔انکاخیال ہے کہ طوفان اقصٰی کا مقصد معاہدہ ابراہیم ؑ کو سبوتاژ کرنا تھا اور یہ سارا منصوبہ ایران میں تیار ہوا۔گزشتہ ماہ مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹرمپ بیانئے کی حمائت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ ایران ہے اور ایرانی اثرورسوخ ختم کئے بغیر علاقے میں استحکام نہیں آسکتا۔ ٹرمپ انظامیہ کیلئے جو نام سامنے آرہے  وہ لوگ بھی ایران کو 'فلسطینی تنازعے' کی جڑ سمجھتے ہیں۔ سفاتکار جان بولٹن، سینیٹر ٹام کاٹن، سینٹر مارک روبیو، انکی بہو لاراٹرمپ اور کاش پٹیل سب کے سب اسرائیل نواز اور اس بات پر مُصر ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کواسلحہ اور نظریاتی تربیت ایران سے ملتی ہے۔ انکے مشیرِ خصوصی، ٹیسلا و ٹویٹر کے سربراہ ایلون مسک مصنوعی ذہانت (AI)کی مدد سے سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف منظم و موثر مہم چلا رہے ہیں۔

دس نومبر کو ٹرمپ عبوری ٹیم نے نیویارک سے رکن کانگریس اور ریپبلکن پارلیمانی پارٹی کی نائب قائد محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else Stefanic)کو سفیر برائے اقوام متحدہ کا منصب پیش کیا ہے۔ چالیس سالہ اسٹیفانک نے امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو یہود دشمن یعنی Antisemiticقرار دیتے ہوئےجامعہ ہاروڈ، ایم آئی ٹی اور جامعہ پینسلوانیہ (Upen)کی صدور کو کانگریس کمیٹی کے روبرو طلب کیااور سماعت کےدوران امریکہ کی اِن موقر ترین جامعات کی سربراہان کے خلاف دھمکی آمیززبان استعمال کی۔ اس روئے سے پریشان ہوکر ٗUpen کی سربراہ ڈاکٹر لز میگل (Liz Magill)مستعفی ہوگئیں، جس پر اسٹیفانی نے ہانک لگائی کہ 'ایک گئی، دو باقی ہیں' ہارورڈ کی سربراہ ڈاکٹر کلاڈین گے (Claudine Gay)  کومظاہرین سے تعاون کے الزام میں مقدمات کی دھمکی دی گئی۔ڈاکٹر صاحبہ پھر بھی نہ مانیں تو انکے خلاف ادبی سرقے یا plagiarism کا اسکینڈل اچھال کر ڈاکٹر گے کو استعفے پر مجبور کردیا گیا۔

اس پس منظر میں جلداز جلد فیصلہ کن فتح کے اصرار سے غزہ کی جو صورتحال ابھرتی نظر آرہی اس پر سنگاپور میں مقیم ماہر تعلیم جناب اعظم علی صاحب کا تجزیہ بڑا صائب محسوس ہوتا ہے۔ اعظم علی صاحب اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں رقمطراز ہیں 'جنگ ختم کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں ظالم کا ہاتھ روکنا یا مظلوم اور اس کی مزاحمت کو ختم کرنا۔ یہاں دوسراحل زیادہ قرین از قیاس نظر آتا ہے '

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جنوری 2024


 

 

Thursday, November 7, 2024

 

ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار بنانے کا عندیہ

ایک سال کے دوران غزہ پر 80 ہزار ٹن بارود برسایا گیا

حساس راز افشا کرنے کے الزام میں وزیراعظم کے ترجمان گرفتار

اردنی سرحد پر فوج کا نیا ڈویژن تعینات کرنے کا منصوبہ لیکن سپاہی ندارد

جبالیہ کیلئے اضافی بریگیڈ کو کوچ کا حکم

اسرائیل کیلئے بارود مصری بندرگاہ اور تیل ترک بندرگاہ سے آرہا ہے

غزہ وحشت و بربریت کو اب چارسو دن ہوگئے۔ چند دن پہلے اقوام متحدہ نے اس بدنصیب قطع ارضی کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جسکے مطابق 21کلومیٹر طویل اور 8 کلومیٹر چوڑی اس پٹی پر شاید ایک مربع کلومیٹر جگہ بھی ایسی نہیں جہاں بم نہ گرے ہوں۔ سات اکتوبر کو اسرائیلی حملے کا ایک سال مکمل ہونے تک اس ننھے سے رقبے پر 80ہزارٹن بارودبرسایا گیا۔ لیکن آتش و آہن کی ایک سال سے جاری موسلادھار بارش کے دوران ہی اہل غزہ نے  خان یونس میں تمام ممکنہ سہولتوں سے آراستہ اسکول تعمیر کرلیا۔یہ اسکول تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر قائم کیا گیا ہے۔پرنسپل صاحبہ کا کہناہے کہ ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا لیکن ہم اپنے بچوں کا مستقبل نہیں برباد ہونے دینگے۔ جب ایک صحافی نے کہا 'اگر اسرائیل نے اسے بھی تباہ کردیا تو؟ 'اس پر پرنسپل صاحبہ قرآنی آئت کا حوالہ دیتے ہوئے بولیں 'تخلیقِ اول مشکل ہوتی ہے، دوبارہ بنانا کیا مشکل؟'

وزیراعظم نیتھن یاہو اب بھی شعلہ جوالہ بنے ہوئے ہیں لیکن سارے اسرائیل میں شہری زندگی افراتفری کا شکار ہے۔ لبنان سے متصل علاقے میں ہر گھنٹہ سائرن اور اسکے بعد زیرزمین پناہ گاہوں کی طرف دوڑ نے عام شہریوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ چھوٹے بچوں والے خاندان رات مستقل بنیادوں پر تہہ خانوں میں گزار ریے ہیں جسکی وجہ سے صحت وصفائی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔

اسرائیلی فوج مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کی راکٹ، میزائیل اور ڈرون بنانے والی فیکٹریاں تباہ اور داغنے والے لانچر برباد کردئے گئے۔ گزشتہ ہفتہ وزیر دفاع نے بہت فخر سے کہا کہ  دشمن کی راکٹ بازی کی صلاحیت صفر کی جاچکی ہے۔ سوئے اتفاق کہ جس وقت وزیردفاع تل ابیب میں یہ لاف زنی فرمارہے تھے، عین اسی وقت سرحد سے متصل مطلعہ (Metula)پر راکٹوں کی بارش نے  ہندوستان کے چار شہریوں سمیت پانچ افراد کی جان لے لی، یہ ہندوستانی وہاں کھیتوں پر کام کرنے آئے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد مطلعہ کے شمال میں کریات عطا کی عسکری کالونی نشانہ بنی اور دومزید اسرائیلی مارے گئے۔دوسرے دن لبنانی ڈرون نے نہریہ میں ریل کو نشانہ بنایا جس سے ایک پل کو نقصان پہنچا اور ایک کھڑی ریل کے دو ڈبے تباہ ہوگئے۔ اس سے اگلے روز یعنی تیس اکتوبر کولبنانی مزاحمت کاروں نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے نیتنیا (Netnaya) کو زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل سے نشانہ بنایا۔اسرائیل کا دعوی ہے کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔لبنانیوں نے تل ابیب پر حملے کیلئے پہلی بار Surface to Surface میزائیل استعمال کئے۔

خوف و ہراس صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں،کچل ڈالنے اور مٹادینے کی شیخی کے ساتھ خوف کا یہ عالم کہ وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک محفوظ تہہ خانے  منتقل ہوگئے ہیں اور اب کابینہ کا اجلاس ایک خفیہ زمین دوز بنکر میں ہورہا ہے۔ مزیداحتیاط کیلئے اجلاس کا مقام ہر بار تبدیل کردیا جاتا ہے۔فوجی قیادت بھی اب GHQکے بجائے زیرزمیں خفیہ پناہ گاہوں میں مجلسیں سجاتی ہے۔ شمالی غزہ کو بدترین فاقے میں مبتلا کرنے کے باوجود وہاں مزاحمت میں کمی کے آثار نہیں۔دو نومبر کو شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں تیسرا پیادہ بریگیڈ تعینات کردیا گیا۔ وہاں 162nd ڈویژن کے گیواتی اور 401st بریگٰیڈ پہلے ہی مصروف جنگ ہیں۔

دوسری طرف ایران نے 26 اکتوبر کے اسرائیلی حملے کا امریکی انتخابات (5 نومبر) سےپہلے جواب دینے کی دھمکی دی ہے، سی این این (CNN)کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ  'طوفان دیگری در راہ است' یعنی  ایک اور طوفان اب راستے میں ہے۔اس عزم کے اظہارِجلی کیلئے یہ تحریر عبرانی ترجمے کے ساتھ تہران کے ایک چوک میں ثبت کردی گئی ہے۔

یکم نومبر کو رہبر معظم حضرت علی خامنہ ای کے مشیر امورخارجہ اور مجلسِ تشخیصِ مصلحت نظام کے رکن کمال خرازی نے لبنانی ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اگر مملکت کی بقا خطرے میں نظر آئی تو اسلامی جمہوریہ ایران اپنے جوہری نظریے پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔جناب خرازی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری تکنیکی صلاحیتیں موجود ہیں۔ تاہم رہبرِ معظم کا فتویٰ جوہری ہتھیار بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حضرت خامنہ ای نے2019 میں فتویٰ دیا تھا کہ جوہری بم بنانا اور ذخیرہ کرنا غلط اور اس کا استعمال حرام ہے۔

اپنے سائے سے بھی خوفزدہ نیتھن یاہو کو آجکل ہر طرف جاسوس نظر آرہے ہیں۔دوہفتہ پہلے ایران کیلئے جاسوسی کے الزام میں چند اسرائیل شہری گرفتار کئے گئے اور خفیہ پولیس شا باک(Shin Bet) نے31اکتوبر کو لِد شہر سے 32 سالہ رفائل گولیو(Rafael Guliyev)اور انکی اہلیہ لالہ کو گرفتار کرلیاجن پر ایران کیلئے جاسوسی کا الزام ہے۔تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص عشر بن یامین کو گرفتار کیا گیا جو اسرائیلی جوہری سائنسدانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوا تھا۔

دو دن سے خبر گرم تھی کہ غزہ نسل کشی اور وہاں نظربند اسرائیلی قیدیوں کے متعلق انتہائی حساس معلومات اڑا لی گئیں جن میں سے کچھ نکات جرمن اخبار Bildاور برطانوی Jewish Chronicleمیں شایع بھی ہوچکے ہیں۔اس خبر کی تصدیق یکم نومبر کو ہوگئی جب جج میناخم مزراحی Menachem Mizrahiنے بتایا کہ سرکاری راز افشا کرنے کے الزام میں شاباک کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے چندملزمان کو انکی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے زیرحراست ملزمان کی تعداد اور نام بتائے بغیر کہا کہ 'راز افشا ہونے سے اسرائیل کے جنگی مقاصد کے حصول کو نقصان پہنچا ہے'۔ خبر کی اشاعت پر وزیراعظم آفس نے وضاحت کی کہ گرفتار ہونے والوں میں وزیراعظم کا کوئی مشیر یا عملے کا کوئی شخص شامل نہیں۔ تاہم چینل 12 نے گرفتار ہونے والے ایک فرد کے حوالے سے بتایا کہ وہ تنخواہ دار تو نہیں لیکن وزیراعظم کا قریبی مشیر تھا۔اپنے مقربین کی گرفتاری پر جناب نیتھن یاہو نے حساسیت” کی دُہائی دیکر عدالت سے معلومات پر پابندی کا حکم المعروف Gag orderجاری کرالیا۔ تین نومبر کو جج مجسٹریٹ مناخم مزراہی نے ایک ملزم کے Gag order منسوخ کئے تو پتہ چلا یہ صاحب وزیراعظم کے ترجمان ایلی فینسٹائین (Eli Feldstein) ہیں،  جنھوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے ایک مجوزہ خفیہ آپریشن کی تفصیلات یورپین میڈیا کو دی تھیں اور خبر ملتے ہی مزاحمت کاروں نے قیدیوں کے گرد گھیرا سخت کردیا۔ تین دوسرے زیرحراست ملزمان جن کے نام عدالت کے حکم پر خفیہ رکھے گئے ہیں انکے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ تینوں وزیراعظم کے گہرے دوست ہیں۔اس خبر پر قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے جو تبصرہ کیا اسکا شاعرانہ زبان میں ترجمہ کچھ اسطرح ہے۔ ہوئے تم دوست جسکے دشمن آسکا آسماں کیوں ہو

اسرائیل کو داخلی محاذ پر جاسوسی تو سرحدوں پر فوجی قلت کا سامنا ہے۔ فوج کے جاسوسی یونٹ 8200نے اپنی ایک رپورٹ میں وزارت دفاع کو مطلع کیا ہے کہ اسوقت جورڈن ویلی بریگیڈ بحیرہ مردار (بحیرہ لوط) سے شمال میں گولان تک کی نگرانی کرتی ہے جبکہ جنوب میں ایلات (خلیج عقبہ) تک یووو ریجنل بریگیڈ تعینات ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہزار 17 کلومیٹر طویل مشرقی سرحد کی موثر نگرانی دو بریگیڈ کے بس کی بات نہیں۔ رپورٹ ملتے ہی وزارت دفاع نے اردن سے متصل مشرقی سرحد کی نگرانی کیلئے فوج کی ایک نئی ڈویژن بھرتی کرنے کی منظوری دے دی۔سوال یہ ہے کہ اس نئے ڈویژن کیلئے افرادی قوت کہاں سے آئیگی کہ غزہ سے معذوروں کی شکل میں آنے والی زندہ لاشیں دیکھ کر اسرائیلی نوجوانوں کا فوج میں جانے کا ارمان خوف میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شاندار تنخواہ اور پرکشش مراعات کی پیشکش کے باوجود بھرتی مراکز پر سناٹا ہے۔

حریدی فرقے کے علما،  مدارس (Yeshiva)کے طلبہ کافوجی بھرتی سے استثنیٰ ختم کرنے کے مجوزہ قانون کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔استثنیٰ ختم ہونے کی صورت میں حریدی فرقے کی جماعتوں پاسبان توریت (Shas)پارٹی اور یونائیٹیڈ توریت پارٹی نے حکومتی اتحاد سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔ یہ بیساکھیاں ہٹتے ہی جناب نیتھن یاہو کی حکومت زمیں بوس ہوجائیگی۔مدارس کے استثنیٰ کو بنیاد بناکر عام نوجوان بھی بھرتی مراکز کا رخ نہیں کررہے۔

گزشتہ ہفتے وزیردفاع نے حریدی ارکانِ کنیسہ (پارلیمان) کو خطاب کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا 'معزز علما، پاسبان و پاسدارانِ توریت! یہ مذہبی یا سیاسی نہیں، مملکت کے بقا کا معاملہ ہے۔ ہم کئی سمت اور کئی افق سے جارحیت کا ہدف ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں ہمارے فوجی زخمی اور معذور ہیں، لاتعدادکڑیل جوان مادر وطن پر قربان ہوگئے، ملک کو مزید فوجیوں کی ضرورت ہے۔ اسستثنٰی ختم کئے بغیر ہم غیر حریدیوں کو فوج میں بھرتی پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ اسرائیل رہیگا تو مدارس بھی قائم رہینگے۔ ملک بچائیں یا توریت پڑھائیں ؟ عوام فیصلہ کرلیں۔ اسرائیل کے دفاع میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا' اس خطاب پر لبرل و سیکیولر عناصر نے تو تالیاں پیٹیں اور ڈیسک بجائے لیکن علما ٹس سے مس نہ ہوئے اور دوسرے روز تل ابیب کے بھرتی مرکز پر داڑھی، شیروانی اور ٹوپی والوں نے زبردست مظاہرہ کیا اور پولیس سے مارکھائی۔

دنیا بھر میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرے اور آگاہی کی جو زبردست مہم چل رہی ہے وہ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے باعث اب تک غیر موثر ہے لیکن کہیں کہیں انسانی ضمیر میں حرکت محسوس ہورہی ہے۔ کمپیوٹر کے ملائم سہارے (Software) تیار کرنے والا امریکی ادارہ پلانٹِر (Palantir), اسرائیلی محکمہ دفاع کو مصنوعی ذہانت (AI)کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسرائیلی فوج سے تعاون کو غزہ نسل کشی میں سہولت کاری قراردیتے ہوئے ناروے کے تجارتی ادارے اسٹور برانڈ (Store brand)نے پلانٹِر میں سرمایہ کاری معطل کردینے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹور برانڈ کی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 109ارب ڈالر ہے تاہم اس کے پاس اس وقت پلانٹر کے صرف 2 کروڑ 24 لاکھ ڈالر کے حصص ہیں۔ یہ رقم بہت بڑی تو نہیں لیکن انسانی حقوق کے بارے میں نارویجین کمپنی کی فکر مندی قابل تحسین ہے۔

اسکے مقابلے میں مصر کا رویہ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ خبر ملتے ہی کہ جرمنی سے 150ٹن بارود اسرائیل بھیجا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے وکلا نے اس پر پابندی کیلئے برلن (جرمنی) کی عدالت میں ایک درخواست دائر کردی۔سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ اہل غزہ کے قتل عام کیلئے یہ تباہ کن سامان جرمن مال بردار جہازMV Kathrin کے ذریعے روانہ کیا گیا ہے جو 28 اکتوبر سے اسکندریہ (مصر) کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہے۔ مصری حکومت نے اسکی تردید کی ہے لیکن وکلا نے سمندری ٹریفک پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ کا حوالہ دیکر کہا ہے کہ MV Kathrin اسکندریہ  سے یکم نومبر کو اسرائیلی بندرگاہ اشدود روانہ ہوگیا۔

کچھ ایسا ہی معاملہ آذربائیجان، قازقستان اور ترکیہ کا ہے۔ اسرائیل اپنی ضرورت کا تیل آذربائیجان اور قازقستان سے خریدتا ہے۔ یومیہ دولاکھ 20 ہزار بیرل تیل، 1768 کلومیٹر لمبی پائپ لائن کے ذریعے بحر روم میں ترک بندرگاہ جیحان (Ceyhan)پہنچتا ہے۔ جہاں سے ٹینکروں کے ذریعے اسے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ لے جایا جاتا ہے۔ آجکل راکٹ حملوں کی وجہ سے حیفہ پورٹ مخدوش ہوگئی ہے تو غزہ کے شمال میں اشدود کی بندرگاہ استعمال ہورہی ہے۔قازقستان اور آذربائیجان سے شکوہ نہیں کہ وہ کوئی دعوی نہیں کرتے لیکن اپنی ہر تقریر میں اسرائیل کی مذمت کرنے والے محترم طیب ایردوان،  جیحان کی پائپ لائن بند کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ معلوم نہیں یہ اسرائیل کا خوف ہے یا پائپ لائن محصولات کی لالچ؟؟؟؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 8 نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 10 نومبر 2024


Saturday, November 2, 2024

 

امریکی انتخابات

 ہسپانیوں کے خلاف جلسہ عام میں توہین آمیز تبصرہ

غزہ میں جنگ بند کرانے کا وعدہ

بیلٹ بکسوں کا نذرِ آتش کرنے کے تین واقعات

ٹرمپ کی جانب سے اتحادیوں کی دفاعی امداد میں کفائت شعاری کا عندیہ

انتخابی مہم کا خرچ ۔۔ 16 ارب ڈالر

اب صرف دو دن بعد امریکی انتخابات منعقد ہونے ہیں۔انتخابات کیلئے قبل ازوقت یا earlyووٹنگ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے یعنی 29 اکتوبر تک چار کروڑ 80 لاکھ امریکی رائے دہندگان اپنے ووٹ ڈال چکے ہیں جو چار سال پہلے ڈالے جانے والے کل ووٹ کا 30 فیصد ہے۔ خیال ہے کہ روزِ انتخاب یعنی 5 نومبر سے پہلے ایک تہائی ووٹ بھگتائے جاچکے ہونگے۔ اس بار قبل از وقت ووٹ ڈالنے کا تناسب 2020 کے مقابلے میں ذرا کم ہے جب کوووڈ 19 وبا کی بنا پر رائے دہندگان کی بڑی تعداد نے ڈاک اور قبل از ووٹنگ کے دوران اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔

قبل از ووٹنگ کے دوران جو جائزے شایع ہورہے ہیں اسکے مطابق ڈانلڈٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان مقابلہ بہت سخت اور  گھمسان کی جنگ والی ساتوں ریاستوں میں کسی بھی امیدوار کو ڈیڑھ فیصد سے زیادہ کی برتری نہیں۔ شمالی کیرولینا، جارجیا اور ایریزونا میں ڈانلد ٹرمپ آگے ہیں، مشیگن میں کملا ہیرس کی کاردگی بہتر ہے جبکہ وسکونس، پینسلوانیہ اور نواڈامیں دونوں بالکل برابر ہیں۔

عرب اور مسلمان ووٹروں میں اس بار گرین پارٹی کی ڈاکٹر جل اسٹائن زیادہ مقبول ہیں اور ٹرمپ صاحب کی کارکردگی کملا جی سے بہتر ہے۔ چھیبس اکتوبر کو مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ میں جلسے کے دوران جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدار آگر غزہ اور لبنان میں جنگ بند کرائینگے۔ انکی دعوت پر چند عرب رہنماوں اور ائمہ مساجد نے اسٹیج پر آکر ڈانلڈ ٹرمپ کی حمائت کا اعلان کیا۔ جناب ٹرمپ نے حمائت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تحفظِ جنین یعنی اسقاط حمل کی مخالفت اور ہم جنس پرستی کی یلغار کے  خلاف مسلمان انکے موقف کے حامی ہیں اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے وہ مسلمانوں کیساتھ مل کر کام کرینگے۔اگلے چند دنوں میں اگر ڈانلڈ ٹرمپ مزید مسلمان ووٹروں کو اپنی طرف ملانے میں کامیاب ہوگئے تو مشیگن اور وسکونسن میں انکی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے۔تاہم عرب امریکن سیاسی مجلس عمل (AAPAC)نے ڈانلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں کو عربوں کیلئے ناموزوں قراردیا ہے

پیر 28 اکتوبر کو نیویارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن میں بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اتحادیوں کے لیے دفاعی امداد کے معاملے میں بہت 'کنجوس' ہیں اور انکی انتظامیہ کا اصول 'امریکا فرسٹ' ہوگا۔ ہمارے دوست سن لیں وقت آگیا ہےکہ ہم سب اپنا اپنا خیال رکھیں یعنی کھلا کھاتہ نہیں چلے گا۔ہم مشرق وسطیٰ میں خونریزی، کشیدگی اور افراتفری کو ختم کرینگے تاکہ تیسری عالمی جنگ نہ ہو۔جناب ٹرمپ ادھر کچھ دنوں سے عوامی خطاب کے دوران اسرائیل کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کررہے ہیں۔ اس جلسے میں مزاحیہ اداکار ٹونی ہنچکلف (Tony Hinchliffe) نے ہسپانویوں کے بارے میں انتہائی حقارت آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے امریکی غرب الہند میں بحیرہ کریبین (Caribbean) کے جزیرے پر قائم خودمختار امریکی کالونی  پورتوریکو (Puerto Rico)کو 'سمندر کے وسط میں کچرے کا تیرتا ہوا جزیرہ' قراردیا۔ ڈانلڈ ٹرمپ کے ترجمان نے اداکار کے تبصرے سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن اسکی مذمت نہیں کی۔

دوسری طرف عرب اور مسلمانوں کے شدید دباو کے باوجودکملا ہیرس، اسرائیل کی غیر مشروط حمائت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ گزشتہ ہفتے پینسلوانیہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انکے شوہر ڈگ ایمہاف نے کہا کہ اگر کملا ہیرس امریکہ کی صدر منتخب ہوگئیں تو قصر مرمریں کے مرکزی دروازے پر عبرانی نشانِ در(Doorpost) نصب کیا جائیگاجسے Mezuzahکہتے ہیں۔ مردِ شریف دوم (2nd Gentleman)نے فخر سے کہا کہ کملا کے نائب صدر منتخب ہوتے ہی ہم نے نائب صدر کی رہائش گاہ پر میزوزا نصب کیا تھا۔ میزوزہ دراصل جانور (بکرا، گائے کا بچھڑا یا بھیڑ) کی کھال پر اللہ کے عبرانی اسمائے مبارکہ  سے ایک نام اور عہد نامہ قدیم یعنی توریت کی چھٹی سورت (Deuteronomy) کی چوتھی آئت لکھ کر اسے تختی کے دونوں طرف ثبت کردیا جاتا ہے۔ تختی کا اللہ کے نام والا حصہ سامنے رہتا ہے۔ چوتھی آیت کا ترجمہ کچھ اسطرح ہے 'بنی اسرائیل سنو!! ہمارا مالک ، ہمارا رب ہمارا الہ ایک ہے'۔ میزوزہ دراصل دروازے پر لٹکائی جانیوالی حفاظتی تعویز ہے۔

انتخابات کے دن قریب آنے کیساتھ نظریاتی کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ ٹرمپ اور انکے انتہا پسند حامیوں نے اب تک 2020 کے نتائج کا تسلیم نہیں کیا اور انکا خیال ہے کہ  ڈیموکریٹک پارٹی کی کاسہ لیس مقتدرہ اس بار بھی جناب ٹرمپ کے حق نمائندگی یا مینڈیٹ پر شب خون ماریگی۔

قبل از ووٹنگ کے آغاز سے اب تک بیلٹ بکسوں کو آگ لگانے کے تین واقعات ہوچکے ہیں۔ یہاں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے والوں کی سہولت کیلئے بڑے شہروں میں مخصوص مقامات پر بیلٹ بکس نصب کئے جاتے ہیں۔

اس ماہ کی 8 تاریخ کو ریاست واشنگٹن کے شہر وینکوور میں بیلٹ بکس کو آگ لگادی گئی۔بیس دن بعد اکتوبر کی صبح ساڑھے تین بجے ریاست اوریگن (Oregon)کے سب سے بڑے شہر پورٹ لینڈ میں سڑک کے کنارے رکھا گیا بیلٹ بکس بھڑک اٹھااور اسکے آدھے گھنٹے بعد ریاست واشنگٹن کے شہر ونکوور میں ایک بار پھر بیلٹ بکس کو آتشکیر مادہ چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ تینوں واردات میں ضبط بعید (ریموٹ کنٹرول) تیکنیک استعمال نہیں ہوئی بلکہ کسی شخص یا افراد نے جائے وارادت پر پہنچ کر پرچہ انتخاب کے صندوقوں کو آگ لگائی۔

آخر میں صدارتی مہم کے اخراجات پر ایک نظر

کملا ہیرس صاحبہ کے مداحوں نے اب تک انھیں ایک ارب 27 کروڑ ڈالر چندہ دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو 94 کروڑ ڈالر عطیات موصول ہوئے جنکہ ٹویٹر اور ٹیسلا کے مالک ایلون مسک ٹرمپ مہم کیلئے اپنی جیب سے چار کروڑ 40 لاکھ ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ حوالہ جرمن خبررساں ایجنسی DW

سی این این (CNN)کے مطابق صدارتی اور پارلیمانی (کانگریس) انتخابی مہم کا مجموعی خرچ پندرہ ارب 90 کروڑ ڈالر ہے۔

روزنامہ جسارت، سنڈے میگزین  کراچی 3 نومبر 2024