مذاکرات کار 'تھک گئے' بات چیت میں ایک ہفتے کا
وقفہ
امن
مذاکرات کے دوران اسرائیل کا لبنان پر بڑا حملہ
امریکہ کی امن تجویز یا ہتھیار ڈالنے کی
دستاویز؟؟
غزہ کی دو حصوں میں تقسیم کیلئے نظارم راہداری
کی تعمیر
غیر
مشروط جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی مکمل پسپائی پر مزاحمت کاروں کا اصرار
ایک
ہفتہ 'سُستانے' کے بعد امریکی، اسرائیلی اور عرب مذاکرات کاروں نے غزہ امن کیلئے
قاہرہ میں سر جوڑ لئے۔ اسرائیلی وفد کی قیادت موساد کے سرنراہ ڈیوڈ برنی جبکہ
اسرائیلی فوج کے تزویرانی (اسٹریٹیجک) ڈائریکٹر
الائیزر تولیڈانو Eliezer Toledanoانکی اعانت کررہے ہیں۔امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس، قطر کے وزیراعظم و وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی اور مصر کے عسکری و سراغرساں حکام بھی بات چیت
میں شریک ہیں۔عجیب بات کہ مزاحمت کاروں کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔
ان کے ایک نمائندے نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر فرانسیسی خبر
رساں ایجنسی AFPکو بتایا کہ اہلِ غزہ کا ایک نمائندہ
بھی قاہرہ جارہا ہے تاہم وہ امن اور قیدیوں کی رہائی پر ہونے والی بات چیت میں حصہ
نہیں لیگا۔
امریکہ اور اسرائیل نے 'معاہدہ امن' کی جو تجویز پیش کررہے ہیں اسکے مطابق
- معاہدے پر دستخط ہوتے ہی تمام عسکری سرکرمیاں روک دی جائینگی تاکہ قیدیوں
کا تبادلہ پرامن انداز میں ہوسکے
- اہل
غزہ تمام اسرائیلی قیدی رہا کردینگے جبکہ رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کی
رہائی اسرائیل کی تیار کردہ فہرست کے مطابق ہوگی
- اسرائیلی
فوج غزہ سے واپس نہیں ہوگی بس آبادعلاقوں سے پیچھے ہٹ جائیگی
- مصری
سرحد پر فلاڈیلفی راہداری (Philedelphi
Corridor) کے علاوہ غزہ پٹی کو درمیان سے تقسیم کرنے
والی نظارم راہدرای (Netzarim
Corridor)پر اسرائیلی فوج موجود رہیگی
- بے
گھر ہونے والے فلسطینیوں کی اپنے گھروں کو واپسی اسرائیلی فوجی چوکیوں سے گزر کر ہوگی
- غزہ
تعمیر نو کاسارا کام اسرائیلی حکام کی نگرانی میں ہوگا
- 'دہشت
گردی' کی صورت میں اسرائیل کو پھرپورفوجی کاروائی کا حق حاصل ہوگا
قاہرہ
میں امن مذاکرات جاری تھے کہ 24 اور 25 اگست کی درمیانی شب اسرائیل نے جنوبی لبنان
پر خوفناک حملہ کردیا۔ امریکی ساختہ 100 طیاروں کی ٹکری نے سینکڑوں مقامات پر بم
اور میزائیل برسائے۔ صبح کو اپنے وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے ہمراہ صحافیوں سے
باتیں کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو نے فخر سے کہا کہ لبنانی، اپنے کمانڈر فہد شکر
کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے اسرائیل پر بڑا حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی
فضائیہ نے انکا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا۔ موصوف کی یہ لن ترانی جاری ہی تھی کہ فضا گڑگڑاہٹ سے تھرّا اٹھی۔لبنانی مزاحمت کاروں نے
بیک وقت320 روسی ساختہ Katyusha راکٹ، میزائیل اور خودکش ڈرون داغ دئے۔ امریکہ کے فراہم
کردہ دفاعی نظام، آئرن ڈوم نے اکثر میزائیل دوارانِ پرواز غیر موثر کردئے لیکن مزاحمت کاروں نے جلیل الاعلیٰ (Upper Galilee)میں جبل الجرمق (Mount Meron)کے اسرائیلی اڈے، تل ابیب کے قریب گیلوٹ میں اسرائیلی فوج کے
سراغرساں مرکز اور جولان کی پہاڑیوں پر چار عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔میزائیل
حملے میں لبنانی سرحد کے قریب گشت کرتی بحریہ کی ایک کشتی ڈوب گئی اور ایک پیٹی
افسر ہلاک ہوگیا۔ شعلوں سے جھلس کر کشتی پر سوار کئی فوجی زخمی بھی ہوئے۔اسرائیلی
حکام نے گیلوٹ پر حملے کی تردید کی ہے۔
اسی کیساتھ 25 اگست کی صبح اہل غزہ نے وسطی اسرائیل کی جانب راکٹ
داغ کر امریکہ امن منصوبہ مسترد کرنے کا اعلان کردیا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے
مطابق ایک بیان میں مزاحمت کاروں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اسرائیلی فوج کی مکمل پسپائی سے پہلے قیدیوں کے تبادلے پر بات نہیں
ہوگی۔ بات چیت کے دوران اسرائیلیوں نے خیر سگالی کے طور پر مرکزی قیادت کو نشانہ
نہ بنانے کی پیشکش کی تھی جسے اہل غزہ نے انتہائی توہین آمیز قراردیا۔بیان میں کہا
گیا ہے کہ ہمارے قائدین کا خون 30 ہزار بچوں کے لہو سے زیادہ قیمتی نہیں۔ مزاحمت کاروں کے خیال میں یہ
امن معاہدہ نہیں بلکہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی میں سہولت کاری کی فارمولا ہے۔
اسرائیل اور مصر دونوں کا
کہنا ہے کہ مذاکرات کا موجودہ دور کسی اتفاق رائے کے بغیر ختم ہوگیالیکن امریکہ کے
خیال میں گفتگو کے دوران فریقین کا انداز مثبت رہا۔واشنگٹن پرامید ہے کہ معاہدہ
جلد ہوجائیگااور تفصیلات طئے کرنے کیلئے ورکنگ گروپ میں بات چیت جاری رہیگی۔ معلوم
نہیں یہ چچا سام کی خوش فہمی ہے یا کملا ہیرس کی انتخابی مہم کا حصہ۔
یہاں
فلاڈیلفی اور نظارم راہداریوں پر چند سطور سے قارئین کو فلسطینی مزاحمت کاروں کے عسکری
انخلا پر اصرار کی وجہ سمجھنے میں مدد ملے کی۔
فلسطینیوں
کے تابڑ توڑ حملوں سے پریشان ہوکر 2004 میں اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نےقبضہ
بستیاں (Settlements) اپنے ہاتھوں مسمار کرکے غزہ سے واپسی کی
قرارداد منظور کی جو 'معاہدہ دستبردای یا Disengagement Agreementکے نام سے مشہور ہے۔
اس معاہدے کے تحت مصر غزہ سرحد پر بحیرہ روم سے کریم شلوم تک 100میٹر چوڑی پٹی کو
فلاڈیلفی راہداری کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تحت اس راہداری کے جنوب یعنی مصری
سرحد پرواقع معبر رفح ( رفح کراسنک) کی نگرانی مصری فوج کریگی اور راہداری کے
شمالی حصے میں مقتدرہ فلسطین (PA)کے فوجی تعینات ہونگے۔ اس بندوبست کامقصد غزہ کی ناکہ بندی تھا
کہ ساحلوں کی جانب اسرائیلی بحریہ جبکہ
شمالی و مشرقی سرحدوں پر اسرائیلی فوج کھڑی ہے۔ پارلیمانی اتتخابات میں مزاحمت
کاروں کی زبردست کامیابی اور اسماعیل ہنیہ کے وزیراعظم بننے کے بعد اہل غزہ اور
مقتدرہ فلسطین میں کشیدگی پیدا ہوئی اور جب اسرائیل و مغرب کے دباو پر ہنیہ معزول
کئے گئے تو کشیدگی نے خونریز تصادم کا رخ اختیار کرلیا اور بات چیت کے بعد مقتدرہ
فلسطین نے فلاڈیلفی راہداری سے اپنے فوجی ہٹالیے۔ اب اسکے ایک جانب مزاحمت کار
دستے تھے تو رفح گیٹ کے دوسری جانب مصری فوج۔
صدر حسنی مباک کے دور تک ر فح گیٹ مضبوطی سے مقفل رہا اور
ایک سوئی بھی مصری خفیہ پولیس کی چھان پھٹک کے بغیر نہ آسکتی تھی۔ زبردست عوامی
تحریک کے بعد ہونے والے کے انتخابات میں
جب ڈاکٹر مورسی مصر کے صدر منتخب ہوگئے تو 30 جون 2012کو حلف اٹھانے ہی انھوں نے
رفح جاکر علامتی تالہ یہ کہہ کر توڑ دیا کہ فلسطینیوں تم ہمارے اور مصر تمہارا ہے۔
اس جرم کی پاداش میں صرف ایک سال بعد مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر معزول کرکے جیل
بھیج دئے گئے اور حراست کے دوران ہی 2019میں انکا انتقال ہوگیا، جنرل السیسی نے
اقتدار پر قبضہ کرتے ہی غزہ کی ناکہ بندی سخت کردی۔اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ اپنے
ایک سالہ اقتدار میں ڈاکٹر مرسی نے راہداری کے نیچے سرنگیں کھُدوائیں جن سے اسلحہ
غزہ بھیجا جارہا تھا۔ جنرل السیسی نے سرنگوں کا سراغ لگاکر انھیں گٹر کے غلیظ پانی
سے بھردیا لیکن اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ بہت سی سرنگیں اب بھی موجود ہیں۔ اسی کا
بہانہ بناکر اسرائیل نے ر فح کی گنجاں آبادی پر دس دن تک مسلسل بمباری کرکے اس
راہداری پر قبضہ کرلیا۔ اس آپریشن میں ہزاروں نہتے فلسطینی مارے گئے۔ گزشتہ ہفتے
ر فح کے قریب المواصی کے کھیتوں میں کام کرتے چار دہقانوں کو ٹینکوں نے روند دیاگیا۔
فلاڈلفی راہداری کے علاوہ کنٹرول مستحکم کرنے کیلئے غزہ پٹی
کے بیچوں بیچ اسرائیل سرحد پر نحل آز سے
بحر روم کے ساحل تک نظارم کے نام سے ایک 7
کلومیٹر طویل اور چار کلومیٹر چوڑی اضافی راہداری تعمیر کی گئی ہے۔ یہاں نظارم نام
کی اسرائیلی بستی موجود تھی جسے 2005 میں پسپا ہوتے ہوئے اسرائیلی فوج نے خود تباہ
کیا تھا۔ راہداری کو اپنی 'عظمت رفتہ' سے موسوم کرکے قبضہ گردوں نے بد نیتی ظاہر کردی
ہے۔راہداری کا راستہ بنانےکیلئے بحیرہ روم
کے ساحل پر آباد فلسطینیوں کے ہنستے
بستے شہر دیر البلاح کو فنا کردیا گیا۔اسکے بازار پر بمباری سے درجنوں جاں بحق ہوئے اور ایک اسکول کو
زمیں بوس کردیا گیا جس میں بچوں سمیت 22 افرارد زندہ دفن ہوگئے۔
اس راہداری نے 41 کلومیٹر طویل غزہ کو دو حصوں میں تقسیم
کردیا ہےجنکا ایک دوسرے سے اب کوئی رابطہ نہیں۔ جنوب میں رفح یا فلاڈیلفی اور درمیان میں نظارم راہداری
پر کنٹرول برقرار رہنے کی صورت میں غزہ، غربِ اردن کی شکل اختیار کرجائیگا۔
اہل
غزہ کے سخت روئے پر اب یہ کہا جارہا ہے کہ رفح پر کنٹرول کے معاملے میں تو اسرائیل
کوئی رعائت دینے کو تیار نہیں لیکن نظارم راہداری کا انتظام امریکہ، اسرائیل اور
'معتدل' عرب ریاستوں کی مشترکہ فوج کو دینے پر نیتن یاہو کو رضامند کیا جاسکتا ہے۔
اس افواہ نما نئی تجویز پر اہل غزہ کا رد عمل سامنے نہیں آیا۔
شرمناک
شرائط اہل غزہ سے منوانے کیلئے غزہ پر آتش و آہن کی بارش تیز کردی گئی ہیں۔ اقوام
متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطین UNRWAکا کہنا ہے کہ 17 اگست سے غزہ پرمسلسل بمباری ہورہی ہے۔تمام پناہ گاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔لوگ بمباری
اور ڈرونوں کی برستی گولیوں سے بچنے کیلئے تباہ شدہ عمارت کے ملبے کے بچے کھچے
حصوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج اس بے رحمی سے بمباری کررہی ہے کہ گزشتہ
ہفتے انکے اپنے فوجی لپیٹ میں آگئے اور اکیس سالہ اسرائیلی کپتان ہلاک ہوگیا۔غزہ کیساتھ غرب اردن پر غضب ڈھانے کا سلسلہ
بھی جاری ہے۔اسرائیلی فوج کے کیساتھ مسلح قبضہ گرد فلسطینی آبادیوں پر حملہ کررہے
ہیں۔ ایسی ہی ایک مشترکہ کاوائی میں قلقیلیہ کا گاوں باقۃ الحطب تباہ کردیا گیا۔فوجی
گھروں میں گھس گئے، خواتین کے بال نوچے گئے۔ حملے میں درجنوں مکان منہدم ہوئے اور
سو سے زیادہ نوجوانوں کو فوج پکڑ کر لے گئی۔
کامیابی کے دعوے اور بہیمانہ
کاروائی اپنی جگہ لیکن مزاحمت میں کمی کے اب تک کوئی آثار نہیں۔انیس اگست کو تل
ابیب میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں بمبار جاں بحق اور افراد چند افراد زخمی ہوئے۔ اہل غزہ نے ذمہ
داری قبول کرتے ہوئے اپنے اعلامئے میں کہا کہ یہ محض آغاز ہے۔ ہمارے گھروندے
پھونکنے والوں کے محلات بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
اسرائیل فوج بھی شدید دباو میں ہے اور سپاہیوں کی
چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔ روزنامہ الارض (Haaretz) کے مطابق محفوظ دستوں (Reservists) کے 15000سپاہیوں کو طویل دورانیے تک محاذ پر فرائض انجام دینے کے
بعد گھر واپس جاتے ہی دوبارہ طلب کرلیا گیا۔ کنیسہ کی مجلس قائمہ برائے دفاع کے
روبرو سماعت کے دوران اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ نوجوان فوج میں بھرتی سے
گریز کررہے ہیں، لازمی فوجی بھرتی سے بچنے کیلئے بیماری کا بہانہ اور استثنی کیلئے حفظ توریت مدارس (Yeshiva)میں داخلے بڑھ گئے ہیں۔مدارس
کے طلبہ کی جانب سے فوی بھرتی کی حکم عدولی جاری ہے۔اخباری نمایندوں سے باتیں کرتے
ہوئے ان طلبہ کے ترجمان نے کہا 'ہتھکڑی پہن کر جیل جانا، فوجی وردی پہن کر غزہ کی
جہنم میں اترنے سے بہتر ہے'
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 اگست 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 30 اگست 2024
روزنامہ امت کراچی 30 اگست 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم ستمبر 2024
No comments:
Post a Comment