بنگلہ دیش اور جماعت اسلامی
بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلیوں
کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مبالغہ آمیز انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلام پسند عناصر
کیلئے یہ سنار بنگلہ میں اسلامی انقلاب کی
نوید ہے تو روشن خیال بنگلہ دیش میں ملاملتڑی الائنس کا خوف ظاپر کررہے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ طلبہ تحریک
ہے جو کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوئی۔ڈھاکہ ہائیکورٹ کے فیصلے سے یہ بحران پرامن حل کے
قریب پہنچ چکا تھا اور عدالتی فیصلے پر علمدرآمد کیلئے وزارت قانون نے گزٹ کا مسودہ
بھی وزیراعظم کا بھیج دیا تھا۔
لیکن حسینہ واجدنے طلبہ
مظاہروں کے دوران پرتشدد واقعات اور جانی
و مالی نقصانات کی ذمہ داری جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی پر ڈالنے
کیساتھ 'شر پسند' طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی شروع کردی۔ایک جانب جماعت اسلامی
اور اسلامی چھاترو شبر پر پابندی لگادی گئی تو دوسری طرف ڈھاکہ پولیس نے بلوہ، اقدام قتل، کارِ سرکار میں
مداخلت، غداری ، پاکستانی فوج کی ایما پر بنگلہ دیش کو عدم استحکام سے دوچار کرنے
کے الزامات پر دو لاکھ تیرہ ہزار افراد پر مقدمات قائم کردئے۔ زیادہ تر مقدمات
“نامعلوم” افراد کے خلاف بنائے گئے۔بہت سے الزامات ایسے ہیں جنکے ثابت ہونے پر
سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ پرچے کٹتے ہی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور صرف 24
گھنٹوں کے دوران 4500 طلبہ دھر لئے گئے۔ طالب علم رہنما ناہید اسلام اور آصف محمود
کو اسپتال سےگرفتار کیاگیا۔ ساتھ ہی باغی طلبہ کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی اور سارے
ملک میں درجنوں طلبہ کو سادہ لباس پولیس نے ہلاک کردیا۔
طالب علم رہنماوں نے الزام لگایا
کہ نوجوانوں کے خلاف خصوصی آپریشن کیلئےہندوستان کی خفیہ پولیس کے ہزاروں اہلکار
بنگلہ دیش بلائے گئے ہیں اور باغیوں کو ٹھکانے لگانے کے اس آپریشن کی نگرانی قومی
سلامتی کےہندوستانی مشیر اجیت دوال کررہے ہیں۔ طلبہ رہنماوں کا کہنا تھا ہے کہ ٹارگیٹ کلنگ کے ساتھ نوجوانوں
کو معذور کرنے کی منظم مہم شروع کردی گئی
ہے اور اسپتال ایسے طلبہ ے بھرگئے ہیں جنکے پیر اور ہاتھ نامعلوم افراد نے توڑدئے،
ریڑھ کی ہڈی پر شدید ضربات سے کئی طلبہ کا
نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا۔ معذور کئے جانیوالے زیادہ تر افراد جامعات کےطلبہ ہیں جو شائد اب کبھی اپنے پیروں پر کھڑے
نہ ہوسکیں
انتقامی کاروائی کئ جواب میں
طلبہ نے 2 اگست کو ملک گیر یوم سیاہ منایا۔محترمہ نے تشدد کا سہارا لیا اور 4 اگست
کو 93 طلبہ ہلاک کردئے گئے۔ اسی رات طلبہ کی اپیل پر سارے ملک سے آنے والے لاکھوں
افراد نے وزیراعظم ہاوس سمیت سارے ڈھاکہ پر قبضہ کرلیا اور حسینہ واجد فرار ہونے
پر مجبور ہوگئیں۔
مہم میں جماعت اسلامی اور بی
این پی کی شرکت حمائت کی کی سطح پر تھی یعنی انکے کارکنوں نے گرفتار طلبہ کی داررسی
کی اور ڈھاکہ مارچ میں عوام کو لانے میں تنظیمی مدد فراہم کی۔ جامعات میں موجود
شبر کے کارکن بھی احتجاج میں شریک ہوئے
تاہم مہم طلبہ کے ہاتھ میں تھی اور اب تک ہے۔ ناہید
اسلام، آصف محمود، سرجیس عالم اور ابوبکر موجمدار تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔ ممکن
ہے قائدین میں سے کچھ لوگوں کی نظریاتی وابستگی یا ہمدردی اسلامی چھاترو شبر کے ساتھ
ہو، لیکن ان میں سے کسی کا شبر سے تنظیمی تعلق نہیں۔ ناہید اسلام کے معتمدِ شبر
ہونے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔
جماعت و شبر کی ساری قیادت اور ہزاروں بلکہ لاکھوں کارکن جیل میں اور انکے دفاتر مقفل تھے۔ یہ سب لوگ کل رہا ہوئے ہیں۔ ڈھاکہ میں جماعت اسلامی کے بازیاب ہونے والے مرکزی دفتر کا افتتاح کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا 'ہمیں نہ عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت ملی ہے اور نہ جماعت اسلامی کو کوئی دلچسپی ہے'۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس وقت اصل ضرورت دستور کے مطابق 90 دن میں انتخاب کرانے کی ہے۔ جماعت کو اصل خوشی اس بات کی ہے کہ دودہائیوں بعد کھل کر کام کرنے کا نوقع مل رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment