تصویر کا دوسرارخ
کل ہم
نے اپنی پوسٹ میں ایک تصویر دی تھی جس میں نوجوانوں کو صرف اس بات پر سرعام مرغا
بنادیا گیا کہ وہ کسی ضرورت کی بنا پر گھر سے باہر نکلے تھے۔ ان میں ایک لڑکا
ذیابطیس کے مرض میں مبتلا اپنی ماں کی دوا تلاش کررہا تھا کہ اسکے محلے کا میڈیکل
اسٹور بند تھا۔ اس پر احباب نے جو تبصرے کئے ہیں وہ اب بھی موجود ہیں۔ جو کچھ اسطرح
ہیں:
·
یہ لاتوں کے بھوت
ایسے ہی سلوک کے مستحق ہیں
·
ہم ایک جاہل قوم
ہیں
·
ہم قوم نہیں بھیڑ
ہیں
·
کاش ہم بھی Civilizedہوتے
·
ہماری قوم ڈنڈے ہی سے مانتی ہے
ہم نے کرہ ارض کا بڑا حصہ دیکھا ہے۔ محنت مزدوری کے دوران
دنیا کی تقریباً ہر قوم اور ملک کے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ ہماری نوکری کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ ایک مہنیہ ساتھ
رہ کر ان سب لوگوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
لیکن آج تک ہمیں
ایسا کوئی فرد نہیں ملاجو اپنی ہی قوم و ملک کو اس بری طرح کوستا اور اپنوں کے توہین
پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے اس بے حسی سے برساتا ہو جیسا ہم کرتے ہیں۔
خیر یہ ذکر یونہی درمیان
میں آگیا
مسجد جانے والے اجڈوگنوار لوگوں اور تبلیغی دوروں پر جانے
والے جاہلوں کی مذمت سے سوشل میڈیا بھراپڑا ہے۔ اسلئے آج ذکر انتہائی پڑھے لکھے،
دولت مند طبقے کے ایک خاندان کا۔ یہی اشرافیہ ہمارے حکمراں ہیں
مستند
اخباری اطلا ع کے مطابق لاہور میں معروف ڈیزائنر ماریہ بی کے گھر پر کام کرنے والا
ملازم عمر فاروق نزلے میں مبتلا ہوا۔
بکمالِ مہربانی ماریہ صاحبہ نے اپنے خرچ پراسکا کروناوائرس ٹیسٹ کروایا جو مثبت
نکلا۔
محترمہ
کے شوہر نامدار طاہر سعید نےملازم کو قرنطینہ مرکز بھیجنے کے بجائے ایک ماہ کی
تنخواہ اور اضافی رقم دیکر عمر فاروق کو اسکے گاوں وہاڑی بھجوادیا۔ اس ملازم نے
اپنے گھر اور گاوں میں کتنے لوگوں کو
متاثر کیا ہوگا اسکا اندازہ لگانا احباب کیلئے کچھ مشکل نہیں۔
اس خبر
کی اشاعت پر پولیس نے طاہر سعید کو کورونا وائرس پھیلانے کے الزام میں گرفتار
کرلیا لیکن موصوف پہلی فرصت میں ضمانت پر رہاکردئے گئے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس گستاخی
کے مرتکب ایس ایچ او کی بھی گوشمالی کی گئی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment