Wednesday, December 23, 2020

پاکستان کا گیس بحران

پاکستان کا گیس بحران

پاکستان کے بہت سے علاقوں میں آجکل گیس کی قلت محسوس کی جارہی ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد میں تو یہ مسئلہ اتنا شدید نہیں لیکن خیبر پختونخواہ اور کراچی کے بعض علاقوں میں گیس کا دباو بہت کم ہے۔

پنجاب کی بہتر صورتحال کی وجہ جنوب سے شمال کی جانب بچھائی جانیوالی پائی لائن ہے جس سے تقریباً 60 کروڑ مکعب فٹ اضافی (600mmcf.d)گیس یومیہ فراہم کی جارہی ہے۔ 100 ارب لاگت سے یہ منصوبہ 2018میں اس وقت مکمل ہوا جب شاہد خاقان عباسی وفاقی وزیر اور اور موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان  جام کمال وزیر مملکت برائے پیٹرولیم تھے۔

پاکستان میں گیس کے بحران کی وجہ بڑی سادہ ہے یعنی یہاں طلب،  رسد سے زیادہ ہے۔ 2019 تک پاکستان میں گیس کی مقامی پیدوار 4 ارب مکعب فٹ یومیہ (4bcf/d)تھی۔ عام دنوں میں ضرور ت 5 ارب کی ہے جبکہ سخت سردی کے  موسم میں طلب ساڑھے چھ ارب مکعب فٹ (6.5bcf/d)ہوجاتی ہے۔ طلب اور رسد کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے سابق حکومت نے قطر سے Liquefied Natural Gasیا LNG درآمد کرنے کا معاہدہ کیا۔ LNG کیا ہے اس پر چند سطور سے صورتحال سمجھنے میں آسانی ہوگی۔  

ایل این جی کشید کرنے کیلئے قدرتی گیس سے پانی، ہائیڈروکاربن کے بو جھل و کثیف ذرات(heavy Hydrocarbons)، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکال لیا جاتا ہے اور پھر دباو  ڈال کو اسے رقیق حالت میں تبدیل کردیا جاتاہے۔اس عمل کا بنیادی مقصد نقل و حمل میں آسانی پیدا کرنا ہے کہ جہاں پائپ لائن بچھانا ممکن نہ ہو تو ایل این جی کو ٹینکروں اور بحری جہازوں کے ذریعے پیداواری مقام سے دوردراز علاقوں یا بیرونی ممالک  کو بھیجا جاسکے۔ LNG بنانے کے عمل میں قدرتی گیس کا حجم 600 واں حصہ رہ جاتا ہے۔مقام مقصود پر پہنچنے کے بعد اسے دوبارہ  گیس کی شکل دیدی جاتی ہے تاکہ اس سیلینڈروں یا پائپ لائن کے ذریعے آگے تقسیم کیا جاسکے۔ اس عمل سے حاصل ہونے والی گیس کو Re-Gasified Liquefied Natural Gas (RLNG) کہا جاتا ہے۔

ایل این جی کو RLNG میں تبدیل کرنے کیلئے دو ٹرمینل بھی حاصل کئے گئے جنکی مجموعی گنجائش 1.2مکعب ارب فٹ روزانہ (1.2 bcf/d)ہے ، یعنی اب رسد کا حجم 5.2 مکعب ارب فٹ ہوگیا۔ یہ مقدار سخت سردی کیلئے ناکافی تھی چنانچہ دو مزید ٹرمینل کیلئے بات شروع کی گئی لیکن انتخابات کے ہنگامے میں معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ LNGخریدناتو کوئی مسئلہ نہیں کہ قطر،آسٹریلیا، نائیجیریا اوردوسرے بہت سے ملک LNGبہت پر کشش قیمتوں پر بیچنے کو تیار ہیں لیکن اگر ٹرمینل پر اسے پائپ لائن میں بہنے کیلئے آر ایل این جی بنانے کی گنجائش نہ ہو تو سب بیکار ہے۔

نئی حکومت آنے پرعلی زیدی سمیت کئی وزرا نے ایکسون موبل اور دوسری کمپنیوں سے سستے داموں LNGخریدنے کی بات تو کی  لیکن ٹرمینل کی طرف کسی کی توجہ نہ تھی۔ عمران خان نے  پہلے جناب غلام سرور خان کو وزیر پیٹرولیم بنایا پھر یہ ذمہ داری وزارت توانائی کو سونپ دی گئی اور اب جناب عمرایوب وزیر پیٹرولیم ہیں۔ اسی دوران ندیم بابر صاحب وزیراعظم کے مشیر خصوصی برائے پیٹرولیم مقرر ہوئے جو عملا super ministerہیں۔ ندیم بابر صاحب کے اپنے مسائل ہیں۔ انکی کمپنی اورینٹ پاور سوئی ناردرن کی 80 کروڑ کی نادہندہ ہے چنانچہ انکا سارا وقت اپنے قرضے معاف کرنے کی تگ و دو میں صرف ہورہاہے

بدقسمتی سے اس سال کے آغاز سے ملک کی پیدوار بھی کم ہونا شروع ہوگئی اور مقامی پیدوار کا حجم سکڑ کر 3.6مکعب ارب فٹ (3.6bcf/d)یومیہ رہ گیا جس میں اگر درآمدی ایل این جی کے 1.2ارب مکعب فٹ جوڑ دئے جائیں تو مجموعی حجم 4.8ارب مکعب فٹ بنتا ہے جبکہ ضرورت 6.5 ارب مکعب فٹ  کی ہے۔  

اب کہا جارہا ہے کہ دو نئے LNGٹرمینل کے معاہدے ہوچکے ہیں اور اگلے برس جولائی تک نئے ٹرمینل لگ جانے کے بعد LNGکو RLNGبنانے کی گنجائش 2.4ارب مکعب فٹ ہوجائیگی۔نئے ٹرمینل کی تنصیب خوش آئند ہے لیکن اگر گیس کی مقامی پیداوار میں اضافے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو اگلے سال کے اختتام تک درآمدی گیس کا تناسب پچاس فیصد ہوجائیگا جو اسوقت 25 فیصد ہے۔اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر جو اثر پڑیگا اسکا تخمینہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ کرونا کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشت کا برا حال ہے اسلئے LNGاور خام تیل کی قیمتیں کم ہیں لیکن 2021 کے اختتام سے قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے

تیل و گیس کی تلاش و ترقی میں مندی کی بڑی وجہ گردشی قرضے ہیں جسکی وجہ سے گیس فروخت کرنے والے اداروں کو وقت پر ادائیگی نہیں ہورہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود زیادہ تر رگیں (rigs) زنگ کھارہی ہیں۔ نیب کے رشوت خور افسروں نے سرکاری تیل کمپنیوں کے افسران اور ماہرین کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ جب مہندسین اور ماہرینِ ارضیات نیب کو جوابدہی اور پیشیاں بھگت رہے ہوں تو تلاش کا کام کب ہوگا۔


 

Saturday, December 19, 2020

کنویں کی کان یا محنت کشوں کا قبرستان

کنویں کی کان یا محنت کشوں کا قبرستان

کوئٹہ کے قریب  ہرنائی میں کوئلے کی ایک کان کے بیٹھ جانے سے 2 کانکن جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے۔ بلوچستان میں کوئلے کی کانیں محنت کشوں کیلئے موت کی گھاٹیاں بنی ہوئی ہیں۔

دوسال قبل عدالت عظمیٰ نے  جناب اسامہ خاور صاحب کی دائر کردہ درخواست پر کوئلے کی کانوں میں حادثات کا نوٹس  لیا تھا۔ ابتدائی سماعت  فاضل عدالت کی لاہوررجسٹری میں  ایک دورکنی بنچ نے کی تھی جسکے سربرا ہ چیف جسٹس تھے۔ عدالت نے ملک کے اٹارنی جنرل اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل کو عدالت طلبی کے نوٹس بھی جاری کئے تھے۔

 سماعت کے دورا ن درخواست گزار کے وکیل میاں ظفر اقبال ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ 2010 سے 2018 کے  دوران حادثات کے نتیجے میں 318 کان کن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کمیشن قائم کیا جائے اور آزاد تکنیکی ماہرین کو بھی اس کمیشن کا حصہ بنایا جائے۔ ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ حفاظتی اقدامات نہ ہونے  کی وجہ سے ہزاروں کانکنوں کی جان خطرے میں ہے لیکن انھیں قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قوانین میں ضروری ترامیم کا حکم صادر کیا جائے۔ فاضل وکیل نے شکوہ کیاکہ معلومات تک رسائی نہ ہونے کی بنا پر ان حادثات اور جاں بحق کان کنوں کے  بارے میں حقیقی معلومات اور اعداد و شمار بھی دستیاب نہیں ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ عدالتی کاروائی کہاں تک پہنچی لیکن آج ایک اور المناک حادثے کی خبر سن کرزخم پھر تازہ ہوگئے۔ دکھ صرف قیمتی جانوں کے زیاں کا نہیں بلکہ اصل ماتم کارواں کے دل سے احساسِ زیاں کے چلے جانے کا ہے۔

تیل و گیس کے کنووں اور کوئلے کی کانوں میں حادثات کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں چنانچہ ان مقامات پر کارکنوں کی تربیت سمیت حفاظت کے خصوصی اقدامات  ضروری ہیں۔ کوئلے کی کانوں کو دو بڑے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔

1.       کوئلے سے میتھین Methaneگیس کے علاوہ ہائیڈروجن سلفائیڈ اور دوسری خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ میتھین گیس وہی ہے جو سوئی گیس کی شکل میں آپکے چولہے جلاتی ہےا ور گھروں کو گرم رکھتی ہے۔ لیکن اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ سریع الاشتعال گیس چشم زدن میں انسانی جانوں سمیت سارا مال و متاع پھونک بھی سکتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں اگر اخراج کا مناسب انتظام نہ ہو تو بڑی مقدار میں جمع ہوجانے والی گیس خوفناک  دھماکے  اور کان کے انہدام کا سبب بن سکتی ہے۔

2.       کوئلے کی تہوں کے ساتھ کئی جکہوں پر پانی بھی موجزن ہوتا ہے اور اگر کھدائی کے دوران پانی کی تہہ پر ضرب لگ جائے تو کانیں پانی سے بھرجاتی ہیں۔ اسکے علاوہ کوئلے کی تہوں سے پانی کا غیر معمولی رساو بھی کانوں میں محدود سیلاب لاسکتا ہے۔

اللہ نے بلوچستان کو قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور اسکے  کوئٹہ، لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی اضلاع  میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں جبکہ  پیداوار کا تخمینہ  90 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔  ان ذخائر سے کوئلہ نکالنے کیلئے  ڈھائی ہزار سے زائد کانیں کھودی گئی ہیں جہاں ہر روز 20 ہزار محنت کش گہرائیوں میں اتر کر معدنیات سمیٹتے ہیں۔ یہ خطرناک کام ان غریبوں کیلئے حصول رزق حلال کا ذریعہ ہے۔ لیکن جیالے ہنرمندوں کے خون پسینے سے کروڑ پتی بننے والے سیٹھوں کیلئے ان غریبوں کی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔ نہ تو کانوں پر میتھین، H2Sاور دوسری خطرناک گیس ناپنے کے آلات رکھے گئے ہیں اور نہ ہی تربیت سمیت حفاظتی اقدامات کا کوئی اہتمام ہے۔ بدقسمتی سے وفاقی و صوبائی وزارت معدنیات، Mining Managementاور پیشہ وارانہ صحت و حفاظت Occupational Health and Safetyکےادارے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔کوئلے کی کانوں پر 'چھوٹے موٹے'جان لیوا حادثات عام طور سے منظر عام پر بھی نہیں آتے۔

پاکستان میں کانکنی اور معدنیات کے ماہرین کی کوئی کمی  نہیں۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان (GSP) میں ماپرین ارضیات و ڈرلنگ انجینرز کے ساتھ صحت، حٖفاظت و احتیاط کے ماہرین بھی ہیں۔ وزارت پیٹرولیم میں معدنیات کا ایک مکمل ڈائریکٹوریٹ  ہے جہاں انتہائی قابل افسران موجود ہیں جو پالیسی سازی اور قوانین وضع کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ OGDCایسے ماہرین سے بھری پڑی ہے جو اس قسم کی خدمات فراہم کرنے کی قابلیت و تجربہ رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر بلوچستان کی صوبائی وزارت معدنیات کی دستاویزات کو کھنگالاجائے تو ان بوسیدہ اوراق میں بھی حفاظتی اقدامات سے متعلق ہدایات اور ضابطوں کی تفصیل موجود ہوگی۔ ضرورت ان قوانین کے نفاذ اور موثر نظامَ احتساب کی ہے جہاں فرض سے کوتاہی برتنے والے افراد کا بروقت مواخذہ کرکے قرارواقعی سزا کو یقنی بنایا جائے۔ یہ کام آخر کب شروع ہوگا؟؟؟


 

Thursday, December 17, 2020

مراکش، اسرائیل اور امریکہ ۔۔ قبضہ مافیا؟؟؟

 

مراکش، اسرائیل اور امریکہ ۔۔  قبضہ مافیا؟؟؟

متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے بعد مراکش بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامند ہوگیا۔ بحر روم اور بحر اوقیانوس کے سنگم پر واقع اس ملک کو   جغرافیہ داں افریقہ کا غرب الاقصیٰ قرار دیتے ہیں کہ یہ  براعظم افریقہ کا شمال مغربی کنارہ ہے۔ پونے چار کروڑ نفوس پر مشتمل مراکش کا سرکاری نام مملکت المغربیہ ہے اور اس پورے علاقے کو مغرب کہا جاتا ہے جس میں الجزائر، تیونس، لیبیا، موریطانیہ اور مراکش واقع  ہیں۔ اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے مراکش کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ہسپانیہ پر فوج کشی کیلئے طارق بن زیاد کا لشکرمراکش کے شہر طنجہ(Tangier) سے کشتیوں میں سوار ہوکر  بحر روم  و بحر اوقیانوس کو ملانے والی آبنائے کو عبور کرکے اس چٹان پر اتراتھاجو بعد میں جبل الطارق کے نام سے مشہور ہوئی۔ افریقہ اور یورپ کو ملانے والا یہ تنگ سا آبی راستہ بھی آبناے جبل الطارق یا Strait of Gibraltar کہلاتاہے۔ آبنائے جبل الطارق علاقے کی آبی شہہ رگ ہے کہ بحر اسود و بحر روم کا سارا بحری ٹریفک اسی آبنائے سے گزر کر بحر اقیانوس میں داخل ہوتا ہے۔ بحر روم سے نکلنے کا دوسراراستہ نہر سوئز ہے جو بحر احمر میں کھلتی ہے۔

1956میں اپنی آزادی کے بعد سے مراکش میں ملوکیت کا نظام قائم ہے۔ 2010کے اختتام پر تیونس سے شروع ہونے والی پرامن تحریک ساری عرب دنیا بالخصوص شمالی افریقہ میں بیداری کا نقطہِ آغاز ثابت ہوئی۔ مراکشی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے اور العدل والاحسان کے عنوان سے سماجی انصاف، جمہوریت اور کرپشن کے خاتمے کیلئے مظاہرے شروع ہوئے۔ اپنے تیونسی، مصری، شامی اور یمنی ہم منصبوں کے برعکس مراکش کے فرمانروا محمد السادس (ششم) نے ان مظاہروں کو کچلنے کے بجائےعوامی خواہشات کے مطابق دستور میں ترامیم کاایک مسودہ پالیمان میں پیش کردیا جسکے مطابق حکمرانی کے تمام اختیارات منتخب وزیر اعظم کو تفویض کردئے گئے۔ نئے دستور کی رو سے پالیمنٹ کی تحلیل ، بین الا قوامی معاھدات، سزاوں کی معافی، قومی میزانئے کی ترتیب، اسٹیٹ بینک اور سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہان کا تقرر اور انتخابات کے انعقاد سمیت تمام اختیارات وزیراعظم کو منتقل کردئے گئے۔ پارلیمان سے منظور ی کے بعد جولائی میں ایک قومی ریفرنڈم کے ذریعے اس آئینی مسودے کی توثیق کرالی گئی اور نئے  آئین کے مطابق دو بار انتخابات بھی منعقد ہوچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شاہ صاحب نے مغربی صحارا میں کشیدگی کے پیش نظر سفارت و بین الاقوامی تعلقات کے اختیارات وزیراعظم سے واپس لے لئے۔

یادش بخیر جب نئے آئین کے تحت 2011 میں عام انتخابات کا اعلان ہوا، اسوقت بائیں بازو کی کچھ جماعتوں نے لنگڑی لولی جمہوریت پر تحٖفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات کے بجائے بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے کی تجویز دی تھی۔ مزدور رہنما نجیب شوقی نے اسی وقت کہا تھا کہ بادشاہت اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بادشاہ سلامت کی 'دست نگر'پارلیمان اور حکومت، ربڑ کی مہر سے زیادہ کچھ نہیں۔ شوقی صاحب کی بات اب درست ثابت ہوئی جب شاہ صاحب نے پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اخوانی فکر سے وابستہ وزیراعظم سعید الدین عثمانی اس فیصلے سے خوش نہیں لیکن قہر درویش بر جان درویش۔

مراکش کی تاریخ، جغرافیہ اور سیاست کے مختصر تعارف کے بعد اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔

اسرائیلی سالمیت کے تحفظ کو صدر ٹرمپ نے اپنی مذہبی فریضہ قراردیا تھا اور وہ اپنی حلف برداری کے پہلے دن سے اس مشن پر انتہائی اخلاص سے کام کررہے ہیں۔ انھوں نے بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرتے ہوئے امریکہ کا سفارتخانہ یروشلم منتقل کردیا اور پھر گولان کے اسرائیل سے الحاق کی توثیق کرکے یہ اعلان کردیا اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ عرب علاقوں کو وہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کریں۔ اسی ایجنڈے کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے صرف چار ماہ بعد مئی 2017 میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس تفصیلی دورے کو سربراہی کانفرنس یا Riyadh Summitکا نام دیا گیا۔ یہ دراصل چوٹی کے تین اجلاس تھے۔ یعنی صدر ٹرمپ اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان گفتگو، امریکی صدر اور خلیجی ممالک کے سربراہان کے مابین ملاقات کے علاوہ امریکی صدر نے اسلامی ممالک کی قیادت سے بات چیت کی جس میں پاکستان سمیت 54 مسلم ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ایران اور شام کو دعوت نہیں دی گئی جبکہ ترکی نے اس بنیاد پر کانفرنس کا بائیکاٹ کیا کہ فلسطین کو ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے مدعو نہیں کیا گیاتھا۔ اس دوران سعودی فرمانروا نےامر بالمعروف کا زبردست مظاہرہ کیا۔ مہمانوں کو رات کے کھانے کے بعد جب قہوہ پیش کیا گیا تو امریکی صدر نے فنجان بائیں ہاتھ میں لیا۔ یہ دیکھ کر سعودی بادشاہ نے اپنے مہمان سے کہا کہ ہمیں دائیں ہاتھ سے کھانے اور پینے کی ہدائت کی گئی ہے لہذا آپ سے گزارش ہےکہ فنجان دائیں ہاتھ میں رکھیں۔ صدر ٹرمپ نے شکرئے کے ساتھ قہوے کی پیالی دائیں میں کر لی۔اس ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے مسلم رہنماوں پر زور دیا کہ وہ  اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ صدر ٹرمپ کا کہناتھا کہ مشرق وسطیٰ میں بدامنی سے ساری دنیا متاثر ہورہی ہے اور یہ ضروری ہےکے عرب اور اسرائیلی ماضی کو بھول کر دوستی کا نیا باب شروع کریں۔ اس موقع پر شاہ سلمان نے بہت صراحت کے ساتھ او آئی سی کا نقطہ نظر دہرایا کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزادو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے مسلم دنیا اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگی۔اس دوران یہ حقیقت بھی امریکی صدر کے گوش گزار کردی گئی کہ مصر اسرائیل معاہدے اور اسکے اوسلو مذکرات میں بھی اسرائیل نے آزادوخودمختار فلسطین کو تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اس سال کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کیا جسے deal of the centuryکا نام دیاگیا۔ اس پیشکش کو سادہ سے الفاظ میں اسطرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ریاست و مملکت کا سودا سر سے نکال کر فلسطینی اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہریت قبول کرلیں تو انکے لئے مصرکی سرحد پر ایک جدید ترین صنعتی  شہر اور فارم ہاوس کی شکل میں عظیم الشان زراعتی مرکز تعمیرکیا جائیگا۔ امریکہ کے داماد اول اور مشرق وسطیٰ کے امور پر صدر ٹرمپ کے مشیر جیررڈ کشنرنے معاہدے کےاقتصادی پہلو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ امن کے قیام  سے فلسطینیوں کیلئے خوشی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس نئے منصوبے پر 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ فلسطینی ریاست کے جو خدوخال پیش کئے گئے اسکے مطابق فلسطین اسرائیل سے گھری چند بستیوں پر مشتمل ایک کالونی ہوگا جسے فوج رکھنے کی اجازت نہیں اوراسکی سرحدوں پر اسرائیلی فوج تعینات رہیگی، یعنی جھنڈے اور پاسپورٹ کے علاوہ استقلال و اختیار کی کوئی علامت فلسطینی ریاست کے پاس نہ ہوگی۔ حسب توقع مقتدرہ فلسطین اور حماس نے یہ dealترنت مسترد کردی۔فلسطینیوں کے صاف انکار پر امریکہ بہادر نےعرب اسرائیل تنازعے سے فلسطین کے معاملے کو نکال کر لاٹھی اور گاجر کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یعنی حکم عدولی کی صورت میں کڑی سزا اور تابعداری پر شاندار پیشکش۔

خلیجی ممالک کو ایران کا خوف دلایا گیا کہ اگر امریکہ ان ملکوں کی حمائت سے ہاتھ اٹھالے تو ایران چند ہی گھنٹوں میں ان شیوخ و ملوک کا تختہ الٹ سکتا ہے۔ جناب کشنر نے اپنے جگری دوستوں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور انکے اماراتی ہم منصب محمد بن زید کو سمجھایا کہ امریکہ بہت دور ہے اور پھر کانگریس اور سینیٹ کی موشگافیاں عین وقت پر مشکلات بھی پیدا کرسکتی ہیں اسکے مقابلے میں اسرائیل پڑوسی ہے اور ایران کے بارے میں اسے بھی خطرات لاحق ہیں چنانچہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات خلیجی ممالک کے مفاد میں ہے۔

ستمبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلئے۔ اس نئی تحریک کو صدر ٹرمپ نے معاہدہ ابراہیم کا نام دیا یعنی حضرت ابراہیم سے منسوب تینوں ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مصالحت۔ اسی دوران یورپ کے ایک مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے بھی اسرائیل کا تسلیم کرلیا۔ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک اعلان کیا کہ وہ کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے۔ سعودی عرب کی جانب سے آنے والے تمام اشارے مثبت ہیں لیکن اب تک ریاض نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔

خلیجی ممالک کیساتھ شمالی افریقہ کے ممالک کو بھی ترغیب دی گئی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ سوڈان دہشت گردوں کی اعانت   کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے سخت معاشی پابندیوں کا شکار تھا۔ خرطوم کو پیشکش کی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائیگا۔ لیکن یہ سب کچھ مفت نہیں بلکہ معافی کے عوض دہشت گرد واقعات کے متاثرین کی امداد کیلئے سوڈان سے 40 کروڑ ڈالر تاوان بھی وصول کیا گیا ہے۔

مراکش کے معاملے میں شہشاہانِ بر صغیر کے سے کروفر کا مظاہرہ کیاگیا کہ جیسے اچھے وقتوں میں ظل الٰہی خوش ہوکر لوگوں کو رقبے اور مربعے بخش دیاکرتے تھے ایسے ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے عوض مراکش کو مغربی صحارا عطا کردیا گیا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے تنازعہ مغربی صحارا پر چند سطور۔

مراکش کے جنوب مغرب میں الجزائر کی سرحد سے بحراوقیانوس کے کنارے 2لاکھ 66ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل اس صحرا کے بڑے حصے پر مراکش کی عملداری جبکہ 20 فیصد علاقہ جمہویہ صحراویہ کے نام سے خودمختار ریاست ہے۔ اس لق و دق صحرا کے بڑا حصے میں زندگی کے آثار نہیں اور یہاں آباد 5 لاکھ افراد کی اکثریت ساحلی علاقوں میں رہائش پزیر ہے۔ سوا لاکھ کےقریب افراد بحر اوقیانوس کے کنارے دارالحکومت العیون (Laayoune)میں رہتے ہیں۔یہاں رہنے والوں کی اکثریت بربرنسل کے عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بر بر تھے۔ مغربی صحارا میں فاسفیٹ کے بڑے ذخائر ہیں اور  بحراوقیانوس میں تیل و گیس کے امکانات خاصے روشن ہیں۔

مغربی صحراپر سن1700 میں ہسپانیہ نے قبضہ کرکے اسکی بندرگاہ غلاموں کی تجارت کیلئے وقف کردی ۔ مسلح یورپی قزاق العیون کی بندرگاہ پر اترتے اور انسانوں کو گھیر کر جانوروں کی طرح جہاز پر سوار کرکے یورپ روانہ کردیا جاتا جہاں ہالینڈ میں روٹر ڈیم Rotterdamکی بندرگاہ پر غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئی تھیں۔

 1975 میں ہسپانیہ کے جنرل فرانکو نے صحارا کو موریطانیہ اور مراکش کے حوالے کردیا۔ شمالی علاقہ جو رقبے کے اعتبار سے 2 تہائی سے زیادہ ہے مراکش کو دیدیا گیا۔ یہ علاقہ مراکش کا جنوبی صوبہ کہلاتا ہے۔ جنوب کا حصہ جسے جنرل فرانکو نے موریطانیہ کے حوالے کیا مغربی تیرس یا تیرس الغربیہ کے نام سے پہچاناجاتا ہے۔

علاقے کے عوام نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا،  وہ ایک آزاد صحراوی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔اس مقصد کیلئے پاپولر محاذ برائے آزادی کے نام سے مزاحمتی تحریک سالوں سے سرگرم تھی۔ قارئین نے پولیساریو (POLISARIO) فرنٹ کا نام سنا ہوگا جو محاذ کا ہسپانوی محفف ہے۔ الجزائر پولیساریو کو مالی اور عسکری مدد فراہم کررہا ہے، اسی بناپر رباط اورالجزائر کے تعلقات کشیدہ ہیں۔پولیساریو اور مراکشی فوج کے درمیان مسلح تصادم کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے 1991 میں اس شرط پر جنگ بندی ہوئی کہ صحارا کی قسمت کا فیصلہ اگلے سال آزادانہ استصواب رائے سے ہوگا۔ریفرنڈم میں صحراوی عوام سے دریافت کیا جائیگا کہ 'وہ مراکش کا حصہ یا پولیساریو کے موقف کی حمائت کرتے ہوئے آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں؟' ریفرنڈم کیلئے جب ووٹر فہرست کی تیاری کا کام شروع ہوا تو رائے دہندگان کی شناخت کا مسئلہ سامنے آیا۔ صحارا کی قبائلی نوعیت کی بنا پر شہریوں کے پاس کوئی مستند شناختی دستاویز نہیں چنانچہ انھیں شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن مراکش کے اعتراضات کی بنا پر ووٹر رجسٹریشن کے طریقہ کار پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور ریفرنڈم ملتوی ہوگیا۔اس دوران پولیساریونے اقوام متحدہ کے نام ایک چٹھی میں شکائت کی کہ مراکش علاقے کی نسلی ہئیت تبدیل کرنے کیلئے بڑی تعداد میں مراکشیوں کو ساحلی علاقوں میں آباد کررہاہے

خونریز تصادم کے بعد بات چیت دوبارہ شروع ہوئی اوراس بار امریکی شہر ہیوسٹن کی جامعہ رائس (Rice University) میں مذاکرات ہوئے۔ 1997میں ہونے والے ان مذاکرات کے سہولت کار اقوام متحدہ کے نمائندے جیمز بیکر  تھے چنانچہ اسے اعلانِ ہیوسٹن کے علاوہ بیکر معاہدہ بھی کہتے ہیں۔ ہیوسٹن سے پہلے جناب بیکر کی سربراہی میں پولیساریو اور مراکش کے درمیان پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں ووٹروں کی شناخت کے معاملے پر اصولی اتفاق  ہوچکا تھا۔

معاہدے کے باوجود عملی طور پر کام شروع نہ ہوسکا اور 2004 میں مراکش  اعلانِ ہیوسٹن سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہوگیا۔بیکر منصوبہ مسترد کرکے مراکش نے ریفرنڈم کے بجائے اپنے زیرانتظام علاقے میں شاہی مجلس شوریٰ برائے امور صحارا قائم کردی جسکے عربی املا کا مخخف CORCASہے۔ رباط کا اصرار ہے کہ اس نے CORCAS کی شکل میں صحراوی عوام کو مکمل خودمختاری عطا کردی ہے لہذا ریفرنڈم کی کوئی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاہی مجلس شوریٰ کے ارکان کو بادشاہ سلامت خود نامزد کرتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے مغربی صحارا پر مراکش کے قبضے کو تسلیم کرلیاہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں امریکی صدر  نے کہا کہ ’مراکش نے امریکا کو اپنی آزادی کے ساتھ ہی  تسلیم کرلیا تھا اور ہم اب مغربی صحارا میں اس کی خودمختاری کو تسلیم کر رہے ہیں۔‘ امریکی وزارت خارجہ نے امریکی صدر کے فیصلے کو  صحارا امن کیلئے بڑی پیشرفت قراردیا ہے لیکن یہ اعلان صحراوی عوام کیلئے مایوس کن ہے جو کئی دہائیوں سے اس علاقے کی آزادی کے خواہشمند ہیں۔

جیسے 'معافی 'کے عوض امریکہ نے تاوان کی مد میں خرطوم سے 40 کروڑ ڈالر وصول کئے ویسے ہی مغربی صحارا حوالہ کرنے کی قیمت اسلحے کا سودا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بات چیت کے دوران مراکشی بادشاہ کو باور کرادیا کہ پولیساریو فرنٹ مغربی صحارا پر رباط کے قبضے کو ٹھنڈے پیٹوں برادشت نہیں کریگا چنانچہ باغیوں کا دماغ درست کرنے کیلئے مراکش کو جدید امریکی اسلحے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ذرایع نے بتایا ہے کہ مراکش امریکہ سے جدید ترین ڈرون، صحرائی جنگ کیلئے ٹینک اور آبدوزیں خریدے گا جسکی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اسی کیساتھ اسرائیل نے سیکیورٹی کے حوالے سے جاسوسی کی خدمات اور گوریلوں سے لڑنے کیلئے ہلکے ہتھیار کی پیشکش کی ہے جسکا حجم 20 کروڑ ٖڈالر بتایا جارہا ہے

حسب توقع پولیساریو فرنٹ نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں فرنٹ کے نمائندے سیدی عمر نے اس اعلان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے 'مہذب دنیا' کو یاددلایاکہ کہ علاقوں کی قانونی حیثیت کا تعین بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہوتا ہے لیکن حالیہ اقدامات سے ایسا لگتا ہےکہ مراکش مغربی صحارا کے کچھ حصوں پر غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی روح فروخت کررہا ہے۔ پولیساریو فرنٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'امریکی پالیسی میں تبدیلی سے اس تنازعے کی حقیقت تبدیل ہوگی اور نہ مغربی صحارا کے عوام خودارادیت کیلئے اپنی مقدس جدوجہد سے دستبردار ہونگے۔‘

اقوامِ متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک نے انکشاف کیا کہ امن کے بین الاقوامی ادارے کو بھی باقی دنیا کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ سےاس پیش رفت کا علم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کا مؤقف اس معاملے پر تبدیل نہیں ہوا اور یہ معاملہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مطابق حل ہونا چاہئے۔

امریکہ کی ثالثی میں مراکش اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا معاہدہ کسی بھی زاوئے سے سفارت کاری نظر نہیں آتا، یہ قبضہ مافیا کے درمیان ڈان کی سربراہی میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کا معاہدہ ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 18 دسمبر 2020

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 دسمبر


2020