Thursday, September 29, 2022

ریاستی دہشت گردی ؟؟؟؟؟

 

ریاستی دہشت گردی ؟؟؟؟؟

روس سے جرمنی آنے والی رودِ شمالی Nord Stream پائپ لائن میں شکاف کی خبر نے ساری دنیا میں سنسنی پیدا کردی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا بحیرہ بلقان (Baltic Sea) کے نیچے سے گزرنے والی 48 انچ قطر کی اس 1222 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی گنجایش 55 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔

عجیب بات کہ دونوں پائپ لائنوں یعنی رودِ شمالی 1 اور رود شمالی 2 میں شگاف ایک ہی جگہ پڑا ہے، یہ مقام عالمی پانیوں میں ہے لیکن ڈنمارک اور سوئیڈن اسے اپنا اقتصادی علاقہ قراردیتے ہیں۔

رودِ شمالی 1 کی 51 فیصد ملکیت روسی گیس کمپنی Gazpromکے پاس ہے جبکہ رودشمالی 2 ، سو فیصد گیزپروم کے ذیلی ادارے کی ملکیت ہے۔

ان دونوں پائپ لائنوں سے گیس کا بہاو کئی ہفتوں سے معطل تھا۔ گیز پروم نے کمپریسر کی مرمت کی بناپر گیس کی فراہمی گزشتہ ماہ کے آخر سے بند کی ہوئی ہے۔ اس بناپر گیس کے دباو سے پائپ لائن کا پھٹ جانا خارج ازامکان ہے چنانچہ ماہرین اسے تخریبی کاروائی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

بحیرہ بلقان اور اسکے ساحلی ممالک کو بدترین آلودگی میں مبتلا کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟

انگلیاں روس، یوکرین اورامریکہ پر اٹھ رہی ہیں۔

روس پر شک اسلئے غیر منطقی لگتا ہے کہ ان پائپ لائنوں کی تعمیر پر گیزپروم نے 6 ارب یورو (5 ارب 84 کروڑ ڈالر) خرچ کئے ہیں۔ اپنے قیمتی اثاثے کو نقصان پہنچانے کی کوئی تُک نہیں۔ اگر اس کاروائی کا مقصد یورپ کو گیس سے محروم کرکے وہاں بحران پیدا کرنا تھا، تب بھی اسکے لئے گیس پائپ لائن میں شگاف کی ضرورت نہ تھی۔ ان پائپ لائنوں کی گیس بند کرکے روس یہ مقصد بہت ہی موثر انداز میں حاصل کرچکاہے۔

یوکرین کو یورپ سے شکائت ہے کہ وہ روس سے گیس خرید کر یوکرین کیخلاف جنگ کی سرمایہ کاری کررہے ہیں اور صدر زیلیسنکی کئی بار روسی گیس کی پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ اس اعتبار سے یوکرین کو شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔

اس واردات میں امریکہ کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ روسی تیل اور گیس کی برآمدات کو صفر کردینا چچا سام کی ترجیحِ اول ہے اور صدر بائیڈن یہ بات بہت عرصے سے کہہ رہے ہیں۔اسوقت چونکہ پائپ لائنوں سے گیس کا بہاو معطل ہے ، اسلئے ان میں شگاف ڈالنا نسبتاً کم خطرناک ہے۔ عام حالات میں گیس اچانک منقطع ہوجانے سے یورپ مشتعل ہوسکتا تھا لیکن اب جبکہ گیس پہلے ہی سے بند ہے تو شدید ردعمل کا بھی کوئی ڈر نہیں۔

بہت ممکن ہے کہ یہ یوکرینیوں کا کام ہو لیکن امریکہ کی سہولت کاری کے بغیر انکے لئے اتنی بڑی کاروائی ممکن نہیں۔

اس چشم کشا واردات کے بعد امریکہ کی خاموشی سے بھی دال میں کچھ کالا ہونے کا تاثر ابھر رہاہے۔ بین الاقوامی پانیوں میں اس قسم کی کاروائی ایک سنگین جرم اور دہشت گردی ہے۔ اس میں روس یا ایران کے ملوث ہونے کا ہلکا سا شائبہ بھی واشنگٹن کو آپے سے باہر کردینے کیلئے بہت تھا، لیکن یہاں ایک مشکوک سی خاموشی ہے۔

اس سنگین کاروائی پر چونکہ امریکہ کو کوئی خاص تشویش نہیں اسلئے اقوام متحدہ بھی اپنے حال میں مست ہے

ذرا تصور کریں، اگر یہ کاروائی افغان ملا، کوئی فلسطینی یا شمالی کوریا کرتا تو دنیا کا ردعمل کیاہوتا؟؟؟؟؟

قومِ شعیبؑ کی طرح دورِ جدید کے انسان نے بھی لینے اور دینے کیلئے الگ الگ باٹ بنالئے ہیں۔


چہرہِ کتاب اور دعوت عذاب

 

چہرہِ کتاب اور دعوت عذاب

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم Amnesty International نےسماجی رابطے کے ادارے فیس بک Facebookکو برما میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا جزوی ذمہ دار ٹہراتے ہوئےمتاثرین کیلئے تاو ان کا مطالبہ کیا ہے۔

آج جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے ادارے کی انتظامیہ سے کئی بار شکائت کی کہ برما کے دہشت گرد اور انتہاپسند فیس بک کے پلیٹ فارم کو روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کررہے ہیں لیکن فیس بک پر نفرت کی یہ مہم 2012 سے 2017 تک جاری رہی جسکے بعد برمی فوج نے مسلمانوں کے قتل عام کی مہم شروع کی اور زندہ رہ جانے والے سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا کو بنگلہ دیش کی طرف دھکیل دیا۔

ایمنسٹی کی معتمد عام محترمہ Agnes Callamerdنے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا کہ فیس بک پر روہنگیا کے خلاف نفرت کی مہم مہینوں نہیں بلکہ سالوں جاری رہی اور ہماری طرف سے بار بار کی یاددہانیوں اور انتباہ پر ادارے نے کان نہیں دھرے ، حتیٰ کہ نفرت کی مہم مسلمانوں کو بھسم کرگئی۔ کیلمر صاحبہ نے کہا کہ بدنصیب روہنگیا کیساتھ جو کچھ ہوا، فیس بک، بطورِ ادارہ ااسکا ذمہ دار ہے۔ معتمد ِ عام کا کہنا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کا اتکاب برمی فوج نے کیا لیکن نفرت کے بیانئے کی پزیرائی سے فیس بک نے اشتہارات کی صورت میں خوب مال کمایا۔

محترمہ کیلمر نے کہا کہ فیس بک اس (نسل کشی) کی ذمہ دار ہےاور اسے متاثرین کو معاوضہ اداکرکے اس بھیانک جرم میں معاونت کی تلافی کرنی چاہئے۔

چار برس پہلے 2018 میں برماجانے والے تحقیقاتی مشن کے سربراہ جناب مرزوکی دارالسمن نے کہا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کیخلاف نفرت پھیلانے میں سوشل میڈیا نے بہت بڑا کردار اداکیا ہے۔ جب کس نے ان سے پوچھا سوشل میڈیا کا کونسا پلیٹ فارم؟ تو مرزوکی صاحب نے کہا کہ 'برما میں سوشل میڈیا فیس بک اور فیس بک سوشل میڈیا ہے'

گزشتہ سال کے اختتام پر امریکہ کے برمی مہاجرین نے کیلی فورنیا کے عدالت میں فیس بک کے خلاف 150ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا تھا

حوالہ: MSN، الجزیرہ، بی بی سی، ایمنسٹی

نوٹ: فیس بک اب Meta Platformکہلاتاہے


امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

 

امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

منگل 13 ستمبر کو ریاست نیو ہیمپشائر  پرائمری کیساتھ ہی امریکہ میں 2022 کے وسط مدتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ہوگیا۔اب 8 نومبر کو ووٹ ڈالے جائینگے۔پرائمری انتخابات پارٹی ٹکٹ کے فیصلے کیلئے منعقد کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا، امریکہ میں پارٹی ٹکٹوں کا اجرا  پارلیمانی بورڈ یا قیادت کی جانب سے نہیں ہوتا بلکہ جماعتی نامزدگی عام انتخابات کے ذریعے ہوتی ہے۔ دلچسپ بات کہ ٹکٹ کے حصول کیلئے جماعت کی رکنیت بھی ضروری نہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں سینیٹر برنی سینڈرز ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کے خواہشمند تھے جبکہ موصوف نے ووٹر رجسٹریشن دستاویزات میں خود کو 'آزاد' درج کرایا ہوا ہے اور سینیٹ کا انتخاب بھی انھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتا تھا۔پرائمری انتخابات میں ووٹ ڈالنے کیلئے جماعتی رکنیت کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ووٹر رجسٹریشن کے وقت پسندیدہ پارٹی کا نام لکھدینا کافی ہے۔ بہت سی ریاستوں میں  یہ تکلف بھی نہیں، بلکہ پولنگ اسٹیشن پر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ پیپر لے سکتے ہیں۔ اکثر ریاستوں میں ٹکٹ کیلئے کم ازکم کم50 فیصد ووٹ لینا ضروری ہے اور اگر کوئی بھی امیدار مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو دوسرے مرحلے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان برہ راست مقابلہ ہوتا ہے۔ اس فیصلہ کن انتخاب کو runoff الیکشن کہا جاتا ہے۔

نومبر کے انتخابات کیلئے پرائمری انتخابات کا سلسلہ 3 مئی کو ریاست انڈیانا سے شروع ہواتھا۔ امریکہ میں کوئی مرکزی الیکشن  کمیشن نہیں بلکہ انتخابات کا انعقاد ریاستوں کی ذمہ داری ہے بلکہ سارا انتظام و انصرام کاونٹیوں کی انتظامیہ کرتی ہیں۔ اس بناپر  حلقہ بندی، ووٹر رجسٹریشن اور ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار بھی ہر جگہ ایک جیسے نہیں اور مطلوبہ نتائج کیلئے جماعتی مداخلت بہت واضح ہے۔صرف چھ ریاستوں میں ایوان نمائندگان کی حلقہ بندی کیلئے آزادوخودمختار کمیشن قائم کئے گئے ہیں جبکہ اکثر ریاستوں میں حلقہ بندی کا کام ریاستی مقننہ (صوبائی اسمبلی) کی ذمہ داری ہے۔

امریکہ کی تمام ریاستوں میں مقننہ کے انتخابات جُفت (even)سال کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ہوتے ہیں لیکن لوزیانہ(Louisiana) ، مسسی سپی (Mississippi)، نیوجرسی اور ورجنیا میں پارلیمانی انتخابات طاق (odd)سال میں کرائے جاتے ہیں ۔چنانچہ 8 نومبر کو 46 ریاستوں میں  پارلیمانی انتخابات  ہونگے۔ امریکی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوان بالا یا سینیٹ میں تمام کی تمام پچاس ریاستوں کی نمائندگی مساوی ہے اور ہر ریاست کی نمائندگی دو سینیٹر کرتے ہیں۔ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی 534 نشستیں آبادی کے اعتبار سے تمام ریاستوں پر تقسیم کی گئی ہیں۔

ایوان نمائندگان مدت دو سال ہے جبکہ سینیٹروں کا انتخاب 6 سال کیلئے ہوتا ہے۔ نومبر میں ایوان نمائندگان کیساتھ سینیٹ کی 34 نشتوں پر انتخابات ہونگے۔ ان میں سے 14 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی اور 20 ریپبلکن پارٹی کے ارکان کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی ہیں۔ اسی دن 36 ریاستوں اور تین امریکی کالونیوں گوام، شمالی جزائرِ ماریانہ اور ورجن آئی لینڈ میں گورنروں کا چناو بھی ہوگا۔بیس ریاستوں میں ریپبلکن اور 16میں ڈیموکریٹک گورنر اپنی مدت پوری کررہے ہیں۔

کئی ریاستوں میں مختلف اہم امور پر عوام کی رائےمعلوم کی جائیگی۔ اس مقصد کیلئے پرچہ انتخاب پر سوالات تحریر کئے جاتے ہیں جنکے  جوابات صرف ہاں یا نہ میں دئے جاسکتے ہیں۔ ان سوالات کو امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں PROPOSITIONSکہا جاتا ہے۔

اسوقت سینیٹ میں دونوں جماعتوں کی پارلیمانی قوت برابر ہے یعنی ہر ایک پارٹی کے 50 سینیٹر ایوان میں  براجمان ہیں۔ امریکی قانون کے تحت نائب صدر بر بنائے عہدہ سینیٹ کی سربراہ ہیں اور ووٹ برابر ہوجانے کی صورت میں فیصلہ کن یا tie-breakerووٹ ڈال کر اپنی پارٹی کی نیّاپار لگاسکتی ہیں۔ واضح اکثریت کیلئے ایوانِ نمائندگان کی 218 نشستیں درکار ہیں اوراسوقت ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی تعداد 221 ہے۔

رائے عامہ کے حالیہ جائزے صدربائیڈن کیلئے سخت مایوس کن ہیں۔مہنگائی نے عام امریکیوں کی زندگی دوبھر رکھی ہے۔ دوا اور غذا ہر چیز کی قیمت آسمان پر ہے۔ یوکرین کی جنگ میں امریکہ بہادر اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں جسکے اضافی بوجھ نے مہنگائی سے دبے امریکیوں کا کچومر نکال دیا ہے۔ کرونا کے دوران احتیاطی تدابیر سے  زنجیرِ فراہمی (supply chain)  کے جو حلقے پٹری سے اتر گئے تھے ان میں سے کئی اب تک معطل ہیں نتیجے کے طور پر اشیائے خوردنی سمیت بہت سی ضروری اشیا کی نقل و حمل ہنوز مکمل طور سے بحال نہیں ہوسکی۔ اور تو اور نونہالوں کے دودھ (baby formula)کی جزوی قلت اب تک موجود ہے۔ بازارِ حصص مندی کا شکار ہے۔ تنخواہ دار ملازمین کی نجی پینشن کی سرمایہ کاری کیلئے بازارحصص محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پینشن کی مجموعی قدر میں 35 سے 40 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔

دوسری طرف  ڈیموکریٹک پارٹی میں نظریاتی تقسیم کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ کو قانون سازی میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ سینیٹر جو مینچن اور سینیٹرمحترمہ کرسٹن سینیما ہیں تو ڈیموکریٹ،  لیکن نظریاتی طور پر قدامت پسند ہونے کی بناپر یہ دونوں بائیڈن ایجنڈے پر تحفظات رکھتے ہیں اورنظریاتی ابہام کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی افرادی قوت عملاً 48 رہ گئی ہے۔

 سینیٹ کی جن 14 نشستوں کا ڈیموکریٹک پارٹی کودفاع کرنا ہے ان میں سے دو سخت خطرے میں ہیں جبکہ ایک پرکانٹے کا مقابلہ ہے۔دوسری طرف ریپبلکن پارٹی کی صرف ایک نشست خطرے میں نظر آرہی ہے۔ گھمسان کا یہ معرکہ ریاست پینسلوانیہ میں ہونا ہے جو روائتی طور پر ریپبلکن کا گڑھ ہے۔ سینٹر پیٹ ٹومی نے نجی مصروفیت نے بناپر نئی مدت کیلئے انتخاب لڑنے سے معذرت کرلی ہے۔ اس بار یہاں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ترک نژاد ڈاکٹر محمد اوز ہیں جو رائے عامہ کے تمام جائزوں میں اپنے مخالف جان فیٹرمین سے پیچھے ہیں۔ محمد اوز کو سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کی مکمل حمائت حاصل ہے۔ دلچسپ بات یا ستم ظریفی کہ مسلمان ڈاکٹر محمد اوز اور یہودی جان فیٹر مین دونوں اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔

دوبرس پہلے ہونے والی مردم شماری کے نتیجے میں ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے انتخابات بہت دلچسپ ہوگئے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق اب امریکہ کی آبادی 33 کروڑ پندرہ لاکھ کے قریب ہے جو 2010 کی مردم شماری کے مقابلے میں 2 کروڑ 27 لاکھ زیادہ ہے یعنی گزشتہ دس سالوں میں امریکہ کی  آبادی 7.4فیصد بڑھ گئی۔ آبادی میں اضافے کیساتھ اس عرصے میں امریکی شہریوں نے ایک ریاست سے دوسری ریاستوں کی طرف نقل مکانی بھی کی جس سے ریاستی آبادی میں فرق آیا۔ بین الریاستی نقل مکانی اور آبادی میں اضافے سے سینیٹ کی ہئیت تو ویسی کی ویسی ہی ہے کہ ایوانِ بالا یں تمام کی تمام پچاس ریاستوں کی نمائندگی مساوی ہے  لیکن ایوان نمائندگان میں جو فرق آیا ہے اسکے مطابق

  • سات ریاستوں میں ایوان نمائندگان کی نشستیں ایک ایک کم ہوگئی ہیں۔ اس سات میں سے تین  ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی اور دو رپبلکن کا گڑھ ہیں۔ دو ریاستوں میں مقابلہ برابر کا ہے
  • پانچ ریاستوں میں ایک ایک نشست کا اضافہ ہوا ہے، جن میں سے تین ریپبلکن کی گرفت میں ہیں اور ایک ڈیموکریٹس کا قلعہ ہے۔
  • ٹیکسس (Texas)کو دو اضافی نشستیں ملیں ہیں۔یہاں ریپبلکن پارٹی کازور ہے لیکن اس ریاست میں ہسپانویوں، ایشیائیوں اور افریقی نژاد امریکیوں کے تناسب میں مسلسل اضافے سے ریپبلکن پارٹی کی گرفت کمزور ہورہی ہے۔

آنے والے وسط مدتی انتخابات سابق صدر ٹرمپ کیلئے بہت اہم ہیں۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ 2024 کے صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر قسمت آزمائی کی خواہش رکھتے ہیں۔پرائمری انتخابات کے دوران انھو ں نے اپنے منظورِ نظر امیدواروں کے حق میں زبردست  مہم چلائی۔اکثر جگہ انکے حامی ریپبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور سابق صدر نے کئی برج گرادئے۔ جسکی واضح مثال ریاست وایومنگ ہے جہاں سابق نائب صدر ڈک چینی کی صاحبزادی لز چینی  2016 سے مسلسل منتخب ہورہی تھیں۔ پرائمری انتخابات میں چینی صاحبہ کو صدر ٹرمپ کی حمائت یافتہ امیدوار نے بدترین شکست سے دوچار کیا۔ دوسال پہلے 68 فیصد فیصد لے کر کانگریس کی نشست اپنے نام کرنے والی 56 سالہ لز چینی کو پرائمری میں صرف 28 فیصد ووٹ ملے۔

اتوار 25 ستمبر کو امریکن براڈکاسٹنگ کمپنی ABC اور واشنگٹن پوسٹ نے رائے عامہ کے جو جائزے شایع کئے ہیں اسکے مطابق 51 فیصد امریکی ریپبلکن اور 46 فیصد برسراقتدار پارٹی کے حامی ہیں۔ خیال ہے کہ سنیٹ میں تو شائد صدر بائیڈن برتری برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ایوان نمائندگان پر ریپبلکن پارٹی کا قبضہ نوشتہ دیوار نظر آرہا ہے۔

معمولی ہی سہی لیکن اسوقت دونوں ایوانوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کو برتری حاصل ہے۔اسکے باوجود اندرونی کشکمش کی وجہ سے صدر بائیڈن کو مطلوبہ قانون سازی میں مشکل پیش آرہی اور اگران انتخابات میں ریپبلکن پارٹی ایوان نمائندگان سے حکمراں جماعت کی بالادستی ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اپنے اقتدار کے آخری دوسالوں میں بائیڈن انتطامیہ مفلوج ہوکر رہ جائیگی۔

صدر  بائیڈن پر امید ہیں کہ اسقاط حمل کے معا ملے پر امریکی خواتین کی بے چینی سے پانسہ ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں پلٹ سکتا ہے۔ اس سال جون میں امریکی سپریم کورٹ نے 1973 کے اس فیصلے کو معطل کردیا جسکے تحت امریکی خواتین کو اسقاط کا حق دیا گیا تھا۔ تین آزاد خیال منصفین کے مقابلے چھ قدامت پسند ججوں نے فیصلہ سنایا کہ امریکی آئین کی رو سے صحت کے معلامات کا تعلق ریاستوں سے ہے لہذا وفاق کو تولیدی حقوق سمیت صحتِ عامہ کے باب میں کسی قسم کی قانون سازی کا حق نہیں۔ یعنی  اسقاط  سے متعلق قانون سازی ریاستوں کا کام ہے۔ اسوقت امریکہ کی 50 میں سے 30 ریاستوں پر ریپبلکن پارٹی کی حکومت ہے،  18 ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کو برتری حاصل ہے جبکہ ریاست مینی سوٹا اور الاسکا میں دونوں پارٹیاں برابر ہیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی اپنے زیراثر ریاستوں میں ریپبلکن پارٹی نے اسقاط کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے اسکی خلاف ورزی پر قید و بھاری جرمانہ عائد کردیا ہے۔ ریاست ٹیکسس میں تو اسقاط کیلئے کسی خاتون کو اسپتال یا مطب لے جا نیوالے ٹیکسی ڈرائیور پر بھی سہولت کاری کا مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔

امریکی خواتین کی اکثریت اسقاط پر پابندیوں کو غیر منصفانہ سجھتی ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی اس معاملے کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ لبرل امیدوار اپنے اشتہاروں میں خواتین کو متنبہ کررہے ہیں کہ اگر آنے والے انتخابات میں قدامت پسندوں کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ لوگ ہم جنس پرستی اور دیگر سماجی آزادیوں پر بھی پابندیاں لگادینگے۔ تاہم تولیدی حقوق  پر عائد حالیہ قدغنوں سے ناخوش  خواتین  میں  یہ نعرہ اب تک بہت زیادہ مقبول نہیں۔ اسوقت امریکیوں کی ترجیح  پیٹ ہے اور اکثریت، حکومت کو معاشی مشکلات کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ بظاہر ایس لگ رہا ہے کہ معاشی پریشانی،  مہنگائی اور  قانون سازی میں تعطل کی بنا پر وسط مدتی انتخابات کے نتائج صدر بائیڈن کیلئے ناخوشگوار ہونگے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 ستمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 ستمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 30 ستمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 اکتوبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, September 22, 2022

ایس سی او(SCO)کی سمرقند سربراہی کانفر نس

 

ایس سی او(SCO)کی سمرقند سربراہی کانفر نس

شنگھائی تعاونی تنظیم Shanghai Cooperation Organization (SCO) ایک یورپ ایشیائی تنظیم ہے، جسکا آغاز  سرحدی تنازعات کے پرامن حل پر غیر رسمی بحث و مباحثے سے ہوا۔یہ دراصل اعتماد سازی کی ایک کوشش تھی۔  چین کے شہر  شنگھائی میں 26 اپریل 1996 کو  روس، تاجکستان، کرغستان، قازقستان اور چین کے سربراہ جمع ہوئے اور سرحدی معاملات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔ یہاں معاشی مسائل پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ بات چیت کے دوران اس بات پر اصولی اتفاق ہوگیا کہ تصادم و کشیدگی اقتصادی ترقی کیلئے انتہائی مہلک ہے اور بات چیت کے ذریعے متنازعہ مسائل کے حل میں سب کا فائدہ ہے۔ یہ تو آپکو معلوم ہی ہے قازقستان اور چین دیکر چار ممالک کے پڑوسی ہیں۔روس کی سرحدیں چین اور قازقستان سے ملتی ہیں۔ کرغستان، چین، قازقستان اور تاجکستان کے پڑوس میں ہے جبکہ تاجکستان، چین اور کرغستان کی سرحدوں پر واقع ہے اور پڑوسیوں کے درمیان کھٹ پٹ چلتی ہی رہتی ہے۔ اس نشست کے دوران گفتگو جاری رکھنے پر اتفاق ہوا اور اس 'کلب'کا نام شنگھائی 5 طئے پایا۔

گویا SCOکا آغاز بھی گروپ 7 کے انداز میں ہوا جب امریکہ،  جرمنی (اسوقت مغربی جرمنی)، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خزانہ تیل کے بحران پر غیر رسمی گفتگو کرنے واشنگٹن میں جمع ہوئے اور جب یہ لوگ صدر نکسن کے پاس پہنچے تو  امریکی صدر نے ان سے قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی لائبریری میں ملاقات کی اور اس  غیر رسمی و غیر روائتی مجلس کو نام 'لائبریری گروپ'کا نام دیا گیا۔ جاپان،   اٹلی اور کینیڈا کی شمولیت کے بعد یہ محفل گروپ 7 کے نام سے ایک مضبوط اقتصادی بلاک میں تبدیل ہوگئی۔

دوسرے برس شنگھائی 5 کلب کا اجلاس ماسکو میں ہوا جہاں تمام ارکان نے اپنی سرحدوں پر فوج کی تعداد میں واضح کمی کا اعلان کیا۔ اسکے ایک ماہ بعد روس اور چین کے رہنماوں نے اعلان کیا کہ دنیا پر ایک طاقت کی بالادستی قابل قبول نہیں۔ یہ دراصل امریکہ کے اس نئے بیانئے کی طرف اشارہ تھا جسکے مطابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ دنیا کی واحد 'سپر' پاور ہے۔ چینی صدر جیانک ژیمین (Jian Zemin)اور انکے روسی ہم منصب یورس یلسٹن نے ایک دستاویز پر دستخط کئے جو معاہدہ کثیر قطبی دنیا یا Multipolar World کے نام سے مشہور ہوا۔

الماتی (قازقستان) اور بشکیک (کرغزستان) اجلاس روائتی نوعیت کے رہے لیکن 2000 میں جب یہ رہنما دو شنبے (تاجکستان) میں جمع ہوئے تو 'انسانیت اور انسانی حقوق' کے نام پر دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عزم کیا گیا۔ ساتھ ہی پانچوں ملکوں نے علاقے میں فوجی، سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا۔  

اسکے اگلے سال شنگھائی سربراہ اجلاس میں ازبکستان کو اس کلب کا رکن بنالیا گیا اور اب یہ تنظیم شنگھائی 6 کہلانے لگی۔ اسی سال یعنی 2001 میں تمام کے تمام چھ اراکین نے شنگھائی 6 کی تنظیم نو کے بعد اسے شنگھائی تعاونی تنظیم یا SCOبنادیا۔ ایک سال بعد روسی شہر سینٹ پیٹرسبرگ کی سربراہ کانفرنس میں تنظیم کے نئے دستور کی منظوری کی ساتھ اسے  ترقی و خوشحالی کیلئے ایک ہمہ جہت ادارے میں تبدیل کردیا گیا، 2015 میں ہندوستان اور پاکستان کی شمولیت کے بعد اب اس ادارے کے ارکان کی تعداد 8 ہوگئی ہے۔ ایران کی رکنیت بھی منظور کرلی گئی ہے تاہم تہران کی اسنادِ رکنیت کا اجرااگلے سال اپریل میں ہوگا۔رکن ممالک کے رقبے کے اعتبار سے  SCOیورپ اور ایشیا کے 60 فیصد حصے کی ترجمانی کرتی ہے، دنیا کی 40 فیصد آبادی اور دنیا کی  30 فیصد  پیداوار و وسائل (GDP)کے مالک SCO ممالک ہیں (حوالہ: وکی پیڈیا)

افغانستان،  بیلارُس اور منگولیا کو SCOمیں مبصر کادرجہ حاصل ہے۔بیلارُس کی رکنیت پر  اصولی اتفاق ہوچکا ہے لیکن حتمی فیصلہ غالباً اگلے برس دلی سربراہی اجلاس میں ہوگا۔افغانستان SCOکا مبصر تو ہے لیکن اگست 2021میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اسکی یہ حیثیت عملاً معطل ہے۔

چونکہ SCOکا آغاز 'گپ شپ کلب' کے طور پر ہوا تھا اسلئے مکمل رکنیت اور مبصر کیساتھ شرکاِ گفتگو یا Dialogue Partnersکے نام سے ایک مستقل شعبہ بھی ہے۔ سری لنکا، ترکی، کمبوڈیا، نیپال، آرمینیا، مصر، قطر اور سعودی عرب  گفتگو میں ادارے کے ساجھے دار ہیں۔ بحرین، کویت، مالدیپ، میانمار (برما) اور متحدہ عرب امارات SCOکے شرکاِ گفتگو بننے کا خواہشمند ہیں جنکی درخواستوں پر حالیہ اجلاس میں غور کیا گیا۔ شام اور اسرائیل کی جانب سے بھی  شریکِ گفتگو ہونے کی درخواست موصول ہوئی ہے لیکن ان پر غور ابھی نہیں شروع ہوا۔ ادارے کا نصابِ رکنیت کچھ اسطرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں شریک گفتگو، پھر مبصر اور اسکے بعد رکنیت کی منظوری ہوتی ہے۔

شنگھائی تعاونی کونسل بنیادی طور پر باہمی گفتگو کا پلیٹ فارم ہے چنانچہ سمر قند سربراہ کانفرنس کے دوران کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں۔حالیہ بیٹھک کا سب سے چشم کشا پہلو روسی صدر کا یہ انکشاف ہے جس میں جناب پیوٹن نے بتایا کہ  یوکرین پر  روسی حملے سے چین تشویش میں مبتلا ہے اور صدرژی جن پنگ نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے چین نے یوکرین جنگ کیلئےروس کو اسلحہ فراہم کرنے سے معذرت کرلی ہے۔

پاکستانی وزیراعظم کی روسی صدر سے ملاقات بہت اہم تھی۔ یہاں گفتگو غیر روائتی اور غیر رسمی ہوتی ہے اسلئے بات چیت کے مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوتا۔ شریف پیوٹن ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے پاکستان کے وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے بتایا کہ سمر قند میں روسی صدر سے ملاقات کے دوران جناب  شہباز شریف نے روسی تیل اور گندم خریدنے کی خواہش ظاہر کی ۔ خواجہ صاحب کے مطابق روسی صدر نے یوکرین جنگ میں پاکستان کی غیر جانبداری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ انکا ملک پاکستان سے تجارتی تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ ملاقات میں صدر پیوٹن نے پیشکش کی کہ اگر پاکستان چاہے تو روس، وسط ایشیا آنے والی گیس پائپ لائن کو افغانستان کے راستے پاکستان تک وسعت دینے کیلئے بھی تیار ہے۔ تاہم یہاں اہم سوال چچا سام کا مزاجِ نازک ہے۔پاکستان کی وزارت تجارت نے اس حوالے سے امکانی امریکی اعتراض کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ ہندوستان چارملکی بحری اتحاد QUADکا رکن ہونے کے باوجود روس سے گندم اور خام تیل خرید رہا ہے، لہذا واشنگٹن کو روس پاکستان تجارت پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے،  لیکن 'عالمی چودھری' کا کونسا مطالبہ منطقی ہے جو اس معاملے پر اس سے معقولیت کی توقع کی جائے۔ شہباز شریف نے  سمر قند میں قیام کے دوران حضرت امام بخاری کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی۔

ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی نے بھی صدر پیوٹن سے ملاقات کی۔ گفتگو کے اختتام پر شری مودی نے صحافیوں سے بس اتنا کہا کہ 'جنگ کا دور ختم ہوچکا'۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انکا یہ جملہ دراصل پاکستان اور چین کی طرف شاخِ زیتوں لہرانے کی ایک کوشش تھی۔ اب ہندوستان SCOکا سربراہ اور 2023 کے چوٹی اجلاس کا میزبان ہے چنانچہ مودی جی اپنے دونوں پڑوسیوں سے کشیدگی کم کرنے میں سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔لیکن سمرقند کانفرنس کے دوران ہندوستانی پردھان منتری کی اپنے پاکستانی ہم منصب اور چینی صدر سے ملاقات نہیں ہوئی۔پاکستانی وزارت خارجہ کے ذرایع نے بتایا کہ جب تک کشمیر ایجنڈے پر نہ ہو  بھارت سے بات چیت نہیں ہوگی۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ  ملکہ ایلزبیتھ کی آخری رسومات کے دوران بھی چوٹی ملاقات نہیں ہوگی اور اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر جب دو نوں وزرائے اعظم نیویارک میں موجود ہونگے، باہمی ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔

چینی صدر اور وزیراعظم نریندرا مودی کی سمر قند میں ملاقات نہیں ہوئی لیکن عسکری ماہرین نے مشرقی لداخ سے ہندوستانی اور چینی فوجی دستوں کے پیچھے ہٹنے کا انکشاف کیا ہے جسکا کسی بھی فریق کی جانب سے سرکاری اعلان  نہیں ہوا۔ باخبر ذرایع کے مطابق انسدادِ کشیدگی کی اس پیشرفت کا  آغاز  بھارت نے کیاہے  جو دلی کی جانب سے چین کیلئے  خیر سگالی کا اظہارہے۔

ترکی SCOکا ایک اہم شریکِ گفتگو ہے  اور اب انقرہ نے تنظیم کی رکنیت حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ حالیہ اجلاس میں ترک صدرطیب رجب ایردوان کو شرکت کی خصوص دعوت دی گئی تھی۔ ایسی ہی دعوت پر آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور انکے ترکمن ہم منصب سردار برہان الدینوف بھی شریک ہوئے۔

سمر قند اجلاس کے دوران ترک صٖدر نے چینی و روسی صدور اور ہندوستانی وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں۔ روس اور یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے ترک صدر کی سرگرمیاں شنگھائی تعاونی کونسل کے حالیہ سربراہی اجلاس کے دوران بھی جاری رہیں۔ترک صدر نے صدر پیوٹن اور انکے اتحادیوں ازبک، آذری، بیلارس اورایرانی صدر سے ناشتے پر ملاقات کی

گفتگو کے دوران صدر ایردوان نے کہا کہ وہ تنازعے کے پرامن حل کیلئے پر امید ہیں اور انھیں اس معاملے میں پر روس اور یوکرین دونوں کاتعاون حاصل ہے۔صدر پیوٹن نے امن کی کوششوں کیلئے صدر ایردوان کی کوششوں کی تعریف کی۔ انکا کہنا تھا کہ ترکیہ باوقار سفارتکاری سے یوکرینی غلے کی فراہمی بحال ہوچکی ہے اور جلد ہی روسی گندم کی ترسیل بھی شروع ہوجائیگی۔ روسی صدر نے غریب ملکوں سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی روسی غلے کی ترسیل شروع ہوئی روس تین لاکھ ٹن کھاد (fertilizers)مفت تقسیم کریگا اور امید ہے کہ ہمارے دوست ایردوان اس مقصد کیلئے بحراسود اور بحر روم کو پرامن جہاز رانی کیلئے کھلا رکھیں گے۔دنیا بھر کے امن پسند ترک صدر کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کامیابی کیلئے دعا گو ہیں لیکن مغرب کے دلوں میں چھپی آگ اب بھڑکتی نظر آرہی ہےبی بی سی پر صرف ایک دن کی سرخیاں ملاحظہ فرمائیں

ترکیہ دونوں طرف سے کھیل رہا ہے

اقتدار اور پیسے کی خواہش ۔۔ صدر ایردوان کانیا چہرہ سامنے آرہا ہے

کہنے کو نیٹو کا رکن ، عملا روس کا اتحادی ہے

ایک کوسٹ گارڈ کا بیٹا ترکیہ کا جھگڑالو صدر کیسے بنا؟

کچھ اسی قسم کی بات فرانس کے صدر بھی کہہ رہے ہیں ۔ انکو ڈر ہے کہ بحر روم پر باربدوس “قزاقوں” کا دور واپس آرہا ہے ۔ عثمانی بحریہ کے امیرالبحر خیرالدین باربروس اور انکے بھائی عروج باربروس “سمندرکےصلاح الدین ایوبی “ کہلاتے تھے جنھوں نے بحر ابیض (بحر روم)، بحر اسود اور بحیرہ بلقان پر ترکوں کی بالادستی کو ناقابل تسخیر بنادیا تھا۔ خوف کا یہ عالم کہ بحر اوقیانوس سے بحر روم میں داخل ہونے کیلئے یورپی جہاز آبنائے جبل الطارق پر کئی کئی دن ترک بحریہ کی اجازت کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے۔اطالوی اورفرانسیسی نصاب میں باربروس کو قزاقوں یا Piratesکے سرغنے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے

اس دوران ایک مضحکہ خیز بات بھی ہوئی اور وہ کچھ اسطرح کہ  وقت کی پابندی کے معاملے میں صدر پیوٹن ذرا غیر ذمہ دار مشہور ہیں اور کئی بار انکے مہمانوں کو انتطار کی زحمت اٹھانی پڑی ہے، تاہم سمر قند میں معاملہ الٹ ہوگیا۔ہندوستان کے وزیراعظم، ترکی، آذربائیجان اور کرغستان کے صدور وقت مقررہ سے کچھ دیر بعد جلوہ افروزہوئے۔روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے فوٹوگرافر نے مہمانوں کی خالی کرسیوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا اور انکے ناقدین نے ٹویٹر پر طنز و چٹکلوں کے ہلکے پھلکے تیر برسائے۔ مہمانوں کی تاخیر سے آمد پر صدر پیوٹن نے شگفتہ لہجے میں کہا کہ دوست دیر سے نہیں بلکہ شو قِ ملاقات میں ہم ذرا جلدی آگئے ہیں یعنی حسابِ دوستاں در دِل

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 ستمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 23 ستمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 23 ستمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 ستمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, September 15, 2022

برطانیہ، ملکہ کا انتقال، نئے فرمانروا ، نئی وزیراعظم

 

برطانیہ، ملکہ کا انتقال، نئے فرمانروا ، نئی وزیراعظم

گزشتہ ہفتے سلطنت اور حکومتِ برطانیہ میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ستر برس کی تخت نشینی کے بعد ملکہِ برطانیہ 8 ستمبر کو  اسکاٹ لینڈ کے شاہی بلمورل قلعے Balmoral Castleمیں انتقال گئیں۔ ایک سال پہلے اپنے شوہر شہزادہ فلپ کے انتقال کے بعد سے وہ تنہائی اور دباو کا شکار تھیں اور کچھ دنوں سے اتنی زیادہ بیمار تھیں کہ نئے وزیراعظم لز ٹرس کی وزارت عظمی کی توثیق کیلئے وہ لندن کے بکنگھم محل تک سفر نہ کرسکیں اور ملکہ کی دست بوسی کیلئے نومنتخب وزیراعظم کو بلمورل قلعہ آنا پڑا۔

اپریل 1926 میں جنم لینے والی ایلزبیتھ الیکزنڈرا المعروف ایلزبیتھ دوم اپنے والد جارج ششم کے انتقال پر 6 فروری 1952کو سلطنت برطانیہ برطانیہ کی فرمانروا مقرر ہوئیں۔تاہم برطانیہ کی شاہی روائت کے مطابق سوگ کے دن گزر جانے کے بعد انکی تاجپوشی 2 جون 1953کوہوئی

پیدائش کے وقت ایلزبیتھ کے دادا شاہ جارج پنجم نے انھیں اپنے بڑے بیٹے ایڈورڈ ہشتم  اور انکے بھائی جارج ششم (والد ملکہ ایلزبیتھ)کے بعد ولی عہد نامزد کیا۔ اسوقت خیال یہی تھا کہ ایلزبیتھ صاحبہ کی تخت نشینی بہت مشکل ہے کہ شادی کے بعد اگر شاہ ایڈورڑ اولادِ سے سرفراز ہوئے تو وہ اپنے  بھائی کے بعد  بیٹے  یا بیٹی کو ولی عہد نامزد کردینگے لیکن شاہِ شاہاں کے فیصلے کو کون ٹال سکاہے۔

دادا کے انتقال پر جب 1936میں انکے چچا ایڈورڈ ہشتم  نے تخت سنبھالا تب وہ اپنے باپ کے بعد تاج برطانیہ کیلئے دوسرے نمبر پر آگئیں۔ایڈورڈ صاحب کا ایک امریکی خاتون ولس سمپسن سے معاشقہ چل رہا تھا۔ تاجپوشی کے ساتھ ہی انھوں نے اس خاتون سے شادی کرنے کا اعلان کردیا جسکی وجہ سے وہ شاہی مراعات سے محروم کردئے گئے اور جارج ششم کی تاجپوشی کیساتھ ہی ملکہ صاحبہ ولی عہد نامزد ہوگئیں۔ شہزادی ایلزبیتھ  جب  25 برس کی عمر میں تخت نشین ہوئیں تو برطانیہ کی تاریخ کی تیسری ملکہ تھیں۔ اس سے پہلے  ایلزبیتھ اول 1558 سے 1603 اور محترمہ  وکٹوریہ 1837 سے 1901 تک تخت نشیں رہ چکی ہیں۔قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ ملکہ وکٹوریہ ہی کے دور میں ہندوستان سلطنت برطانیہ کا حصہ بنایا گیا اور  1876 سے 1901 تک انھیں ملکہ ہندوستان کا خطاب عطا ہوا۔ ملکہ وکٹوریہ کے انتقال پر علامہ اقبال نے انکا مرثیہ لکھا۔

حالیہ  تبدیلی میں کچھ تاریخی اتفاقات بھی ہوئے کہ برطانوی تاریخ کی تیسری ملکہ نے انتقال سے دودن پہلے ملکی تاریخ کی تیسری خاتون وزیراعظم کی توثیق کی۔ اس سے پہلے مارگریٹ تھیچر  اور تھریسا مے کی توثیق بھی آنجہانی ملکہ نے کی تھی۔ برطانیہ میں وزیراعظم کے حلف اٹھانے سے پہلے  فرمانروا کی توثیق ضروری ہے۔

ملکہ کے انتقال پر  انکے صاحبزادے 73سالہ چارلس فلپس آرتھر جارج المعروف چارلس سوم نے برطانیہ کی بادشاہت سنبھال لی ہے۔ بادشاہ سلامت کو چھ ماہ کی عمر میں ولی عہد نامزد کیا گیا تھا گویا شہزادہِ گلفام نے بہت صبر اور سعادتمندی سے 73 برس اپنی باری کا انتظار کیا اور اس اعتبار سے وہ  طو یل ترین عرصے تک ولی عہد کے منصب پر فائز رہے۔ اسکے مقابلے میں تینوں ملکہ بڑی کم عمری میں تخت نشیں ہوئیں۔ تاجپوشی کے وقت ملکہ ایلزبیتھ اول و دوم دونوں کی  عمر 25 سال تھی۔ جب ملکہ وکٹوریہ کے سر پر تاج سجایا گیا اسوقت انکی عمر 18 برس تھی۔ملکہ ایلزبیتھ کے انتقال پر پون صدی بعد سلطنتِ برطانیہ کو قومی و ملی نعرہ بھی تبدیل ہوگیا یعنی اب God saves the Queenکے بجائے God saves the Kingپکارا جائیگا۔

برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے لہذا تاجدار کی تبدیلی سے ملکی سیاست اور خارجہ امور پر کوئی فرق نہیں  پڑیگا۔ اسلئے اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف یعنی نئی وزیراعظم کا تقرر

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا 6 ستمبر کو حلف اٹھانے والی میری ایلزبیٹھ  ٹرس المعروف لز ٹرس برطانوی تاریخ کی 56 ویں اور تیسر ی خاتون وزیراعظم ہیں۔ سیینتالیس (47) سالہ لز ٹرس ان تینوں میں سب سے کم سن ہیں۔ وزارت عظمیٰ سنبھالتے وقت مارگریٹ تھیچر 54 اور محترمہ تھریسا مے 60 برس کی تھیں۔  اتفاق سے ان تینوں خواتین کا تعلق قدامت پسند ٹوری پارٹی ہے۔

مزے کی بات کہ ٹوری سے تعلق رکھنے کے باوجود لز ٹرس خود کو نظریاتی طور پر لبرل بلکہ بائیں بازو کی طرف مائل قراردیتی ہیں۔ لز صاحبہ نے ایک لبرل خاندان میں آنکھ کھولی ۔ انکے والد ریاضی کے پروفیسر اور والدہ نرس تھیں اور یہ دونوں بائیں بازو کے حامی تھے۔ انکی والدہ  تخفیف  اسلحہ  مہم کی سرگرم کارکن تھیں۔ جامعہ آکسفورد میں تعلیم کے دوان لز طلبہ سیاست میں سرگرم تھیں اور اس دوران انھوں نے لبرل ڈیموکریٹس کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ یہی نہیں بلکہ  لبرل  ڈیموکریٹس کے جلسوں میں وہ شاہی نظام کے خاتمے کے بات کرتی تھیں ، 1994 میں ہونے ایک کانفرنس کے دورران انھوں نے کہا  'سب کو موقع ملنا چاہے۔ میں یہ نہیں مانتی کہ کچھ لوگ حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔‘ 

 

لز ٹرس پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور انھوں نے کچھ عرصہ تیل کمپنی شیل میں ملازمت کی ہے۔ عملی سیاست میں داخلے کیلئے لبرل اور بائیں بازو کی طرف مائل لڑ ٹرس نے قدامت پسند ٹوری پارٹی کا انتخاب کیا۔ سیاست کے ابتدائی ایام انکے لئے مایوس کن ثابت ہوئے ،  2001 اور اسکے بعد 2005 کے انتخابات میں انھیں شکست ہوگئی لیکن جوانسال وحوصلہ مند لز ٹرس نے ہمت نہ ہاری۔ ایک سال بعد وہ Greenwich سے کونسلر اور 2010 میں ٹوری پارٹی کی ٹکٹ پر رکن پارلیمان منتخب ہوگئیں۔انتخابی مہم کے دوران ایک رکن پارلیمان سے انکے معاشقے کا انکشاف بھی ہوا لیکن انکے شریک حیات ڈٹ کر انکے دفاع کو آئے اور انھوں نے اپنے مخالف کو 13ہزار ووٹوں سے شکست دیدی۔   

اس کامیابی کے صرف دوسال بعد انھیں  نائب وزیر تعلیم کی ذمہ داری سونپی گئی اور   2014 میں  وہ وزیر (سیکرٹری)  ماحولیات مقرر ہوئیں۔ دوسال بعد انھیں وزیرانصاف اور 2021 میں انھیں وزارت خارجہ کا قلمدان عطا ہوا۔ اسی دوران وزیراعظم بورس جا نسن کیخلاف کروناپابندیوں کی خلاف ورزی کے کئی واقعات سامنے آئے اور ثبوت اس قدر واضح تھے کہ انھیں اعتراف کرنا پڑا۔ بورس جانسن ٹوری پارٹی میں عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن عوامی دباو نے انھیں سبکدوشی پر مجبور کردیا۔

 وزیراعظم جانسن کے اس اعلان پر لز ٹرس نے وزارت عظمیٰ کیلئے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں انھیں سات دوسرے امیدواروں کا سامنا تھا۔آخری مرحلے میں انکا مقابلہ وزیرخزانہ رشی سونک سے ہوا۔ بیالیس برس کے رشی ہند نژاد اور راسخ العقیدہ ہندو ہیں۔ انکے والد کینیا سے انگلستان تشریف لائے جبکہ  والدہ محترمہ تنزانیہ سے آئی تھیں۔

برطانیہ کی ٹوری پارٹی میں وزیراعظم کے انتخاب کا حتمی فیصلہ جماعت کے اجتماع ارکان میں ہوتا ہے اور صرف انھیں ارکان کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے جو اپنے واجبات وقت پر ادا کرچکے ہیں۔ اسوقت پارٹی کے ایسے ارکان کی تعداد 18000 ہے۔ براہ راست مقابلے میں لزٹرس نے 57 فیصد ووٹ حاصل کرکے وزارت عظمیٰ اپنے نام کرلی۔ چناومیں ووٹ ڈالنے کا تناسب 83 فیصد کے قریب تھا

لز ٹرس کا سیاسی ماضی یو ٹرن U-Turnsسے عبارت ہے۔ دور طالب علمی میں وہ  مزدور انجمنوں کی حامی اور شہنشاہیت کی سخت مخالف تھیں لیکن عملی سیاست کیلئے انھوں نے قدامت پسند ٹوری پارٹی کا انتخاب کیا۔ جامعہ میں 'سرخ سویرا' کا نعرہ لگانیوالی لز ٹرس نے ٹوری کے ٹکٹ پر رکنِ پارلیمان منتخب ہونے کے بعد اپنے چار قدامت پسند ارکانِ پارلیمان کے ساتھ مل کر Britannia Unchained کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں اور باتوں کے علاوہ برطانوی  مزدوروں کو 'دنیا کے بدترین کاہلوں میں سے ایک' بیان کیا گیا۔مزدرو انجمنوں کے احتجاج پر لز ٹرس صاحبہ نے اس سطر سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ انکے الفاظ نہیں۔  

بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر لز ٹرس کی قلابازی بڑی دلچسپ تھی۔لز ٹرس نے یورپی یونین میں رہنے یعنی بریکزٹ کے خلاف  مہم چلائی۔ مشہور اخبار روزنامہ 'سن' میں انہوں نے لکھا کہ 'بریگزٹ برطانیہ کے حق میں نہیں۔ اسکے نتیجے میں یورپ کو اشیا فروخت کرتے وقت مزید قواعد، مزید مشکلات اور  تاخیر کا سامنا ہو گا'۔ لیکن جب ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے بریکزٹ قبول کرلیا تو لز ٹرس نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر فرمایا ’بریگزٹ نے ہمارے انداز فکر کو تبدیل کردیا ہے اور اب ہم  معاملات کو نئے انداز میں دیکھ رہے ہیں ۔‘

محترمہ لز ٹرس کے ناقدین کا خیال ہے کہ موصوفہ کو اپنی زبان پر قابو نہیں اور وہ حساس موضوعات پر باتیں کرتے ہوئے الفاظ کے چناو میں بے احتیاطی کرجاتی ہیں۔ فرانسیسی صدر کی ان پر تنقید کے  بعد جب  محترمہ سے پوچھا گیا کہ '(صدر) میکراں ہمارے دوست ہیں یا دشمن'  تو انھوں نے برا سا منہہ بناتے ہوئے کہا کہ 'وقت فیصلہ کریگا' ۔ اسکاٹ لینڈ کی وزیرِاول (وزیراعلیٰ) محترمہ نکولا سٹرجن Nicola Sturgeon اپنے صوبے کی برطانیہ سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کی خواہشمند ہیں۔ایک صحافی نے جب  لز ٹرس سے اس بارے میں سوال کیا تو وزیراعظم صاحبہ نے نخوت سے کہا  'سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر  توجہ کی بھوکی فرد ہیں، جنھیں  نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔‘

نئی برطانوی وزیراعظم کی تلون مزاجی اور غیر محتاط گفتگو  اپنی جگہ لیکن انکی اصل آزمائش دباو کا شکار برطانوی معیشت ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ کساد بازاری کا یہی حال رہا تو حجم کے اعتبار سے برطانوی معیشت ہندوستان سے پیچھے ہو جائیگی۔

بریکزٹ کی وجہ سے برطانوی برآمدکنندگان کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور معاملہ صرف یورپی یونین تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک سے تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کا اعصاب شکن مرحلہ درپیش ہے۔ اسلئے کہ تجارت یورپی یونین معاہدے کے تحت ہورہی تھی اور یہ معاہدات اب عملاً غیر موثر ہوگئے ہیں۔کرونا سے پہنچنے والے نقصان کا ماتم ابھی جاری تھا کہ روس یوکرین جنگ نے ایک نیا بحران پیداکردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق توانائی چھ گنا مہنگی ہوچکی ہے۔ تجارتی معاہدوں کی پریشانی اپنی جگہ،  توانائی مہنگی ہونے کی وجہ سے مصنوعات کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے نتیجے کے طور پر برآمدات میں کمی واقع ہورہی ہے۔

وزارت عظمیٰ کی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے مہنگائی کو اپنا اولین ہدف قراردیا تھا۔ اسکے حل کیلئے محترمہ نے ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کے وعدے کے ساتھ بہت سختی کیساتھ صاف صاف کہا کہ  'وہ غیر ضروری رعایتوں پر یقین نہیں رکھتیں'۔ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے حکومتی اخراجات کو بڑھانے کے حق میں بھی نہیں۔  

انکے ٓمخالفین سوشل میڈیا پر پوچھ رہے ہیں کہ انکے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے جسکے ذریعے وہ  رعائت (سبسڈی) اور تنخواہوں میں اضافے کے بغیر مہنگائی کے مارے عوام کو راحت عطا فرمائینگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 ستمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 16 ستمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 16 ستمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 ستمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, September 8, 2022

چین کے ویغور مسلمان ۔۔ انسانیت سوز برتاوکا شکار

 

چین کے ویغور  مسلمان ۔۔ انسانیت سوز برتاوکا شکار

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر کی  رپورٹ

گزشتہ ہفتےاقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر محترمہ  مِشل بیچلیٹ نے  سنکیانک کے بارے میں رپورٹ جاری کر دی،  جس  کے  مطابق چینی صوبے سنکیانگ (مقامی تلفظ شنجاک)  میں  ویغور مسلمانوں سے جو سلوک ہورہا ہے اسےانسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

مِشل بیچلیٹ  کہتی ہیں

  • سنکیانگ میں ویغور اقلیت کے خلاف  2017 سے 2019 کے درمیان چینی حکومت نے پکڑ دھکڑ شروع کی تھی جس کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مہم کا نام دیا گیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے ہمیں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بین الاقوامی قانون کے تحت خدشات کو جنم دیتی ہیں۔
  • ویغوروں  کے انفرادی اور اجتماعی حقوق سلب کرلئے گئے ہیں
  • سنکیانگ کے 10 لاکھ ویغور افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے
  • ویغوروں اور قازق مسلمانوں سے ہونے والی بدسلوکی میں  تشدد، جبری نس بندی، جنسی استحصال اور ماں باپ سے بچوں کی علیحدگی شامل ہے
  • مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی کی جاتی ہے جسکا مقصد اسلامی شناخت کو تباہ کرنا ہے۔

رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ’ہیومن رائٹس واچ چائنا‘ کی ڈائرکٹر سوفی رچرڈسن نے کہا کہ اس رپورٹ سے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو اس رپورٹ کی روشنی میں انسانیت کے خلاف جرائم کی جامع تحقیقات کرواکے ذمہ دار افراد کو جواب دہ ٹھیرانا چاہیے۔
دوسری طرف چین نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں چین کے مندوب ژانگ جن (Zhang Jun) نے کہا کہ سنکیانگ کے من گھڑت مسئلے کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں، جن کا مقصد چین کے استحکام کو نقصان پہنچانا اور اس کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ چینی مندوب نے اپنی حکومت کا یہ موقف دہرایا کہ امریکہ جنہیں حراستی کمپاؤنڈ قرار دے رہا ہے وہ دراصل پیشہ ورانہ تعلیم کے مراکز ہیں، جن کا مقصد وہاں زیر تربیت لوگوں کے انتہا پسندانہ نظریات کی درستگی اور دہشت گردی کا انسداد کرنا ہے۔

ایک سال قبل لندن کے آزاد بین الاقوامی ٹریبونل نے بھی چینی حکومت کو سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں اور دوسری لسانی اقلیتوں کی نسل کشی، بہیمانہ تشدد اور بدسلوکی کا مرتکب قرار دیا تھا۔ تحقیقات کے دوران ایغور متاثرین سمیت 30 گواہ پیش ہوئے جن میں عالمی شہرت یافتہ وکیل اور دانشور شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے بیانات کے حق میں ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے تھے۔

ٹریبونل کے سربراہ سر جیفری نائس نے ستمبر 2021 میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت ایغوروں کی آبادی کم کرنے کے لیے جبری بانجھ پن کے گھناونے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں موصول ہونے والے تمام شواہد مستند اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ظلم و ستم کی یہ کارروائی وفاقی حکومت کے ایما اور حکم پر ہو رہی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایغور مسلمانوں کو غیر انسانی اور ناقابل بیان تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بائیس مربع میٹر کی کھولیوں میں 15 افراد ٹھنسے ہوئے ہیں جو سخت سردی میں گرم کپڑوں اور کمبل کے بغیر کنکریٹ کے فرش پر سلائے جا رہے ہیں۔

ستمبر 2020 میں قائم ہونے والے اس ٹریبونل کو کسی حکومت کی مدد یا سرپرستی حاصل نہیں تھی اور اس کے اخراجات دنیا بھر کی غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد NGO Coalition for Genocide Responseنے اداکیے تھے۔ ٹریبونل اس وقت قائم کیا گیا جب عالمی عدالت انصاف یا ICJ نے اس معاملے کی تحقیق کا یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ چین ICJ کا رکن نہیں ہے۔ عالمی عدالت انصاف اس اعتبار سے ایک مہمل و مفلوج ادارہ ہے جسے افغانستان میں اسے امریکی فوج کی مبینہ زیادتیوں کی تحقیق سے روک دیا گیا ۔ غزہ اور فلسطین میں اسرائیلی فوج کی مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیق کا عدالت نے وعدہ کیا لیکن اب تک سماعت کا آغاز تک نہیں ہوا۔ عدالت کی طرف سے نوٹس جاری ہوتے ہی امریکہ کی نائب صدر کملا دیوی ہیرس نے اسرائیلی وزیر اعظم کو فون کر کے یقین دلایا کہ امریکہ عالمی عدالت کو اسرائیل کے اندرونی معاملے میں مداخلت اور دہشت گردوں کو معصومیت کی سند عطا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

ستم ظریفی کہ کملا جی کی انتظامیہ اپنے سیاسی مخالف ڈونالڈ ٹرمپ پر الزام لگارہی ہے کہ سابق صدر اپنے عہدِ صدارت کی تکمیل پر اہم دستاویزات دفتر سےاٹھا کر لے گئے جن میں سے کئی 6 جنوری 2021 کو انتخابی ووٹوں کی گنتی کے دوران کانگریس (امریکی پارلیمنٹ) پر حملے کے متعلق تھیں۔ بائیڈن انتظامیہ اس حملے کو امریکی آئین کے خلاف مسلح بغاوت یا Coup قرار دے رہی ہے۔ امریکی محکمہ انصاف کا خیال ہے کہ دستاویز ’چرانے‘ کا مقصد بغاوت کے ذمہ داروں کومحاسبے سے بچانا ہے چنانچہ سابق امریکی صدر پر فراہمیِ انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا مقدمہ دائر کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں بائیڈن سرکار کی منطق کو درست مان لیا جائے تو ڈراونے ڈرون اور تاریخ کے سب بڑے غیر جوہری بم سے رزق خاک بننے والے معصوم افغانوں، غزہ کے نہتے شہریوں پر بمباری، مغربی کنارے کے شہروں اور دیہاتوں میں ہدف بنا کر فلسطینی نوجوانوں کے شکار کی تحقیق سے عالمی عدالت انصاف کو روکنا بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان الزامات پر صدر بائیڈن اور اسرائیلی قیادت کے خلاف عالمی عدالت انصاف کو از خود نوٹس لینا چاہیے۔

افغانستان اور فلسطین کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کے ہٹ دھرمی پر مبنی موقف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی حکومت نے تحقیقات میں تعاون سے انکار کرتے ہوئے سر جیفری نائس سمیت ٹربیونل کے ارکان پر سفری پابندیاں عائد کردی تھیں۔ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ٹربیونل چین کے خلاف سفید جھوٹ کا پرچار کر رہا ہے۔
گزشتہ برس اپریل میں برطانوی پارلیمان بھی ایک قرارداد منظور کر چکی ہے، جس میں ایغور مسلمانوں سے بدسلوکی کو نسل کُشی قرار دیا گیا تھا۔ تجویز کنندہ کشمیری نژاد قدامت پسند رکن پارلیمان نصرت منیر الغنی نے کہا کہ ایغور خواتین کو بانجھ بنایا جا رہا ہے۔ چینی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق 2014 میں ایک سال کے دوران دو لاکھ خواتین کی نسوانی نس بندی کی گئی اور اب اس آپریشن میں 60 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ نصرت غنی نے کہا کہ جبری نس بندی نسل کشی کی بدترین شکل ہے۔ ایسی ہی قرارداد اس سے پہلے کینیڈا کی پارلیمان بھی منظور کر چکی ہے۔

لندن ٹربیونل کے فیصلے اور برطانوی اور کینیڈا کی پارلیمان کے قراردادوں پر چین نے اس شان سے کان دھرا کہ سر جیفری نائس سمیت ٹربیونل کے ارکان پر سفری پابندیاں عائد کردی گئیں۔ کچھ ایسا ہی سلوک نصرت غنی کے ساتھ بھی کیا گیا۔اس سے پہلے جنوری 2021 میں امریکی پارلیمان کے ایگزیکیوٹیو کمیشن برائے چین (CECC) نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانک سے ملنے والے نئے شواہد کی بناپر ایغوروں کی نسل کشی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ یہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن امریکی وزارت تجارت، وزارت خارجہ اور وزارت محنت کے ایک ایک سینئر رکن کے علاوہ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے 9 اور 9 سینیٹروں پر مشتمل ہے۔

مسلمانوں سے برے سلوک کی چین کی طرف سے تردید پر تعجب کی کوئی بات نہیں۔ دوسری جانب مغربی ممالک  بھی ایغور مسلمانوں کی حالتِ زار کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایغوروں کو سب سے زیادہ افسوس اور مایوسی مسلمان ممالک کی بے حسی پر ہے۔ چین سے اچھے تعلقات کی توقع پر مسلمان ممالک ایغوروں کی حالتِ زار پر گفتگو نہیں کرتے۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی 57 اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں نہ صرف اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا بلکہ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اس اعلیٰ سطحی کانفرنس میں بطور خاص شرکت کی۔ مارچ میں ہونے والی اس کانفرنس کا افتتاح سابق وزیر اعظم عمران خان نے کیا تھا اور کپتان نے بھی اس موضوع پر گفتگو سے گریز کیا تھا۔

ایغوروں کی کسی حد تک حمایت ترکیہ کر رہا ہے۔ اسلام آباد وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھی صرف ترک وزیر خارجہ میلوت چاوش اوغلو نے اس مسئلے کو اٹھایا۔ جولائی میں چین ترک پارلیمانی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترکیہ کے اسپیکر مصطفےٰ شینتوپ نے کہا ہم چین سے دوستی اور تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں لیکن ایغوروں کے معاملے سے بھی لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ترک رہنما کا کہنا تھا کہ ایغوروں سے ہمارا گہرا سماجی، اخلاقی اور دینی تعلق ہے جسے کسی بھی صورت پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ ترکیہ چین سے سیاسی و تجارتی تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے لیکن ایغوروں کے معاملے میں ہمارا موقف بہت دوٹوک، واضح اور مبنی بر انصاف ہے۔ سمعی و بصری رابطے پر ہونے والی اس بیٹھک میں مصطفےٰ صاحب کی تقریر کے بعد چینی وفد کے قائد نیشنل پیپلز کانگریس (قومی اسمبلی) کے سربراہ لی زانشو (Li Zhanshu) نے کہا کہ ترک چین تعلقات کی بنیاد صاف گوئی، بے تکلفی شفافیت اور باہمی احترام پر ہے۔ ہم ہر معاملے پر اپنے ترک دوستوں سے رابطے میں ہیں۔ چین انسانی حقوق کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس حوالے سے ہمارے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

بیجنگ نے کئی بار ’تربیتی کیمپوں‘ کا دبے لفظوں اور مبہم انداز میں اعتراف بھی کیا ہے۔ ان اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک بار لکھا ’کچھ اقدامات تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن ان سخت اقدامات ہی کی وجہ سے یہ خطہ ’شام‘ یا ’لیبیا‘ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت دنیا کے 18 مسلم ممالک نے چین کے اس موقف کی بھر پور حمایت اور ذہنی تربیت کے ذریعے شدت پسندی کے علاج کو قابل تحسین قرار دیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 ستمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی  9 ستمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 9 ستمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 9 ستمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت 11 ستمبر 2022