Thursday, August 22, 2024

مذاکرات کار 'تھک گئے' بات چیت میں ایک ہفتے کا وقفہ انسانی جانوں کے زیاں پر تشویش لیکن بمباری کیلئے طیارے اور بموں کی فراہمی جاں بحق ہونے والے اہل غزہ کی تعداد 40 ہزار ہوگئی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سعودی ولی عہد کی جان کو خطرہ

 

مذاکرات کار 'تھک گئے' بات چیت میں ایک ہفتے کا وقفہ

انسانی جانوں کے زیاں پر تشویش لیکن بمباری کیلئے طیارے اور بموں کی فراہمی

 جاں بحق ہونے والے اہل غزہ کی تعداد 40 ہزار ہوگئی

اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سعودی ولی عہد کی جان کو خطرہ

غزہ میں ہر لمحے بے گناہ افراد مارے جارہے ہیں لیکن  ٹھیکیدارانِ امن کے نخرے ہی ختم ہونے کو نہیں آرہے۔قطر میں امریکہ، اسرائیل، مصراور میزبان ملک کے لال بجھکڑ دو دن بات چیت کے بعد تھک گئے اور گفتگو کا اگلا دورایک ہفتہ بعد قاہرہ میں ہوگا۔مذاکرات کی میز پر مزاحمت کار موجود نہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نے امریکہ سے بمو ں کی نئی کھیپ ملنے پر بارود کی بارش تیز کردی ہے۔ اوسطاً 40 حملے یومیہ کئے جارہے ہیں۔تازہ ترین اعدادشمار کے مطابق 7 اگست کو اس وحشت کے 10 مہینے مکمل ہونے پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 40 ہزار سےتجاوز کرچکی ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔ان میں ملبے تلے دبے ہزاروں افراد شامل نہیں۔خونریزی کیلئے امریکہ ، برطانیہ، جرمنی اور ہندوستان کا اسلحہ استعمال ہورہا ہے۔

آبنوشی اور نکاسیِ آب کا ڈھانچہ تباہ ہوجانے کی وجہ سے وبائی امراض شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ شدید بمباری، اسکولوں کی بندش اور صحت کی سہولتیں تباہ ہونے کی بنا پر اس سال بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاسکے۔ گزشتہ ہفتے ایک 11ماہ کی بچی پولیو سے متاثر پائی گئی۔ انیس برس پہلے غزہ میں فلسطینیوں کی حکومت قائم ہونے پر وزارت صحت نے زبردست مہم چلا کر پوری پٹی کو پولیو سے پاک کردیا تھا۔ اب یہ موذی مرض دوبارہ رینگ رہا ہے۔خوراک کی قلت یا malnutrition کی شکل میں معذوری کی ڈائن پہلے ہی معصوم بچوں کا کلیجہ چبارہی تھی کہ اب پولیو کے اژدہے نے بھی اپنا منہہ کھول دیا ہے۔

قطر کے حالیہ مذاکرات سے پہلے اہل غزہ نے صاف صاف کہا کہ مکمل و غیر مشروط جنگ بندی اور فوجی انخلا پر اسرائیل کی آمادگی سے پہلے قیدیوں کے تبادلے پر بات نہیں ہوگی۔ شائد اسی لئے مہذب دنیا 25 لاکھ انسانوں کی موت کا انتظار کررہی ہے۔ دس ماہ کے دوران ڈیڑھ لاکھ اہل غزہ کو قتل اور زخمی کر کے ٹھکانے لگایا جاچکا۔ بمباری کیساتھ قحط اور وبائی امراض کا ہتھیار بھی اب بہت موثر انداز میں استعمال ہورہا ہے۔ مغربی دنیا اور انکے عرب اتحادیوں کو یقین ہے کہ کہ باقی بچ جانے والے 23 لاکھ سخت جان بھی جلد ہی پیوند خاک ہوجائینگے۔صدر ٹرمپ کے داماد نے Gaza Beachfront کی تیاری شروع کردی ہے اور اس نفع بخش منصوبے سے روپئے کی آٹھ چونّی بنانے کیلئے اماراتی و عرب سرمایہ کار بھی پر عزم ہیں۔

 فائربندی کیلئے امریکہ کی دوڑ دھوپ قطری فرمانروا تمیم بن حمد کے اس بیان کے بعد بڑھ گئی جس میں انھوں کہا کہ اگر غزہ خونریزی بند ہوجائے تو وہ ایران کو قتلِ اسماعیل ہانیہ کے انتقام سے  دستبردار ہونے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ مشرق وسطٰی کے سیاسی و سفارتی ذرایع کاکہنا ہے کہ مذاکرات کے آغاز پر امیرِ قطر نے ایران سے درخواست کی تھی کہ امن کا 'ماحول' بنانے کیلئے بات چیت کے دوران اسرائیل پر حملہ نہ کیا جائے جس کا تہران نے مثبت جواب دیا اور ایرانی قیادت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر امن کیلئے اہلِ غزہ کی شرائط مان لی جائیں تو اسرائیل پر حملے کا منصوبہ منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ 

غزہ جنگ بندی اسرائیلی وزیراعظم کی سیاسی عاقبت کیلئے بے حد مہلک ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ اگر انکی جماعت اور اتحادی دوبارہ انتخابات جیت گئے تب بھی نیتن یاہو وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت انتہا پسندوں کو اکسا کر[ma1]  جنگی جنون و ہیجان برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

بدھ 14 اگست کی صبح اسرائیلی وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے ایک بار پھر مسلح فوجیوں کے پہرے  میں گنبد صخرا کے قریب عبادت کی۔ یہ 1967 کے معاہدہ Status Queکی خلاف ورزی ہے جسکے تحت غیر مسلم بلا اجازت القدس شریف (مشرقی بیت المقدس) میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ خود یہودی عقائد کے اعتبار سے بھی درست نہیں کہ معبد عظمیٰ (Temple Mount)کی تعمیرِ نو سے پہلے یہودیوں کا القدس شریف میں داخلہ توہینِ ناموس حضرت سلیمان ؑہے۔اسرائیلی وزیر کی القدس شریف میں دراندازی پر سرکاری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا 'مسٹر بن گوئر کا Temple Mount جانا ان اقدامات میں شامل ہے جسے امریکہ اسرائیل کی سلامتی سے انحراف اور خطے میں عدم تحفظ وعدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے'۔ کچھ ایسا ہی بیان یورپی یونین سے بھی آیا اور اسرائیلی انتہاپسندوں کا یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قسم کے بیانات محض موذیوں کا منہہ بند کرنے کو دئے جاتے ہیں۔ 

اسکے دوسرے دن انتہا پسند غزہ کی طرف روانہ ہوئے۔پئے در پئے جانی نقصان اٹھاکر 15اگست 2005 کو اسرائیل نے تمام بستیاں اپنے ہاتھوں مسمار کرکے غزہ خالی کردیا تھا۔انتہا پسندوں نے اس دن کی یاد منانے اور دوبارہ آبادکاری کیلئے غزہ میں خیمہ زنی کامنصوبہ بنایا۔قافلے کا استقبال سوختہ جاں اہل غزہ نے بھرپور فائرنگ سے کیاچنانچہ اسرائیلی فوج نے ان لوگوں کو غزہ کی سرحد پر روک دیا۔قبضے کی علامت کے طور پر وہیں سحر کی نماز یا شاہریت ادا کی گئی۔شایع شدہ پروگرام کے تحت تینوں فرض نماز غزہ میں ادا کرنی تھیں۔ لیکن شدید مزاحمت کی بنا نمازِسحر کے بعد ہی ممجع منتشر ہوگیا۔احباب کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ یہودیوں کے یہاں روزانہ تین نمازیں فرض ہیں۔

شاہریت (Shacharit): شاہریت دراصل سحر کی نماز ہے جسکا وقت طلوع آفتاب سے دو گھنٹے تک ہے۔ اس نماز کا حکم حضرت ابراہیمؑ نے دیا تھا

منشا (Minchah):اس نماز کا وقت زوال سے غروب آفتاب تک ہے۔ توریت کے مطابق اس دوسری نماز کا آغاز حضرت اسحاقؑ نے کیا اور توریت میں یہ 'ظہر' درج ہے

مغرب (Maarive) کا وقت غروب آفتاب کے ڈیڑھ گھنٹے بعد سے نصف شب تک ہے۔ اس نماز کا حکم حضرت یعقوب ؑ المعروف اسرائیل نے دیا تھا

اسی دن غرب اردن میں قیلقیلہ کے گاؤں جیت پر مسلح اسرائیلی قبضہ گرد (Setters)چڑھ دوڑے۔اندھا دھند فائرنگ کے بعد درجنوں مکانات،گاڑیاں اور مویشی خانے جلا دئے گئے۔فائرنگ سے ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ غنڈوں کو فوج کا تحفظ حاصل تھا۔

امریکہ بہادر بزعم خود امن مذاکرات کے سب سے بڑے سہولت کارہیں اور انکے اخلاص کا یہ عالم کہ مذاکرات کے نئے دور کے آغاز پر 14 اگست کو امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن صاحب نے بہت مسرت کے ساتھ اسرائیل کیلئے 20 ارب ڈالر عسکری امداد کا اعلان فرمایا۔ اس رقم میں سے 19 ارب ڈالر، ایف 15 بمبار طیاروں پر خرچ ہونگے جبکہ ٹینک کے گولے، بکتر بند گاڑیوں اور دوسرے 'دفاعی' سامان کیلئے ایک ارب ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ بیس ارب کی یہ اعانت،  14 ارب ڈالر کی اس امداد کے علاوہ ہے جسکی منظوری کانگریس نے کچھ عرصہ پہلے دی تھی۔ فوجی امداد کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے بہت دلگیر لہجے میں کہا کہ 'مشرق وسطی میں امن و استحکام امریکہ کی خواہش ہے  اور غزہ میں انسانی جانوں کے زیاں کی تفصیلات سن کر صدر بائیڈن کو نیند نہیں آتی'

مغرب کی بھرپور مدد کے باجود زمینی حقائق اسرائیل کیلئے اب بھی مایوس کن ہیں۔تیرہ اگست کو اسرائیلی پارلیمان کی مجلس قائمہ براے دفاع کے اجلاس میں وزیردفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ نیتن یاہو کا 'مکمل فتح' والا بیانیہ بکواس ہے۔ جواب میں وزیراعظم تنک کر بولے 'گیلنٹ نے اسرائیل مخالف بیانیہ اپناکر (قیدیوں کی رہائی کے) معاہدے کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے'۔ حوالہ: اسرائیلی روزنامہ الارض Haaretz

وزیردفاع اور اسرائیلی فوج کے خدشات بے سبب نہیں۔ لاکھوں ٹن بارود برسانے اور پوری پٹی کو فاقے میں مبتلا کردینے کے باوجود اسرائیل مزاحمت کچل نہیں پایا۔ جس وقت کنیسہ (پارلیمان) میں وزیراعظم اپنے وزیردفاع کو سخت و سست کہہ رہے تھے عین اسی وقت اہل غزہ نے دورمار میزائیل داغے جو امریکی ساختہ جدید ترین حفاظتی نظام آئرن ڈوم سے کنی کتراکر تل ابیب کے ساحلوں تک ہہنچ گئے۔ کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن اس سے نہ صرف غزہ پر اسرائیل کے قبضے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا بلکہ یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ اہل غزہ اسلحہ بنانے اور میزائیل چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ جواب میں اسرائیلی فوج نے غرب اردن میں رام اللہ کے ایک محلے کو پامال کردیا یا یوں کہئے کہ دھوبی پر بس نہ چلا تو گدھے کے کان انیٹھ دئے۔

اسرائیلی فوج اپنی افرادی قوت پر بڑھتے دباو سے بھی خاصی ہریشان ہے۔ پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے دفاع کے جس اجلاس میں وزیراعظم و وزیردفاع کے درمیان زبانی جھڑپ ہوئی، اسی نشست میں فوج کے سربرہ نے قانون سازوں کو بتایا کہ اسرائیلی فوج کا بڑا حصہ غزہ میں مصروف ہے۔ لبنان کی جانب سے میزائیل و راکٹ حملوں کے  ساتھ غرب اردن میں 'دہشت گردی' خطرے کے نشان کو چھورہی ہے اور اب ایران کی جانب سے بھی شدید حملہ خارج از امکان نہیں۔جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ موثر دفاع کیلئے نئی بھرتی ضروری ہے لیکن مذہبی عناصر حفظِ توریت کے نام پر نوجوانوں کو فوج میں بھرتی سے روک رہے ہیں۔مدارس کی جانب سے مزاحمت کا زور توڑنے کیئے اسرائیلی اٹارنی جنرل نے ایک سرکاری خط میں وزارت محنت کو حکم دیا ہے کہ نوریت مدارس کے جو طلبہ فوج میں بھرتی سے انکار کریں انکے بچوں کی دیکھ بھال کیئے day careکی سہولت ختم کردی جائے۔ دوسری طرف اہلِ توریت کے خیال میں سہولتوں سے محرومی اور جیل،  غزہ کی جہنم  سے بہتر ہے

ادھر امریکہ میں تعطیلات کے بعد جامعات میں کلاسیں شروع ہونے کو  ہیں اور اسی کیساتھ آنے واالے دنوں میں مظاہروں کے منصوبے بھی بن رہے ہیں۔ آزادی وانصاف کے لئے پرعزم طلبہ کو اس ہفتے ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ فلسطین اور انسانی حقوق کیلئے مظاہرے کرنے والے طلبہ کے اخراج،اسناد سے محروم کرنے اور احتجاجی کیمپ اکھاڑنے کیلئے نیم فوجی دستے طلب کرنے والی جامعہ کولمبیا (نیویارک) کی شیخ الجامعہ ڈاکٹر مونیکا شفیق مستعفی ہوگئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پر استعفیٰ کیلئے طلبہ اور اساتذہ کا دباو تھا۔

اب آخر میں سعودی عرب  کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا معاملہ۔ ٹائمز آف اسرائیل نے امریکی آن لائن سیاسی جریدے، Politico کے حوالے سے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔ خبر کے مطابق امریکی ارکانِ کانگریس سے باتیں کرتے ہوئےسعودی ولی عہد محمد بن سلمان المعروف MBSنے کہا “عرب عوام فلسطین کے بارے میں بہت حساس ہیں اور اسرائیل سے تعلقات کے یکطرفہ فیصلے کو عرب ممالک کی سڑکوں پر غداری سمجھا جائیگا۔ہم نے اگر فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو میں مارا جاسکتا ہوں' ارکان کانگریس کے سوال پر MBSنے کہا 'آپ کو یاد نہیں (مصری صدر) انوار السادات کیساتھ کیا ہواتھا؟'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 اگست 2024

ہفت رزوہ دعوت دہلی 23 اگست 2024

روزنامہ امت کراچی 23 اگست 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 اگست 2024




No comments:

Post a Comment