اسماعیلِ وقت،اسماعیل ہانیہ
وہ تو وہ ہے تمہیں ہوجائیگی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
اسماعیل عبدالسلام ہنیۃ کے
آباواجداد کئی نسلوں سے ساحلِ بحیرہ روم پر واقع خوبصورت شہر عسقلان کے
سرسبزوشاداب گاوں الجورہ میں آباد تھے۔ اسرائیل کے قیام پر 1948 میں لاکھوں
فلسطینیوں کی طرح ہنیۃ خاندان کو بھی اپنے آبائی گھر سے بیدخل کرکے جنوب میں غزہ
ہانک دیا گیا۔ اسوقت یہ 12 کلومیٹر چوڑی اور 41 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی مصر کا حصہ
تھی۔ ہنیہ صاحب کے والدین نے شمالی غزہ کی خیمہ بستی الشاطی میں پناہ لے لی جہاں
1962 میں اسماعیل ہنیہ نے آنکھ کھولی، یعنی موصوف اپنی ہی زمین پر پناہ گزین کی
حیثیت سے پیدا ہوئے۔ انکی ولادت کے پانچ سال بعد 1967 کی چھ روزہ جنگ میں غربِ
اردن، مشرقی بیت المقدس، صحرائے سینائی کے بڑے علاقے اور گولان کی پہاڑیوں کیساتھ
غزہ پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔
جناب ہنیہ نے 1987 میں جامعہ
اسلامیہ غزہ سےعربی ادب میں بی اے اور اسکے
بعد انتظامی امور میں ایم اے کیا۔ دورِ طالب علمی ہی سے ہنیہ فلسطین کی
آزادی کیلئے سرگرم ہوگئے اور قیدو بند کی آزمائشوں سے گزرے۔رہائی پر انھیں ملک بدر
کرکے لبنان بھیج دیا گیا لیکن وہ جلاوطنی کی خلاف وزری کرتے ہوئے غزہ واپس آگئے اور
جامعہ غزہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ساتھ ہی وہ حماس کی تنظیم سے وابستہ
ہوگئے۔
ریاست فلسطین کے پہلے
آزادانہ انتخابات 25 جنوری 2006 کو منعقد ہوئے۔ متناسب نمائندگی کی بنیاد پرہونے
والے انتخابات میں حماس نے 132 رکنی قانون ساز کونسل (قومی اسمبلی) کی 74 نشستیں
جیت لیں۔ قریب ترین حریف الفتح کو 54 نشستوں پر کامیابی ہوئی۔ مارچ 2006 میں اسماعیل
ہنیہ نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا لیکن اسرائیل نے دہشتگرد قراردیکر انکی نقل و حرکت
محدود کردی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے فلسطین کی امداد بند کردی اورمغرب و
اسرائیل کے دباو پر صدر محمود عباس نے صرف پندرہ ماہ بعد اسماعیل ہنیہ کی حکومت
تحییل کردی۔ اسکے نتیجے میں الفتح اور حماس کے درمیان خونریز تصادم ہوا جس میں دونوں
طرف کے ماہر جانباز مارے گئے۔ فلسطینیوں کی نام نہاد حکومت، مقتدرہ فلسطین (PA)غرب اردن تک محدود
ہوگئی اور غزہ کا انتظام حماس نےسنبھال لیا۔ اسماعیل ہنیہ نے محمود عباس کی جانب
سے جاری ہونے معزولی کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور 2014 میں مدت پوری ہونے تک
بطور وزیراعظم فلسطین کام کرتے رہے تاہم انکی عملداری غزہ تک محدود رہی۔
تین
سال بعد 2017 میں مدت مکمل ہونے پر پولیٹیکل بیورو کے سربراہ خالد مشعل اپنے عہدے
سے سبکدوش ہوگئے اور جناب ہنیہ کو بیورہ کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ جسکے بعد ہنیۃ
صاحب بیوروآفس قطر منتقل ہوگئے تاہم اہلیہ کے سوا انکا سارا خاندان غزہ میں قیام
پزیر رہا۔
اسرائیلیوں
کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کی تمام منصوبہ بندی اسماعیل ہنیہ اور
جناب یحیٰ سنوار نے کی تھی چنانچہ وہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ہٹ لسٹ پر
تھے۔اسرائیل نے سات اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے ہنیۃ خاندان کو چن چن کر
نشانہ بنایا۔آغاز ہی پر انکے بھائی اور بھتیجے سمیت انکے خاندان کے 10 افراد جاں
بحق ہوئے۔ایک ماہ بعد انکی پانچ سالہ پوتی کو ڈرون نے بھسم کردیا، کچھ دن بعد بمباری
سے انکا کم عمر پوتا جاں بحق ہوا۔ اس سال اپریل میں ڈرون نے ایک کار کو نشانہ
بنایا جس میں اسماعیل ہنیۃ کے تین جوانسال صاحبزادے اپنی چار بیٹیوں کے ساتھ سفر
کررہے تھے۔ صرف ایک بچی زندہ بچی وہ بھی دودن بعد زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی۔ یہ
لوگ عید ملنے اپنے رشتے داروں کے پاس جارہے تھے۔ اس دوران قطر میں اسماعیل ہنیہ کی
اہلیہ علیل تھیں جنکی عیادت کووہ اسپتال گئے۔ جب وہ دوسرے مریضوں کی مزاج پرسی کررہے
تھے تب انھیں بچوں کی شہادت کی اطلاع ملی۔ خبر سن کر اسماعیل ہنیہ نے مغفرت کی دعا
کی اور عیادت جاری رکھی۔ اپنی بیوی کے بستر پر پہنچ کر شریک حیات کو یہ خبر سنائی
تو اس خاتون نے خاندان کو شہادت کا افتخار عطا کرنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ جب
ایک صحافی نے جناب ہنیہ سے دلی تاثر بیان کرنے کو کہا تو وہ سپاٹ لہجے میں بولے
غزہ میں ہزاروں نوجوان شہید ہوچکے ہیں اور میرے بچوں کا خون ان سب کے خون سے زیادہ
قیمتی نہیں۔ تادم تحریز اسماعیل ہنیۃ خاندان کے 60 افراد غزہ میں شہید ہوچکے ہیں۔
جناب
اسماعیل ہانیہ کی نماز جنازہ پورے احترام سے تہران میں اداکی گئی جسکی امامت رہبر
ایران حضرت آئت اللہ خامنہ ای نے کی جسکے بعد میت قطر بھیج دی گئی۔ اس موقع پر انکی
اہلیہ، امل ہانیہ کے صبر نے لوگوں کو رلا دیا۔ امل نے کہا 'میرے محبوب ! آنسو پر قابو نہیں لیکن تمہاری
جدائی پر اپنے رب سے کوئی شکوہ بھی نہیں۔ ملاقات ہو تو آقا(ص) کو میراسلام عرض
کرنا۔ ہماری ننھی پوتیاں تمہاری سینے پر سونے کی عادی تھیں، اسی لئے ان معصوموں کے
مہربان رب نے دادا میاں کو بھی وہیں بلالیا۔ یہ دنیا عارضی اورجدائی بھی عارضی۔ اب
انشااللہ اپنے رب کی جنت میں تم سے ملوں گی کہ تم نے اپنی ساری زندگی اسی کے حصول
کیلئے کھپادی۔
جمعہ 2
اگست کو دوحہ کی جامع مسجد امام عبدالوہاب میں جناب ہانیہ کی نماز جنازہ ادا کی
گئی۔ مسجد کھچاکھچ بھری تھی اور 50 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں ہزاروں لوگ چلچلاتی
دھوپ میں باہر صفیں بنائے کھڑ ے تھے۔ نماز جنازہ میں امیر قطر تمیم بن حماد
الثانی، انکے والد حمد بن خلیفہ، ایران کے اول نائب صدر محمد رضا عارف، ترک
وزیرخارجہ حکن فیضان اور امیر جماعت اسلامی ہاکستان حافظ نعیم الرحمان نے بھی شرکت
کی۔
اس
سوگوار گفتگو کا اختتام ایک حوصلہ افزا نوٹ پر
آئے دن کے چھاپوں، عسکری
دراندازی، زمینوں پر قبضہ، پکڑ دھکڑ اور قتل عام کے باوجود اس سال غرب اردن کے
پچاس ہزار طلبہ میٹرک کے امتحان میں شریک ہوئے۔ بدقسمتی سے غزہ ہائی اسکولوں کے
39ہزار بچوں کا امتحان نہ لیا جاسکا۔ فلسطینی وزارت تعلیم نے اپنے بیان میں کہا 'غزہ
کے بچو! امتحان کے تیاری جاری رکھو، تمہارا تعلیمی سال ضائع نہیں ہونے دیا جائیگا۔
حالات میں بہتری آتے ہی غزہ میں امتحانات ہونگے'
ہفت روزہ فرائیڈے
اسپیشل کراچی 9 اگست 2024
ہفت
روزہ دعوت دہلی 9 اگست 2024
روزنامہ
امت کراچی 9 اگست 2024
No comments:
Post a Comment