Thursday, August 15, 2024

زہ بربریت کے دس ماہ مکمل اسکول خاص ہدف غربِ اردن پر ڈرون حملے اور ٹارگت کلنگ انتخابی مہم میں غزہ کی بازگشت۔ سعودی عرب کو مہلک اسلحے کی فراہمی

 

غزہ بربریت کے دس ماہ مکمل

اسکول خاص ہدف

غربِ اردن پر ڈرون حملے اور ٹارگت کلنگ

انتخابی مہم میں غزہ کی بازگشت۔ سعودی عرب کو مہلک اسلحے کی فراہمی

غزہ خونریزی کے دس مہینے مکمل ہونے پر بمباری میں اضافہ ہوگیا پے۔ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں اور اسی دن  جنوبی لبنان پر مزاحمت کاروں کے کمانڈرفواد شُکر المعروف حاجی محسن کے قتل سے وزیراعظم نیتھن یاہو کے حوصلے بلند اور زمین پر لوٹتا انکی مقبولیت کا گراف سنبھلتانظر آرہا ہے۔ لواحقین کے مظاہرے جاری ہیں جن میں قیدیوں کی واپسی کیساتھ نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ے لیکن پہلی بار 'فتحِ مبیں' تک جنگ جاری رکھنے کے حق میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں۔

غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں قیامت برپا ہے۔ الخلیل، نابلوس، جنین،طوباس،کفر قود، باقاالغربیہ، رام اللہ سمیت تمام شہروں پر فوج کے دھاوے کے ساتھ ڈرون سے بمباری کا سلسلہ تیزی اختیار کرگیا ہے۔ تلاشی کے نام پر ٹارگٹ کلنگ اور مکانوں کا انہدام جاری ہے۔

غزہ میں اسکول اسرائیلی فوج کا خاص ہدف ہیں۔ تمام کی تمام جامعات، کالج اور دارالمطالعے پہلے ہی منہدم کئے جاچکے ہیں۔ اسکولوں کو نشانہ بنانے کے دو مقاصد ہیں، پہلا تو یہ کہ تعلیم کی  جو تھوڑی بہت سہولت باقی رہ گئی  ہے اس کو بھی ختم کردیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ بے گھروبے اماں شہریوں کیلئے سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ رہے۔

اس ہفتے شمالی غزہ میں النصر اور حسن سلامہ ہائی اسکولوں، شجاعیہ کے  پرائمری اسکول اور وسطِ غزہ میں درج  محلے کے تابعین ہائی اسکول کو مسمار کردیا گیا۔ تابعین اسکول پر 10 اگست کو عین نمازِ فجر 2000 پاونڈ کے بم گرائےگئے جس سے وہاں پناہ لینے والے سو افراد جاں بحق ہوئے۔ سینکڑوں زخمی ہیں جنکی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ہزاروں لوگ ملبے تلے دبے ہیں۔ یہ ایسی بھیانک کاروائی تھی کہ مصر کے سنگدل جنرل السیسی بھی اس پر چیخ اٹھے لیکن ترک صدر کے علاوہ کسی اور مسلم رہنما کا بیان سامنے  آیا اور نہ مسلم معاشروں کے سوشل میڈیا پر اسکا کوئی ذکر دکھائی دیا۔

امریکی نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا دیوی ہیرس کے انتخابی جلسے میں اس حملے پر احتجاج ہوا اور شدید نعرے بازی کے باعث انھیں اپنی تقریر روکنی پڑی۔ کملا صاحبہ نے اسکول پر بمباری کی مذمت کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا۔

شام کو اسرائیلی فوج نے اس حملے میں مارے جانیوالے 19 'دہشت گردوں 'کی تصویر شایع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش  کی کہ تابعین اسکول مزاحمت کاروں کا فوجی اڈہ تھا۔ فلسطینی وزارت صحت نے نام اور شناختی کارڈ کی تفصیلات کے ساتھ مارے جانے والوں کی جو فہرست شایع کی ہے ان میں اسرائیل کا جاری کردہ ایک نام بھی شامل نہیں۔  

اسرائیل کی یہ وحشت بلاسبب نہیں۔ امریکہ اور مغرب کی غیرمشروط مالی، فوجی اور سیاسی حمائت کی بنا پر اسرائیل کو کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت اسکے ردعمل کے بارے میں سوچنا نہیں پڑتا۔ مہنیوں کی عرق ریزی کے بعد سی آئی اے اور امریکہ کے دوسرے سراغرساں اداروں نے غربِ اردن میں تعینات اسرائیل کی بدنام زمانہ 'ظفرِ یہود' یا Netzah Yehuda بٹالین کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے ناقابل تردید شواہد اکھٹے کئے۔ ثبوت اتنے واضح تھے کہ امریکی وزارت دفاع نے ایک مکتوب میں صدر بائیڈن سے اس بٹالین پر تادیبی پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی۔خیال تھا کہ پابندی لگادی جائیگی لیکن اس ہفتے امریکی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axiosنے بتایا کہ امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے  اسرائیلی وزیردفاع کو پابندی نہ لگانے کی یقین دہانی کردای ہے۔

اسی کے ساتھ صدر بائیڈن نے  اسرائیل کیلئے منظور کی جانیوالی 14 ارب ڈالر کی امداد میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر فوی جاری کرنے کی ہدائت کرتے ہوئے ضابطے کے مطابق کانگریس (پارلیمان)کو اپنے فیصلے سے مطلع کردیاہے۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

ایران میں اسماعیل ہنیہ پر حملہ بین الاقوامی جرم ہے کہ ایک خودمختار ملک کی حدود میں داخل ہوکر سرکاری مہمان کو قتل کیا گی جسکی دنیا کے کسی 'مہذب' ملک نے مذمت نہیں کی، بلکہ ایران کی جانب سے متوقع ردعمل کا جواب دینے کیلئے امریکہ نے ایک اضافی طیارہ بردار جہاز، میزائیلوں سے لیس جوہری کشتیاں اور لڑاکا طیاروں کا اسکویڈرن بحیرہ روم بھیج دیا۔ امریکی وزیردفاع نے بڑے جوشیلے لہجے میں کہا 'واشنگٹن اسرائیل کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے'

اسی پشت پناہی کانتیجہ ہے  کہ حال ہی ہے عالمی عدالت (ICJ)نے غربِ اردن،غزہ اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے اسرائیل کو وہاں سے واپسی اور ہرجانہ ادا کرنے کا جو حکم دیا تھا اسے وزیراعظم نیتھن یاہو نے پاوں تلے روندتے ہوئے امریکی جریدے ٹائم کو ایک انٹرویومیں کہا کہ غرب اردن، یروشلم اور غزہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔ انھوں نے غرب اردن کے بجائے اس علاقے کو یہوداالسامرہ کہا جو انکی تاریخ کے مطابق سلطنت داود ؑکا حصہ تھا۔جب انکی توجہ ICJ کے حالیہ فیصلے کی طرف دلائی گئی تو انھوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں کو انتظامی خود مختاری دینے کو تیار ہے لیکن وہاں فوج اسرائیل کی رہیگی۔

اسرائیل اپنے دوستوں اور سرپرستوں سے بھی اسی انداز میں بات کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ناروے کے سفارتکاروں نے رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین (PA)کے حکام سے ملاقات کی۔اسرائیل نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ملاقات کرنے والے  ناروے کے 8سفارت کاروں کی اسنادِ سفارت منسوخ کردیں۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ سفارتکاری کی چھتری اسرائیل مخالف اقدامات کو تحفظ نہیں فراہم کرتی۔ اسرائیلی وزیرخارجہ نے ازراہ مہربانی فرمایا کہ متاثر اہلکار نئی اسناد کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔

ناورے کے وزیرخارجہ نے اسناد سفارت کی منسوخی کو انتہا پسندی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے اس فیصلے پر ناپسندیگی کا اظہار کیا لیکن کوئی ٹھوس جوابی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

اسرائیلی قیادت کی ڈھٹائی کا یہ عالم کے انکے وزرا غیرانسانی اقدامات کی خواہش کا کھل کر اظہار کررہے ہیں اور انھیں احتساب کا ذرہ برابر ڈر نہیں۔ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ بیزلیل اسوترچ نے کہا کہ 'اسرائیلی قیدیوں کی واپسی تک غزہ کے 20 لاکھ باشندوں کو بھوکا رکھنا ہر اعتبار سے منصفانہ اور اخلاقی  ہے لیکن (بے انصاف) دنیا اسکی اجازت نہیں دیگی'

اسی بات کو ایک ریڈیو انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اندرونی سلامتی اورعظمت یہود جماعت کے سربراہ اتامر بن گوئر نے کچھ اسطرح کہا 'امن بات چیت کی ضرورت ہی کیا ہے؟غزہ کو پانی اور ایندھن کی فراہمی روک دو، امدادی ٹرک نہ جانے دو، دوہفتے میں یہ لوگ خود ہی بلبلا کر ہتھیار ڈالدینگے۔ بی بی (وزیراعظم نیتھن یاہو) دہشت گردوں کو امن کی پیشکش کرکے حماقت کررہے ہیں۔ یہ معاہدہِ امن نہیں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ہے'

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا غزہ جنگ کے اثرات امریکہ کی انتخابی مہم پر محسوس ہورہے اگر چہ کہ اسرائیل نوازی کے معاملے میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن کے درمیان دوڑ لگی ہے لیکن مسلمانوں کو یکسر نظرانداز کردینابھی ممکن نہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا دیوی ہیرس پر اسرائیل نواز عناصر دباو ڈال رہے تھے کہ نائب صدر کا ٹکٹ پنسلوانیہ کے گورنر جاش شپیرو کو دیا جائے۔ جناب شپیرو ایک راسخ العقیدہ یہودی اور اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ انھوں نے جامعات میں احتجاجی خیمہ زنی پر شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے انھیں ہٹانے کیلئے ریاست کے نیم فوجی دستے بھیجنے کی دھمکی دی تھی۔ مظاہرین کے خلاف سخت کاروائی نہ کرنے پر گورنر صاحب نے جامعہ پینسلوانیہ (Upen)کی سربراہ کو استعفے پر مجبور کیا۔

سخت مقابلے کی بنا پر کامیابی کیلئے کملا جی کیلئے پینسلوانیہ جیتنا ضروری ہے اور جناب شپیرو یہ ہدف حاصل کرنے میں بطور امیداوار کلیدی کردار ادا کرسکتے تھے۔ لیکن ڈیموکریٹک کے مسلم اراکین کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب اور الحان عمر نے صاف صاف کہدیا کہ اگر شپیرو کو نائب صدر کا امیدوار نامزد کیا گیا تو مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ نہیں دینگے۔ اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ کملا ہیرس نے جاش شپیرو کے بجائے ریاست مینیسوٹا کے گورنر ٹم والز (Tim Walz) کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نامزد کیا۔

اسرائیل کی خوفناک بمباری اور بہیمانہ کاروائیوں کے باوجود غزہ میں مزاحمت جاری ہے۔ جمعہ 9 اگست کو جنوبی غزہ میں کریم سلام کراسنگ پر راکٹ برسادئے گئے۔اس علاقے پر اسرائیل کی گرفت بہت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ حملے میں ایک افسر سمیت پانچ اسرائیلی سپاہی شدید زخمی ہوگئے۔

غزہ میں قتل عام کیساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے ریاض سے گفت و شنید بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ٹائمز آف اسرائیل نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب کیلئے ضربِ کاری لگانے والے والے امریکی اسلحے یعنی Offensive Armsپر سے پابندی ختم کی جارہی ہے اور بائیڈن انتظامیہ نے اپنے اس فیصلے سے کانگریس کا مطلع کردیاہے۔ اس نوعیت کے اسلحے کی فروخت کیلئے واشنگٹن کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کرنے شرط عائد ہے۔ صدر بائیڈن کے حالیہ فیصلے کو سفارتکار حلقے اس تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 اگست 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 16 اگست 2024

روزنامہ امت کراچی 16 اگست 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 اگست 2024


امریکہ کے صدارتی انتخابات۔ میدان سج گیا فیل بان اور خاتونِ خر

 

امریکہ کے صدارتی انتخابات۔ میدان سج گیا

فیل بان اور خاتونِ خر

 صدر بائیڈن کی دستبرداری کے بعد نائب صدر شریمتی کملا دیوی ہیرس نے پارٹی ٹکٹ کیلئے مندوبین کی مطلوبہ تعداد پوری کرلی ہے۔ جس وقت آپ ان سطور کو شرفِ مطالعہ عطا فرمارہے ہونگے،  شکاگو بیٹھک سے ہیرس صاحبہ کو پارٹی ٹکٹ مل چکا ہوگا۔آگے بڑھنے سےپہلے سرنامہِ کلام کی وضاحت ضروری ہے کہ اس سے کسی کی دل شکنی مقصود نہیں۔ ہاتھی ریپبلکن پارٹی کا نشان ہےاسلئے ہم نے سابق امریکی صدر کو فیل بان قراردیا جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی گدھے کے نشان سے پہچانی جاتی ہے چنانچہ کملا صاحبہ کو آپ خاتونِ خر کہہ سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کملا ہیرس نے ریاست مینیسوٹا (Minnesota) کے گورنر ٹم والز (Tim Walz)کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نائب صدر نامزد کردیا۔ صدر ٹرمپ نے نائب صدر کیلئے ریاست اوہایو کے سینیٹر جے ڈی وانس کا انتخاب کیا ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے اسرائیل نواز عناصر کا اصرار تھا کہ نائب صدر کا ٹکٹ ریاست پیسلوانیہ کے گورنر جاش شپیرو کو دیا جائے۔ جناب شپیرو ایک راسخ العقیدہ یہودی اور فلسطیینوں کے دشمنی کی حد تک مخالف ہیں۔ چنانچہ ڈیموکریٹک کے مسلم ارکان اور اراکین کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب اور الحان عمر نے صاف صاف کہدیا کہ اگر شپیرو کو سامنے لایا گیا تو مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ نہیں دینگے۔اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ کملا ہیرس نے جاش شپیرو کے بجائے  گورنر ٹم والز کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔

مجموعی  طور پر مسلمان ووٹروں تعداد اتنی نہیں کہ اسے اہمیت دی جائے لیکن یہاں صدارتی نتائج مجموعی یا Popularووٹ کے بجائے انتخابی Electoralووٹوں سے ترتیب دئے جاتے ہیں اسلئے کچھ ریاستوں میں مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ انتخابی کالج کیا ہے؟ اسے سمجھ لینے کی ضرورت ہے  تاکہ انتخابی نتائج کا تجزیہ درست انداز میں کیا جاسکے۔

امریکہ 50 آزاد و خود مختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی  ہر ریاست کا اپنا دستور، پرچم اورمسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح بااختیار ہیں۔امریکی صدر وفاق کی علامت اور اسکی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے اور اس مقصد کیلئے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeتشکیل دیا گیا ہے۔ امریکہ میں مرکزی الیکشن کمیشن یا مقتدرہ نہیں اور انتخاب کا انتظام اور نگرانی ریاستیں کرتی ہیں۔ کاغذات نامزدگی بھی ہر ریاست میں الگ الگ جمع کرائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستوں کے بیلٹ پیپر پر امیدواروں کی فہرست مختلف ہوتی ہے۔

کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اسکی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اور یہ اس ریاست کیلئے ایوان نمائندگان (لوک سبھا) اور سینیٹ (راجیہ سبھا) کیلئےمختص نشتوں کے برابر ہے۔ امریکہ میں ایوان نمائندگان کی نشتیں آبادی کے مطابق ہیں جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر ریاست سے دو دو سینیٹرمنتخب کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کیلئے انتخابی کالج میں تین ووٹ ہیں۔یعنی کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے اور 270 یا اس سے زیادہ ووٹ لینے والے کے سرپر امریکی صدارت کا تاج رکھدیا جائیگا۔

الیکٹرل کالج کی ہیت کو اسطرح سمجھئے کہ  نیویارک سے ایوان نمائیندگان کے 26 ارکان منتخب ہوتے  چنانچہ 2 سینیٹروں کو ملاکر انتخابی کالج میں نیویارک کے 28 ووٹ ہیں۔انتخابی کالج میں سب زیادہ ووٹ کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 54 جبکہ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ڈلوئر، ورمونٹ اس اعتبار سے بہت چھوٹی ہیں جنکے صرف تین تین ووٹ ہیں۔ الیکٹرل کالج میں 'سارے ووٹ جینتے والے کیلئے' کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی اس ریاست سے انتخابی کالج کیلئے مختص سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دئے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 54 الیکٹرل ووٹ اسے مل جائینگے۔ صرف ریاست مین Maine اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹرل ووٹ ایوان نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کئے جاتے ہیں ورنہ باقی سارے امریکہ میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔

دلچسپ بات کہ اس سال  5 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کیلئے 17 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹرل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کیلئے ووٹ ڈالینگے۔ ووٹنگ مکمل ہونے پر نتائج مرتب کئے جائینگے اور اسے ایک ڈبے میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائیگا۔6 جنوری 2025 کو سربراہ سینیٹ (امریکی نائب صدر) کی نگرانی میں تمام ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر سرکاری نتیجے کا اعلان ہوگا۔

یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ قانونی طور سے الیکٹرل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود گزشتہ دوسو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جب الیکٹرل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔

2016 کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو پاپولر ووٹوں کے اعتبارسے ڈانلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کئے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹرل ووٹوں کی تعداد کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔اس سلسلے چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب کہ مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے

گزشتہ انتخابات میں امریکی دارالحکومت سے صدر بائیڈن نے 92 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہاں مختص 3 الیکٹرل ووٹ اپنے نام کرلئے، جبکہ ایریزونا میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں جناب بائیڈن  کو  جنابب ٹرمپ پر صرف  0.3 فیصد ووٹوں کی برتری کے عوض 11 انتخابی ووٹ مل گئے۔کچھ ایسا معاملہ جارجیا میں ہوا جہاں 0.23فیصد برتری حاصل کرکے بائیڈن صاحب نے 16الیکٹرل ووٹ اپنے نام کرلئے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس بار پینسلوانیہ، مشیگن، وسکونسن، ایریزونا، نوادا اور جارجیا میں گھمسان کا رن پڑنا ہے۔ ان چھ ریاستوں کے الیکٹرل ووٹوں کی مجموعی تعداد 77 ہے اور انھیں ریاستوں میں امریکہ کے 47 ویں صدر کا فیصلہ ہوگا۔ وسکونسن، مشیگن، جارجیا اور ایریزونا میں مسلمان ووٹ بہت زیادہ تو نہیں لیکن سخت مقابلے کے تناظر میں یہاں مسلمانوں کا ووٹ بینک کنگ میکر سمجھا جارہا ہے۔

آج کی گفتگو ہم الیکٹرل کالج اور امریکی انتخابی نظام پر ختم کرتے ہیں۔ متحارب امیدواروں کا تعارف، انشااللہ اگلی نشست میں 

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 اگست 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 16 اگست 2024




Friday, August 9, 2024

اسماعیلِ وقت،اسماعیل ہانیہ وہ تو وہ ہے تمہیں ہوجائیگی الفت مجھ سے اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو

 

اسماعیلِ وقت،اسماعیل ہانیہ

وہ تو وہ ہے تمہیں ہوجائیگی الفت مجھ سے

اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو

اسماعیل عبدالسلام ہنیۃ کے آباواجداد کئی نسلوں سے ساحلِ بحیرہ روم پر واقع خوبصورت شہر عسقلان کے سرسبزوشاداب گاوں الجورہ میں آباد تھے۔ اسرائیل کے قیام پر 1948 میں لاکھوں فلسطینیوں کی طرح ہنیۃ خاندان کو بھی اپنے آبائی گھر سے بیدخل کرکے جنوب میں غزہ ہانک دیا گیا۔ اسوقت یہ 12 کلومیٹر چوڑی اور 41 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی مصر کا حصہ تھی۔ ہنیہ صاحب کے والدین نے شمالی غزہ کی خیمہ بستی الشاطی میں پناہ لے لی جہاں 1962 میں اسماعیل ہنیہ نے آنکھ کھولی، یعنی موصوف اپنی ہی زمین پر پناہ گزین کی حیثیت سے پیدا ہوئے۔ انکی ولادت کے پانچ سال بعد 1967 کی چھ روزہ جنگ میں غربِ اردن، مشرقی بیت المقدس، صحرائے سینائی کے بڑے علاقے اور گولان کی پہاڑیوں کیساتھ غزہ پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔

جناب ہنیہ نے 1987 میں جامعہ اسلامیہ غزہ سےعربی ادب میں بی اے اور اسکے  بعد انتظامی امور میں ایم اے کیا۔ دورِ طالب علمی ہی سے ہنیہ فلسطین کی آزادی کیلئے سرگرم ہوگئے اور قیدو بند کی آزمائشوں سے گزرے۔رہائی پر انھیں ملک بدر کرکے لبنان بھیج دیا گیا لیکن وہ جلاوطنی کی خلاف وزری کرتے ہوئے غزہ واپس آگئے اور جامعہ غزہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ساتھ ہی وہ حماس کی تنظیم سے وابستہ ہوگئے۔

ریاست فلسطین کے پہلے آزادانہ انتخابات 25 جنوری 2006 کو منعقد ہوئے۔ متناسب نمائندگی کی بنیاد پرہونے والے انتخابات میں حماس نے 132 رکنی قانون ساز کونسل (قومی اسمبلی) کی 74 نشستیں جیت لیں۔ قریب ترین حریف الفتح کو 54 نشستوں پر کامیابی ہوئی۔ مارچ 2006 میں اسماعیل ہنیہ نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا لیکن اسرائیل نے دہشتگرد قراردیکر انکی نقل و حرکت محدود کردی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے فلسطین کی امداد بند کردی اورمغرب و اسرائیل کے دباو پر صدر محمود عباس نے صرف پندرہ ماہ بعد اسماعیل ہنیہ کی حکومت تحییل کردی۔ اسکے نتیجے میں الفتح اور حماس کے درمیان خونریز تصادم ہوا جس میں دونوں طرف کے ماہر جانباز مارے گئے۔ فلسطینیوں کی نام نہاد حکومت، مقتدرہ فلسطین (PA)غرب اردن تک محدود ہوگئی اور غزہ کا انتظام حماس نےسنبھال لیا۔ اسماعیل ہنیہ نے محمود عباس کی جانب سے جاری ہونے معزولی کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور 2014 میں مدت پوری ہونے تک بطور وزیراعظم فلسطین کام کرتے رہے تاہم انکی عملداری غزہ تک محدود رہی۔

تین سال بعد 2017 میں مدت مکمل ہونے پر پولیٹیکل بیورو کے سربراہ خالد مشعل اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے اور جناب ہنیہ کو بیورہ کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ جسکے بعد ہنیۃ صاحب بیوروآفس قطر منتقل ہوگئے تاہم اہلیہ کے سوا انکا سارا خاندان غزہ میں قیام پزیر رہا۔

اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کی تمام منصوبہ بندی اسماعیل ہنیہ اور جناب یحیٰ سنوار نے کی تھی چنانچہ وہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ہٹ لسٹ پر تھے۔اسرائیل نے سات اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے ہنیۃ خاندان کو چن چن کر نشانہ بنایا۔آغاز ہی پر انکے بھائی اور بھتیجے سمیت انکے خاندان کے 10 افراد جاں بحق ہوئے۔ایک ماہ بعد انکی پانچ سالہ پوتی کو ڈرون نے بھسم کردیا، کچھ دن بعد بمباری سے انکا کم عمر پوتا جاں بحق ہوا۔ اس سال اپریل میں ڈرون نے ایک کار کو نشانہ بنایا جس میں اسماعیل ہنیۃ کے تین جوانسال صاحبزادے اپنی چار بیٹیوں کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ صرف ایک بچی زندہ بچی وہ بھی دودن بعد زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی۔ یہ لوگ عید ملنے اپنے رشتے داروں کے پاس جارہے تھے۔ اس دوران قطر میں اسماعیل ہنیہ کی اہلیہ علیل تھیں جنکی عیادت کووہ اسپتال گئے۔ جب وہ دوسرے مریضوں کی مزاج پرسی کررہے تھے تب انھیں بچوں کی شہادت کی اطلاع ملی۔ خبر سن کر اسماعیل ہنیہ نے مغفرت کی دعا کی اور عیادت جاری رکھی۔ اپنی بیوی کے بستر پر پہنچ کر شریک حیات کو یہ خبر سنائی تو اس خاتون نے خاندان کو شہادت کا افتخار عطا کرنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ جب ایک صحافی نے جناب ہنیہ سے دلی تاثر بیان کرنے کو کہا تو وہ سپاٹ لہجے میں بولے غزہ میں ہزاروں نوجوان شہید ہوچکے ہیں اور میرے بچوں کا خون ان سب کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں۔ تادم تحریز اسماعیل ہنیۃ خاندان کے 60 افراد غزہ میں شہید ہوچکے ہیں۔

جناب اسماعیل ہانیہ کی نماز جنازہ پورے احترام سے تہران میں اداکی گئی جسکی امامت رہبر ایران حضرت آئت اللہ خامنہ ای نے کی جسکے بعد میت قطر بھیج دی گئی۔ اس موقع پر انکی اہلیہ، امل ہانیہ کے صبر نے لوگوں کو رلا دیا۔ امل  نے کہا 'میرے محبوب ! آنسو پر قابو نہیں لیکن تمہاری جدائی پر اپنے رب سے کوئی شکوہ بھی نہیں۔ ملاقات ہو تو آقا(ص) کو میراسلام عرض کرنا۔ ہماری ننھی پوتیاں تمہاری سینے پر سونے کی عادی تھیں، اسی لئے ان معصوموں کے مہربان رب نے دادا میاں کو بھی وہیں بلالیا۔ یہ دنیا عارضی اورجدائی بھی عارضی۔ اب انشااللہ اپنے رب کی جنت میں تم سے ملوں گی کہ تم نے اپنی ساری زندگی اسی کے حصول کیلئے کھپادی۔

جمعہ 2 اگست کو دوحہ کی جامع مسجد امام عبدالوہاب میں جناب ہانیہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مسجد کھچاکھچ بھری تھی اور 50 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں ہزاروں لوگ چلچلاتی دھوپ میں باہر صفیں بنائے کھڑ ے تھے۔ نماز جنازہ میں امیر قطر تمیم بن حماد الثانی، انکے والد حمد بن خلیفہ، ایران کے اول نائب صدر محمد رضا عارف، ترک وزیرخارجہ حکن فیضان اور امیر جماعت اسلامی ہاکستان حافظ نعیم الرحمان نے بھی شرکت کی۔

اس سوگوار گفتگو کا اختتام ایک حوصلہ افزا نوٹ پر

آئے دن کے چھاپوں، عسکری دراندازی، زمینوں پر قبضہ، پکڑ دھکڑ اور قتل عام کے باوجود اس سال غرب اردن کے پچاس ہزار طلبہ میٹرک کے امتحان میں شریک ہوئے۔ بدقسمتی سے غزہ ہائی اسکولوں کے 39ہزار بچوں کا امتحان نہ لیا جاسکا۔ فلسطینی وزارت تعلیم نے اپنے بیان میں کہا 'غزہ کے بچو! امتحان کے تیاری جاری رکھو، تمہارا تعلیمی سال ضائع نہیں ہونے دیا جائیگا۔ حالات میں بہتری آتے ہی غزہ میں امتحانات ہونگے'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 اگست 2024

ہفت روزہ  دعوت دہلی 9 اگست 2024

روزنامہ امت کراچی  9 اگست 2024

اسماعیل ہانیہ کا تہران میں قتل

 

اسماعیل ہانیہ کا تہران میں قتل

دھماکہ خیز مواد دوماہ پہلے اسرائیل سے ایران لایا گیا؟؟

پاسدارنِ انقلاب اسلامی ایران کےمہمان خانے میں بم کی تنصیب؟؟؟

اسرائیل کے لمبے ہاتھ   یا نفسیاتی مہم ؟؟؟ بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کیلئے

غزہ کا عقوبت کدہ

غزہ مزاحمت کاروں کے قائد اور پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل عبدالسلام ہنیہ تہران میں قتل کردئے گئے۔اسی دن شام کو جنوبی لبنان پر اسرائیل کے ایک حملے میں لبنانی مزاحمت کاروں کے کمانڈرفواد شُکر المعروف حاجی محسن جاں بحق ہوگئے۔ لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ رہائشی عمارت پر بمباری سے ایک بچے سمیت تین افراد ہلاک اور 74 زخمی ہوگئے۔ دوسرے دن اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ غزہ مزاحمت کاروں کے فوجی سربراہ محمد دیاب ابراہیم المصری المعروف محمد الضیف کو مٹادیا گیا۔ محمد ضیف 13 جولائی کو خان یونس کے المواصی پناہ گزین کیمپ میں نشانہ بنائے گئے تھے۔ بمباری سے بچوں سمیت 70 افراد جاں بحق ہوئے۔ جیسا کہ ہم پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں مزاحمت کاروں نے اسرائیلی دعوے کو جھوٹا قراردیا لیکن اسرائیلی مصر ہیں کہ وہ محمد ضیف کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

حماس کے سربراہان ، ہمیشہ سے اسرائیل کا ہدف ریے ہیں۔ تحریک کے بانی، شیخ یاسین مارچ 2004میں امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹر سے داغےجانے والے ہیل فائر میزائیل کا اسوقت نشانہ بنے جب وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی وہیل چئیر پرگھر واپس جارہے تھے۔ سرسٹھ برس کے شیخ یاسین کا نچلا دھڑ فالج زدہ تھا۔ نظر بے حد کمزور اور سماعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ شیخ صاحب کے بعد 56 سالہ عبدالعزیز الرنتیسی نے حماس کی قیادت سنبھالی لیکن صرف ایک ماہ بعد 17 اپریل کو انھیں بھی ہیل فائر میزائیل سے شہید کردیا گیا۔ اس واقعے میں انکا 27 سالہ لڑکا بھی جاں بحق ہوا۔

جناب اسماعیل ہنیہ حماس کےتیسرے قائدہیں جو اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ شیخ یاسین اور الرنتیسی براہ راست میزائیلوں کا نشانہ بنے لیکن اسماعیل ہنیہ کا قتل کا معمہ اب تک نہیں سلجھا۔ جناب ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزیشکان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے تہران آئے تھے۔ایرانی خبررساں ایجنسی فارس کے مطابق ہانیہ صاحب اپنے محافظ کے ساتھ پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC)کے مہمان خانے نشاط کمپاونڈ میں ٹہرے ہوئے تھے کہ انھیں 31 جولائی کو صبح دوبجے میزائیل سے نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میزائیل ایران سرحد کے باہر سے داغا گیا تھا۔ مزید تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ میزائیل ایرانی سرحد کے اندر سے فائر ہوا تھا۔اس عمارت کی اوہر والی منزل میں اہل غزہ کے ایک اور رہنما زید النخلا ٹہرے ہوئے تھے جنکے کمرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔میزائیل گرنے کی صورت میں پوری عمارے متاثر ہوتی ہےلیکن ایسا نہیں ہوا۔

امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axios کے مطابق دھماکہ خیز مواد دوماہ پہلے اسرائیل سے ایران اسمگل کیا گیا جسے موساد کے ایجنٹوں نے بہت باریکی کیساتھ اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں نصب کردیا اور یہ یقین کرلینے کے بعد کہ موصوف اپنے کمرے میں ہیں موساد کے ایرانی ایجنٹوں نے ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کردیا۔

اگر Axiosکی رپورٹ درست ہے تو اس سے ایران کے حفاظتی انتظامات پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ انکا کسٹم جانچ پڑتال اور اندرونی سلامتی کا نظام اتنا ناقص ہے کہ اسرائیل سے دھماکہ خیز مواد نہ صرف ایران پہنچ گیا بلکہ اسکی  IRGCکے VIPمہمان خانے کے ایک کمرے میں تنصیب کی بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

برطانوی رسالے ٹیلیگراف نے 2 اگست کو شایع ہونے والے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اس کام کیلئے موساد نے حساس عمارات ، شخصیات اور تنصیبات کو تحفظ فراہم کرنے والے IRGCکے  ذیلی دارے انصار المہدی سیکیورٹی ایجنسی کے چند سینئر اہلکاروں کو خریدا۔ ان ایجنٹوں نے نشاط کمپلیکس کے تین کمروں میں دھماکہ خیز مواد نصب کیااور اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں رکھے گئے بم کو ایران کے باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑادیاگیا۔موساد ذرایع کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ جناب ہنیہ کو سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تدفین کے موقع پر مئی میں نشانہ بنایا جانا تھا جسکے لئے دھماکہ خیز مواد درآمد کیا گیا لیکن سخت حفاظتی اقدامات کی بناپرمنصوبہ عین وقت پر معطل کردیا گیا۔

یہ بات تو ایرانی حکام خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انکے ملک میں موساد کا انتہائی موثر نیٹ ورک موجود ہے۔ کئی ماہر ایرانی جوپری سائنسدان موساد کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔ ماہرینِ سراغرسانی کا خیال ہے کہ امریکی سی آئی اے کے نقشِ پا بھی ایران میں گہرے ہیں۔ شاہ ایران کے دورمیں سی آئی آے نے یہاں ایک  بہت بڑا تربیتی ڈھانچہ ترتیب دیا تھا اور اب بھی سی آئی اے کے ایرانی ایجنٹ موجود ہیں۔ اسرائیل نے ایران میں کئی کامیاب آپریشن کئے ہیں۔سب سے مشہور  نومبر 2020میں ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل ہے۔ جناب فخری زادہ کے قتل کیلئے خودکار مشین گن اسرائیل سے درآمد کی گئی، جس نے تصویرسے ہدف کی نشاندہی کی،  صرف ایک منٹ میں فخری زادہ صاحب لقمہ اجل بن گئے اور نشانہ اتنادرست کے  ساتھ کھڑی انکی اہلیہ کو خراش تک نہ آئی۔

یہاں یہ وضاحٹ ضروری ہے کہ اسماعیل ہانیہ کے قتل کی یہ چشم کشا تفصیلات اسرائیلی ذرایع سے جاری ہورہی ہیں اور اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ انکشافات کی صورت ان خبروں کا اجراانکی تزویراتی حکمت عملی کا حصہ ہو۔اسرائیل کیلئے جناب ہنیہ کوقطر میں نشانہ بنانا کچھ مشکل نہ تھا لیکن انھیں تہران میں قتل کرکے اسرائیل نے کئی مقاصد حاصل کرلئے۔ ایک طرف پاسداران کی عمارت میں ایک انتہائی اہم مہمان کو نشانہ بناکر ایرانی قیادت کو باور کردایا گیا کہ IRGCہیڈکوارٹر سمیت ایران کا کوئی علاقہ موساد کی پہنچ سے دور نہیں۔ پاسدران کے سینئر افسران کے ملوث ہونے کے انکشاف سے IRGCکی صفوں میں ہیجان اور عدم اعتماد پیدا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف ان 'انکشافات' نے فلسطینیوں اوردنیا بھر کے مسلمانوں میں ایران کے لئے شک و شبہات پیداکردئے ہیں۔مسلم دنیا میں سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف مہم کا اغاز ہوچکا ہے۔اس واقع کو بنیاد بناکرفرقہ پرست عناصر شیعہ سنی کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ 'گھر بلاکر مروادیا'، 'ایران کے کوفی' جیسے عنوانات سے شبہات اور عدم اعتماد کے شجرِ زقوم کی آبیاری کی جارہی ہے۔ اسی کیساتھ  اسرائیلی ٹیکنالوجی کی عظمت و رفعت اور اس میدان میں مسلمانوں کی کم مائیگی بلکہ بے مائیگی کا بار بار ذکر کرکے احساسِ کمتری کو مہمیز لگانے کی تحریک بھی عروج پر ہے۔

پاسداران نے تحقیقات کے بعد 3 اگست کو بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کو قریبی فاصلے تک مار کرنے والے یعنی short rangeمیزائیل سے نشانہ بنایا گیا۔ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میزائیل پر نصب بم میں 7 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیاتھا۔فلسطینی مزاحمت کاروں نے بھی Axios اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹوں کو فتنہ خیز و دروغ آمیز کہانی قراردیا۔ مزاحمت کاروں کے ترجمان خالد قدومی نے تہران میں پاکستانی نجی چینل  جیو نیوز کو بتایا کہ دھماکے سے ساری عمارت لرز گئی اور اسکی چھت میں شگاف سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک میزائیل حملہ تھا۔ قدومی صاحب کا خیال ہے کہ مغربی میڈیا، بم کا افسانہ تراش کر اسرائیل کی برتری ثابت کرنے کیساتھ ایران کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہاتا ہے۔

یہ اعصابی و نفسیاتی جنگ کا دور ہے جہاں حقیقت سے زیادہ ادراک واحساسِ حقیقت یا perception اہم اور فیصلہ کن ہے۔ دنیا بھر کے سیاسی و عسکری تجزیہ کاروں کے خیال میں اسرائیل یہ جنگ پار رہا ہے کہ 300 دنوں میں 6000 فضائی حملوں اور سارے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادینے کے باوجود اسرائیلی اپنا کوئی بڑا عسکری ہدف حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا کہ 7 اکتوبر کو غزہ کا دفاع کرنے والے مسلح مزاحمت کاروں کی کل تعداد 22000 تھی جنکے مقابلے کیلئے  جدید ٹینکوں اور بکتروں  پر سوار دولاکھ سے زیادہ فوجی میدان میں اتارے گئے۔ اگست کے آخر تک اسرائیل نے 15000 مزاحمت کاروں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دعویٰ کیا ہے۔اگر یہ دعویٰ درست ہے تو دوتہائی افرادی قوت فنا ہوجانے پر مزاحمت ختم ہوجانی چاہے تھے لیکن اسرائیلی عسکری محکمہ سراغ رسانی نے چند دن پہلے کہا ہے کہ انکی فوج کو اب بھی سخے مزاحمت کا سامنا ہے۔ محکمے کے سابق سربراہ پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ مزاحمت کاروں کی نظرہاتی بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہی نہیں۔

اب تک اسرائیل نہ اپنے قیدی چھڑا سکا نہ کسی اہم فوجی کمانڈر کو مٹاسکا۔ اس ہفتے جنرل الضیف کے خاتمے کا تسلسل سے دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن مزاحمت کاروں نے اسے اسرائیلی فوج کے تیزی سے کم ہوتے حوصلے کو سہارا دینے کی کوشش قراردیا ہے۔ محاذ جنگ پر مسلسل ناکامی کی وجہ سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس وقت غیر مقبولیت کی انتہا پر ہیں، تقریبا 75 فیصد اسرائیلی نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کا قتل نیتن یاہو کا ذاتی فیصلہ تھا،  تاکہ وہ خود کو قد آور اور دبنگ ثابت کرسکیں۔ فواد شکر کا قتل اور محمد ضیف کے خاتمے کا ڈھنڈورہ نیتن یاہو کی سیاسی بقا کیلئے مقوی انجیکشن ثابت ہوا اور اسرائیل میں ایک بار پھر 'دہشت گردوں' کو کچل دو کا نعرہ گونج رہا ہے۔ گزشتہ سات ماہ میں پہلی بارسبت (ہفتہ) پر قیدیوں کی رہائی اور وزیر اعظم کے استعفیٰ کیلئے بڑی ریلی نہیں ہوئی۔ انتہا پسند بہت فخر سے کہہ رہے ہیں کہ صف اول کے تین رہنما یعنی اسماعیل ھانیہ،ابو موسی مرزوق اور خالد مشعل میں سے ایک کو ٹھکانے لگادیا تو دوسری جانب عسکری قائدین یحیٰی سنوار اور محمد ضیف میں سے بھی ایک کو مٹاکر مزاحمت کاروں کی کمر توڑدی گئی ہے۔لن ترانی اور شیخی اپنی جگہ،  اسرائیل کی عسکری قیادت اور سنجیدہ عناصر جانتے ہیں کہ غزہ مزاحمت کی بنیاد نظریاتی وابستگی پر ہے جسے قتل و غارتگری سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ارادہ تو تھا کہ آج ہم اپنی گفتگو اسماعیل ہنیہ کے المناک قتل تک محدود رکھیں گے لیکن ٹائمز آف اسرائیل نے غزہ کے قریب تشدد کے ایک مرکز کی جو تفصیل شایع کی ہے اس کا ذکر ہمیں ضروری محسوس ہورہا ہے۔

سات اکتوبر کو حملے کے آغاز پر صحرائے نقب (Negev Desert)میں غزہ سے 18 میل دور سدیہ تیمان حراستی مرکز (Sde Teiman detention center) قائم کیا گیا۔ یہیں زخمی قیدیوں کے علاج کیلئے ایک خیمے میں ہسپتال بھی ہے۔ جی ہاں سخت گرمی کے دوران صحرا میں خیموں پر مشتمل ہسپتال۔یہ حراستی مرکز دراصل عقوبت کدہ ہے جہاں غزہ سے پکڑے جانیوالے بچوں اور لڑکیوں کو لب کشائی کیلئے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بدترین بمباری اور مہلک ترین ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے باوجود اب تک مزاحمت کاروں کا ایک بھی رہنما ہاتھ نہ لگ سکا۔کاروائی ڈالنے کیلئے غزہ سے نہتے بچے پکڑ پکڑ کر اس حراستی مرکز پر لائے جاتے ہیں جن سے مزاحمت کاروں کے بارے میں معلومات کیلئے تفتیش کی جاتی ہے۔ تشدد سے لڑکیوں سمیت درجنوں کم افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

گزشتہ دنوں آن لائن عرب جریدے Arab 48نے دستاویزی شواہد کیساتھ یہاں توڑے کانے والے مظالم کی روداد شایع کی۔جس میں بتایا گیا کہ یہ حراستی مرکز اسرائیل کے اوباش سپاہیوں کا مرکز ہے جہاں غزہ سے اسلحے کی نوک پر اغوا کی جانیوالی معصوم لڑکیوں کو یہ درندے بے آبرو کرتے ہیں۔خبر کے مطابق غیر انسانی سلوک سے کئی بچیاں ہلاک ہوچکی ہیں اور بہت سی قریب واقع بئیرسبع کے فوجی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔

اس خبر پر 9 سپاہیوں کے خلاف پرچے کٹے۔ملٹری پولیس جب انھیں گرفتار کرنے پہنچی تو اڈے پر بغاوت ہوگئی۔ فوجیوں نے پتھراو اور پولیس پر مرچ والے پانی کا چھڑکاو کیا۔ ملٹری پولیس کی مزید نفری بھیج کر مطلوبہ سپاہیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔یہ خبر سن کر  انتہاپسندوں نے سدیہ تیمان مرکز کا گھیراو کرلیا اور عمارت پر پتھر پھینکے۔ حکمراں جماعت کے ارکانِ کنیسہ مظاہرین کی قیادت کررہے تھے۔ دوسرے دن مظاہرین غرب اردن کے فوجی اڈے بیت لِد پر چڑھ دوڑے

ان مظاہروں سے خود اسرائیلی فوج بھی پریشان ہے۔دودن پہلے عسکری سربراہ جنرل حرزی حلوی بیت لِد آئے اور نقصانات کا جائزہ لیا انکا کہناتھا کہ دائیں بازو کے انتہاپسند ملک کو خانہ جنگی کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔

اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ گرفتار ہونے والے 9 وحشیوں میں سے تین کو شواہدوثبوت نہ ملنے کی بنا پر رہا کردیا گیا اور عسکری تحقیقاتی کمیٹی نے تین مزید افراد کی بریت کی درخواست کی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 اگست 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 9 اگست 2024

روزنامہ امت کراچی 9 اگست 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 11 اگست 2024

حسینہ واجد کا عروج و زوال

 حسینہ واجد کا عروج و زوال

پندرہ سال مسلط رہنے والی حسینہ واجد فرار ہوکر ہندوستان  پہنچ گئیں۔ ائے عقل والو! عبرت پکڑو

حسینہ واجد قیام پاکستان کے تقریباً ایک ماہ بعد 28 ستمبر 1947 میں ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے تنگی پورہ میں پیدا پوئیں۔ تنگی پورہ آجکل گوپال گنج ضلع کا حصہ ہے۔ حسینہ واجد اپنے تین بھائیوں اور بہن سے بڑی تھیں۔ فسادات کے آغاز پر یہ ہندوستان فرار ہوگئیں اور قیام بنگلہ دیش کے بعد واپس آکر 1973 میں جامعہ ڈھاکہ سے بنگلہ ادب میں ایم اے کیا۔وہ دوران طالب عالمی عوامی چھاترو لیگ کی رہنما تھیں۔پندرہ اگست 1975 کو ایک فوجی بٖغاوت میں انکے والد، والدہ اور تینوں بھائی مارے گئے۔ حسینہ صاحبہ ان دنوں لندن میں اپنی بہن کے پاس تھیں اسلئے محفوظ رہیں۔

فروری 1981 میں وہ عوامی لیگ کی سربراہ منتخب ہوئیں۔اس دوران انھوں نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نینشلست پارٹی کے ساتھ مل کر جنرل حسین محمد ارشاد کی آمریت کیخلاف تحریک چلائی،جس نے جنرل صاحب 1990 میں استعفی پر مجبور کردیا۔ دلچسپ بات کے تحریک کے دوران حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کے درمیان لڑائی رہئی اور یہ اکثر ایک دوسرے سے 'کُٹی' ہوجاتیں۔ا سی بنا پر ان دونوں کو لڑاکو بیگمات کہا جاتا تھا

جون 1996 میں حسینہ واجد وزیراعظم منتخب ہوئیں اور پانچ سال بعد انھیں بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد نے شکست دیدی۔ کچھ عرصہ بعد وہ لندن چلی گئیں۔ نومبر 2008 میں واپسی پر انھوں نے اپنے بدترین مخالف حسین محمد ارشاد سے اتحاد کرلیا۔ 2009 کے انتخابات میں عوامی لیگ اور جنرل ارشاد کی جاتیہ لیگ اتحاد نے اکثریت حاصل کی اورحسینہ واجد وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔

اس دورِ حکومت میں انکا ایک نکاتی ایجنڈہ جماعت اسلامی کا خاتمہ تھا۔اس مقصد کیلئے انھوں نے جنگ آزادی کے دوران بنگالی دانشوروں کے قتل اور بچیوں کی آبرویزی کے مرتکب 'غدار بنگالیوں' کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کا اعلان کیا۔ مقدمہ چلانے کیلئے خصوصی ٹریبیونل قائم کیا گیا اور تحقیقات سے پہلے ہی سابق امیر جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم، امیر جماعت مطیع الرحمان نظامی،نائب امیر دلاور حسین سعیدی، قیم جماعت علی احسن مجاہد، نائب قیم قمرالزماں، عبدالقادر ملا سمیت جماعت اسلامی کی پوری قیادت جیل میں ٹھونس دی گئی۔جماعت اسلامی کے علاوہ  بی این پی اور مسلم لیگ کے رہنماوں کے خلاف بھی قرعہ انتقام جاری ہواجن میں پاکستان قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر فضل القادر چودھری کے صاحبزادے، بی این پی کے رہنما اور سابق وزیر  صلاح الدین چودھری شامل تھے۔

یہ ٹریبیونل اپنے قیام کے پہلے ہی روز سے متنازعہ رہا۔ اسکے بنیادی خدوخال عوامی لیگ کے رہنما اور ممتاز وکیل احمد ضیاالدین نے مرتب کئے جو کیتھولک یونیورسٹی برسلز  (بلیجیم) میں بنگلہ دیش سینٹر برائےامورِ نسل کشی کے ڈائریکٹر تھے۔بیرسٹر صاحب کی خواہش تھی کہ بنگلہ دیشی ٹریبیونل کو معاہدہ برائےبین الاقوامی عدالت یا International Criminal Court Statute المعروف Rome Statueسے ہم آہنگ کرلیا جائے تاکہ یہاں سے ملنے والی سزاوں کو دنیا کی تائید حاصل ہوسکے۔ اس مقصد کیلئے بیرسٹر ضیاالدین نے مشہور برطانوی وکیل ٹوبی کیڈمن سے مدد کی درخواست کی۔ بیرسٹر کیڈمین جنگی جرائم کی تحقیق اور فردجرم کی تدوین کا تجربہ رکھتے ہیں اور عالمی عدالت انصاف میں انکا بڑا احترام ہے۔ بیرسٹر صاحب نے ٹریبیونل کے طریقہ کار، فرد جرم کی تیاری، الزامات کی تحقیق اور ملزمان کیلئے صفائی کی سہولتوں کا جائزہ لینے کے بعد رائے دی کہ  جنگی جرائم کیلئے قانون سازی مبہم اور غیر شفاف ہے جبکہ ٹریبیونل کی  ساخت اور ہئیت متعصبانہ نوعیت کی ہے۔ مسٹر کیڈمین نے کہا کہ جرائم کی تعریف غیر واضح اور گواہی و ثبوت کے اظہار کا طریقہ بے حد مبہم ہے جسکی بنا پر استغاثہ ریاستی عمل دخل کا فائدہ اٹھا سکتا ہے اور سب کے بڑھکر کہ جرائم کی تحقیق پردہ راز میں ہے جسکی بنا پر اسکی صداقت و صحت مشکوک ہے۔ موصوف نے اس اخفا کیلئے cloak of secrecyکا لفظ استعمال کیا۔

 کیڈمین کے اس خدشے کی تصدیق کچھ ہی عرصے بعد برطانوی رسالے اکانومسٹ میں شایع ہونے والی ایک سنسنی خیز رپورٹ سے ہوگٗئی۔ جسکی تفصیل کچھ اسطرح ہے کہ ٹریبیونل کی تشکیل کے بعد پروفیسر غلام اعظم اور دلاور حسین سعیدی کا مقدمہ پیش ہوا۔ حسینہ واجد کی خواہش تھی کہ سب سے پہلے پروفیسر غلام اعظم کو پھانسی پر لٹکایا جائے ۔ یہ اگست 2012 کی بات ہے  کہ انھوں نے ٹریبیونل کے سربراہ جسٹس نظام الدین سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ 16 دسمبر کو یوم آزادی کے موقع پر پروفیسر صاحب کو  پھانسی دیدی جائے۔جسٹس نظام کا کہنا تھاکہ چار مہینے میں اس مقدمے کو نمٹانا ممکن نہیں۔ جس پر یہ گفتگو تکرار میں تبدیل ہوگئی اور حسینہ واجد نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ بنگالی عوام 41 سال سے انصاف کا انتظار کر رہے ہیں اور اب انکے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے وہ ہر قیمت پر اس' بڈھے' کو  سال کے اختتام سے پہلے پھانسی پر لٹکتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ جسٹس نظام نے گھبرا کر برسلز میں بیرسٹر احمد ضیا الدین کو فون کیا اور بیرسٹر صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ پروفیسرصاحب کے خلاف فیصلہ تحریر کرکے بھجوائینگے اور مقدمے کی تیزی سے سماعت کے 'گر' بھی بتا دینگے۔ اس مقصد کیلئے انھوں نے وزیرانصاف شفیق احمد سے بات کرکے فرد جرم کی تیاری کیلئے بھی مفید مشورے دئے۔برطانوی رسالے اکانومسٹ  نے وہ گفتگو شایع کردی جو ان دونوں کے درمیان 28اگست سے 20اکتوبر 2012 کے دوران ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اسکائپ Skypeپر ہونے والی اس گفتگو کا مجموعی دورانیہ سترہ گھنٹے تھا جبکہ دو سو سے زیادہ برقی مکتوب Emailsایک دوسرے کو بھیجے گئے۔ اکانومسٹ پر اس خبر کے شایع ہوتے ہی بنگلہ دیش کی وزارت اطلاعات نے ایک ضابطہ اخلاق جار ی کیا جسکے تحت ٹریبیونل سے متعلق صرف وہی خبر شایع اور نشر کی جاسکتی ہے جو ٹریبیونل کا رجسٹرار جاری کریگا۔ لیکن ڈھاکہ کے ایک اخبار روزنامہ امر دیش نے اکانومسٹ میں شایع ہونے والی رپورٹ چھاپ دی جس پر اخبار کو بند کرکے اسکے ایڈیٹر محمودالرحمٰن کو گرفتار کر لیا گیا۔ حسینہ واجد کے وزیرقانون نے الزام لگایا کہ جماعت اسلامی نے یہ کہانی شایع کرنے کیلئےامر دیش کو ڈھائی کروڑ ڈالر دئے ہیں۔ شفیق احمد نے کہا کہ  امردیش کی نظریاتی وابستگی خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلست پارٹی سے ہے اورپارٹی کی ایما پر اپنے اتحادیوں کو بچانے کیلئےیہ خبر شایع کی گئی ہے۔

اس مشکوک ٹریبیونل کا پیلا شکار عبدالقادر ملا تھے جنھیں ستمبر 2013 میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔ جسکے بعد محمد قمر الزمان، علی احسن مجاہد، مطیع الرحمان نظامی، ممتاز صحافی میرقاسم علی کو تختہ دار پر کھینچا گیا۔ اسکے علاوہ صلاح الدین چودھری اور مسلم لیگ کے رہنما فرقان ملک بھی حسینہ کی آتش انتقام کا نشانہ بنے۔ عمر قید کی سزا پانے والے پروفیسر غلام اعظم اور مولانا دلاور سعیدی نے دورانِ حراست دم توڑدیا۔

جماعت اسلامی کے رہنماوں کی سزائے موت کیساتھ تنظیم کے خلاف قانونی مہم بھی شروع ہوئی۔ جنوری 2009 میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کو ایک نوٹس جاری کیا جس میں قیادت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی تھی کے اسکے دستور میں اللہ کی بالاستی کا عزم ظاہر کیا گیا ہے جو ملک کے  دستور سے متصادم ہے۔ عدالت نے جماعتی دستور میں ترمیم کی تجویز پیش کی۔ جماعت نے نوٹس کا جواب نہیں دیا اور پانچ اگست 2013 کو عدالت نے جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی۔

ان پیشبندیوں کے بعد 5 جنوری 2014 کے انتخابات ہوئے۔ بی این پی اور جماعت اسلامی مل کر میدان میں اتریں۔ جماعت کے امیدواروں نے بی ین پی کے نشان چاول کی بالی پر کاغذات نامزدگی داخل کرائے۔ انتخابات سے پہلے جماعت اور بی این پی کی پوری قیادت کے ساتھ لاکھوں  کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ عوامی لیگ اور چھاترو لیگ کے حملوں میں سینکڑوں کارکن قتل ہوئے۔حالات ایسے پیدا کردئے گئے کہ حزب اختلاف کیلئے انتخاب میی حصہ لیناممکن نہ رہا اور بی این پی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ ایسی ہی صورتحال دسمبر 2018 کے انتخابات میں پیش آئی۔ اس سال جنوری میں ہونے والے انتخابات سے پہلے ہی حزب اختلاف نے انتخابی عمل کو مہمل قراردیتے ہوئے اس میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا۔

حزب اختلاف کے خاتمے کے  بعد حسینہ واجد کیلئے میدان صاف ہوگیا۔ انھوں نے یکطرفہ قانون سازی کرکے اپنی حکومت کو ناقابل تسخیر بنالیا۔اور یہی انکے زوال کا بنا کہ نشہِ اقتدار اور احتساب سے بے نیازی کے نتیجے میں انھوں نے جو اقدامات اٹھائے اس سے انکے اپنے حامی بھی بدظن ہوگئے ۔

اپنے اقتدار کے تسلسل کیلئے  حسینہ کا مکمل دارومدار فوج اور ہندوستان پرتھا۔دہلی کا اثرورسوخ اتنا بڑھ گیا کہ بنگلہ دیش میں تھانے کے SHOکا تقرر بھی را کی مرضی سے ہوتا ہے۔ فوج، عدلیہ، کسٹم، پولیس، خفیہ اداروں میں را اور ہندوستانی فوج کے لاکھوں اہلکار تعینات ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں بھی حسینہ واجد کے قریبی عزیز اور سب سے بڑھ کر بھارتی را کے پسندیدہ ہیں۔

حکومت میں اپنے لوگوں کے تقرر کیلئے سرکاری ملازمتوں میں مکتی باہنی کا کوٹہ 30 فیصد کرکے باہنی کے ساتھ انکے بچوں، پوتے پوتی،نواسے اور نواسیوں کو بھی کوٹے کا حقدار قرار دیدیا گیا۔ دنیا کے دوسرے مسلم معاشروں کی طرح بنگلہ دیش میں بھی نوجوانوں کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے جسکی بڑی تعداد بیرزگاری کا عذاب سہہ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ 20 لاکھ تعلیمیافتہ بنگالی نوجوان بیروزگار ہیں  جبکہ سرکاری ملازمتوں کا بڑا حصہ مکتی باہنی کے لواحقین کیلئے وقف ہے۔

مکتی باہنی کے کوٹے پر نوجوان سخت برہم تھے۔حکومت نے اعتراض کو 'جماعتی سازش' قراردیکر مسترد کردیا اور سارے ملک میں اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ شبر کے درجنوں کارکن 'پولیس مقابلے' کا شکار ہوئے۔ تاہم تحریک جاری رہی اور طلبہ کےتیور دیکھ کر حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کیساتھ وزیراعظم کی اتحادی جاتیہ پارٹی نے بھی اپنا وزن تحریک کے پلڑے میں ڈالدیا۔ حسینہ واجد کو اس بات کا احساس تھا کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، چنانچہ انھوں  نےاپنی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو اعتماد میں لے کر مکتی باہنی کا کوٹہ ختم کردیا۔منصوبہ یہ تھا کہ کوٹہ ختم کرنے کی یادداشت (میمورنڈم) کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کردیا جائے گا اور عدلیہ اس میمورنڈم کو کالعدم قراردیدیگی۔ اس طرح ایک طرف تو بنگلہ دیشی عدالت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع ملتا کہ عدلیہ نے بلا خوف وزیراعظم کا حکم کالعدم قراردیدیا اور دوسری طرف وہ مظاہرین کو کہہ سکیں گی کہ میں نے تو اپنی سی کوشش کرلی لیکن عدلیہ کے آگے میرے ہاتھ بندھے ہیں

اور ہوا بھی ایسا ہی کہ 5 جون کو عدالت عالیہ نے مکتی باہنی کے لواحقین کا کوٹہ ختم کرنے کا حکم غیر آئینی قراردے دیا۔عدالت کے فیصلے پر چھاترولیگ نے جشن منایا لیکن طلبہ اس پر سخت برہم تھے۔ لاوا پکتا رہا اور 12 جولائی کو ملک بھر کی جامعات کے طلبہ سڑکوں پر آگئے۔ حکمراں عوامی لیگ اور انکی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ نے ہر جگہ مزاحمت کی اور تصادم میں چار طلبہ ہلاک اور سینکڑوںزخمی ہوئے ۔ تشدد سے تحریک میں مزید شدت آگئی۔

کوٹے کے خلاف تحریک بہت جلد حکومت مخالف مہم میں تبدیل ہوگئی۔وزیراعظم نے جماعت اور بی این پی کی رَٹ جاری رکھی۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جذباتی خطاب کیا۔ انکا کہنا تھا کہ انتخابات ہارنے کے بعد جماعت اسلامی اور بی این پی تشدد کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔پاک فوج کے تنخواہ دار “جماعتی” سنار بنگلہ کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مکتی باہنی کے احسانات نہیں بھول سکتے۔ حسینہ واجد نے جذباتی انداز میں کہا'دیش کو 1971 کی سی صورتحال کا سامنا ہے۔  بنگلہ دیش میں اگر مکتی باہنی کی اولاد کو نوکری نہیں ملے گی تو کیا 1971کے “خونی رجاکاوں”کی اولاد کو نوازا جائے۔ یہ دراصل 1971 میں مکتی باہنی کے مقابلے میں پاکستانی رجاکاروں(رضاکاروں) کی مزاحمت کی طرف اشارہ تھا جو البدر اور الشمس کے عنوان سے منظم ہوئے تھے۔ 

انکے خطاب سے ملک بھر میں آگ گئی اور بدترین تشدد سے حالات اور خراب ہوگئے۔ طلبہ کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے عدالت نے سرکاری بھرتی کے نظام میں تبدیل کرکے مکتی باہنی کا کوٹہ 5 فیصد کردیا۔عدالتی فیصلے سے امید بندھی کہ شائد اب بنگلہ دیش میں حالات معمول پر آجائیں۔ لیکن حکومت نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے  خلاف انتقامی کاروائی شروع کردی۔ ڈھاکہ پولیس نے بلوہ، اقدام قتل، کارِ سرکار میں مداخلت، غداری ، پاکستانی فوج کی ایما پر بنگلہ دیش کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے الزامات پر دو لاکھ تیرہ ہزار افراد پر مقدمات قائم کردئے۔ زیادہ تر مقدمات “نامعلوم” افراد کے خلاف بنائے گئے۔بہت سے الزامات ایسے ہیں جنکے ثابت ہونے پر سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ پرچے کٹتے ہی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور صرف 24 گھنٹوں کے دوران 4500 طلبہ دھر لئے گئے۔ طالب علم رہنما ناہید اسلام اور آصف محمود کو اسپتال سےگرفتار کیاگیا۔ ساتھ ہی باغی طلبہ کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی اور سارے ملک میں درجنوں طلبہ کو سادہ لباس پولیس نے ہلاک کردیا۔طلبہ نے الزام لگایا کہ طلبہ کے خلاف خصوصی آپریشن کیلئےہندوستان کی خفیہ پولیس کے ہزاروں اہلکار بنگلہ دیش بلائے گئے ہیں اور باغیوں کو ٹھکانے لگانے کے اس آپریشن کی نگرانی قومی سلامتی کےہندوستانی مشیر اجیت دوال کررہے ہیں۔طلبہ رہنماوں کا  کہنا ہے کہ ٹارگیٹ کلنگ کے ساتھ نوجوانوں کو  معذور کرنے کی منظم مہم شروع کردی گئی ہے اور اسپتال ایسے طلبہ ے بھرگئے ہیں جنکے پیر اور ہاتھ نامعلوم افراد نے توڑدئے، ریڑھ کی ہڈی پر شدید  ضربات سے کئی طلبہ کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا۔ معذور کئے جانیوالے زیادہ تر افراد جامعات  کےطلبہ ہیں جو شائد اب کبھی اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکیں۔

اس مرحلے پر حسینہ واجد نے ترپ کا پتہ پھینکا اور مغربی دنیا کو 'ڈرانے' کیلئے قوم سے اپنے خطاب میں انھوں طلبہ تحریک کو انتہاپسندوں کا غدر قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو انتہاپسند اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ اسی مقصد کیلئے اسکی طلبہ تنظیم اسلامی چھاترو شبر نے یہ تحریک شروع کی ہے اور انھوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شِبّر پر پابندی لگادی۔

جمعہ 2 اگست کو طلبہ نے ملک گیر یوم سیاہ منایااور پورا بنگلہ دیش حسینہ واجد استعفیٰ دو، بھارتی مداخلت مردہ باد اور 'ہر قیمت پر مادر وطن کی آزادی' کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ڈھاکہ، سلہٹ، کھلنا، چاتگام، نواکھالی سمیت کئی شہروں میں پولیس نے مظاہرین پر شدید تشدد کیا اور پولیس فائرنگ سے دونوجوان ہلاک ہوگئے۔ چار

اگست کو سول نافرمانی تحریک  کا آغاز ہوا۔ پولیس وردیوں میں ملبوس عوامی لیگی جتھوں نے مظاہرین پر حملے کئے اور صرف ڈھاکہ میں  14پولیس والوں سمیت 93 افراد مارے گئے۔

اسی دن طالب علم رہنماوں آصف محمود، سرجیس عالم اور ابوبکر موجمدار نے  ڈھاکہ مارچ کا اعلان کرتے ہوئےملک بھر کے لوگوں سے ڈھاکہ پہنچنے کی درخواست کی ۔قائدین کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کے استعفے تک تحریک جاری رہیگی

اس اعلان پر اتوار کی شام ہی سے لاکھوں لوگوں نے بنگلہ دیشی دارالحکومت میں ڈیرے ڈالدئے تھے۔مظاہرین وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ اور پارلیمان کی عمارت میں گھس گئے۔ اسوقت حسینہ واجد نے فوجی ہیڈکوارٹر میں پناہ لی ہوئی تھی۔

اسی دوران صدارتی محل میں امیر جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلست پارٹی (BNP)کے رہنماوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں، علما، سول سوسائٹی، طلبہ رہنماوں نے فوج کے سربراہ جنرل وقار الزماں سے ملاقات کی ۔عوامی لیگ اور اسکی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو مدعو نہیں کیا گیا۔ملاقات کے بعد BNP کے سربراہ مرزا فخرالاسلام عالمگیر اور امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان نے صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ ہنگاموں سے ملک سے شدید نقصان اٹھایا ہے۔ نوخٰیز بچے مارے جارہے ہیں۔کاروبار تباہ ہوگیا اور لاکھوں گھروں میں فاقے کی نوبت آگئی ہے۔ ان رہنماوں نے  کہا کہ انتقامی طرزعمل سے اجتناب، جمہوریت کی بحالی، منتخب حکومت اور نفرت کی سیاست ختم کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جناب عالمگیر نے بتایا کہ بی این پی کی قائد خالدہ ضیا، تمام سیاسی قیدیوں اور حالیہ ہنگاموں میں گرفتار ہونے والے طلبہ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جنرل صاحب کو بتادیا ہے کہ مارشل لا مسئلے کا حل نہیں۔

اسکے چند گھنٹے بعد فوجی ہیڈکوارٹر میں بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کے ہمراہ جنرل وقارالزماں نے اعلان کیا کہ حسینہ واجد نے استعفیٰ دیدیا ہے اور جلد ہی عبوری حکومت قائم کردی جائیگی۔  بنگلہ دیشی وزیراعظم اس سے پہلے ہی فرارہوچکی تھیں۔

ہندوستانی ٹیلی ویژن NDTVکے مطابق حسینہ واجد اپنی ہمشیرہ شیخ ریحانہ کے ہمراہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں اگرتلہ پہنچیں جہاں سے انھیں ہندوستانی فوج کے پیلی کاپٹر میں دہلی کے مضافاتی علاقے غازی آباد کے ہندن فوجی اڈے پہنچایا گیا۔ پیر کی رات انھوں نے ہندوستانی مشیر قومی سلامتی اجیت دوال سے ملاقات کی۔ بی بی سی کے مطابق لندن میں حسینہ واجد کے صاحبزادے  سجیب واجد نے صحافیوں کو بتایا کہ انکی والدہ اب سیاست میں واپس نہیں آینگی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سجیب کا یہ بیان انکی والدہ کی جانب سے برطانوی حکومت کو دی جانیوالی ضمانت اور سیاسی پناہ کیلئے انکی درخواست کا حصہ ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 9 اگست 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 9 اگست 2024

روزنامہ امت کراچی 9 اگست 2024

ہفت روزہ رہبر 9 اگست 2024