حسینہ واجد کا عروج و زوال
پندرہ سال مسلط رہنے والی
حسینہ واجد فرار ہوکر ہندوستان پہنچ گئیں۔
ائے عقل والو! عبرت پکڑو
حسینہ واجد قیام پاکستان کے تقریباً ایک ماہ بعد 28
ستمبر 1947 میں ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے تنگی پورہ میں پیدا پوئیں۔ تنگی پورہ آجکل
گوپال گنج ضلع کا حصہ ہے۔ حسینہ واجد اپنے تین بھائیوں اور بہن سے بڑی تھیں۔
فسادات کے آغاز پر یہ ہندوستان فرار ہوگئیں اور قیام بنگلہ دیش کے بعد واپس آکر
1973 میں جامعہ ڈھاکہ سے بنگلہ ادب میں ایم اے کیا۔وہ دوران طالب عالمی عوامی
چھاترو لیگ کی رہنما تھیں۔پندرہ اگست 1975 کو ایک فوجی بٖغاوت میں انکے والد،
والدہ اور تینوں بھائی مارے گئے۔ حسینہ صاحبہ ان دنوں لندن میں اپنی بہن کے پاس
تھیں اسلئے محفوظ رہیں۔
فروری
1981 میں وہ عوامی لیگ کی سربراہ منتخب ہوئیں۔اس دوران انھوں نے جماعت اسلامی اور
بنگلہ دیش نینشلست پارٹی کے ساتھ مل کر جنرل حسین محمد ارشاد کی آمریت کیخلاف
تحریک چلائی،جس نے جنرل صاحب 1990 میں استعفی پر مجبور کردیا۔ دلچسپ بات کے تحریک
کے دوران حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کے درمیان لڑائی رہئی اور یہ اکثر ایک دوسرے سے
'کُٹی' ہوجاتیں۔ا سی بنا پر ان دونوں کو لڑاکو بیگمات کہا جاتا تھا
جون
1996 میں حسینہ واجد وزیراعظم منتخب ہوئیں اور پانچ سال بعد انھیں بی این پی اور
جماعت اسلامی کے اتحاد نے شکست دیدی۔ کچھ عرصہ بعد وہ لندن چلی گئیں۔ نومبر 2008
میں واپسی پر انھوں نے اپنے بدترین مخالف حسین محمد ارشاد سے اتحاد کرلیا۔ 2009 کے
انتخابات میں عوامی لیگ اور جنرل ارشاد کی جاتیہ لیگ اتحاد نے اکثریت حاصل کی اورحسینہ
واجد وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔
اس
دورِ حکومت میں انکا ایک نکاتی ایجنڈہ جماعت اسلامی کا خاتمہ تھا۔اس مقصد کیلئے
انھوں نے جنگ آزادی کے دوران بنگالی دانشوروں کے قتل اور بچیوں کی آبرویزی کے
مرتکب 'غدار بنگالیوں' کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کا اعلان کیا۔ مقدمہ چلانے کیلئے
خصوصی ٹریبیونل قائم کیا گیا اور تحقیقات سے پہلے ہی سابق امیر جماعت اسلامی پروفیسر
غلام اعظم، امیر جماعت مطیع الرحمان نظامی،نائب امیر دلاور حسین سعیدی، قیم جماعت
علی احسن مجاہد، نائب قیم قمرالزماں، عبدالقادر ملا سمیت جماعت اسلامی کی پوری
قیادت جیل میں ٹھونس دی گئی۔جماعت اسلامی کے علاوہ بی این پی اور مسلم
لیگ کے رہنماوں کے خلاف بھی قرعہ انتقام جاری ہواجن میں پاکستان قومی اسمبلی کے
سابق اسپیکر فضل القادر چودھری کے صاحبزادے، بی این پی کے رہنما اور سابق وزیر صلاح الدین چودھری شامل تھے۔
یہ ٹریبیونل اپنے قیام
کے پہلے ہی روز سے متنازعہ رہا۔ اسکے بنیادی خدوخال عوامی لیگ کے رہنما اور ممتاز
وکیل احمد ضیاالدین نے مرتب کئے جو کیتھولک یونیورسٹی برسلز (بلیجیم) میں بنگلہ دیش سینٹر برائےامورِ نسل
کشی کے ڈائریکٹر تھے۔بیرسٹر صاحب کی خواہش تھی کہ بنگلہ دیشی ٹریبیونل کو معاہدہ
برائےبین الاقوامی عدالت یا International Criminal Court Statute المعروف Rome Statueسے ہم آہنگ کرلیا
جائے تاکہ یہاں سے ملنے والی سزاوں کو دنیا کی تائید حاصل ہوسکے۔ اس مقصد کیلئے
بیرسٹر ضیاالدین نے مشہور برطانوی وکیل ٹوبی کیڈمن سے مدد کی درخواست کی۔ بیرسٹر
کیڈمین جنگی جرائم کی تحقیق اور فردجرم کی تدوین کا تجربہ رکھتے ہیں اور عالمی
عدالت انصاف میں انکا بڑا احترام ہے۔ بیرسٹر صاحب نے ٹریبیونل کے طریقہ کار، فرد
جرم کی تیاری، الزامات کی تحقیق اور ملزمان کیلئے صفائی کی سہولتوں کا جائزہ لینے
کے بعد رائے دی کہ جنگی جرائم کیلئے قانون
سازی مبہم اور غیر شفاف ہے جبکہ ٹریبیونل کی
ساخت اور ہئیت متعصبانہ نوعیت کی ہے۔ مسٹر کیڈمین نے کہا کہ جرائم کی تعریف
غیر واضح اور گواہی و ثبوت کے اظہار کا طریقہ بے حد مبہم ہے جسکی بنا پر استغاثہ
ریاستی عمل دخل کا فائدہ اٹھا سکتا ہے اور سب کے بڑھکر کہ جرائم کی تحقیق پردہ راز
میں ہے جسکی بنا پر اسکی صداقت و صحت مشکوک ہے۔ موصوف نے اس اخفا کیلئے cloak of secrecyکا لفظ استعمال کیا۔
کیڈمین کے اس خدشے کی
تصدیق کچھ ہی عرصے بعد برطانوی رسالے اکانومسٹ میں شایع ہونے والی ایک سنسنی خیز
رپورٹ سے ہوگٗئی۔ جسکی تفصیل کچھ اسطرح ہے کہ ٹریبیونل کی تشکیل کے بعد پروفیسر
غلام اعظم اور دلاور حسین سعیدی کا مقدمہ پیش ہوا۔ حسینہ واجد کی خواہش تھی کہ سب
سے پہلے پروفیسر غلام اعظم کو پھانسی پر لٹکایا جائے ۔ یہ اگست 2012 کی بات
ہے کہ انھوں نے ٹریبیونل کے سربراہ جسٹس
نظام الدین سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ 16 دسمبر کو یوم
آزادی کے موقع پر پروفیسر صاحب کو پھانسی
دیدی جائے۔جسٹس نظام کا کہنا تھاکہ چار مہینے میں اس مقدمے کو نمٹانا ممکن نہیں۔
جس پر یہ گفتگو تکرار میں تبدیل ہوگئی اور حسینہ واجد نے یہ کہہ کر فون بند کردیا
کہ بنگالی عوام 41 سال سے انصاف کا انتظار کر رہے ہیں اور اب انکے صبر کا پیمانہ
لبریز ہورہا ہے وہ ہر قیمت پر اس' بڈھے' کو
سال کے اختتام سے پہلے پھانسی پر لٹکتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ جسٹس نظام نے
گھبرا کر برسلز میں بیرسٹر احمد ضیا الدین کو فون کیا اور بیرسٹر صاحب نے وعدہ کیا
کہ وہ پروفیسرصاحب کے خلاف فیصلہ تحریر کرکے بھجوائینگے اور مقدمے کی تیزی سے
سماعت کے 'گر' بھی بتا دینگے۔ اس مقصد کیلئے انھوں نے وزیرانصاف شفیق احمد سے بات
کرکے فرد جرم کی تیاری کیلئے بھی مفید مشورے دئے۔برطانوی رسالے اکانومسٹ نے وہ گفتگو شایع کردی جو ان دونوں کے درمیان 28اگست سے 20اکتوبر 2012 کے دوران ہوئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق اسکائپ Skypeپر ہونے والی اس
گفتگو کا مجموعی دورانیہ سترہ گھنٹے تھا جبکہ دو سو سے زیادہ برقی مکتوب Emailsایک دوسرے کو بھیجے
گئے۔ اکانومسٹ پر اس خبر کے شایع ہوتے ہی بنگلہ دیش کی وزارت اطلاعات نے ایک ضابطہ
اخلاق جار ی کیا جسکے تحت ٹریبیونل سے متعلق صرف وہی خبر شایع اور نشر کی جاسکتی
ہے جو ٹریبیونل کا رجسٹرار جاری کریگا۔ لیکن ڈھاکہ کے ایک اخبار روزنامہ امر دیش
نے اکانومسٹ میں شایع ہونے والی رپورٹ چھاپ دی جس پر اخبار کو بند کرکے اسکے
ایڈیٹر محمودالرحمٰن کو گرفتار کر لیا گیا۔ حسینہ واجد کے وزیرقانون نے الزام
لگایا کہ جماعت اسلامی نے یہ کہانی شایع کرنے کیلئےامر دیش کو ڈھائی کروڑ ڈالر دئے
ہیں۔ شفیق احمد نے کہا کہ امردیش کی
نظریاتی وابستگی خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلست پارٹی سے ہے اورپارٹی کی ایما پر
اپنے اتحادیوں کو بچانے کیلئےیہ خبر شایع کی گئی ہے۔
اس مشکوک ٹریبیونل کا پیلا شکار عبدالقادر ملا تھے جنھیں
ستمبر 2013 میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔ جسکے بعد محمد قمر الزمان، علی احسن مجاہد،
مطیع الرحمان نظامی، ممتاز صحافی میرقاسم علی کو تختہ دار پر کھینچا گیا۔ اسکے
علاوہ صلاح الدین چودھری اور مسلم لیگ کے رہنما فرقان ملک بھی حسینہ کی آتش انتقام
کا نشانہ بنے۔ عمر قید کی سزا پانے والے پروفیسر غلام اعظم اور مولانا دلاور سعیدی
نے دورانِ حراست دم توڑدیا۔
جماعت اسلامی کے رہنماوں کی سزائے موت کیساتھ تنظیم کے خلاف
قانونی مہم بھی شروع ہوئی۔ جنوری 2009 میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی
کو ایک نوٹس جاری کیا جس میں قیادت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی تھی کے اسکے
دستور میں اللہ کی بالاستی کا عزم ظاہر کیا گیا ہے جو ملک کے دستور سے متصادم ہے۔ عدالت نے جماعتی دستور میں
ترمیم کی تجویز پیش کی۔ جماعت نے نوٹس کا جواب نہیں دیا اور پانچ اگست 2013 کو
عدالت نے جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی۔
ان پیشبندیوں کے بعد 5 جنوری 2014 کے انتخابات ہوئے۔ بی این
پی اور جماعت اسلامی مل کر میدان میں اتریں۔ جماعت کے امیدواروں نے بی ین پی کے
نشان چاول کی بالی پر کاغذات نامزدگی داخل کرائے۔ انتخابات سے پہلے جماعت اور بی
این پی کی پوری قیادت کے ساتھ لاکھوں
کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ عوامی لیگ اور چھاترو لیگ کے حملوں میں سینکڑوں
کارکن قتل ہوئے۔حالات ایسے پیدا کردئے گئے کہ حزب اختلاف کیلئے انتخاب میی حصہ
لیناممکن نہ رہا اور بی این پی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ ایسی ہی صورتحال
دسمبر 2018 کے انتخابات میں پیش آئی۔ اس سال جنوری میں ہونے والے انتخابات سے پہلے
ہی حزب اختلاف نے انتخابی عمل کو مہمل قراردیتے ہوئے اس میں حصہ نہ لینے کا اعلان
کردیا۔
حزب اختلاف کے خاتمے
کے بعد حسینہ واجد کیلئے میدان صاف ہوگیا۔
انھوں نے یکطرفہ قانون سازی کرکے اپنی حکومت کو ناقابل تسخیر بنالیا۔اور یہی انکے
زوال کا بنا کہ نشہِ اقتدار اور احتساب سے بے نیازی کے نتیجے میں انھوں نے جو
اقدامات اٹھائے اس سے انکے اپنے حامی بھی بدظن ہوگئے ۔
اپنے اقتدار کے تسلسل کیلئے حسینہ کا مکمل دارومدار فوج اور ہندوستان
پرتھا۔دہلی کا اثرورسوخ اتنا بڑھ گیا کہ بنگلہ دیش میں تھانے کے
SHOکا
تقرر بھی را کی مرضی سے ہوتا ہے۔ فوج، عدلیہ، کسٹم، پولیس، خفیہ اداروں میں را اور
ہندوستانی فوج کے لاکھوں اہلکار تعینات ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں بھی حسینہ واجد کے قریبی
عزیز اور سب سے بڑھ کر بھارتی را کے پسندیدہ ہیں۔
حکومت
میں اپنے لوگوں کے تقرر کیلئے سرکاری ملازمتوں میں مکتی
باہنی کا کوٹہ 30 فیصد کرکے باہنی کے ساتھ انکے بچوں، پوتے پوتی،نواسے اور نواسیوں
کو بھی کوٹے کا حقدار قرار دیدیا گیا۔ دنیا کے دوسرے مسلم معاشروں کی طرح بنگلہ
دیش میں بھی نوجوانوں کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے جسکی بڑی تعداد بیرزگاری کا
عذاب سہہ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ 20 لاکھ تعلیمیافتہ بنگالی نوجوان
بیروزگار ہیں جبکہ سرکاری ملازمتوں کا بڑا
حصہ مکتی باہنی کے لواحقین کیلئے وقف ہے۔
مکتی باہنی کے کوٹے پر
نوجوان سخت برہم تھے۔حکومت نے اعتراض کو 'جماعتی سازش' قراردیکر مسترد کردیا اور
سارے ملک میں اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ شبر کے
درجنوں کارکن 'پولیس مقابلے' کا شکار ہوئے۔ تاہم تحریک جاری رہی اور طلبہ کےتیور
دیکھ کر حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کیساتھ وزیراعظم کی اتحادی جاتیہ
پارٹی نے بھی اپنا وزن تحریک کے پلڑے میں ڈالدیا۔ حسینہ واجد کو اس بات کا احساس
تھا کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، چنانچہ انھوں
نےاپنی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو اعتماد میں لے کر مکتی باہنی کا کوٹہ ختم
کردیا۔منصوبہ یہ تھا کہ کوٹہ ختم کرنے کی یادداشت (میمورنڈم) کے خلاف عدالت میں
استغاثہ دائر کردیا جائے گا اور عدلیہ اس میمورنڈم کو کالعدم قراردیدیگی۔ اس طرح
ایک طرف تو بنگلہ دیشی عدالت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع ملتا کہ عدلیہ نے
بلا خوف وزیراعظم کا حکم کالعدم قراردیدیا اور دوسری طرف وہ مظاہرین کو کہہ سکیں
گی کہ میں نے تو اپنی سی کوشش کرلی لیکن عدلیہ کے آگے میرے ہاتھ بندھے ہیں
اور ہوا بھی ایسا ہی کہ 5
جون کو عدالت عالیہ نے مکتی باہنی کے لواحقین کا کوٹہ ختم کرنے کا حکم غیر آئینی
قراردے دیا۔عدالت کے فیصلے پر چھاترولیگ نے جشن منایا لیکن طلبہ اس پر سخت برہم
تھے۔ لاوا پکتا رہا اور 12 جولائی کو ملک بھر کی جامعات کے طلبہ سڑکوں پر آگئے۔ حکمراں عوامی لیگ
اور انکی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ نے ہر جگہ مزاحمت کی اور تصادم میں چار طلبہ ہلاک
اور سینکڑوںزخمی ہوئے ۔ تشدد سے تحریک میں مزید شدت آگئی۔
کوٹے کے خلاف تحریک بہت جلد
حکومت مخالف مہم میں تبدیل ہوگئی۔وزیراعظم نے جماعت اور بی این پی کی رَٹ جاری
رکھی۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جذباتی خطاب کیا۔ انکا کہنا تھا کہ انتخابات ہارنے
کے بعد جماعت اسلامی اور بی این پی تشدد کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے
ہیں۔پاک فوج کے تنخواہ دار “جماعتی” سنار بنگلہ کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم
مکتی باہنی کے احسانات نہیں بھول سکتے۔ حسینہ واجد نے جذباتی انداز میں کہا'دیش کو 1971 کی سی صورتحال کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش میں اگر مکتی باہنی کی اولاد کو نوکری
نہیں ملے گی تو کیا 1971کے “خونی رجاکاوں”کی اولاد کو نوازا جائے۔ یہ دراصل 1971
میں مکتی باہنی کے مقابلے میں پاکستانی رجاکاروں(رضاکاروں) کی مزاحمت کی طرف اشارہ
تھا جو البدر اور الشمس کے عنوان سے منظم ہوئے تھے۔
انکے خطاب سے ملک بھر میں آگ
گئی اور بدترین تشدد سے حالات اور خراب ہوگئے۔ طلبہ کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے
عدالت نے سرکاری بھرتی کے نظام میں تبدیل کرکے مکتی باہنی کا کوٹہ 5 فیصد کردیا۔عدالتی
فیصلے سے امید بندھی کہ شائد اب بنگلہ دیش میں حالات معمول پر آجائیں۔ لیکن حکومت
نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے خلاف انتقامی
کاروائی شروع کردی۔ ڈھاکہ پولیس نے بلوہ، اقدام قتل، کارِ سرکار میں مداخلت، غداری
، پاکستانی فوج کی ایما پر بنگلہ دیش کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے الزامات پر
دو لاکھ تیرہ ہزار افراد پر مقدمات قائم کردئے۔ زیادہ تر مقدمات “نامعلوم” افراد
کے خلاف بنائے گئے۔بہت سے الزامات ایسے ہیں جنکے ثابت ہونے پر سزائے موت دی جاسکتی
ہے۔ پرچے کٹتے ہی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور صرف 24 گھنٹوں کے دوران 4500
طلبہ دھر لئے گئے۔ طالب علم رہنما ناہید اسلام اور آصف محمود کو اسپتال سےگرفتار کیاگیا۔
ساتھ ہی باغی طلبہ کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی اور سارے ملک میں درجنوں طلبہ کو سادہ
لباس پولیس نے ہلاک کردیا۔طلبہ نے الزام لگایا کہ طلبہ کے خلاف خصوصی آپریشن
کیلئےہندوستان کی خفیہ پولیس کے ہزاروں اہلکار بنگلہ دیش بلائے گئے ہیں اور باغیوں
کو ٹھکانے لگانے کے اس آپریشن کی نگرانی قومی سلامتی کےہندوستانی مشیر اجیت دوال
کررہے ہیں۔طلبہ رہنماوں کا کہنا ہے کہ
ٹارگیٹ کلنگ کے ساتھ نوجوانوں کو معذور
کرنے کی منظم مہم شروع کردی گئی ہے اور اسپتال ایسے طلبہ ے بھرگئے ہیں جنکے پیر
اور ہاتھ نامعلوم افراد نے توڑدئے، ریڑھ کی ہڈی پر شدید ضربات سے کئی طلبہ کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا۔
معذور کئے جانیوالے زیادہ تر افراد جامعات
کےطلبہ ہیں جو شائد اب کبھی اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکیں۔
اس مرحلے پر حسینہ واجد نے
ترپ کا پتہ پھینکا اور مغربی دنیا کو 'ڈرانے' کیلئے قوم سے اپنے خطاب میں انھوں طلبہ
تحریک کو انتہاپسندوں کا غدر قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو
انتہاپسند اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ اسی مقصد کیلئے اسکی طلبہ تنظیم اسلامی
چھاترو شبر نے یہ تحریک شروع کی ہے اور انھوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو
شِبّر پر پابندی لگادی۔
جمعہ 2 اگست کو طلبہ نے ملک
گیر یوم سیاہ منایااور پورا بنگلہ دیش حسینہ واجد
استعفیٰ دو، بھارتی مداخلت مردہ باد اور 'ہر قیمت پر مادر وطن کی آزادی' کے نعروں
سے گونج اٹھا۔ ڈھاکہ، سلہٹ، کھلنا، چاتگام، نواکھالی سمیت کئی شہروں میں
پولیس نے مظاہرین پر شدید تشدد کیا اور پولیس فائرنگ سے دونوجوان ہلاک ہوگئے۔ چار
اگست کو سول نافرمانی تحریک کا آغاز ہوا۔ پولیس وردیوں میں ملبوس عوامی لیگی
جتھوں نے مظاہرین پر حملے کئے اور صرف ڈھاکہ میں
14پولیس والوں سمیت 93 افراد مارے گئے۔
اسی دن طالب علم رہنماوں آصف
محمود، سرجیس عالم اور ابوبکر موجمدار نے
ڈھاکہ مارچ کا اعلان کرتے ہوئےملک بھر کے لوگوں سے ڈھاکہ پہنچنے کی درخواست
کی ۔قائدین کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کے استعفے تک تحریک جاری رہیگی
اس اعلان پر اتوار کی شام ہی
سے لاکھوں لوگوں نے بنگلہ دیشی دارالحکومت میں ڈیرے ڈالدئے تھے۔مظاہرین وزیراعظم
کی سرکاری رہائش گاہ اور پارلیمان کی عمارت میں گھس گئے۔ اسوقت حسینہ واجد نے فوجی
ہیڈکوارٹر میں پناہ لی ہوئی تھی۔
اسی دوران صدارتی محل میں
امیر جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلست پارٹی (BNP)کے رہنماوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں، علما، سول سوسائٹی، طلبہ
رہنماوں نے فوج کے سربراہ جنرل وقار الزماں سے ملاقات کی ۔عوامی لیگ اور اسکی طلبہ
تنظیم چھاترو لیگ کو مدعو نہیں کیا گیا۔ملاقات کے بعد BNP کے سربراہ مرزا فخرالاسلام عالمگیر اور امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر
شفیق الرحمان نے صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ ہنگاموں سے ملک سے شدید نقصان اٹھایا
ہے۔ نوخٰیز بچے مارے جارہے ہیں۔کاروبار تباہ ہوگیا اور لاکھوں گھروں میں فاقے کی
نوبت آگئی ہے۔ ان رہنماوں نے کہا کہ
انتقامی طرزعمل سے اجتناب، جمہوریت کی بحالی، منتخب حکومت اور نفرت کی سیاست ختم
کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جناب عالمگیر نے بتایا کہ بی این پی کی قائد خالدہ
ضیا، تمام سیاسی قیدیوں اور حالیہ ہنگاموں میں گرفتار ہونے والے طلبہ کو رہا کرنے
کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جنرل صاحب کو بتادیا ہے کہ مارشل لا مسئلے
کا حل نہیں۔
اسکے چند گھنٹے بعد فوجی
ہیڈکوارٹر میں بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کے ہمراہ جنرل وقارالزماں نے اعلان
کیا کہ حسینہ واجد نے استعفیٰ دیدیا ہے اور جلد ہی عبوری حکومت قائم کردی جائیگی۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم اس سے پہلے ہی فرارہوچکی
تھیں۔
ہندوستانی ٹیلی ویژن NDTVکے مطابق حسینہ
واجد اپنی ہمشیرہ شیخ ریحانہ کے ہمراہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں اگرتلہ
پہنچیں جہاں سے انھیں ہندوستانی فوج کے پیلی کاپٹر میں دہلی کے مضافاتی علاقے غازی
آباد کے ہندن فوجی اڈے پہنچایا گیا۔ پیر کی رات انھوں نے ہندوستانی مشیر قومی
سلامتی اجیت دوال سے ملاقات کی۔ بی بی سی کے مطابق لندن میں حسینہ واجد کے
صاحبزادے سجیب واجد نے صحافیوں کو بتایا
کہ انکی والدہ اب سیاست میں واپس نہیں آینگی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سجیب کا
یہ بیان انکی والدہ کی جانب سے برطانوی حکومت کو دی جانیوالی ضمانت اور سیاسی پناہ
کیلئے انکی درخواست کا حصہ ہے۔
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل 9 اگست 2024
ہفت
روزہ دعوت دہلی 9 اگست 2024
روزنامہ
امت کراچی 9 اگست 2024
ہفت روزہ رہبر 9 اگست 2024
No comments:
Post a Comment