تیل کی قیمتوں میں کمی ۔ مواقع اور امکانات
تیل کی قیمتیں اس وقت کئی دہائیوں کی کم ترین سطح
پر ہیں۔اس سلسلے میں کئی تجاویزسامنے آرہی ہیں جن میں سب سے اہم یہ مطالبہ ہے کہ
قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچایا جائے۔ تاہم یہ ہماری
اس پوسٹ کا موضوع نہیں، آج تھوڑی سی گفتگو طویل منصوبہ بندی کے حوالے سے
احباب کا یاد ہوگا کہ 1973کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران
سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے امریکہ اور مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی
پر پابندی لگادی تھی۔ اس آفت پرامریکیوں نے عارضی اور طویل المدتی منصوبے بنائے ۔
ایک طرف ملک کے اندر تیل و گیس کے وسائل کی تلاش و
ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات کئے گیے جن میں سلیٹی چٹانوں کو
کھنگھالنے کا انقلابی قدم شامل ہے۔ عمدہ حکمت عملی اور مناسب سرمایہ کاری کے نتیجے
میں تیل درآمدکرنے والا امریکہ 40 سال میں تیل برآمد کرنے کے قابل ہوگیا۔
مقامی وسائل کی ترقی کیساتھ مستقبل بنیادوں پر خام تیل کا ایک عظیم الشان
ذخیرہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا جسے Strategic Petroleum
Reserveیا SPRکانام دیا گیا۔ خلیج میکسیکو میں زیرآب (Offshore)اور لوزیانہ میں onshoreکنویں کھود کر غاروں اور depleted reservoirsمیں تیل ذخیرہ کرنے کا اہتام کیاگیا۔ اب ان چارذخائر میں مجموعی طور73 کڑور
بیرل تیل محفوظ کرنے کی گنجائش ہوجود ہے۔
اس ذخیرے کی حکمت
کچھ اسطرح ہے کہ تیل کی قیمت کم ہو تو اسے بھر لیا جاتا ہے اور جب قیمت بہت زیادہ بڑھنے لگے تو اس ذخیرے میں محفوط تیل
کو بازار میں لاکر غبارے میں سوئی چبھودی جاتی ہے۔
آجکل جبکہ قیمتوں میں کمی سے امریکہ میں تیل کی صنعت بحران
کا شکار ہے حکومت نے بازار سے کم قیمت تیل خرید کر ذخیرے میں رکھنے کا فیصلہ کیا
ہے۔ اس سے ایک طرف تو تیل کی صنعت کو تقویت ملے گی اور چھانٹی کے امکانات کم ہونگے تو دوسری طرف کم
قیمت تیل حاصل ہوگا
اس شاندارحکمت عملی سے پاکستان کو بھی سبق سیکھنا چاہئے ۔
یہ بات تو طئے ہے کہ تیل کی قیمتیں ہمیشہ اسی طرح زمین سے لگی
نہیں رہینگی۔ چین میں کرونا وائرس کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور انکی صنعت کا پہیہ
ایک بار پھر پوری قوت سے گردش کرنے کو ہے جسکا مطلب ہے کہ اگلے چند مہینوں میں تیل کی کھپت میں اضافہ ہوگااور ساتھ ہی
قیمتیں بھی بڑھیں گی۔
اسوقت ہمارے لئے دو ہی راستے ہیں ۔ یعنی ہم بابر نہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست گنگناتے
ہوئے کم قیمت تیل سے لطف اندوز ہوتے رہیں یا سستا تیل خرید کر مستقبل کیلئے محفوظ
کرلیا جائے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میںDepleted Reservoirموجود ہیں جہاں خام تیل کے ذخائر
قائم کئے جاسکتے ہیں۔ بلوچستان میں سوئی ، سندھ میں بدین، کندھکوٹ، پنجاب میں
آہدی، دھرنال، میال اور کےپی کے میں بھی ایسے ذخائر موجود ہیں۔ماہرین اس سلسلے میں
بہتر نشاندہی کرسکتے ہیں۔ احباب کی اطلاع
کیلئے عرض ہے کہ ترکی کی قومی تیل کمپنی کا بنیادی کاروبار ہی گیس ذخیرہ کرنا ہے۔
گرمی میں کم قیمت خریدی جانیوالی گیس سردیوں میں یورپ کو فروخت کی جاتی ہے۔
تیل کا ذخیرہ معیشت کے ساتھ ہماری قوی سلامتی کیلئے بھی ضروری
ہے کہ پاکستانی سمندروں کے قریب عدم استحکام پیدا کرنا
دشمن کیلئے مشکل نہیں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ
پاکستانی بحریہ اس قسم کی ناکہ بندی کو توڑنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن شدید
تصادم کی صورت میں ٹینکروں کی آمدورفت متاثر ہونےکا خطرہ تو ہر وقت موجود ہی ہے۔
ان ذخائر کی تعمیر کیلئے کنووں کی کھدائی، workover، اورزمینی تنصیبات
کے حوالے سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور ٹھٹھری ہوئی تیل کی مقامی صنعت
میں تیزی آئیگی۔
تیل کی خریداری کیلئے بھی مشرق وسطٰی کے ساتھ مغرب کی طرف بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت کا
تیل سعودی عرب، کوئت اور متحدہ عرب امارات
سے خریدتا ہے۔ اوپیک باسکیٹ امریکی WTIسے تین چار ڈالر مہنگا ہے۔ آج اوپیک
باسکیٹ کی قیمت 35.7اور WTIکی قیمت 31ڈالر فی بیرل ہے۔ یہ درست کہ امریکہ سے آنے والے
تیل کی باربرداری کا خرچ زیادہ ہے لیکن امریکی تیل کمپنیاں جاپان ، تائیوان اور جنوبی کوریا کو مزید رعائت دیکر باربرداری
کا خرچ اپنے ذمہ لے رہی ہیں۔ اس قسم کی مول
تول پاکستان بھی کرسکتا ہے۔
اس موقع کو مقامی وسائل کی تلاش و ترقی میں تیزی لانے کیلئے
کیسے استعمال کیا جائےاس پر گفتگو اگلی نشست میں۔
No comments:
Post a Comment