Thursday, June 15, 2023

عودی امریکی تعلقات رگِ مینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

 

سعودی امریکی تعلقات

رگِ مینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن تین روزہ دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے۔ اس دوران انھوں نے خلیج تعاونی کونسل (GCC)کے انسدادِ دہشت گردی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ واپسی پر امریکی وزیرخارجہ نے دورے کو بہت کامیاب، ملاقاتوں کو دلچسپ ور گفتگو کو انتہائی دوستانہ قراردیا لیکن سیانے کہہ رہے ہیں کہ سعودیوں کا رویہ سردتھا۔ ایک ماہ پہلے قومی سلامتی کیلئے صدر بائیڈن کے مشیر جیک سولیون  بھی سعودی یاترا کرچکے ہیں

 ادھر کچھ عرصے سے سعودی امریکی تعلقات کی  روائتی گرمجوشی ماند ُ پڑتی نظر  آرہی ہے۔ شکایات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن چند اہم معاملات کچھ اسطرح ہیں۔

  • سعودی عرب نے امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر ، چین کی ثالثی میں ایران سے سفارتی تعلقات بحال کرلئے
  • یمن میں حوثیوں سے کشیدگی ختم کرنے کا معاملے پر واشنگٹن  سے مشورہ نہیں کیا گیا
  • شام سے تعلقات کی بحالی بھی بالا ہی بالا کرلی گئی اور امریکہ کو اس اہم پیشرفت کی اطلاع ذرائع ابلاغ سے ہوئی
  • تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں پر   شدید دباو ہے اور سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBS امریکہ سے تعاون  کے بجائے  پیداوار میں مسلسل کٹوتی کررہے ہیں۔
  • سعودی عرب کے چین اور روس سے تعلقات میں گرمجوشی آرہی ہے اور اب ریاض اسلحے کیلئے بھی بیجنگ اور ماسکو سے مول تول کررہا ہے
  • سعودی عرب چین اور روس باہمی تجارت مقامی سِکّوں یعنی روسی روبل، چینی یووان اورسعودی ریال میں کرنے پر رضامند نظر آرہے ہیں۔
  • سعودی عرب، اسرائیلی کمرشل طیاروں کیلئے اپنی فضائی حدود تو کھول دی ہیں، لیکن MBSمتحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح تل ابیب سے سفارتی  تعلقات کی بحالی کیلئے  تیار نہیں
  • مغرب میں سعودی، ایران، ترکیہ، روس اور چین تجارتی اتحاد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے
  • سعودی عرب جوہری توانائی کے حصول میں سنجیدہ ہے اور تعاون کیلئے اسکی نظریں بیجنگ کی طرف ہیں۔

امریکیوں کا خیال ہے کہ جنوری 2015 میں MBSکے نائب ولی عہد کا عہدہ سنبھالنے کے وقت سے  سعودی تیور کا تیکھا پن نمایاں ہے۔ غیر جانبدار سیاسی مبصرین واشنگٹن کے اس تجزئے کو تسلیم نہیں کرتے اور ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدا میں نائب ولی عہد  واشنگٹں کا مخلص دوست تھے لیکن انھوں نے اگلی دہائی تک مملکت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا تہییہ کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذمہ داریاں سنبھالتے ہی انھوں نے ماہرین کی ٹیمیں بناکر 'جدید سعودی' کی تعمیر کا آغاز کیا اوراپریل 2016 کو رویۃ السعودیہ یا Vision 2030کا اعلان کیا گیا۔

وژن  2030کا کلیدی نکتہ سعودی معیشت میں تنوع ہے۔ وہ  خام تیل پر دارومدار کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔۔ اسی کے ساتھ انھوں نے نجی شعبوں کے تعاون و مشارکت سے صحت و تعلیم، بنیادی ڈھانچے (Infrastructure)، تفریح اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دینے کاخیال پیش کیا جس میں حکومت کا سرمایہ، حصہ اور مداخلت کم سے کم ہو۔ منصوبے کے مطابق 2030 تک سعودی عرب کو عرب اور اسلامی دنیا کا قلب، بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مرکز اور تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ کا طاقتور اقتصادی سنگم بننا ہے

ان اہداف کے حصول کیلئے  وہ چینی تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بیجنگ کی توجہ گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی ترقی پر ہے۔ عالمی تنازعات پر بیجنگ دوٹوک اور جاندار موقف اختیار کئے ہوئے ہے اور امریکہ سے جاری ہونے والے قابل  اعتراض بیانات کا ترکی بہ ترکی جواب بھی ترنت دے دیا جاتا ہے لیکن جارحانہ عسکری پیشقدمی سے گریز اسکی سفارتکاری کا بنیادی جزو ہے۔

سعودی عرب نے بھی وژن 2030کی طرف  یکسوئی کیلئے علاقائی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی راہ اختیار کرلی اور چین کی ثالثی میں ایران سے مذاکرات شروع ہوئے۔ امریکہ و یورپ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے  ایران کی اقتصادی صورتحال بہت اچھی نہیں اور سعودی عرب سے کشیدگی کی بنا پر  یمن، شام و لبنان میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں۔ ان تینوں محاذ پر کسی جانب کوئی پیشرفت بھی نہیں ہورہی، چنانچہ ایران  اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔ چینیوں نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان ملکوں کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ چین کا کہنا ہے کہ 'جب دودوست مسکراتے چہروں کیساتھ مذاکرات کی میز پر آگئے تو باقی متنازعہ امور بھی بات چیت کے ذریعےطئے ہوجائینگے'، عرب و عجم کشیدگی کم ہونے کے خوشگوار اثرات ہر جگہ محسوس ہوئے۔ یمن میں بمباری کا خاتمہ اور قیدیوں کے تبادلے سے تناو کم ہوا تو دوسری جانب سعودی عدرب  اور شام کے سفارتی تعلقات بھی بحال ہوگئے۔اس معاملے میں  امریکہ کا نظر انداز کئے جانے کا شکوہ اس لحاظ سے غیر ضروری ہے کہ ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں لہذا واشنگٹن کیلئے ثالثی ممکن ہی نہیں۔

 وژن  2030 کے منصوبوں کی سرمایہ کاری زیر زمین ابلتے سیاہ سونے ہی سے ہو گی، چنانچہ تیل کی قیمتوں میں استحکام  MBSکی اولین ترجیحِ  ہے۔ ساری دنیا میں تیل کی پیداوار کا ایک تہائی امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماضی میں روس  خود کو  تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم  اوپیک کا مسابقت کار سمجھتا تھا اسلئے   پیداوار کے معاملے میں روس کی ترجیحات اوپیک سے مختلف تھیں۔ یوکرین کی جنگ اور یورپ کی جانب سے روسی تیل کے بائیکاٹ  نے ماسکو کو اوپیک کا اتحادی بنادیا ہے جسکی وجہ سے بازار پر سعودی عرب کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے۔

جوہری پروگرام  سے دلچسپی کی وجہ  بھی یہی ہے کہ سعودی عرب  توانائی کی ضرورت کیلئے تیل پر انحصار کم سے کم کرکے  متبادل ذرایع تلاش کررہا ہے  جس میں جوہری توانائی کلیدی حیثیت رکھتی  ہے۔

امریکہ اور سعودی عررب کے درمیان شدید کشیدگی کا آغاز اکتوبر 2018 میں ہوا جب ممتاز سعودی صحافی اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار  جناب جمال خاشقجی  کو انقرہ کے سعودی قونصل خانے میں قتل کرکے انکی لاش ٹھکانے لگادی گئی۔مرحوم  اپنے دستاویزات کی تصدیق کیلئے  قونصل خانے  گئے تھے۔ اس واقعے سے صرف  16 ماہ قبل محمد بن سلمان  نے ولی عہد کا منصب  سنبھالا تھا۔صدر بائیڈن ان لوگوں میں  شامل ہیں جن کا خیال ہے  کہ جناب خاشقجی،  MBSکے حکم پر قتل کئے گئے۔ اپنی 2020 کی انتخابی مہم میں جناب بائیڈن نے اس معاملے کو خوب اچھالا اور کہا اگر انتخاب جیت گئے تو  وہ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک غیر جانبدار کمیشن بنانے کی سفارش کرینگے۔ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وہ  یہاں تک کہہ  گئے کہ 'برسر اقتدار آکر وہ ریاض کے ساتھ Pariah (اچھوت) کا سا برتاو کرینگے جو وہ (مہذب دنیا کیلئے)  ہیں'۔ جنوری 2021 میں اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ایک  رپورٹ اشاعتِ عام کیلئے جاری کردی جس میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ 'جمال خاشقجی کو MBSکے  حکم پر سعودی خفیہ ایجنسی اور شاہی گارڈ کے صریع الحرکت دستے  فرقہ النمر نے قتل کیا۔اسی کے ساتھ سعودی محکمہ سراغرسانی کے نائب سربراہ  احمد العصیری سمیت 76 سعودی اہلکاروں  پر پابندیاں لگادی گئیں۔ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج کو پہنچی۔

سعودی عرب سے تعلقات میں آپڑی سلوٹوں کو دورکرنے کا ہدف لیکر امریکی وزیرخارجہ 6 جون کو ریاض پہنچے۔  سعودیوں کی سرد مہری ائرپورٹ پر ہی عیاں ہوگئی جب مملکت آمد پر امریکی وزیر خارجہ کا استقبال سعودی عرب میں امریکہ کے سفیر اور سعودی وزرات خارجہ کے ایک عام افسر نے کیا۔امریکی وزیرباتدبیر کے دورےسے ایک دن قبل  سعودی ارامکو نے پیداوار میں دس لاکھ بیرل کمی کا مژدہ سنا کر تیل کی قیمت کو سفارتی اصطلاح میں مذاکرات سے  off the tableکردیا۔ایک ہفتہ قبل، اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے بارے میں  سعودی وزارت خارجہ اپنے اس موقف کا اعادہ  کرچکی تھی کہ خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے، سفارتی تعلقات ممکن نہیں۔

سعودی ولی عہد سے ملاقات میں جناب بلینکن نے سوڈان کے امریکی شہریوں کے انخلا میں مدد پر انکا شکریہ اداکیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو بے حد اہمیت دیتا ہے اور ساتھ ہی بقراطی بھی جھاڑ دی کہ "انسانی حقوق پر پیش رفت سے ہمارے تعلقات کو  تقویت ملے گی'۔ ایم بی ایس نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ جناب بلینکن  انکے ہم منصبب  نہیں لیکن وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  جناب بلیکنن کے سعودی ہم منصب  نے کہا کہ انکا ملک تمام امور پر کھلے دل سے بات چیت کا خواہشمند ہے اور کوئی بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں کسی قسم کی جھجھک محسوس ہو لیکن سعودی عرب دھمکی اور دباو میں  آنے والا نہیں اور  نہ اخلاقیات پر لیکچر کی ہم کوئی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

امریکہ اور جی سی سی ممالک کی تزویراتی )اسٹرٹیجک( شراکت یا التحالف الدولی  (Global Coalition)کے موضوع پر وزارتی اجلاس  7 جون ہوا کو جس  میں اہم علاقائی امور بشمول یمن، سوڈان، شام اور فلسطینی کے معاملات زیر بحث آئے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب انتھونی بلینکن نے کہا کہ’ امن و استحکام کی خواہش لئے امریکہ تمام و سائل اور عزم کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں  موجود ہے اور ہم  آپ کے ساتھ گہری شراکت قائم کیے ہوئے ہیں۔ مستحکم ، محفوظ اور خوشحال مشرق وسطی  ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین ہدف ہے جسکے حصول کیلئے امریکہ اپنے قابل احترام و معزز خلیجی دوستوں کیساتھ مل کر کام کرتا رہیگا۔ اتحاد و یکجہتی کی بات کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے ایران کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار ضروری سمجھا اور بولے ' بین الاقوامی پانیوں میں ٹینکروں پر قبضے سمیت اشتعال انگیر ایرانی  رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم کام جاری رکھے ہوئے ہیں‘۔علاقائی تنازعات کے باب میں جناب بلینکن نے کہا  کہ’ امریکہ یمن اور شام تنازعات کے ایسے باوقار سیاسی حل کا خواہشمند ہے  جو ِان ممالک کے  اتحاداو سالمیت کی ضمانت اور  عوامی امنگوں کے مطابق ہو۔

اس اجلاس کا سب سے اہم نکتہ دہشت گردی تھا، چنانچہ داعش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے، دہشت گردی کو کچلنے اور انتہا پسند نظریات کی بیخ کنی کیلئے مختلف اقدامات پر غور کیا گیا۔ اس دوران  امن و استحکا م کیلئے  جی سی سی امریکی کوششیں تیز کرنے اور مختلف علاقائی وبین الاقوامی مسائل میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زوردیاگیا۔ وزرائے خارجہ نے مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کو درپیش بحرانوں کے ممکنہ حل تک رسائی کے لیے کی جانے والی کوششوں اور مختلف نقطہ ہائے نظر پر تبادلہ خیال کیا ۔ امریکی وزیرخارجہ نے  سوڈان میں لڑائی کے خاتمے کےلیے امریکہ کا مخلصانہ تعاون جاری رکھنے کا یقین دلایا۔

  وزارتی اجلاس کے بعد جناب انٹونی بلینکن  کے ہمراہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیرخارجہ نے اپنے جوہری پروگرام کا تفصیل سے ذکر کیا۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نےکہا  کہ  سعودی عرب کا جوہری منصوبہ پرامن مقاصد کیلئے  اورہماری جوہری سرگرمیا ں شفاف ہیں۔ریاض امریکہ سمیت ساری دنیا کو تعاون کی دعوت دے رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ  اس معاملے میں  ہم امریکہ سے تعاون کو   ترجیح دینگے۔سعودی شہزادے  نے بتایا  کہ کئی ممالک   نے تعاون کی پیشکش کی ہے اور  ہم  اپنے پروگرام کیلئے دنیا کی  جدید اور محفوظ ترین ٹیکنالوجی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ  'سعودی جوہری   پروگرام کےکچھ  نکات  پر  امریکہ  ہم سے متفق نہیں ،  اس لیے ہم ایک ایسا طریق کا ر وضع کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے   دونوں ملک مل کر کام کر سکیں' ۔ ا مریکی وزیرخارجہ کو مخاطب کرکے شہزادہ صاحب نے یہ بھی کہدیا کہ  ہم اس پروگرام پر آگے بڑھنے کیلئے پرعزم ہیں'

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ کہہ کر سعودی وزیرخارجہ ، اپنے امریکی ہم منصب کو باور کرانا چاہتے تھے کہ اگر جوہری پروگرام کیلئے امریکہ نے تعاون نہ  کیا تو  ریاض کے پاس  چین، روس یا فرانس کی طرف  جانے کا راستہ کھلا ہے

اگر چہ کہ جوہری پروگرام پر سعودی حکومت کی جانب سے یہ پہلی سرکاری وضاحت ہے لیکن اس معاملے پر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کافی عرصے سے گفتگو ہورہی ہے۔ شہزدہ فیصل بن  فرحان کی اس   دوٹوک  گفتگو سے پہلے امریکی  محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ صاف توانائی یعنی Clean and Green Energy  کے حصول میں سعودی عرب  سےتعاون  کریگی،   جس میں پرامن جوہری پروگرام  بھی  شامل ہے۔تاہم فاضل ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ  یورینیم افزودگی کے منصوبوں کے لیے امریکہ  کی شرائط کیا ہونگی؟

   جوہری بموں سے  ہیروشیما اور ناگا ساکی کو ریت کا ڈھیر بنانے والے امریکہ کو جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ  پھیلاوپر شدید تشویش  ہے۔   چنانچہ واشنگٹن یورینیم کی افزددگی پر کڑی نظر رکھنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن کئی بار فرماچکے ہیں  کہ جوہری عدم پھیلاؤ   ہر امریکی انتظامیہ کی کلیدی و تزویراتی ترجیح ہے۔

دورے کے بعد وطن واپسی پر جب انکا خصوصی طیارہ اسرائیل کی فضائی حدود میں تھا، جناب بلینکن نے  وزیراعظم نیتھن یاہو  (بی بی) کو  فون  کیا  اور تنازعہ فلسطین کے دوریاستی حل پر زور دیتے ہوئے بی بی  سے تعاون کی درخواست کی۔ جناب بلینکن کا کہنا تھا آزاد و خودمختار فلسطین،  تنازعے کے پرامن حل کی بنیادی شرط ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی وزارت خارجہ نے یہ  نہیں بتایا کہ جناب بلینکن کی درخواست پر اسرائیلی وزیراعظم نے کیا کہا لیکن ماضی میں جناب نیتھن یاہو اور انکے اتحادی  آزاد فلسطینی رہاست کو یکسر مسترد کرچکے ہیں۔ سعودیوں سے ملاقات کے فوراً بعد اسرائیلی وزیراعظم کو فون سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات چیت کے دوران سعودی ولی عہد نے  فلسطینی ریاست کے قیام کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بنیادقراردیتے ہوئے مملکت کے موقف میں نرمی سے انکار کردیاہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعودی امریکی تعلقات میں در آنے والی خلیج کو پُر کرنے کا جو مشن لے کر امریکی وزیرخارجہ ریاض آئے تھے، اس میں انھیں بس اتنی ہی کامیابی ہوئی کہ  سعودی تمام امور پر بات چیت جاری کیلئے تیار ہیں تاہم، سعودی چین قربت، اسرائیل کو تسلیم کرنے، ابھرتے ہوئے روس، چین،  سعودی اور ترکیہ تعاون، سعودی جوہری پروگرام  اور عرب و عجم مفاہمت سمیت کسی بھی اہم معاملے پر ریاض اپنا موقف تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے مخالفین  قیام ریآض کے دوران جناب بلینکن کے کمزور اور مدافعانہ  انداز پر انھیں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ا نسانی حقوق کے امریکی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملاقاتوں میں  جناب بلینکن نے اشاروں کنایوں  میں بھی جمال خاشقجی کا ذکر نہیں کیا۔امریکی وزیرخارجہ نے ریاض میں انسانی حقوق کی خاتون کارکنوں سے ملاقات  کی لیکن مہمان وزیرخارجہ سے ملنے والے وفد کا انتخاب سعودی حکومت نے کیا تھا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکی و سعودی تعقات میں جس تیزی سے رخنہ بلکہ زوال آیا ہے اسکا خلاصہ  بقولِ احمد فراز کچھ اسطرح ہے

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر

بے پئے  بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہی

رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 جون 2023

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 16 جون 2023

روزنامہ امت کراچی  16 جون 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 جون 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

Thursday, June 8, 2023

مقتدرہ فلسطین کا زوال، حماس کا کمال و اقبال ؟؟؟ مصالحت کیلئے قظر، ترکیہ اور مصر کی کوششیں

 

مقتدرہ فلسطین  کا زوال،   حماس  کا کمال و اقبال ؟؟؟

مصالحت کیلئے قظر، ترکیہ اور مصر کی کوششیں

اسرائیلی  خفیہ ایجنسی برائے اندرونی سلامتی ، تحفظِ بیت (عبرانی تلفظ شین بیت) المعروف شاباک کے سربراہ رونن بار (Ronen Bar)گزشتہ ہفتے خصوصی دورے پر امریکہ تشریف لائے۔ یکم جون کو واشنگٹن میں سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس اور وزارت خارجہ کے اعلی افسران سے  طویل ملاقاتوں کے کئی طویل دور چلے۔ اسی دوران اسرائیل کے وزیربرائے تزویراتی (strategic) امور رون ڈرمر اور مشیر قومی سلامتی ذکی حنافی( Tzachi Hanegbi) )  بھی امریکی دارالحکومت میں موجود تھے۔ ان دونوں حضرات نے امریکی صدر کے مشیرِ  قومی سلامتی  جیک سولیون سے ملاقات کی۔

سرکاری اعلامئے کے مطابق ان ملاقاتوں میں ایرانی جوہری پروگرام پر گفتگو کی گئی۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ تہران کسی بھی وقت جوہری دھماکہ کرسکتا ہے۔ کئی دہائیوں سے عائد اقتصادی پابندیاں اور حجاب کے معاملے پر اٹھنے  بلکہ اٹھائی جانیوالی شورش  ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ جوہری پروگرام کیخلاف اب تک کوئی کاروائی فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں ہوئی اور 'ملا' اپنے ہدف اور خواب یعنی جوہری اسلامی ایران کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

یہ تو تھا سرکاری اعلامیوں کا خلاصہ لیکن، اسرائیل کے تینوں بڑے اخبار یعنی  ٹائمز آف اسرائیل ، یروشلم پوسٹ اور الارض (Haaretz)  کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں کا اصل مقصد محمود عباس کی فلسطین پر  کمزور بلکہ تحلیل ہوتی گرفت سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ ہر گزرتے دن کیساتھ مقتدرہ فلسطین، اہلِ  فلسطین کا اعتماد کھوتی جارہی ہے۔ اسرائیل کی پشت پناہی کے باجود، مقتدرہ   قوتِ نافذہ سے محروم اور اخوانی فکر کی حامل حماس کے  اثرات تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں۔

السلطہ الوطنيہ الفلسطينیہ یا PNAالمعرف PAکا قیام معاہدہ اوسلو کا نتیجہ ہے۔سلطہ سے مراد ریاست ہے لیکن عملاً یہ ایک انتظامی اختیار ہے اسلئے ہم نے اسے Palestinian Authority یا مقتدرہ فلسطین کہا ہے۔اس موضوع ہر گفتگو سے پہلے قارئین کی دلچسپی کیلئے  علاقے کی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر

فلسطین کی تاریخ  کئی ہزار پرانی ہے جب حضرت ابراہیمؑ یہاں تشریف لائے اور اسکے بعد انکے جلیل القدر پوتے حضرت اسحقٰؑ  کی پشت سے بنی اسرائیل نے جنم لیا۔ اللہ نے اس بابرکت سرزمین  کو مومنوں کیلئے شفیق اور اپنے باغیوں کیلئے شمشیر ِنے بے نیام باشاہوں اور عظیم الشان پیغمبروں سے نوازاتھا۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں چنانچہ ہم اپنی آج کی گفتگوکو  علاقے کی حالیہ خون آشام و نامراد تاریخ تک محدود رکھیں گے۔ اس سے پہلے بھی ایک نشست میں  ہم یہ نوحہ پڑھ چکے ہیں۔

 اقوام متحدہ نے 29 ستمبر 1947فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردئے۔ جسکے بعد  دوقومی نظرئے کے مطابق اس ارض، مقدس کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا گیا اور  تقسیم اُسی 'منصفانہ' اصولوں پر ہوئی جسےایک ماہ پہلے تقسیم ہندکے وقت اختیار کیا گیا تھا۔یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو سرزمینِ فلسطین کا 56 فیصد اور فلسطینیوں کو اپنی ہی ر یاست کی  42 فیصد زمین نصیب ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرارپایا۔ نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عربوں کی تعداد 4لاکھ 38ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔

تقسیم کے ساتھ ہی برطانوی فوج کی سرپرستی میں دہشت گردوں نے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، حتیٰ کہ  5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی۔  تقسیم فلسطین معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو اسلحہ لے کر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ نہتے فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ متعصب عسکری تجزیہ نگاروں نے سنگدلانہ طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس مزاحمت کاہدف تحفظِ قُدس سے زیادہ حصولِ شہادت تھا۔ اسی کیساتھ ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔

مسلح دہشت گردوں نے پیشقدمی جاری رکھی اور 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا ۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں  سےمجموعی طور پر 2 کروڑ مربع میٹر اراضی چھین لی گئی۔ جون 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنک (عبرانی ملحمت ستہ) فلسطینیوں کی کم نصیبیوں کا ایک اور سنگ میل ثابت ہوئی جب  دریائے اردن کا مغربی کنارہ، مسجد الاقصیٰ سمیت سارا بیت المقدس، ہضبۃ الجولان (Golan Heights) اور صحرائے سینائی کا بڑا حصہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا۔چھ سال بعد 1973 کی 19 روزہ جنگ رمضان نے جسے اسرائیل جہادِ یوم کپر کہتے ہیں، مزید عرب علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا اور ساتھ ہی عربوں کے حوصلے بھی جواب دے گئے۔

موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قبضے کو قانونی ٰحیثیت دینے کیلئے مذاکرات کا ڈول ڈالاگیا۔ اس تنازعے کے بنیادی  فریق اسرائیل، تنظیم آزادی فلسطین یا PLO، مصر، شام اور اردن ہیں۔ شام نے اسرائیل سے کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کردیا اور شامی اب تک اپنے اس موقف پر قائم ہیں۔ پی ایل او، مصر اور اردن امریکہ کی کوششوں سے امن مذاکرات پر تیار ہوگئے جسے Land for Peaceفارمولے کا نام دیا گیا۔۔اسوقت ڈیموکریٹک پارٹی کے بل کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ انکے وزیرخارجہ وارن کرسٹوفر Warren Christopherنے  پی ایل اور کے سربراہ یاسر عرفات سے تیونس میں کئی ملاقاتیں کیں اسی دوران ممتاز امریکی سفارتکار ہنری کسنجر نے بھی اہم کردارادا کیا

اس سلسلے میں پہلے باقاعدہ مذاکرات 30اکتوبر 1991 کو اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں ہوئے جس میں اسرائیل، لبنان، اردن اور پی ایل او کے نمائندوں نے شریک کی ، 1993 کے آغاز پر ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پی ایل او اور اسرائیل  کے درمیان خفیہ امن مذاکرات کا آغاز ہوا۔ بات چیت کے دوران پی ایل او نے اسرائیل کو بطورِ ریاست اور اسرائیل نے پی ایل اور کو فلسطینیوں کی  نمائندہ تنظیم تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس مفاہمت کومعاہدہ اوسلو کا نام دیا گیا

ستمبر 1993 میں صدر بل کلنٹن کی ثالثی میں اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابن اور پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات امن معاہدے پر راضی ہوگئے اور ' عبوری خود مختار حکومت کے  اصولی  اعلان' کے عنوان سے واشنگٹن میں ایک معاہدے پر پی ایل او کی جانب سے محمود عباس اور اسرائیلی وزیرخارجہ شمعون پیریز نے دستخط کئے۔ یہ معاہدے سے زیادہ مفاہمت کی یادداشت تھی جس میں دریائے اردن کےمغربی کنارے اور غزہ کا سیاسی انتظام PLO کو سونپنے کا وعدہ کیا گیا۔ اعلانات میں امریکی حکام نے اسے خودمختار فلسطینی ریاست کی طرف پہلا قدم قراردیا لیکن حقیقت میں  مجوزہ فلسطینی مقتدرہ کا اختیار رئیسِ شہر یا Mayorسے زیادہ نہ تھا۔

مقتدہ فلسطین کے پہلے عام انتخابات منعقدہ 1996 میں جناب یاسرعرفات 90 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے جبکہ انکی حریف بائیں بازو کی محترمہ سمیحہ خلیل المعروف ام خلیل نے10 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ پارلیمانی انتخابات میں الفتح نے المجلس التشریعی الفسطین (قومی اسمبلی) کی 88 میں سے 50 نشستیں جیت لیں اور 35 نشستوں کے ساتھ آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر رہے۔ ان انتخابات میں حماس غیر جانبدار رہی لیکن اسکے قائد شیخ یاسین کی ہمدردیاں یاسرعرفات کے ساتھ تھیں۔ شدید بیماری کے بعد نومبر 2004 میں یاسرعرفات انتقال کرگئے اور 2005 کے صدارتی انتخابات میں محمود عباس کنیت ابو مازن  67 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے۔

فلسطین کے پہلے اور  آخری آزادانہ انتخابات 25 جنوری 2006کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوئے۔ان  انتخابات میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 76 فیصد سے زیادہ رہا۔ اسرائیل نے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے  انتخابات میں حماس کی شمولیت پر اعتراض کیا۔ یہی نقطہ نظر اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم یہود اولمرٹ نے اس معاملے پر براہ راست امریکی صدرسے بھی بات کی لیکن جارج بش نے موقف اختیار کیاکہ انتخابات میں حصہ لینے سے حماس کا رویہ نرم و متوازن ہوجائیگا۔

  دورانِ انتخاب حماس قیادت کی پکڑ دھکڑ اور بدترین پابندیوں کے باوجود حماس نے قومی اسمبلی کی 132 میں سے 74 نشستیں جیت کر اسرائیل کو حیران کردیا۔ محمود عباس کی  الفتح نے 45 اور عرب قوم پرست پاپولر فرنٹ نے 3 نشستیں حاصل کیں۔ تین دوسری جماعتوں  اور آزاد امیدواروں نے 10 نشستیں جیتیں۔حماس نے غزہ کے ساتھ مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن میں بھی کامیابی حاصل کی تھی حتی کہ ، یروشلم، بیت اللحم، رام اللہ اور غزہ کے مسیحی علاقوں میں بھی حماس کی کارکردگی اچھی رہی۔

مارچ 2006 میں فلسطینی پارلیمان نے اسماعیل ہانیہ کو وزیراعظم منتخب کرلیا۔ فلسطینیوں میں اخوان کی مقبولیت پر اسرائیل اور خلیجی ممالک کو شدید تشویش تھی۔ فلسطینیوں کی نئی انتطامیہ کو اسرائیل اور امریکہ نے تسلیم نہیں کیا اور مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو بھی نئی فلسطینی حکومت کے بارے میں شدید تحفظات تھے ۔

حکومت کی تشکیل کے صرف تین ماہ بعد غزہ کے قریب فلسطینیوں کے ایک مظاہرے پر اسرائیلی فوج نے حملہ کیا اور اس دوران مظاہرین نے ایک اسرائیل فوجی کو اغوا کرلیا۔اپنے سپاہی کی بازیابی کیلئے اسرائیلی فوج نے غزہ پر حملہ کردیا اور خوفناک بمباری کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔حماس کے کئی ارکان اسمبلی اسرائیلی فوج نے گرفتار کرلئے۔ کچھ دن بعد اسرائیلی فوج دریائے اردن کے مغربی کنارے پر چڑھ دوڑی اور رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین کے سیکریٹیریٹ سے وزرا، ارکان اسمبلی اور حماس کے رہنماوں کو اٹھا کر لے گئی۔

اسی کیساتھ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کیلئے میڈرد میں قائم کئے جانے والے چار فریقی ادارے Madrid Quartetنے بھی  فلسطینی حکومت پر تشویش کا اظہار کردیا۔جلد ہی اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور روس پر مشتمل   Quartetجو ایک غیر جانبدارمشاورتی ادارہ تھا، حماس حکومت ختم کرنے کیلئے یکسو ہوگیا۔ اس سے شہہ پاکر اسرائیل نے فلسطینی حکومت کے وزرا اور اہلکاروں پر غزہ، بیت المقدس اور غزبِ اردن کے درمیان سفر پر پابندی لگادی۔اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت بحر روم کی اشددو بندرگاہ سے حاصل ہونے والا محصول اسرائیل اور مقتدرہ فلسطین میں تقسیم ہوتا ہے۔ وزیراعظم یہود المرٹ نے ایک حکم کے تحت محصولات سے فلسطینیوں کا حصہ معطل کردیا۔اسرائیل کی جانب سے محصولات کے انجماد نے فلسطینی حکومت سخت مشکلات میں مبتلا ہوگئی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کیلئے پیسہ نہ رہا۔ الفتح ان ملازمین کو سڑکوں پر لے آئی۔ جلد ہی سیاسی مظاہرے حماس اور الفتح کے درمیان فوجی تصادم میں تبدیل ہوگئے اور 15 جون 2007 کو صدر محمود عباس نے وزیراعظم ہانیہ اسماعیل کو برطرف کرکے سلام فیاض کو وزیراعظم نامزد کردیا۔ حماس نے اس پر احتجاج کیا لیکن اسرائیل نے ہانیہ اسماعیل اور حماس کو غزہ تک محدود کردیا۔اسرائیل اور مصرنے غزہ کی ناکہ بندی کرکے فلسطین کو حماس کے زیرانتظام غزہ اور الفتح کے زیر اثر ٖغربِ اردن میں تقسیم کردیا۔

فلسطین کی اس تقسیم کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ خوفناک بمباری، آہنی باڑھ کی دوسری جانب سے مہلک گولہ باری روزمرہ کا معمول ہے۔ اسکے علاوہ بحر روم سے اسرائیلی بحریہ بھی فلسطیی ماہی گیروں اور ساحل پر کھیلتے بچوں پر نشانے بازی کی مشق کرتی ہے۔

اسوقت اسرائیل، یورپی یونین اور اکثر عرب و خلیجی ممالک کیلئےحماس  دہشت گرد تنظیم ہے اور خود اقوام متحدہ بھی اسے دہشت گرد سمجھتی ہے لیکن اسرائیلی میڈیا کے جائزے حماس کو غزہ کے ساتھ غرب اردن کی مقبول ترین جماعت قرار دے رہے ہیں۔ غرب اردن کی جامعات اور کالجوں کی طلبہ یونینیں  بھی حماس سے وابستہ وفا بلاک کے زیراثر ہیں۔ دوہفتہ پہلے جامعہ بیرزیت(BZU)کی طلبہ کونسل انتخابات میں وفا بلاک نے  49 فیصد اور الفتح کے  یاسر عرفات بلاک نے 39 فیصد ووٹ لئے۔ ایسے ہی نتائج نابلوس کی جامعہ النجاح اور ہیبرون کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے رہے۔

حمااس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مقتدرہ فلسطین کی کمزور پڑتی گرفت پر سب سے زیادہ تشویش اسرائیل کو ہے۔ موقر اسرائیلی جریدے الارض یا ہارٹز کے مطابق  فوج اور خفیہ ادارے شاباک نے چند ماہ پہلے اسرائیلی کابینہ کو بتایا کہ مقتدرہ فلسطین کی ممکنہ تحلیل  پر فوج کو سخت تشویش ہے، عسکری  حکام نے کابینہ کو متنبہ کیا کہ مقتدرہ کے ڈھےجانے سے اسرائیل کی قومی سلامتی اور غرب اردن کے شہری امور دونوں پر انتہائی مہلک اثرات مرتب  ہونگے

اس حوالے سے واشنگٹن میں کیا حکمت طئے کی گئی اس بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اسرائیلی و امریکی حکام نے اپنے ہونٹوں پر تالے لگارکھے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق امریکہ  الفتح اور حماس کے درمیان  مصالحت کیلئے قطر سے مدد کی درخواست کررہا ہے۔ ماضی میں قطر نے اس سلسلے میں ثالثی کی کوشش لیکن  اسرائیل اور اسکے خلیجی اتحادیوں نے انھیں ناکام بنادیا۔ ترک صدرایردوان نے  گزشتہ برس نومبر میں الفتح اور حماس کیساتھ دوسری فلسطینی تنظیموں کوانقرہ مدعو کیا۔ جس پر اسرائیل کی جانب سخت ردعمل سامنے آیا۔ اس سے پہلے محمود عباس نے مصر سے مصالحت و ثالثی کی درخواست کی تھی اور قاہرہ مذاکرات میں الفتح، الجہاد، حماس اور فلسطین کی تمام تنظیموں نے  انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابی نتائج کو کھلے دل سے  تسلیم کرنے کا اعلان  بھی کیا لیکن معاملہ اس سے آگے نہ بڑھا

فلسطین کے اندرونی امن اور مفاہمت کیلئےقطر اور ترکیہ کے اخلاص پر کوئی شببہ نہیں لیکن اسرائیل الفتح اور حماس کے اتحاد اور باہمی یکجہتی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ دوسری طرف اسے یہ خوف بھی  ہے مقتدرہ فلسطین کی تحلیل سےجنم لینے والا خلا کہیں ایک نئی تحریکِ مزاحمت یا انتفاضہ کا نقطہ آغاز نہ بن جائے۔ماہرین کے خیال میں فلسطینی علاقوں میں استحکام کی کنجی حماس کے پاس ہے اور اسکا تصور ہی اسرائیلی قیادت کی نیند اڑائے دے رہا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 جون 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 9 جون 2023

روزنامہ امت کراچی 9 اپریل 2023

ہفت روزہ رہبر دہلی 11 اپریل 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, June 1, 2023

طیب ایردوان کی دوسری ہیٹرک (Hat-Trick) براہ راست مرحلے Run-offمیں شاندار کامیابی

 

طیب ایردوان کی دوسری ہیٹرک (Hat-Trick)

براہ راست مرحلے Run-offمیں شاندار کامیابی

صدر طیب رجب ایردوان،  ترک وزارت عظمیٰ کی  یکے بعد دیگرے تین مدتیں جیتنے کے بعد صدارتی دوڑ بھی تیسری بار جیت گئے۔ کھیلوں  کی اصطلاح میں اسے Hat-Trickکہا جاتا یے۔

انکی انصاف و ترقی پارٹی (ترک مخفف آق) نے 2002 کے انتخابات میں 550 رکنی گرینڈ نیشنل اسمبلی ( تُرک  مخفف TBMM)کی  363 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اس سے پہلے  1994 سے 1997 تک جناب ایردوان استنبول کے رئیسِ شہر (Mayor) رہ چکے تھے۔ اس دوران مشرقی ترکیہ کے شہر سِعِرد (Siirt) کے جلسے میں انھوں نے انقلابی شاعر محمد ضیا تخلص  گوکلب Gökalpکے چند اشعار پڑھے۔ملک کے اٹارنی جنرل نے اس  نظم کو اشتعال انگیز اور  سیکیولرروایات کے خلاف قرارادیتے یوئے ان پر مقدمہ کردیا۔ عدالت میں جناب ایردوان نے موقف اختیار کیاکہ حکومت جس نظم کو اشتعال انگیز قرار دے رہی ہے وہ ترک طلبہ کےسرکاری نصاب کا حصہ ہے لیکن جج  صاحب نے یہ دلیل رد کرتے ہوئے جناب اردوان کو دس مہینے کی سزا  اور  مئیر کے عہدے سے برطرفی کے ساتھ انکے انتخابات میں حصہ لینے پر ہابندی لگادی گئی۔

جب 2002 میں انکی جماعت نے بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا اسوقت جناب ایردوان پر پابندی عائد تھی، چنانچہ انکے دست راست عبداللہ گل نے وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ دو سری طرف نااہلی کے خلاف ایردوان کی درخوااست سماعت کیلئے منظور ہوگئی۔ اسی دوران سعرد شہر کے انتخابات الیکشن کمیشن نے کالعدم کردئے۔ جب دوبارہ انتخابات کا اعلان ہوا توجناب ایردوان پر پابندی ختم ہوچکی تھی اور وہ ضمنی انتخاب جیت کر پارلیمان کے رکن بن گئے۔ وزیراعظم عبداللہ گل نے استعفیٰ دیدیا اور طیب ایردوان ترکیہ کے وزیراعظم منتخب کرلئے گئے

پانچ سال بعد ہونے والے انتخابات میں آق نے 341 نشتیں جیت کر اپنی برتری برقرار رکھی اور پھر  2011 کے انتخابات میں آق 327 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی اور جناب ایردوان تیسری مدت کیلئے وزیراعظم منتخب  ہوئے۔

ترکیہ میں پہلے براہ راست صدارتی انتخابات  10 اگست 2014 کو ہوئے۔ آق نے جناب ایردوان کو اپنا امیدوار نامزد کیا اور  حزب اختلاف کی جانب سے  نے او آئی سی (OIC)کے سابق جنرل سکریٹری اکمل الدین احسان اوغلو میدان میں  اترے۔ طیب ایردو ان نے 51.79فیصد ووٹ لیکر  فتح اپنے نام کرلی۔ ریفرنڈم میں صدارتی نظام کی توثیق کے بعد جون 2018 میں پھر میدان سجا۔ اس بار صدر  طیب رجب ایردوان کا مقابلہ ریپلکن پیپلز پارٹی (CHP)کے محرم انس سے ہوا۔ منچلوں  نے اس پر رجب بمقابلہ محرم کی گرہ لگائی۔  جناب ایردوان نے 52.59فیصد ووٹ لیکر معرکہ دوسری بار جیت لیا۔

اس سال 14 مئی  کو ہونے والے انتخابات  میں جناب ایردوان 49.52فیصد ووٹ لیکر تیسری بار سرفہرست رہے، انکے قریب ترین حریف کمال کلیجدار اوغلو کو 44.88فیصد ملے جبکہ آزاد امیدوار سینان اوغن5.17 فیصد ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر آئے۔ ترکیہ میں صدر منتخب ہونے کیللئے پچاس فیصد سے کم ازکم ایک ووٹ زیادہ لینا ضروری ہے چنانچہ 28 مئی کو صدر ایردوان اور کلیجدار اوغلو کے درمیان براہ راست مقابلہ ہوا جسے run-offکہا جاتا ہے۔

14 مئی کے انتخابات میں جہاں ایردوان نے سب سے زیادہ ووٹ لئے وہیں انکی جماعت اور اتحادیوں نے پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جس کی وجہ سے  حکمراں آق پارٹی بلند حو صلے کیساتھ دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی۔ براہ راست مقابلے کے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار سنان اوغن بادشاہ گر بن کر ابھرےجنھوں نے پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ جناب اوغن قدامت پسندی کی طرف مائل معتدل اور سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ بلقان اور وسط ایشیائی امور پر انکی گہری نظر ہے اور وہ کمال اوغلو کی یورپ نواز پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن شامی پنای گزینوں کئ معاملے میں وہ خاصہ سخت رویہ رکھتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ یہ 37 لاکھ افراد نہ صرف قومی معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ انکے یہاں  بس جانے سے ترکیہ کی شناخت بھی متاثر ہورہی ہے۔ ملاقات کے دوران انھوں نے جناب ایردوان کو  صاف صاف کہدیا کہ  شامی پناہ گزینوں کی واپسی انکے لئے بے حد اہم ہے اور وہ اسی امیدوار کی حمائت کرینگے جو شامیوں کی فوری اورغیر مشروط واپسی کا وعدہ کریگا۔

اس معاملے میں صدر ایردوان کو موقف بھی بہت دوٹوک ہے اور  ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے  انھوں  نے  غیر مبہم انداز میں  کہا کہ سنان اوغن کی حمائت حاصل کرنے کیلئے  وہ عثمانی روایات  کو سیاست پر قربان نہیں کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ جب تک شام میں حالات سازگار نہ ہوں پناہ گزینوں کی سرحد پار دکھکیلنا انسانیت نہیں اور وہ انتخاب جیتنے کیلئے اپنے مبنی بر انصاف موقف سے دستبردار نہیں ہونگے۔

اسکے مقابلے میں کمال اوغلو نے شامیوں کو فوری طور پر واپس بھیجنے کے حق میں ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے معاملے میں وہ  جناب سنان اوغن کے خدشات کا تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ انکی پارٹی نے  وعدہ کیا تھاکہ برسراقتدار آنے کی صورت میں کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ترک مخفف HDP)کو ایک وزارت دی جائیگی۔ بعض ترکوں کاخیال ہے کہ HDPدہشت گرد کرد تنظیم PKKکا سیاسی دھڑٖا ہے۔

جناب ایردوان اور انکے حریف کمال کلیجدار اوغلو سے تفصیلی ملاقات کے بعد 21 مئی کو جناب سنان اوغن نے Run-offمرحلے میں صدر ایردوان کی حمائت کا اعلان کردیا۔  انقرہ سے جاری ہونے والے اپنے سمعی و بصری بیان میں جناب اوغن نے کہا کہ 'دونوں امیدواروں سے ہماری ملاقاتیں سیاسی رواداری اور باہمی شائستگی کے ساتھ ہوئیں۔ مذاکرات و مشاورت اور نچلی سطح سے پیغامات کے نتیجے میں ہم نے صدر کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے' ۔ انکا کہنا تھا کہ صدر ایر دوان کی جماعت کو پارلیمان میں واضح اکژیت حاصل ہے۔ اس مرحلے پرایوان صدر اور پارلیمان کے درمیان تصام کے بجائےانتظامیہ اور مقننہ کے درمیان ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سنان اوغن کی حمائت کے بعد صدر ایردوان کی کامیابی تقریباً یقینی ہوگئی اور  انکے حامیوں کے جوش وخروش میں اضافہ ہوا۔ ۔دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جناب ایردوان کو اخلاقی برتری حاصل تھی کہ انھوں نے اپنے حریف سے  25 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے اور اس حق  تولّیٹ (mandate)بنا پر  بھی جناب اوغن کے بہت سے حامیوں نے جناب ایردوان کو ووٹ دیا۔

فلسطینیوں ، چینی ویغوروں اور برما کےاراکانی مسلمانوں کے علاوہ اسلاموفوبیا اور ناموس رسالت (ص) پر جناب ایردوان نے جو دوٹوک موقف اختیار کیا ہے اسکی وجہ سے موصوف ترکیہ سے باہر بھی خاصے مقبول ہیں، دوسرے مرحے کے انتخاب سے پہلے یورپی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم یورپین مسلم فورم (EMF)نے عام انتخابات میں صدرایردیوان کی حمائت کا اعلان کیا۔انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے استنبول میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فورم کے سربراہ عبدالوحید نیازوف نے کہا کہ یورپ 17 کروڑ مسلمانوں کا وطن ہے۔ ہمارے لئے ترکیہ اطمینان و اعتماد اور خوشگوار ترقی کا استعارہ ہے۔ ایردوان کی ولولہ انگیز قیادت یورپی مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ترک ملت  قیادت کیلئے جس کو بھی منتخب کریگی، وہ ہمارے سرآنکھوں پر لیکن EMFترک عوام سے جناب ایردوان کو ووٹ دینے کی درخواست کررہی ہے۔

ضابطے کے مطابق  بیرون ملک مقیم ترکوں کیلئے ووٹ ڈالنے کا اہتمام کیا گیا اور دنیا بھر کے ترک سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔۔ بیرون ملک ووٹنگ 25 مئی تک جاری رہی۔ ملک واپس آنے اور بیرون وطن روانہ ہونے والے ترک باشندوں کیلئے ہوائی اڈوں کے کسٹم گیٹ بھی پر  ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم  کی گئی۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان کے ترک سفارتخانے کے علاوہ  حیدرآباد اور ممبئی کے قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔ پاکستان میں مقیم  1200 ترک باشندوں کیلئےاسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ووٹ ڈالنے کا انتظام کیا گیا۔ترک الیکشن کمیشن (ترک مخفف YSK) کے مطابق بیرون ملک مقیم 19 لاکھ سے زیادہ ترکوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ عام انتخابات میں بیرون ملک سے آنے والے بیلٹ کی تعداد 16 لاکھ 91 ہزارسے کچھ زیادہ تھی۔ جناب ایردوان کو بیرون ملک رہنے والے 59 فیصد ترکوں نے اپنے ووٹوں سے نوازا۔

اتوارا 28 مئی کو شام پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی جب گنتی کا آغاز ہوا تو جناب ایردوان نے برتری حاصل کرلی جو آخر تک برقرار رہی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 99.85فیصد گنتی مکمل ہونے پر جناب صدر طیب رجب ایردوان نے 2 کروڑ 77 لاکھ 25 ہزار 131 ووٹ لئے جو کل ووٹو ں کا 52.16 فیصد ہے۔ انکے حریف جناب کمال کلیجدار اوغلو  کے حق میں دوکروڑ 54 لاکھ32 ہزار 251یا 47.84فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ووٹ ڈالنے کا تناسب 84.22فیصد رہا۔ حوالہ صباح نیوز، ترکیہ

 پہلے مرحلے  میں   ووٹ ڈالنے کا تناسب 86.98 فیصد تھا جس میں  جناب اوغلو نے دوکر وڑ 45 لاکھ 94 ہزار 932 اور صدر ایردوان نے دو کروڑ 71 لاکھ 33 ہزار 838  ووٹ  لئے تھے، یعنی  ترک صدر کو اپنے حریف پر 25 لاکھ 38 ہزار 905 ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں یہ برتری کم ہوکر 22لاکھ 92 ہزار 180رہ گئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حمائت کے دوٹوک اعلان کے باوجود پہلے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے سنان اوغن کے تمام حامیوں نے جناب ایردوان کو ووٹ نہیں دئے۔

بحیثیت مجموعی جناب ایردوان کی کارکردگی بے حد اچھی رہی۔ انھوں نے 2018 کے انتخابات میں 52.59 فیصد ووٹ لئے تھے اور اس بار انھیں 52.16فیصد ووٹ ملے۔  یعنی مقبولیت میں خفیف سی کمی تو ہے لیکن بدترین معاشی حالات اور امریکی پابندیوں کے تناظر میں معاملہ ایسا بھی خراب نہیں۔ پہلے مرحلے کی طرح run-off میں بھی جناب ایردوان کو  استنبول، انقرہ، ازمیر اور اکثر  بڑے شہروں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں انکی کارکردگی بہت اچھی رہی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 2 جون 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 2 جون 2023

روزنامہ امت کراچی 2 جون 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 4 جون 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو