Thursday, May 26, 2022

یک نہ شُد، دو شُد فن لینڈ اور سوئیڈن نیٹو کے امیدوار رکنیت بن گئے

یک نہ شُد، دو شُد

 فن لینڈ اور سوئیڈن نیٹو کے امیدوار رکنیت بن گئے

یوکرین کی نیٹو NATOسے وابستگی کی خواہش پر دنیا کیلئےغذائی قلت اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کاعذاب کیاکم تھا کہ روس کے  پڑوسی فن لینڈ Finland اور سوئیڈن نے نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے ان دونوں ملکوں میں نیٹو کے معاملے پر بحث شروع ہوچکی تھی۔ اسی نوعیت کی گفتگو  ناروے میں بھی جاری ہے۔

فن لینڈ نے 1917 میں آزادی کے بعد سے آزاد حیثیت کا تعین کیا تھا۔ جنگِ عظیم اور سرد جنگ کے دوران بھی فن لینڈ نے خود کو دائیں اور بائیں کی چپقلش سے دور رکھا۔ یورپی یونین کا حصہ ہونے کی بناپر سوئیڈن اور فن لینڈ نیٹو کے بہت قریب تو تھے  لیکن روس سے قریبی تعلقات فن لینڈ کی خارجہ پالیسی کا کلیدی حصہ رہا ہے۔تاہم گزشتہ چندماہ کے دوران نارڈک (شمالی یورپ) اقوام کے نقطہ نظر میں ڈرامائی تبدیلی آچکی ہے۔

علاقے کی تیزی سے بدلتی صورتحال پر گفتگوسے پہلے یورپ کی نظریاتی صف بندی اور اسکے تاریخی پس منظر پر چند سطور۔

چار مارچ 1947کو شمالی فرانس کے شہر ڈینکیخ (Dunkirk) میں فرانس اور برطانیہ نے ممکنہ جرمن یا روسی حملے کے خلاف اتحاد برائے باہمی تعاون قائم کرلیا۔یہ وہ وقت تھا جب طویل جنگ کے نتیجے میں کھنڈر بنے یورپ کے رہنما تعمیر نو کی منصوبہ بندی کیساتھ مستقبل کے خطرات سے نبٹنے کیلئے باہمی اتحادوتعاون کے راستے تلاش و تراش رہے تھے۔ ایک سال بعد بیلجیم، نیدرلینڈ (ڈچ یا ولندیز) اور لکشمبرگ کو اس اتحاد میں شامل کرلیا گیا جسے معاہدہِ برسلز (BTO) کہاگیا۔ چار اپریل 1949 کوامریکہ، کینیڈا، پرتگال، اٹلی، ناروےاور آئس لینڈ کی شمولیت کے بعد اس اتحاد کو معاہدہ شمالی اوقیانوس (NATO) کانام دیدیا گیا۔دلچسپ بات کہ اس کا فرانسیسی مخفف اسکا بالکل الٹ یعنیOTANہے۔ قیام کے تین سال بعد  1952 میں ترکی اور یونان  جبکہ  1955 میں مغربی جرمنی بھی نیٹو کی چھتری تلے آگئے۔ اسپین کی درخواستِ رکنیت 1982 میں منظور ہوئی۔

نیٹو مشترکہ تحفظ کا معاہدہ ہے جسکے دفعہ 5 کے  تحت کسی ایک رکن پر حملہ نیٹو پر حملہ تصور ہوگا اور تمام ارکان اس جارحیت کا مل کر  مقابلہ کرنے کے پابند ہیں۔ اسی شق کے تحت 11 ستمبر 2001 کی نائن الیون کے نام سے مشہور ہونے والی دہشت گرد مہم نیٹو کے خلاف کاروائی  قرارپائی جسکے بعد امریکہ کے ساتھ ترکی سمیت تمام کے تمام نیٹو ممالک نے افغانستان پر حملے میں  حصہ لیا۔ نیٹو رکن ممالک کو 2024 تک اپنی قومی پیداوار (GDP)کا کم ازکم 2 فیصد حصہ دفاعی اخراجات کیلئے مختص کرنے کا ہدف گیا ہے۔ اسوقت نیٹو ممالک کامجموعی دفاعی خرچ، دنیا کے کُل عسکری اخراجات کے  57فیصد سے زیادہ ہے۔

دوسری طرف نیٹو سے مقابلے کیلئے روس کے یورپی اتحادی مئی 1955 میں معاہدہ وارسا یا WTOکے تحت منظم ہوگئے اور  دیوارِ برلن کی تعمیر نے مشرق و مغربی یورپ کے عملاً بھی ایک دوسرے سے دور کردیا۔ کنکریٹ کی یہ 155 کلومیٹر طویل دیوار 1961 میں اٹھائی گئی تھی۔

افغانستان میں روس کی شکست کے بعد جہاں سوویت یونین کی تحلیل کا آغاز ہوا وہیں وارسا اتحاد ممالک میں بھی عوامی بیداری کی لہر اٹھی۔ اکتوبر 1990میں مشرقی و مغربی جرمنی کا ادغام ہوا اور 1994 میں دیوار برلن منہدم کردی گئی۔ اس سے تین سال پہلے معاہدہ وارسا تحلیل ہوچکا تھا۔ اسی دوران بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی شرمناک مہم چلی لیکن اپنے رب پر ایمانِ راسخ نے ان سخت جانوں کو ناقابل شکست بنادیا۔اہل بوسنیاکے آہنی عزم کے آگے جہاں ظلم کا ہر ہتھکنڈا  ناکام ہوا وہیں یوگوسلاویہ کے حصے بخرے ہوگئے۔ چیکوسلاواکیہ بھی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

مشرقی یورپ یا معاہدہ وارسا کے ارکان کی نیٹو میں شمولیت کا آغاز 1999میں ہواجب چیک ریپبلک، ہنگری اور پولینڈ نیٹو سے وابستہ ہوگئے اور اب 12 تاسیسی ارکان کو ملا کر نیٹو ممالک کی تعداد 30 ہے۔ ان میں سے 27 ممالک براعظم یورپ اور دو شمالی امریکہ (امریکہ اور کینیڈا) میں واقع ہیں جبکہ ترکی ایک بین البراعظمی ملک ہے کہ اس کا کچھ حصہ یورپ اور باقی ایشیا میں ہے۔ نیٹو ارکان میں صرف ترکی اور البانیہ مسلم اکثریت کے ممالک ہیں۔ ایک اور مسلم ملک بوسنیا 2008 سے امیدوارِ رکنیت ہے۔

نیٹو کا نصابِ رکنیت بہت سخت، غیر لچکدار اور کسی حد تک گنجلک ہے، اسلئے درخواستِ رکنیت سے منظوری تک کا عرصہ خاصہ طویل ہوتا ہے۔ نیٹو کا اخری نیا رکن میسیڈونیاMacedonia ہے جس نے جولائی 2018 میں رکنیت کی درخواست دی اور مئی 2020میں اسے رکنیت سے سرفراز کیا گی۔ یوکرینی صدر نے اس سال کے آغاز پر نیٹو کی حفاطتی چھتری کے نیچے آنے کی خواہش کا اظہار کیا  تھا۔نیٹو قیادت کے خیال میں  2025 سے   پہلے یوکرینی رکنیت کی منظوری ناممکن تھی، لیکن  فن لینڈ اور سوئیڈن کو نیٹو کی رکنیت  طشتری میں رکھ کر پیش کی جاری ہے۔

چند ہفتہ پہلے نیٹو کے معتمدِ عام جینز اسٹولٹن نے برسلز کے نیٹو ہیڈکوارٹرز میں فن لینڈ، سوئیڈن اور ناروے کو اتحاد میں  شمولیت کی دعوت تھی۔ اس تقریب میں یورپی کمیشن کی سربراہ محترمہ ارسلا  ونڈرلین اور ان دونوں ممالک کے سفیر بھی موجود تھے۔ اس موقع پر جناب اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ''ہم ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تمام اتحادی نیٹو کی توسیع  پرمتفق ہیں ۔ ہم جان گئے ہیں کہ سلامتی کو لاحق خطرات کے مقابلے کیلئےہمیں ایک ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے''۔

دلچسپ بات کہ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے لئے جانیوالے  ایک جائزے کے مطابق  فن لینڈ کے صرف 20 فیصد افراد نیٹو سے وابستگی کے حامی تھے۔ روس یوکرین جنگ کے آغاز پر یہ حمائت مزید سُکڑ کر صرف 9 فیصد رہ گئی اور اکثریت کا خیال تھا کہ نیٹو سے پینگیں بڑھاکر اپنے پڑوسی کی ناراضگی مول لینا کوئی اچھی بات نہیں۔

لیکن یوکرین پر روس کی وحشیانہ بمباری اور اسکے نتیجے میں ایک ہنستے بستے ملک کو کھنڈر بنتے دیکھ کر اہل فن لینڈ میں خوف کی لہڑ دوڑ گئی۔ ابلاغ عامہ پر بحث کے دوران یہ گفتگو عام ہوئی کہ اگر یوکرین نیٹو کا رکن ہوتا تو مضبوط امریکی فضائیہ کی موجودگی میں روسی بمبار اس بے خوفی سے آتش و آہن کی بارش نہ کرسکتے۔ نیٹو مخالفین کا جواب تھا کہ اگر صدر ولادیمر زیلنسکی،  نیٹو میں شمولیت کی تمنا نہ کرتے تو یوکرین کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نیٹو مخالفین کی اس دلیل کو زیادہ پزیرائی نہ مل سکی کہ روس اس سے پہلے جنوبی یوکرین کے علاقے کریمیا اور مشرقی یوکرین کے کئی قصبات پر قبضہ کرچکا ہے۔

جیسے جیسے یوکرین کی تباہی کے مناظر سامنے آتے گئے، فن  لینڈ میں نیٹو سے وابستگی کا مطالبہ زور پکڑتاگیا حتیٰ کہ اتحاد کی جانب سے باقاعدہ دعوت کے بعد 76 فیصد فِنش عوام نے نیٹو میں شمولیت کا مطالبہ کیااور وزیراعظم محترمہ ثنا مار لن صاحبہ (Sana Marlin)نے معاملے کو ملکی پارلیمان میں پیش کردیا جہاں نیٹو میں شمولیت کی قراردار 8 کے مقابلے میں 188 ووٹوں سے منظور ہوگئی۔نارڈک عوام عالمی قوتوں کی آویزش میں غیر جانبدار اور سرد جنگ سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی پر پون صدی تک بہت مستقل مزاجی سے یکسو رہے لیکن روس کے یوکرین پر حملے اور اپنے کمزور پڑوسی کیخلاف طاقت کے بہیمانہ استعمال نے شمالی یورپ کے ممالک کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کردیا۔ یہ خوف وہراس روس کے پڑوسی فن لینڈ میں بہت زیادہ ہے۔

پارلیمان سے قراراداد کی منظوری کے بعد صدر ساولی نینستو (Sauli Niinisto)اور وزیراعظم محترمہ ثنا مار لن  (Sana Marlin)نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ہفتوں کے مشورے کے بعد فن لینڈ نے نیٹو رکنیت اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فنش رہنماؤں نے کہا نیٹو کی رکنیت سے جہاں فن لینڈ کا دفاع مستحکم ہوگا وہیں اتحاد میں ہماری شمولیت سے اتحاد کی شمالی سرحد کو تقویت ملے گی۔ عین اسی وقت سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں پرہجوم اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میڈلینا اینڈرسن نے نیٹو کے حق میں اپنی حکومت کے فیصلے کا اعلان کیا۔

ہیلسنکی اور اسٹاک ہوم سے جاری ہونے والے اعلانات کے دوسرے دن جناب جینز اسٹولٹن نے برسلز ہیڈکوارٹرز میں گوشوارہ رکنیت کی نمائش کرتے ہوئے سوئیڈن اور فن لینڈ کو امیدوارانِ رکنیت کا درجہ دینے کی تصدیق کردی۔ نیٹو کے معتمدِ عام نے توقع ظاہر کی کہ اتحاد کے 30 اراکین ان  درخواستوں کی چھان بین جلد مکمل کرلینگے۔ کچھ ایسی ہی خواہش کا اظہار صدر بائیڈن نے فن لینڈ کے صدر اور سوئیڈن کی وزیراعظم کا واشنگٹن میں استقبال کرتے ہوئےکیا۔

ضابطے کے مطابق پہلے مرحلے میں نیٹو کی توسیع پر رائے شماری ہوگی اور اس قرارداد کی متفقہ منظوری کے بعد فن لینڈ اور سوئیڈن کے گوشوارہ رکنیت کی جانچ پڑتال کی جائیگی۔ ترکی کو فن لینڈ اور سوئیڈن کیلئے نیٹو کی  رکنیت پر کچھ تحفظات ہیں اور انقرہ کو رام کئے بغیر فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کے رکن نہیں بن سکتے۔ ترک صدر طیب اردوان نے 20 مئی کو سوئیڈن اور فن لینڈ کی نیٹو  میں شمولیت کی مخالفت کرتے ہوئے ویٹو کے استعمال کا  عندیہ دیا تھا۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے سے پہلے ان دونوں ملکوں کو دہشت گردوں کی پشت پناہی ترک کرنی ہوگی۔ انقرہ کو شکائت ہے کہ نورڈک ممالک، شام ترک سرحد پر سرگرم کُرد دہشت گردوں اورلیبیا کے حفتر چھاپہ ماروں کے علاوہ آذربائیجان کے علاقے نگورنو کاراباخ میں آرمینیائی علیحدگی پسندوں کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔

ترکی کے ان اعتراضات پر برلن میں ہونے والے نیٹووزرائے خارجہ کے اجلاس میں غور کیا گیا اور سکریٹری جنرل نے توقع ظاہر کی کہ سوئیڈن اور فن لینڈ کی رکنیت پر ترکی کے تحفظات جلد دور کرلئے جائینگے۔ اس موقع پر سوئیڈن اور فن لینڈ کے وزرائے خارجہ نے اپنے ترک ہم منصب چاؤش اوغلو سے خصوصی ملاقات  بھی کی۔ جناب اوغلو کے مطابق یہ گفتگو حوصلہ افزا رہی جس میں سوئیڈن اور فن لینڈ کے وزرا نے  ترکی کو تحریری یقین دہانیاں فراہم کی ہیں۔ ادھر امریکی صدربھی جناب ایردوان سے رابطے میں ہیں اور واشنگٹن نے دہشت گردی کی ہر شکل اور قِسم کی غیر مشروط مذمت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس ضمن میں امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ جس گروہ کو ترکی دہشت گرد سمجھتا ہے اس تنظیم پر امریکہ اور یورپی یونین پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔

فن لینڈ کے نیٹو میں آجانے کے بعد شمال سے  مشرق تک  روس کی سرحد پر نیٹو کے سپاہی تعینات ہونگے بلکہ یوں کہئے کہ  اب بلارُس کے ننھے سے 'جزیرے' کو چھوڑ کر روس  کی  شمال اور مغربی  سرحد پر نیٹو کا پرچم لہرانے کو ہے۔فروری کے اختتام پر جب  روس فوج  اپنی تمام تر قوتِ قاہرہ کیساتھ  یوکرین  پر چڑھ دوڑی  تو  جنگ یا حملےکے بجائے صدر پیوٹن نے  اسے 'خصو صی مہم' قراردیا تھا۔ روسی رہنماکہنا تھاکہ 'اسپیشل آپریشن' کا مقصد نیٹو کے نہ ختم ہونے والی توسیع کو لگام دیناہےلیکن اپنے پروں کو نارڈک ممالک تک  پھیلا کر نیٹو روس کو لگام ڈالنے کی طرف مائل نظر آرہا ہے۔ روس کی بدنصیبی کہ یوکرین بھی ان  کیلئے دلدل بن چکا ہے۔جس مہم کے بارے میں صدرپیوٹن کا خیال تھا کہ اسےچار دن میں مکمل کرلیا جائیگا، اس بے نتیجہ جنگ کو آج  91 دن ہوچکے ۔روس نے جوہری ہتھیار کے سوا آواز سے تیز  رفتار میزائیل سمیت اپنے  ترکش  کے سارے تیر استعمال کرلئے جسکے نتیجے میں یوکرین ملبے کا ڈھیر تو بنالیکن روسی اپنے عسکری اہداف حاصل کرنے میں یکسر ناکام رہا۔ برطانیہ کے عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس مہم جوئی میں ایک تہائی روسی فوج ہلاک و مجروح ہوکر میدان سے جاچکی ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ یوکرینی فوج کی کارکردگی اوراستعداد بہتر ہوتی جارہی ہے۔

ستم ظریفی کہ صدر پیوٹن یوکرین کا رونا ررہے تھے اور اب   ان کی  فن لینڈ  سے ملنے والی ساڑھے تیرہ سو کلومیٹرطویل سرحد بھی مخدوش ہوگئی  بلکہ فن لینڈ کے ساتھ  سوئیڈن  کے نیٹو کا حصہ بن جانے کے بعد  بحیرہ بیرنٹس (Barents Sea)پر بھی روس  کی بالادستی ختم ہونے کو ہے۔ معاملہ صرف بحیرہ بیرنٹس یا بحر (منجمد) شمالی (Arctic)تک محدود نہیں بلکہ بحیرہ بلقان میں بھی روسی بحریہ کی آزادانہ نقل و حرکت کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ روس کا اہم ترین شہر سینٹ پیٹرزبرگ  بحیرہ بلقان میں  فن لینڈ اور استھونیہ کے درمیان خلیجِ فن لینڈ کے دھانے پرہے۔ روس کو سب سے زیادہ پریشانی جنوب مشرقی بحیرہ بلقان کے علاقے کالنگراڈ (Kaliningrad)کے بارے میں ہے جہاں روسی بحریہ نے اپنی تنصیبات قائم کررکھی ہیں۔ یہ قطع ارض  روسی سرزمین سے الگ تھلگ لتھوانیہ اور پولینڈ کے درمیان ہے۔ کسی غیر ملک کے گھرے علاقے کو جغرافیہ کی اصطلاح میں محصور یا(exclave) کہتے ہیں۔بحرِ اسود  پر  نیٹو کی گرفت پہلے ہی  خاصی مضبوط ہے۔

نیٹو میں شمولیت کے فیصلے پر روس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فن لینڈ کی بجلی منقطع کرنے کا اعلان کردیا، ماسکو کا خیال تھا کہ اسکے نتیجے میں  شمال مشرقی فن لینڈ کا بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب جائیگا لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا کہ فن لینڈ کے ماہرین متوقع رد عمل کی پیش بندی میں متبادل انتظام کرچکے تھے۔

روس یوکرین کی دلدل میں اس بری طرح پھنسا ہوا ہے کہ ماسکو کیلئے فن لینڈ یا سوئیڈن کے خلاف روائتی فوج کشی ممکن نہیں۔ لیکن نیٹو کے بعض ممالک میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ فن لینڈ اور سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کے بعد روس بلقان کے خطے میں اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لیے کیلنگراڈ ایکسکلیو میں جوہری ہتھیار یا آواز سے سے تیر رفتار  ہائپر سونک میزائل کے ذخیرے میں اضافہ کر سکتا ہے۔

روس کے گرد نیٹو کی گرفت مضبوط ہونے سے دنیا کی سیاست پر کیا نتائج مرتب ہونگے اسکے بارے میں ابھی کچھ کہناقبل ازوقت ہے لیکن سیانے کہہ رہے ہیں کہ اسکے نتیجے میں دنیا پر امریکہ کی ظالمانہ و خون آشام چودھراہٹ اور مضبوط ہوجائیگی۔ تاہم یہ امید بھی ہےکہ شائد اسکے  نتیجے میں بدسلوکی کا شکار روسی تاتاروں  اور شیشانوں  (چیچنیا)  کوکچھ راحت نصیب ہوجائے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27مئی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی27مئی 2022

روزنامہ امت کراچی 27 مئی 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 مئی 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

Friday, May 20, 2022

ڈرتے ہیں بندوقوں والےایک نہتی لڑکی سے

ڈرتے ہیں  بندوقوں والےایک نہتی لڑکی سے

صحافت انتہائی اہم اور دیانت دارانہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ صحافی انسانی معاشرے کی آنکھ اور کان ہے۔  سماعت و مشاہدے کو  زاویہ نگاری اور ذاتی پسند و ناپسند سے آلودہ کئے بغیر  قارئین اور ناظرین تک من و عن پہنچادینا ایک ذمہ دار صحافی کا فرضِ منصبی ہے۔ آج ہم  ایسی ہی ایک دیانت دار صحافی خاتون کا ذکر کرینگے جسے اسرائیلی فوج نے انتہائی بے دردی سے سرِعام قتل کردیا۔

شیریں ابوعاقلہ نے بیت المقدس کے قریب بیت اللحم میں آباد ایک راسخ العقیدہ مسیحی گھرانے میں جنم لیا۔ یہاں ایک چھوٹی سی وضاحت قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگی۔ شہرکے انگریزی ہجے یعنی Bethlehemکی وجہ سے اسے بیت اللحم کہا جاتا ہے یعنی گوشت کا مکان یا دوکان اور کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہاں زمانہ قبل مسیح ایک بڑا مذبح خانہ ہواکرتا تھا۔ اسکا عبرانی تلفظ بیت لییم ہے یعنی روٹی کی دوکان یا تندور۔ اس علاقے کو اللہ نے بر کتیں عطا کی تھیں اور انجیل مقدس کے مطابق حضرت عیسیؑ اور حضرت یحییٰؑ المعروف  John the Baptistکی ولادت با سعادت اسی علاقے میں ہوئی اسلئے یہ شہر  رزق یا برکت کاگھر (عبرانی بیت لییم) مشہور ہوگیا۔ کنعان کے مشرکین نے اس مقام کو افزائش نسل کے دیوتا لحمو کے نام سے موسوم کیاتھا۔حضرت عیسیٰؑ کے مقامِ پیدائش پر وہ تاریخی کلیسائے میلاد یا Church of Nativity بھی ہے جہاں ہرسال لاکھوں مسیحی زائرین حضرت عیسیٰؑ اور انکی پاکباز والدہ،  سیدہ مریم کو خراج عقیدت پیش  کرنے آتے ہیں۔

شیریں بہت کم عمری میں والدین کی شفقت سے محروم ہوگٗئیں اور ابتدا میں خالہ نے انکی پرورش کی جو امریکہ میں رہتی تھیں۔ اسی بنا پر شیریں کو امریکی شہریت مل گئی۔کچھ عرصے بعد وہ بیت المقدس واپس آگئیں۔ مشرقی بیت المقدس کے ثانوی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد انھوں نے اردن کی جامعہ علوم و ٹیکنولوجی (JUST)کے کلیہ مہندسین (انجنئرنگٌ) میں داخلہ لیا، لیکن صرف ایک سال بعد وہ جامعہ یرموک (اردن) کے  شعبہ صحافت میں آگئیں۔ انکا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز بننے کیلئے انھوں نے قلم سنبھالا ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریڈیو فلسطین سے وابستہ ہوگئیں۔ ساتھ ہی انھوں نے فرانسیسی ریڈیو مانٹی کارلو پر بھی سیاسی تجزئے پیش کئے۔ شیریں کو عربی اور انگریزی کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی عبور تھا۔ اس دوران انھوں نے اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں اور انسانی و جمہوری حقوق کی تنظیموں کیلئے بھی کام کیا۔جب 1996 میں الجزیرہ نے نشریات کا آغاز کیا تو  شیریں نے سمعی (ریڈیو) صحافت کے ساتھ  دوردرشن (ٹیلی ویژن ) کا محاذ بھی سنبھال لیا۔

شیریں ابوعاقلہ کو دفتر میں بیٹھ کر کالم لکھنے اور تجزئے بگھارنے کے بجائے میدان سے رپورٹنگ کا جنون کی حد تک شوق تھا، چنانچہ وہ فلسطینیوں کے ہر مظاہرے کا انکھوں دیکھا حال براہ راست سناتیں۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانیوالے فلسطینٰیوں کے گھر جاکر سوگوار خاندان سے براہِ راست گفتگو کرتے ہوئے انکے جذبات کا بامحاورہ انگریزی اور فرانسیسی میں ترجمہ کرتیں۔ شیریں کا یہ انداز انکے ناظرین کو بہت پسند آیا۔ کچھ عرصہ قبل انھوں نے جامعہ یروشلم کے شعبہ عبرانیات میں داخلہ لیا تھا۔ انکا خیال  تھا نشرواشاعت کے اسرائیلی ادارے عبرانی بولنے والے قار ئین اور ناظرین کو فلسطینیوں کی  حالتِ زار سے آگاہ نہیں کرتے اسلئے فوجی مظالم کے بارے میں انھیں کچھ خبر نہیں اور اسرائیلیوں کی اکثریت فلسطینیوں کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔

شیریں عملی صحافت کیساتھ میدان صحافت میں قدم رکھنے والے نئے ساتھیوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی بھی بہت خوشدلی سے کرتی تھیں اور وہ عملاً اپنے جونئر ساتھیوں کی مشفق 'باجی جان' تھیں۔ْ

اسوقت جبکہ امریکہ و مغرب اور عالمی میڈیا کی  توجہ روس یوکرین جنگ کی طرف ہے، تل ابیب نے  مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کا کام تیز کردیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ اگلے دوسال کے دوران 4000 نئے مکانات کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ملکیت کی شرائط میں وضاحت سے درج ہے کہ ان گھروں میں صرف یہودی مذہب کے ماننے والے رہ سکیں گے اور  کسی غیر یہودی کو کرائے دار رکھنا بھی غیر قانونی ہوگا۔ اس مقصد کیلئے دریائے اردن  کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس  میں فلسطینیوں کے مکانات مسمار کئے جارہے ہیں۔ ٰیہاں آباد لوگوں کو شدید ترین گرمی میں انکے گھرو ں سے نکال کر اردن کی سرحد پر خیمہ بستیوں کی طرف ہانکا جارہا ہے۔

اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف مقبوضہ عرب علاقوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ شمال مغربی کنارے  کے چالیس ہزار آبادی والے شہر، جنین سے خیمہ بستی کی طرف دھکیلے بلکہ  ٹھونسے جانیوالوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ مظاہرہ  کرنے والے نہتے شہریوں کو  کچلنے کیلئے بھاری فوجی نفری تعینات کی گئی ہے۔ فوج کی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی نوجوان جاں بحق ہوچکے ہیں۔

بدھ (11 مئی) کو علی الصبح جب بلڈوزر جنین پہنچے تو وہاں کے رہائشیوں نے زبردست مزاحمت کی اور  نعرہ زن ہجوم نے  فوج کی طرف پتھر پھینکے۔ پتھراو کے جواب میں اسرائیلی  فوج ربر کی گولیاں استعمال کررہی تھی اور وقتاًفوقتاً اصلی گولیاں بھی برسائی جارہی تھیں۔ اس دوران شیریں ابو عاقلہ وہاں پہنچ گئیں۔ روزنامہ القدس کے علی السمودی کے ساتھ جنین کی رہائشی، مقامی خاتون صحافی شازیہ ہنیشا پہلے سے وہاں موجو تھیں۔ شازیہ کا کہنا ہے کہ 'ہم تینوں ذرا بلندی پر کھڑے تھے۔ فلسطینی مظاہرین ہماری پشت پر اور اسرائیلی فوج ہمارے سامنے تھی۔ شیریں، علی اور میں نے شناخت کیلئے PRESSکی واسکٹ (vest)پہن رکھی تھی۔ فوج کے سپاہی ہمارے اتنا قریب تھے کہ انکے سینوں پر آویزاں بیج سے ہم انکے نام پڑھ سکتے تھے' ۔ شازیہ کے مطابق  فوج نے شست باندھ کر ہم تینوں کو نشانہ بنایا۔

ایک گولی شیریں کی پیشانی پر لگی اور انکی فولادی ٹوپی (ہیلمٹ) کو چیرتی ہوئی 51 سالہ  خاتون صحافی کے کاسہ سر کو پاش پاش کرگئی۔ ایک گولی نے علی السمودی کے پیٹ کو نشانہ بنایا جبکہ شازیہ ہنیشا کی طرف آنے والی گولی انکے بازو کو چھوتی ہوئی چلی گئی۔ شیریں تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئیں، علی شدید زخمی ہیں۔ خوش قسمتی سے جوانسال شازیہ کو مرہم پٹی کے بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا۔

چند گھنٹے بعد اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں رعم پارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض پر وضاحتی بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع بینی گینٹز (Benny Gants) نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی فوج نے براہ راست شیریں کو نشانہ نہیں بنایا۔جائے واردات کے بصری تراشوں (Footage)میں فلسطینی دہشت گردوں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ دیکھی جاسکتی ہے۔ ہمارا خیال ہے  کہ خاتون صحافی کسی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنی ہے اور ایک قیمتی انسانی جان کے نقصان پر ہمیں افسوس ہے۔ بحث سمیٹتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ نے وزیردفاع کے تجزئے سے اتفاق کیا اور اسرائیلی فوج کو مکمل حمائت کا یقین دلایا۔ یعنی مزید تحقیقات کا دروازہ طاقت و تکبر کی کیل سےبندکردیا گیا۔ڈھٹائی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ واقعہ صبح پانچ بجے پیش آیا اور فاضل وزیر دفاع نے کنیسہ میں وضاحتی بیان صبح ساڑھے آٹھ بجے جاری کیا۔ صرف ساڑھے تین گھنٹے یعنی لاش کے تشریح الجثہ (پوسٹ مارٹم) سے بھی پہلے تحقیقات مکمل کرلی گئیں۔

مقتدرہ فلسطین (PA)کی وزارت صحت نے اسرائیلی حکومت کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے اسے خاتون صحافی کا بہیمانہ قتل قراردیا ہے۔ فلسطینی ذرایع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے روئیے سے خوفزدہ ہوکر  عالمی نشریاتی اداروں نے اپنے عملے کو فلسطینی علاقوں سے ہٹالیا ہے اور صرف الجزیرہ کے چند صحافی ٰیہاں موجود ہیں۔ سینئر صحافیوں شیریں ابو عاقلہ اور علی السمودی کو نشانہ بنانے کا مقصد یہاں مو جود رہ جانے والے سخت جان صحافیوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔

 اسرائیلی فوج کی جانب سےصحافیوں کے خلاف دانستہ کاروائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ سال اسرائیلی فوج غزہ میں الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر پر بمباری  کرچکی ہے۔ اس موقع پر الجزیرہ نے ان 45صحافیوں کی فہرست شائع کی ہے جو 2000سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔فلسطینی انجمن صحافیان کے مطابق یہ تعداد 55ہے۔

شیریں کے قتل کے بارے میں اسرائیلی وزیردفاع کی وضاحت کو امریکہ سمیت ساری دنیا نے مسترد کر دیا ہے۔ صحافیوں کی عالمی انجمن IFJاور فلسطینی صحافیوں کی تنظیم PSJنے شیریں کے قتل کو آزادی صجافت پر براہ راست حملہ قراردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ایک شہری اور معروف صحافی کی موت پر شدید تشویش ہے اور اس واقعے کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے بھی اس قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ مقتدرہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ مقتدرہ،  شیریں کے قتل کا مقدمہ جرائم کی عالمی عدالت ICCمیں درج کرارہی ہے۔ فلسطینی رہنما کا یہ عزم ایک بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسلئے کہ اسرائیل ICCکو تسلیم ہی نہیں کرتا۔  

اسرائیلی فوج کے کلیجے شیریں ابو عاقلہ کے قتل کے بعد بھی ٹھنڈے نہ ہوئےاور  اس مظلوم کے جلوسِ جنازہ کو  تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جنین کے مقامی گرجا گھر سے شیریں کا جنازہ اٹھتے ہی اسرائیلی فوج نے کئی جگہ اسکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ انکا جنازہ جب نابلوس اور رام اللہ سے ہوتا ہوا مشرقی بیت المقدس میں  بیت اللحم کے قریب جبل صیہون Mount Zionکے مسیحی قبرستان پہنچا تو پولیس نے سوگواران پر لاٹھی چارج کیا۔ تابوت کو کاندھا دینے والوں  کی  گھونسوں اور لاتوں سے تواضع کی گئی اور کئی بار تابوت گرتے گرتے بچا۔جنازے کی ایسی بیحرمتی کی تو شائد پتھر کے دور میں بھی کوئی مثال نہ ملے۔ آفرین ہے حریت پسند دلاوروں پر جنھوں نے لاٹھی اور لاتوں کی چوٹ صبر اور عزم کیساتھ برداشت کرکے تابوت کو نیچے نہ گرنے دیا اور بنتِ فلسطین  کو پورے احترام کیساتھ انکے والدین کے پہلو میں سپرد خاک کردیاگیا۔ غیر شادی شدہ شیریں نے ایک بھائی ٹونی ابو عاقلہ سوگوار چھوڑا ہے۔ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ انکا تعارف تھا۔ اسی  بناپر ساتھیوں میں وہ شیریں تبسم (مسکراہٹ)کہلاتی تھیں۔ درندوں نے اس لازوال مسکراہٹ کو ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا یا یوں کہئے کہ  خبر کی تلاش میں  نکلنے والی شیریں خود ہی خبر بن گئی۔

مکہ کے جنت المعلاۃ اور مدینہ کے البقیع کی طرح جبلِ صیہون کا قبرستان مسیحیوں کیلئے تقدیس و حرمت کا حامل ہے کہ عبرانی روایات کے مطابق یہاں بنی اسرائیل کے کئی انبیا اور حضرت مسیحؑ کے پاکبازو متقی حواریوں (اصحابِ مسیحؑ) کی قبریں ہیں۔ مسجد اقصیٰ اور القدس شریف کی بیحرمتی تو روزمرہ کا معمول ہے، شیریں اور الجزیرہ  سے  نفرت میں اسرائیلی فوج نے جبل صیہون کا تقدس بھی پامال کردیا۔ شیریں کے جنازے پر اسرائیلی فوج کی درندگی کے مناظر دیکھتے ہوئے  حضرت نعیم صدیقی کا یہ کلام بے اختیار ہمارے لبوں پر آگیا۔

ہماری ہستی ہی کیا ہے آخر

بس ایک آوازہِ صداقت

بس ایک شمعِ فضائے ہستی

دبا سکو تو صدا دبادو

بجھا سکو تو دیا بجھا دو

صدا دبے گی تو حشر ہوگا

دیا بجھے گا تو صبح ہوگی

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کرچی 20 مئی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 مئی 2022

روزنامہ امت کرچی 20 مئی 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 مئی


2022


 

Thursday, May 12, 2022

فلسطینیوں کے اجڑتے مکانات ۔۔۔ کرینگے اہلِ ستم تازہ بستیاں آباد

فلسطینیوں کے اجڑتے مکانات  ۔۔۔ کرینگے اہلِ ستم تازہ بستیاں آباد

اسرائیلی حکومت نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینی بستیاں مسمار کرکے 4000 کے قریب نئے گھر تعمیر کرنے کی منظوری دیدی۔ ان مکانات کی ملکیت کیلئے یہودی ہونا شرط ہے۔ پہلے مرحلے میں 2536 اور اسکے ایک سال بعد مزید 1452 مکانات تعمیر کئے جائینگے۔  یہاں  آباد ہزاروں فلسطینیوں کو خیموں میں منتقل کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔

صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو گھروں سے نکال کر انکی زمینوں پر اسرائیلی بستیوں کی  تعمیر کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ 1967 سے جاری ہے جب 'چھ روزہ جنگ' کے نام سے مشہور عسکری تصادم میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس سمیت دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسی جنگ میں شام سے سطح مرتفع گولان اور مصر سے صحرائے سینا کے ساتھ بحر روم پر واقع زرخیر پٹی غزہ ہتھیالی گئی۔

تحفظِ انسانی حقوق کیلئے سرگرم عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 'عرب علاقوں کا مدنی اور شہری تشخص تبدیل کرکے مردم نگاری (demography) کو یہودی اکثریت میں تبدیل کرنے کیلئے جبری نقل مکانی اور بیدخلی کا سلسلہ اسرائیلی ریاست کے قیام یعنی 1948 سے جاری ہے۔ اسرائیلی حکومت عرب اکثریتی علاقوں میں زمین سمیت تمام وسائل وہاں کے مکینوں سے چھین کر غاصب  یہودی آبادکاروں کے حوالے کررہی ہے (حوالہ: الجزیرہ آن لائن ، 6 مئی 2022، نامہ نگار فرح نجار) 

'چھ روزہ جنگ' میں قبضہ کرتے ہی مشرقی یروشلم کو فوری طور پر اسرائیلی ریاست کا حصہ بنالیا گیاتھا جسے اسرائیل اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔ یہودیوں کا مقدس مقام یعنی دیوارِ گریہ، مسیح علیہ السلام کی جائے پیدائش بیت اللحم، پہاڑ پر تعمیر کیا گیا منبر جہاں سے حضرتؑ وعظ دیا کرتے تھے اور مسلمانوں کا قبلہ اول مشرقی بیت المقدس میں واقع ہے۔ اسرائیلی حکومت اور مقامی بلدیہ نے علاقے کا تقدس تبدیل کرنے کیلئے اسے مشرقی یروشلم کا نام دیا ہے تاہم فلسطینوں کیلئے یہ اب بھی 'القُدس شریف' ہے۔ دورِ فاروقی میں آزادی کے وقت سے اسے القُدس شریف کہا جاتا ہے۔

اس جنگ سے پہلے دریائے اردن کا مغربی کنارہ اسرائیل کے قبضے میں تھا جہاں یہودیوں کی اکثریت ہے جبکہ مشرقی علاقہ اردن کی ہاشمی سلطنت کا حصہ تھا۔ جنگ کے فوراً بعد اسرائیل نے مشرقی کنارے کو اپنے مغربی کنارے میں ضم کرلیا۔ دلچسپ بات کہ انضمام کے بعد اس پورے علاقے میں عربوں کی اکثریت ہے۔ انتہائی مغربی جانب اور شمال میں کچھ بستیوں کے علاوہ سارے علاقے میں عرب آباد ہیں۔ یروشلم بھی یہیں واقع ہے جسے دارالحکومت بنانے کا قصہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔اقوام متحدہ نے اس انضمام کو مسترد کرتے ہوئے یہ علاقہ اردن کو واپس کرنے کی قرارداد منظور کرلی تھی لیکن امریکہ اور برطانیہ نے سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو ویٹو کردیا۔ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ درجنوں قراراداد منظور کرچکی ہے۔صرف 1967 میں جولائی سے دسمبر تک 7 قراردادیں منظور کی گئیں جس میں اسرائیلی سے 1967 سرحدوں پر واپس جانے کیساتھ مشرقی بیت المقدس سمیت تمام مقبوضہ عرب علاقوں کی حیثیت تبدیل کرنے کی شدید مذمت کی گئی۔

ابتدا میں فوجی چھاونیاں اور دفاعی مورچے تعمیر کرنے کیلئے فلسطینیوں کو انکے مکانوں سے نکال کر اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ان سخت جانوں کی اکثریت نے اردن جاکر آرام دہ زندگی گزارنے کے بجائے امیدِ بہار پر شجرِ فلسطین سے پیوستہ رہنے کو ترجیح دی اور وہیں خیمے گاڑ لئے۔وقت کے ساتھ فوجی مورچے، نشانہ بازی کے میدان اور عسکری تنصیبات کی 'ضرورت' بڑھتی رہی، یا یوں کہیے کہ  فلسطینیوں کے مکانات اجڑتے اور خیمے آباد ہوتے رہے ۔ امریکہ نے بکمالِ مہربانی ان خیموں کیلئے خطیر رقم عطافرمائی۔  

جنگِ رمضان (1973) میں شکست کے بعد عرب اور مسلمان دنیا مایوسی کے گرداب میں ڈوب گئی اور تصادم  کے بجائے تعاون وپرامن بقائے باہمی کا بیانیہ تصنیف ہوا۔مصر کے سابق صدر انوارالسادات اور اردن کے فرمانروا شاہ حسین اس بیانیے کے مصنفین شمار ہوتے ہیں۔تحریک آزادی فلسطین کے سربراہ جناب یاسر عرفات ابتدا میں اس حکمت عملی کے خلاف تھے لیکن جلد ہی انھیں بھی زمینی حقائق کا 'ادراک' ہوگیا۔ اسرائیلی سمجھ گئے کہ امن کی خواہش عربوں کا اعترافِ شکست اور شاخِ زیتون درحقیقت دستبرداری اور سپردگی کا علَم ہے۔

گزشتہ صدی کے اختتام پرانتہا پسند اسرائیلی سیاست پر غالب آگئے، دوسری جانب نائن الیون (9/11)نے  ساری دنیا کے مسلمانوں کو دیوار سے لگادیا۔ مشرق وسطٰی سے مشرقِ بعید تک مسلم اکثریت کے چھوٹے بڑے تمام ملکوں کی خودمختاری عملاً تحلیل ہوگئی اور چند ایک کے سوا سب ہی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' کا ہراول دستہ بن گئے۔ فلسطین کی تحریک آزادی سمیت اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے مسلمان 'مہذب' دنیا کے نظر میں مشکوک قرار پائے۔

اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے مقبوضہ عرب علاقوں کی ہئیت تبدیل کرکے اس  ریاست اسرائیل کا حصہ بنانا شروع کردیا۔ وادیِ اردن قدیم عبرانی نام یہود ویشمرون یا یہود والسامرہ سے موسوم کردی گئی۔ اسکا عبرانی مخفف یوش ہے۔ اسرائیلی مورخین کے مطابق سامریہ حضرت سلیمانؑ کی شمالی اور یہودا حضرت کی جنوبی سلطنت کا حصہ تھا۔ اسرائیلیوں کا یہ دعوی اس اعتبار سے غلط ہے کہ لفظ 'یہودی' بعثتِ حضرت عیسیؑ کے بعد ایجاد ہوا ہے۔ اس سے پہلے یہودی مذہب کے ماننے والے خود کو بنی اسرائیل (حضرت یعقوبؑ کی اولاد)کہتے تھے۔ حضرت عیسیؑ کی نبوت کا انکار کرنے والوں نے اپنے کو یہودی کہنا شروع کیا۔

انتہاپسند بن یامین نیتھن یاہو نے وزیراعظم بنتے ہی 2009 میں علاقے کو یوش کہنا شروع کیا۔ پینسٹھ سال سے یہاں مارشل لا نافذ ہے۔ یہ علاقہ قانونی طور پر اسرائیل کا حصہ نہیں اور ریاست کے سرکاری نقشوں میں بھی یہودا اور سامریہ کو مقبوضہ علاقہ دکھایا جاتا ہے۔ عرب باشندے دریائے اردن کے دونوں کناروں کو فلسطینی ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔ خوداسرائیلی عدالت نے مشرقی یروشلم کے علاوہ پوری وادی کو مقبوضہ علاقہ قرار دیا ہے۔ امریکہ، عالمی عدالتِ انصاف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل  بھی دریائے اردن کے دونوں کناروں کو فلسطینی ریاست کا حصہ گردانتے ہیں۔ دوسری مدت کا انتخاب جیتنے کے بعد 2013 میں امریکی صدر اوباما نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل و فلسطین دو آزاد و خودمختار ریاستوں کے حامی ہیں اور انکے خیال میں مشرقی یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔

ستمبر 2014 میں اسرائیلی کابینہ کی ذیلی کمیٹی برائے آئین و قانون نے  یہودا اور السامریہ کی وادیوں کو اسرائیلی ریاست کا حصہ بنادینے کی قرارداد منظور کی۔ اجلاس کے صدر نیتن یاہو کی منت سماجت کے باوجود اجلاس میں موجود سات میں سے تین ارکان نے اس تجویز کو اقوامِ عالم کی امنگوں کے خلاف قراردیتے ہوئے مخالفت میں ہاتھ بلند کئے۔ان 'باغیوں' کی قیادت وزیر انصاف محترمہ زپی لوینی (Tzipi Livini)کررہی تھیں۔ لوینی صاحبہ فلسطینیوں سے مذاکرات کرنے والے اسرائیلی وفد کی سربراہ تھیں۔ انھوں نے قرارداد کو غیر منصفانہ اور اسکی حمائت کرنے والے وزرا کو انتہائی غیر ذمہ دار قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ مہذب دنیا اس بِل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور یہ طرز عمل قوموں کی برادری میں اسرائیل کو تنہا کردیگا۔اس مبنی برحق اور منصفانہ طرز فکر و عمل پر لوینی صاحبہ سیاسی اعتبار سے سنگسار کردی گئیں۔انھوں نے امن و انصاف کیلئے  'مبارک تحریک' (عبرانی نام حسنوا )کے نام سے علیحدہ سیاسی جماعت کھڑی کی لیکن 'غدار' زپی کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرناپڑا حتٰی کی 2019 کے آغاز میں 63 سالہ زپی لوینی سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں۔ آجکل موصوفہ اپنازیادہ وقت امریکہ میں گزارتی ہیں۔

قرارداد پر بحث کے دوران وزیر داخلہ گدیون سعر ((Gideon Saar نے نفرت انگیز گفتگو کرتے ہوئےکہا  کہ یہودا اور سامریہ قدیم سلطنت اسرائیل کا حصہ ہے اور موجودہ ریاست اسرائیل سےا سکا انضمام فطری ہے۔ علاقےمیں آزاد فلسطینیوں کے بارے میں مسٹر سعر نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ اگر عربوں کو اسرائیلی حاکمیت  پسند نہیں تو وہ مصر، اردن، لبنان اور شام کہیں بھی جاسکتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے جب نیتن یاہو کا اقتدار ڈگمگایا تو سعر صاحب نے 'امیدِ نو' کے نام سے نئی جماعت بنالی جسکو گزشتہ عام انتخابات میں 6 نشستیں ملیں، موصوف آجکل وزیرانصاف ہیں۔

یہی وہ وقت تھا جب صدر محمد مورسی کی  معزولی کے بعد مصری حکومت نے غزہ کی سخت ناکہ بندی کردی تھی جسکی وجہ سے غزہ کیساتھ مشرقی کنارے پر اشیائے ضرورت اور غذائی اجناس کی قلت نے فلسطینیوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کررکھاتھا۔ حزب اللہ شام کے اندرونی معاملات میں الجھی ہوئی تھی۔ شیعہ سنی تعصب نے فلسطینیوں کو ایران کی حمائت سے محروم کردیاتھا اورامداد کے راستے مسدود ہونے کے بعد فلسطینی خود کو بہت تنہا محسوس کر رہے تھے۔اسرائیلی کے عسکری ماہرین کا خیال تھا  کہ یہ فلسطینیوں پرفیصلہ کن ضرب لگانے کا مناسب وقت ہے کہ اُن کیلئےصیہونی فوج کی موثر  مزاحمت ممکن نہیں۔

امریکہ نے اس فیصلے کی مخالفت بلکہ شدید مذمت کی اور صدر اوباما کا 'ناراضگی سے بھرا پیغام 'لے کر امریکی وزیر خا رجہ جان کیری بنفس نفیس  تل ابیب تشریف لائے لیکن نیتھن یاہو نے صاف صاف کہدیا کہ اب یہ معاملہ پارلیمان میں ہے اور وہ مداخلت نہیں کرسکتے۔

اسوقت سے اب تک غرب اردن سے فلسطینیوں کو بیدخل کرکے تعمیر   کی جانیوالی  250 بستیوں میں  ساڑھے سات لاکھ اسرائیلیوں کو بسایا گیا ہے۔ ان کالونیوں  کو  فلسطینی آبادی سے الگ  رکھنے  کیلئے درمیان  میں کنکریٹ کی  بلندوبالا دیوار کھڑی کی گئی ہے جسے امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر apartheid wall  کہتے ہیں۔

مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی بستیوں کے قیام کا حالیہ اعلان اُس 'اقلیتی' حکومت نے کیا ہے جو اسلامی خیالات کی حامل رعم پارٹی کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کو 120 کے ایوان میں 60 ارکان کی حمائت حاصل ہے جن میں رعم کے چار ارکان شامل ہیں۔
سابق صدر اوباماکی طرح صدر بائیڈن کو بھی اس اعلان پر 'سخت تشویش' ہے۔   معلوم نہیں واشنگٹن لاچار  ہے جسکی وجہ سے اسرائیل انکے بیانات  کو پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا یا مکار کہ سب کچھ باہمی رضامندی سے ہورہاہے اور بیان بازی نُوراکُشتی کا حصہ ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں جب   3000اسرائیلی مکانات کی تعمیر کی منظور ی دی  گئی تو  امریکی وزارت خارجہ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  'فلسطینی اراضی پر اسرائیلی بستیوں کا قیام ،  کشیدگی  میں کمی  اور بحالیِ  امن کیلئے کی جاری   کوششوں سے  مطابقت نہیں رکھتا'۔ اشک شوئی کیلئے اسرائیل نے  تعمیر کا کام وقتی طور پر موخر کیا اور چند ماہ بعد منصوبہ مکمل کرلیا گیا۔

صدر بائیڈن اگلے ماہ سرکاری دورے پر اسرائیل جارہے ہیں اور قصرِ مرمریں کی  ترجمان نے کہا تھا کہ بستیوں کی تعمیر پر پابندی اسرائیل یاترا کی ایک شرط ہے۔ خیال ہے کہ نوکرشاہی کے حیلوں سے   تعمیر کا کام موخر کرکے امریکی صدر کو شرمندگی سے بچنے کا موقع فراہم کیا جائیگا۔  اسلئے  کہ'   ُسپر پاور' کے سُپر رہنما  میں دورہِ اسرائیل  منسوخ کرنے کی ہمت نہیں  چنانچہ تعمیرات  کو چند دن موخر کرکے  خیالِ خاطرِ احباب  کا اہتمام کیاجارہا ہے۔

امریکہ کے ردعمل پر سخت اشتعال کا اظہار کرتے ہوئے حکمراں جماعت کے رکنِ پارلیمان  نیر اورباش (Nir Orbach)نے کہا کہ  جو لوگ يہودا  والسامرة کو اسرائیل کا حصہ نہیں مانتے انھیں یہاں  آنے کی ضرورت نہیں۔اسی لہجے میں بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ محترمہ  ایلٹ شیکڈ نے کہا کہ یہودا اور سامرہ میں یہودیوں کی آبادکاری  ہماری سالمیت و خودمختاری کا استعارہ، فطری ضرورت  اور بنیادی حق ہے  جس پر بات چیت کی کوئی ضرورت نہیں۔

لاکھوں لوگوں کو انکے آبائی گھروں سے نکال کر بھیڑ  بکریوں کی طرح خیموں  کی طرف ہنکادینا  آزاد انسانوں کوغلام بنادینے کے برابر ہے۔ جس پر دنیا کی خاموشی  تو  غیر متوقع نہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں  خون اورآبروئے  مسلم سب سے بے قدرو بے وقعت ہے لیکن حیرت ان روشن خیال مسلمانوں پر ہوتی ہے  جو سمجھتے ہیں کہ یہ سب  کچھ فلسطینیوں کی انتہاپسندی کا نتیجہ ہے۔ وسائل کی کمی کی بنا پر فلسطینی بے دخلی کی مزاحمت نہیں کرسکیں گے لیکن احساسِ محرومی اور اشتعال خودکش بمباروں کو جنم دے سکتا ہے۔ اسرائیلی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ محض فوجی برتری اور قوت قاہرہ سرحدوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ فلسطینیوں کو گھیر کر مارنے اور دیوار سے لگانے کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ پرامن بقائے باہمی میں ہی سب کا بھلاہے۔ صدر بائیڈن کو چاہئے کہ اپنے دورے میں یہ پیٖغام اسرائیلی قیادت کو پہنچادیں کہ صاحبِ نظراں نشہِ طاقت ہے خطرناک

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 مئی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 مئی 2022

روزنامہ امت کراچی 13 مئی 2022

ہفت روزہ رہبر، سرینگر 15 مئی 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو