Wednesday, March 25, 2020

کرونا وائرس!! ذکر کچھ بے کسوں کا



کرونا وائرس!! ذکر کچھ  بے کسوں کا
ساری دنیا کرونا وائرس سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسپتالوں میں اضافی بستر ڈالے جارہے ہیں۔ عملے کیلئے ماسک اور مریضوں کیلئے وینٹیلیٹر اور دوسرا ضروری سامان خریدا جارہا ہے۔ سینیٹائرز اور خاص قسم کے صابن درآمد ہورہے ہیں ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کیلئے نرسوں اور دوسرے عملے کی خصوصی تربیت کی جارہی ہے۔
لیکن دنیا میں کھلی چھت کی سب سے بڑی جیل یعنی غزہ میں ان ' عیاشیوں' کا تصور بھی ممکن نہیں۔ آئت کریمہ کے ورداور دعاوں کے سوا ان غریبوں کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ ناکہ بندی ایسی سخت کہ سوئی کی درآمد بھی ناممکن۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جانب سے پکڑ دھکڑ بدستور جاری ہے۔فلسسطینی بستیوں میں پولیس نافرمانی کی سزا گھروں کا انہدام ہے۔ کچھ دن پہلےنجب کے علاقے میں سبزیوں کے باغ اور زیتون کے درختوں کو نذر اتش کردیا گیا، جب کسانوں نےاپنی محنت کو شعلوٓں کی نذر ہوتے دیکھ کر احتجاج کیا تو کفر قسیم گاوں میں ایک درجن گھر مسمارکردئے گئے۔
بحر روم کے کنارے صحرائے سینائی پر 32 میل لمبی اور 11 میل چوڑی پٹی کو خاردار تاروں سے گھیر کر اسرائیل نے اسکی کنجی جنرل السیسی کو دے رکھی ہے۔ اس پنجرے میں 18 لاکھ نفوس بند ہیں۔ وسط مارچ تک غزہ کرونا وائرس سے پاک تھاکہ مکمل ناکہ بندی کی بناپر یہاں  آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن گزشتہ ہفتے دوافراد جو علاج کی غرض سے پاکستان گئے ہوئے تھے، مصر کے راستے واپس آنے پر انکا ٹسٹ مثبت پایا گیا۔ یہ دونوں معمر حضرات رفحہ پھاٹک پر ہی قائم عارضی قرنطینہ میں زیرعلاج ہیں۔
دوسری طرف غلیظ اور گنجان اسرائیلی جیلوں میں وائرس تیزی سے پھیل رہاہے۔ ان عقوبت کدوں میں گنجائش سے تین گنا قیدی بندہیں۔ ایک اندازے کے مطاق تنگ و تاریک کھولیوں میں 5000 فلسطینی ٹھنسے ہوئے ہیں۔ 18 مارچ کو  چار فلسطینی قیدیوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔اسرائیل حکام کاخیال ہے کہ تفتیش یا سادہ الفاظ میں تشدد کے دوران اسرائیلی سپاہیوں سے یہ جرثومے قیدیوں میں منتقل ہوئے۔
غزہ میں ایک بھی مکمل ہسپتال نہیں۔ دو تین چھوٹے اسپتال اور چند کلینکس ہیں جو ساری آبادی کی طبی ضروت  پوری کرتے ہیں۔ ہاں غزہ کے ڈاکٹر اور طبی عملہ ہنگامی صورتحال کا گہرا تجربہ رکھتا ہے کہ اسرائیلی بمباری یہاں  روز کا معمول ہے اور جاں بلب زخمیوں کی مرہم پٹی اور اس سے زیادہ لواحقین کی دلجوئی میں انکا جواب نہیں کہ مہنگی دوائیں تو ایک طرف سردرد کیلئے اسپرین بھی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔ سخت پابندیوں کے نتیجے میں  غذائی قلت  ہے اور  بچوں کو کم خوراکی سے پیدا ہونے والے عارضے لاحق ہیں۔
اس پس منظر میں اہل غزہ حفاظتی اقدامات کے ذریعے کرونا وائرس کو اپنی ریاست سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب تک  باہر سے آنے والے  ان دو افراد کے علاوہ کرونا کا کوئی اور مریض سامنے نہٰیں آیا۔ اسکی وجہ شائد یہ بھی ہو کہ یہاں ٹیسٹ کی سہولتیں بے حد محدود ہیں اور علامات ظاہر ہونے سے پہلے ٹیسٹ اہل غزہ کیلئے ایک عیاشی ہے جس کے یہ لوگ متحمل نہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات کریں۔اس مقصٖد کیلئے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے ادارے مدد بھی فراہم کررہے ہیں لیکن دنیا نے غزہ کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھیں ہیں۔ عرب و اسلامی دنیا کو بھی فلسطینیوں کو کوئی خیال نہیں۔ Social Distancing کے دور میں لاتعلقی یا Disengagement نیا وورلڈ آرڈر بن چکا ہے۔
 چین نے لاکھوں یوغوراور قازق مسلمانوں کو فنا کردیا اور برما سے اراکان مٹادئے گئے تو اب اگر 18 لاکھ کیڑے مکوڑے موت کے گھاٹ اترگئے ےتو کونسی قیامت ٹوٹ  پڑیگی۔ 

No comments:

Post a Comment