Tuesday, May 26, 2020

سیاہ و سفید کا جھگڑا


 سیاہ و سفید کا جھگڑا
آپ نے لیبیا کے موضوع پر ہماری کوئی پوسٹ ملاحظہ فرمائی ہونگی۔ بہت سے احباب نے دریافت کیا ہے کہ فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر کے پاس ایسی کونسی گیڈر سنگھی ہے کہ فرانس، روس، اسرائیل، مصر،شام، یونان ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب  سب انکے دیوانے ہیں۔
 اسکو مختصر ترین الفاظ میں اسطرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ سیاہ وسفید یعنی بحر اسود اور بحرابیض (روم)  پر کنٹرول کا معاملہ ہے۔ یورپی ممالک کی معیشت کیلئے بحر روم و بحر اسود ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اسے سمجھنے کیلئےعلاقے کی جغرافیہ کا ایک مختصر سا جائزہ قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔
 بحر اسود، یوکرین، جارجیا، رومانیا اور بلغاریہ کیلئے بحری نقل وحمل کا واحد ذریعہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ سمندر چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہواہے اور کھلے سمندر تک اسکی رسائی نہیں۔ استنبول کے قریب آبنائے باسفورس اسے بحر مرمارا سے ملاتی ہے ۔ یہ دنیا کی تنگ ترین آبنائے ہے جسکی چوڑائی صرف سات سو میٹر ہے۔ بحر مرمارا بھی خشکیوں سے گھرا سمندر ہے جسے ترک  نہر استنبول کہتے ہیں۔ بحر مرمارا دراصل ایشیا اور یورپ کی سرحد ہے۔ آبنائے ڈرڈانیلس (Dardanelles Strait) بحر مرمارا کو خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔گویا سارا مشرقی یورپ آبی نقل و حمل کیلئے ترکی کا محتاج ہے جسکی حدود میں واقع دو آبنائے بحر اسود کو بحر روم تک رسائی دیتی ہیں۔ یہ راستے اسقدر تنگ ہیں کہ انھیں بند کردینا بہت مشکل نہیں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ترکی آبنائے باسفورس کو بند کرنے کی دھمکی دیکر روس کو ملک پر بمباری سے باز رکھ چکا ہے۔
آب آتے ہیں بحر روم کی طرف تو یہ بھی اپنی وسعتوں کے باوجود خشکیوں سے گھرا ہوا ہے اور یہا ں سے باہر نکلنے کے دو ہی راستے ہیں ایک مراکش اور اسپین کے درمیان آبنائے جبل الطارق جو اسے بحر اوقیانوس تک رسائی دیتی ہے اور دوسراراستہ مصر کی نہر سوئز سے گزرتا ہے جو بحر احمر میں کھلتی ہے۔ایک سو ترانوے کیلومیٹر طویل نہر سوئز 1869میں کھودی گئی تھی اسکی چوڑائی صرف آٹھ میٹر ہے۔یہ مصنوعی نہر مصر کی ملکیت ہے اور قاھرہ کو اس پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ اور پھر معاملہ نہر سوئز پر ہی ختم نہیں ہوجاتا کہ بحر احمر سےکھلے پانیوں تک رسائی آبنائے باب المندب سے ہوتی ہے جو یمن اور جبوتی کے درمیان واقع ہے۔
بحر روم کے علاوہ اسرائیل کیلئے دوسرا راستہ خلیج عقبہ کا ہے۔ یہاں سے اسرائیلی جہاز شرم الشیخ کے قریب انتہائی تنگ سی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے بحر احمرکے ذریعے بحر عرب کے کھلے پانیوں میں داخل ہوتے ہیں ۔ خلیج عقبہ اور اسکے بعد بحر احمر سے بحر عرب تک کا سارا راستہ مسلم ساحلوں کو چھوتا نظر آتاہےاور بحرعرب سے سے پہلے انھیں باب المندب کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔
شمالی افریقہ اور بحر روم کے حوالے سے اسرائیل اور یورپ مغرب کی  فکر مندی بہت واضح ہے اور اسکا تعلق  صرف تیل سے نہیں بلکہ آبی شاہراہوں کے حوالے سے نیٹو، امریکہ اور اسرائیل اندیشہ ہائے دور دراز  میں مبتلا ہیں۔ہمارے خیال میں تو یہ خوف غیر ضروری و خودساختہ ہے لیکن مغربی دانشور زیب داستاں کیلئے مفروضے کی بنیاد پر تراشی گئی اس تشویش کو بڑھا چڑھاکر پیش کررہےہیں۔ انکا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ میں ترکی کی ہمخیال حکومتیں بن جانے سے یورپ کا بڑا حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اسکے نتیجے میں  بحر اسود، بحر روم، بحر احمر، خلیج عقبہ اورخلیج عرب و فارس میں آزاد جہاز رانی مخدوش ہوجائیگی۔ بے بنیاد خوف اور انجانے خدشات پر پہلے الجزائر کو خون میں نہلایاگیا، ہزاروں مصری موت کے گھاٹ اترے اور اب لیبیا کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔
احباب کی آسانی کیلئے ہم نے تین تقشے بھی یہاں چسپاں کردئے ہیں
          ·          بحراسودو بحر روم
          ·          خلیج عقبہ
          ·          نہر سوئز


Saturday, May 23, 2020

جینے کے نئے انداز یا نیا جال لائے پرانے شکاری؟؟


 جینے کے نئے انداز یا نیا جال لائے پرانے شکاری؟؟
وزیراعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا جلد ختم ہونے والی نہیں اور ہمیں اسکے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ لینا چاہئے۔ ایک ہفتہ قبل ایسی ہی بات عالمی ادارہ صحت  کے ماہر متعدی امرض ڈاکٹر  مائک رائن نے بھی کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس مرض کی ویکسین کی تیاری میں اٹھارہ ماہ لگ سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی  ٹاسک فورس کے روح روں ڈاکٹر انتھونی فاوچی کے خیال میں ویکسین کی تیاری  کیلئے اٹھارہ ماہ ایک خوش کن تخمینہ ہے اور چند ماہ بلکہ سال کی تاخیر خار ج ازامکان نہیں۔
ویکسین کی دریافت کے حوالے سے جو دعوے کئے جارہے ہیں اس پر سائنسدانوں کے درمیان اختلافات اور  تحٖفظات ہیں۔ امریکہ کے مرکز برائے انسدادامراض (CDC)کا خیال ہے کہ دواساز ادارے ویکسین کی دریافت کے معاملے میں غیر حقیقت پسندانہ دعوے کررہے ہیں۔ تازہ ترین خبر 15 مئی کو شائع ہوئی جب امریکی ریاست کیلی فورناکے دواساز ادارے سورینٹو (Sorrento) نے کرونا وائرس کے تریاقچے یا antibodyدریافت کرنے کا دعویٰ کیا۔ ادارے کےسربراہ ڈاکٹرہنری جی کا کہنا ہے کہ انکا دریافت کردہ تریاقچہ اس مرض سے 100 فیصد تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجوزہ تریاقچے کی ہئیت اور حکمت عملی کی شاعرانہ انداز میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ 'یہ تریاقچہ وائرس کو بانہوں میں سمیٹ کی جسم سے باہر نکال دیتا ہے'
چینی نژاد ڈاکٹر جی کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن ابھی انکی ایجاد کو CDCمیں جانچ پڑتال، تفتیش اور پھر تصدیق و توثیق کے پل صراط سے گزرنا ہے۔ نجی سطح پر CDCحکام نے ڈاکٹر جی کے دعوے کو'کمپنی کی مشہوری' کی ایک کوشش قرارادیا ہے۔اس انکشاف سے کمپنی کے حصص کی قیمتیں 2.62سے بڑھ کر 9 ڈالر ہوگئیں لیکن بازار بندہونے تک یہ قیمت 6.76ڈالر پر واپس آگئی۔ڈاکٹر جی کیلئے کامیابی کی امیدودعا کے ساتھ یہ وضاحت ضروری کہ ماضی میں گلیاڈ(Gilead)، موڈرنا (Moderna)اور جانس اینڈ جانسن نے بھی کرونا وائرس کی ویکسین دریافت کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اسی کے ساتھ تائیوان، آسٹریلیا، جرمنی اور چین میں بھی تریاقچوں کی دریافت میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے لیکن CDC کے خیال میں دلی ہنوز دوراست۔
دوہفتہ قبل اسرائیل کے سابق وزیردفاع نفتالی بینیٹ Naftali Bennettنے  کرونا وائرس کی سرکوبی کیلئے تریاقچے کی تیاری کا دعوی کیاتھا۔48 سالہ نفتالی دائیں بازو کی قدامت پسند یمینیہ پارٹی کے سربراہ ہیں اور وہ نیتھں یا ہو کی عبوری کابینہ میں وزیردفاع تھے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم نیتھن ٰیاہو نے جو نئی کابینہ تشکیل دی ہے اس میں انھیں کوئی قلمدان نہیں سونپا گیا۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جناب بینیٹ نے اسرائیل کے انسٹیٹیوٹ برائے حیاتیاتی تحقیق یا Institute for Biological Research(IBR) میں اس شاندار پیش قدمی کے بنفس نفیس مشاہدے کے اختتام پر اعلان کیا کہ 'کامیاب  تجربات و آزمائش کے بعد یہ ویکسین اب حصول حق ایجاد یا Patent کے مرحلے میں ہے جسکے بعد تجارتی بنیادوں پر پیداوار شروع کردی جائیگی'۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے اس چشم کشا اعلان سے عالمی  سطح پرکوئی غیر معمولی سنسنی نہیں پیدا ہوئی جس سے لگتا ہے کہ مبالغہ آمیزی کی بنا پر دنیا کے سائنسدان اسرائیلیوں کے اس دعوے کو سنجیدہ لینے پر تیار نہیں۔
ویکسین کی تلاش کیلئے سرتوڑ کوششوں اور دعووں کے علی الرغم اٹلی کے ایک  مایہ ناز تحقیقی مرکز ماریو نگری انسٹیٹیوٹ آف فارماکولوجیکل ریسرچ (Mario Negri Institute of Pharmacological Research)کے   ڈائریکٹرGiuseppe  Remuzziنے اس موذی وائرس کے جلد فنا و معدوم ہوجانے کی نوید سنادی۔ اٹلی کے شہر میلان میں  دواوں اور حیاتیاتی طبیات پرتحقیق کیلئے  یہ ادارہ 1961میں ایک  فیاض اور انسان دوست شخصیت ماریو نگری کے گراں قدر عطئے سے قائم ہوا تھا۔71سالہ ماہر امرض خون ڈاکٹرز ریمو زی 1440تحقیقاتی مقالوں کے خالق  ہیں۔پرفیسر ریموزی کا کہنا ہے کہ کرونا کی قوت روز بروز کم ہورہی ہے اور وہ پرامید ہیں کہ ویکسین کی تیاری سے پہلے ہی دنیاسے یہ بلا کافور ہو جائیگی۔اپنامشاہدہ بیان کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے کہاکہ کرونا سے متاثر ہونے والے اکثر نئے افراد میں مرض کی شدت پہلے مریضوں کے مقابلے کم ہورہی ہے  اور اٹلی میں کرونا کے نئے مریضوں کی نسبتاً کم تعداد کو انتہائی نگہداشت (ICU)تک جانے کی نوبت پیش آرہی ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ موذی اپنی اثر پزیری کھو رہا ہے اور اگر سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہ  ویکسین آنے سے پہلے ہی یہ وباقصہ پارینہ بن جائیگی۔
ایک طرف پروفیسر ریموزی اتنے پرامید تو دوسری جانب حیاتی طبیات  پر جدید تحقیق کیلئے قائم کردہ امریکی مقتدرہ (BARDA) کے ماہرِ ویکسین ڈاکٹر رک برائٹ نے گزشتہ ماہ امریکی کانگریس میں توانائی و تجارت کی ذیلی کمیٹی برائے صحت کے روبرو سماعت کے دوران خدشہ ظاہر کیا کہ اگر سنجیدگی اختیار نہ کی گئی توکرونا وبا کے امریکہ پر تباہ کن اثرات مرتب ہونگے۔ اسکا خاتمہ تو درکنار کرونا پرقابو بھی اب بہت دورکی بات ہے اور یہ کافرہ دسمبر تک امریکیوں سے زندگی کا خراج وصول کرتی رہیگی۔ ڈاکٹر برائٹ نے خدشہ ظاہر کیا کہ سردیوں میں متعدی نزلہ و زکام اور کرونا کا خونی امتزاج قیامت برپا کرسکتا ہے یعنی صحت کے حوالے سے امریکی تاریخ کا تاریک ترین موسم سرماہمارا انتظار کررہاہے۔ سماعت کے دوران انھوں نےصدر ٹرمپ کے مشوروں کو fakeسائنس قرارادیتے ہوئے کہا کہ صدر کی تجویزکردہ Hydroxychloroquineکرونا مریضوں کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کو ناکافی قراردیتے ہوئے کہا کہ حکومت شعبہ صحت اور سائنسدانوں کی گزارشات پر کان دھرنے کو تیار نہیں اور عوام کو اس ضمن میں لاعلم رکھا جارہا ہے۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے صدر ٹرمپ نے ڈاکٹر برائٹ کو بصد سامان رسوائی برطرف کردیا۔ گزشتہ ہفتے اپنے طیارے میں صحافیوں کو برطرفی کی وجہ بتاتے ہوئے امریکی صدر نے کہا 'میں ٖڈاکٹر برائٹ کو نہیں جانتا، ان سے کبھی ملا ہوں اورنہ ملاقات کی کوئی خواہش ہے۔ کانگریس میں سماعت کے دوران مجھے وہ سخت غصے میں ایک ناخوش  ملازم نظر آرہے تھےاور لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر برائٹ کی کارکردگی بھی اچھی نہیں '
CDCکے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ بھی موسم سرما کے دوران کرونا کے دوسرے حملے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ریڈ فیلڈ کےبیان پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ 'فیک میڈیا' نے CDC کے ڈائریکٹر کی گفتگو  توڑ مروڑ کر پیش کی ہے اور انھیں توقع ہے کہ ڈاکٹر ریڈ فیلڈ جلد ہی اسکی وضاحت کرد ینگے لیکن تین ہفتے گزرجانے کئ باوجود ڈاکٹر صاحب  نے تردیدی یا  وضاحتی نوٹ جاری نہیں کیا۔
لاک ڈاون کے مسئلے پر بھی ساری دنیا میں رائے عامہ تقسیم ہے۔ بندشیں ختم کرنے کیلئے سارے امریکہ میں مظاہرے ہورہے ہیں، ریاست وسکونسن کی سپریم کورٹ نے ایک حکم کے ذریعے لاک ڈاون کے غیر ائینی قراردیدیا ہے۔حال ہی میں اینسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریرچ یا IPORنے پاکستان کے بارے میں جو جائزہ شائع کیاہے اسکے مطابق ایک تہائی کے قریب شہری لاک ڈاون کو فوری ختم کردینے کا مظالبہ کررہے ہیں۔اس بندش کی کوکھ  سے بھوک و بیروزگاری کا جو خوفناک وائرس  جنم لیتا نظر آرہا ہے۔ اسکی تباہ کاریوں  کا تصور ہی اذیت ناک ہے۔لبنان، عراق، سوڈان، تیونس اور مصر میں 40فیصد افراد بیروزگار ہوچکے ہیں جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔امیر خلیجی ممالک کا حال بھی اچھا نہیں  کہ کرونا وائرس بہت تیزی سے تیل کی صنعت کو چاٹ رہا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ کرونا وائرس امیر غریب میں فرق نہیں کرتا  لیکن امریکہ کی حد تک  تو یہ بات بہت واضح ہے کہ  سیاہ فام اور ہسپانوی اسکا خاص ہدف ہیں۔کچھ ایسا ہی حال  برطانیہ میں ہے جہاں کرونا رنگدار وں کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے دوسری طرف برطانیہ کے ولی عہد ہوں یا وزیر اعظم بورس جانسن، مصر کے جنرل السیسی ہوں یا اسرائیل کے وزیرصحت سب بہت تیزی سے صحتیاب ہوگئے۔اقتصادیات کے علما کا کہنا ہے کہ کساد بازاری کا وائرس  بھی کرونا کی طرح غریبوں سے امتیازی سلوک کریگا۔امیروں کیلئے   لاک ڈاؤن Paid Vacationہے جس سے یہ طبقہ رج کے لطف اندوز ہورہا ہے۔ جب بندش ختم ہوگی یہ اپنی نوکریوں اور کاروبار پر واپس چلے جاینگے ۔ یعنی زندگی ، صحت  اور روشن مستقبل سب محفوظ، جبکہ غریب اگر گھر میں بند رہ کر کرونا وائرس سے بچ بھی گیا تو اسے ایک طویل عرصے تک قرض، بیروزگاری، محتاجی اور توہین کا عذاب سہنا ہے۔خیراتی اداروں کی اعانت ،اہل ثروت کی فیاضی، احساس پروگرام، مودی و صدر ٹرمپ کے  امدادی پیکیج محض وقتی راحت کے سامان ہیں۔ گھر کا کرایہ، بجلی پانی کے بل، قرض کی قسطیں، اسکول کی فیس اور علاج معالجہ  کیلئے روزگار ضروری ہے لیکن  روزگار کے مواقع لاک ڈاؤن کی نذر ہوتے نظر آرہے ہیں۔یعنی زندگی کی امید موہوم پر غریب بھوک و بیروزگاری کی دلدل میں دھنستاجا رہا ہے تاکہ امرا صحت کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھا سکیں۔
سماجیات کے علما کا کہنا ہے کہ جان اور مال کے ساتھ کرونا وائرس عقائد و ایمان کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔دفتر،دوکان و مدارس کے ساتھ عبادت گاہیں بھی ویران ہیں ۔کعبہ و کلیسا، مندرودیوار گریہ مقفل ہیں اور کہیں کہیں حاشیہ خیال میں عقائد بھی لرزتے محسوس ہورہے ہیں۔لیکن رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس آزمائش سے لوگوں کا خدا پر ایمان مضبوط ہوا ہے۔ حال میں رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ادارے Pew Research Centerنے کرونا وائرس کے عقائد پر اثرات کے حوالے سے ایک جائزہ شائع کیا ہے۔اس دوران صرف امریکی مسیحیوں اور یہودیوں کی رائے لی گئی ہے اسلئے یہ کہنا مشکل ہے کہ کرونا مسلمانوں کے عقائد و ایمان پر کیا اثر ڈال رہاہے۔ جائزے کے مطابق، اس آفت نے 24فیصد مسیحیوں کے خدا پر ایمان کو مزید مستحتکم کردیادو فیصد افراد کا ایمان متزلزل ہوگیاجبکہ26فیصد افراد نے کہا کہ انکو مذہب سے پہلے بھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ امریکی یہودیوں کے عقائد کرونا سے  متاثر ہوتےنظرنہیں آتےصرف سات فیصد یہودیوں کا خیال ہے کہ اس آزمائش سے انکا ایمان مزید راسخ  ہوگیا اور 69فیصد امریکی یہودیوں کے ایمان پر کرونا وائرس نے مثبت یا منفی کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ڈالا جبکہ 22فیصد یہودی مذہب کو اتنا اہم سمجھتے ہی نہیں کہ اس بات پر غور بھی کریں۔
کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کے انسانوں کا چین و سکون غارت کر رکھا ہے وہں جباران عالم کیلئے یہ وبا نعمت سے کم  نہیں ۔ انسداد وبا کے نام پرنسل  پرستوں اور اپنی ہی قوم کو غلام بنالینے والوں  نے تمام اختیارات کو اپنی ذات میں سکیڑ لیا ہے۔ جہاں مستحکم جمہوری اقدار کی بنا پر ایسا کرنا ممکن نہیں وہاں حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نسل پرست و تنگ نظر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری ہےصدر ٹرمپ  نے کرونا کے نام پر قانونی ایمیگریشن  3ماہ کیلئے معطل کردی ہے خیال ہے کہ 90 دن مکمل ہونے پر ایمیگریشن کو مرحلہ وار یورپ، اسرائیل، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا کیلئے کھول دیا جائیگا۔اب ایشیائیوں اور افریقیوں پر امریکہ کے دروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اور بن نے اپنی پارلیمان سے جملہ اختیارات حاصل کرلئے ہیں جسکے تحت وہ کرونا وائرس کے متعلق جھوٹی خبر نشر یا شائع کرنے کے الزام میں کسی بھی صحافی کو گرفتار اور اخبار و ٹی وی کو بند کرسکتے ہیں۔ انکے فیصلے کے خلاف کسی بھی عدالت کو دادرسی کا اختیار نہیں۔کچھ ایسے ہی اختیارات  مصر کے جنرل السیسی نے بھی حاصل کرلئے جسکےتحت  پولیس کسی بھی گھر میں گھس کر تمام لوگوں کو کرونا وائرس کے اچانک ٹیسٹ  پر مجبور کرسکتی ہے۔ مثبت ٹیسٹ والے افراد  وائرس پھیلانے کے الزام میں گرفتار کرلئے جائنگے
گھروں کے اندر کسی قسم کی نشست کے شبہے میں پولیس اہل خانہ کو گرفتار کرسکتی ہے۔سراغرساں اداروں کو شک ہے کہ اخوان محلوں کی روائتی اجتماعی افطار کے دوران درس قرآن کی نشستیں سجارہے ہیں۔ اس کی آڑ میں مظاہروں اورسیاسی جلسوں کے خلاف بھی اب انسداد کرونا قوانین کے تحت کاروائی ہوگی جسے کسی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکتا
اب آتے ہیں new normalکی طرف۔ یہ ڈاکٹر انتھونی فاوچی کی وضع کردہ اصطلاح ہے جو درحقیقت کرونا کے ساتھ جینے کی رسومات اور اور نئے رکھ رکھاو کا تعارف ہے۔اسکی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اظہار محبت و گرمجوشی  کیلئے مصافحہ و معانقہ کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔ اب محبوب کوپہلو بلکہ سینے سے لگانے کے بجائے6 فٹ دور رکھنا دونوں کی زندگی کیلئے ضروری ہے۔ بچوں اور پیاروں کو چھونے، سہلانے اور چومنے کی عادت بھی ترک کرنی ہوگی۔ یہ کرونا کی دنیا کا نیامعاشرتی رکھ رکھاو یا  new normal ہوگا '۔ ماہرین طب اور متعدی امراض کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ new normalصرف انفرادی معاملے تک محدود نہیں رہیگا بلکہ اب ریستوران، سنیماگھر، کھیل کے میدان ، اسکول، بس ، ریلوے اور ہوائی اڈوں پر  سماجی فاصلے کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے نشستوں، کاونٹرز اور دوسری تنصیبات میں مناسب ترمیمات کرنی ہوگی، دفاتر کو بھی تبدیلی کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ بس، ریل اور جہازپر سفر کرنے والوں کیلئے  رکھ رکھاو کے نئے ضابطےترتیب دیئے جائینگے۔یوں سمجھئے کہ جیسے نائن الیون کے بعد  فضائی سفر کے اطوار بدل جانے کیساتھ  ساری دنیا میں شہری و انفرادی آزادیاں قصہ پارینہ بن گئیں کچھ اسی نوعیت کی تبدیلی COVID-19کی زنبیل میں موجود ہے۔ آجکل ایک موہوم سے شک پرآپکو جہاز سے اتارا جاسکتاہے یا دہشت گردی کے شبہے میں سیکیورٹی اہلکار کے ہاتھوں کسی شخص کی گرفتاری بلکہ ہلاکت بھی کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں اسی طرح اب ہلکے سےبخاریاکھانسی پر آپ مشکوک سمجھے جاسکتے ہیں۔ویکسین کے بازار میں آنے کے بعد ہر مسافر کو ویکسین کا صداقت نامہ  جیب میں رکھنا ہوگا اور کرونا پھیلانے کی غیرارادی کوشش بھی قابل دست اندازی پولیس قرار پائیگی۔اس سلسلے میں قانون سازی پر سوچ و بچار بھی شروع ہوگئی ہے۔
14 مئی  کو آسٹریا کے چانسلر سباسشین کرزSebastian Kurtz کی دعوت پر سات ملکوں کا آن لائن سربراہی اجلاس ہوا جس میں آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن،نیوزی لینڈ کی وزیراعظم محترمہ جیسنڈاآڑدرن، ڈنمارک کے وزیراعظم میٹ ریڈرکسن Mette Fredrickson، یونان کے وزیراعظم کراکس مٹسوٹاکس Kyriakos Mitsotakis، چیکوسلاواکیہ کے وزیراعظم آندرے بابس Andrej Babisاور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتھن یاہو المعروف بی بی نے شرکت کی۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ان رہنماوں کی  ویڈیو لنک بیٹھک دوہفتہ پہلے بھی ہوچکی ہے۔ حالیہ اجلاس میں کرونا وائرس کے حوالے سے ان ممالک کے درمیان 'محفوظ پرواز معاہدے' پر غور کیا گیا۔ان ساتوں رہنماوں کا خیال ہے کہ ان  کے یہاں کرونا وائرس کا سد باب بہت ہی موثر انداز میں  کیاگیا ہے اور ان سب کو COVID-19کے حوالے سے محفوظ ترین ملک ہونے کا دعویٰ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے شرکا کو انسداد وبا  کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے آگاہ کیا اور 'محفوظ پروازمعاہدے' کی تفصیلات و لوازمات پرغور کیا گیا۔
بی بی نے ایک اسرائیلی کمپنی کے تیار کردہ Moovit Appکے بارے میں بتایا جسکے ذریعے 102 ملکوں کے 3100 شہروں میں 80 کروڑ مسافروں پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔گزشتہ دنوں 90 کروڑ ڈالر کے عوض یہ Applicationامریکی کمپنی Intel نے خریدلی ہے۔Intelاس سے پہلے اسی نوعیت کی ایک اور اسرائیلی کمپنی Mobileyeبھی خرید چکی ہے۔اجلاس میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے  ان  ممالک نے بین الاقوامی پروازیں دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور باہر سے آنے والوں کی تیزترین اور شفاف جانچ پڑتال کے نظام پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں سیاحت  کی صنعت کےتحفظ اور آمدورفت محفوظ بنانے کیلئے کوششیں اور جستجو تیز کرنے کیلئے مزید اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دوران مسافروں میں کرونا وائرس کی موجودگی کی نشاندہی  کیلئے اسرائیلی کی سائبر سیکیورٹی اتھارٹی سے استفادہ کیا جائیگا۔اسرائیل اور آسٹریا کے درمیان سراغرسانی خدمات کیلئے قریبی تعلقات ہیں اور اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے وبا کے دوران  طبی مدد اور احتیاطی سامان کے ساتھ آسٹریا کو  مرض کے پھیلاو پر نظر رکھنے کیلئے monitoringکی جدید سہولتیں فراہم کی تھیں۔ خیال ہے کہ سات کے اس گروپ کو وسعت دی جائیگی اور یورپ و ایشیا کے مزید  ممالک  کو شامل کرکے  ایک عالمی Travel Databaseمرتب کیا جائیگا۔اس ڈیٹا بیس میں مسافروں کے  ویکسین کا ریکارڈ، امراض  (فشارخون، ذیابطیس، دمہ وغیرہ)کی نشاندہی، عمومی صحت سے متعلق معلومات، ماضی قریب میں کئے جانیوالے سفر ونقل و حمل کی  تفصیلات درج ہونگی۔ خیال رہے کہ ڈیٹا بیس میں صرف ان ممالک کے شہری ہی نہیں بلکہ وہاں جانے والے غیر ملکیوں سے متعلق بھی تمام معلومات اکھٹی کی جاینگی۔ 
اسرائیلی وزیراعظم نے حال ہی میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی Shin Betکو موبائل فون سے صارفین کی مکمل معلومات حاصل کرنے کا اختیار دے دیاہے۔ بادی النظر میں تو یہ کرونا کے پھیلاو کے روکنے کیلئے تمام شہریوں اور سیاحوں کو بروقت خبردار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ تمام صارفین کیلئے لازمی ہوگا کہ وہ اپنے مکمل کوائف موبائل فون میں محفوظ رکھیں جس میں کروناسمیت صحت سے متعلق تمام ٹسٹ کے نتائج شامل ہیں۔ اس App کے ذریعےموبائل فون کے مقام کی نگرانی کی جائیگی اور اگر صارف کےقریب کسی بھی ایسے شخص کو پایا گیا جو کرونا سے متاثر ہے تو SMSکے ذریعے فوراً وہاں سے ہٹ جانے اورمتاثرہ شخص کو وہاں سےدور چلےجانے کی ہدائت کی جائیگی۔اگر یہ محسوس کیا گیا کہ صارف اور مشکوک شخص اتنے قریب اور اتنی  دیر ساتھ رہے ہیں جس سے  وائرس کی منتقلی کا خطرہ ہے تو صاٖرف کو قرنطینہ روانگی کی ہدائت کی جائیگی۔ حکم عدولی قابل دخل اندازی پولیس ہوگی۔
فلسطینیوں کو شکائت ہے کہ Shin Bet کرونا وائرس کی آڑ میں انکی کی نقل و حرکت کا مکمل ڈیٹا جمع کررہی۔ سات ملکی معاہدہ کے تحت ان ممالک کے درمیان شہریوں اور وہاں آنے والے غیر ملکیوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ ہوگا۔ اسdata baseکی نگرانی اسرائیلی سائبر سیکیورٹی کریگی۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا،دریافت کے بعد ہوائی سفر کیلئے ویکسین کا صداقت نامہ دکھانا لازمی قرارپائیگا اور ایسا لگ رہا ہے کہ اس تریاق پر ایک یا دو ملکوں کی  اجارہ داری ہوگی   جسکے منہ مانگے دام میں چھوٹی اقوام کو اپنی آزادی کے ساتھ امنگوں اور خوابوں کو بھی گروی رکھنا پڑیگا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 22مئی
2020

Friday, May 22, 2020

کرونا وائرس! امریکہ چین کشیدگی


کرونا وائرس!  امریکہ چین کشیدگی  
کرونا وائرس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں۔قطبِ جنوبی پر منجمد قطع ارض یا انٹارکٹیکا Antarcticaکے سوا دنیاکا کوئی حصہ اس نامراد وائرس محفوظ نہیں۔کیا امیر و کیا غریب ساری دنیا اس کے چنگل میں ہے اور انسانی حیات کے ساتھ اسباب حیات کو بھی اس موذی نے غارت کردیا ہے۔
وبا کے آغاز سے ہی اس فتنہ پرور کی 'شان نزول' اور جائے ولادت پر گفتگو ہورہی ہے۔ نظریہ سازش پر یقین رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ آفت آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے اور  چودھراہٹ و کشور کشائی کے منحوس شوق نے دنیا کو اس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ اس امکان پر بھی بحث جاری ہے کہ یہ وبا بلکہ قیامت صغریٰ حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapon)کے ناکام تجربے یا تیاری کے دوران ایک حادثے کا شاخسانہ ہے۔ تادم تحری اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت یا مشاہدہ سامنے نہیں آیا۔ تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکی محکمہ سراغرسانی نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے اسکے مطابق کرونا وائرس کی  تغیر پزیری (Mutation) فطری  نوعیت کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسکی جنم بھومی لیبارٹری نہیں۔ یہی مشاہدہ عالم ادارہ صحت کا بھی ہے۔
کرونا وائرس بطور حیاتیاتی ہتھیار کی بحث تو اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے لیکن اسکے پھیلاو کے حوالے سے امریکہ  اور چین کے درمیان بیان بازی کی ایک خوفناک جنگ چھڑ چکی ہے جسے دھمکیوں کا تڑکہ لگاکر صدر ٹرمپ نے دوآتشہ کردیا ہے۔ چین کے خلاف امریکی صدر کے آتشیں بیا نئے کو انکے مخالفین صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ قارئین کو یقیناً علم ہوگا کہ 3 نومبر کو امریکہ میں انتخابات ہونے ہیں جب صدر کے ساتھ مقننہ، کئی ریاستوں میں گورنر اور مقامی قیادت کا چناو بھی ہوگا۔ صدر ٹرمپ کیلئے صدارتی انتخاب کے ساتھ کانگریس میں واضح برتری بھی ضروری ہے تاکہ وہ قوم پرست و قدامت پسند ایجنڈے پر جارحانہ  پیشقدمی جاری رکھ سکیں۔ یہاں صدارت چونکہ دو مدتوں تک محدود ہے اسلئے ' فکر عاقبت' سے بے نیازی امریکی صدرور کو انکی دوسری مدت میں  خاصہ بیباک بنادیتی ہے۔ اور اس مرحلے پراگر مقننہ بھی موافق مل جائے تو پھر کیا ہی بات ہے۔
کرونا وائرس کے حوالے سے صدر ٹرمپ داخلی محاذ پر کسی حد تک دفاعی پوزیشن میں ہیں۔انکے مخالفین الزام لگارہے ہیں کہ چین میں مرض پھوٹ پڑنے کے بعد وہ اس مفروضے پر معاملے کو ٹالتے رہے کہ کرونا وائرس کے امریکہ تک آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 کا انکشاف انتہائی سنسنی خیز ہے۔ اپریل کی 16 تاریخ کو مذکورہ ٹیلی ویژن نے بتایا کہ امریکہ کی عسکری خفیہ ایجنسیوں کو نومبر کے دوسرے ہفتے میں ووہان (چین) سے وبا کے آغاز کا اندازہ  ہوچکا تھا۔بیماری  پھوٹ پڑنے کی خبر اسوقت تک عام نہیں ہوئی تھی لیکن چین کو اسکے بارے میں علم تھا۔امریکی ایجنسیوں نے مبینہ طور پر  اسکے بارے میں صدرٹرمپ کو بتادیا لیکن امریکی صدر نے اس خبر  کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسی کیساتھ امریکیوں نے  اپنے دومعتمد عسکری اتحادیوں یعنی نیٹو NATOاور اسرائیلی مسلح افواج (IDF)کوبھی  متوقع خطرے سے مطلع کردیا۔ اسرائیل کی عسکری قیادت نے نومبر ہی سے علاقے  (مشرق وسطیٰ) میں اس وبا کے ممکنہ پھیلاوکا جائزہ لینا شروع کردیاتھااسرائیلی فوج نے ممکنہ وبا کے بارے میں  اسرائیلی حکومت خاص طور سے وزارت صحت کوبھی مطلع بلکہ متنبہ کیا لیکن صدر ٹرمپ کی طرح اسرائیل کی سیاسی قیادت نے بھی پانی سر سے اونچا ہونے تک کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کئے ۔ کچھ اسی قسم کا رویہ یورپی حکومتوں کا بھی رہا۔مستعد و ہردم چوکنا رہنے والے ممالک کی جانب سے یہ ٖغفلت کچھ عجیب سی محسوس ہورہی ہے۔
اب ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی دباو سے نکلنے کیئے صدر ٹرمپ معاملے کا رخ چین کی طرف موڑنے کی کوشش کررہے پیں۔  شروع میں انھوں نے کہا کہ کرونا وائرس ووہان کے انسٹیٹیوٹ برائے سمیات (Virology) میں  تولد ہوا اورچینیوں کی نالائقی سے leakہوگیا۔ انھیں شکوہ ہے کہ  چین نے وائرس کے اثرات کو محدود رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور اسکے پھیلاو سے امریکہ کو جان کر لاعلم رکھا گیا۔اسکی وجہ انکے خیال میں چین کی یہ  خواہش ہے کہ  صدر ٹرمپ دوسری مدت کا انتخاب نہ جیت سکیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے چین کے خلاف صدرٹرمپ اور انکے ساتھیوں کا رویہ خاصہ جارحانہ ہوگیا ہے اور معاملہ صرف امریکی حکومت تک محدود نہیں۔ یورپی رہنما بھی کرونا وائرس کی پھیلاو کے باب میں چینی حکومت کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے شاکی ہیں۔ فرانس کے صدر ایمیونل میکران نے کہاکہ پھیلاو کے معاملے میں چین نے شفاف انداز میں اعدادوشمار جاری نہیں کئے، کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر 30 اپریل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی غور کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے صحافتی ذرایع کاکہتا ہے کہ اجلاس کے دوران  امریکہ اور چین کے مندوبین وائرس کے نقطہ آغاز پر بحث کرتے رہے۔ برطانیہ اور فرانس کے سفارت کاروں نے اس حوالے سے  سلامتی کونسل کی عدم دلچسپی بلکہ سرد مہری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اجلاس کے بعد کونسل کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران کرونا وائرس کے پھیلاو سے متعلق سلامتی کے کردار پر گفتگو کی گئی۔ چین نے کسی بھی قدم کی مخالفت کرتے ہوئے وائرس کے معاملے کو  سلامتی کونسل کےدائرہ اختیار سے باہر قراردیا جبکہ امریکہ کی جانب سے اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ کرونا وائرس سے متعلق کونسل کے اعلانات میں مقامِ ولادت کے طور پر چین کا حوالہ ضروری ہے۔
سیاسی رہنماوں کے ساتھ یورپ کے اخبارو جرائد میں بھی چین کے خلاف مضامین شایع ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں جرمن اخبار Bildنے اپنے ادارئے  میں کرونا وائرس کئ پھیلاو کا چین پر الزام لگاتے ہوئے جرمنی کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے 130ارب یورو ہرجانے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمن اخبار کا ذکر کرتے ہوئے 29 اپریل کو واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس سے کئی گنا زیادہ رقم کی بات کر رہے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ابھی امریکہ نے حتمی رقم کا تعین نہیں کیا۔ البتہ اس پر سوچ بچار جاری ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ اگر یہ ایک غلطی تھی تو چین کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہئےلیکن اگر ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے تو بیجنگ کو اس کے نتائج بھگتنا ہونگے۔ ساتھ ہی صدر ٹرمپ مبہم سی دھمکی بھی دے گئے کہ انکے پاس ذمہ داروں کا احتساب کرنے کے لیے بہت سے طریقے موجود ہیں۔
3 مئی کو  امریکی ٹیلی ویژن ABCسے باتیں کرتے ہوئے امریکہ کے وزیرخارجہ  وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ چین ایک عرصے سے دنیا میں سمی آلودگی یا infectionپھیلارہا ہے اور وہاں بہت سے غیر معیاری تجربہ خانے موجود ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ بہت سے شواہد کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وائرس ووہان کی تجربہ گاہ سے نکلا جہاں چمگادڑوں میں اس وائرس کی موجودگی پر تحقیق ہو رہی تھی۔ انھوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ان رپورٹوں سے اتفاق کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس مصنوعی نہیں بلکہ فطری ہے لیکن وہ اس امکان کو مسترد کرنے کو تیار نہیں کہ  اسکی ولادت ووہان کے انسٹیٹیوٹ برائے سمیات میں ہوئی ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ نے چین پر الزام لگایا کہ کرونا وائرس کے پھیلاوکے بارے میں دنیا کو تاخیر سے بتایاگیا۔ اگر یہ معلومات بروقت فراہم کردی جاتی تو بہت سی انسانی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ چین نے عالمی ادارہ صحت کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔جناب پومپیو نے کہا کہ امریکی یا دوسرے ممالک کے ماہرین کو ووہان لیبارٹری جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی چین نے  وائرس کا نمونہ فراہم کیا۔ چین یہ بتانے کو  بھی تیار نہیں کہ کرونا وائرس نے کہاں جنم لیاہے۔ جناب پومپیو نے کہا کہ  صدر ٹرمپ ذمہ داروں کے احتساب کیلئے پرعزم ہیں۔
دوسرے دن امریکی وزارت داخلی سلامتی (DHS)نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ جنوری میں وباکے زور پکڑ جانے کے باوجود چین سے اسکی سنگینی پر پردہ ڈالے رکھا اور بیجنگ یہ تاثر دیتارہا ہے کہ یہ ایک موسمیاتی اور معمولی و محدود علاقائی وائرس ہے۔اسی کے ساتھ چین نے ماسک، حفاطتی لباس،  وینٹی لیٹر اوروبا سے نبٹنے کیلئے ضروری سامان کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ نہ صرف چینی کارخانوں کو ان سامان کی برآمد سے منع کردیا گیا گیا بلکہ امریکہ،  یورپ اور جنوبی کوریا سمیت کئی ممالک سے یہ سامان بڑی تعداد میں درآمد کیا گیا۔
تندو تیز بیانات کے علی الرغم  چین امریکہ تجارت اب بھی  صدر ٹرمپ کی ترجٰیحات میں شامل ہے۔جنوری میں دونوں ممالک کے درمیان زراعت سے متعلق اس معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت چین نے امریکہ سے کئی ارب ڈالر کی غذائی اجناس، دودھ اور جانوروں کے گوشت خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔اس جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکی صدر  نے کہا کہ حالیہ تناعے سے پہلے چین اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہو چکے تھے پھر اچانک یہ سب کیوں ہوگیا؟ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر 'غلطی سے وبا کے پھیلنے'  اور 'جان بوجھ کر  پھیلانے' کے امکانات کو الگ الگ رکھ کر واپسی کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔  انھوں نے بہت صراحت سے کہا کہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے امریکہ کی جانب سےالزام تراشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کومشورہ دیا کہ وہ وائرس پر قابو پا نے میں ناکامی کا ملبہ چین پر گرانے کے بجائے ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ بیجنگ اس آفت سے نمٹنے کیلئے مدد فراہم کرنے کو تیار ہے اور اس مرحلے پر منفی بیانات کسی کے مفاد میں نہیں۔ ہلاکتوں کے اعدادوشمار کے بارے میں چینی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اعتراف کیاکہ ابتدائی اعداد و شمار میں بعض نقائص تھے۔اسکی وضاحت کرتے ہوئ ترجمان نے کہا کہ آفت کے آغاز پر اسپتالوں میں محدود جگہ اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے رابطوں کا فقدان تھا۔ اس  بناپر  ہلاکتوں کی تعداد صحیح طور پر مرتب نہیں کی جاسکی ۔مکمل معلومات حاصل ہونے کے بعد نظر ثانی شدہ اعداد و شمار جاری کردئے گئے ہیں۔بیجنگ نے  ہلاکتوں کی تعداد چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی  اور نہ چینی حکومت کو اسکی ضرورت تھی۔
6 مئی کو امریکی وزیرخارجہ کے الزامات کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہواچون ینگ (Hua Chunying)نے اس معاملے پر داخلی سیاسی مفادات کے لئے جھوٹ بولنے والے سیاستدانوں کے بجائےطبی ماہرین اور سائنسدانوں سے رائے لینے کی ضرورت پر زوردیا۔ ترجمان نے کہا کہ جناب پومپیو اس معاملے پر باربار اور بلا تکان بول رہے ہیں لیکن اب تک انھوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جس سے صاٖف ظاہر ہے کہ انکے پاس کوئی ٹھوش شواہد موجود ہی نہیں۔
امریکہ کی کئی عدالتوں میں متاثرین نے چین کے خلاف نجی استغاثے دائر کردئے ہیں۔ ان درخواستوں میں کہا گیا ہےکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق  یہ وائرس ووہان کے مچھلی بازار سے پھیلا ہےجہاں گوشت، مچھلیاں اور سبزی کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ اس بازار میں حفظان صحت کے ضابطوں کا نفاذ چینی حکومت کی ذمہ داری تھی جس میں بیجنگ ناکام رہا۔ اس غلطی سے کرونا وائرس پھیلا جس نے سائلین کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اگر چین نے خوراک کے حوالے سے مناسب قوانین نافذ کئے ہوتے تو وائرس نہ پھیلتا۔چنانچہ چینی حکومت کا اس نقصان کے ازالے کا حکم دیا جائے۔ خیال ہے کہ ان درخواستوں میں ہرجانے کے جو دعوے کئے جارہے ہیں انکا مجموعی حجم 2000 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی عدالت کا فیصلہ چین کیلئے قابل قبول نہ ہوگا اور اسکے لئے عالمی ادارہ صحت سے رجوع کر نے ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر  مائیکل ریان کہہ چکے ہیں کہ امریکی حکومت نے ایسے کوئی شواہد نہیں فراہم کئے جس سے اس دعوے کو تقویت مل سکے کہ کرونا وائرس چین کی لیبارٹری سے پھوٹا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس جانوروں سے انسان میں منتقل ہوا اور یہ ممکنہ طور پر چین کی اس مارکیٹ سے پھیلا ہے جہاں جنگلی جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا تھا۔ صحت کی ماہر صحت ماریا وین کرکوف نے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا وائرس کے 15 ہزار ڈی این اے کا مطالعہ کرنے کے بعد انکی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ ایک قدرتی وائرس ہے۔ماریا وین اور مائیکل ریان دونوں کا خیال ہے کہ کرونا وائرس چمگادڑ  میں پایا گیا ہے، یعنی یہ مصنوعی نہیں۔
ساتھ ہی  عالمی ادارہ صحت کے  ماہرین وبا کے مقابلےکے لیے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان  تعاون پر زور دے رہے ہیں۔ WHOکا کہنا ہے کہ اس عالمی آفت سے نمٹنے کیلئے ساری دنیا میں مربوط کوششوں کی ضرورت ہے اور اس موقع پر انگشت نمائی اور الزام تراشی سے وبا کے خلاف کوششوں پر منفی اثر پڑیگا۔ لیکن امریکی حکومت یہ مشورہ ماننے کو تیار نہیں اور صدر ٹرمپ یہ کہہ کر عالمی ادارہ صحت  کی امداد معطل کرچکے ہیں کہ ادارہ  چین کا طرف دار ہے۔ دنیا کی دو بڑی قوتوں کے درمیان کشیدگی عالمی امن کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں لیکن مشترکہ تجارتی مفادات کے تناظر میں معاملہ بیانات اور حد سے حد مقدمہ بازی تک ہی محدود رہتا نظر آرہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت دہلی 17 مئی
2020