حسینہ واجد پر بین الاقوامی جرائم کی عدالت (ICC)میں
مقدمہ
کپڑےکی صنعت کو خطرہ
ہنگاموں میں فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا غیر
ضروری استعمال کیا۔ اقوام متحدہ
بنگلہ دیش میں صورتحال آہستہ
آہستہ معمول پر آتی جارہی ہے۔ تاہم عوامی سطح پر حسینہ واجد اور انکےوالد شیخ مجیب الرحمان کیخلاف
نفرت کم ہوتی نظر نہیں آتی اور عوامی لیگی کارکنوں پر حملے کے اکا دکا واقعات اب
بھی ہورہے ہیں۔ بدھ 14 اگست کو عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس سے فون پر
بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے
انسانی حقوق وولکر ترک( (Volker
Türk نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق
کمیشن بنگلہ دیش میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیق کیلئے ایک ٹیم ڈھاکہ بھیجنے کا
ارادہ رکھتا ہے
اس گفتگو کے بعد کمشنر کے
آفس نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ بنگلہ دیش کے حالیہ ہنگاموں میں 32 بچوں سمیت ساڑھے چھ سو ہلاک اور
ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔ زخمی اور ہلاک شدگان میں مظاہرین کے علاوہ عام راہگیر بھی
شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فوج نے مظاہرین کیخلاف طاقت کا غیر ضروری استعمال کیا۔
کمشنر نے عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ تناو اور کشیدگی کم کرنے اور اقلیتوں کے
تحفظ کے موثر اقدامات کے جائیں۔
مظاہرین پر
تشدد اور قتل عام کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے بنگلہ دیش کے بین
الاقوامی جنگی جرائم ٹریبونل (ICT)نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ مکافات عمل کا جبر کہ
حسینہ واجد صاحبہ نے یہ کمیشن اپنے دورحکومت میں جماعت اسلامی کے رہنماوں کو
پھانسی دینے کیلئے تشکیل دیا تھا۔ حسینہ واجد کی خواہش تھی کہ
جماعت اسلامی کے رہنماوں کے خلاف 'جنگی جرائم' کے مقدمات بین الاقوامی جرائم عدالت (ICC)میں چلائے جائیں لیکن ICCنے عدم شواہد کی بنا پر مقدمہ درج کرنے
سے انکار کردیا۔ چنانچہ انھوں نے ایک کچن ٹریبیونل بناکر جماعتی رہنماوں کو تختہ
دار پر کھینچ دیا۔
اب اسی ٹریبیونل میں حسینہ
واجد اور انکی حکومت کے 8 افراد پرانسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا مقدمہ دائر
کردیا گیا۔ استغاثہ، پولیس کی براہ راست فائرنگ سے مارے جانے والے طالب علم احمد
صائم کے غمزدہ باپ کی جانب سے بنگلہ دیشی وکیل
غازی ایم ایچ تمیم
نے درج کرایا ہے۔احمد صائم نویں جماعت کا طالب علم تھا۔مقدمے میں
شیح حسینہ واجد کے ساتھ سابق وزیر مواصلات عبیدالقدیر، سابق وزیرداخلہ اسدالزمان
خان، سابق وزیر مملکت برائے مواصلات جنید احمد پالک، سابق وزیر مملکت برائے
اطلاعات محمد علی عرفات، سابق آئی جی پولیس چوہدری عبداللّٰہ المامون ، سابق سربراہ
محکمہ سراغرسانی (ڈی بی) چیف ہارون رشید، پولیس کمشنر ڈھاکہ حبیب الرحمان اور
ریپیڈ ایکشن بٹالین (ریب) کے سابق ڈائریکٹر جنرل ہارون الرشید کو بھی نامزد کیا
گیا ہے۔ ایم ایچ تمیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ICTکیساتھاایسی ہی درخواست وہ ICCکو بھی پیش کررہے ہیں۔
بنگلہ
دیشی حکومت، حسینہ واجد کی حوالگی کیلئے ہندوستان سے درخواست کررہی ہے۔ ڈاکٹر یونس
کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ 15 اگست کو
ہندوستان کے یوم آزادی پر مبارکباد کیلئے جب انھوں نے وزیراعظم نریندرامودی کو فون
کیا تو سابق وزیراعظم کی حوالگی پر بھی بات ہوئی۔ سفارتی ذرایع کے مطابق ہندوستانی
وزیراعظم نے ڈاکٹر یونس کی بات تحمل سے سن کر کہا کہ درخواست ملنے کی صورت میں
معاملے کے تفصیلی جائزے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائیگا۔
تطہیر
و احتساب کیساتھ عبوری حکومت کیلئے اسوقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی ہے۔
بنگلہ دیشی برآمدات کا 90 فیصہ حصہ سلے سلاے کپڑوں یا گارمنٹس پر مشتمل ہے۔ بنگلہ
دیشی ساختہ پاپلین اور فلالین کی قمیضیں امریکہ اور یورپ میں خاصی مقبول ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق سلے سلائے کپڑوں کی برآمدات میں بنگلہ دیش کا
چین کے بعد دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ George Classic, Croft & Barrowاور Wranglerبرانڈ کی بنگلہ دیش ساختہ مردانہ قمیضیں
امریکہ میں ہرجگہ نظر آتی ہیں۔
احتجاج
کے دوران سرکاری املاک کے ساتھ معروف برانڈز کے کارخانے
بڑے پیمانے پر نذرِآتش ہوئے۔ کپڑوں کے اکثر بڑے کارخانے عوامی لیگ رہنماوں کی
ملکیت ہیں اسلئے عوام نے ان پر اپنا غصہ اتارا۔ لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ کارخانے
جل جانے کی بنا پر عالمی فیشن برانڈز کی طلب کے مطابق مال کی فراہمی بنگلہ دیش
کیلئے ممکن نہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا میں موسم سرما کےلیے کپڑوں کی فراہمی میں
تاخیر ہورہی ہے۔ جسکی وجہ سے عالمی تقسیم کنندگان نے دوسرے ممالک کا رخ کرلیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کو ملنے والے آرڈر کا 40 فیصد حصہ کمبوڈیا یا
انڈونیشیا کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔
اگلے
ماہ سے کرسمس کیلئے آرڈر جاری ہونگے اور لگتا ہے کہ فراہمی کے حوالے سے بنگلہ دیش
پر تقسیم کنندگان کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے جسکی بحالی میں وقت لگے گا۔ برآمدات کے
بنگلہ دیشی ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ بین الاقوامی برانڈز نے کرسمس کیلئے چین، تھائی
لینڈ، مصر، کمبوٖڈیا اور انڈونیشا کی طرف دیکھنا شروع کردیاہے۔ اگر بنگلہ دیشی
کارمنٹس کی صنعت پر عالمی برانڈز کا اعتماد بحال نہ ہوا تو سُنار بنگلہ کی معیشت
بدترین کساد بازاری کا شکار ہوسکتی ہے۔معاملہ صرف بنگلہ دیش تک محدود نہیں بلکہ
اسکے منفی اثرات سے ہندوستان بھی متاثر ہوگا جو یہاں کی گارمنٹس صنعت کو سالانہ 11
ارب ڈالر مالیت کے دھاگے اور خام مال فراہم کرتا ہے۔
عبوری حکومت کو معاملے کی
نزاکت کا احساس ہے۔ گارمنٹس فیکٹریوں کے گرد
فوج کی تعیناتی کے ساتھ صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ایک Quick Reaction Force (QRF) تشکیل دی گئی ہے جسکی
نگرانی ڈاکٹر یونس خود کررہے ہیں۔
عمدہ معیار کے پارچہ جات اور
خوبصورت سلائی کی وجہ سے ساختہ بنگلہ دیش کپڑوں
کی امریکہ میں مقبولیت عروج پر ہے۔ اسی بنا پر مقامی تاجروں کا خیال ہے کہ اگر ملکی
سیاست میں استحکام اور امن و امان بحال ہوجائے تو منسوخ شدہ آرڈر واپس آسکتے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 اگست 2024
ہفت رزوہ دعوت دہلی 23 اگست 2024
روزنامہ امت کراچی 23 اگست 2023
ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 اگست 2024
No comments:
Post a Comment