Thursday, March 5, 2020

چائے کی پیالی میں طوفان


چائے کی پیالی میں طوفان
ہم پاکستانی ہر وقت جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بظاہر یہ کوئی بری بات نہیں کہ اس 'مہم جوئی' سے خون گرم رہتا ہے۔ لیکن ہر اختلاف کو جھگڑا اور جنگ بنادینے  کا رجحان  ایک  طرف بدمزگی کو جنم دیتا  ہے تو دوسری جانب مسلسل جاری  یہ جنگیں معاشرے میں عدم برداشت بلکہ انتہا پسندی کو بڑھانے کا سبب بن رہی ہیں۔ ہر معاملہ کو نظریاتی عینک چڑھاکر دیکھنے کا سب سےنامراد منفی پہلو یہ ہے کہ اسکے نتیجے میں معاشرے کو درپیش اصل مسائل کا حقیقی پہلو  نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
انتہا پسندی کے معاملے میں ملا و مسٹر، دین دار و سیکیولر، دایاں اور بایاں بالکل ایک سے ہیں اور کسی بھی طبقے میں برداشت کی ہلکی سی  رمق  بھی نظر نہیں آتی۔
ایک تازہ ترین مثال عورت مارچ ہے  جو عالمی یوم خواتین کے تناظر میں 8 مارچ کو ترتیب دیا جارہا ہے۔ دلچسپ بات کہ اسی حوالے سے جماعت اسلامی حلقہ خواتین بھی 7 مارچ کو کراچی میں ایک ریلی کا اہتمام کررہی ہے۔ عورت مارچ اور جماعت اسلامی سے وابستہ خواتین نے اپنے مطالبات کی جو فہرست مرتب کی ہے اس میں بنیادی طور پر کوئی اختلاف نہیں۔ ہم نے اس پہلے اپنی ایک پوسٹ میں خواتین کو درپیش جن  مشکلات کا ذکر کیا تھا وہ کچھ اسطرح ہیں:
·        تیزاب زنی
·        کاروکاری، ونی اور دوسری جاہلانہ رسومات
·        زبردستی کی شادی
·        تعلیم سے محرومی
·        خانگی جھگڑے اور ساس اور نندوں کے مظالم
·        بہیمانہ تشدد
·        جہیز نہ لانے پر زندہ جلانا
·        (جھوٹی)غیرت کی بنیاد پر قتل
·        جنگوں کے دوران  اجتماعی آبروریزی کا بطور فوجی حکمت عملی استعمال
·        قبائیلی لڑائیوں کے تصفیہ میں خواتین کا بطور تاوان استعمال
·        تنخواہوں میں تفاوت
·        حمل کے دوران کام کے حرج کے خوف سے بھرتی میں امتیاز
·        کام کی جگہوں پر بدسلوکی، امتیازی سلوک اور ہراساں کرنا
·        بازاروں، ریل اسٹیشن  اور لاری اڈوں پر تحقیر آمیزجملے بازی،  چھیڑ چھاڑ و دست درازی 
·        والدین اور شوہر کے ترکے سے محرومی
·        قرآن سے شادی
·        طلاق کی صورت میں عدم تحفظ وغیرہ
ایک آدھ نکتے کے استثنا کے ساتھ ساری دنیا کی خواتین کو ان مسائل و مشکلات کا سامنا ہے جسکا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ عورت مارچ کے معاملے میں تنازعہ 'میرا جسم میری مرضی' کے نعرے سے شروع ہوا۔ اسکے علاوہ گزشتہ مارچ کے دوران چند ایسے کتبے بھی دیکھے گئے جو کچھ لوگوں کے خیال میں قابل اعتراض تھے۔  ہمیں  تو بعض نعرے بڑے دلچسپ لگے جیسے 'اپنا کھانا خود گرم کرو' یا 'اپنا موزہ خود ڈھونڈھو'۔
لیکن بد ذوق لوگوں نے اس سے لطف اٹھانے کے بجائے منہہ پھلا لیا۔
سچ تو ہےکہ سیر سپاٹے اور دوستوں کے ساتھ تاش و شطرنج کے بعد گھر  آکر دن بھر کی تھکی ہاری بیوی کو نیند سے اٹھا کر تازہ روٹیاں پکانے یا کھانا گرم کرنے کی فرمائش ہمارے خیال میں سراسر ظلم ہے۔ اسی طرح صبح سویرے جب عورت اسکول جانے والے بچوں اور سب سے بڑھ کر اپنے شوہر نامدار کیلئے ناشتہ بنانےمیں مصروف ہو اسوقت اسے موزے ڈھونڈھنے کی مشقت پر لگانا کسی طور مناسب نہیں کہ اس بھاگم دوڑ میں ہانڈی جل جانے پر بیچاری کو ساسو ماں کی جلی کٹی بھی سننی پڑتی ہے۔
کتبوں اور پوسٹرز کی ضمن میں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مظاہرے کے ہر شریک پر منتظمین کا کنٹرول نہیں اور شرکا اپنی مرضی کے نعرے لکھ لیتے ہیں۔سیاسی مظاہروں میں  بھی بعض جذباتی کارکن مخالف رہنماوں کے بارے میں فحش جملوں سے مزین کتبے لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ خواتین مارچ  میں بھی پیش آجاتا ہے۔ اسکا دفاع مطلوب نہیں  لیکن ان پر قابوپانا بھی اتنا آسان نہیں۔
اصل بات اظہار رائے اور پرامن مظاہروں کی آزادی ہے۔ ہمارے یہاں ہر مظاہرہ دوسروں کو تہذیب، قوی سلامتی اور قومی اداروں کے خلاف نظر آتا ہے
·        نواز حکومت کے خلاف عمران خان کے دھرنےکو سرکار نے معیشت کی بربادی کا سازش قرار دیا
·        علامہ رضوی کو دھرنے کو حکومت نے نفرت پھیلانے کی مہم  قراردیا۔ مزے کی بات نواز دور میں  جس دھرنے کی تحریک انصاف نے زبردست حمائت کی لیکن جب انکے دور  میں علامہ صاحب وہی مطالبہ لیکر سڑکوں پر آئے  تو عمران خان نے 'اسلام کے ٹھیکییداروں' کو انجام بد کی دھمکی دی اور اسے عملی جامہ بھی پہنایا کہ بدترین تشدد سے ایک 80 سالہ عالم دین دوران حراست انتقال کرگئے
·        عمران حکومت نے یہی رویہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے  پر اختیار کیا
·        اب کچھ ایسا ہی موقف اور بیانیہ عورت مارچ کے حوالے سے سامناآیا ہے
عورت مارچ میں زیادہ سے زیادہ 2 ہزار خواتین شریک ہوتی ہیں جو اگر سب کی سب 'بدنیت' بھی تصور کرلی جائیں تو 2 ہزار عورتیں 22 کروڑ کی آبادی کو کیسے 'ورغلا' لینگی
کیا ہی بہتر ہو کہ جماعت اسلامی کی خواتین ریلی اور عورت مارچ  کو ایک مشترکہ مظاہرہ بنا دیا جائے کہ دونوں کے بنیادی مطالبات میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس صورت میں چند قابل اعتراض کتبے جماعت اسلامی کے ہزاروں مثبت کتبوں کے سیلاب میں تحلیل ہوکر رہ جائینگے۔
اس طرح مذہبی اور آزاد خیال طبقے کی خواتین  ایک دوسرے کو قریب سے دیکھ سکیں گی اور پرامن بقائے باہمی کی راہ ہموارہوگی۔
اپنے اپنے راجواڑوں اور نظریاتی گنبد میں بند  یہ خواتین جب شانہ بشانہ چلیں گی تو اندازہ ہوگا کہ انکے درمیان مشترکات اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں۔یہ کام اتنا آسان نہیں کہ ناشائستہ باتیں سننی پڑینگی ا ورطنز و حقارت کا سامنا ہوبھی گا لیکن  دعوتِ محبت و اخوت کا اس سے اچھا موقع اور کیا ہوگا
کیا ایسا ہوسکتا ہےَ؟؟؟؟

No comments:

Post a Comment