Friday, March 20, 2020

کرونا وائرس! وبا کی پشت پر بیروزگاری و کساد بازاری کی بلا؟


کرونا وائرس! وبا کی پشت پر بیروزگاری و کساد بازاری کی بلا؟
چین کے شہر ووہّان سے شروع ہونے والا زکام اب ایک خوفناک عالمی وبا یا Pandemicکی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جیسا کہ ہم نے  اس سے پہلے عرض کیا تھا، چینیوں کا ظالمانہ شوقِ کام و دہن اس عفریت کے آغاز کا سبب  بنا جب  چمگاڈر کے سوپ، بھنی بلی یا زندہ چوہوں سے کرونا وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا جس نے اسے باقی لوگوں تک پہنچادیا۔گزشتہ چند دنوں سے چینی وزرات خارجہ کے کچھ افسران اشارہ کررہے ہیں کہ یہ آفت آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے اور
سب بلاوں کا ہے جہاں سے نزول
یہ بلا بھی وہیں سے آئی ہے
چینی حکام کی اس مبہم گفتگو  کو مغرب کا صحافتی حلقہ بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے اور گزشتہ ہفتے جب صدر ٹرمپ اپنے طبی اور سائنسی ماہرین کے ہمراہ کرونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر امریکی عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے آئے تو کئی صحافیوں نے ان سے براہ راست سوال پوچھے جسے صدر نے fake newsکہہ کر نظر انداز کردیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ چینی قیادت سے مسلسل رابطے میں ہیں اور بیجنگ سے جاری ہونے والا اس نوعیت کا کوئی ٹویٹ انکی نظر سے نہیں گزرا۔
اس عذاب کا آغاز کچھ اسطرح ہوا کہ گزشتہ سال کے اختتام پر وسطی چین کے صوبے خوبے (Hubei)کے دارالحکومت ووہّان میں کئی لوگوں کو گلے میں شدید تکلیف کے ساتھ تیز بخار کی شکائت ہوئی۔ مقامی ڈاکٹروں نے اسے نزلہ زکام سمجھ کر نظر اندار کردیا۔کچھ طبی ماہرین نے اس زکام کو ایک خاص طریقے کا نمونیا قراردیکر علاج شروع کیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایک چینی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر لی وینلیانگ Li Wenliangنے سب سے پہلے اس نزلے کو ایک خوفناک متعدی مرض کا آغاز قراردیا لیکن اس بات پر کان دھرنے کے بجائے چینی حکومت نے افواہ سازی اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے الزام میں  34 سالہ ڈاکٹر لی کو گرفتار کرلیا۔ دوسری طرف مرض بڑھتا رہا اور ہزاروں افراد ہسپتال پہنچ گئے۔متاثرین کے لعاب، دہن ، بلغم اور خون کے تفصیلی تجزئے پر ان مریضوں کے خون میں ایک مخصوص جرثومے کی علامات پائی گئیں جسے2019-nCoVیا نویل کرونا واائرس کہتے ہیں۔ لفطِ کرونا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خوردبینی تجزئے کے دوران اس جرثومے کے جزئیات تاج (کراون) کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر لی کا خدشہ درست ثابت ہونے پر انھیں رہا کردیا گیا اور شکوہ شکائت کئے بغیر ڈاکٹر لی مریضوں کے علاج میں جت گئے۔ اس جرثومے نے ٖڈاکٹر لی کو نہ چھوڑا اور 7 فروری کو اس فرض شناس ڈاکٹرکی موت واقع ہوگئی۔ عالمی ادارہ صحت نے اس مرض کو 'کووِڈ 19' (COVID-19)کا نام دیا ہے۔
انسانیت وقتاً فوقتاً عالمی وباوں کا سامنا کرتی رہی ہے۔ اس نوعیت کی:
·        ایک بڑی وبا 430 قبل مسیح یونان میں پھوٹی جسے 'ایتھنر طاعون' کا نام دیا گیا۔ یہ وبا ایتھنز کی ایک چوتھائی آبادی کو نگل گئی۔
·        یوکرین کے شہر کریمیا سے 1347 میں کالے چوہوں سے پھوٹنے والی بیماری کو سیاہ طاعون کا نام دیا گیاجو 4 سال جاری رہی اور اس وبا  نے سارے ایشیا اور یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک اندازے کے مطابق ساڑھے سات کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ بعض محققین ہلاکت کا حجم  20 کروڑ بتاتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی اس وبا کا شکار ہوئی۔
·        اس وبا کے 500 سال بعد چین میں طاعون کی بیماری پھیلی جو جلد ہی ہندوستان تک پھیل کر عالمی وبا کی شکل اختیار کرگئی جس سے ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ کچھ عرصے بعد جنوبی ایشیا میں اسکا اثر کم ہوا تو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو کو طاعون کی وبا نے گھیر لیا اور ہزاروں افراد اسکا نشانہ بنے۔
·        کرونا وائرس کی قسم کی ایک خوفناک وبا نے 1918 میں بھی قیامت ڈھائی تھی جسے ہسپانوی زکام یا Spanish Fluکا نام دیا گیا۔سو سال گزرجانے کے باوجود اس نامراد کی جائے ولادت کا تعین نہیں ہوسکا۔ اکثریت نے اسکا نقطہ آغازلاطینی امریکہ کے ملک ارجنٹینا (Argentina)کو قراردیا ہے جسکی وجہ سے اسے ہسپانوی زکام کا نام دیا گیا۔ تاہم امریکی ریاست کنساس، فرانس میں برطانیہ کے ایک فوجی اڈے اور سنکیانک کے شہر اڑمچی سے اسکا آغاز بھی خارج از قیاس نہیں۔ جو جرثومہ اس خوفناک وبا بلکہ بلا کا سب بنا اسے ماہرین نے H1N1 Influenza Virusکا نام دیا ہے۔ اس بیماری سے 50 کروڑ افراد متاثر ہوئے جن میں سے ایک کروڑ 70 لاکھ موت کے منہہ میں چلے گئے۔ امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے دادا فریڈرک ٹرمپ بھی اسی مرض کا شکار ہوئے اور صرف ایک دن کے تیز بخار کے بعد انتقال کرگئے۔ موت کے وقت آنجہانی کی عمر صرف 49 تھی۔ یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں لیکن اسے ستم ظریفی کے سوا اور کیا کہا جائے کہ جرمن تارکِ وطن کے پوتے اور برطانوی خاتون کے بیٹے صدر ٹرمپ امریکہ میں تارکین وطن کے آمد کے ٓمخالف ہیں۔ 
·        گیارہ سال قبل 2009میں یہ جرثومہ ایک بار پھر نمودار ہوا۔ اس بار اسکا ظہور مادہ سور کے ذریعے ہوا تھا اور اسی مناسبت سے اسے Swine Fluکا نام دیا گیا۔ ویکسین کے موثر استعمال کی بناپر Swine Fluکی وبا سے انسان تو بڑی حد تک محفوظ رہے لیکن مویشیوں اورسوررں کے ہزاروں ریوڑ تلف کرنے پڑے
چین سے شروع ہونے والی کرونا وائرس کی وبا اب دنیا کے 162 ملکوں میں پھیل چکی ہے اور تادم تحریر اس سے متاثر مریضوں کی تعداد پونے دولاکھ کے قریب ہے اور 7ہزار سے زیادہ افر اد اس مرض سے ہلاک ہوچکے ہیں۔چین نے بظاہر اس وبا پر قابو پالیا ہے اور اب ان عارضی ہسپتالوں کو بند کردیا گیا ہے جہاں اس وائرس کے مریضوں کا علاج ہورہا تھا۔ تاہم عالمی ادارہ صحت نے تاریخی تناطر میں چین سے احتیاطی سرگرمیاں جاری رکھنے کی درخواست کی ہے کہ اس وبا کی تجدید خارج ازامکان نہیں جسے طبی اصطلاح میں relapseکہتے ہیں۔
چین کے بعد اس جرثومے نے ایران کو اپنا ہدف بنایا جہاں صورتحال بدستور بد سے بد ترہوتی جارہی ہے۔ 15 ہزار افراد اس  جرثومے سے متاثر ہیں اور 860 سے زیادہ افراد جاں بحق  ہوچکے ہیں۔ ملک کی نائب صدر اور بہت سے وزرا اور ارکان پارلیمان بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔مشہور عالم دین اور ایران فقہا کونسل کے سینئر رہنما آئت اللہ ہاشم بطحائی سمیت 12 رہنما اس مرض میں  جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ 13 سرکردہ قائدین بستر مرگ پر ہیں۔
چین اور ایران کے بعد اب کرونا وائرس کا ہدف اٹلی نظر آرہا ہے  جہاں اتوار کو صرف ایک دن میں 349 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہاں اب تک 30 ہزار افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جن میں سے2000ہلاک ہوگئے۔ کیٹولینا تحریک آزادی کے رہنما مسٹر تورا بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ عوام کے پراسرار مطالبے پر صدر ٹرمپ نے بھی اپنا ٹسٹ کروایا جو انکی خوش قسمتی سے منفی رہا۔
اٹلی کے ساتھ جرمنی، فرانس، پولینڈ، روس، برطانیہ، کینیڈا،ہسپانیہ، پرتگال اس وائرس کی لپیٹ میں ہیں اور ان ممالک کے کئی وزرا اور سیاسی رہنماوں  میں جرثومے کی موجودگی کا شبہہ ہے جن میں پولینڈ کے وزیرماحولیات مائیکل واس اور کینیڈا کی خاتون اول شامل ہیں۔ امریکہ کے کئی سینیٹر شک کی بنا پر رضاکارانہ قرنطینہ میں ہیں۔
اگرچہ دنیا کا کوئی حصہ اس عفریت سے محفوظ  نہیں لیکن اب تک افریقہ نسبتاً کم متاثر نظر آرہا ہے۔ افریقہ میں کرونا وائرس کے مریض یورپی تارکین وطن ہیں۔ اسی بنا پر سوشل میڈیا میں یہ ٹویٹ وائرل ہورہی ہے کہ پہلے گوروں نے افریقہ کو Colonizeکیا اور اب ہمیں Coroniseکررہے ہیں۔
یورپ اور شمالی امریکہ میں مرض کو پھیلنے سے روکنے کی کلید میل جول روکنے کو قراردیا جارہا جسکے لئے ماہرین نے سماجی خلیج یا Social Distancingکی اصطلاح وضع کی ہے جسکے تحت عبادت گاہوں پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ امریکی مسلمان  مساجد میں چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا اہتمام کرکے نماذ اداکررہے ہیں۔ کئی جگہ نجی گھروں پر نماذ باجماعت ادا کی جارہی ہے ۔
کرونا وائرس سے بیماری و موت کا خوف تو اپنی جگہ، پابندیوں نے زندگی خاصی مشکل کردی ہے۔ لوگوں  نے خوف کے پیش نظر دکانیں خالی کردی ہیں اور اکثر جگہ غذائی اجناس اور اشیائے ضرورت کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ موقع پرست دکانوں سے اشیا خرید کر Amazonکے ذریعے اسے بیچ کر بھاری منافع کمارہے ہیں۔اس خوف و ہراس سے دہاڑی پر کام کرنے والے شدید مشکل میں ہیں جنکا روزگار ختم ہوگیا ہے۔ ٹیکسوں میں رعائت، بیماری میں تنخواہ کے ساتھ چھٹی اور سرکار کی طرف سے تمام  امدادی مراعات بر سرِ روزگار لوگوں کیلئے ہیں۔ ICNAکا خیراتی ادارہ اکنا ریلیف بہت سی جگہ نادارلوگوں غذائی اجناس فراہم کررہا ہے لیکن انکا ذخیرہ بھی ختم ہونے کو ہے۔
کرونا وائرس کا سب سے خوفناک پہلو اسکے پیچھے آنے والا بیروزگاری اور کساد بازاری کا کا طوفان ہے جسکا بدحواس قائدین کو شائد اندازہ ہی نہیں۔ کرونا وائرس سے صحتیابی کا تناسب 97 فیصد سے زیادہ ہے۔ روائتی نزلے اور زکام سے مرنے والے ضعیف لوگوں کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن کرونا وائرس سے دنیا بھر میں جو خوف طاری ہے اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور بھیڑ چال میں پاکستان اور تیسری دنیا کی قیادت بھی معیشت سے بے خبر وہی اقدامات کررہی ہے جو امریکہ و یورپ میں اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے لوگ پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری سے سخت پریشان تھے اور اب Social Distancingنے رہا سہا کاروبار بھی ختم کردیا۔ مغربی دنیا میں نسبتاًبہتر طرز حکمرانی اور سماجی خدمات کے موثر نظام کی وجہ سے کاروبار کی وقتی تالہ بندی سے پیداہونے والی پریشانیاں سرکاری وظائف اور مراعات نے عام لوگوں کیلئے کسی حد تک قابل برداشت بنا دی ہیں لیکن پاکستان میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں چنانچہ عام لوگوں کی زندگی  بے حد مشکل بن چکی ہے
یہ جرثومہ امریکی بازار حصص کو چاٹ چکا ہے اور  10 ہزار پوائنٹس کی گراوٹ نےسرمایہ کاروں کے کھربوں ڈالر غرق کردئے۔کرونا وائرس سے ہوائی جہاز، سیاحت اور اس سے وابستہ صنعتوں کا براحال ہے۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ ائرلائن کمپنیاں دیوالیہ کے قریب ہیں اور صرف امریکہ میں 2 لاکھ لوگ بیروزگار ہونگے۔ ہوائی جہازکمپینیوں کی امریکی انجمن نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہےکہ اگر  فوری طور پر 50 ارب ڈالر کی مالی اعانت فراہم  نہ کی گئی تو  لاکھوں ملازمین کو فارغ کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔
ائرلائن، پرتعیش بجرے، ہوٹل، تفریحی مقامات، ریستوران ،مئے کدے، جواخانے اور رقص گاہوں کے ساتھ عام دکانیں بھی بند ہورہی ہیں کہ اکثر شہروں کی مقامی انتظامیہ نے لوگوں کی غیر ضروری آمدورفت پر پابندی لگادی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہزاروں صنعتی ادارے بندہیں جنکا خام مال چین سے آتا تھا اور ساتھ ہی برآمدکنندگان بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ بین الاقوامی پروازیں بندہیں اور بحری جہاز بندرگاہوں پر لنگرانداز ہیں۔ ان بندشوں نے غذائی اجناس، پولٹری، زندہ جانور، دودھ  او ر گوشت فراہم کرنے والوں کیلئے سخت مشکلات پیدا کردی ہیں کہ  برآمد کیلئے تیار پرندے اور جانور انکا منافع کھاچکے اب انکے اب ودانہ کیلئے گرہ سے رقم خرچ کرنی پڑرہی ہے۔
اس کے ساتھ تیل کی صنعت بھی شدید بحران میں ہے۔ کرو نا وائرس کی وجہ سے ساری دنیا بالخصوص چین کی صنعتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جسکا اثر تیل کی کھپت پر ہے اور قیمتوں کی خوفناک جنگ سے تیل 28 ڈالر فی بیرل سے بھی سستا ہوگیا۔ تیل کی ارزانی اور حفاظتی اقدامات کے بھاری اخراجات سے خلیجی ممالک کی معیشت شدید دباو میں ہیں۔ تیل کے بعد عمرہ، حج اور زیارات سعودی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے اور حرم کی بندش سے آمدنی کا یہ سوتا بھی خشک ہوگیا۔
امریکی اور بحر شمالی (North Sea) میں پیداواری لاگت قیمتِ فروخت سے زیادہ ہےجسکی وجہ سے تیل کی صنعت کے لاکھوں کارکن بیروزگار ہوگئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے صنعت کا پہییہ جاری رکھنے کیلئے ملک کے تزویرانی پیٹرولیم ذخیرے کیلئے تیل خریدنے کا اعلان کیا ہے۔
جب 1973کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فیصل نے امریکہ اور مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی پر پابندی لگائی اس وقت امریکیوں نے  عارضی اور طویل المدتی منصوبے بنائے ۔ اسی ضمن میں خام تیل کا ایک عظیم الشان ذخیرہ تعمیر کیا گیا جسے Strategic Petroleum Reserveیا SPRکہتے ہیں۔ خلیج میکسیکو میں زیرآب  (Offshore)اور لوزیانہ میں onshoreکنویں کھود کر غاروں اور depleted reservoirsمیں تیل ذخیرہ کرنے کا اہتام  کیاگیا۔ اب ان چارذخائر میں مجموعی طور73 کڑور بیرل تیل محفوظ کرنے کی گنجائش ہوجود ہے۔کیا ہی بہٹر ہو  کہ بابر نہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست گنگناتے ہوئے کم قیمت تیل سے لطف اندوز ہونے کے بجائے پاکستان بھی سستا تیل خرید کر مستقبل کیلئے اسے محفوظ کرلے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میںDepleted Reservoirموجود ہیں جہاں خام تیل کے ذخائر قائم کئے جاسکتے ہیں۔  ترکی کی قومی تیل کمپنی کا بنیادی کاروبار ہی گیس ذخیرہ کرنا ہے۔ گرمی میں کم قیمت خریدی جانیوالی گیس سردیوں میں یورپ کو فروخت کی جاتی ہے۔ تیل کا ذخیرہ معیشت کے ساتھ ہماری قوی سلامتی کیلئے بھی ضروری ہے کہ   پاکستانی سمندروں کے قریب عدم استحکام پیدا کرنا  دشمن کیلئے  مشکل نہیں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ پاکستانی بحریہ اس قسم کی ناکہ بندی کو توڑنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن شدید تصادم کی صورت میں ٹینکروں کی آمدورفت متاثر ہونےکا خطرہ تو ہر وقت موجود ہی ہے۔ان ذخائر کی تعمیر کیلئے کنووں کی کھدائی، رزمینی تنصیبات کے حوالے سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور ٹھٹھری ہوئی تیل کی مقامی صنعت میں تیزی آئیگی۔
احباب سے معذرت کہ ایک ذیلی موضوع پر ہم نے ایک پورا لیکچر گوش گزار کردیا۔
امریکہ میں الرجی و انسداد وبائی امراض کے ڈائریکٹر اور کرونا وائرس کے خلاف بنائی گئی صدر ٹرمپ کی ٹاسک فورس کے اہم رکن ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے بہت دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ 'لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری زندگی اب ویسی نہیں رہے گی جیسی کرونا وائرس سے پہلے تھی' بہت سے لوگ ڈرامائی تبدیلی کے حوالے سے کرونا وائرس عفریت کا موازنہ  9/11سے  کررہے ہیں کہ جیسے نیویارک میں ہونے والے 2 گھنٹہ چار منٹ کے واقعے کے اثرات دودہائی گزرجانے کے بعد آج تک ساری دنیا میں محسوس کئے جارہے ہیں کچھ ایسا ہی معاملہ دنیا بھر کی معیشت و معاشرت پر ایک عرصے تک محسوس کیا جاتا رہیگا۔ کیا پاکستان اور تیسری دنیا کی قیادت کو ان اقدامات کے تباہ کن اثرات کا ادراک ہے جنکا چند ماہ بعد عام لوگوں کو سامنا کرنا پڑیگا؟   
فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 مارچ
2020

No comments:

Post a Comment