Thursday, August 15, 2024

امریکہ کے صدارتی انتخابات۔ میدان سج گیا فیل بان اور خاتونِ خر

 

امریکہ کے صدارتی انتخابات۔ میدان سج گیا

فیل بان اور خاتونِ خر

 صدر بائیڈن کی دستبرداری کے بعد نائب صدر شریمتی کملا دیوی ہیرس نے پارٹی ٹکٹ کیلئے مندوبین کی مطلوبہ تعداد پوری کرلی ہے۔ جس وقت آپ ان سطور کو شرفِ مطالعہ عطا فرمارہے ہونگے،  شکاگو بیٹھک سے ہیرس صاحبہ کو پارٹی ٹکٹ مل چکا ہوگا۔آگے بڑھنے سےپہلے سرنامہِ کلام کی وضاحت ضروری ہے کہ اس سے کسی کی دل شکنی مقصود نہیں۔ ہاتھی ریپبلکن پارٹی کا نشان ہےاسلئے ہم نے سابق امریکی صدر کو فیل بان قراردیا جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی گدھے کے نشان سے پہچانی جاتی ہے چنانچہ کملا صاحبہ کو آپ خاتونِ خر کہہ سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کملا ہیرس نے ریاست مینیسوٹا (Minnesota) کے گورنر ٹم والز (Tim Walz)کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نائب صدر نامزد کردیا۔ صدر ٹرمپ نے نائب صدر کیلئے ریاست اوہایو کے سینیٹر جے ڈی وانس کا انتخاب کیا ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے اسرائیل نواز عناصر کا اصرار تھا کہ نائب صدر کا ٹکٹ ریاست پیسلوانیہ کے گورنر جاش شپیرو کو دیا جائے۔ جناب شپیرو ایک راسخ العقیدہ یہودی اور فلسطیینوں کے دشمنی کی حد تک مخالف ہیں۔ چنانچہ ڈیموکریٹک کے مسلم ارکان اور اراکین کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب اور الحان عمر نے صاف صاف کہدیا کہ اگر شپیرو کو سامنے لایا گیا تو مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ نہیں دینگے۔اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ کملا ہیرس نے جاش شپیرو کے بجائے  گورنر ٹم والز کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔

مجموعی  طور پر مسلمان ووٹروں تعداد اتنی نہیں کہ اسے اہمیت دی جائے لیکن یہاں صدارتی نتائج مجموعی یا Popularووٹ کے بجائے انتخابی Electoralووٹوں سے ترتیب دئے جاتے ہیں اسلئے کچھ ریاستوں میں مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ انتخابی کالج کیا ہے؟ اسے سمجھ لینے کی ضرورت ہے  تاکہ انتخابی نتائج کا تجزیہ درست انداز میں کیا جاسکے۔

امریکہ 50 آزاد و خود مختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی  ہر ریاست کا اپنا دستور، پرچم اورمسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح بااختیار ہیں۔امریکی صدر وفاق کی علامت اور اسکی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے اور اس مقصد کیلئے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeتشکیل دیا گیا ہے۔ امریکہ میں مرکزی الیکشن کمیشن یا مقتدرہ نہیں اور انتخاب کا انتظام اور نگرانی ریاستیں کرتی ہیں۔ کاغذات نامزدگی بھی ہر ریاست میں الگ الگ جمع کرائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستوں کے بیلٹ پیپر پر امیدواروں کی فہرست مختلف ہوتی ہے۔

کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اسکی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اور یہ اس ریاست کیلئے ایوان نمائندگان (لوک سبھا) اور سینیٹ (راجیہ سبھا) کیلئےمختص نشتوں کے برابر ہے۔ امریکہ میں ایوان نمائندگان کی نشتیں آبادی کے مطابق ہیں جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر ریاست سے دو دو سینیٹرمنتخب کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کیلئے انتخابی کالج میں تین ووٹ ہیں۔یعنی کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے اور 270 یا اس سے زیادہ ووٹ لینے والے کے سرپر امریکی صدارت کا تاج رکھدیا جائیگا۔

الیکٹرل کالج کی ہیت کو اسطرح سمجھئے کہ  نیویارک سے ایوان نمائیندگان کے 26 ارکان منتخب ہوتے  چنانچہ 2 سینیٹروں کو ملاکر انتخابی کالج میں نیویارک کے 28 ووٹ ہیں۔انتخابی کالج میں سب زیادہ ووٹ کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 54 جبکہ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ڈلوئر، ورمونٹ اس اعتبار سے بہت چھوٹی ہیں جنکے صرف تین تین ووٹ ہیں۔ الیکٹرل کالج میں 'سارے ووٹ جینتے والے کیلئے' کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی اس ریاست سے انتخابی کالج کیلئے مختص سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دئے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 54 الیکٹرل ووٹ اسے مل جائینگے۔ صرف ریاست مین Maine اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹرل ووٹ ایوان نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کئے جاتے ہیں ورنہ باقی سارے امریکہ میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔

دلچسپ بات کہ اس سال  5 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کیلئے 17 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹرل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کیلئے ووٹ ڈالینگے۔ ووٹنگ مکمل ہونے پر نتائج مرتب کئے جائینگے اور اسے ایک ڈبے میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائیگا۔6 جنوری 2025 کو سربراہ سینیٹ (امریکی نائب صدر) کی نگرانی میں تمام ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر سرکاری نتیجے کا اعلان ہوگا۔

یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ قانونی طور سے الیکٹرل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود گزشتہ دوسو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جب الیکٹرل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔

2016 کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو پاپولر ووٹوں کے اعتبارسے ڈانلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کئے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹرل ووٹوں کی تعداد کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔اس سلسلے چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب کہ مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے

گزشتہ انتخابات میں امریکی دارالحکومت سے صدر بائیڈن نے 92 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہاں مختص 3 الیکٹرل ووٹ اپنے نام کرلئے، جبکہ ایریزونا میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں جناب بائیڈن  کو  جنابب ٹرمپ پر صرف  0.3 فیصد ووٹوں کی برتری کے عوض 11 انتخابی ووٹ مل گئے۔کچھ ایسا معاملہ جارجیا میں ہوا جہاں 0.23فیصد برتری حاصل کرکے بائیڈن صاحب نے 16الیکٹرل ووٹ اپنے نام کرلئے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس بار پینسلوانیہ، مشیگن، وسکونسن، ایریزونا، نوادا اور جارجیا میں گھمسان کا رن پڑنا ہے۔ ان چھ ریاستوں کے الیکٹرل ووٹوں کی مجموعی تعداد 77 ہے اور انھیں ریاستوں میں امریکہ کے 47 ویں صدر کا فیصلہ ہوگا۔ وسکونسن، مشیگن، جارجیا اور ایریزونا میں مسلمان ووٹ بہت زیادہ تو نہیں لیکن سخت مقابلے کے تناظر میں یہاں مسلمانوں کا ووٹ بینک کنگ میکر سمجھا جارہا ہے۔

آج کی گفتگو ہم الیکٹرل کالج اور امریکی انتخابی نظام پر ختم کرتے ہیں۔ متحارب امیدواروں کا تعارف، انشااللہ اگلی نشست میں 

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 اگست 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 16 اگست 2024




No comments:

Post a Comment