Wednesday, March 25, 2020

تصویر کا دوسرارخ


تصویر کا دوسرارخ
کل ہم نے اپنی پوسٹ میں ایک تصویر دی تھی جس میں نوجوانوں کو صرف اس بات پر سرعام مرغا بنادیا گیا کہ وہ کسی ضرورت کی بنا پر گھر سے باہر نکلے تھے۔ ان میں ایک لڑکا ذیابطیس کے مرض میں مبتلا اپنی ماں کی دوا تلاش کررہا تھا کہ اسکے محلے کا میڈیکل اسٹور بند تھا۔ اس پر احباب نے جو تبصرے کئے ہیں وہ اب بھی موجود ہیں۔ جو کچھ اسطرح ہیں:
·        یہ لاتوں کے بھوت ایسے ہی سلوک کے مستحق ہیں
·        ہم ایک جاہل قوم ہیں
·        ہم قوم نہیں بھیڑ ہیں
·        کاش ہم بھی Civilizedہوتے
·        ہماری قوم  ڈنڈے ہی سے مانتی ہے
ہم نے کرہ ارض کا بڑا حصہ دیکھا ہے۔ محنت مزدوری کے دوران دنیا کی تقریباً ہر قوم اور ملک کے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ ہماری  نوکری کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ ایک مہنیہ ساتھ رہ کر ان سب لوگوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
لیکن  آج تک ہمیں ایسا کوئی فرد نہیں ملاجو  اپنی ہی  قوم و ملک کو اس بری طرح کوستا اور اپنوں کے توہین پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے اس بے حسی سے برساتا ہو جیسا ہم کرتے ہیں۔
خیر یہ ذکر یونہی درمیان  میں آگیا
مسجد جانے والے اجڈوگنوار لوگوں اور تبلیغی دوروں پر جانے والے جاہلوں کی مذمت سے سوشل میڈیا بھراپڑا ہے۔ اسلئے آج ذکر انتہائی پڑھے لکھے، دولت مند طبقے کے ایک خاندان کا۔ یہی اشرافیہ ہمارے حکمراں ہیں
مستند اخباری اطلا ع کے مطابق لاہور میں معروف ڈیزائنر ماریہ بی کے گھر پر کام کرنے والا ملازم عمر فاروق  نزلے میں مبتلا ہوا۔ بکمالِ مہربانی ماریہ صاحبہ نے اپنے خرچ پراسکا کروناوائرس ٹیسٹ کروایا جو مثبت نکلا۔
محترمہ کے شوہر نامدار طاہر سعید نےملازم کو قرنطینہ مرکز بھیجنے کے بجائے ایک ماہ کی تنخواہ اور اضافی رقم دیکر عمر فاروق کو اسکے گاوں وہاڑی بھجوادیا۔ اس ملازم نے اپنے گھر اور گاوں میں  کتنے لوگوں کو متاثر کیا ہوگا اسکا اندازہ لگانا احباب کیلئے کچھ مشکل نہیں۔
اس خبر کی اشاعت پر پولیس نے طاہر سعید کو کورونا وائرس پھیلانے کے الزام میں گرفتار کرلیا لیکن موصوف پہلی فرصت میں ضمانت پر رہاکردئے گئے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس گستاخی کے مرتکب ایس ایچ او کی بھی گوشمالی کی گئی ہوگی۔

کرونا وائرس!! ذکر کچھ بے کسوں کا



کرونا وائرس!! ذکر کچھ  بے کسوں کا
ساری دنیا کرونا وائرس سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسپتالوں میں اضافی بستر ڈالے جارہے ہیں۔ عملے کیلئے ماسک اور مریضوں کیلئے وینٹیلیٹر اور دوسرا ضروری سامان خریدا جارہا ہے۔ سینیٹائرز اور خاص قسم کے صابن درآمد ہورہے ہیں ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کیلئے نرسوں اور دوسرے عملے کی خصوصی تربیت کی جارہی ہے۔
لیکن دنیا میں کھلی چھت کی سب سے بڑی جیل یعنی غزہ میں ان ' عیاشیوں' کا تصور بھی ممکن نہیں۔ آئت کریمہ کے ورداور دعاوں کے سوا ان غریبوں کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ ناکہ بندی ایسی سخت کہ سوئی کی درآمد بھی ناممکن۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جانب سے پکڑ دھکڑ بدستور جاری ہے۔فلسسطینی بستیوں میں پولیس نافرمانی کی سزا گھروں کا انہدام ہے۔ کچھ دن پہلےنجب کے علاقے میں سبزیوں کے باغ اور زیتون کے درختوں کو نذر اتش کردیا گیا، جب کسانوں نےاپنی محنت کو شعلوٓں کی نذر ہوتے دیکھ کر احتجاج کیا تو کفر قسیم گاوں میں ایک درجن گھر مسمارکردئے گئے۔
بحر روم کے کنارے صحرائے سینائی پر 32 میل لمبی اور 11 میل چوڑی پٹی کو خاردار تاروں سے گھیر کر اسرائیل نے اسکی کنجی جنرل السیسی کو دے رکھی ہے۔ اس پنجرے میں 18 لاکھ نفوس بند ہیں۔ وسط مارچ تک غزہ کرونا وائرس سے پاک تھاکہ مکمل ناکہ بندی کی بناپر یہاں  آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن گزشتہ ہفتے دوافراد جو علاج کی غرض سے پاکستان گئے ہوئے تھے، مصر کے راستے واپس آنے پر انکا ٹسٹ مثبت پایا گیا۔ یہ دونوں معمر حضرات رفحہ پھاٹک پر ہی قائم عارضی قرنطینہ میں زیرعلاج ہیں۔
دوسری طرف غلیظ اور گنجان اسرائیلی جیلوں میں وائرس تیزی سے پھیل رہاہے۔ ان عقوبت کدوں میں گنجائش سے تین گنا قیدی بندہیں۔ ایک اندازے کے مطاق تنگ و تاریک کھولیوں میں 5000 فلسطینی ٹھنسے ہوئے ہیں۔ 18 مارچ کو  چار فلسطینی قیدیوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔اسرائیل حکام کاخیال ہے کہ تفتیش یا سادہ الفاظ میں تشدد کے دوران اسرائیلی سپاہیوں سے یہ جرثومے قیدیوں میں منتقل ہوئے۔
غزہ میں ایک بھی مکمل ہسپتال نہیں۔ دو تین چھوٹے اسپتال اور چند کلینکس ہیں جو ساری آبادی کی طبی ضروت  پوری کرتے ہیں۔ ہاں غزہ کے ڈاکٹر اور طبی عملہ ہنگامی صورتحال کا گہرا تجربہ رکھتا ہے کہ اسرائیلی بمباری یہاں  روز کا معمول ہے اور جاں بلب زخمیوں کی مرہم پٹی اور اس سے زیادہ لواحقین کی دلجوئی میں انکا جواب نہیں کہ مہنگی دوائیں تو ایک طرف سردرد کیلئے اسپرین بھی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔ سخت پابندیوں کے نتیجے میں  غذائی قلت  ہے اور  بچوں کو کم خوراکی سے پیدا ہونے والے عارضے لاحق ہیں۔
اس پس منظر میں اہل غزہ حفاظتی اقدامات کے ذریعے کرونا وائرس کو اپنی ریاست سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب تک  باہر سے آنے والے  ان دو افراد کے علاوہ کرونا کا کوئی اور مریض سامنے نہٰیں آیا۔ اسکی وجہ شائد یہ بھی ہو کہ یہاں ٹیسٹ کی سہولتیں بے حد محدود ہیں اور علامات ظاہر ہونے سے پہلے ٹیسٹ اہل غزہ کیلئے ایک عیاشی ہے جس کے یہ لوگ متحمل نہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات کریں۔اس مقصٖد کیلئے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے ادارے مدد بھی فراہم کررہے ہیں لیکن دنیا نے غزہ کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھیں ہیں۔ عرب و اسلامی دنیا کو بھی فلسطینیوں کو کوئی خیال نہیں۔ Social Distancing کے دور میں لاتعلقی یا Disengagement نیا وورلڈ آرڈر بن چکا ہے۔
 چین نے لاکھوں یوغوراور قازق مسلمانوں کو فنا کردیا اور برما سے اراکان مٹادئے گئے تو اب اگر 18 لاکھ کیڑے مکوڑے موت کے گھاٹ اترگئے ےتو کونسی قیامت ٹوٹ  پڑیگی۔ 

Sunday, March 22, 2020

لاک ڈاون کا مثبت پہلو۔۔ فضائی آلودگی میں کمی


لاک ڈاون کا مثبت  پہلو۔۔ فضائی آلودگی میں کمی
کرونا وائرس کے نتیجے میں دنیا کا بڑا حصہ ویران ہے۔
·        کیلی فورنیا اور نیویارک میں سرکاری حکم کے تحت دروازے بند ، شٹر ڈاون و  پہییہ جام
·        یورپ کے بہت سے علاقوں میں کرفیو
·        سندھ میں Care 4 U
·        ہندوستان میں عوامی کرفیو
·        بلوچستان میں لاک  ڈاون اور
·        پنجاب و کے پی کے میں جزوی لاک ڈاون
بندش وپابندی کسی کو پسند نہیں،  لیکن اسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں کہ یہی اس منحوس بیماری کے پھیلاو کا سب سے موثر ذریعہ ہے
اسکے نتیجے میں
·        لوگوں کا روزگار متاثر ہے
·        اشیائے خوردونوش کی فراہمی میں مشکل پیش آرہی ہے
·        عمرانیات کےعلما طلاق کی شرح میں اضافے کا خطرہ بھی ظاہر کررہے ہیں
تاہم!
 لاک ڈاون سے کرونا وائرس کے سدباب  میں مدد کے ساتھ کارخانے بندہونے،  پروازوں میں کٹوتی، اورسڑکوں پر ٹریفک کے بہاو میں کمی  سے  فضائی آلودی  پر بھی مثبت  اثرات مرتب ہورہے ہیں
ماحولیات پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے  World Metrological Organization (WMO) کے مطابق چین سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 25 فیصد کی کمی واقع ہوگئی ہے
دوسری طرف ہوائی (Hawaii)میں دنیا کی سب سے بڑی رسد گاہ نے جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں اسکے مطابق بحر الکاہل پر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا حجم  408.3ppmتھا جبکہ گزشتہ سال فروری میں 405.56ppmکاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہورہی تھی۔
گزشتہ پانچ  ہفتوں کے دوران اٹلی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 10 فیصد کی کمی نوٹ کی گئی۔
توعزیزو!  لاک ڈاون کے نتیجے جو مشکلات پیش آرہی ہیں اسے ہمیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہئے کہ اس سے مرض کے پھیلاو میں کمی کے ساتھ  ہوا کا معیار بھی بہتر ہورہا ہے جس میں ہم اور ہمارے بچے سانس لے رہے ہیں۔
حوالہ: الجزیرہ

Friday, March 20, 2020

بے ایمان سیاستدان


بے ایمان سیاستدان
صاحبو!  پاکستان  کے جہانگیر ترین ،واوڈا، علی زیدی،  شرفا، زرداری اور پرویز مشرف، فلپائن کے آنجہانی مارکوس،  مصر کے حسنی مبارک وغیرہ کی طرح 'ترقی یافتہ'جمہوری ممالک کے سیاستدان بھی خود غرضی اور بے ایمانی میں کسی سے کم نہیں۔
کرونا وائرس کی وبا سے جہاں دنیا بھر کے لوگ  جان کے خوف میں مبتلا ہیں وہیں یہ نامراد جرثومہ عالمی معیشت کو تیزی سے چاٹ رہا ہے۔امریکی بازار حصص میں 10000 پوائنٹس سے زیادہ کی گراوٹ نے سرمایہ کاروں کو قلاش کردیا لیکن  کچھ امریکی قانون سازوں نےبربنائے عہدہ ملنے والی اطلاعات کی بنا پر اس ناگہانی آفت سے نہ صرف خود کو  محفوظ رکھا بلکہ اپنے کھاتوں میں بروقت  تبدیلی لاکر روپئے کی آٹھ چونیاں بنالیں۔
شمالی کیرولینا کے سینیٹر رچرڈ بر صاحب امریکی سینیٹ کی سراغرساں کمیٹی کے سربراہ  ہیں۔ اسی کے ساتھ   وہ 'عالمی وبا اور ناگہانی آفت کے مقابلے کی تیاری' کےایک قانون کا مسودہ بھی پیش کرنے والے  ہیں، چنانچہ کرونا وائرس کے آغاز سے ہی سراغرسانی کے امریکی ادارے انھیں انتہائی اہم معلومات فراہم کررہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق 24 جنوری کو  بند کمرے کے ایک اجلاس میں سراغرساں اداروں نے انھیں ایک رپورٹ  فراہم کی جس میں بتایا گیا کہ  چین میں پھوٹنے والی بیماری اب ایک عالمی وبا بننے کو ہے جوانسانی جانوں کے ساتھ دنیا کی معیشت خاص طور سے بازارہائے حصص میں بھاری گراوٹ کا سبب بنےگی۔ 27 فروری کو اپنے قریب ترین دوستوں کی نشست میں انھوں نے بتایا کرونا وائرس کا امریکہ کے بازار حصص پر حملہ چند دنوں کی بات ہے اور اسکے ساتھ ہی انھوں  نے  ہوٹل اور ائر لا ئنز کمپنیوں کے 17 لاکھ ڈالر مالیت کے حصص بیچ دئے۔
ریاست جارجیا کی سینیٹر کیلی لوفلر کو بھی یہ یہ اطلاع مل چکی تھی۔ لوفلر صاحبہ اسی سال سینیٹربنی ہیں جب سینیٹر جانی آزاکسن کی خرابی صحت کی بنیاد پر سبکدوشی کے بعد ریاست کے گورنر نے انھیں سینیٹر نامزد کردیا۔ لوفلرصاحبہ کو  اس سال نومبر میں انتخابات کا سامنا ہے۔ محترمہ  بازار حصص میں سرمایہ کاری کرنے والی ایک بہت بڑی کمپنی   بیکٹ گروپ کی مالکن ہیں اور ان  کے شوہرنامدار جیفری اسپریچر نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے چیرمین ہیں ۔ محترمہ کو بھی سینیٹر کی حیثیت سے کرونا کے بازار حصص پر شبخون کی  اطلاع  مل گئی چنانچہ سینیٹر صاحبہ نے 17 سے 31 لاکھ ڈالر کے حصص بیچ دئے اور گورنروں کی جانب سے لاک ڈاون  منصوبے پر اعلان سے پہلے انھوں نے  ٹیلی مارکیٹنگ کمپنیوں کے حصص خرید لئے۔
وسکونسن سے ریپبلکن سینیٹر ران جانسن  نے بھی اندرونی معلومات ملنے پر 3 کروڑ ڈالر مالیت کے اسٹاک بیچ دئے
کچھ ایسی ہی واردات کی خبر اوکلاہوما کے ریپلبکن سینٹر جم انہوف کے بارے میں بھی ہے
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں  ڈیموکریٹس بھی پیچھے نہیں اور  کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کی سینٹڑ ڈائن فینسٹائن نے بھی  بربنائے عہدہ ملنے والی اطلاعات پر اپنے معاشی مفادات محفوظ کرلئے ۔