ٹرمپ کی کامیابی اور مشرق وسطیٰ کا
مستقبل
ایران!!! نئی امریکی حکومت کا بنیادی
ہدف؟؟؟
اسرائیل کو فیصلہ کن فتح کے ساتھ جلداز جلد
جنگ ختم کرنے کی تلقین
انتطامیہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں ٹرمپ کے
زیراثر
امریکی
انتخابات مکمل ہوگئے جن میں ڈانلڈ ٹرمپ نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے کہ وہ تمام
کی تمام سات فیصلہ کن ریاستوں میں جیت گئے اور 2020 کے مقابلے میں انکے ووٹوں میں سترہ لاکھ کا اضاٖفہ ہوا۔دوسری طرف چار سال پہلے کے
مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ 83لاکھ
کم ہوگئے۔ سینیٹ یا راجیہ سبھا کی چار نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی سے چھین کر صدر ٹرمپ
کی جماعت نے 100 رکنی ایوان میں اپنا حجم 53 کرلیا، 47 نشستوں پر ڈیموکریٹس
براجمان ہیں۔ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) میں ریپبلکن پارٹی نے 218نستیں جیت کر 435 رکنی ایوان میں اکثریت حاصل
کرلی ہے، 209 نشستوں پر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئےجبکہ 8 پر گنتی جاری
ہے۔
اگر
عدلیہ کا جائزہ لیا جائے تو 9 رکنی عدالت عظمیٰ میں جناب ٹرمپ کے نظریاتی
اتحادیوں کی تعداد 6 ہے جن میں سے 3 کا تقرر نو منتخب صدر کے گزشتہ دورِ صدارت میں
ہوا تھا۔ اسکا مطلب ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو مقننہ اور عدلیہ دونوں کی مکمل حمائت
حاصل ہوگی۔ انھیں قانون سازی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی، اور اگر صدارتی احکامات
کے خلاف انکے مخالفین عدالت گئے تو فیصلہ ٹرمپ صاحب کے حق میں ہونے کی توقع ہے۔
نئے صدر، کابینہ کا انتخاب، سفرا کا تقرر
اور وفاقی ججوں کی تعیناتی اپنی مرضی سے کرسکیں گے۔ اسلئے کہ امریکہ میں تمام اہم تقریوں
کی سینیٹ سے تو ثیق ضروری ہے۔
نئی
ٹرمپ انتظامیہ کیسی ہوگی تو اس معاملے میں کوئی ابہام ہے نہ صدر ٹرمپ پتے چھپانے کے قائل ہیں۔ کامیابی کے
بعد اپنے پہلے خطاب میں وہ ترجیحات کا اعلان کرچکے ہیں یعنی
- صدارتی حکم کے
ذریعے ایک کروڑ سے زیادہ تارکین وطن کی ملک بدرری اور میکسیکو کی سرحد پر فوج
کی تعیناتی۔
- کارپویشنوں کے
ٹیکس میں کٹوتی
- درآمدات پر
بالعموم اور چینی مصنوعات پر بالخصوص بھاری درامدی محصولات کا نفاذ۔ انتخاب
سے ایک دن پہلے انھوں نے کہا کہ چینی
درآمدات پر 70 فیصد محصول بھی خارج از امکان نہیں۔
- تیل اور گیس کی
تلاش کیلئے کھدائی پر تمام پابندیاں ختم کردی جائینگی اور وہ چاہتے ہیں ملکی
برآمدات میں تیل اور LNGکا تناسب کم ازکم پانچ فیصد ہو
- امریکی فوج میں تبدیلیِ جنس
کے آپریشن پر فوری پابندی
جہاں
تک بین الاقوامی امور اور عالمی امن کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ٹرمپ سرکار
مسلمانوں کے لئے اچھی نظر نہیں آرہی۔ ہم اپنی آج کی گفتگو کو ٹرمپ انتظامیہ کی
فلسطین پالیسی تک محدود رکھیں گے۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں انھوں نے مسلمانوں
اور عربوں کا ذکر عزت و احترام اور 'اپنائیت' سے کیا۔ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ
مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی انکی ترجیج ہوگی۔کامیابی کے بعد حامیوں سے خطاب میں انھوں
نے مسلمانوں کی حمائت کا فخریہ اعتراف کیا۔ لیکن غزہ جنگ بندی کے حوالے سے انکی
تجویز فلسطینیوں کیلئے انتہائی تشویشناک
ہے۔نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ریپبلکن پارٹی کی ترجمان محترمہ ایلزبیتھ
پیپکو نے اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے بات کرتے ہوئے کہا 'ڈانلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ایک فیصلہ کن فتح کے ساتھ اسرائیل غزہ
جنگ کو جلد ختم کردے '۔ ڈانلڈ ٹرمپ اس سے پہلے بھی غزہ جنگ کے خاتمے کو اسرائیل کی
فیصلہ کن فتح سے مشروط کرچکے ہیں۔
ایرانی امور کیلئے سابق
امریکی سفارتکار برائن ہوک (Brian Hook)، ٹرمپ عبوری بندوبست (Transition) کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔برائن ہوک، ایران کے معاملے اپنے سخت گیر
روئے کیلئے مشہور ہیں۔آٹھ نومبر کو سی این این سے باتیں کرتے ہوئے برائن ہوک نے
کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں بدامنی اور عدم استتحکام پھیلارہا ہے اور صدر ٹرمپ
چاہتے ہیں کہ کسی نئی امن پیشرفت سے پہلے ایران کو تنہا اور مالی پابندیوں کے
ذریعے اسکی معیشت کی نمو کو کم سے کم کردیا جائے تاکہ تہران دہشت گردوں کی مالی
اعانت، حوصلہ افزائی اور سہولت کاری نہ کرسکے۔ برائن ہوک کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ
ایران میں regime change کی
خواہش نہیں رکھتے لیکن وہ ایران کو معقولیت پر مجبور کرنے کیلئے اسے دیوار سے لگا
کر رکھنا چاہتے ہیں۔بائیڈن انتظامیہ کے اس الزم کے بعدکہ ایران ڈنلڈ ٹرمپ کو قتل
کرانا چاہتا ہے، ٹرمپ صاحب مزید مشتعل ہوگئے ہیں۔
اپنے گزشتہ دوراقتدار میں جناب
ٹرمپ نے Deal
of the Centuryکے عنوان سے جو 'معاہدہ ابراہیم ؑ'متعارف کرایا تھا وہ اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ابراہیمؑ
معاہدہ ِامن کے خالق انکے داماد جیررڈ کشنر تھے، جنکی معاونت کیلئے اب نومنتخب صدر
کے دوسرے داماد مسعود (مائیکل) بولوس بھی میدان میں ہیں۔ دوسال پہلے جناب ڈانلڈ
ٹرمپ کی چھوٹی صاحبزادی ٹیفنی ٹرمپ نے لبنانی کروڑپتی مائیکل بولوس سے شادی کی ہے۔
دلہا میاں کا اصل نام مسعود ہے جسکے تلفظ میں مشکل کی وجہ سے وہ خود کو مائیکل کہتے
ہیں۔ جناب بولوس نے اپنے سسر کی انتخابی مہم میں دل کھول کر پیسے خرچ کئے۔سات
نومبر کو لبنانی میڈیا الجدید سے باتیں کرتے ہوئے مائیکل بولوس نے بتایا کہ ٹرمپ
انتظامیہ میں وہ لبنانی امور کے ذمہ دار ہونگے۔ جیرڈ یہودی اور مسعود بولوس راسخ
العقیدی قبطی مسیحی ہیں۔
معاہدہ ابراہیم ؑ کے مطابق مشرقی
بیت المقدس سمیت تمام قبضہ بستیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائیگا۔باقی
ماندہ علاقوں کو نیم خودمختاری دیکر ریاست فلسطیں قائم ہوگی۔فلسطینی ریاست کو فوج
اور اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس معاہدے کو مزاحمت کار یکسر مسترد کرچکے
ہیں۔
معاہدے کی 'روح' بیان کرتے
ہوئے جیرڈ کشنر نے اسے فلسطینیوں کیلئے
مواقع اور امکانات کی دستاویز قراردیا ہے۔ انکاکہنا ہے کہ معاہدہ امن پر دستخط کے
ساتھ ہی غرب اردن اور غزہ میں جدید ترین صنعتی منصوے شروع کئے جائینگے۔زراعت و
مویشی بانی کیلئے تمام سہولتوں سے مزین فارم قائم ہونگے۔ٹیکنالوجی سینٹر کے قیام
سے فلسطینی نوجوان کرہ ارض پر راج کرینگے۔چمکتی ریت سے آراستہ غزہ کا شفاف ساحل دنیا بھر کے سیاحوں کا
مرکز نگاہ بنے گا اور صرف چند سال میں
فلسطینیوں کا یہ علاقہ قرآن کے الفاظ میں سونا اگلتی برکتوں والی سرزمین میں تبدیل
ہوجائیگا۔
جناب ٹرمپ نے غزہ جنگ کے
آغاز پر اسے ایرانی کاروائی قراردیا تھا۔انکاخیال ہے کہ طوفان اقصٰی کا مقصد
معاہدہ ابراہیم ؑ کو سبوتاژ کرنا تھا اور یہ سارا منصوبہ ایران میں تیار ہوا۔گزشتہ
ماہ مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹرمپ بیانئے کی حمائت کرتے ہوئے کہا کہ
اسرائیل کے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ
ایران ہے اور ایرانی اثرورسوخ ختم کئے بغیر علاقے میں استحکام نہیں آسکتا۔ ٹرمپ
انظامیہ کیلئے جو نام سامنے آرہے وہ لوگ
بھی ایران کو 'فلسطینی تنازعے' کی جڑ سمجھتے ہیں۔ سفاتکار جان بولٹن، سینیٹر ٹام
کاٹن، سینٹر مارک روبیو، انکی بہو لاراٹرمپ اور کاش پٹیل سب کے سب اسرائیل نواز اور
اس بات پر مُصر ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کواسلحہ اور نظریاتی تربیت ایران سے
ملتی ہے۔ انکے مشیرِ خصوصی، ٹیسلا و ٹویٹر کے سربراہ ایلون مسک مصنوعی ذہانت (AI)کی مدد سے سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف منظم و موثر مہم چلا رہے ہیں۔
دس
نومبر کو ٹرمپ عبوری ٹیم نے نیویارک سے رکن کانگریس اور ریپبلکن پارلیمانی پارٹی
کی نائب قائد محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else
Stefanic)کو سفیر برائے اقوام متحدہ کا منصب پیش کیا
ہے۔ چالیس سالہ اسٹیفانک نے امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو
یہود دشمن یعنی Antisemiticقرار دیتے ہوئےجامعہ ہاروڈ، ایم آئی ٹی اور جامعہ
پینسلوانیہ (Upen)کی صدور کو کانگریس کمیٹی کے روبرو طلب کیااور
سماعت کےدوران امریکہ کی اِن موقر ترین جامعات کی سربراہان کے خلاف دھمکی آمیززبان
استعمال کی۔ اس روئے سے پریشان ہوکر ٗUpen کی سربراہ ڈاکٹر لز میگل (Liz Magill)مستعفی ہوگئیں، جس پر اسٹیفانی نے ہانک لگائی کہ 'ایک گئی،
دو باقی ہیں' ہارورڈ کی سربراہ ڈاکٹر کلاڈین گے (Claudine
Gay) کومظاہرین سے تعاون کے الزام میں مقدمات کی
دھمکی دی گئی۔ڈاکٹر صاحبہ پھر بھی نہ مانیں تو انکے خلاف ادبی سرقے یا plagiarism کا اسکینڈل اچھال کر ڈاکٹر گے کو استعفے پر مجبور کردیا
گیا۔
اس پس
منظر میں جلداز جلد فیصلہ کن فتح کے اصرار سے غزہ کی جو صورتحال ابھرتی نظر آرہی
اس پر سنگاپور میں مقیم ماہر تعلیم جناب اعظم علی صاحب کا تجزیہ بڑا صائب محسوس
ہوتا ہے۔ اعظم علی صاحب اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں رقمطراز ہیں 'جنگ ختم کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں ظالم کا ہاتھ روکنا یا مظلوم
اور اس کی مزاحمت کو ختم کرنا۔ یہاں دوسراحل زیادہ قرین از قیاس نظر آتا ہے '
ہفت روزہ فرائیڈے
اسپیشل کراچی 15 نومبر 2024
ہفت روزہ
دعوت دہلی 15 نومبر 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جنوری 2024
No comments:
Post a Comment