Thursday, March 12, 2020

سعودی عرب!! کیا ہورہا ہے؟؟؟


سعودی عرب!! کیا ہورہا ہے؟؟؟
سعودی عرب کے فرمانراوا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جب سے تخت سنبھالا ہے تیل کی دولت سے مالا مال  ساڑھے تین کڑور نفوس پر مشتمل یہ ملک عالمی خبروں کی زینت بناہوا ہے۔ 'مشہوری' کی ایک بڑی وجہ سعودی عرب کی غیر معمولی سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی تنظیم نو ہے جسکا آغاز شاہ سلمان کے جوانسال صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان المعرف MBSنے  جنوری 2015میں وزیردفاع اور نائب ولی عہد کا عہدہ سنبھالتے ہی شروع کیا تھا۔انھوں نے ماہرین کی ٹیمیں بناکر 'جدید سعودی' کی تعمیر کا آغاز کیا اوراپریل 2016 کو رویۃ السعودیہ یا Vision 2030کا اعلان کیا گیا۔
اس پیش بینی کا کلیدی نکتہ سعودی معیشت میں تنوع تھا تاکہ بقول MBS 'ملکی اقتصادیات تیل کے ہاتھوں یرغمال نہ بنی رہے'۔ اسی کے ساتھ انھوں نے نجی شعبوں کے تعاون و مشارکت سے صحت و تعلیم، بنیادی ڈھانچے (Infrastructure)، تفریح اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دینے کاخیال پیش کیا جس میں حکومت کا سرمایہ، حصہ اور مداخلت کم سے کم ہو۔ منصوبے کے مطابق 2030 تک سعودی عرب کو
·        عرب اور اسلامی دنیا کا قلب
·        بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مرکز اور
·        تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ کا طاقتور اقتصادی سنگم بننا ہے
اس سلسلے جو طریقہ کار  اختیار کیا گیا انکے کچھ نکات یعنی سنیما و موسیقی، تفریحی مشاغل، کھیل کود کی مخلوط مجلسیں، خواتین کو معاشی و معاشرتی طور پر بااختیار بنانے کی ضمن میں خواتین کی بیرون ملک سفرکیلئے محرم کی شرط کی منسوخی، خواتین کیلئے باہر نکلتے وقت عبایا پہنے کی شرط میں نرمی، لڑکوں کے نیکر یا Shorts پہنے کی اجازت، غیر ملکی مردوخواتین کیلئے ہوٹل میں کمرہ بک کرتے وقت نکاح نامہ دکھانے کی شرط کے خاتمے پر علما کے علاوہ خود خاندانِ سعودمیں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔
 سیاحت کے فروغ کیلئے تبوک کے ساحل پر سیاحتی مرکز کی تعمیر  بھی شاہی خاندان کے بزرگوں کو پسندنہیں۔ یہ سیاحتی مرکز 50 چھوٹے برائے جزائر اور 34 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر مشتمل ہوگا جسکا طرز حکمرانی 'بین الاقومی معیار' کا ہوگا۔ یعنی مشروبات و ملبوسات اور بے لباسی کے حوالے سے وفاقی حکومت کے قوانین یہاں نافذ العمل نہیں ہونگے۔
اسکے علاوہ سعودی ارامکو کی نجکاری  بھی خاندان کے اقتصادی ماہرین کی ناراضگی کا سبب ہے۔ ان لوگوں کے خیال میں ادارے کی نجکاری سے ارامکو کا تشخص مٹاثر ہورہا ہے۔ اثاثہ جات کے علاوہ انتظام و منافع کے اعتبارسے سعودی ارامکو کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔اسکے منافع کا حجم دنیاکی تین سب سے بڑی کمپنیوں ایپل (Apple)، گوگل (Google)اور ایکسون موبل (ExxonMobil)کے مجموعی سے بھی زیادہ ہے۔سونے کا انڈہ دینے والی اس مرغی کی فروخت کوماہرین نقصان کا سودامحسوس کرتےہں۔ گزشتہ برس MBSکے حکم پر ارامکو نے دنیا کی سب سے بڑی پیٹروکیمیکل کمپنی سابک (SABIC)کے 70 فیصد حصص بھی خرید لئے تھے۔ شاہی ناقدین کا خیال ہے کہ سابک کے ادغام کے بعد ارامکو کی نجکاری سے خام تیل کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات پر بھی سعودی عرب کی  گرفت کمزور ہوگئی ہے۔
شاہی اور مطلق العنان نظام میں صحت مندانہ بحث و مباحثے کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے معمولی سا اختلاف بھی افتراق کے شجر زقوم کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔سوتیلوں بھائیوں کی فطری رنجش اور حسد اس آگ کو مزید بھڑکانے کا سبب بنتی ہے۔مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز آلِ سعود نے اس اختلافات کو رفع کرنے کیلئے علما اور شاہی خاندان کے بزرگوں پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ تشکیل دی تھی۔ اسی کے ساتھ نئے بادشاہ کے انتخاب اور ولی عہد کی نامزدگی ہیئۃ البيعۃ کو سونپی گئی تھی جس کی وجہ سے  فوجی  بغاوت و انقلاب کے امکانات کو کم سے کم کردیا گیا۔ 1964 میں خاندانِ سعود باہمی اختلاف کا شکار ہوا جب ولی عہد شاہ فیصل اور فرمانروا شاہ سعود بن عبدالعزیز کے درمیان دوری پیدا ہوئی لیکن تصادم سے پہلے ہی  بحث ومباحثے اور ہیئۃ البيعۃ کے مشورے پر  شاہ سعود نے تخت اپنے بھائی کیلئے خالی کردیا۔
شاہ سلمان نے اپنی تاجپوشی کے بعد نظام حکمرانی میں کئی کلیدی تبدیلیوں کا فیصلہ مبینہ طور پر شوریٰ سے بالابالا اپنے صاحبزادے MBSکے کہنے پر کرلیا جس میں سب سے اہم ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کی معزولی  تھی۔ اسوقت یہ کہا گیا کہ شاہ سلمان نے یہ فیصلہ اپنے مرحوم بھائی شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کی محبت میں کیا ہے۔ شہزادہ نائف کو شاہ عبداللہ نے اپنا ولی عہد نامزد کیا تھا لیکن زندگی نے شہزادہ نائف سے وفا نہ کی اور وہ جون 2012 میں انتقال کرگئے۔ انکے انتقال پر سلمان بن عبدالعزیز ولی عہد مقرر ہوئے۔ چنانچہ انھوں نے شہزادہ مقرن کو ہٹاکر شہزادہ نائف کے بیٹے محمد بن نائف کو ولی عہد مقررکردیا۔ لیکن کچھ لوگوں کو کہنا ہے کہ شہزادہ مقرن کی برطرفی کی اصل وجہ انکی  یمن  پر حملے کی مخالفت تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ مقرن کی والدہ، افریقی نژاد یمنی خاتون برکۃ الیمنیۃ شاہ عبدالعزیز  کی کنیز تھیں جن سے شاہ صاحب نے بعد میں  نکاح کرلیا تھااور اس اعتبار سے شہزادہ مقرن نجیب اللطرفین آل سعود نہیں۔
شاہی خاندان کو اس فیصلے پر اصولی اختلاف تھا۔ ان لوگوں کے خیال میں شاہ عبدالعزیز کی وصیت تھی کہ وفات کے بعد انکے بیٹے یکے بعد دیگرے اقتدار میں آئیں جنکے بعد پوتوں کا سلسلہ شروع ہو۔ اس اصول پر شہزادہ مقرن کی معزولی کے بعد شہزادہ احمد بن عبدالعزیز کا نمبر تھا۔ شہزادہ احمد شاہ سلمان کے سگے بھائی اور ملکہ حسہ بن احمد السدیری کے بیٹے ہیں۔ حسہ کے سات بیٹے السديريون السبعہ کہلاتے ہیں جن میں  شاہ فہد بن  عبدالعزیز، شاہ سلمان اور شہزادہ نائف بہت مشہور ہیں۔
جون 2017 میں شاہ سلمان نے شہزادہ محمد بن نائف کو معزول کرکے اپنے بیٹے MBSکو ولی عہد نامزد کردیا۔ اس تقرری کے ساتھ نائب ولی عہد کا منصب ختم کردیا گیا جس سے لوگوں نے خیال کیا کہ بادشاہ بننے کے بعد MBS کزن کے بجائے اپنے کسی بیٹے کو ولی عہد نامزد کرینگے۔
ولی عہد کا منصب سنبھالتے ہی MBSنے Vision 2020کے تحت اصلاحات پر عملدرآمد کا سلسلہ تیز کردیا اور اقتصادی ومعاشرتی اصلاحات کے ساتھ بدعنوانی و بے ایمانی کے خلاف مہم شروع ہوئی۔  شاہ سلمان نے  انسداد رشوت ستانی کمیٹی قائم کی جسکے سربراہ MBSمقرر ہوئے۔ نومبر 2017میں کمیٹی کے حکم پر 11 شہزادوں، وزیرداخلہ اور سابق ولی عہد محمدبن نائف، درجنوں سابق وزرا اور نیشنل گارڈز کے سابق سربراہ کھرب پتی  شہزادہ ولید بن طلال کو گرفتار کرلیا گیا۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ملزمان پر تحقیقات کے دوران بدترین تشدد بھی کیا گیا۔ شہزادہ صاحب کے مخالفین نے الزام لگایا کہ احتساب  محض بہانہ اور MBSکے ممکنہ مخالفین نشانہ تھے۔ مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس پکڑ دھکڑ  سے اقتدار پر MBSکی گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔ بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ہونے والے اکثر افراد'لوٹی ہوئی' دولت واپس لے کر چھوڑ دئے گئے اور  معاملہ ٹھنڈا ہوگیا۔ 
فروری 2018 میں پر کچھ ہلچل مچی جب  سعودی فوج کے چیف آف اسٹاف عبدالرحمن بن صالح البنیان، شاہی بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان اچانک تبدیل کردئے گئے۔ فوجی سربراہان کی تبدیلی ایک معمول کا واقعہ ہے لیکن تینوں اعلیٰ فوجی افسران کی تبدیلی کیلئے رات گئے شاہی حکم نامے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ MBS اپنے اقتدار واختیار کو مستحکم کرنے میں بے حد سنجیدہ ہیں۔
اکتوبر 2018 میں ممتاز صحافی اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے پراسرار قتل نے ساری دنیا میں سنسنی پھیلادی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے مخالفین نے الزام لگایا کہ جناب خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں اسوقت قتل کرکے لاش ٹھکانے لگادی گئی جب وہ اپنے دستاویزات کی سفارتی تصدیق کیلئے وہاں گئے تھے۔ ترک تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ خاشقجی کو قتل کرنے کیلئےسعودی فوج کے ماہرین خاص طور سے استنبول آئے تھے۔ سعودی حکومت نے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کرلیا اور مقدمے چلا کر کئی ملزمان کوسزائے موت اور عمر قید کی سزا سنائی ہے لیکن خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی اور مغرب کے سفارتی، سفارتی  و سیاسی حلقوں کو یقین ہے کہ خاشقجی کو MBSے حکم پر ٹھکانےلگایا گیا ہے۔
ادھر کچھ دنوں سے افواہ گرم ہے کہ 84 سالہ شاہ سلمان خاصے بیمار ہیں۔انھیں نسیان اور انحطاطِ ذہن کا عارضہ (Dementia)لاحق ہے۔ انکے قریبی رفقا اقتدار سے دستبردار ہوکر ولی عہد کی تاجپوشی کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن شاہ سلمان اس پر راضی نہیں۔کچھ حلقوں کا کہنا ہے MBSبھی انتقال اقتدار کیلئے اپنے والد پر دباو ڈال  رہے ہیں اور  اس تناظر میں امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے انکشاف کیا ہے کہ 6 مارچ کو بادشاہ سلامت کے بھائی احمد بن عبدالعزیز اور بھتیجے محمد بن  نائف سمیت شاہی خاندان کے تین سینئر اراکین کو حراست میں لے لیا گیاہے۔امریکی جریدے 'وال اسٹریٹ جرنل' نے اپنے ذرایع سےرائٹرز کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان افرادپر بغاوت کے الزامات عائد کئے گئے ہیں جس پر انھیں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ ایک عرب خبر رساں ایجنسی مڈل ایسٹ آئی (MEE) نے گرفتاری کی  جو تفصیل پیش کی ہے وہ خاصی سنسنی خیز ہے۔MEEکے مطابق احمد بن عبدالعزیز ہیئۃ البيعۃ کے رکن ہیں۔ بادشاہ و لی عہد کی معزولی و تاجپوشی کا فیصلہ  یہی ادارہ کرتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک نجی محفل میں احمد بن عبدالعزیز نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ MBSکے بادشاہ بننے کی مخالفت کرینگے۔ ہیئۃ البيعۃ میں فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں اور اگر احمد صاحب اپنی بات پر اڑ جائیں تو MBSکی تاجپوشی کھٹائی میں پڑسکتی ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق MBS کو انکے رفیق اور 'سیاسی گرو' متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید (MBZ)کے ساتھ مصر کے آمرِ مطلق جنرل السیسی نے سمجھایا ہے کہ انتقال اقدار کی کاروائی نومبر سے پہلے مکمل کرلی جائے تو بہتر ہے۔ انھیں ڈر ہےکہ اگر صدر ٹرمپ نومبر میں انتخاب ہارگئے تو صورتحال تبدیل ہوجائیگی۔ ڈیموکریٹک پارٹی خاشقجی کے قتل کی شفاف تحقیق کرانا چاہتی ہے اور نئے امریکی صدرکی جانب سے تاجپوشی کی مخالفت خارج ازا مکان نہیں۔
اتفاق سے نومبر میں گروپ 20یا G-20ملکوں کی کانفرنس ہورہی ہے جسکی میزبانی سعودی عرب نے کرنی ہے۔ شاہی خاندان کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دماغی عارضے میں مبتلا شاہ سلمان دنیا کے امیر و موثر ترین ملکوں کی قیادت کے سامنے  سعودی عرب کیلئے شرمندگی کا باعث بن سکتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ بیمار بادشاہ کانفرنس کے پہلے ہی اقتدار اپنے بیٹے کو منتقل کردیں۔ دوسری طرف  شاہ سلمان اپنے بھائی احمد سے بہت قریب ہیں اور احمد صاحب کا خیال ہے کہ شاہ سلمان اتنے  بیمار بھی نہیں کہ تخت چھوڑنا ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر اختیارات ولی عہدکو تفویض کر دینے کے باوجود بادشاہ کی حییثیت سے شاہ سلمان حکومتی اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔
شہزادہ احمد کی گرفتاری کی جو تفصیلات اندرونی حلقے بیان کررہے ہیں وہ بھی چشم کشا ہیں۔ MEEکے مطابق شکار کے شوقین شہزادہ احٓمد کافی عرصہ ملک سے باہر رہنے کے بعد 5 مارچ کو رات گئے جب ملک واپس آئے تو انھیں شاہ سلمان کے دفتر سے پیغام ملاکہ بادشاہ سلامت کچھ اہم معاملات پر ان سے مشورہ کرنا چاہتے جن میں شہزادہ فیصل بن عبدالرحمان کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ شہزادہ فیصل MBSکے حکم پر گرفتار کئے گئے ہیں جنکی رہائی کیلئے شہزادہ احمد نے شاہ سلمان سے بات کی تھی۔ جمعہ کو صبح سویرے شہزادہ  احمد جیسے ہی شاہی محل پہنچے انھیں سعودی خفیہ ایجنسی کے مسلح اہلکاروں نے گرفتار کرکے کسی نامعلوم جگہ منتقل کردیا۔ اسی کے ساتھ شہزادہ محمد بن نائف اور دوسرے کئی شہزادوں کو انکے گھروں سے حراست میں لے لیا گیا۔ سعودی حکومت کی جانب سے اب تک ان خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں ہوئی۔
اگر ان گرفتاریوں اورا سکے پس منظر کے حوالے سے جاری ہونے والے خبروں اور تجزیوں سے لگتا ہے کہ MBSتاجپوشی کے سلسلے میں انتہائی سنجیدہ ہیں اور شہزادہ احمد کی گرفتاری ہیئۃ البيعۃ کو اپنے مخالفین سے پاک کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ولی عہد بننے کے بعد MBS نےسعودی شاہی خاندان کے بہت سے 'بزرگوں' کو نظامِ حکومت سے الگ کردیا ہے۔ شہزادہ صاحب کا خیال ہے کہ یہ افراد Vision 2030اور نئے سعودی عرب کے بارے میں MBSکے نقطہ نظر کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور یہ روائتی لوگ ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ان  افراد کو حکومت میں خاصا اثر و رسوخ حاصل تھا چنانچہ بے دست و پا ہوکر دیوار سے لگ جانے کی بنا پر یہ لوگ MBSسے سخت ناارض ہیں اور شاہی خاندان میں ٹوٹ پھوٹ کا تاثر پیدا ہورہا ہے۔MBSان اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتے۔ انکاموقف ہے کہ ملک کی تعمیر نو کیلئے  نئے چہرے اور جوان خون ضروری ہے۔
بیچینی کی یہ تازہ لہر ایسے وقت  اٹھی ہے جب سعودی عرب کو نئی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ سکروناوائرس پھوٹ پڑنے سے دنیا اضطراب کا شکار ہے۔ بازارحصص اور مالیاتی ادارے شدید دباو میں ہیں۔ سعودی بازار حصص میں گراوٹ کا حجم 7 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے اور جن مقامی سرمایہ کاروں نے ارامکو کی نجکاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئےبڑے ارمان سے کمپنی کے حصص خریدے تھے انکی کروڑوں ڈالر صرف ایک دن میں ڈوب گئے۔ چین کے سرپر کسادبازاری کا خطرہ منڈلا رہا ہے جو سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ کھپت بری طرح متاثر ہونے کی بنا پر تیل کی قیمتیں 1991کی سطح سے نیچے گرچکی ہیں۔ کرونا وائرس کے خوف سے سعودی عرب نے عمرہ ویزوں پر پابندی لگادی ہے۔ گویاکروناوائرس سعودی عرب کیلئے دودھاری تلوار ہے کہ تیل کے بعد حج، عمرہ و زیارات  مملکت کی آمدنی کےبڑے ذرایع ہیں۔ 5 سال بعد بھی یمن جنگ کا کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا جہاں عسکری مہم جوئی کا خرچ کروڑوں ڈالر روزانہ ہے۔آمدنی میں بھاری کمی سے شاہی خزانہ تیزی سے تحلیل ہورہا ہےتو دوسری طرف مزید اسلحے کی خریداری کیلئے صدرٹرمپ کا اصرار برقرار ہے۔ MBS کیلئے صدر ٹرمپ کی فرمائش کو نظر انداز کرنا بھی آسان نہیں کہ چچا سام کو ناراض کرکے انکے لئے تخت پر براجمان رہنا آسان نہ ہوگا۔
عالمی سیاست  اور نظریاتی چپقلش اپنی جگہ لیکن حرمین شریفین کے تعلق کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمان سعودی عرب سے ایک جذباتی لگاو رکھتے ہیں۔ حال ہی میں حرم شریف کے خالی مطاف کی جو تصاویر شائع ہوئی ہیں اسے دیکھ کر مسلمانوں کے دل کٹ کر رہ گئے۔سعودی عرب کے حالیہ معاشی بحران اور شاہی خاندان میں رنجشوں کی خبر نے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ کھلی، بے لاگ اور پراعتماد باہمی بات چیت ہے۔ گرفتاری و پکڑ دھکڑ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 مارچ

No comments:

Post a Comment