ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار بنانے کا عندیہ
ایک سال کے دوران غزہ پر 80 ہزار ٹن بارود
برسایا گیا
حساس راز افشا کرنے کے الزام میں وزیراعظم کے
ترجمان گرفتار
اردنی سرحد پر فوج کا نیا ڈویژن تعینات کرنے کا
منصوبہ لیکن سپاہی ندارد
جبالیہ کیلئے اضافی بریگیڈ کو کوچ کا حکم
اسرائیل کیلئے بارود مصری بندرگاہ اور تیل ترک
بندرگاہ سے آرہا ہے
غزہ
وحشت و بربریت کو اب چارسو دن ہوگئے۔ چند دن پہلے اقوام متحدہ نے اس بدنصیب قطع
ارضی کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جسکے مطابق
21کلومیٹر طویل اور 8 کلومیٹر چوڑی اس پٹی پر شاید ایک مربع کلومیٹر جگہ بھی ایسی
نہیں جہاں بم نہ گرے ہوں۔ سات اکتوبر کو اسرائیلی حملے کا ایک سال مکمل ہونے تک اس
ننھے سے رقبے پر 80ہزارٹن بارودبرسایا گیا۔ لیکن آتش و آہن کی
ایک سال سے جاری موسلادھار بارش کے دوران ہی اہل غزہ نے خان یونس میں تمام ممکنہ سہولتوں سے آراستہ
اسکول تعمیر کرلیا۔یہ اسکول تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر قائم کیا گیا ہے۔پرنسپل
صاحبہ کا کہناہے کہ ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا لیکن ہم
اپنے بچوں کا مستقبل نہیں برباد ہونے دینگے۔ جب ایک صحافی نے کہا 'اگر اسرائیل نے
اسے بھی تباہ کردیا تو؟ 'اس پر پرنسپل صاحبہ قرآنی آئت کا حوالہ دیتے ہوئے بولیں
'تخلیقِ اول مشکل ہوتی ہے، دوبارہ بنانا کیا مشکل؟'
وزیراعظم نیتھن یاہو اب بھی
شعلہ جوالہ بنے ہوئے ہیں لیکن سارے اسرائیل میں شہری زندگی افراتفری کا شکار ہے۔
لبنان سے متصل علاقے میں ہر گھنٹہ سائرن اور اسکے بعد زیرزمین پناہ گاہوں کی طرف
دوڑ نے عام شہریوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ چھوٹے بچوں والے خاندان رات مستقل
بنیادوں پر تہہ خانوں میں گزار ریے ہیں جسکی وجہ سے صحت وصفائی کا مسئلہ کھڑا
ہوگیا ہے۔
اسرائیلی
فوج مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کی راکٹ، میزائیل اور ڈرون
بنانے والی فیکٹریاں تباہ اور داغنے والے لانچر برباد کردئے گئے۔ گزشتہ ہفتہ وزیر
دفاع نے بہت فخر سے کہا کہ دشمن کی راکٹ
بازی کی صلاحیت صفر کی جاچکی ہے۔ سوئے اتفاق کہ جس وقت وزیردفاع تل ابیب میں یہ
لاف زنی فرمارہے تھے، عین اسی وقت سرحد سے متصل مطلعہ
(Metula)پر راکٹوں کی بارش نے ہندوستان کے چار شہریوں سمیت پانچ افراد کی جان
لے لی، یہ ہندوستانی وہاں کھیتوں پر کام کرنے آئے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد مطلعہ کے
شمال میں کریات عطا کی عسکری کالونی نشانہ بنی اور دومزید اسرائیلی مارے گئے۔دوسرے
دن لبنانی ڈرون نے نہریہ میں ریل کو نشانہ بنایا جس سے ایک پل کو نقصان پہنچا اور
ایک کھڑی ریل کے دو ڈبے تباہ ہوگئے۔ اس سے اگلے روز یعنی تیس اکتوبر کولبنانی مزاحمت کاروں نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے نیتنیا (Netnaya) کو زمین سے زمین پر مار کرنے
والے میزائیل سے نشانہ بنایا۔اسرائیل کا دعوی ہے کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔لبنانیوں
نے تل ابیب پر حملے کیلئے پہلی بار Surface to Surface میزائیل استعمال کئے۔
خوف و ہراس صرف سرحدی علاقوں
تک محدود نہیں،کچل ڈالنے اور مٹادینے کی شیخی کے ساتھ خوف کا یہ عالم کہ وزیراعظم
اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک محفوظ تہہ خانے
منتقل ہوگئے ہیں اور اب کابینہ کا اجلاس ایک خفیہ زمین دوز بنکر میں ہورہا
ہے۔ مزیداحتیاط کیلئے اجلاس کا مقام ہر بار تبدیل کردیا جاتا ہے۔فوجی قیادت بھی اب GHQکے بجائے زیرزمیں خفیہ پناہ گاہوں میں مجلسیں
سجاتی ہے۔ شمالی غزہ کو بدترین فاقے میں مبتلا کرنے کے باوجود وہاں
مزاحمت میں کمی کے آثار نہیں۔دو نومبر کو شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں تیسرا
پیادہ بریگیڈ تعینات کردیا گیا۔ وہاں 162nd
ڈویژن کے گیواتی اور 401st
بریگٰیڈ پہلے ہی مصروف جنگ ہیں۔
دوسری طرف ایران نے 26 اکتوبر کے اسرائیلی حملے کا امریکی
انتخابات (5 نومبر) سےپہلے جواب دینے کی دھمکی دی ہے، سی این این (CNN)کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ 'طوفان دیگری در راہ است' یعنی ایک اور طوفان اب راستے میں ہے۔اس عزم کے اظہارِجلی
کیلئے یہ تحریر عبرانی ترجمے کے ساتھ تہران کے ایک چوک میں ثبت کردی گئی ہے۔
یکم نومبر کو رہبر معظم حضرت
علی خامنہ ای کے مشیر امورخارجہ اور مجلسِ تشخیصِ مصلحت نظام کے رکن کمال خرازی نے
لبنانی ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اگر مملکت کی بقا خطرے میں نظر آئی تو
اسلامی جمہوریہ ایران اپنے جوہری نظریے پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔جناب خرازی کا کہنا
تھا کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری تکنیکی صلاحیتیں موجود ہیں۔
تاہم رہبرِ معظم کا فتویٰ جوہری ہتھیار بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حضرت خامنہ ای
نے2019 میں فتویٰ دیا تھا کہ جوہری بم بنانا اور ذخیرہ کرنا غلط اور اس کا استعمال
حرام ہے۔
اپنے سائے سے بھی خوفزدہ
نیتھن یاہو کو آجکل ہر طرف جاسوس نظر آرہے ہیں۔دوہفتہ پہلے ایران کیلئے جاسوسی کے
الزام میں چند اسرائیل شہری گرفتار کئے گئے اور خفیہ پولیس شا باک(Shin Bet) نے31اکتوبر کو لِد شہر سے 32 سالہ رفائل گولیو(Rafael Guliyev)اور انکی اہلیہ لالہ کو گرفتار کرلیاجن پر ایران کیلئے جاسوسی کا
الزام ہے۔تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص عشر بن یامین کو گرفتار کیا گیا جو اسرائیلی
جوہری سائنسدانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوا تھا۔
دو دن سے خبر گرم تھی کہ غزہ
نسل کشی اور وہاں نظربند اسرائیلی قیدیوں کے متعلق انتہائی حساس معلومات اڑا لی
گئیں جن میں سے کچھ نکات جرمن اخبار Bildاور برطانوی Jewish Chronicleمیں شایع بھی ہوچکے ہیں۔اس خبر کی تصدیق یکم نومبر کو ہوگئی جب جج
میناخم مزراحی Menachem Mizrahiنے
بتایا کہ سرکاری راز افشا کرنے کے الزام میں شاباک کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے چندملزمان
کو انکی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے زیرحراست ملزمان کی تعداد اور نام
بتائے بغیر کہا کہ 'راز افشا ہونے سے اسرائیل کے جنگی مقاصد کے حصول کو نقصان پہنچا
ہے'۔ خبر کی اشاعت پر وزیراعظم آفس نے وضاحت کی کہ گرفتار ہونے والوں میں وزیراعظم
کا کوئی مشیر یا عملے کا کوئی شخص شامل نہیں۔ تاہم چینل 12 نے گرفتار ہونے والے
ایک فرد کے حوالے سے بتایا کہ وہ تنخواہ دار تو نہیں لیکن وزیراعظم کا قریبی مشیر
تھا۔اپنے مقربین کی گرفتاری پر جناب نیتھن یاہو نے “حساسیت” کی دُہائی دیکر عدالت سے معلومات پر پابندی کا حکم المعروف Gag orderجاری کرالیا۔ تین نومبر کو
جج مجسٹریٹ مناخم مزراہی نے ایک ملزم کے Gag order منسوخ کئے تو پتہ چلا یہ صاحب وزیراعظم کے ترجمان ایلی فینسٹائین (Eli Feldstein) ہیں، جنھوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے ایک مجوزہ خفیہ
آپریشن کی تفصیلات یورپین میڈیا کو دی تھیں اور خبر ملتے ہی مزاحمت کاروں نے
قیدیوں کے گرد گھیرا سخت کردیا۔ تین دوسرے زیرحراست ملزمان جن کے نام عدالت کے حکم
پر خفیہ رکھے گئے ہیں انکے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ تینوں وزیراعظم کے
گہرے دوست ہیں۔اس خبر پر قائد حزب
اختلاف یار لیپڈ نے جو تبصرہ کیا اسکا شاعرانہ زبان میں ترجمہ کچھ اسطرح ہے۔ ہوئے
تم دوست جسکے دشمن آسکا آسماں کیوں ہو
اسرائیل کو داخلی محاذ پر
جاسوسی تو سرحدوں پر فوجی قلت کا سامنا ہے۔ فوج کے جاسوسی یونٹ 8200نے اپنی ایک رپورٹ
میں وزارت دفاع کو مطلع کیا ہے کہ اسوقت جورڈن ویلی بریگیڈ
بحیرہ مردار (بحیرہ لوط) سے شمال میں گولان تک کی نگرانی کرتی ہے جبکہ جنوب میں
ایلات (خلیج عقبہ) تک یووو ریجنل بریگیڈ تعینات ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہزار 17
کلومیٹر طویل مشرقی سرحد کی موثر نگرانی دو بریگیڈ کے بس کی بات نہیں۔ رپورٹ ملتے
ہی وزارت دفاع نے اردن سے متصل مشرقی سرحد کی نگرانی کیلئے فوج کی ایک نئی ڈویژن
بھرتی کرنے کی منظوری دے دی۔سوال یہ ہے کہ اس نئے ڈویژن کیلئے افرادی قوت کہاں سے
آئیگی کہ غزہ سے معذوروں کی شکل میں آنے والی زندہ لاشیں دیکھ کر اسرائیلی
نوجوانوں کا فوج میں جانے کا ارمان خوف میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شاندار تنخواہ اور
پرکشش مراعات کی پیشکش کے باوجود بھرتی مراکز پر سناٹا ہے۔
حریدی فرقے کے علما، مدارس (Yeshiva)کے طلبہ کافوجی بھرتی سے استثنیٰ ختم کرنے کے مجوزہ قانون کی شدت
سے مخالفت کررہے ہیں۔استثنیٰ ختم ہونے کی صورت میں حریدی فرقے کی جماعتوں پاسبان
توریت (Shas)پارٹی
اور یونائیٹیڈ توریت پارٹی نے حکومتی اتحاد سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔ یہ
بیساکھیاں ہٹتے ہی جناب نیتھن یاہو کی حکومت زمیں بوس ہوجائیگی۔مدارس کے استثنیٰ
کو بنیاد بناکر عام نوجوان بھی بھرتی مراکز کا رخ نہیں کررہے۔
گزشتہ ہفتے وزیردفاع نے
حریدی ارکانِ کنیسہ (پارلیمان) کو خطاب کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا 'معزز
علما، پاسبان و پاسدارانِ توریت! یہ مذہبی یا سیاسی نہیں، مملکت کے بقا کا معاملہ
ہے۔ ہم کئی سمت اور کئی افق سے جارحیت کا ہدف ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں ہمارے فوجی
زخمی اور معذور ہیں، لاتعدادکڑیل جوان مادر وطن پر قربان ہوگئے، ملک کو مزید
فوجیوں کی ضرورت ہے۔ اسستثنٰی ختم کئے بغیر ہم غیر حریدیوں کو فوج میں بھرتی پر
آمادہ نہیں کرسکتے۔ اسرائیل رہیگا تو مدارس بھی قائم رہینگے۔ ملک بچائیں یا توریت
پڑھائیں ؟ عوام فیصلہ کرلیں۔ اسرائیل کے دفاع میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا'
اس خطاب پر لبرل و سیکیولر عناصر نے تو تالیاں پیٹیں اور ڈیسک بجائے لیکن علما ٹس
سے مس نہ ہوئے اور دوسرے روز تل ابیب کے بھرتی مرکز پر داڑھی، شیروانی اور ٹوپی
والوں نے زبردست مظاہرہ کیا اور پولیس سے مارکھائی۔
دنیا بھر میں غزہ نسل کشی کے
خلاف مظاہرے اور آگاہی کی جو زبردست مہم چل رہی ہے وہ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے
باعث اب تک غیر موثر ہے لیکن کہیں کہیں انسانی ضمیر میں حرکت محسوس ہورہی ہے۔ کمپیوٹر
کے ملائم سہارے (Software) تیار
کرنے والا امریکی ادارہ پلانٹِر (Palantir), اسرائیلی محکمہ دفاع کو مصنوعی ذہانت (AI)کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسرائیلی فوج سے تعاون کو غزہ نسل کشی میں
سہولت کاری قراردیتے ہوئے ناروے کے تجارتی ادارے اسٹور برانڈ (Store brand)نے پلانٹِر میں سرمایہ کاری معطل کردینے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹور
برانڈ کی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 109ارب ڈالر ہے تاہم اس کے پاس اس وقت پلانٹر
کے صرف 2 کروڑ 24 لاکھ ڈالر کے حصص ہیں۔ یہ رقم بہت بڑی تو نہیں لیکن انسانی حقوق
کے بارے میں نارویجین کمپنی کی فکر مندی قابل تحسین ہے۔
اسکے مقابلے میں مصر کا رویہ
ملاحظہ فرمائیں۔ یہ خبر ملتے ہی کہ جرمنی سے 150ٹن بارود اسرائیل بھیجا جارہا ہے۔
انسانی حقوق کے وکلا نے اس پر پابندی کیلئے برلن (جرمنی) کی عدالت میں ایک درخواست
دائر کردی۔سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ اہل غزہ کے قتل عام کیلئے یہ تباہ کن سامان
جرمن مال بردار جہازMV Kathrin کے
ذریعے روانہ کیا گیا ہے جو 28 اکتوبر سے اسکندریہ (مصر) کی بندرگاہ پر لنگر انداز
ہے۔ مصری حکومت نے اسکی تردید کی ہے لیکن وکلا نے سمندری ٹریفک پر نظر رکھنے والی
ویب سائٹ کا حوالہ دیکر کہا ہے کہ MV Kathrin اسکندریہ سے یکم نومبر کو اسرائیلی
بندرگاہ اشدود روانہ ہوگیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ
آذربائیجان، قازقستان اور ترکیہ کا ہے۔ اسرائیل اپنی ضرورت کا تیل آذربائیجان اور
قازقستان سے خریدتا ہے۔ یومیہ دولاکھ 20 ہزار بیرل تیل، 1768 کلومیٹر لمبی پائپ
لائن کے ذریعے بحر روم میں ترک بندرگاہ جیحان (Ceyhan)پہنچتا ہے۔ جہاں سے ٹینکروں کے ذریعے اسے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ لے
جایا جاتا ہے۔ آجکل راکٹ حملوں کی وجہ سے حیفہ پورٹ مخدوش ہوگئی ہے تو غزہ کے شمال
میں اشدود کی بندرگاہ استعمال ہورہی ہے۔قازقستان اور آذربائیجان سے شکوہ نہیں کہ
وہ کوئی دعوی نہیں کرتے لیکن اپنی ہر تقریر میں اسرائیل کی مذمت کرنے والے محترم
طیب ایردوان، جیحان کی پائپ لائن بند کرنے
کی ہمت نہ کرسکے۔ معلوم نہیں یہ اسرائیل کا خوف ہے یا پائپ لائن محصولات کی
لالچ؟؟؟؟
ہفت روزہ فرائیڈے
اسپیشل کراچی 8 نومبر 2024
ہفت روزہ
دعوت دہلی 8 نومبر 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 10 نومبر 2024
No comments:
Post a Comment